ہم ”ثابتقدمی کے ساتھ پھل“ کیسے لا سکتے ہیں؟
”کچھ بیج اچھی زمین پر گِرے۔ اِس کا مطلب ہے کہ کچھ لوگ کلام کو سنتے ہیں اور . . . ثابتقدمی کے ساتھ پھل لاتے ہیں۔“—لُوقا 8:15۔
1، 2. (الف) ہمیں اُن بہن بھائیوں کی مثال سے حوصلہ کیوں ملتا ہے جو ایسے علاقوں میں مُنادی کرتے رہتے ہیں جہاں زیادہتر لوگ اُن کا پیغام نہیں سنتے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔) (ب) یسوع مسیح نے ”اپنے علاقے“ کے لوگوں کو مُنادی کرنے کے حوالے سے کیا بتایا؟ (فٹنوٹ کو دیکھیں۔)
سرجیو اور اولنڈا امریکہ میں رہنے والا ایک پہلکار جوڑا ہے۔ اُن دونوں کی عمر 80 سال سے زیادہ ہے۔ حال ہی میں اُن کی ٹانگوں میں بہت درد رہنے لگا ہے اور اُن کے لیے چلنا دشوار ہو گیا ہے۔ پھر بھی اُنہوں نے اپنے سالوں پُرانے معمول کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ وہ صبح 7 بجے پیدل چل کر اپنے قصبے کے ایک مصروف عوامی چوک میں جاتے ہیں۔ وہ ایک بس سٹاپ کے قریب رُک جاتے ہیں اور آنے جانے والوں کو ہماری مطبوعات پیش کرتے ہیں۔ زیادہتر لوگ اُنہیں نظرانداز کر کے گزر جاتے ہیں لیکن وہ دونوں اُن لوگوں کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہیں جو اُنہیں دیکھتے ہیں۔ دوپہر کے وقت وہ آہستہ آہستہ اپنے گھر کی طرف چل دیتے ہیں۔ اگلی صبح 7 بجے وہ دوبارہ بس سٹاپ پر پہنچ جاتے ہیں۔ وہ پورا سال ہفتے میں چھ دن ایسا ہی کرتے ہیں۔
2 سرجیو اور اولنڈا کی طرح ہمارے بہت سے اَور بہن بھائی بھی کئی سال سے اپنے علاقے میں مُنادی کا کام کر رہے ہیں حالانکہ اُن کے علاقے کے زیادہتر لوگ اُن کا پیغام نہیں سنتے۔ شاید آپ بھی اُن بہن بھائیوں میں سے ایک ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ہم آپ کو داد دیتے ہیں کیونکہ آپ ثابتقدمی سے مُنادی کا کام کر رہے ہیں حالانکہ ایسا کرنا آسان نہیں ہے۔a آپ کی مثال سے بہت سے بہن بھائیوں کو حوصلہ ملتا ہے، یہاں تک کہ اُن کو بھی جو کئی سال سے خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔ جو بہن بھائی ایسے علاقوں میں مُنادی کرتے ہیں جن میں بہت کم لوگ بائبل کے پیغام میں دلچسپی لیتے ہیں، اُن کے بارے میں کچھ حلقے کے نگہبانوں کے بیانات پر غور کریں: ”جب مَیں ایسے وفادار بہن بھائیوں کے ساتھ مُنادی کرتا ہوں تو مَیں جوش سے بھر جاتا ہوں۔“ ”اُن کی وفاداری کو دیکھ کر مجھے بھی ثابتقدم رہنے اور دلیری سے مُنادی کا کام کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔“ ”اُن کی مثال میرے دل کو چُھو لیتی ہے۔“
3. ہم کن تین سوالوں پر غور کریں گے اور کیوں؟
3 اِس مضمون میں ہم تین سوالوں پر غور کریں گے: ہم کبھی کبھار بےحوصلہ کیوں ہو سکتے ہیں؟ اِس بات کا کیا مطلب ہے کہ ہم پھل لائیں؟ ہم ثابتقدمی کے ساتھ پھل لانے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟ اِن سوالوں کے جواب حاصل کرنے سے ہم ہمت ہارے بغیر مُنادی کا کام کر پائیں گے جسے کرنے کا حکم یسوع مسیح نے دیا تھا۔
ہم کبھی کبھار بےحوصلہ کیوں ہو سکتے ہیں؟
4. (الف) جب زیادہتر یہودیوں نے پولُس کے پیغام کے لیے منفی ردِعمل دِکھایا تو اُنہوں نے کیسا محسوس کِیا؟ (ب) پولُس کو ایسا کیوں محسوس ہوا؟
4 کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ یہ دیکھ کر بےحوصلہ ہو گئے ہوں کہ آپ کے علاقے کے لوگ بادشاہت کے پیغام میں دلچسپی نہیں لیتے؟ اگر ایسا ہوا ہے تو آپ کے احساسات بھی پولُس رسول جیسے ہوں گے۔ اُنہوں نے تقریباً 30 سال تک مُنادی کا کام کِیا اور کئی لوگوں کی مسیحی بننے میں مدد کی۔ (اعمال 14:21؛ 2-کُرنتھیوں 3:2، 3) لیکن یہودیوں میں ایسے بہت کم لوگ تھے جو اُن کے پیغام کو سُن کر مسیحی بنے۔ اِس کی بجائے اُن میں سے زیادہتر نے پولُس کے پیغام کو رد کر دیا اور کچھ نے تو اُنہیں اذیت تک پہنچائی۔ (اعمال 14:19؛ 17:1، 4، 5، 13) یہودیوں کے ایسے ردِعمل کا پولُس پر کیا اثر ہوا؟ اُنہوں نے کہا: ”مَیں سخت پریشان ہوں اور میرا دل بہت دُکھی ہے۔“ (رومیوں 9:1-3) دراصل پولُس کو مُنادی کے کام سے بڑا لگاؤ تھا اور وہ یہودیوں کی فکر کرتے تھے۔ اِس لیے اُنہیں یہ دیکھ کر دُکھ ہوتا تھا کہ وہ لوگ خدا کی رحمت کو ٹھکرا رہے ہیں۔
5. (الف) ہمیں مُنادی کرنے کی ترغیب کیوں ملتی ہے؟ (ب) یہ حیرانی کی بات کیوں نہیں ہے کہ ہم کبھی کبھار بےحوصلہ ہو جاتے ہیں؟
5 پولُس کی طرح ہم بھی لوگوں کو اِس لیے مُنادی کرتے ہیں کیونکہ ہمیں اُن کی فکر ہے اور ہم اُن کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ (متی 22:39؛ 1-کُرنتھیوں 11:1) ہم نے اپنی زندگی میں اِس بات کا تجربہ کِیا ہے کہ یہوواہ کی خدمت کرنے سے اچھا کام کوئی اَور نہیں ہو سکتا۔ اور ہم یہ سمجھنے میں لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں کہ خدا کے حکموں پر عمل کرنے سے اُن کی زندگی بھی سنور سکتی ہے۔ اِسی لیے ہم اُن کی حوصلہافزائی کرتے رہتے ہیں کہ وہ یہوواہ خدا اور اِنسانوں کے سلسلے میں اُس کے مقصد کے بارے میں سچائی سیکھیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم اُن کے پاس کوئی خوبصورت تحفہ لے کر جاتے ہیں اور اُن کی مِنت کرتے ہیں: ”مہربانی سے اِس تحفے کو قبول کر لیں۔“ مگر جب وہ اِس تحفے کو ٹھکرا دیتے ہیں تو پولُس کی طرح ہمارا بھی ”دل بہت دُکھی“ ہو جاتا ہے۔ ہمیں یہ تکلیف اِس لیے محسوس نہیں ہوتی کیونکہ ہم میں ایمان کی کمی ہے بلکہ اِس لیے کیونکہ ہم لوگوں سے پیار کرتے ہیں۔ لہٰذا ہم اُس وقت بھی مُنادی کا کام جاری رکھتے ہیں جب ہم بےحوصلہ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے احساسات بھی ایلنا جیسے ہیں جنہیں پہلکار کے طور پر خدمت کرتے ہوئے 25 سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں: ”سچ ہے کہ مجھے مُنادی کا کام کرنا مشکل لگتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مجھے اِس کام سے زیادہ مزہ کسی اَور کام میں نہیں آتا۔“
پھل لانے کا کیا مطلب ہے؟
6. اب ہم کس سوال پر غور کریں گے؟
6 ہم اِس بات کا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ چاہے ہم جہاں بھی مُنادی کا کام کریں، ہم پھل لا سکتے ہیں؟ اِس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے آئیں، یسوع مسیح کی بیانکردہ دو مثالوں پر بات کریں جن کے ذریعے اُنہوں نے ’پھل لانے‘ کی اہمیت کو واضح کِیا۔ (متی 13:23) پہلی مثال انگور کی بیل کی ہے۔
7. (الف) یسوع مسیح نے جو مثال دی، اُس میں ”انگور کی بیل،“ ”شاخیں“ اور ”کاشتکار“ کس کی طرف اِشارہ کرتا ہے؟ (ب) ہمیں کس سوال کا جواب حاصل کرنے کی ضرورت ہے؟
7 یوحنا 15:1-5، 8 کو پڑھیں۔ اِس مثال میں یسوع نے بتایا کہ ”انگور کی بیل“ وہ خود ہیں، ”شاخیں“ اُن کے شاگرد ہیں اور ”کاشتکار“ یہوواہ خدا ہے۔b پھر یسوع نے اپنے رسولوں سے کہا: ”میرے باپ کی بڑائی اِسی سے ہوتی ہے کہ آپ بہت پھل لائیں اور خود کو میرے شاگرد ثابت کریں۔“ پھل لانے کا کیا مطلب ہے؟ یسوع نے اِس مثال میں واضح طور پر نہیں بتایا کہ پھل لانے سے کیا مُراد ہے۔ لیکن اُنہوں نے ایک اِشارہ دیا جس سے ہم اِس سوال کا جواب حاصل کر سکتے ہیں۔
8. (الف) یسوع مسیح نے جو مثال دی، اُس میں ’پھل لانے‘ کا مطلب نئے شاگرد بنانا کیوں نہیں ہو سکتا؟ (ب) یہوواہ ہم سے کیسے کاموں کی توقع رکھتا ہے؟
8 یسوع مسیح نے اپنے باپ کے بارے میں کہا: ”وہ میری ہر اُس شاخ کو کاٹ ڈالتا ہے جو پھل نہیں لاتی۔“ دوسرے لفظوں میں کہیں تو ہم یہوواہ کے بندے اُسی صورت میں بن سکتے ہیں جب ہم پھل لاتے ہیں۔ (متی 13:23؛ 21:43) لہٰذا اِس مثال میں پھل لانے کا مطلب نئے شاگرد بنانا نہیں ہو سکتا۔ (متی 28:19) ہم نے شروع میں اِس بات پر غور کِیا تھا کہ ہمارے کچھ بہن بھائی ایسے علاقوں میں مُنادی کا کام جاری رکھتے ہیں جہاں زیادہتر لوگ ہمارے پیغام میں دلچسپی نہیں لیتے۔ اِس وجہ سے اُن میں سے بعض کسی کو بھی یسوع کا شاگرد نہیں بنا پاتے۔ اگر پھل لانے کا مطلب نئے شاگرد بنانا ہوتا تو ایسے بہن بھائی اُن شاخوں کی طرح ہوتے جو پھل نہیں لاتیں اور جنہیں کاٹ دیا جانا چاہیے۔ لیکن یہوواہ اپنے بندوں کے ساتھ ایسا کبھی نہیں کر سکتا۔ وہ جانتا ہے کہ ہم لوگوں کو مسیح کا شاگرد بننے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہمیں کبھی کوئی ایسا کام کرنے کو نہیں کہتا جو ہم نہیں کر سکتے۔ وہ ہم سے صرف ایسے کاموں کی توقع کرتا ہے جنہیں کرنا ہمارے بس میں ہے۔—اِستثنا 30:11-14۔
9. (الف) ہم پھل کیسے لاتے ہیں؟ (ب) اب ہم کس مثال پر غور کریں گے؟
9 تو پھر پھل لانے کا کیا مطلب ہے؟ بِلاشُبہ اِس کا مطلب کوئی ایسا کام کرنا ہے جو ہم سب کر سکتے ہیں۔ یہوواہ نے ہم سب کو کون سا کام دیا ہے؟ یہ کام دوسروں کو بادشاہت کی خوشخبری کی مُنادی کرنا ہے۔c (متی 24:14) یسوع مسیح نے ایک اَور مثال دی جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پھل لانے کا کیا مطلب ہے۔ یہ مثال ایک کسان کی ہے جو بیج بوتا ہے۔
10. (الف) یسوع مسیح نے جو مثال دی، اُس میں بیج اور زمین کس کی طرف اِشارہ کرتی ہے؟ (ب) گندم کے پودے سے کیا پیدا ہوتا ہے؟
10 لُوقا 8:5-8، 11-15 کو پڑھیں۔ اِس مثال میں یسوع نے بتایا کہ بیج ”خدا کا کلام“ یعنی خدا کی بادشاہت کے بارے میں پیغام ہے۔ زمین ایک شخص کے دل کی طرف اِشارہ کرتی ہے۔ جو بیج اچھی زمین پر گِرا، اُس نے جڑیں پکڑیں اور پودا بن گیا۔ پھر یہ پودا ”سو گُنا پھل“ لایا۔ فرض کریں کہ یہ پودا گندم کا تھا۔ گندم کے پودے سے جو پھل پیدا ہوگا، کیا وہ گندم کے نئے پودے ہوں گے؟ جی نہیں۔ اِس سے بیج نکلیں گے جو بڑے ہو کر گندم کے پودے بن جائیں گے۔ اِس مثال میں ایک بیج سے سو اَور بیج پیدا ہوئے۔ لیکن اِس بات کا ہمارے مُنادی کے کام سے کیا تعلق ہے؟
11. (الف) کسان کی مثال سے ہم مُنادی کے کام کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟ (ب) ہم نئے بیج کیسے پیدا کرتے ہیں؟
11 جب ہمارے والدین یا کسی اَور یہوواہ کے گواہ نے ہمیں پہلی بار خدا کی بادشاہت کے بارے میں بتایا تو یہ ایسے ہی تھا جیسے اُنہوں نے اچھی زمین میں بیج بو دیا۔ اُنہیں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ ہم نے خدا کے کلام کو قبول کر لیا۔ پھر وہ بیج بڑھتا رہا اور آخرکار پھل لانے کے لیے تیار ہو گیا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ گندم کے پودے سے نئے پودے نہیں بلکہ نئے بیج پیدا ہوتے ہیں۔ اِسی طرح ہمارے پھل لانے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نئے شاگرد بناتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم نئے بیج پیدا کرتے ہیں۔d ہم ایسا کیسے کرتے ہیں؟ جب بھی ہم دوسروں کو خدا کی بادشاہت کے بارے میں بتاتے ہیں تو ہم اُن کے دل میں ویسا ہی بیج بوتے ہیں جیسا ہمارے دل میں بویا گیا تھا۔ (لُوقا 6:45؛ 8:1) لہٰذا جب تک ہم خدا کی بادشاہت کی مُنادی کرتے رہتے ہیں تب تک ہم ”ثابتقدمی کے ساتھ پھل لاتے ہیں۔“
12. (الف) ہم انگور کی بیل اور کسان کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟ (ب) یسوع نے جو دو مثالیں دیں، اُن پر غور کرنے سے آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے؟
12 ہم انگور کی بیل اور کسان کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟ ہم یہ سیکھتے ہیں کہ ’پھل لانے‘ کا اِنحصار اِس بات پر نہیں کہ لوگ ہمارے پیغام کو سنیں۔ اِس کی بجائے اِس کا اِنحصار اِس بات پر ہے کہ ہم مُنادی کا کام جاری رکھیں۔ اِس حوالے سے پولُس رسول نے واضح کِیا کہ ہر شخص کو ”اپنی اپنی محنت کے مطابق اجر ملے گا۔“ (1-کُرنتھیوں 3:8) یہوواہ ہمیں اِس بات کے لیے اجر دے گا کہ ہم نے محنت سے کام کِیا ہے نہ کہ اِس بات کے لیے کہ ہمارے کام کا نتیجہ کتنا اچھا نکلا ہے۔ میٹلڈا جو کہ 20 سال سے پہلکار ہیں، کہتی ہیں: ”مجھے اِس بات سے بڑی خوشی ملتی ہے کہ جب ہم محنت سے کام کرتے ہیں تو یہوواہ اِس پر برکت ڈالتا ہے۔“
”ثابتقدمی کے ساتھ پھل“ کیسے لائیں؟
13، 14. رومیوں 10:1، 2 کے مطابق پولُس نے مُنادی کا کام کرنا بند کیوں نہیں کِیا؟
13 ہم ”ثابتقدمی کے ساتھ پھل“ لانے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟ آئیں، دوبارہ سے پولُس کی مثال پر غور کریں۔ ہم نے دیکھا کہ پولُس اُس وقت بےحوصلہ ہو گئے جب یہودیوں نے خدا کی بادشاہت کے پیغام کو ٹھکرا دیا۔ لیکن پولُس نے مُنادی کرنا بند نہیں کی۔ اُنہوں نے اُن یہودیوں کے بارے میں اپنے احساسات کو یوں بیان کِیا: ”میری دلی خواہش اور دُعا ہے کہ اِسرائیلی نجات پائیں۔ مَیں اُن کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ جوش سے خدا کی خدمت کرتے ہیں لیکن صحیح علم کے مطابق نہیں۔“ (رومیوں 10:1، 2) اِن آیتوں میں پولُس نے تین ایسی باتوں کا ذکر کِیا جن کی وجہ سے اُنہوں نے مُنادی کا کام کرنا بند نہیں کِیا۔
14 پہلی بات یہ تھی کہ پولُس کی ”دلی خواہش“ تھی کہ یہودی نجات پائیں۔ (رومیوں 11:13، 14) دوسری بات یہ تھی کہ پولُس کی یہ ”دُعا“ تھی کہ یہوواہ اُن کے دلوں کو بادشاہت کا پیغام قبول کرنے کی طرف مائل کرے۔ اور تیسری بات یہ تھی کہ پولُس کے مطابق ”وہ جوش سے خدا کی خدمت کرتے“ تھے۔ پولُس نے اُن کی خوبیوں پر دھیان دیا اور ایسی باتوں پر غور کِیا جن سے ظاہر ہوا کہ وہ خدا کی خدمت میں بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ پولُس جانتے تھے کہ وہ لوگ جوش سے یہودی مذہب کی تعلیمات پر چل رہے ہیں۔ اِس لیے اُنہیں لگتا تھا کہ وہ مسیح کے شاگرد بن کر بھی جوش سے خدا کی خدمت کر سکتے ہیں۔
15. ہم پولُس کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ کچھ مثالیں دیں۔
15 ہم پولُس کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے دل میں ایسے لوگوں کو ڈھونڈنے کی خواہش پیدا کرنی چاہیے ”جو ہمیشہ کی زندگی کی راہ پر چلنے کی طرف مائل“ ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں یہوواہ سے دُعا کرنی چاہیے کہ وہ اُن لوگوں کو ہمارا پیغام سننے کی ترغیب دے جو خلوصِدل سے اُس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ (اعمال 13:48؛ 16:14) سلوانا جو تقریباً 30 سال سے پہلکار ہیں، ایسا ہی کرتی ہیں۔ اُنہوں نے کہا: ”جب مَیں اپنے علاقے میں گھر گھر مُنادی کرنے جاتی ہوں تو مَیں یہوواہ سے دُعا کرتی ہوں کہ وہ مثبت سوچ رکھنے میں میری مدد کرے۔“ ہم یہوواہ سے یہ دُعا بھی کر سکتے ہیں کہ وہ فرشتوں کے ذریعے ایسے لوگوں کو تلاش کرنے میں ہماری مدد کرے جو بادشاہت کے پیغام کو سننا چاہتے ہیں۔ (متی 10:11-13؛ مکاشفہ 14:6) رابرٹ جنہیں پہلکار کے طور پر خدمت کرتے ہوئے 30 سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے، کہتے ہیں: ”فرشتوں کو پتہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی زندگی میں کیا کچھ چل رہا ہے۔ اِس لیے فرشتوں کے ساتھ مل کر مُنادی کا کام کرنا بڑا زبردست احساس ہے۔“ پولُس کی مثال سے ہم تیسری بات یہ سیکھتے ہیں کہ ہمیں لوگوں میں خوبیاں دیکھنی چاہئیں اور ایسی باتیں تلاش کرنی چاہئیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سچائی کو قبول کرنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ کارل نامی ایک بزرگ جن کے بپتسمے کو 50 سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے، کہتے ہیں: ”مَیں ہر اُس چھوٹی سے چھوٹی بات پر غور کرتا ہوں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک شخص واقعی ہمارے پیغام میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ شخص آپ کی طرف مسکرا کر دیکھے یا نیک نیت سے آپ سے کوئی سوال پوچھے۔“ اگر ہم یہ سارے کام کریں گے تو ہم پولُس رسول کی طرح ”ثابتقدمی کے ساتھ پھل“ لائیں گے۔
’اپنا ہاتھ ڈھیلا نہ ہونے دیں‘
16، 17. (الف) ہم واعظ 11:6 سے کیا سیکھتے ہیں؟ (ب) مثال دے کر بتائیں کہ جب لوگ ہمیں مُنادی کرتے دیکھتے ہیں تو اِس کا اُن پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔
16 ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا مُنادی کا کام لوگوں پر بہت گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔ یہ بات اُس صورت میں بھی سچ ہے جب ہمیں لگتا ہے کہ لوگ بادشاہت کے پیغام میں دلچسپی نہیں لے رہے۔ (واعظ 11:6 کو پڑھیں۔) بہت سے لوگ ہمارے پیغام کو تو نہیں سنتے لیکن اُن کی نظریں ہم پر ہوتی ہیں۔ وہ اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہم صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ خوشمزاجی سے بات کرتے ہیں۔ اِن باتوں کا لوگوں پر بہت اچھا اثر پڑ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ جو لوگ ہمارے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ اُن کا نظریہ بھی بدل سکتا ہے۔ سرجیو اور اولنڈا نے دیکھا کہ یہ بات واقعی سچ ہے۔
17 سرجیو کہتے ہیں: ”بیماری کی وجہ سے ہم کچھ عرصہ اُس چوک میں نہیں جا سکے۔ جب ہم دوبارہ وہاں گئے تو آنے جانے والوں نے ہم سے پوچھا: ”سب ٹھیک تو تھا؟ آپ لوگ کافی دنوں سے نظر نہیں آئے۔““ اولنڈا نے مسکراتے ہوئے بتایا: ”بس ڈرائیور ہاتھ ہلا کر ہمیں سلام کرتے۔ کچھ تو اُونچی آواز سے کہتے: ”آپ لوگ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔“ بعض نے تو ہم سے رسالے بھی لیے۔“ ایک دن سرجیو اور اولنڈا یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ ایک آدمی اُن کی ٹرالی کے پاس آیا، اُس نے اُنہیں گلدستہ دیا اور اُن کے کام کے لیے اُن کا شکریہ ادا کِیا۔
18. آپ نے یہ عزم کیوں کِیا ہے کہ آپ ”ثابتقدمی کے ساتھ پھل“ لائیں گے؟
18 جب آپ دوسروں کو بادشاہت کی خوشخبری سنانے میں ’اپنا ہاتھ ڈھیلا نہیں ہونے دیتے‘ تو آپ ”سب قوموں کو گواہی“ دینے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ (متی 24:14) سب سے بڑھ کر آپ کو اِس بات سے بڑی خوشی مل سکتی ہے کہ آپ یہوواہ کا دل خوش کر رہے ہیں۔ وہ اُن سب سے پیار کرتا ہے جو ”ثابتقدمی کے ساتھ پھل لاتے ہیں۔“
a یسوع مسیح نے کہا کہ اُن کے لیے ”اپنے علاقے“ کے لوگوں کو مُنادی کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اُن کی اِس بات کا ذکر چاروں اِنجیلوں میں کِیا گیا ہے۔—متی 13:57؛ مرقس 6:4؛ لُوقا 4:24؛ یوحنا 4:44۔
b اگرچہ اِس مثال میں شاخیں اُن مسیحیوں کی طرف اِشارہ کرتی ہیں جو آسمان پر جائیں گے لیکن اِس میں ایسے سبق پائے جاتے ہیں جو خدا کے سب بندوں کے لیے فائدہمند ہیں۔
c ’پھل لانے‘ کا مطلب اپنے اندر ”روح کا پھل“ پیدا کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اِس مضمون اور اگلے مضمون میں ہم خاص طور پر ”ہونٹوں کا پھل“ لانے یعنی خدا کی بادشاہت کی مُنادی کرنے پر غور کریں گے۔—گلتیوں 5:22، 23؛ عبرانیوں 13:15۔
d دیگر موقعوں پر جب یسوع نے بیج بونے اور کٹائی کرنے کی مثالیں دیں تو اُن کا اِشارہ شاگرد بنانے کے کام کی طرف تھا۔—متی 9:37؛ یوحنا 4:35-38۔