کلیسیا کے بزرگ ’خوشی میں آپ کے مددگار ہیں‘
”ہم . . . خوشی میں تمہارے مددگار ہیں۔“—۲-کر ۱:۲۴۔
۱. پولس رسول کونسی خبر سُن کر خوش ہوئے؟
سن ۵۵ء میں پولس رسول کو یہ خبر ملی کہ کُرنتھس کے مسیحی آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں۔ یہ سُن کر اُنہیں بہت دُکھ ہوا۔ وہ اُن مسیحیوں سے ایک باپ کی طرح پیار کرتے تھے۔ اِس لئے اُنہوں نے ایک خط میں اُن کی اصلاح کی۔ (۱-کر ۱:۱۱؛ ۴:۱۵) اِس کے ساتھساتھ پولس رسول نے ططس کو بھی کُرنتھس بھیجا اور اُن سے کہا کہ واپسی پر وہ شہر تروآس میں اُن سے ملیں اور اُنہیں بتائیں کہ کُرنتھس کے مسیحیوں نے خط پڑھ کر کیسا ردِعمل دِکھایا۔ اب پولس رسول تروآس میں بڑی بےچینی سے ططس کا انتظار کر رہے تھے۔ لیکن ططس وہاں نہیں آئے۔ اِس لئے پولس رسول مکدنیہ روانہ ہو گئے جہاں آخرکار اُن کی ملاقات ططس سے ہوئی۔ پولس رسول ططس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ ططس نے پولس رسول کو بتایا کہ کُرنتھس کے مسیحیوں نے اُن کی اصلاح کو قبول کر لیا تھا اور اب وہ اُن سے ملنے کے منتظر ہیں۔ یہ خبر سُن کر پولس رسول ’اَور بھی خوش ہوئے۔‘—۲-کر ۲:۱۲، ۱۳؛ ۷:۵-۹۔
۲. (الف) پولس رسول نے ۲-کرنتھیوں ۱:۲۴ میں کیا لکھا؟ (ب) ہم اِس مضمون میں کن باتوں پر غور کریں گے؟
۲ اِس کے کچھ عرصے بعد پولس رسول نے کُرنتھس کے مسیحیوں کے نام ایک اَور خط لکھا جس میں اُنہوں نے کہا: ”یہ نہیں کہ ہم ایمان کے بارے میں تُم پر حکومت جتاتے ہیں بلکہ خوشی میں تمہارے مددگار ہیں کیونکہ تُم ایمان ہی سے قائم رہتے ہو۔“ (۲-کر ۱:۲۴) آئیں، دیکھیں کہ پولس رسول کے اِن الفاظ کا کیا مطلب تھا اور کلیسیا کے بزرگ اِن الفاظ پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔
ایمان اور خوشی
۳. (الف) پولس رسول کی اِس بات کا کیا مطلب ہے کہ ’تُم ایمان سے قائم رہتے ہو‘؟ (ب) آجکل بزرگ، پولس رسول کی مثال پر کیسے عمل کرتے ہیں؟
۳ پولس رسول نے ۲-کرنتھیوں ۱:۲۴ میں ایمان اور خوشی کا ذکر کِیا۔ یہ ایسی خوبیاں ہیں جو خدا کے ہر خادم میں ہونی چاہئیں۔ ایمان کے بارے میں اُنہوں نے لکھا: ’یہ نہیں کہ ہم ایمان کے بارے میں تُم پر حکومت جتاتے ہیں بلکہ تُم ایمان سے قائم رہتے ہو۔‘ دراصل پولس رسول یہ کہہ رہے تھے کہ ”تُم میرے یا کسی اَور کے کہنے پر خدا کی خدمت نہیں کر رہے ہو بلکہ تُم خدا پر ایمان رکھتے ہو اور اِس لئے اُس کے وفادار ہو۔“ پولس رسول جانتے تھے کہ اُنہیں کُرنتھس کے مسیحیوں پر غیرضروری حکموں کا بوجھ لادنے کی ضرورت نہیں ہے اور وہ ایسا کرنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے تھے۔ اُن کو بھروسا تھا کہ کُرنتھس کے مسیحی خدا کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ (۲-کر ۲:۳) پولس رسول کی طرح آجکل بھی بزرگ اپنی باتوں اور کاموں سے ظاہر کرتے ہیں کہ اُنہیں بہنبھائیوں پر بھروسا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ بہنبھائی وفاداری سے خدا کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ (۲-تھس ۳:۴) وہ بہنبھائیوں کی پیشوائی کرنے کے سلسلے میں اپنی منمانی نہیں کرتے بلکہ بائبل اور یہوواہ خدا کی تنظیم کی ہدایتوں پر عمل کرتے ہیں۔ بِلاشُبہ پولس رسول کی طرح بزرگ بھی اپنے بہنبھائیوں پر حکومت نہیں جتانا چاہتے۔—۱-پطر ۵:۲، ۳۔
۴. (الف) پولس رسول کی اِس بات کا کیا مطلب ہے کہ ’ہم خوشی میں تمہارے مددگار ہیں‘؟ (ب) آجکل بزرگ، پولس رسول کی مثال پر کیسے عمل کرتے ہیں؟
۴ پولس رسول نے ۲-کرنتھیوں ۱:۲۴ میں یہ بھی لکھا: ’ہم خوشی میں تمہارے مددگار ہیں۔‘ جب پولس رسول نے لفظ ہم استعمال کِیا تو وہ کس کی طرف اشارہ کر رہے تھے؟ وہ اپنی اور اپنے ہمخدمتوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں؟ کیونکہ اِسی باب کی اُنیسویں آیت میں جب پولس رسول نے لفظ ہم استعمال کِیا تو اُنہوں نے اپنے ساتھساتھ اپنے دو ہمخدمتوں کا بھی ذکر کِیا۔ اُنہوں نے لکھا: ”یسوؔع مسیح . . . کی مُنادی ہم نے یعنی مَیں نے اور سلوؔانس اور تیمتھیسؔ نے تُم میں کی۔“ (۲-کر ۱:۱۹) اُن دونوں کے علاوہ پولس رسول کے اَور بھی ہمخدمت تھے جن کا اُنہوں نے اپنے خطوں میں ذکر کِیا۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے پرِسکہ، اَکوِلہ،تیمتھیس اور ططس کا ذکر کِیا۔ (روم ۱۶:۳، ۲۱؛ ۲-کر ۸:۲۳) لہٰذا جب پولس رسول نے کہا کہ ’ہم خوشی میں تمہارے مددگار ہیں‘ تو دراصل وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ”مَیں اور میرے ہمخدمت تمہاری مدد کرنا چاہتے ہیں تاکہ تمہاری خوشی میں اضافہ ہو۔“ آجکل بھی کلیسیا کے بزرگ بہنبھائیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ’خوشی سے یہوواہ خدا کی عبادت کر سکیں۔‘—زبور ۱۰۰:۲؛ فل ۱:۲۵۔
۵. (الف) مختلف ملکوں میں کلیسیا کے بہنبھائیوں سے کونسا سوال پوچھا گیا؟ (ب) اِن بہنبھائیوں کے جوابوں پر غور کرتے وقت ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۵ حال ہی میں مختلف ملکوں میں کچھ بہنبھائیوں سے یہ سوال پوچھا گیا: ”ایک بزرگ کی کس بات سے آپ کی خوشی میں اضافہ ہوا ہے؟“ اگر آپ سے یہ سوال پوچھا جاتا تو آپ کیا کہتے؟ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ کچھ بہنبھائیوں نے اِس سوال کا کیا جواب دیا۔ اُن کے جواب کے ساتھ اپنے جواب کا موازنہ کریں۔ اِس کے علاوہ یہ بھی سوچیں کہ آپ اپنی کلیسیا میں خوشی کو کیسے فروغ دے سکتے ہیں۔a
”پیاری پرسسؔ سے سلام کہو“
۶، ۷. (الف) بزرگ کس طریقے سے یسوع مسیح، پولس رسول اور یہوواہ خدا کے دوسرے خادموں کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں؟ (ب) جب ہم اپنے بہنبھائیوں کے نام یاد رکھتے ہیں تو اُن کی خوشی کیوں بڑھتی ہے؟
۶ بہت سے بہنبھائیوں نے کہا کہ جب بزرگ اُنہیں یہ احساس دِلاتے ہیں کہ وہ اُن سے محبت رکھتے ہیں تو اُن کی خوشی بڑھتی ہے۔ بزرگ، بہنبھائیوں کو یہ احساس کیسے دِلاتے ہیں؟ ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ داؤد، الیہو اور یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرتے ہیں۔ (۲-سموئیل ۹:۶؛ ایوب ۳۳:۱؛ لوقا ۱۹:۵ کو پڑھیں۔) خدا کے اِن خادموں نے اُس شخص کا نام استعمال کِیا جس سے وہ بات کر رہے تھے۔ پولس رسول نے بھی اپنے بہنبھائیوں کے نام یاد رکھے اور استعمال کئے۔ یوں اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ وہ بہنبھائیوں کو عزیز رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے اپنے ایک خط کے آخر میں ۲۵ سے زیادہ بہنبھائیوں کے ناموں کا ذکر کِیا اور اُنہیں سلام بھیجا۔ اِس خط میں اُنہوں نے ایک بہن کو یوں سلام بھیجا: ”پیاری پرسسؔ سے سلام کہو۔“—روم ۱۶:۳-۱۵۔
۷ کلیسیا کے کچھ بزرگوں کو بہنبھائیوں کے نام یاد رکھنا مشکل لگتا ہے۔ لیکن جب وہ ایسا کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں تو بہنبھائیوں کو احساس ہوتا ہے کہ بزرگ اُن کی قدر کرتے ہیں۔ (خر ۳۳:۱۷) اور جب بہنبھائی مینارِنگہبانی کے مطالعے کے دوران جواب دینے کے لئے ہاتھ کھڑا کرتے ہیں اور بزرگ اُنہیں نام لے کر بلاتے ہیں تو بہنبھائیوں کی خوشی میں اَور بھی اضافہ ہوتا ہے۔—یوحنا ۱۰:۳ پر غور کریں۔
’پرسس نے خداوند میں بہت محنت کی‘
۸. پولس رسول نے کس لحاظ سے یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کی مثال پر عمل کِیا؟
۸ بہنبھائیوں کی خوشی میں اضافہ کرنے کا ایک اَور طریقہ یہ ہے کہ اُن کو داد دی جائے۔ پولس رسول نے بہنبھائیوں کو اپنی محبت کا احساس دِلانے کے لئے ایسا ہی کِیا۔ اُنہوں نے کُرنتھس کے مسیحیوں کو یوں داد دی: ”مجھے تُم پر بڑا فخر ہے۔“ (۲-کر ۷:۴) اُن کی اِس بات سے کُرنتھس کے مسیحی کتنے خوش ہوئے ہوں گے! پولس رسول نے دوسری کلیسیاؤں کو بھی داد دی۔ (روم ۱:۸؛ فل ۱:۳-۵؛ ۱-تھس ۱:۸) رومیوں کے خط میں جب پولس رسول نے پرسس کا ذکر کِیا تو اُنہوں نے اُن کے بارے میں یہ بھی کہا: ”[اُس] نے خداوند میں بہت محنت کی۔“ (روم ۱۶:۱۲) ذرا سوچیں کہ پرسس کتنی خوش ہوئی ہوں گی کہ پولس رسول نے اُن کی تعریف کی ہے! دراصل پولس رسول نے دوسروں کو داد دینے کے سلسلے میں یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کی مثال پر عمل کِیا۔—مرقس ۱:۹-۱۱؛ یوحنا ۱:۴۷ کو پڑھیں؛ مکا ۲:۲، ۱۳، ۱۹۔
۹. جب بہنبھائی ایک دوسرے کو داد دیتے ہیں تو کلیسیا کی خوشی کیوں بڑھتی ہے؟
۹ آج بھی بزرگ، بہنبھائیوں کو اپنی محبت کا احساس دِلانے کے لئے اُنہیں داد دیتے ہیں۔ (امثا ۳:۲۷؛ ۱۵:۲۳) اِس طرح بہنبھائیوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ بزرگ اُن کی محنت کو دیکھتے ہیں اور اُن کی قدر کرتے ہیں۔ لیکن یہ کیوں اہم ہے کہ بزرگ، بہنبھائیوں کی تعریف کریں؟ اِس سلسلے میں ایک ۵۵ سالہ بہن نے کہا: ”ملازمت پر شاید ہی کوئی میری تعریف کرتا ہے اور سب دوسروں کو نیچا دِکھانے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں۔ اِس لئے جب کلیسیا کے بزرگ مجھے داد دیتے ہیں تو مَیں تازہدم ہو جاتی ہوں اور مجھے احساس ہوتا ہے کہ میرا آسمانی باپ مجھ سے کتنی محبت کرتا ہے۔“ ذرا ایک اَور بھائی کی بات پر غور کریں جو دو بچوں کی پرورش کرنے کی ذمہداری اکیلے ہی اُٹھا رہے ہیں۔ اِس بھائی نے کہا: ”حال ہی میں ایک بزرگ نے میری تعریف کی جس سے مجھے بہت ہمت ملی۔“ بِلاشُبہ جب بزرگ، بہنبھائیوں کی تعریف کرتے ہیں تو بہنبھائیوں کی ہمت اور خوشی بڑھتی ہے۔ اِس طرح وہ تازہدم ہو جاتے ہیں اور زندگی کی راہ پر چلتے تھکتے نہیں۔—یسع ۴۰:۳۱۔
’خدا کے گلّے کی گلّہبانی کرو‘
۱۰، ۱۱. (الف) بزرگ، نحمیاہ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ (ب) بزرگ کیا کر سکتے ہیں تاکہ وہ بہنبھائیوں سے ملاقات کرتے وقت اُنہیں ’کوئی روحانی نعمت دیں‘؟
۱۰ کلیسیا کے بزرگ اَور کس طریقے سے بہنبھائیوں کو اپنی محبت کا احساس دِلاتے ہیں؟ وہ بہنبھائیوں کی حوصلہافزائی کرتے ہیں تاکہ بہنبھائی ایمان پر قائم رہیں۔ (۱-پطرس ۵:۲ کو پڑھیں۔) اِس سلسلے میں وہ پُرانے زمانے کے نگہبانوں کی مثال پر عمل کرتے ہیں۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ جب نحمیاہ نے دیکھا کہ کچھ یہودیوں کی ہمت ٹوٹ گئی ہے تو اُنہوں نے کیا کِیا؟ بائبل میں لکھا ہے کہ نحمیاہ یہ ’دیکھ کر اُٹھے‘ اور اُن کا حوصلہ بڑھایا۔ (نحم ۴:۱۴) آج بھی بزرگ ایسا ہی کرتے ہیں۔ وہ بہنبھائیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے اُن سے ملتے ہیں۔ بزرگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ایسی ملاقاتوں کے دوران وہ اپنے بہنبھائیوں کو ’کوئی روحانی نعمت دیں۔‘ (روم ۱:۱۱) اِس مقصد کو پورا کرنے کے لئے بزرگ کیا کر سکتے ہیں؟
۱۱ ایک بزرگ کو چاہئے کہ کسی بہن یا بھائی سے ملاقات کرنے سے پہلے اِن باتوں پر سوچبچار کرے: ”اُس بہن یا بھائی کو کن مسئلوں کا سامنا ہے؟ مَیں اُس کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کیا کہہ سکتا ہوں؟ مَیں اُس کی حوصلہافزائی کرنے کے لئے کونسی آیتیں استعمال کر سکتا ہوں؟ کیا بائبل میں خدا کے کسی ایسے خادم کی مثال ہے جس کی صورتحال اُس بہن یا بھائی سے ملتیجلتی ہے؟“ جب ایک بزرگ ایسی باتوں پر غور کرکے بہنبھائیوں سے ملاقات کرتا ہے تو وہ اُن کو ”کوئی روحانی نعمت“ دینے کے قابل ہوتا ہے۔ ایسی ملاقاتوں کے دوران بزرگوں کو بہنبھائیوں کی بات توجہ سے سننی چاہئے۔ (یعقو ۱:۱۹) ایک بہن نے کہا: ”جب ایک بزرگ میری بات دھیان سے سنتا ہے تو مجھے بڑی تسلی ملتی ہے۔“—لو ۸:۱۸۔
۱۲. بزرگوں کو کنکن بہنبھائیوں کی حوصلہافزائی کرنی چاہئے؟ اور اِس کی کیا وجہ ہے؟
۱۲ بزرگوں کو کنکن بہنبھائیوں کی حوصلہافزائی کرنی چاہئے؟ پولس رسول نے بزرگوں کو یہ ہدایت دی: ”سارے گلّہ کی خبرداری کرو۔“ (اعما ۲۰:۲۸) بِلاشُبہ کلیسیا کے ہر رُکن کو حوصلہافزائی کی ضرورت ہے یہاں تک کہ ایسے مبشروں اور پہلکاروں کو بھی جو سالوں سے یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔ لیکن اُن کو حوصلہافزائی کی ضرورت کیوں ہے جبکہ اُن کا ایمان تو مضبوط ہوتا ہے؟ کیونکہ کبھیکبھی وہ بھی شیطان کی دُنیا کا مقابلہ کرتےکرتے تھک جاتے ہیں۔ آئیں، اِس سلسلے میں بادشاہ داؤد کی زندگی کے ایک واقعے پر غور کریں۔
ابیشے فوراً داؤد کی مدد کو آئے
۱۳. (الف) اِشبیبنوب نے کس موقعے کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی؟ (ب) ابیشے فوراً داؤد کی مدد کو کیوں آ سکے؟
۱۳ داؤد بادشاہ نوجوان ہی تھے جب اُنہوں نے بڑی دلیری سے جولیت کا مقابلہ کِیا۔ حالانکہ جولیت پہلوانوں کی نسل سے تھے لیکن داؤد نے اُن کو مار ڈالا۔ (۱-سمو ۱۷:۴، ۴۸-۵۱؛ ۱-توا ۲۰:۵، ۸) اِس کے بہت سال بعد داؤد، فلستیوں کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے اور اِس بار بھی اُنہیں ایک ایسے شخص کا مقابلہ کرنا پڑا جو پہلوانوں کی نسل سے تھا۔ اُس شخص کا نام اشبیبنوب تھا۔ (۲-سموئیل ۲۱:۱۶) لیکن اِس بار داؤد کی جان خطرے میں پڑ گئی۔ اِس کی کیا وجہ تھی؟ کیا داؤد ہمت ہار گئے تھے؟ نہیں۔ دراصل داؤد جنگ لڑتے لڑتے تھک گئے تھے۔ اشبیبنوب نے موقعے کا فائدہ اُٹھا کر ’داؤد کو قتل کرنا چاہا۔‘ لیکن جونہی یہ پہلوان داؤد کی طرف بڑھا، ابیشے نے اُس پر حملہ کر دیا اور ’اُس کو ایسی ضرب لگائی کہ اُسے مار دیا۔‘ (۲-سمو ۲۱:۱۵-۱۷) یہ کتنی خوشی کی بات تھی کہ ابیشے نے داؤد کی کیفیت کو بھانپ لیا اور فوراً اُن کی مدد کو پہنچے۔ یوں داؤد موت کے مُنہ میں جانے سے بچ گئے۔ ہم اِس واقعے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۴. (الف) ہم جولیت جیسی بڑی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے قابل کیوں ہیں؟ (ب) کلیسیا کے بزرگ بہنبھائیوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں تاکہ وہ تازہدم ہو جائیں؟ اِس سلسلے میں ایک مثال دیں۔
۱۴ پوری دُنیا میں یہوواہ کے گواہ خدا کی خدمت کر رہے ہیں حالانکہ شیطان اور اُس کے چیلے اُن کی راہ میں بڑی بڑی رُکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ اکثر ہمیں جولیت جیسی بڑی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے لیکن ہم اِن پر غالب آتے ہیں کیونکہ ہم یہوواہ خدا پر بھروسا رکھتے ہیں۔ لیکن کبھیکبھی ہم دُنیا کا مقابلہ کرتےکرتے تھک جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں ہمارے اندر دُنیا کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رہتی۔ اگر ایسی صورتحال میں ایک بزرگ ہماری مدد کو آتا ہے تو ہم تازہدم ہو جاتے ہیں اور ہمیں دوبارہ سے دُنیا کا مقابلہ کرنے کی طاقت ملتی ہے۔ بہت سے بہنبھائیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے۔ ایک ۶۵ سالہ پہلکار نے کہا: ”کچھ عرصہ پہلے میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور مَیں مُنادی کے کام سے بہت تھک جاتی تھی۔ ایک بزرگ نے میری کیفیت کو بھانپ لیا۔ اُنہوں نے مجھ سے باتچیت کی اور مجھے کچھ آیتیں دِکھائیں۔ مَیں نے اُن کے مشوروں پر عمل کِیا جس سے مجھے بہت فائدہ ہوا۔ مجھے اِس بات پر بڑی خوشی ہوئی کہ اُس بزرگ کو میری فکر تھی۔“ ہم بہت شکرگزار ہیں کہ کلیسیا کے بزرگ ابیشے کی مثال پر عمل کرتے ہیں اور ہماری مدد کرنے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
’مَیں بڑی خوشی سے خرچ ہو جاؤں گا‘
۱۵، ۱۶. (الف) بہنبھائی، پولس رسول سے پیار کیوں کرتے تھے؟ (ب) ہم کلیسیا کے بزرگوں سے محبت کیوں کرتے ہیں؟
۱۵ بزرگ کلیسیا کی گلّہبانی کرنے میں بہت محنت کرتے ہیں۔ کبھیکبھار وہ بہنبھائیوں کے بارے میں اِتنے فکرمند ہوتے ہیں کہ وہ آدھی رات کو اُٹھ کر اُن کے لئے دُعا کرتے ہیں۔ اور کبھیکبھی تو وہ بہنبھائیوں کی مدد کرنے کے لئے راتبھر جاگتے بھی رہتے ہیں۔ (۲-کر ۱۱:۲۷، ۲۸) اِس کے باوجود کلیسیا کے بزرگ پولس رسول کی طرح خوشی سے اپنی ذمہداری نبھاتے ہیں۔ پولس رسول نے کُرنتھس کے مسیحیوں کو لکھا: ”تمہاری خاطر مَیں بڑی خوشی سے اپنا سب کچھ خرچ کروں گا بلکہ خود بھی خرچ ہو جاؤں گا۔“ (۲-کر ۱۲:۱۵، نیو اُردو بائبل ورشن) پولس رسول کو اپنے بہنبھائیوں سے اِتنی محبت تھی کہ اُنہوں نے بہنبھائیوں کی مدد کرنے کے لئے خود کو خرچ کر دیا۔ (۲-کرنتھیوں ۲:۴ کو پڑھیں؛ فل ۲:۱۷؛ ۱-تھس ۲:۸) اِسی لئے تو بہنبھائی پولس رسول سے اِتنا پیار کرتے تھے۔—اعما ۲۰:۳۱-۳۸۔
۱۶ ہم بھی کلیسیا کے بزرگوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔ ہم یہوواہ خدا کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اُس نے ہمیں اِتنے مہربان بزرگ دئے ہیں۔ کلیسیا کے بزرگ ہمیں اپنی محبت کا احساس دِلاتے ہیں جس سے ہماری خوشی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب وہ ہماری حوصلہافزائی کرنے کے لئے ہم سے ملاقات کرتے ہیں تو ہم تازہدم ہو جاتے ہیں۔ جب ہم دُنیا کا مقابلہ کرتےکرتے تھک جاتے ہیں تو بزرگ ہماری کیفیت کو بھانپ لیتے ہیں اور ہماری مدد کو آتے ہیں۔ بِلاشُبہ ایسے شفیق بزرگ ’خوشی میں ہمارے مددگار ہیں۔‘
a اِن بہنبھائیوں سے یہ سوال بھی پوچھا گیا کہ ”آپ کے خیال میں ایک بزرگ میں کونسی خوبی ضرور ہونی چاہئے؟“ زیادہتر بہنبھائیوں نے اِس سوال کا جواب یوں دیا: ”ایک بزرگ کا انداز دوستانہ ہونا چاہئے تاکہ اُس سے بات کرتے وقت ڈر نہ لگے۔“ ہم اِس خوبی پر اِس رسالے کے ایک اَور شمارے میں بات کریں گے۔