مطالعے کا مضمون نمبر 29
اپنے کاموں کی وجہ سے خوش ہوں
’ہر کوئی اپنے کاموں کی وجہ سے خوش ہو نہ کہ دوسروں سے اپنا موازنہ کرنے کی وجہ سے۔‘—گل 6:4۔
گیت نمبر 34: مَیں راستی کی راہ پر چلوں گا
مضمون پر ایک نظرa
1. یہوواہ دوسروں سے ہمارا موازنہ کیوں نہیں کرتا؟
یہوواہ خدا یہ نہیں چاہتا کہ ہر شخص یا ہر چیز ایک جیسی ہو۔ یہ بات اُس کی بنائی ہوئی چیزوں سے صاف نظر آتی ہے جن میں اِنسان بھی شامل ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک، ایک دوسرے سے فرق ہے۔ اِس لیے یہوواہ کبھی بھی ہمارا موازنہ کسی اَور سے نہیں کرتا۔ وہ ہمارے دل پر نظر کرتا ہے۔ (1-سمو 16:7) وہ اِس بات کو بھی جانتا ہے کہ ہم میں کیا خامیاں ہیں، کون سے کام کرنا ہمارے بس میں ہیں اور کون سے نہیں اور ہماری پرورش کیسے ہوئی ہے۔ وہ کبھی بھی ہم سے کوئی ایسا کام کرنے کو نہیں کہتا جسے کرنا ہمارے بس میں نہ ہو۔ ہمیں یہوواہ کی مثال پر عمل کرنا چاہیے اور خود کو اُسی نظر سے دیکھنا چاہیے جس نظر سے وہ ہمیں دیکھتا ہے۔ یوں ہم سمجھداری سے کام لیں گے اور خود کو نہ تو دوسروں سے بہتر سمجھیں گے اور نہ ہی کمتر۔—روم 12:3۔
2. دوسروں سے اپنا موازنہ کرنا نقصاندہ کیوں ہو سکتا ہے؟
2 بےشک ہم اپنے بہن بھائیوں کی اچھی مثال پر غور کرنے سے اُن سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر شاید ہم کسی ایسے بھائی یا بہن کو جانتے ہیں جو بڑی اچھی طرح سے مُنادی کرتا ہے۔ (عبر 13:7) ہم مُنادی کرنے کے اپنے طریقے میں بہتری لانے کے لیے اُس سے سیکھ سکتے ہیں۔ (فل 3:17) لیکن دوسروں کی اچھی مثال پر عمل کرنے اور اُن سے اپنا موازنہ کرنے میں فرق ہے۔ اگر ہم دوسروں سے اپنا موازنہ کریں گے تو ہمارے دل میں حسد گھر کر سکتا ہے، ہم بےحوصلہ ہو سکتے ہیں اور ہمارے دل میں یہ سوچ آ سکتی ہے کہ ہم کسی کام کے نہیں۔ اِس کے برعکس اگر ہم خود کو دوسروں سے بہتر ثابت کرنے کی کوشش کریں گے تو کلیسیا میں مقابلہبازی کو فروغ ملے گا اور اِس سے کلیسیا کو نقصان ہوگا۔ یہی بات ہم نے پچھلے مضمون میں سیکھی تھی۔ اِسی لیے یہوواہ نے ہمیں یہ نصیحت کی ہے: ”ہر کوئی اپنے کاموں کو پرکھے۔ اِس طرح وہ اپنے کاموں کی وجہ سے خوش ہو سکے گا نہ کہ دوسروں سے اپنا موازنہ کرنے کی وجہ سے۔“—گل 6:4۔
3. آپ نے اب تک یہوواہ کی خدمت میں کون سے کام کیے ہیں جن سے آپ خوش ہو سکتے ہیں؟
3 یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ آپ اُن کاموں سے خوش ہوں جو آپ نے اُس کے قریب جانے کے لیے کیے۔ مثال کے طور پر اگر آپ نے بپتسمہ لیا ہے تو آپ کو اِس بات پر خوش ہونا چاہیے۔ بپتسمہ لینے کا فیصلہ آپ نے خود کِیا تھا اور آپ نے ایسا یہوواہ سے محبت کی وجہ سے کِیا۔ ذرا سوچیں کہ بپتسمے کے بعد سے آپ نے یہوواہ کی خدمت میں کتنا کچھ کِیا ہے۔ مثال کے طور پر شاید آپ اَور زیادہ گہرائی سے بائبل کا مطالعہ کرنے لگے ہیں۔ یا شاید آپ دل کی گہرائی سے یہوواہ سے دُعا کرنے لگے ہیں۔ (زبور 141:2) یا ہو سکتا ہے کہ آپ دوسروں کے ساتھ بائبل سے باتچیت شروع کرنے میں اَور زیادہ ماہر ہو گئے ہیں اور تعلیم دینے کے اوزاروں کو اَور اچھی طرح سے اِستعمال کرنے لگے ہیں۔ یا پھر شاید آپ ایک بہتر شوہر یا بیوی یا ماں یا باپ بن گئے ہیں۔ آپ اِن باتوں کے حوالے سے اپنے اندر جو بھی بہتری لائے ہیں، آپ اُس کی وجہ سے خوش ہو سکتے ہیں۔
4. اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
4 ہم اپنے بہن بھائیوں کی بھی مدد کر سکتے ہیں کہ وہ اُن کاموں سے خوش ہوں جو وہ یہوواہ کی خدمت میں کر رہے ہیں۔ ہم اُن کی یہ مدد بھی کر سکتے ہیں کہ وہ دوسروں سے اپنا موازنہ نہ کریں۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ماں باپ اپنے بچوں کی، میاں بیوی ایک دوسرے کی اور بزرگ اور کلیسیا کے بہن بھائی ایک دوسرے کی مدد کیسے کر سکتے ہیں۔ پھر آخر میں ہم بائبل کے کچھ ایسے اصولوں پر غور کریں گے جن کی مدد سے ہم ایسے منصوبے بنا سکتے ہیں جنہیں ہم پورا بھی کر سکیں۔
ماں باپ اور میاں بیوی کیا کر سکتے ہیں؟
5. اِفسیوں 6:4 کے مطابق ماں باپ کو کیا نہیں کرنا چاہیے؟
5 ماں باپ کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے ایک بچے کا موازنہ اپنے دوسرے بچے سے نہ کریں اور اُن سے ایسے کاموں کی توقع نہ کریں جنہیں کرنا بچوں کے بس میں نہیں ہے۔ اگر ماں باپ ایسا کریں گے تو اُن کے بچے بےحوصلہ ہو سکتے ہیں۔ (اِفسیوں 6:4 کو پڑھیں۔) اِس سلسلے میں ذرا ساچیکوb نامی بہن کی بات پر غور کریں جو کہتی ہیں: ”میرے ٹیچر مجھ سے یہ توقع کرتے تھے کہ مَیں اپنی کلاس کے سب بچوں سے آگے نکلوں۔ اِس کے علاوہ میری امی بھی یہ چاہتی تھیں کہ مَیں سکول میں اچھی طرح سے پڑھائی کروں تاکہ میرے ٹیچروں اور ابو کو گواہی مل سکے۔ امی تو یہ تک چاہتی تھیں کہ مَیں اِمتحان میں 100 فیصد نمبر حاصل کروں جو کہ مجھے ناممکن لگتا تھا۔ حالانکہ مجھے سکول ختم کیے ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں لیکن اِس سب کا ابھی بھی مجھ پر بہت گہرا اثر ہے۔ کبھی کبھار مَیں یہ سوچتی ہوں کہ چاہے مَیں یہوواہ کے لیے جتنا بھی کر لوں، شاید وہ اُس سے خوش نہیں ہوگا۔“
6. ماں باپ زبور 131:1، 2 سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
6 ماں باپ زبور 131:1، 2 سے بھی ایک اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔ (اِن آیتوں کو پڑھیں۔) بادشاہ داؤد نے کہا تھا کہ ”نہ مجھے بڑے بڑے معاملوں سے کوئی سروکار ہے نہ اُن باتوں سے جو میری سمجھ سے باہر ہیں۔“ چونکہ داؤد خاکسار تھے اِس لیے وہ کئی معاملوں میں پُرسکون اور مطمئن رہے۔ ماں باپ داؤد سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ وہ خاکساری سے اِس بات کو تسلیم کر سکتے ہیں کہ وہ ہر کام نہیں کر سکتے اور نہ ہی اُنہیں اپنے بچوں سے اِس بات کی توقع کرنی چاہیے۔ ماں باپ اپنے بچوں کی صلاحیتوں اور کمزوریوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایسے منصوبے بنانے میں اُن کی مدد کر سکتے ہیں جنہیں بچے پورا بھی کر سکیں۔ یوں بچے یہ محسوس کر پائیں گے کہ اُن کے ماں باپ اُن کی قدر کرتے ہیں۔ ذرا اِس سلسلے میں مرینہ نامی بہن کی بات پر غور کریں جو کہتی ہیں: ”میری امی نے کبھی میرا موازنہ نہ تو میرے تین بہن بھائیوں سے کِیا اور نہ ہی کسی اَور بچے سے۔ اُنہوں نے مجھے یہی سکھایا کہ ہر بچے میں فرق فرق صلاحیتیں ہوتی ہیں اور یہوواہ سب سے پیار کرتا ہے۔ اِسی وجہ سے شاید ہی مَیں نے کبھی کسی سے اپنا موازنہ کِیا ہو۔“
7-8. ایک شوہر اپنی بیوی کے لیے عزت کیسے ظاہر کر سکتا ہے؟
7 یہوواہ سے محبت کرنے والے شوہروں کو اپنی بیوی کے ساتھ عزت سے پیش آنا چاہیے۔ (1-پطر 3:7) کسی کی عزت کرنے میں یہ شامل ہے کہ آپ اُسے توجہ دیں اور اُس کے ساتھ پیار سے پیش آئیں۔ اپنی بیوی کے لیے عزت ظاہر کرنے کے لیے ایک شوہر اُسے یہ احساس دِلا سکتا ہے کہ وہ اُس کی نظر میں کتنی اہم ہے۔ اُسے کبھی بھی اپنی بیوی سے کسی ایسے کام کی توقع نہیں کرنی چاہیے جسے کرنا اُس کے بس میں نہ ہو۔ اِس کے علاوہ اُسے کبھی اپنی بیوی کا موازنہ کسی دوسری عورت سے نہیں کرنا چاہیے۔ ذرا سوچیں کہ اگر ایک شخص اپنی بیوی کا موازنہ کسی دوسری عورت سے کرتا ہے تو اُس کی بیوی کو کیسا محسوس ہوگا؟ اِس سلسلے میں روزا نامی بہن کے تجربے پر غور کریں جن کا شوہر یہوواہ کا گواہ نہیں ہے۔ وہ اکثر اُن کا موازنہ دوسری عورتوں سے کرتا ہے۔ اپنے شوہر کی دل دُکھانے والی باتوں کی وجہ سے بہن روزا خود کو کمتر خیال کرنے لگیں۔ وہ کہتی ہیں: ”مجھے بار بار خود کو یہ یاد دِلانا پڑتا ہے کہ یہوواہ میری قدر کرتا ہے۔“ یہوواہ سے محبت کرنے والا شوہر اپنی بیوی کی عزت کرتا ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ ایسا کرنے سے اُس کا نہ صرف اپنی بیوی کے ساتھ رشتہ مضبوط ہوگا بلکہ یہوواہ کے ساتھ بھی اُس کی دوستی مضبوط ہوگی۔c
8 جو شوہر اپنی بیوی کی عزت کرتا ہے، وہ دوسروں کے سامنے اُس کا ذکر اچھے لفظوں میں کرتا ہے۔ وہ اُسے اپنی محبت کا احساس دِلاتا ہے اور اُسے اُس کے اچھے کاموں کے لیے داد دیتا ہے۔ (امثا 31:28) ہم نے پچھلے مضمون میں بہن کترینا کا ذکر کِیا تھا۔ اُن کا شوہر بھی ایسے ہی کرتا ہے۔ اُس نے بہن کترینا کی بڑی مدد کی ہے تاکہ وہ خود کو کمتر خیال نہ کریں۔ جب بہن کترینا چھوٹی تھیں تو اُن کی امی اُن کی بےعزتی کِیا کرتی تھیں اور اکثر اُن کا موازنہ دوسری لڑکیوں اور اُن کی دوستوں سے کِیا کرتی تھیں۔ بہن کترینا بھی اپنا موازنہ دوسروں سے کرنے لگیں، یہاں تک کہ یہوواہ کی گواہ بننے کے بعد بھی وہ ایسا کرتی رہیں۔ لیکن اُن کے شوہر نے اُن کی بڑی مدد کی تاکہ وہ اپنے اِس احساس سے لڑ سکیں اور اپنے بارے میں مناسب سوچ رکھیں۔ بہن کترینا کہتی ہیں: ”میرے شوہر مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں اور میرے کاموں کے لیے مجھے داد دیتے ہیں۔ وہ میرے لیے دُعا کرتے ہیں۔ وہ مجھے یہوواہ کی خوبیاں بھی یاد دِلاتے رہتے ہیں اور اگر میرے ذہن میں کوئی اُلٹی سیدھی بات آتی ہے تو وہ اِسے دُور کرنے میں میری مدد کرتے ہیں۔“
بزرگ اور کلیسیا کے بہن بھائی کیا کر سکتے ہیں؟
9-10. بزرگوں نے ایک ایسی بہن کی مدد کیسے کی جو اکثر دوسروں سے اپنا موازنہ کِیا کرتی تھی؟
9 بزرگ اُن بہن بھائیوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں جو اکثر اپنا موازنہ دوسروں سے کرتے ہیں؟ اِس سلسلے میں ذرا حانونی نامی بہن کے تجربے پر غور کریں۔ بچپن میں شاید ہی کسی نے اُن کی تعریف کی ہو۔ وہ کہتی ہیں: ”مَیں بہت شرمیلی تھی اور مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ دوسرے بچے مجھ سے بہتر ہیں۔ مَیں بچپن سے ہی دوسروں سے اپنا موازنہ کرتی آئی۔“ یہوواہ کا گواہ بننے کے بعد بھی بہن حانونی دوسروں سے اپنا موازنہ کرتی رہیں۔ اِس وجہ سے اُنہیں لگتا تھا کہ کلیسیا میں اُن کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لیکن اب وہ بہت خوش ہیں اور ایک پہلکار ہیں۔ مگر وہ اپنی سوچ کیسے بدل پائیں؟
10 بہن حانونی نے بتایا کہ بزرگوں نے کس طرح سے اُن کی مدد کی۔ بزرگوں نے اُن سے کہا کہ وہ کلیسیا میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہیں اور دوسروں کے لیے ایک اچھی مثال قائم کر رہی ہیں۔ بہن حانونی نے تنظیم کو ایک خط میں لکھا: ”کئی بار بزرگوں نے مجھ سے مدد مانگی کہ مَیں دوسری بہنوں کا حوصلہ بڑھاؤں۔ اِس طرح مجھے محسوس ہوا کہ دوسروں کو میری ضرورت ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ بزرگوں نے اِس بات کے لیے میرا شکریہ ادا کِیا تھا کہ مَیں نے کچھ بہنوں کا حوصلہ بڑھایا۔ اِس کے بعد اُنہوں نے میرے ساتھ 1-تھسلُنیکیوں 1:2، 3 پڑھی۔ اِن آیتوں نے میرے دل کو چُھو لیا۔ مَیں اِن چرواہوں کی دل سے شکرگزار ہوں جن کی وجہ سے مجھے محسوس ہوا کہ یہوواہ کی تنظیم میں میری بھی ایک جگہ ہے۔“
11. ہم ایسے لوگوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں جن کا ذکر یسعیاہ 57:15 میں ہوا ہے؟
11 یسعیاہ 57:15 کو پڑھیں۔ یہوواہ خدا کو ”شکستہدل“ یعنی بےحوصلہ لوگوں کی بڑی فکر ہے۔ صرف بزرگ ہی نہیں بلکہ ہم سب اپنے بےحوصلہ بہن بھائیوں کا حوصلہ بڑھا سکتے ہیں۔ اور ایسا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم اُن کے لیے فکر ظاہر کریں۔ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کی طرف سے اپنے اِن بہن بھائیوں کو بتائیں کہ وہ اُن سے کتنی محبت کرتا ہے۔ (امثا 19:17) ہم اپنی صلاحیتوں پر شیخی مارنے کی بجائے خاکساری ظاہر کرنے سے بھی اِن بہن بھائیوں کی بہت مدد کر سکتے ہیں۔ ہمیں اُن کی توجہ اپنے اُوپر نہیں دِلانی چاہیے کیونکہ اِس طرح اُن کے دل میں حسد پیدا ہو سکتا ہے۔ اِس کی بجائے ہمیں اپنی صلاحیتوں اور اپنے علم کو اپنے بہن بھائیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اِستعمال کرنا چاہیے۔—1-پطر 4:10، 11۔
12. عام لوگ یسوع مسیح کی طرف کیوں کھنچے چلے آئے؟ (سرِورق کی تصویر کو دیکھیں۔)
12 اگر ہم اِس بات پر غور کریں گے کہ یسوع مسیح اپنے پیروکاروں کے ساتھ کس طرح سے پیش آتے تھے تو ہم بھی دوسروں کے ساتھ اُسی طرح سے پیش آئیں گے۔ پوری اِنسانی تاریخ میں یسوع مسیح سے زیادہ عظیم ہستی کوئی نہیں۔ لیکن پھر بھی وہ ”نرممزاج اور دل سے خاکسار“ تھے۔ (متی 11:28-30) اُنہوں نے کبھی بھی اِس بات پر شیخی نہیں ماری کہ وہ کتنے ذہین ہیں یا اُن کے پاس کتنا زیادہ علم ہے۔ اُنہوں نے دوسروں کو بڑے آسان لفظوں میں تعلیم دی اور ایسی مثالیں اِستعمال کیں جنہوں نے خاکسار لوگوں کے دل کو چُھو لیا۔ (لُو 10:21) یسوع مسیح اپنے زمانے کے مغرور مذہبی رہنماؤں کی طرح نہیں تھے۔ اُنہوں نے کبھی دوسروں کو یہ احساس نہیں دِلایا کہ خدا کی نظر میں اُن کی کوئی قدر نہیں۔ (یوح 6:37) اِس کی بجائے وہ عام لوگوں کے ساتھ بھی بڑی عزت سے پیش آتے تھے۔
13. یسوع مسیح جس طرح سے اپنے شاگردوں کے ساتھ پیش آئے، اُس سے یہ کیسے ظاہر ہوا کہ وہ اُن سے محبت کرتے تھے اور بہت شفیق تھے؟
13 یسوع مسیح جس طرح سے اپنے شاگردوں کے ساتھ پیش آئے، اُس سے یہ ظاہر ہوا کہ وہ اُن سے کتنی محبت کرتے تھے اور کتنے شفیق تھے۔ وہ یہ جانتے تھے کہ اُن کے ہر شاگرد کی صلاحیتیں اور صورتحال ایک دوسرے سے فرق ہے۔ اِس لیے وہ سمجھتے تھے کہ نہ تو ہر شاگرد ایک جیسی ذمےداریاں نبھا سکتا ہے اور نہ ہی مُنادی میں ایک جتنا حصہ لے سکتا ہے۔ شاگرد یہوواہ کی خدمت کرنے کے لیے جو کچھ بھی کر رہے تھے، یسوع مسیح اُس کی بڑی قدر کرتے تھے۔ اِس بات کا اندازہ ہمیں یسوع مسیح کی اُس مثال سے ہوتا ہے جو اُنہوں نے ایک مالک کے بارے میں دی جس نے اپنے ہر غلام کو اُس کی ”صلاحیت کے مطابق“ کام دیا۔ جن دو غلاموں نے دل لگا کر محنت کی، اُن میں سے ایک نے دوسرے غلام سے زیادہ کمایا۔ لیکن اُن کے مالک نے دونوں سے ایک جیسی بات کہی: ”شاباش، اچھے اور وفادار غلام!“—متی 25:14-23۔
14. دوسروں کے ساتھ پیش آتے وقت ہم یسوع مسیح کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
14 یسوع مسیح ہمارے ساتھ بھی بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے ہیں۔ وہ ہمارے بارے میں بھی یہ جانتے ہیں کہ ہم سب کی صلاحیتیں اور صورتحال ایک دوسرے سے فرق ہے۔ اور وہ یہ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ ہم یہوواہ کی خدمت کرنے کی جیتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ یسوع مسیح کی طرح ہمیں بھی دوسروں کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آنا چاہیے۔ ہمیں کبھی بھی اپنے کسی بھائی یا بہن کو یہ احساس نہیں دِلانا چاہیے کہ وہ کسی کام کا نہیں ہے یا وہ خدا کی خدمت میں اُتنا نہیں کر سکتا جتنا دوسرے کر سکتے ہیں۔ اِس کی بجائے ہمیں ایسے موقعوں کی تلاش میں رہنا چاہیے جب ہم اُنہیں اِس بات پر داد دے سکیں کہ وہ دل لگا کر یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں۔
ایسے منصوبے بنائیں جنہیں آپ پورا کر سکیں
15-16. ایک بہن کو ایسے منصوبے بنانے سے کیا فائدہ ہوا جنہیں وہ پورا بھی کر سکتی تھی؟
15 جب ہم یہوواہ کی خدمت کے حوالے سے منصوبے بناتے ہیں تو ہماری زندگی کو مقصد مل جاتا ہے۔ لیکن ہمیں اپنی صلاحیتوں اور صورتحال کو ذہن میں رکھ کر منصوبے بنانے چاہئیں نہ کہ دوسرے کے دیکھا دیکھی۔ اگر ہم وہ منصوبے بنائیں گے جو دوسروں نے اپنے لیے بنائے ہوئے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ ہم اُنہیں پورا نہ کر پائیں اور یوں مایوس اور بےحوصلہ ہو جائیں۔ (لُو 14:28) اِس سلسلے میں ذرا ایک بہن کی مثال پر غور کریں جس کا نام میڈوری ہے۔ وہ ایک پہلکار ہیں۔
16 بہن میڈوری کے ابو یہوواہ کے گواہ نہیں ہیں۔ وہ ہمیشہ بہن میڈوری کی بےعزتی کِیا کرتے تھے اور اُن کا موازنہ اُن کے دوسرے بہن بھائیوں اور کلاس کے بچوں سے کرتے تھے۔ بہن میڈوری کہتی ہیں: ”مَیں خود کو بالکل نکما سمجھنے لگی۔“ لیکن جیسے جیسے بہن میڈوری بڑی ہوئیں، اُن میں اِعتماد پیدا ہوا۔ وہ کہتی ہیں: ”مَیں ہر روز بائبل پڑھتی تھی تاکہ میرے دل کو سکون ملے اور مجھے یہ احساس ہو کہ یہوواہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔“ اِس کے علاوہ بہن میڈوری نے اپنے لیے ایسے منصوبے بنائے جنہیں وہ پورا کر سکیں اور اِس سلسلے میں اُنہوں نے یہوواہ سے دُعا بھی کی۔ یوں بہن میڈوری کو اُن کاموں سے خوشی ملی جو وہ یہوواہ کے لیے کر سکتی تھیں۔
لگن سے یہوواہ کی خدمت کرتے رہیں
17. ہم اپنی سوچ کو نیا بناتے رہنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں اور اِس کا کیا فائدہ ہوگا؟
17 یاد رکھیں کہ منفی سوچ اور احساسات راتوں رات دُور نہیں ہو جاتے۔ اِسی لیے تو یہوواہ نے ہمیں یہ نصیحت کی ہے: ”اپنی سوچ کو نیا بناتے جائیں۔“ (اِفس 4:23، 24) اور اِس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم دُعا کریں، خدا کا کلام پڑھیں اور اِس پر سوچ بچار کریں۔ یہوواہ سے طاقت مانگیں تاکہ آپ لگن سے اِن کاموں کو کرتے رہیں۔ یہوواہ کی پاک روح آپ کی مدد کرے گی کہ آپ دوسروں سے اپنا موازنہ نہ کریں۔ اِس کے علاوہ اگر آپ کے دل میں غرور اور حسد پیدا ہو رہا ہے تو یہوواہ آپ کی مدد کر سکتا ہے کہ آپ فوراً اِنہیں اپنے دل سے نکال پھینکیں۔
18. دوسری تواریخ 6:29، 30 میں لکھی بات سے آپ کو کیا حوصلہ ملتا ہے؟
18 دوسری تواریخ 6:29، 30 کو پڑھیں۔ یہوواہ خدا ہمارے دل کو دیکھ سکتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ہم اِس دُنیا کے بُرے طورطریقوں اور اپنی خامیوں سے لڑنے کی کتنی کوشش کر رہے ہیں۔ اور یہ دیکھ کر وہ ہم سے اَور زیادہ پیار کرنے لگتا ہے۔
19. یہوواہ ہمارے لیے جو احساسات رکھتا ہے، اُنہیں بیان کرنے کے لیے اُس نے کون سی مثال دی؟
19 یہوواہ خدا ہمارے بارے میں جو احساسات رکھتا ہے، اُنہیں بیان کرنے کے لیے اُس نے ایک ماں اور بچے کی مثال دی۔ (یسع 49:15) اِس سلسلے میں ذرا ریچل نامی بہن کی مثال پر غور کریں۔ وہ کہتی ہیں: ”میری بیٹی سٹیفنی کی پیدائش وقت سے پہلے ہو گئی تھی۔ جب مَیں نے اُسے دیکھا تو وہ بہت ہی چھوٹی اور کمزور سی تھی۔ پیدا ہونے کے بعد ایک مہینے تک وہ ہسپتال میں رہی۔ اِس دوران ڈاکٹروں کی اِجازت سے مَیں ہر روز اُسے اپنی بانہوں میں لیتی تھی اور مجھے اُس سے بےپناہ محبت ہو گئی۔اب وہ چھ سال کی ہے اور ابھی بھی اپنی عمر کے حساب سے کافی چھوٹی دِکھتی ہے۔ لیکن مَیں اُس سے بہت زیادہ محبت کرتی ہوں کیونکہ اُس نے زندہ رہنے کے لیے جیتوڑ کوشش کی اور وہ میری زندگی میں ڈھیروں خوشیاں لائی ہے۔“ اِسی طرح جب یہوواہ یہ دیکھتا ہے کہ ہم اُس کی خدمت کرنے کے لیے کتنی جیتوڑ کوشش کر رہے ہیں تو اُس کے دل میں بھی ہمارے لیے محبت بڑھتی ہے۔ یہ جان کر ہمیں کتنی تسلی ملتی ہے!
20. یہوواہ کے بندوں کے طور پر ہمارے پاس خوش ہونے کی کیا وجہ ہے؟
20 یہوواہ کے بندوں کے طور پر آپ اُس کی نظر میں بڑے خاص ہیں اور کوئی بھی دوسرا آپ کی جگہ نہیں لے سکتا۔ یہوواہ نے آپ کو اپنی طرف اِس لیے نہیں کھینچ لیا کیونکہ آپ دوسروں سے بہتر تھے۔ وہ آپ کو اِس لیے اپنے پاس لایا کیونکہ اُس نے دیکھا کہ آپ کا دل اچھا ہے، آپ خاکسار ہیں، اُس سے سیکھنے کو تیار ہیں اور اُس کی مرضی کے مطابق ڈھل سکتے ہیں۔ (زبور 25:9) اِس بات کا یقین رکھیں کہ جب آپ جی جان سے یہوواہ کی خدمت کرتے ہیں تو وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے۔ آپ کی ثابتقدمی اور وفاداری اِس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کا ’دل بہت اچھا ہے۔‘ (لُو 8:15) اِس لیے لگن سے یہوواہ کی خدمت کرتے رہیں! یوں آپ اپنے کاموں کی وجہ سے خوش ہو پائیں گے۔
گیت نمبر 38: وہ آپ کو طاقت بخشے گا
a یہوواہ خدا کبھی بھی کسی دوسرے شخص سے ہمارا موازنہ نہیں کرتا۔ لیکن شاید ہم دوسروں سے اپنا موازنہ کریں اور پھر اپنے بارے میں یہ سوچنے لگیں کہ ہم کسی کام کے نہیں ہیں۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ دوسروں سے اپنا موازنہ کرنا کیوں نقصاندہ ہو سکتا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ ہم اپنے گھر والوں اور کلیسیا کے بہن بھائیوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں تاکہ وہ خود کو اُسی نظر سے دیکھیں جس نظر سے یہوواہ خدا اُنہیں دیکھتا ہے۔
b فرضی نام اِستعمال کیے گئے ہیں۔
c حالانکہ اِس پیراگراف میں شوہروں سے بات کی گئی ہے لیکن اِس میں بتائے گئے اصول بیویوں کے لیے بھی ہیں۔
d تصویر کی وضاحت: خاندانی عبادت کے دوران ماں باپ یہ دیکھ کر بہت خوش ہو رہے ہیں کہ اُن کا ہر بچہ بڑے شوق سے نوح کی کشتی کی چیزیں بنا رہا ہے۔
e تصویر کی وضاحت: ایک ماں جو اکیلے اپنے چھوٹے بچے کی پرورش کرتی ہے، یہ منصوبہ بنا رہی ہے کہ وہ مددگار پہلکار بنے گی اور جب وہ مددگار پہلکار کے طور پر مُنادی کر رہی ہے تو وہ بہت خوش ہے۔