”موت کو ختم کر دیا جائیگا“
”آخری دشمن، موت کو ختم کر دیا جائیگا۔“—۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۶، اینڈبلیو۔
۱، ۲. (ا)پولس نے مُردوں کیلئے کونسی اُمید پیش کی؟ (ب) پولس نے قیامت کی بابت کس سوال پر گفتگو کی؟
”مَیں ایمان رکھتا ہوں . . . بدن کی قیامت اور ابدی زندگی پر۔“ رسولوں کا عقیدہ یوں بیان کرتا ہے۔ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ اس بات کو نہ سمجھتے ہوئے کہ اُنکے اعتقادات رسولوں کے ایمان کی نسبت یونانی فلسفے سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں یکسانیت کیساتھ فرضشناسی سے اسکا وِرد کرتے ہیں۔ تاہم، پولس رسول نے یونانی فلسفے کو رد کِیا کیونکہ وہ غیرفانی جان پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔ تاہم وہ آئندہ زندگی پر پُختہ ایمان رکھتا تھا اور اُس نے زیرِالہام تحریر کِیا: ”آخری دشمن، موت کو ختم کر دیا جائیگا۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۶، اینڈبلیو۔) قریبالمرگ نوعِانسان کیلئے اسکا کیا مطلب ہے؟
۲ آئیے جواب کیلئے ۱-کرنتھیوں ۱۵ باب میں درج قیامت کی بابت پولس کی بحث پر واپس چلتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ شروع کی آیات میں پولس نے قیامت کو مسیحی عقیدے کا جزوِلازم ٹھہرایا تھا۔ اب وہ ایک خاص سوال پر گفتگو کرتا ہے: ”اب کوئی یہ کہیگا کہ مُردے کس طرح جی اُٹھتے ہیں اور کیسے جسم کے ساتھ آتے ہیں؟“—۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۳۔
کس قسم کا جسم؟
۳. بعض نے قیامت کی تردید کیوں کی؟
۳ یہ سوال اُٹھانے سے شاید پولس کا ارادہ افلاطون کے فلسفہ کے اثر کو زائل کرنا تھا۔ افلاطون نے تعلیم دی تھی کہ انسان غیرفانی جان رکھتا ہے جو جسم کی موت کے بعد بچ جاتی ہے۔ اس نظریے کے ساتھ پرورش پانے والے لوگوں کو مسیحی تعلیم بِلاشُبہ غیرضروری معلوم ہوئی ہوگی۔ اگر جان موت کے بعد بچ جاتی ہے تو قیامت کا کیا مقصد ہے؟ علاوہازیں، قیامت غیرمنطقی دکھائی دی ہوگی۔ جب ایک دفعہ جسم مٹی میں مِل جاتا ہے تو پھر قیامت کیسے ہو سکتی ہے؟ بائبل مبصر ہنرک میئر کہتا ہے کہ بعض مسیحیوں کی مخالفت ممکنہ طور پر ”فلسفیانہ وجہ“ پر مبنی تھی کہ ”جسم کے مادے کی بحالی ناممکن ہے۔“
۴، ۵. (ا)بےایمان لوگوں کے اعتراضات کیوں نامعقول تھے؟ (ب) ”دانے“ کے حوالے سے پولس کی تمثیل کی وضاحت کریں۔ (پ) قیامتیافتہ ممسوحوں کو خدا کیسے جسم عطا کرتا ہے؟
۴ پولس اُنکے استدلال کے کھوکھلےپن کو واضح کرتا ہے: ”اَے نادان! تُو خود جو کچھ بوتا ہے جب تک وہ نہ مرے زندہ نہیں کِیا جاتا۔ اور جو تُو بوتا ہے یہ وہ جسم نہیں جو پیدا ہونے والا ہے بلکہ صرف دانہ ہے۔ خواہ گیہوں کا خواہ کسی اور چیز کا۔ مگر خدا نے جیسا ارادہ کر لیا ویسا ہی اُسکو جسم دیتا ہے اور ہر ایک بیج کو اُسکا خاص جسم۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۶-۳۸) خدا لوگوں کے اُن اجسام کو زندہ نہیں کریگا جو وہ زمین پر رکھتے تھے۔ بلکہ، ایک تبدیلی رُونما ہوگی۔
۵ پولس قیامت کا موازنہ بیج کے اُگنے سے کرتا ہے۔ گندم کا ننھا سا بیج اُس پودے سے کوئی مشابہت نہیں رکھتا جو اُس سے اُگے گا۔ دی ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے: ”جب ایک بیج اُگنے لگتا ہے تو وہ پانی کی کافی مقدار جذب کرتا ہے۔ پانی بیج کے اندر بہتیری کیمیاوی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ اس سے بیج کی اندرونی بافتیں بھی پھول کر بیج کے چھلکے سے باہر نکل آتی ہیں۔“ دراصل، بیج بطور بیج مر جاتا ہے اور ایک اُگنے والا پودا بن جاتا ہے۔ ”خدا . . . اُسکو جسم دیتا ہے“ جسکے اندر اُس نے اسکی نشوونما کی نگرانی کرنے والے سائنسی قوانین وضع کر دئے ہیں اور یوں ہر بیج اپنی جنس کے موافق جسم حاصل کرتا ہے۔ (پیدایش ۱:۱۱) اسی طرح ممسوح مسیحی پہلے انسانوں کے طور پر مرتے ہیں۔ اسکے بعد، خدا کے مقررہ وقت پر، وہ اُنہیں بالکل نئے اجسام میں دوبارہ زندہ کرتا ہے۔ لہٰذا پولس نے فلپیوں کو بتایا، ”یسوؔع مسیح . . . ہماری پستحالی کے بدن کی شکل بدل کر اپنے جلال کی صورت پر بنائیگا۔“ (فلپیوں ۳:۲۰، ۲۱؛ ۲-کرنتھیوں ۵:۱، ۲) وہ روحانی اجسام میں زندہ کئے جاتے ہیں اور روحانی عملداری میں رہتے ہیں۔—۱-یوحنا ۳:۲۔
۶. یہ یقین کرنا کیوں معقول ہے کہ خدا قیامتیافتہ اشخاص کو موزوں روحانی جسم عطا کر سکتا ہے؟
۶ کیا یہ ناقابلِیقین ہے؟ ہرگز نہیں۔ پولس استدلال کرتا ہے کہ جانوروں کے جسم مختلف اقسام کے ہوتے ہیں۔ علاوہازیں، وہ آسمانی فرشتوں کا گوشت اور خون والے انسانوں سے موازنہ کرتے ہوئے کہتا ہے: ”آسمانی بھی جسم ہیں اور زمینی بھی۔“ بےجان موجودات کی بھی بڑی مختلف اقسام ہیں۔ اس سے پیشتر کہ سائنس نے نیلگوں ستاروں، سرخ ضخام، سفید صغائر جیسے اجرامِفلک کو دریافت کِیا، پولس نے کہا کہ ”ستارے ستارے کے جلال میں فرق ہے۔“ اسکے پیشِنظر کیا یہ معقول بات نہیں ہے کہ خدا ممسوح قیامتیافتہ اشخاص کیلئے موزوں روحانی جسم فراہم کر سکتا ہے؟—۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۹-۴۱۔
۷. بقا سے کیا مُراد ہے؟ غیرفانیت سے کیا مُراد ہے؟
۷ اسکے بعد پولس کہتا ہے: ”مُردوں کی قیامت بھی ایسی ہی ہے۔ جسم فنا کی حالت میں بویا جاتا ہے اور بقا کی حالت میں جی اُٹھتا ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۴۲) انسانی جسم کامل ہونے کے باوجود بھی قابلِفنا ہوتا ہے۔ اسے ہلاک کِیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، پولس نے کہا کہ قیامتیافتہ یسوع کیلئے یہ طے کر دیا گیا تھا کہ ”کبھی نہ مرے۔“ (اعمال ۱۳:۳۴) وہ کبھی بھی قابلِفنا انسانی جسم میں، خواہ کامل ہی کیوں نہ ہو، زندہ نہیں ہوگا۔ خدا ممسوح اشخاص کو جو جسم عطا کرتا ہے وہ ناقابلِفنا—موت یا نیستی سے بعید—ہوتے ہیں۔ پولس بیان جاری رکھتا ہے: ”بےحرمتی کی حالت میں بویا جاتا ہے اور جلال کی حالت میں جی اُٹھتا ہے۔ کمزوری کی حالت میں بویا جاتا ہے اور قوت کی حالت میں جی اُٹھتا ہے۔ نفسانی جسم بویا جاتا ہے اور روحانی جسم جی اُٹھتا ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۴۳، ۴۴) پولس مزید کہتا ہے: ”ضرور ہے کہ یہ فانی جسم بقا [”غیرفانیت،“ اینڈبلیو] کا جامہ پہنے۔“ یہاں غیرفانیت سے مُراد غیرمختتم، لازوال زندگی ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۳؛ عبرانیوں ۷:۱۶) اس طرح، قیامتیافتہ اشخاص اُس ”آسمانی“ یعنی یسوع ”کی صورت“ پر ہوتے ہیں جس نے اُنکی قیامت کو ممکن بنایا تھا۔—۱-کرنتھیوں ۱۵:۴۵-۴۹۔
۸. (ا) ہم کیسے جانتے ہیں کہ قیامتیافتہ اشخاص بالکل ویسے ہی اشخاص ہونگے جیسے وہ زمین پر زندہ ہونے کے وقت تھے؟ (ب) جب قیامت واقع ہوتی ہے تو کونسی پیشینگوئیاں تکمیل کو پہنچتی ہیں؟
۸ اس تبدیلی کے باوجود، قیامتیافتہ اشخاص بالکل ویسے ہی اشخاص ہونگے جیسے وہ مرنے سے پہلے تھے۔ اُنہیں اُسی حافظے اور اُنہی اعلیٰ مسیحی صفات کیساتھ زندہ کِیا جائیگا۔ (ملاکی ۳:۳؛ مکاشفہ ۲۱:۱۰، ۱۸) اس میں بھی وہ بالکل یسوع جیسے ہیں۔ وہ روحانی سے انسانی حالت میں تبدیل ہوا۔ پھر وہ مرا اور روح کے طور پر زندہ ہوا۔ تاہم، ”یسوؔع مسیح کل اور آج بلکہ ابد تک یکساں ہے۔“ (عبرانیوں ۱۳:۸) ممسوح کیا ہی شاندار استحقاق رکھتے ہیں! پولس بیان کرتا ہے: ”جب یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہن چکے گا اور یہ مرنے والا جسم حیاتِابدی کا جامہ پہن چکے گا تو وہ قول پورا ہوگا جو لکھا ہے کہ موت فتح کا لقمہ ہو گئی۔ اَے موت تیری فتح کہاں رہی؟ اَے موت تیرا ڈنک کہاں رہا؟“—۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۴، ۵۵؛ یسعیاہ ۲۵:۸؛ ہوسیع ۱۳:۱۴۔
ایک زمینی قیامت
۹، ۱۰. (ا) ۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۴ کے سیاقوسباق کے مطابق ”آخرت“ کیا ہے اور اس سلسلے میں کونسے واقعات وقوعپذیر ہوتے ہیں؟ (ب) موت ختم کرنے کیلئے کیا واقع ہونا ضروری ہے؟
۹ کیا اُن لاکھوں لوگوں کے لئے بھی کوئی مستقبل ہے جو آسمان پر غیرفانی روحانی زندگی کی اُمید نہیں رکھتے؟ یقیناً ہے! یہ واضح کرنے کے بعد کہ آسمانی قیامت یسوع کی موجودگی کے وقت واقع ہوتی ہے، پولس مابعدی واقعات کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے: ”اِسکے بعد آخرت ہوگی۔ اُس وقت وہ ساری حکومت اور سارا اختیار اور قدرت نیست کرکے بادشاہی کو خدا یعنی باپ کے حوالہ کر دیگا۔“—۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۳، ۲۴۔
۱۰ ”آخرت“ مسیح کے ہزارسالہ عہد کا اختتام ہے جب یسوع فروتنی اور وفاداری سے بادشاہت اپنے باپ اور خدا کے حوالہ کر دیتا ہے۔ (مکاشفہ ۲۰:۴) خدا کا یہ مقصد کہ ”مسیح میں سب چیزوں کا مجموعہ ہو جائے“ تکمیل پا چکا ہوگا۔ (افسیوں ۱:۹، ۱۰) تاہم، پہلے مسیح خدا کی اعلیٰ مرضی کے مخالف ”ساری حکومت اور سارا اختیار اور قدرت“ کو نیست کر چکا ہوگا۔ اس میں ہرمجدون پر برپا ہونے والے تباہی سے زیادہ کچھ شامل ہے۔ (مکاشفہ ۱۶:۱۶؛ ۱۹:۱۱-۲۱) پولس کہتا ہے: ”جب تک خدا سب دشمنوں کو اُسکے پاؤں تلے نہیں کر دیتا [مسیح کو] بادشاہی کرنا ضرور ہے۔ آخری دشمن، موت کو ختم کر دیا جائیگا۔“ (۱-کرنتھیوں ۲۵۱۵، ۲۶، اینڈبلیو) جی ہاں، آدم کے گناہ اور موت کے تمام اثرات دُور کر دئے جائینگے۔ پھر ضروری طور پر خدا نے مُردوں کو زندہ کر دینے سے ”قبروں“ کو خالی کر دیا ہوگا۔—یوحنا ۵:۲۸۔
۱۱. (ا) ہم کیسے جانتے ہیں کہ خدا مُردہ جانوں کو دوبارہ خلق کر سکتا ہے؟ (ب) زمین پر قیامت پانے والوں کو کس قسم کے جسم عطا کئے جائینگے؟
۱۱ اسکا مطلب انسانی جانوں کو دوبارہ تخلیق کرنا ہے۔ ناممکن؟ ہرگز نہیں، اسلئےکہ زبور ۱۰۴:۲۹، ۳۰ یقیندہانی کراتی ہیں کہ خدا ایسا کر سکتا ہے: ”تُو انکا دم روک لیتا ہے اور یہ مر جاتے ہیں اور پھر مٹی میں مل جاتے ہیں۔ تُو اپنی روح بھیجتا ہے اور یہ پیدا ہوتے ہیں۔“ اگرچہ قیامتیافتہ لوگ وہی اشخاص ہونگے جو وہ اپنی موت سے پہلے تھے توبھی اُنہیں وہی جسم لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ آسمان کیلئے زندہ ہونے والوں کی طرح، خدا اِنہیں بھی حسبِمنشا جسم عطا کریگا۔ بِلاشُبہ اُنکے نئے جسم جسمانی لحاظ سے صحتمند اور معقول حد تک اُنکے پہلے جسم جیسے ہی ہونگے تاکہ اُنکے عزیزواقارب اُنہیں پہچان سکیں۔
۱۲. زمینی قیامت کب واقع ہوتی ہے؟
۱۲ زمینی قیامت کب واقع ہوگی؟ مرتھا نے اپنے مُردہ بھائی لعزر کی بابت کہا: ”مَیں جانتی ہوں کہ قیامت میں آخری دن جی اُٹھیگا۔“ (یوحنا ۱۱:۲۴) اُسے یہ کیسے معلوم تھا؟ اُسکے زمانے میں قیامت بحثوتکرار کا موضوع تھی کیونکہ فریسی تو اس پر ایمان رکھتے تھے مگر صدوقی نہیں رکھتے تھے۔ (اعمال ۲۳:۸) تاہم، مرتھا قیامت کی اُمید رکھنے والے مسیحیت سے پہلے کے گواہوں سے ضرور واقف تھی۔ (عبرانیوں ۱۱:۳۵) اسکے علاوہ اُس نے دانیایل ۱۲:۱۳ سے یہ بات سمجھ لی ہوگی کہ قیامت آخری دن پر واقع ہوگی۔ اُس نے غالباً خود یسوع سے بھی یہ سیکھا ہوگا۔ (یوحنا ۶:۳۹) وہ ”آخری دن“ مسیح کے عہدِہزارسالہ کیساتھ ہی واقع ہوتا ہے۔ (مکاشفہ ۲۰:۶) اُس ”دن“ پر اس عظیم واقعہ کے آغاز کے وقت پر جوشوخروش کا تصور کریں۔—مقابلہ کریں لوقا ۲۴:۴۱۔
کون واپس آ رہے ہیں؟
۱۳. مکاشفہ ۲۰:۱۲-۱۴ میں قیامت کی بابت کونسی رویا قلمبند کی گئی ہے؟
۱۳ مکاشفہ ۲۰:۱۲-۱۴ میں زمینی قیامت کی بابت یوحنا کی رویا درج ہے: ”پھر مَیں نے چھوٹے بڑے سب مُردوں کو اُس تخت کے سامنے کھڑے ہوئے دیکھا اور کتابیں کھولی گئیں۔ پھر ایک اَور کتاب کھولی گئی یعنی کتابِحیات اور جس طرح اُن کتابوں میں لکھا ہؤا تھا اُنکے اعمال کے مطابق مُردوں کا انصاف کِیا گیا۔ اور سمندر نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دیا اور موت اور عالمِارواح [”قبر،“ اینڈبلیو] نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دیا اور اُن میں سے ہر ایک کے اعمال کے موافق اُسکا انصاف کِیا گیا۔ پھر موت اور عالمِارواح [”قبر،“ اینڈبلیو] آگ کی جھیل میں ڈالے گئے۔ یہ آگ کی جھیل دوسری موت ہے۔“
۱۴. قیامت پانے والوں میں کون شامل ہونگے؟
۱۴ قیامت میں تمام ”چھوٹے بڑے،“ اعلیٰ اور ادنیٰ دونوں طرح کے انسان شامل ہونگے جو زندہ رہ چکے اور مر چکے ہیں۔ شِیرخوار بھی ان میں ہونگے! (یرمیاہ ۳۱:۱۵، ۱۶) اعمال ۲۴:۱۵ میں ایک اَور اہم تفصیل کو آشکارا کِیا گیا ہے: ”راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہوگی۔“ ”راستبازوں“ میں ہابل، حنوک، نوح، ابرہام، سارہ اور راحب جیسے قدیم زمانہ کے وفادار مردوزن نمایاں ہونگے۔ (عبرانیوں ۱۱:۱-۴۰) ان لوگوں کے ساتھ گفتگو کرنے اور قدیم وقتوں کے بائبل واقعات کی بابت مفصل عینی شہادتیں حاصل کرنے کا تصور کریں۔ ”راستبازوں“ میں ایسے ہزاروں خداترس لوگ بھی شامل ہونگے جو حالیہ وقتوں میں ہی مرے ہیں اور جو آسمانی اُمید نہیں رکھتے تھے۔ کیا آپ کے خاندان کا کوئی فرد یا عزیز ان میں ہوگا؟ یہ جاننا کسقدر تسلیبخش ہے کہ آپ انکو دوبارہ دیکھ سکیں گے! تاہم، ”ناراست“ اشخاص کون ہیں جو زندہ ہونگے؟ ان میں ایسے لاکھوں بلکہ کروڑوں انسان شامل ہیں جو بائبل سچائی سیکھنے اور اسکا اطلاق کرنے کا موقع حاصل کئے بغیر ہی مر گئے تھے۔
۱۵. اسکا کیا مطلب ہے کہ واپس آنے والوں کا ”انصاف،“ ”جس طرح کتابوں میں لکھا ہوا تھا“ اُسی کے مطابق کِیا جائیگا؟
۱۵ تاہم ”جس طرح اُن کتابوں میں لکھا ہوا تھا اُنکے اعمال کے مطابق“ واپس آنے والوں کا ”انصاف“ کیسے کِیا جائیگا؟ یہ کتابیں اُنکے ماضی کے کاموں کا ریکارڈ نہیں ہیں؛ جب وہ مرے تو وہ اُن گناہوں سے جو اُنہوں نے اپنی زندگی میں کئے تھے بری ہو گئے تھے۔ (رومیوں ۶:۷، ۲۳) تاہم قیامتیافتہ انسان اُس وقت بھی آدم کے گناہ کے زیرِاثر ہونگے۔ یہی وقت ہوگا جب یہ کتابیں الہٰی ہدایات جاری کرینگی جن پر سب لوگوں کو یسوع مسیح کی قربانی سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کیلئے عمل کرنا ہوگا۔ جب آدم کے گناہ کے آخری آثار کو بھی مٹا دیا جاتا ہے تو مکمل مفہوم میں ’موت کو ختم کر دیا جائیگا۔‘ ہزار سال کے اختتام پر ”سب میں خدا ہی سب کچھ“ ہوگا۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۸) پھر انسان کو سردار کاہن یا فدیہ دینے والے کی مداخلت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ تمام نوعِانسان کو اُس کامل حالت تک پہنچا دیا جائیگا جس کا شروع میں آدم کو تجربہ ہوا تھا۔
ایک بالترتیب قیامت
۱۶. (ا) یہ یقین کرنا کیوں معقول ہے کہ قیامت ایک منظم طریقے سے عمل میں آئیگی؟ (ب) مُردوں میں سے پہلے زندہ ہونے والوں میں غالباً کون شامل ہونگے؟
۱۶ چونکہ آسمانی قیامت ایک منظم طریقے سے ہوگی، ”ہر ایک اپنی اپنی باری سے،“ اسلئے صاف ظاہر ہے کہ زمینی قیامت بھی آبادی کی زیادتی سے کوئی ابتری پیدا نہیں کریگی۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۳) یہ بات بھی قابلِفہم ہے کہ نئے قیامتیافتہ لوگوں کو دیکھبھال کی ضرورت ہوگی۔ (مقابلہ کریں لوقا ۸:۵۵) اُنہیں جسمانی غذا اور—اس سے بھی بڑھ کر—یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کی بابت زندگیبخش علم حاصل کرنے کیلئے روحانی مدد کی ضرورت ہوگی۔ (یوحنا ۱۷:۳) اگر سبھی بیکوقت زندہ ہوتے ہیں تو اُنکی مناسب طور پر دیکھبھال کرنا ناممکن ہوگا۔ لہٰذا یہ خیال کرنا معقول ہے کہ قیامت بتدریج واقع ہوگی۔ غالباً شیطان کے نظامالعمل کے خاتمے سے ذرا پہلے مرنے والے وفادار مسیحی پہلے قیامت پانے والوں میں شامل ہونگے۔ ہم قدیم زمانہ کے وفادار آدمیوں کیلئے بھی پہلے قیامت کی توقع کر سکتے ہیں جو ”شاہزادوں“ کے طور پر خدمت انجام دینگے۔—زبور ۴۵:۱۶۔
۱۷. قیامت سے متعلق بعض معاملات کونسے ہیں جن کی بابت بائبل کچھ نہیں کہتی اور مسیحیوں کو ایسے معاملات کی بابت بیجا فکرمند کیوں نہیں ہونا چاہئے؟
۱۷ تاہم، ہمیں ایسے معاملات کی بابت اِدعاپسند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ بائبل بہت سے معاملات کی بابت خاموش ہے۔ یہ ایسی تفصیلات کی وضاحت نہیں کرتی کہ لوگوں کی قیامت کیسے، کب یا کن مقامات پر واقع ہوگی۔ یہ ہمیں اس سلسلے میں کچھ نہیں بتاتی کہ واپس آنے والوں کو رہائش، خوراک اور لباس کیسے مہیا کِیا جائیگا۔ نہ ہی ہم یقین سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہوواہ قیامتیافتہ بچوں کی پرورش اور دیکھبھال کے مسائل کو کیسے حل کریگا یا پھر وہ ہمارے دوستوں اور عزیزوں سے متعلق بعض معاملات کو کیسے سلجھائے گا۔ یہ سچ ہے کہ ایسی باتوں کی بابت سوچنا فطرتی امر ہے؛ لیکن ایسے سوالوں کا جواب دینے میں وقت ضائع کرنا جو ابھی لاجواب ہیں دانشمندی کی بات نہ ہوگی۔ ہماری توجہ وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرنے اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے پر مُرتکز ہونی چاہئے۔ ممسوح مسیحی پُرجلال آسمانی قیامت پر اُمید رکھتے ہیں۔ (۲-پطرس ۱:۱۰، ۱۱) ”دوسری بھیڑیں“ خدا کی بادشاہت کی زمینی عملداری میں ابدی میراث حاصل کرنے کی اُمید رکھتی ہیں۔ (یوحنا ۱۰:۱۶، اینڈبلیو؛ متی ۲۵:۳۳، ۳۴) جہاں تک قیامت کی بابت بہت سی نامعلوم تفصیلات کا تعلق ہے تو اس کیلئے ہم صرف یہوواہ پر توکل کرتے ہیں۔ ہماری مستقبل کی خوشی اُس کے ہاتھوں میں محفوظ ہے جو ’ہر جاندار کی خواہش پوری‘ کر سکتا ہے۔—زبور ۱۴۵:۱۶؛ یرمیاہ ۱۷:۷۔
۱۸. (ا) پولس کس فتح کو اُجاگر کرتا ہے؟ (ب) ہمیں اُمیدِقیامت پر پُختہ بھروسہ کیوں رکھنا چاہئے؟
۱۸ پولس اپنی بحث اس اعلان کیساتھ ختم کرتا ہے: ”خدا کا شکر ہے جو ہمارے خداوند یسوؔع مسیح کے وسیلہ سے ہم کو فتح بخشتا ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۷) جیہاں، یسوع مسیح کے فدیے کی قربانی کے وسیلے سے آدم کی لائی ہوئی موت پر فتح حاصل کی جاتی ہے اور ممسوح اور ”دوسری بھیڑیں“ دونوں ہی اس فتح میں شریک ہوتے ہیں۔ بِلاشُبہ، آجکل زندہ ”دوسری بھیڑیں“ ایسی اُمید رکھتی ہیں جو صرف اس نسل کا اعزاز ہے۔ ہمہوقت بڑھتی ہوئی ”بڑی بِھیڑ“ کے حصہ کے طور پر وہ آنے والی ”بڑی مصیبت“ سے زندہ بچ سکتے ہیں اور کبھی بھی طبعی موت کا تجربہ نہیں کرینگے! (مکاشفہ ۷:۹، ۱۴) یہانتککہ ”وقت اور حادثہ“ کے باعث یا شیطان کے نمائندوں کے ہاتھوں مرنے والے بھی اُمیدِقیامت پر بھروسہ رکھ سکتے ہیں۔—واعظ ۹:۱۱۔
۱۹. آجکل مسیحیوں کو کس نصیحت پر دھیان دینا چاہئے؟
۱۹ اسلئے ہم اُس شاندار دن کا بڑی شدت سے انتظار کرتے ہیں جب موت کو ختم کر دیا جائیگا۔ یہوواہ کے قیامت کے وعدے پر ہمارا غیرمتزلزل ایمان ہمیں معاملات کی بابت حقیقتپسندانہ نظریہ عطا کرتا ہے۔ اس زندگی میں ہمارے ساتھ خواہ کچھ بھی ہو جائے—خواہ ہم مر ہی جائیں—کوئی بھی ہم سے وہ اجر چھین نہیں سکتا جسکا یہوواہ نے وعدہ فرمایا ہے۔ اسلئے کرنتھیوں کے نام پولس کی آخری نصیحت آج بھی اتنی ہی موزوں ہے جتنیکہ دو ہزار سال پہلے تھی: ”پس اَے میرے عزیز بھائیو! ثابتقدم اور قائم رہو اور خداوند کے کام میں ہمیشہ افزایش کرتے رہو کیونکہ یہ جانتے ہو کہ تمہاری محنت خداوند میں بیفائدہ نہیں ہے۔“—۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۸۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
◻پولس نے اس سوال کا جواب کیسے دیا کہ قیامت کے وقت ممسوح کیسے جسم حاصل کرینگے؟
◻کب اور کیسے موت کو بالآخر ختم کر دیا جائیگا؟
◻زمینی قیامت میں کون شامل ہونگے؟
◻ایسے معاملات کے سلسلے میں ہمارا کیا رجحان ہونا چاہئے جنکی بابت بائبل خاموش ہے؟
[صفحہ 28 پر تصویر]
ایک بیج ڈرامائی تبدیلیوں سے گزر کر ”مرتا“ ہے
[صفحہ 31 پر تصویر]
نوح، ابرہام، سارہ اور راحب جیسے قدیم زمانہ کے وفادار مردوزن قیامت پانے والوں میں شامل ہونگے