سچے مسیحی خدا کا جلال منعکس کرتے ہیں
”مبارک ہیں تمہاری آنکھیں اِسلئے کہ وہ دیکھتی ہیں اور تمہارے کان اسلئے کہ وہ سنتے ہیں۔“—متی ۱۳:۱۶۔
۱. موسیٰ کے چہرے کو دیکھنے پر اسرائیلیوں کے ردِعمل کے بارے میں کونسا سوال اُٹھتا ہے؟
بنیاسرائیل کوہِسینا کے سامنے جمع تھے۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے یہوواہ نے اُنکو مصر کی غلامی سے آزاد کِیا تھا۔ بیابان میں اُس نے اُن کے لئے خوراک اور پانی مہیا کِیا۔ جب عمالیقی لشکر نے اُن پر حملہ کِیا تو یہوواہ نے بنیاسرائیل کو فتح بخشی۔ (خروج ۱۴:۲۶-۳۱؛ ۱۶:۲–۱۷:۱۳) اِن تجربوں کی بِنا پر اُنکو یہوواہ کی قُربت محسوس کرنی چاہئے تھی۔ لیکن جب وہ کوہِسینا کے سامنے کھڑے تھے اور بادل گرجنے لگے اور بجلی چمکنے لگی تو وہ خوفزدہ ہو گئے۔ بعد میں جب موسیٰ کوہِسینا سے اُتر آیا تو اسکا چہرہ یہوواہ کے جلال کو دیکھنے کی وجہ سے چمک رہا تھا۔ بنیاسرائیل خدا کے جلال کی یہ جھلک دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے موسیٰ سے دُور رہے۔ وہ ”اُسکے نزدیک آنے سے ڈرے۔“ (خروج ۱۹:۱۰-۱۹؛ ۳۴:۳۰) یہوواہ نے ہر صورتحال میں بنیاسرائیل کی مدد کی تھی۔ توپھر وہ خدا کے جلال کی جھلک کو دیکھ کر کیوں کانپنے لگے؟
۲. بنیاسرائیل موسیٰ کے چہرے کو دیکھ کر کیوں ڈر گئے تھے؟
۲ اس سے کچھ عرصہ پہلے ہونے والے واقعات اسرائیلیوں کے خوف پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔ اُنہوں نے سونے کا ایک بچھڑا بنایا تھا اور یہوواہ نے اُنکو اس نافرمانی پر سزا دی تھی۔ (خروج ۳۲:۴، ۳۵) زیادہتر اسرائیلیوں نے یہوواہ کی اصلاح کو قبول نہ کِیا۔ اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے موسیٰ نے سونے کے بچھڑے کے معاملے اور اسرائیلیوں کی کچھ اَور نافرمانیوں کی یاد دِلا کر اُن سے کہا: ”تُم نے [یہوواہ] اپنے خدا کے حکم کو عدول کِیا اور اُس پر ایمان نہ لائے اور اُسکی بات نہ مانی۔ جس دن سے میری تُم سے واقفیت ہوئی ہے تُم برابر [یہوواہ] سے سرکشی کرتے رہے ہو۔“—استثنا ۹:۱۵-۲۴۔
۳. اسرائیلیوں کی وجہ سے موسیٰ کو کیا کرنا پڑا؟
۳ جب موسیٰ کو معلوم ہوا کہ اسرائیلی اُسکے چہرے کو دیکھ کر خوفزدہ ہیں تو اُس نے کیا کِیا؟ بائبل اسکو یوں بیان کرتی ہے: ”جب موسیٰؔ ان سے باتیں کر چکا تو اُس نے اپنے مُنہ پر نقاب ڈال لیا۔ اور جب موسیٰؔ [یہوواہ] سے باتیں کرنے کیلئے اُسکے سامنے جاتا تو باہر نکلنے کے وقت تک نقاب کو اُتارے رہتا تھا اور جو حکم اُسے ملتا تھا وہ اُسے باہر آ کر بنیاِسرائیل کو بتا دیتا تھا۔ اور بنیاِسرائیل موسیٰؔ کے چہرے کو دیکھتے تھے کہ اُسکے چہرے کی جِلد چمک رہی ہے اور جب تک موسیٰؔ خداوند سے باتیں کرنے نہ جاتا تب تک اپنے مُنہ پر نقاب ڈالے رہتا تھا۔“ (خروج ۳۴:۳۳-۳۵) موسیٰ کو اپنے چہرے پر نقاب کیوں ڈالنا پڑا؟ ہم اس واقعے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ ان سوالات پر غور کرنے سے ہم اندازہ لگا سکیں گے کہ ہم یہوواہ کے کتنے قریب ہیں۔
اُنہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں
۴. پولس رسول نے اسرائیلیوں کے بارے میں کونسا نتیجہ اخذ کِیا؟
۴ پولس رسول نے ظاہر کِیا کہ موسیٰ نے اپنے چہرے پر نقاب کیوں ڈالا تھا۔ دراصل ہم اس واقعے سے اسرائیلیوں کی سوچ اور اُنکے دلوں کی سختی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ پولس نے لکھا: ”بنیاسرائیل موسیٰؔ کے چہرے پر اس جلال کے سبب سے جو اسکے چہرے پر تھا غور سے نظر نہ کر سکے۔ . . . انکے خیالات کثیف ہو گئے۔“ (۲-کرنتھیوں ۳:۷، ۱۴) یہ کتنی افسوس کی بات تھی کہ بنیاسرائیل بُرے خیالات رکھتے تھے۔ وہ یہوواہ کی خاص قوم تھے۔ خدا چاہتا تھا کہ وہ اُسکے نزدیک جائیں۔ (خروج ۱۹:۴-۶) لیکن وہ اُسکے جلال کی جھلک پر نظر تک نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ پورے دل سے یہوواہ کی خدمت کرنے کی بجائے وہ خدا کی راہوں سے ہٹ گئے تھے۔
۵، ۶. (ا) موسیٰ کے زمانے اور پولس کے زمانے کے یہودیوں میں کونسی باتیں ملتیجلتی ہیں؟ (ب) یہودیوں اور یسوع کے شاگردوں میں کونسا فرق پایا جاتا ہے؟
۵ جس وقت پولس نے مسیحیت کو اپنایا تھا اُس وقت شریعت کی جگہ نیا عہد عائد ہو چکا تھا۔ جسطرح شریعت کا درمیانی موسیٰ تھا اسی طرح نئے عہد کا درمیانی یسوع مسیح ہے۔ یسوع نے اپنے سارے اعمال اور اپنی ساری تعلیم میں یہوواہ کا جلال منعکس کِیا۔ پولس رسول نے لکھا کہ یسوع ”[خدا] کے جلال کا پرتَو اور اُسکی ذات کا نقش“ ہے۔ (عبرانیوں ۱:۳) یہودیوں کو خدا کے بیٹے کی زبان سے ہمیشہ کی زندگی کی باتیں سننے کا موقع ملا۔ لیکن ان کی اکثریت نے یسوع کی تعلیم پر توجہ نہیں دی۔ یسوع نے یسعیاہ نبی کا حوالہ دیتے ہوئے ان یہودیوں کے بارے میں کہا: ”اِس اُمت کے دل پر چربی چھا گئی ہے اور وہ کانوں سے اُونچا سنتے ہیں اور اُنہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں تا اَیسا نہ ہو کہ آنکھوں سے معلوم کریں اور کانوں سے سنیں اور دل سے سمجھیں اور رُجوع لائیں اور مَیں اُنکو شفا بخشوں۔“—متی ۱۳:۱۵؛ یسعیاہ ۶:۹، ۱۰۔
۶ لیکن یسوع کے شاگرد ان یہودیوں کی طرح نہیں تھے۔ یسوع نے انکے بارے میں کہا: ”مبارک ہیں تمہاری آنکھیں اِسلئے کہ وہ دیکھتی ہیں اور تمہارے کان اسلئے کہ وہ سنتے ہیں۔“ (متی ۱۳:۱۶) سچے مسیحی یہوواہ کے نزدیک جانے اور اُسکی خدمت کرنے سے خوش ہوتے ہیں۔ وہ بائبل سے اُسکی مرضی کو دریافت کرکے اسکو خوشی سے بجا لاتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ممسوح مسیحی نئے عہد کے خادموں کے طور پر یہوواہ کا جلال منعکس کرتے ہیں۔ اسی طرح زمینی اُمید رکھنے والے مسیحی بھی ایسا کرتے ہیں۔—۲-کرنتھیوں ۳:۶، ۱۸۔
اُنکے دل پر پردہ کیوں پڑا ہے؟
۷. زیادہتر لوگ خوشخبری کو کیوں رد کرتے ہیں؟
۷ زیادہتر یہودیوں نے موسیٰ اور یسوع کے ذریعے یہوواہ کے نزدیک جانے کا موقع کھو دیا۔ ہمارے زمانے میں بھی زیادہتر لوگ خوشخبری کو رد کر دیتے ہیں۔ پولس رسول اسکی وجہ یوں بیان کرتا ہے: ”اگر ہماری خوشخبری پر پردہ پڑا ہے تو ہلاک ہونے والوں ہی کے واسطے پڑا ہے۔ یعنی ان بےایمانوں کے واسطے جنکی عقلوں کو اِس جہان کے خدا نے اندھا کر دیا ہے۔“ (۲-کرنتھیوں ۴:۳، ۴) جیہاں، شیطان خوشخبری کو لوگوں سے چھپائے رکھنا چاہتا ہے۔ اسکے علاوہ بعض لوگ اپنی مرضی سے بھی خوشخبری سے مُنہ موڑ لیتے ہیں۔
۸. بعض لوگ یہوواہ کو کیسے ناراض کرتے ہیں، اور ہم اس خطرے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
۸ بہت سے لوگ انجانے میں اپنی روحانی آنکھیں بند کر دیتے ہیں۔ بائبل میں لکھا ہے کہ ”اُن کی عقل تاریک ہو گئی ہے اور وہ اس نادانی کے سبب سے جو ان میں ہے . . . خدا کی زندگی سے خارج ہیں۔“ (افسیوں ۴:۱۸) مسیحی بننے سے پہلے پولس نے ایسی ہی نادانی کی وجہ سے خدا کی کلیسیا کو ستایا تھا۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۹) لیکن یہوواہ نے اُس کی آنکھیں کھول دیں۔ پولس نے کہا: ”مجھ پر رحم اسلئے ہوا کہ یسوؔع مسیح مجھ بڑے گنہگار میں اپنا کمال تحمل ظاہر کرے تاکہ جو لوگ ہمیشہ کی زندگی کیلئے اس پر ایمان لائیں گے ان کے لئے مَیں نمونہ بنوں۔“ (۱-تیمتھیس ۱:۱۶) پولس کی طرح بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے پہلے تو سچائی کو رد کر دیا تھا لیکن جو اب خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔ اسلئے ہمیں ان لوگوں کو بھی گواہی دینی چاہئے جو ہماری مخالفت کر رہے ہیں۔ اسکے علاوہ ہمیں خود بھی باقاعدگی سے خدا کے کلام کا مطالعہ کرنا اور اسکو اچھی طرح سے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ایسا کرنے سے ہم انجانے میں یہوواہ کو ناراض کرنے سے بچے رہیں گے۔
۹، ۱۰. (ا) پہلی صدی کے یہودی نئی باتیں سیکھنے اور اپنی سوچ بدلنے کے بارے میں کیسا رُجحان رکھتے تھے؟ (ب) کیا چرچوں میں بھی کچھ ایسا ہی رُجحان پایا جاتا ہے؟ وضاحت کیجئے۔
۹ اسکے علاوہ بعض لوگوں نے اپنی روحانی آنکھیں اسلئے بند کر لی ہیں کیونکہ وہ نئی باتیں سیکھنے اور اپنی سوچ بدلنے سے انکار کرتے ہیں۔ بہتیرے یہودیوں نے اِسی وجہ سے یسوع مسیح اور اُسکی تعلیم کو رد کر دیا تھا۔ وہ موسیٰ کی شریعت کو ترک نہیں کرنا چاہتے تھے۔ خوشی کی بات ہے کہ تمام یہودی ایسا رُجحان نہیں رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر جب اُنہوں نے دیکھا کہ یسوع کو موت سے زندہ کر دیا گیا ہے تو ”کاہنوں کی بڑی گروہ اِس دین کے تحت میں ہو گئی۔“ (اعمال ۶:۷) البتہ یہودیوں کی اکثریت کے بارے میں پولس کو کہنا پڑا کہ ”آج تک جب کبھی موسیٰؔ کی کتاب پڑھی جاتی ہے تو انکے دل پر پردہ پڑا رہتا ہے۔“ (۲-کرنتھیوں ۳:۱۵) پولس ان الفاظ سے ضرور واقف تھا جو یسوع نے یہودی رہنماؤں سے کہے تھے: ”تُم کتابِمُقدس میں ڈھونڈتے ہو کیونکہ سمجھتے ہو کہ اُس میں ہمیشہ کی زندگی تمہیں ملتی ہے اور یہ وہ ہے جو میری گواہی دیتی ہے۔“ (یوحنا ۵:۳۹) صحیفوں میں تحقیق کرنے سے یہودیوں کو سمجھ لینا چاہئے تھا کہ یسوع ہی موعودہ مسیحا ہے۔ لیکن مسیحا کی شناخت کے بارے میں وہ اپنا ہی نظریہ رکھتے تھے۔ یسوع کے معجزوں کو دیکھ کر بھی انکی سوچ نہیں بدلی۔
۱۰ آجکل چرچوں میں کچھ ایسا ہی رُجحان پایا جاتا ہے۔ یہودیوں کی طرح انکے زیادہتر رُکن بھی ”خدا کے بارے میں غیرت تو رکھتے ہیں مگر سمجھ کیساتھ نہیں۔“ (رومیوں ۱۰:۲) اُن میں سے بعض بائبل میں تحقیق تو کرتے ہیں۔ لیکن وہ اس میں پائے جانے والی سچائی کو قبول نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر وہ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ یہوواہ اپنے لوگوں کو دیانتدار اور عقلمند نوکر جماعت کے ذریعے تعلیم دیتا ہے۔ (متی ۲۴:۴۵) اسکے برعکس ہم سمجھ گئے ہیں کہ یہوواہ اپنے لوگوں کو اس جماعت کے ذریعے سکھاتا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سچائی کی سمجھ آہستہ آہستہ بڑھتی ہے۔ (امثال ۴:۱۸) جب ہم یہوواہ کی تعلیم کو قبول کرتے ہیں تو ہمیں اُسکے مقصد اور اُسکی مرضی کو سمجھنے کا شرف حاصل ہوتا ہے۔
۱۱. بعض لوگوں نے کسطرح جانبُوجھ کر حقائق کو نظرانداز کِیا ہے؟
۱۱ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو جانبُوجھ کر حقائق کو نظرانداز کرتے ہیں۔ بائبل کی ایک پیشینگوئی کے مطابق، جب ہم مسیح کی موجودگی کا اعلان کرتے ہیں تو بعض لوگ ہمارے اور ہمارے پیغام کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ پطرس نے لکھا کہ نوح کے زمانے میں بھی لوگ ”جانبُوجھ کر یہ بھول گئے“ تھے کہ خدا اُن پر ایک طوفان لانے والا ہے۔ (۲-پطرس ۳:۳-۶) آج بھی بہت سے لوگ جو مسیحی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خدا رحیم، مہربان اور گُناہوں کا بخشنے والا ہے۔ لیکن وہ جانبُوجھ کر بھول جاتے ہیں کہ یہوواہ گنہگاروں کو سزا ضرور دے گا۔ (خروج ۳۴:۶، ۷) اسکے برعکس، سچے مسیحی یہ سمجھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ خدا اپنے کلام میں درحقیقت کیا کہتا ہے۔
۱۲. بعض لوگ رسمورواج کی پیروی کرنے سے روحانی طور پر کیوں اندھے ہو گئے ہیں؟
۱۲ چرچوں کے بہتیرے رُکن رسمورواج کی پیروی کرنے کی وجہ سے روحانی طور پر اندھے ہو گئے ہیں۔ یسوع نے یہودیوں کے مذہبی رہنماؤں سے کہا: ”تُم نے اپنی روایت سے خدا کا کلام باطل کر دیا۔“ (متی ۱۵:۶) جب یہودی بابل کی اسیری سے واپس لوٹے تو وہ جوشوجذبے سے یہوواہ کی عبادت کرنے لگے۔ لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اُنکے مذہبی رہنما مغرور اور ریاکار ہو گئے۔ خدا کی عزت کرنے کی بجائے وہ مذہبی عیدوں کو مناتے وقت اپنے رسمورواج کو زیادہ اہمیت دینے لگے۔ (ملاکی ۱:۶-۸) یسوع کے زمانے تک یہودیوں نے موسیٰ کی شریعت کے علاوہ بھی بیشمار روایتیں عائد کر لی تھیں۔ لیکن وہ شریعت میں پائے جانے والے اہم اصولوں پر نہیں چل رہے تھے۔ اسلئے یسوع نے اُنکو ریاکار قرار دیا۔ (متی ۲۳:۲۳، ۲۴) سچے مسیحیوں کو خبردار رہنا چاہئے کہ وہ انسانی رسمورواج کی خاطر خدا کی خالص عبادت سے ہٹ نہ جائیں۔
’اندیکھے کو دیکھنا‘
۱۳. موسیٰ نے کن دو طریقوں سے خدا کا جلال دیکھا تھا؟
۱۳ موسیٰ نے خدا کے جلال کو دیکھنے کی درخواست کی تھی اسلئے یہوواہ نے اُسے اپنے جلال کی جھلک دِکھائی۔ جب موسیٰ خیمۂاجتماع میں داخل ہوتا تو وہ اپنے چہرے سے نقاب ہٹا لیتا تھا۔ موسیٰ خدا کا ایماندار خادم تھا اور اُسکی مرضی پر چلتا تھا۔ لیکن موسیٰ کو نہ صرف کوہِسینا پر خدا کے جلال کی جھلک دکھائی دی تھی۔ بلکہ اُسکے چالچلن سے بھی ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ایمان کی آنکھوں سے خدا کو دیکھ رہا تھا۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ موسیٰ ”اندیکھے کو گویا دیکھ کر ثابتقدم رہا۔“ (عبرانیوں ۱۱:۲۷؛ خروج ۳۴:۵-۷) خدا کا جلال نہ صرف کچھ عرصے تک اُسکے چہرے سے منعکس ہوا بلکہ موسیٰ نے اسرائیلیوں کو یہوواہ کی طرف مائل کرنے سے بھی خدا کا جلال منعکس کِیا۔
۱۴. یسوع نے خدا کا جلال کسطرح دیکھا، اور اُس نے اس جلال کو کسطرح منعکس کِیا؟
۱۴ کائنات کی خلقت سے بہت عرصہ پہلے یسوع مسیح آسمان میں یہوواہ خدا کیساتھ رہ رہا تھا۔ اسکا مطلب ہے کہ وہ مُدتوں سے خدا کا جلال براہِراست دیکھ رہا تھا۔ (امثال ۸:۲۲، ۳۰) اس عرصے کے دوران یہوواہ اور یسوع کے درمیان ایک گہرا، پُرمحبت رشتہ قائم ہوا۔ یہوواہ خدا نے یسوع سے اپنے پیار کا اظہار کِیا۔ اُسکی خوشنودی اپنے پہلوٹھے بیٹے میں تھی۔ یسوع بھی اپنے خالق یہوواہ خدا سے گہری محبت رکھتا تھا۔ (یوحنا ۱۴:۳۱؛ ۱۷:۲۴) یہوواہ اور یسوع ایک دوسرے سے ایسی ہی محبت رکھتے تھے جسطرح باپ اور بیٹا رکھتے ہیں۔ موسیٰ کی طرح یسوع نے بھی اپنی تعلیم کے ذریعے یہوواہ کا جلال منعکس کِیا۔
۱۵. یہوواہ کے جلال کے بارے میں سیکھنے پر مسیحیوں کا کِیا ردِعمل رہتا ہے؟
۱۵ موسیٰ اور یسوع کی طرح آج بھی یہوواہ کے گواہ خدا کا جلال منعکس کرنا چاہتے ہیں۔ اُنہوں نے خوشخبری سے مُنہ نہیں پھیرا ہے۔ پولس رسول نے لکھا: ”جب کبھی انکا دل [یہوواہ] کی طرف پھرے گا تو وہ پردہ اُٹھ جائے گا۔“ (۲-کرنتھیوں ۳:۱۶) ہمارا دل یہوواہ کی طرف پھر گیا ہے۔ اسلئے ہم پاک صحائف کا مطالعہ کرتے اور خدا کی مرضی پر چلنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ جب ہم یہوواہ کے ممسوح بادشاہ یسوع مسیح میں خدا کے جلال کا عکس پاتے ہیں تو ہم خوش ہو کر اُسکے نقشِقدم پر چلتے ہیں۔ موسیٰ اور یسوع کی طرح ہمیں بھی دوسروں کو خدا کے جلال کے بارے میں تعلیم دینے کا کام سونپا گیا ہے۔
۱۶. سچائی کو جاننے سے ہمیں کونسے فائدے ہوتے ہیں؟
۱۶ یسوع نے دُعا میں کہا: ”اَے باپ . . . مَیں تیری حمد کرتا ہوں کہ تُو نے یہ باتیں داناؤں اور عقلمندوں سے چھپائیں اور بچوں پر ظاہر کیں۔“ (متی ۱۱:۲۵) یہوواہ خدا اپنے آپکو اور اپنے مقصد کو خلوصدل اور عاجز لوگوں پر ظاہر کرتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱:۲۶-۲۸) وہ ہماری حفاظت کرتا اور ہمیں ایسی تعلیم دیتا ہے جس پر عمل کرنے سے ہماری زندگی خوشحال ہو سکتی ہے۔ یہوواہ کے جلال کے بارے میں سیکھنے پر ہم اُسکے نزدیک جانا چاہتے ہیں۔ ہم شکرگزار ہیں کہ یہوواہ ہمیں بہت سے مختلف طریقوں سے اپنے بارے میں تعلیم دیتا ہے۔
۱۷. ہم یہوواہ کی خوبیوں کے بارے میں کیسے سیکھ سکتے ہیں؟
۱۷ پولس رسول نے ممسوح مسیحیوں کو لکھا: ”جب ہم سب کے بےنقاب چہروں سے [یہوواہ] کا جلال اسطرح منعکس ہوتا ہے جسطرح آئینہ میں تو . . . ہم اسی جلالی صورت میں درجہ بدرجہ بدلتے جاتے ہیں۔“ (۲-کرنتھیوں ۳:۱۸) چاہے ہم آسمان پر یا پھر زمین پر ہمیشہ تک رہنے کی اُمید رکھتے ہوں، جب ہم خدا کے کلام سے اُس کی خوبیوں کے بارے میں سیکھتے ہیں تو ہم اِن خوبیوں کی عکاسی کرنے لگتے ہیں۔ اور جب ہم یسوع مسیح کی زندگی اور تعلیم پر غور کرتے ہیں تو ہم یہوواہ کی خوبیوں کی عکاسی کرنے میں اَور بھی ترقی کرتے ہیں۔ اسطرح یہوواہ خدا کی بڑائی اور ستائش ہوتی ہے۔ یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ ہمیں یہوواہ خدا کے جلال کو منعکس کرنے کا شرف حاصل ہے۔
کیا آپکو یاد ہے؟
• بنیاسرائیل موسیٰ کے چہرے پر خدا کے جلال کی جھلک کو دیکھ کر کیوں ڈر گئے؟
• کن وجوہات سے پہلی صدی میں خوشخبری پر ’پردہ پڑا‘ تھا، اور آجکل ایسا کیوں ہوتا ہے؟
• ہم خدا کا جلال کیسے منعکس کر سکتے ہیں؟
[صفحہ ۱۹ پر تصویر]
بنیاسرائیل موسیٰ کے چہرے پر خدا کے جلال کو دیکھ کر ڈر گئے
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
پولس کی طرح بہت سے ایسے لوگ جنہوں نے پہلے تو سچائی کو رد کر دیا تھا، اب خدا کی خدمت کر رہے ہیں
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
یہوواہ کے خادم اُسکے جلال کو منعکس کرتے ہیں