اپنی تعلیم کی خبرداری کر
”اپنی اور اپنی تعلیم کی خبرداری کر۔ ان باتوں پر قائم رہ کیونکہ ایسا کرنے سے تُو اپنی اور اپنے سننے والوں کی بھی نجات کا باعث ہوگا۔—۱-تیمتھیس ۴:۱۶۔
۱، ۲. آجکل سرگرم اُستادوں کی ضرورت کیوں ہے؟
”جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ . . . اور اُنکو یہ تعلیم دو کہ ان سب باتوں پر عمل کریں جنکا مَیں نے تمکو حکم دیا۔“ (متی ۲۸:۱۹، ۲۰) یسوع مسیح کے اس حکم کے پیشِنظر، تمام سچے مسیحیوں کو اُستاد بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس سے پہلے کے بہت دیر ہو جائے خدا کا علم حاصل کرنے میں راستدل اشخاص کی مدد کرنے کیلئے سرگرم اُستادوں کی ضرورت ہے۔ (رومیوں ۱۳:۱۱) پولس رسول نے تاکید کی: ”کلام کی منادی کر وقت اور بےوقت مستعد رہ۔“ (۲-تیمتھیس ۴:۲) یہ کلیسیا کے اندر اور باہر تعلیم دینے کا تقاضا کرتا ہے۔ بِلاشُبہ، منادی کرنے کے اس حکم میں خدا کے پیغام کا محض اعلان کرنے سے زیادہ کچھ شامل ہے۔ اگر دلچسپی رکھنے والے اشخاص کو شاگرد بنانا مقصود ہے تو مؤثر تعلیم ضروری ہے۔
۲ ہم ”بُرے دنوں“ میں رہتے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱) دُنیوی فیلسوفیوں اور جھوٹی تعلیمات نے لوگوں کی ذہنی صلاحیتوں کو سَلب کر لیا ہے۔ بہتیروں کی ”عقل تاریک ہو گئی ہے“ اور وہ ”سُن“ ہو گئے ہیں۔ (افسیوں ۴:۱۸، ۱۹) بعض کو جذباتی طور پر دردناک زخم لگے ہیں۔ جیہاں، لوگ واقعی ”اُن بھیڑوں کی مانند جن کا چرواہا نہ ہو خستہحال اور پراگندہ“ ہیں۔ (متی ۹:۳۶) تاہم، تعلیم دینے کا فن بروئےکار لانے سے ہم راستدل اشخاص کی ضروری تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے مدد کر سکتے ہیں۔
کلیسیا میں اُستاد
۳. (ا) تعلیم دینے کی بابت یسوع کے حکم میں کیا کچھ شامل ہے؟ (ب) کلیسیا میں تعلیم دینے کی بنیادی ذمہداری کس کی ہے؟
۳ گھریلو بائبل مطالعوں کے بندوبست کے ذریعے، لاکھوں لوگ ذاتی تعلیموتربیت حاصل کر رہے ہیں۔ تاہم، بپتسمے کے بعد بھی نئے اشخاص کو ”جڑ [پکڑنے] اور بنیاد قائم“ کرنے کیلئے مزید مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ (افسیوں ۳:۱۷) جب ہم متی ۲۸:۱۹، ۲۰ میں درج یسوع کے حکم پر عمل کرتے ہیں اور نئے اشخاص کو یہوواہ کی تنظیم کی طرف راغب کرتے ہیں تو وہ کلیسیا کے اندر تعلیم پانے سے مستفید ہوتے ہیں۔ افسیوں ۴:۱۱-۱۳ کے مطابق، آدمیوں کو ”چرواہا اور اُستاد بنا کر دے دیا“ گیا ہے ”تاکہ مُقدس لوگ کامل بنیں اور خدمتگزاری کا کام کِیا جائے اور مسیح کا بدن ترقی پائے۔“ بعضاوقات اُنکے تعلیم دینے کے فن میں ”ہر طرح کے تحمل . . . کے ساتھ [سمجھانے] اور ملامت اور نصیحت“ کرنے کی ضرورت شامل ہوتی ہے۔ (۲-تیمتھیس ۴:۲) اُستادوں کا کام اتنا اہم تھا کہ کرنتھیوں کو لکھتے وقت پولس، رسولوں اور نبیوں کے فوراً بعد اُستادوں کو فہرست میں شامل کرتا ہے۔—۱-کرنتھیوں ۱۲:۲۸۔
۴. تعلیم دینے کی خوبی عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵ میں درج پولس کی مشورت پر عمل کرنے کیلئے ہماری مدد کیسے کرتی ہے؟
۴ یہ سچ ہے کہ تمام مسیحی، بزرگوں یا نگہبانوں کے طور پر خدمت انجام نہیں دیتے۔ پھربھی سب کی حوصلہافزائی کی جاتی ہے کہ ایک دوسرے کو ”محبت اور نیک کاموں کی ترغیب“ دیں۔ (عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵) اجلاسوں پر ایسا کرنے میں خوب تیارشُدہ، دلی تبصرے پیش کرنا شامل ہے جو دوسروں کی تعمیروترقی اور حوصلہافزائی کر سکتے ہیں۔ تجربہکار بادشاہتی مبشر بھی میدانی خدمتگزاری کے دوران نئے اشخاص کیساتھ اپنے علم اور تجربے کی بابت گفتگو کرنے سے ’نیک کاموں کی ترغیب‘ دے سکتے ہیں۔ ایسے اوقات اور غیررسمی مواقع پر قابلِقدر تعلیموتربیت فراہم کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، پُختہ عورتوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ ”اچھی باتیں سکھانے والی ہوں۔“—ططس ۲:۳۔
یقین دلایا گیا
۵، ۶. (ا) سچی مسیحیت جھوٹی پرستش سے کیسے فرق ہے؟ (ب) بزرگ دانشمندانہ فیصلے کرنے میں نئے اشخاص کی مدد کیسے کرتے ہیں؟
۵ لہٰذا اس سلسلے میں سچی مسیحیت جھوٹے مذاہب سے بالکل فرق ہے جو اپنے ارکان کی سوچ کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب یسوع زمین پر تھا تو مذہبی پیشوا لوگوں کی زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو انسانساختہ سخت روایات سے قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ (لوقا ۱۱:۴۶) مسیحی دُنیا کے پادری طبقے نے بھی اکثر ایسا ہی کِیا ہے۔
۶ تاہم، سچی پرستش ہماری ”عبادت“ ہے جسے ہم ”معقول“ طریقے سے عمل میں لاتے ہیں۔ (رومیوں ۱۲:۱) یہوواہ کے خادموں کو اسکا ”یقین . . . دلایا گیا“ ہے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۴) بعضاوقات، ممکن ہے کہ کلیسیا کے عمدہ انتظام کے لئے پیشواؤں کو کچھ رہبر خطوط یا ضوابط متعارف کرنے کی ضرورت پڑے۔ تاہم، ساتھی مسیحیوں کی خاطر فیصلے کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے، بزرگ اُنہیں ”نیکوبد میں امتیاز“ کرنا سکھاتے ہیں۔ (عبرانیوں ۵:۱۴) بزرگ بنیادی طور پر ”ایمان اور . . . اچھی تعلیم کی باتوں“ کے ساتھ کلیسیا کو تقویت بخشنے سے ایسا کرتے ہیں۔—۱-تیمتھیس ۴:۶۔
اپنی تعلیم کی خبرداری کرنا
۷، ۸. (ا) محدود صلاحیتوں والے لوگ اُستادوں کے طور پر خدمت کرنے کے لائق کیسے ہیں؟ (ب) کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ مؤثر اُستاد بننے کے لئے ذاتی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے؟
۷ تاہم، آئیے اب تعلیم دینے کی اپنی عمومی تفویض کی طرف واپس چلتے ہیں۔ کیا اس کام میں شرکت کرنے کیلئے کسی خاص قسم کی مہارتوں، تعلیم یا صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے؟ ضروری نہیں۔ اسلئےکہ اس عالمگیر تعلیمی کام کو زیادہتر محدود لیاقتوں کے مالک عام لوگ ہی انجام دے رہے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱:۲۶-۲۹) پولس وضاحت کرتا ہے: ”ہمارے پاس یہ خزانہ [خدمتگزاری] مٹی کے برتنوں [ناکامل اجسام] میں رکھا ہے تاکہ یہ حد سے زیادہ قدرت ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے معلوم ہو۔“ (۲-کرنتھیوں ۴:۷) عالمی بادشاہتی منادی کے کام کو حاصل ہونے والی بےپناہ کامیابی یہوواہ کی روح کی طاقت کا واضح ثبوت ہے!
۸ تاہم، خود کو ”ایسے کام کرنے والے“ شخص کے طور پر ”پیش کرنے“ کیلئے مخلصانہ ذاتی کوشش درکار ہے ”جس کو شرمندہ ہونا نہ پڑے اور جو حق کے کلام کو درستی سے کام میں لاتا ہو۔“ (۲-تیمتھیس ۲:۱۵) پولس نے تیمتھیس کو تاکید کی: ”اپنی اور اپنی تعلیم کی خبرداری کر۔ ان باتوں پر قائم رہ کیونکہ ایسا کرنے سے تُو اپنی اور اپنے سننے والوں کی بھی نجات کا باعث ہوگا۔“ (۱-تیمتھیس ۴:۱۶) پس کوئی کیسے کلیسیا کے اندر اور باہر اپنی تعلیم کی خبرداری کرتا ہے؟ کیا ایسا کرنے کیلئے واقعی خاص مہارتوں یا تعلیمی طریقوں کی ضرورت ہوتی ہے؟
۹. کیا چیز فطری صلاحیتوں سے بھی زیادہ اہم ہے؟
۹ یسوع نے اپنے مشہور پہاڑی وعظ میں تعلیم دینے کے طریقوں کے سلسلے میں واقعی غیرمعمولی وسیعالنظری کا مظاہرہ کِیا تھا۔ جب وہ اپنی باتیں ختم کر چکا تو ”بِھیڑ اُس کی تعلیم سے حیران ہوئی۔“ (متی ۷:۲۸) بِلاشُبہ، ہم میں سے کوئی بھی یسوع کی طرح عمدگی سے تعلیم نہیں دے سکتا۔ تاہم، مؤثر اُستاد بننے کے لئے ہمیں فصیح مقرر ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایوب ۱۲:۷ تو یہاں تک بیان کرتی ہے کہ ”حیوان“ اور ”پرندے“ بھی کچھ کہے بغیر ہی تعلیم دے سکتے ہیں! ہماری فطری صلاحیتوں یا مہارتوں کے ساتھ ساتھ بالخصوص اہم بات یہ ہے کہ ہم ”کس قسم کے شخص“ ہیں—ہم کن خوبیوں کے مالک ہیں اور ہم نے کونسی روحانی عادات پیدا کر لی ہیں جن کی طالبعلم نقل کر سکتے ہیں۔—۲-پطرس ۳:۱۱، اینڈبلیو؛ لوقا ۶:۴۰۔
خدا کے کلام کے طالبعلم
۱۰. یسوع نے خدا کے کلام کے طالبعلم کے طور پر کیسے ایک عمدہ نمونہ قائم کِیا؟
۱۰ روحانی سچائیوں کے اثرآفرین اُستاد کو خدا کے کلام کا طالبعلم ہونا چاہئے۔ (رومیوں ۲:۲۱) یسوع مسیح نے اس سلسلے میں نمایاں مثال قائم کی۔ اپنی خدمتگزاری کے دوران، یسوع نے عبرانی صحائف کی تقریباً نصف کُتب میں پائے جانے والے اقتباسات کا یا تو حوالہ دیا یا پھر اُنکے مماثل خیالات پیش کئے۔a خدا کے کلام سے اُسکی واقفیت ۱۲ سال کی عمر میں ہی ظاہر ہو گئی تھی، جب اُسے ”اُستادوں کے بیچ میں بیٹھے اُن کی سنتے اور اُن سے سوال کرتے ہوئے“ پایا گیا تھا۔ (لوقا ۲:۴۶) ایک بالغ کے طور پر، عبادتخانہ میں جانا یسوع کا دستور تھا جہاں خدا کا کلام پڑھا جاتا تھا۔—لوقا ۴:۱۶۔
۱۱. ایک اُستاد کو مطالعے کی کونسی اچھی عادات پیدا کرنی چاہئیں؟
۱۱ کیا آپ خدا کے کلام کو شوق سے پڑھتے ہیں؟ اسکی تحقیقوتفتیش کرنے سے آپ ”خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کے خوف“ کو سمجھیں گے اور ”خدا کی معرفت کو حاصل“ کرینگے۔ (امثال ۲:۴، ۵) لہٰذا مطالعے کی اچھی عادات پیدا کریں۔ ہر روز خدا کے کلام کا کچھ حصہ پڑھنے کی کوشش کریں۔ (زبور ۱:۲) جیسے ہی مینارِنگہبانی اور جاگو! ملتے ہیں اُنکے ہر شمارے کو پڑھنے کی عادت بنائیں۔ کلیسیائی اجلاسوں پر ہر بات کو دھیان سے سنیں۔ گہری تحقیق کرنا سیکھیں۔ ’سب باتوں کی ٹھیک ٹھیک دریافت‘ کرنا سیکھنے سے آپ تعلیم دیتے وقت مبالغہآرائیوں اور غلطیوں سے بچ سکتے ہیں۔—لوقا ۱:۳۔
تعلیم پانے والوں کیلئے محبت اور عزت
۱۲. یسوع اپنے شاگردوں کی بابت کیسا رُجحان رکھتا تھا؟
۱۲ ایک اَور اہم خوبی اُن لوگوں کیلئے موزوں میلان رکھنا ہے جنہیں آپ تعلیم دیتے ہیں۔ فریسی یسوع کی باتیں سننے والے لوگوں کو حقیر خیال کرتے تھے۔ وہ تو یہ کہتے تھے کہ: ”یہ عام لوگ جو شریعت سے واقف نہیں لعنتی ہیں۔“ (یوحنا ۷:۴۹) تاہم یسوع اپنے شاگردوں کیلئے گہری محبت اور احترام رکھتا تھا۔ اُس نے کہا: ”اب سے مَیں تمہیں نوکر نہ کہونگا کیونکہ نوکر نہیں جانتا کہ اُسکا مالک کیا کرتا ہے بلکہ تمہیں مَیں نے دوست کہا ہے۔ اسلئےکہ جو باتیں مَیں نے اپنے باپ سے سنیں وہ سب تمکو بتا دیں۔“ (یوحنا ۱۵:۱۵) اس سے یہ واضح ہو گیا کہ یسوع کے شاگردوں کو اپنی تعلیمی کارگزاری کو کیسے سرانجام دینا چاہئے۔
۱۳. پولس نے جن لوگوں کو تعلیم دی اُنکی بابت اُس نے کیسا محسوس کِیا تھا؟
۱۳ مثال کے طور پر، پولس اپنے طالبعلموں کیساتھ بےحس، کاروباری رشتہ نہیں رکھتا تھا۔ اُس نے کرنتھیوں سے کہا: ”کیونکہ اگر مسیح میں تمہارے اُستاد دس ہزار بھی ہوتے تو بھی تمہارے باپ بہت سے نہیں۔ اسلئےکہ مَیں ہی انجیل کے وسیلہ سے مسیح یسوؔع میں تمہارا باپ بنا۔“ (۱-کرنتھیوں ۴:۱۵) بعضاوقات تو پولس اُن لوگوں کو نصیحت کرتے وقت رو پڑتا تھا جنہیں اُس نے تعلیم دی تھی! (اعمال ۲۰:۳۱) اُس نے غیرمعمولی صبر اور مہربانی کا بھی مظاہرہ کِیا۔ لہٰذا وہ تھسلنیکیوں سے کہہ سکتا تھا: ”جس طرح ماں اپنے بچوں کو پالتی ہے اُسی طرح ہم تمہارے درمیان نرمی کے ساتھ رہے۔“—۱-تھسلنیکیوں ۲:۷۔
۱۴. اپنے بائبل طالبعلم میں ذاتی دلچسپی اتنی اہم کیوں ہے؟ وضاحت کریں۔
۱۴ کیا آپ یسوع اور پولس کی نقل کرتے ہیں؟ اپنے طالبعلموں کیلئے مخلص محبت فطری صلاحتیوں کی ہر کمی کو پورا کر سکتی ہے جو ہمارے اندر ہو سکتی ہے۔ کیا ہمارے بائبل طالبعلم محسوس کرتے ہیں کہ ہم ذاتی طور پر اُن میں مخلصانہ دلچسپی رکھتے ہیں؟ کیا ہم اُن سے واقفیت پیدا کرنے کیلئے وقت نکالتے ہیں؟ جب ایک مسیحی خاتون کو ایک طالبعلم کی روحانی طور پر ترقی کرنے کیلئے مدد کرنے میں مشکل پیش آ رہی تھی تو اُس نے مہربانہ انداز میں پوچھا: ”کیا آپکو کوئی پریشانی ہے؟“ اُس عورت نے اپنی کئی فکروں اور پریشانیوں کا اظہار کرتے ہوئے اپنا دل اُنڈیل کر رکھ دیا۔ وہ مہربانہ گفتگو اُس عورت کی زندگی میں ایک نقطۂانقلاب ثابت ہوئی۔ ایسی حالتوں میں صحیفائی خیالات اور تسلیبخش اور حوصلہافزا باتیں موزوں ہوتی ہیں۔ (رومیوں ۱۵:۴) تاہم، حرفِانتباہ یہ ہے: ممکن ہے کہ ایک بائبل طالبعلم تیزی سے ترقی کر رہا ہو لیکن ہو سکتا ہے کہ ابھی بھی اُسے بعض غیرمسیحی طورطریقوں پر قابو پانے کی ضرورت ہو۔ اسلئے اُس شخص کیساتھ حد سے زیادہ میلجول رکھنا دانشمندانہ بات نہیں ہوگی۔ مناسب مسیحی حدود کو قائم رکھنا چاہئے۔—۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳۔
۱۵. ہم اپنے بائبل طالبعلموں کیلئے عزت کیسے دکھا سکتے ہیں؟
۱۵ اپنے طالبعلموں کیلئے عزت دکھانے میں یہ بات شامل ہے کہ ہم اُنکی ذاتی زندگیوں کو قابو میں رکھنے کی کوشش نہ کریں۔ (۱-تھسلنیکیوں ۴:۱۱) مثال کے طور پر، شاید ہم کسی ایسی عورت کیساتھ مطالعہ کر رہے ہوں جو کسی مرد کیساتھ ازدواجی بندھن کے بغیر ہی زندگی بسر کر رہی ہے۔ شاید اُنکے بچے بھی ہوں۔ خدا کا صحیح علم حاصل کر لینے کے بعد وہ عورت خدا کے حضور تمام معاملات کو درست کرنا چاہتی ہے۔ (عبرانیوں ۱۳:۴) کیا اُسے اُس شخص سے شادی کر لینی چاہئے یا اُسے چھوڑ دینا چاہئے؟ شاید ہم یہ سوچیں کہ ایک ایسے شخص سے شادی کرنا جو تھوڑی بہت یا کوئی بھی روحانی دلچسپی نہیں رکھتا اُسکی آئندہ ترقی میں رکاوٹ کا باعث ہوگا۔ دوسری طرف، شاید ہم اُسکے بچوں کیلئے بھی فکرمند ہوں اور سوچتے ہوں کہ اُسکا اُس سے شادی کرنا ہی بہتر ہوگا۔ کسی بھی صورتحال میں طالبعلم کی زندگی میں دخلاندازی کرنا اور ایسے معاملات میں اپنی رائے ٹھونسنا گستاخانہ اور غیرمشفقانہ ہے۔ بہرصورت، اپنے فیصلے کے نتائج کا اُسی کو سامنا کرنا ہوگا۔ اسلئے کیا یہ زیادہ بہتر نہیں ہوگا کہ ایسے طالبعلم کو ”اپنی ادراکی قوتوں“ کو استعمال کرنے اور اپنے لئے خود فیصلہ کرنے کی تربیت دی جائے کہ اُسے کیا کرنا چاہئے؟—عبرانیوں ۵:۱۴، اینڈبلیو۔
۱۶. بزرگ خدا کے گلّہ کیلئے محبت اور عزت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
۱۶ کلیسیا کے بزرگوں کے لئے یہ خاص طور پر ضروری ہے کہ وہ گلّے کیساتھ محبت اور عزت سے پیش آئیں۔ فلیمون کو لکھتے ہوئے پولس نے کہا: ”پس اگرچہ مجھے مسیح میں بڑی دلیری تو ہے کہ تجھے مناسب حکم دوں۔ مگر مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ . . . محبت کی راہ سے اِلتماس کروں۔“ (فلیمون ۸، ۹) بعضاوقات، کلیسیا میں مایوسکُن حالتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس میں استحکام کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔ پولس نے ططس کو تاکید کی کہ ”[خطاکاروں کو] سخت ملامت کِیا کر تاکہ اُنکا ایمان درست ہو جائے۔“ (ططس ۱:۱۳) تاہم، نگہبانوں کو بھی محتاط رہنا چاہئے کہ کلیسیا کیساتھ کبھی بھی نامہربانہ طریقے سے مخاطب نہ ہوں۔ پولس نے لکھا: ”مناسب نہیں کہ خداوند کا بندہ جھگڑا کرے بلکہ سب کے ساتھ نرمی کرے اور تعلیم دینے کے لائق اور بردبار ہو۔“—۲-تیمتھیس ۲:۲۴؛ زبور ۱۴۱:۳۔
۱۷. موسیٰ سے کونسی غلطی سرزد ہوئی اور بزرگ اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۷ نگہبانوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ”خدا کے . . . گلّہ“ کی نگہبانی کر رہے ہیں۔ (۱-پطرس ۵:۲) موسیٰ حلیم ہونے کے باوجود کچھ دیر کیلئے اس بات کو بھول گیا۔ اسرائیلیوں نے ”اُس کی روح سے سرکشی کی اور موسیٰ بےسوچے بول اُٹھا۔“ (زبور ۱۰۶:۳۳) اگرچہ وہ لوگ بےالزام نہیں تھے توبھی خدا اپنے گلّے کے ساتھ اُس کی بدسلوکی سے بہت ناراض ہوا تھا۔ (گنتی ۲۰:۲-۱۲) آجکل بھی جب ایسے ہی چیلنجوں کا سامنا ہو تو بزرگوں کو بصیرت اور شفقت سے تعلیموتربیت کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمارے بھائیوں کے ساتھ جب پاسولحاظ کے ساتھ اور ناقابلِاصلاح خطاکاروں کی بجائے مدد کے حاجتمند اشخاص سمجھ کر سلوک کِیا جاتا ہے تو وہ اچھا ردِعمل دکھاتے ہیں۔ بزرگوں کو پولس جیسا مثبت نقطۂنظر رکھنے کی ضرورت ہے جس نے کہا: ”خداوند میں ہمیں تم پر بھروسا ہے کہ جو حکم ہم تمہیں دیتے ہیں اس پر عمل کرتے ہو اور کرتے بھی رہو گے۔“—۲-تھسلنیکیوں ۳:۴۔
اُن کی ضروریات سے اثرپذیر ہونے والا
۱۸، ۱۹. (ا) محدود صلاحیتوں والے بائبل طالبعلموں کی ضروریات کے لئے ہمیں کیسا ردِعمل دکھانا چاہئے؟ (ب) ہم مخصوص معاملات کے سلسلے میں مشکل کا سامنا کرنے والے طالبعلموں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۸ ایک مؤثر اُستاد اپنے طالبعلموں کی لیاقتوں اور حدود کے مطابق ڈھلنے کیلئے تیار ہوتا ہے۔ (مقابلہ کریں یوحنا ۱۶:۱۲۔) توڑوں کی بابت یسوع کی تمثیل میں، مالک نے ”ہر ایک کو اُسکی لیاقت کے مطابق دیا۔“ (متی ۲۵:۱۵) بائبل مطالعے کراتے وقت ہم بھی اسی نمونے کی پیروی کر سکتے ہیں۔ قدرتی بات ہے کہ بائبل پر مبنی کسی کتاب کو معقول حد تک کم وقت میں ختم کرنا اچھا ہے۔ تاہم، یہ ماننا پڑیگا کہ سب میں اچھی طرح پڑھنے کی صلاحیت یا نئے نظریات کو فوراً سمجھ لینے کی خوبی نہیں ہوتی۔ لہٰذا، اس سلسلے میں فہم کی ضرورت ہے کہ جب مطالعہ کرنے والے اشخاص کو تیزرفتار قائم رکھنے میں مشکل پیش آ رہی ہو تو مطالعے میں کب ایک نقطے سے دوسرے پر جائیں۔ مُتعیّنہ وقت میں مواد کا احاطہ کرنے کی نسبت طالبعلموں کی اُس بات کو سمجھنے میں مدد کرنا زیادہ اہم ہے جو وہ سیکھ رہے ہیں۔—متی ۱۳:۵۱۔
۱۹ اُن بائبل طالبعلموں کے معاملے پر بھی یہی بات صادق آتی ہے جو تثلیث یا مذہبی تہواروں جیسے خاص عقائد کو سمجھنا مشکل پاتے ہیں۔ اگرچہ اپنے مطالعوں کے دوران بائبل پر مبنی تحقیقی مواد کو شامل کرنا غیرضروری ہوگا توبھی اگر یہ مفید ثابت ہو تو ہم وقتاًفوقتاً ایسا کر سکتے ہیں۔ کسی بھی طالبعلم کی ترقی کی رفتار کو غیرضروری طور پر کم کرنے سے بچنے کے لئے اچھی بصیرت کو استعمال کِیا جانا چاہئے۔
گرمجوش رہیں
۲۰. پولس نے اپنی تعلیم میں گرمجوشی اور پُختہ یقین کا مظاہرہ کرنے کے سلسلے میں کیسے نمونہ قائم کِیا؟
۲۰ پولس بیان کرتا ہے: ”روحانی جوش میں بھرے رہو۔“ (رومیوں ۱۲:۱۱) جیہاں، خواہ ہم کوئی بائبل مطالعہ کرا رہے ہیں یا کلیسیائی اجلاس کے کسی حصے میں شرکت کر رہے ہیں، ہمیں جوشوجذبے کے ساتھ ایسا کرنا چاہئے۔ پولس نے تھسلنیکیوں کو بتایا: ”ہماری خوشخبری تمہارے پاس نہ فقط لفظی طور پر پہنچی بلکہ قدرت اور روحالقدس اور پورے اعتقاد کے ساتھ بھی۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۱:۵) لہٰذا پولس اور اُس کے ساتھیوں نے ”نہ فقط خدا کی خوشخبری بلکہ اپنی جان تک بھی“ دے دی۔—۱-تھسلنیکیوں ۲:۸۔
۲۱. ہم تعلیم دینے کی اپنی تفویضات کیلئے گرمجوش رُجحان کیسے قائم رکھ سکتے ہیں؟
۲۱ حقیقی گرمجوشی اس پُختہ یقین سے پیدا ہوتی ہے کہ جوکچھ ہم کہتے ہیں ہمارے بائبل طالبعلم کو اُسے سننے کی ضرورت ہے۔ ہمیں تعلیم دینے کی کسی بھی تفویض کو معمولی خیال نہیں کرنا چاہئے۔ عزرا فقیہ نے اس سلسلے میں واقعی اپنی تعلیم کی خبرداری کی تھی۔ وہ ”آمادہ ہو گیا تھا کہ خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کی شریعت کا طالب ہو اور اُس پر عمل کرے اور اؔسرائیل میں . . . تعلیم دے۔“ (عزرا ۷:۱۰) ہمیں بھی خوب تیاری کرنے اور مواد کی اہمیت پر سوچبچار کرنے سے ایسا کرنا چاہئے۔ آئیے یہوواہ سے دُعا کریں کہ وہ ہمیں ایمان اور اعتماد سے معمور کر دے۔ (لوقا ۱۷:۵) ہماری گرمجوشی سچائی کے لئے حقیقی محبت پیدا کرنے میں بائبل طالبعلموں کی مدد کر سکتی ہے۔ بِلاشُبہ، اپنی تعلیم کی خبرداری کرنے میں تعلیم دینے کے مخصوص طریقوں کو استعمال کرنا شامل ہو سکتا ہے۔ ہمارا اگلا مضمون ان میں سے چند ایک پر گفتگو کریگا۔
[فٹنوٹ]
a واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ انسائٹ آن دی سکرپچرز، جِلد ۲، صفحہ ۱۰۷۱ کو دیکھیں۔
کیا آپکو یاد ہے؟
◻آجکل ماہر مسیحی اُستادوں کی ضرورت کیوں ہے؟
◻ہم مطالعے کی کونسی اچھی عادات پیدا کر سکتے ہیں؟
◻ہم جنہیں تعلیم دیتے ہیں اُن کیلئے محبت اور عزت اتنی اہم کیوں ہے؟
◻ہم اپنے بائبل طالبعلموں کی ضروریات کیلئے کیسے جوابیعمل دکھا سکتے ہیں؟
◻دوسروں کو تعلیم دیتے وقت گرمجوشی اور پُختہ یقین کیوں اتنا اہم ہے؟
[صفحہ 10 پر تصویر]
اچھے اُستاد خود بھی خدا کے کلام کے طالبعلم ہوتے ہیں
[صفحہ 13 پر تصویر]
بائبل طالبعلموں میں ذاتی دلچسپی لیں