مُردے جی اُٹھینگے
”کیونکہ نرسنگا پھونگا جائیگا اور مُردے غیرفانی حالت میں اُٹھینگے اور ہم بدل جائینگے۔“—۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۲۔
۱، ۲. (ا) ہوسیع نبی کے ذریعے کیا تسلی بخش وعدہ کِیا گیا تھا؟ (ب) ہم کیسے جانتے ہیں کہ خدا مُردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر راضی ہے؟
کیا آپکا کوئی عزیز کبھی موت کے باعث آپ سے بچھڑ گیا ہے؟ پھر تو آپ موت کی وجہ سے آنے والے دُکھ کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ تاہم، مسیحی ہوسیع نبی کے ذریعے خدا کے اس وعدے سے تسلی پاتے ہیں: ”مَیں اُنکو پاتال کے قابو سے نجات دُونگا مَیں اُنکو موت سے چھڑاؤنگا۔ اَے موت تیری وبا کہاں ہے؟ اَے پاتال تیری ہلاکت کہاں ہے؟“—ہوسیع ۱۳:۱۴۔
۲ مُردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کا نظریہ مُتشکِک لوگوں کو بےتکا معلوم ہوتا ہے۔ تاہم قادرِمطلق خدا یقیناً ایسا معجزہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے! اصل مسئلہ یہ ہے کہ آیا خدا مُردوں کو زندہ کرنے پر راضی ہے۔ راستباز آدمی ایوب نے استفسار کِیا: ”اگر آدمی مر جائے تو کیا وہ پھر جئے گا؟“ پھر اُس نے یہ تسلیبخش جواب دیا: ”تُو مجھے پکارتا اور مَیں تجھے جواب دیتا۔ تجھے اپنے ہاتھوں کی صنعت کی طرف رغبت ہوتی۔“ (ایوب ۱۴:۱۴، ۱۵) لفظ ”رغبت“ شدید خواہش یا آرزو کو ظاہر کرتا ہے۔ (مقابلہ کریں زبور ۸۴:۲۔) جیہاں، یہوواہ شدت سے قیامت کا انتظار کرتا ہے—وہ وفادار مُتوَفّی اشخاص کو دوبارہ دیکھنے کی رغبت رکھتا ہے جو اُسکی یادداشت میں زندہ ہیں۔—متی ۲۲:۳۱، ۳۲۔
یسوع قیامت پر روشنی ڈالتا ہے
۳، ۴. (ا) یسوع نے اُمیدِقیامت پر کیا روشنی ڈالی؟ (ب) یسوع کو جسم کی بجائے روح میں کیوں زندہ کِیا گیا تھا؟
۳ ایوب جیسے قدیمی ایماندار لوگ قیامت کی بابت نامکمل سمجھ رکھتے تھے۔ یسوع مسیح نے ہی اس شاندار اُمید پر پوری روشنی ڈالی تھی۔ اُس نے اپنے مرکزی کردار کو ظاہر کِیا جب اُس نے کہا: ”جو بیٹے پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اسکی ہے۔“ (یوحنا ۳:۳۶) اس زندگی سے کہاں پر لطف اُٹھایا جائیگا؟ ایمان کا مظاہرہ کرنے والے بہتیرے لوگوں کیلئے یہ زمین پر ہوگی۔ (زبور ۳۷:۱۱) تاہم، یسوع نے اپنے شاگردوں کو بتایا: ”اَے چھوٹے گلّے نہ ڈر کیونکہ تمہارے باپ کو پسند آیا کہ تمہیں بادشاہی دے۔“ (لوقا ۱۲:۳۲) خدا کی بادشاہت آسمانی ہے۔ لہٰذا، اس وعدے کا مطلب ہے کہ ”چھوٹا گلّہ“ روحانی مخلوقات کے طور پر یسوع کیساتھ آسمان پر ہوگا۔ (یوحنا ۱۴:۲، ۳؛ ۱-پطرس ۱:۳، ۴) کیا ہی شاندار امکان! یسوع نے یوحنا رسول پر یہ بھی آشکارا کِیا کہ اس ”چھوٹے گلّے“ کی تعداد صرف ۱،۴۴،۰۰۰ ہوگی۔—مکاشفہ ۱۴:۱۔
۴ تاہم، ۱،۴۴،۰۰۰ آسمانی جلال میں کیسے داخل ہونگے؟ یسوع نے ”زندگی اور بقا کو . . . خوشخبری کے وسیلہ سے روشن کر دیا۔“ اپنے خون کے ذریعے اُس نے آسمان پر جانے کی ”نئی اور زندہ راہ“ کھول دی۔ (۲-تیمتھیس ۱:۱۰؛ عبرانیوں ۱۰:۱۹، ۲۰) بائبل پیشینگوئی کے مطابق اُس نے پہلے موت کا مزہ چکھا۔ (یسعیاہ ۵۳:۱۲) پھر جیسے رسول پولس نے بعدازاں بیان کِیا، ”اس یسوؔع کو خدا نے جِلایا۔“ (اعمال ۲:۳۲) تاہم یسوع کو بطور انسان زندہ نہیں کِیا گیا تھا۔ اُس نے کہا تھا: ”جو روٹی مَیں جہان کی زندگی کے لئے . . . دونگا وہ میرا گوشت ہے۔“ (یوحنا ۶:۵۱) اپنے جسم کو واپس لے لینا اُس قربانی کو کالعدم قرار دیگا۔ اسلئے یسوع ”جسم کے اعتبار سے مارا گیا لیکن روح کے اعتبار سے زندہ کِیا گیا۔“ (۱-پطرس ۳:۱۸) اسطرح یسوع نے ”چھوٹے گلّے“ کی ”ابدی خلاصی کرائی۔“ (عبرانیوں ۹:۱۲) اُس نے خدا کے حضور اپنی کامل انسانی زندگی کی قیمت گنہگار نوعِانسان کے فدیے کے طور پر پیش کی جس سے ۱،۴۴،۰۰۰ نے سب سے پہلے فائدہ اُٹھایا۔
۵. یسوع کے پہلی صدی کے پیروکاروں کو کونسی اُمید دلائی گئی تھی؟
۵ آسمانی زندگی کیلئے زندہ کئے جانے والوں میں صرف یسوع ہی نہیں ہوگا۔ پولس نے روم میں ساتھی مسیحیوں کو بتایا کہ اگر وہ آخری دم تک برداشت کرنے سے اپنے ممسوح ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہیں تو پھر وہ خدا کے فرزند اور مسیح کے ہممیراث ہونے کیلئے روحاُلقدس سے مسح ہوتے ہیں۔ (رومیوں ۸:۱۶، ۱۷) پولس نے یہ وضاحت بھی کی: ”جب ہم اُسکی موت کی مشابہت سے اُسکے ساتھ پیوستہ ہو گئے تو بیشک اُسکے جی اُٹھنے کی مشابہت سے بھی اُسکے ساتھ پیوستہ ہونگے۔“—رومیوں ۶:۵۔
اُمیدِقیامت کا دفاع
۶. کرنتھس میں قیامت پر ایمان خطرے کی زد میں کیوں تھا اور پولس نے کیسا ردِعمل دکھایا؟
۶ قیامت مسیحیت کی ”ابتدائی باتوں“ کا حصہ ہے۔ (عبرانیوں ۶:۱، ۲) تاہم، کرنتھس میں اس عقیدے کو خطرہ لاحق تھا۔ بدیہی طور پر، کلیسیا میں بعض لوگ یونانی فلسفے سے متاثر ہو کر کہہ رہے تھے: ”مُردوں کی قیامت ہے ہی نہیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۱۲) جب پولس رسول کو اس کی خبر ملی تو اُس نے اُمیدِقیامت، بالخصوص ممسوح مسیحیوں کی اُمید کا دفاع کِیا۔ آئیے ۱-کرنتھیوں ۱۵ باب میں درج پولس کے الفاظ کا جائزہ لیں۔ پچھلے مضمون کی تجویز کے مطابق آپ اس پورے باب کو پڑھنا مفید پائینگے۔
۷. (ا)پولس نے کس بنیادی مسئلے پر توجہ مرتکز کی؟ (ب) کن لوگوں نے قیامتیافتہ یسوع کو دیکھا تھا؟
۷ پولس ۱-کرنتھیوں ۱۵ باب کی پہلی دو آیات میں اپنی گفتگو کا موضوع بیان کرتا ہے: ”اب اَے بھائیو! مَیں تمہیں وہی خوشخبری جتائے دیتا ہوں جو پہلے دے چکا ہوں جسے تم نے قبول بھی کر لیا تھا اور جس پر قائم بھی ہو۔ اُسی کے وسیلہ سے تم کو نجات بھی ملتی ہے بشرطیکہ وہ خوشخبری جو مَیں نے تمہیں دی تھی یاد رکھتے ہو ورنہ تمہارا ایمان لانا بےفائدہ ہؤا۔“ اگر کرنتھس کے مسیحی خوشخبری پر قائم رہنے میں ناکام ہو جاتے تو اُنکا سچائی کو قبول کرنا بیفائدہ ہوتا۔ پولس بیان جاری رکھتا ہے: ”چنانچہ مَیں نے سب سے پہلے تم کو وہی بات پہنچا دی جو مجھے پہنچی تھی کہ مسیح کتابِمُقدس کے مطابق ہمارے گناہوں کیلئے مؤا۔ اور دفن ہؤا اور تیسرے دن کتابِمُقدس کے مطابق جی اٹھا۔ اور کیفاؔ کو اور اُسکے بعد اُن بارہ کو دکھائی دیا۔ پھر پانچ سو سے زیادہ بھائیوں کو ایک ساتھ دکھائی دیا۔ جن میں سے اکثر اب تک موجود ہیں اور بعض سو گئے۔ پھر یعقوؔب کو دکھائی دیا۔ پھر سب رسولوں کو۔ اور سب سے پیچھے مجھ کو جو گویا ادھورے دنوں کی پیدایش ہوں دکھائی دیا۔“—۱-کرنتھیوں ۱۵:۳-۸۔
۸، ۹. (ا) قیامت پر ایمان کتنا اہم ہے؟ (ب) غالباً یسوع کس موقع پر ”پانچ سو سے زیادہ بھائیوں“ پر ظاہر ہوا تھا؟
۸ خوشخبری قبول کرنے والوں کیلئے قیامت پر ایمان اختیاری معاملہ نہیں تھا۔ بہتیرے عینی شاہد اس کی تصدیق کرنے کیلئے موجود تھے کہ ”مسیح ہمارے گناہوں کی خاطر مؤا“ اور زندہ کر دیا گیا تھا۔ ایک تو تھا کیفا یا پطرس، جیساکہ وہ عام طور پر مشہور ہے۔ یسوع کیساتھ غداری اور گرفتاری کی رات پطرس کی طرف سے یسوع کا انکار کرنے کے بعد، یسوع کا اُس پر ظاہر ہونا اُس کیلئے بڑی تسلی کا باعث ہوا ہوگا۔ قیامتیافتہ یسوع اُن ”بارہ“ یعنی بطور ایک گروہ رسولوں کے پاس بھی گیا—ایک ایسا تجربہ جس نے یقیناً اُنہیں اپنے خوف پر قابو پانے اور یسوع کی قیامت کے دلیر گواہ بننے میں مدد دی ہوگی۔—یوحنا ۲۰:۱۹-۲۳؛ اعمال ۲:۳۲۔
۹ مسیح ایک بڑے گروہ، ”پانچ سو سے زیادہ بھائیوں“ کو بھی دکھائی دیا۔ چونکہ صرف گلیل میں ہی اُس کے اتنے زیادہ پیروکار تھے اسلئے یہ متی ۲۸:۱۶-۲۰ میں بیانکردہ موقع ہو سکتا ہے جب یسوع نے شاگرد بنانے کا حکم دیا تھا۔ یہ اشخاص کتنی زوردار شہادت دے سکتے تھے! بعض ۵۵ س.ع. تک زندہ تھے جب پولس نے کرنتھیوں کے نام اپنا پہلا خط تحریر کِیا۔ تاہم نوٹ فرمائیں کہ مرنے والوں کے حق میں کہا گیا کہ وہ ”سو گئے“ ہیں۔ اُنہیں آسمانی اجر حاصل کرنے کیلئے ابھی تک زندہ نہیں کِیا گیا تھا۔
۱۰. (ا) اپنے شاگردوں کے ساتھ یسوع کی آخری ملاقات کا اثر کیا تھا؟ (ب) یسوع پولس ”گویا ادھورے دنوں کی پیدایش“ پر کیسے ظاہر ہوا؟
۱۰ یسوع کی قیامت کا ایک اَور اہم گواہ، یوسف اور یسوع کی ماں مریم کا بیٹا، یعقوب تھا۔ قیامت سے پہلے بدیہی طور پر یعقوب ایمان نہیں لایا تھا۔ (یوحنا ۷:۵) تاہم یسوع کے اُسے دکھائی دینے کے بعد یعقوب ایمان لے آیا اور غالباً اپنے دیگر بھائیوں کی تبدیلئمذہب میں اہم کردار ادا کِیا۔ (اعمال ۱:۱۳، ۱۴) اپنے شاگردوں کے ساتھ آخری ملاقات کے دوران، جب وہ آسمان پر چلا گیا تو یسوع نے اُنہیں ”زمین کی انتہا تک . . . گواہ“ ہونے کی تفویض سونپی۔ (اعمال ۱:۶-۱۱) اس کے بعد وہ مسیحیوں کو ستانے والے ترسس کے ساؤل پر ظاہر ہوا۔ (اعمال ۲۲:۶-۸) یسوع ساؤل پر یوں ظاہر ہوا گویا کسی ”ادھورے دنوں کی پیدایش“ والے پر ظاہر ہوا ہو۔ یہ ایسے ہی تھا جیسےکہ ساؤل روحانی زندگی کے لئے قیامت پا چکا تھا اور قیامت کے مقررہ وقت سے صدیوں پہلے ہی جلالی خداوند کو دیکھنے کے قابل تھا۔ اس تجربہ نے پولس کو مسیحی کلیسیا کی قاتلانہ مخالفت کی روش پر چلنے سے فوراً روک دیا اور غیرمعمولی تبدیلی کا باعث ہوا۔ (اعمال ۹:۳-۹، ۱۷-۱۹) ساؤل مسیحی ایمان کے بڑے حامیوں میں سے ایک رسول پولس بن گیا۔—۱-کرنتھیوں ۱۵:۹، ۱۰۔
قیامت پر ایمان لازمی ہے
۱۱. پولس نے اس بات کی بطالت کا پردہ کیسے فاش کِیا کہ ”کوئی قیامت نہیں ہے“؟
۱۱ یسوع کی قیامت ایک مستند حقیقت تھی۔ ”پس جب مسیح کی یہ منادی کی جاتی ہے کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے،“ پولس استدلال کرتا ہے، ”تو تم میں سے بعض کس طرح کہتے ہیں کہ مُردوں کی قیامت ہے ہی نہیں؟“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۱۲) ایسے لوگ قیامت کی بابت نہ صرف ذاتی شکوک یا اعتراضات رکھتے تھے بلکہ وہ اس پر عدمیقینی کا علانیہ اظہار کر رہے تھے۔ پس پولس اُنکے استدلال کی بطالت کا پردہ فاش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر مسیح زندہ نہیں ہوا تو مسیحی پیغام جھوٹ ہے اور مسیح کی قیامت کی شہادت دینے والے ”خدا کے جھوٹے گواہ“ ہیں۔ اگر مسیح زندہ نہیں ہوا تو خدا کے حضور کوئی فدیہ ادا نہیں کِیا گیا؛ مسیحی ابھی تک ’گناہوں میں گرفتار‘ ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۱۳-۱۹؛ رومیوں ۳:۲۳، ۲۴؛ عبرانیوں ۹:۱۱-۱۴) علاوہازیں، بعض معاملات میں جو مسیحی شہیدوں کے طور پر ”سو گئے“ تھے وہ کسی حقیقی اُمید کے بغیر ہی ختم ہو گئے تھے۔ اگر اسی زندگی پر اُن کی آس ہوتی تو مسیحی کتنی قابلِرحم حالت میں ہوتے! اُن کا دُکھ اُٹھانا بیفائدہ ہوتا۔
۱۲. (ا) مسیح کو ”جو سو گئے ہیں اُن میں سے پہلا پھل“ کہنے کا مطلب کیا ہے؟ (ب) مسیح نے قیامت کو کیسے ممکن بنایا؟
۱۲ تاہم، ایسی بات نہیں تھی۔ پولس بیان جاری رکھتا ہے: ”مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔“ مزیدبرآں، وہ ”جو سو گئے ہیں اُن میں سے پہلا پھل ہوا“ ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۰) جب اسرائیلی فرمانبرداری کیساتھ اپنی پیداوار کا پہلا پھل یہوواہ کی نذر کرتے تھے تو یہوواہ اُنہیں زیادہ فصل سے نوازتا تھا۔ (خروج ۲۲:۲۹، ۳۰؛ ۲۳:۱۹؛ امثال ۳:۹، ۱۰) مسیح کو ”پہلا پھل“ کہنے سے پولس کا مطلب ہے کہ مزید اشخاص کی فصل کو آسمانی زندگی کیلئے موت سے زندہ کِیا جائیگا۔ ”کیونکہ جب آدمی کے سبب سے موت آئی،“ پولس کہتا ہے، ”تو آدمی ہی کے سبب سے مُردوں کی قیامت بھی آئی۔ اور جیسے آدؔم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائینگے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۱، ۲۲) یسوع نے نوعِانسان کیلئے گناہ اور موت کی غلامی سے آزادی کی راہ کھولتے ہوئے، اپنی کامل انسانی زندگی فدیے کے طور پر دے کر قیامت کو ممکن بنایا۔—گلتیوں ۱:۴؛ ۱-پطرس ۱:۱۸، ۱۹۔a
۱۳. (ا) آسمانی قیامت کب واقع ہوتی ہے؟ (ب) یہ کیسے ممکن ہے کہ کچھ ممسوح نہیں ”سوئینگے“؟
۱۳ پولس بیان جاری رکھتا ہے: ”لیکن ہر ایک اپنی اپنی باری سے۔ پہلا پھل مسیح۔ پھر مسیح کے آنے پر اُسکے لوگ۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۳) مسیح کو ۳۳ س.ع. میں زندہ کِیا گیا تھا۔ تاہم، اُسکے ممسوح پیروکاروں کو—جو ”مسیح کے . . . لوگ“ ہیں—بائبل پیشینگوئی کے مطابق ۱۹۱۴ میں شروع ہونے والی یسوع کی شاہانہ موجودگی کے تھوڑے عرصہ بعد تک انتظار کرنا پڑا۔ (۱-تھسلنیکیوں ۴:۱۴-۱۶؛ مکاشفہ ۱۱:۱۸) اُن کی بابت کیا ہے جو اُس موجودگی کے دوران زندہ ہونگے؟ پولس کہتا ہے: ”دیکھو مَیں تم سے بھید کی بات کہتا ہوں۔ ہم سب تو نہیں سوئینگے مگر سب بدل جائینگے۔ اور یہ ایک دم میں۔ ایک پل میں۔ پچھلا نرسنگا پھونکتے ہی ہوگا کیونکہ نرسنگا پھونکا جائیگا اور مُردے غیرفانی حالت میں اُٹھینگے اور ہم بدل جائینگے۔“ (۱-کرنتھیوں ۵۱:۵۱، ۵۲) واضح طور پر تمام ممسوح قبروں میں قیامت کے انتظار میں سوئے نہیں رہتے۔ مسیح کی موجودگی کے دوران مرنے والے فوراً بدل جاتے ہیں۔—مکاشفہ ۱۴:۱۳۔
۱۴. ممسوح لوگ کیسے ”مُردوں کے لئے بپتسمہ لیتے ہیں“؟
۱۴ ”ورنہ،“ پولس استفسار کرتا ہے، ”جو لوگ مُردوں کے لئے بپتسمہ لیتے ہیں وہ کیا کرینگے؟ اگر مُردے جی اُٹھتے ہی نہیں تو پھر کیوں اُنکے لئے بپتسمہ لیتے ہیں؟ اور ہم کیوں ہر وقت خطرہ میں پڑے رہتے ہیں؟“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۹، ۳۰) جیسےکہ بعض بائبل مترجمین اسے پیش کرتے ہیں، پولس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ زندہ اشخاص مُردہ لوگوں کیلئے بپتسمہ لیتے تھے۔ بہرصورت، بپتسمے کا تعلق مسیحی شاگردی سے ہے اور مُردہ جانیں شاگرد نہیں ہو سکتیں۔ (یوحنا ۴:۱) اسکے برعکس، پولس زندہ مسیحیوں کی بات کر رہا تھا، جن میں سے بہتیرے، خود پولس کی طرح، ”ہر وقت خطرے میں“ تھے۔ ممسوح مسیحیوں نے ’مسیح کی موت میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا تھا۔‘ (رومیوں ۶:۳) اُنکے مسح کئے جانے کے وقت سے ہی اُنہیں ایسی روش پر چلنے کیلئے ”بپتسمہ“ دیا گیا تھا جو مسیح جیسی موت پر منتج ہوگی۔ (مرقس ۱۰:۳۵-۴۰) وہ پُرجلال آسمانی قیامت کی اُمید کے ساتھ مرینگے۔—۱-کرنتھیوں ۶:۱۴؛ فلپیوں ۳:۱۰، ۱۱۔
۱۵. پولس نے کن خطرات کا سامنا کِیا ہوگا اور اُنہیں برداشت کرنے میں قیامت پر ایمان نے کیا کردار ادا کِیا تھا؟
۱۵ پولس اب وضاحت کرتا ہے کہ وہ خود بھی اس حد تک خطرے میں مبتلا رہا ہے کہ وہ کہہ سکتا ہے: ”مَیں ہر روز مرتا ہوں۔“ مبادا بعض اُس پر مبالغہآرائی کرنے کا الزام لگائیں، پولس بیان کرتا ہے: ”اَے بھائیو! مجھے اُس فخر کی قسم جو ہمارے خداوند یسوؔع مسیح میں تم پر ہے۔“ دی جیروصلم بائبل اس آیت کو یوں پیش کرتی ہے: ”اَے بھائیو، ہمارے خداوند مسیح یسوؔع میں جو فخر مجھے تم پر ہے مَیں اُس کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ مَیں روزانہ موت کا سامنا کرتا ہوں۔“ جن خطرات کا پولس نے سامنا کِیا اُن کی مثال پیش کرنے کیلئے پولس ۳۲ آیت میں ’افسس میں درندوں سے لڑنے‘ کا ذکر کرتا ہے۔ رومی اکثر مجرموں کو سزا دینے کیلئے تماشاگاہوں میں درندوں کے سامنے ڈال دیتے تھے۔ اگر پولس واقعی درندوں سے لڑا تھا تو وہ صرف یہوواہ کی مدد سے ہی بچ سکتا تھا۔ اُمیدِقیامت کے بغیر ایسی روشِزندگی کا انتخاب کرنا جو اُسے خطرے میں ڈال دیگی واقعی حماقت ہوگا۔ آئندہ زندگی کی اُمید کے بغیر خدا کی خدمت کیساتھ آنے والی مشکلات اور قربانیوں کو برداشت کرنا بےمقصد ہوگا۔ ”اگر مُردے نہ جِلائے جائینگے“، پولس کہتا ہے ”تو آؤ کھائیں پئیں کیونکہ کل تو مر ہی جائینگے۔“—۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۱، ۳۲؛ دیکھیں ۲-کرنتھیوں ۱:۸، ۹؛ ۱۱:۲۳-۲۷۔
۱۶. (ا) اس اصطلاح کا آغاز کہاں سے ہوا ہوگا کہ ”آؤ کھائیں اور پئیں کیونکہ کل تو مر ہی جائینگے“؟ (ب) اس نقطۂنظر کو اپنانے کے کیا خطرات تھے؟
۱۶ پولس نے شاید یسعیاہ ۲۲:۱۳ کا حوالہ دیا ہو جو یروشلیم کے نافرمان باشندوں کے تقدیر سے متعلق رجحان کو بیان کرتی ہے۔ یا شاید اُسکے ذہن میں اپیکوریوں کے اعتقادات ہوں جو موت کے بعد زندگی کی ہر اُمید کا تمسخر اُڑاتے تھے اور جسمانی عیشوعشرت کو ہی زندگی کی سب سے بڑی چیز خیال کرتے تھے۔ معاملہ کچھ بھی ہو، ”کھائیں اور پئیں“ کا فلسفہ گنہگارانہ تھا۔ لہٰذا پولس آگاہ کرتا ہے: ””فریب نہ کھاؤ۔ بری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳) قیامت کو رد کرنے والوں کے ساتھ رفاقت رکھنا مُہلک ہو سکتا تھا۔ ایسی صحبت نے کرنتھس کی کلیسیا میں جنسی بداخلاقی، تفرقے، مقدمات، اور خداوند کے عشائیہ کیلئے احترام کی کمی جیسے مسائل برپا کرنے میں اہم کردار ادا کِیا ہوگا جنہیں پولس کو حل کرنا پڑا تھا۔—۱-کرنتھیوں ۱:۱۱؛ ۵:۱؛ ۶:۱؛ ۱۱:۲۰-۲۲۔
۱۷. (ا) پولس نے کرنتھیوں کو کیا نصیحت کی؟ (ب) کن سوالات کا جواب ابھی باقی ہے؟
۱۷ لہٰذا پولس کرنتھیوں کو یہ مثبت نصیحت کرتا ہے: ”راستباز ہونے کے لئے ہوش میں آؤ اور گناہ نہ کرو کیونکہ بعض خدا سے ناواقف ہیں۔ مَیں تمہیں شرم دلانے کو یہ کہتا ہوں۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۴) قیامت کی بابت منفی نقطۂنظر نے بعض کو ایسی روحانی مدہوشی میں مبتلا کر دیا جیسےکہ وہ متوالے ہوں۔ اُنہیں جاگنے، ہوشوحواس قائم رکھنے کی ضرورت تھی۔ اسی طرح آجکل ممسوح مسیحیوں کو بھی روحانی طور پر جاگتے رہنے کی ضرورت ہے تاکہ دُنیا کے مشتبہ نظریات سے متاثر نہ ہوں۔ اُنہیں اپنی آسمانی قیامت کی اُمید کو مضبوطی سے تھامے رہنا چاہئے۔ تاہم اُس وقت کے کرنتھیوں کیلئے اور آجکل ہمارے لئے سوال باقی رہے۔ مثال کے طور پر: ۱،۴۴،۰۰۰ کس حالت میں آسمان پر اُٹھائے جاتے ہیں؟ نیز اُن لاکھوں کی بابت کیا ہے جو ابھی تک قبر میں ہیں اور آسمانی اُمید نہیں رکھتے؟ ایسوں کیلئے قیامت کا کیا مطلب ہوگا؟ اپنے اگلے مضمون میں ہم قیامت کی بابت پولس کی باقی گفتگو کا جائزہ لینگے۔
[فٹنوٹ]
a فدیے پر باتچیت کیلئے دی واچٹاور کے فروری ۱۵، ۱۹۹۱ کے شمارے کو دیکھیں۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
◻یسوع نے قیامت پر کیا روشنی ڈالی؟
◻یسوع کی قیامت کے گواہوں میں سے چند ایک کون تھے؟
◻قیامت کے عقیدے کو چیلنج کیوں کِیا گیا اور پولس کا ردِعمل کیا تھا؟
◻ممسوح مسیحیوں کیلئے قیامت پر ایمان کیوں لازمی تھا؟
[صفحہ 23 پر تصویر]
یائیر کی بیٹی قیامت کے ممکن ہونے کا ثبوت بنی
[صفحہ 25 پر تصویر]
اُمیدِقیامت کے بغیر وفادار مسیحیوں کا شہید ہونا بےمعنی ہوتا