پاک کلام میں غصہ کرنے کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟
پاک کلام کا جواب
پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ غصے میں بےقابو ہو جانا غلط ہے۔اِس سے نہ صرف غصہ کرنے والے شخص کو بلکہ اُس کے آس پاس کے لوگوں کو بھی نقصان ہوتا ہے۔(امثال 29:22) کبھی کبھار غصہ آنے کی کوئی جائز وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ جن لوگوں کو ”غصے کے دورے“ پڑتے رہتے ہیں، وہ نجات نہیں پائیں گے۔ (گلتیوں 5:19-21) پاک کلام میں ایسے اصول پائے جاتے ہیں جو غصے پر قابو پانے میں کسی شخص کی مدد کر سکتے ہیں۔
کیا غصہ کرنا ہمیشہ غلط ہوتا ہے؟
جی نہیں۔ غصہ کرنا ہمیشہ غلط نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر جب خدا کے بندے نحمیاہ کو پتہ چلا کہ اُن کے ہم ایمانوں پر کتنا ظلم ہو رہا ہے تو اُنہیں بہت غصہ آیا۔—نحمیاہ 5:6۔
کبھی کبھار خدا کو بھی غصہ آتا ہے۔ مثال کے طور پر جب بنی اِسرائیل نے خدا سے اپنا وعدہ توڑ دیا اور اُس کی عبادت چھوڑ کر بُتوں کی پرستش کرنے لگے تو ”[یہوواہ] کا قہر اُن پر بھڑکا۔“ (قضاۃ 2:13، 14) لیکن پھر بھی یہوواہ خدا کی پہچان اِس بات سے نہیں ہوتی کہ وہ غصے والا ہے۔ وہ جب بھی غصہ کرتا ہے، اُس کے غصے کے پیچھے ہمیشہ کوئی نہ کوئی جائز وجہ ہوتی ہے اور وہ غصے میں بےقابو نہیں ہوتا۔—خروج 34:6؛ یسعیاہ 48:9۔
غصہ کرنا کب غلط ہوتا ہے؟
غصہ کرنا اُس وقت غلط ہوتا ہے جب ایک شخص غصے میں خود پر قابو نہیں رکھ پاتا یا اُس کے غصہ کرنے کی کوئی جائز وجہ نہیں ہوتی۔چونکہ سب اِنسان عیب دار ہیں اِس لیے اکثر وہ غصے میں بےقابو ہو جاتے ہیں اور زیادہ تر صورتوں میں تو اُن کے غصہ کرنے کی کوئی جائز وجہ بھی نہیں ہوتی۔ آئیں، اِس کی کچھ مثالوں پر غور کریں۔
جب خدا نے قائن کی قربانی کو قبول نہیں کِیا تو وہ ” نہایت غضب ناک ہوا۔“ اُس کا غصہ اِتنا بڑھ گیا کہ اُس نے اپنے بھائی کو جان سے ہی مار ڈالا۔—پیدایش 4:3-8۔
جب خدا نے نینوہ کے لوگوں کو سزا نہیں دی تو یُوناہ نبی کو نہایت غصہ آیا۔ اِس وجہ سے خدا نے یُوناہ نبی کی اِصلاح کی۔ خدا نے اُنہیں سمجھایا کہ اُن کا غصہ جائز نہیں ہے اور اُنہیں اُن لوگوں سے ہمدردی کرنی چاہیے جنہوں نے اپنے گُناہوں سے توبہ کر لی ہے۔—یُوناہ 3:10–4:1، 4، 11۔a
اِن مثالوں سے پتہ چلتا ہے کہ جو شخص اپنے ”غصے پر قابو نہیں رکھتا، وہ خدا کی نظروں میں نیک نہیں ٹھہرتا۔“—یعقوب 1:20۔
آپ اپنے غصے پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟
یاد رکھیں کہ غصے میں خود پر قابو نہ رکھنا کمزوری کی علامت ہے۔ کچھ لوگ شاید سوچیں کہ جو شخص غصے میں اپنی ساری بھڑاس نکال دیتا ہے، وہ بڑا ہی بہادر ہوتا ہے۔ لیکن اصل میں جو شخص اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پاتا، وہ بہت ہی کمزور ہوتا ہے۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”جو اپنے آپ پر قابو نہ پا سکے وہ اُس شہر کی مانند ہے جس کی فصیل ڈھا دی گئی ہے۔“ (امثال 25:28،اُردو جیو ورشن؛ امثال 29:11) اِس کی بجائے اگر ہم اپنے غصے کو قابو میں رکھتے ہیں تو ہم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم صحیح معنوں میں بہادر اور عقل مند ہیں۔ (امثال 14:29) پاک کلام میں بتایا گیا ہے: ”جو قہر کرنے میں دھیما ہے پہلوان سے بہتر ہے۔“—امثال 16:32۔
اپنے غصے کو ٹھنڈا کر لیں تاکہ آپ کچھ ایسا نہ کر بیٹھیں جس پر آپ کو پچھتانا پڑے۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”قہر سے باز آ اور غضب کو چھوڑ دے۔ بیزار نہ ہو۔ اِس سے بُرائی ہی نکلتی ہے۔“ (زبور 37:8) جب ہمیں غصہ آتا ہے تو یہ ہم پر ہوتا ہے کہ ہم اُس وقت کیا کریں گے۔ لہٰذا اِس سے پہلے کہ ہمارے غصے کا کوئی بُرا نتیجہ نکلے، ہمیں اپنا غصہ تھوک دینا چاہیے۔ اِس سلسلے میں پاک کلام کا یہ مشورہ بھی بڑا فائدہ مند ہے: ”جب آپ کو غصہ آئے تو گُناہ نہ کریں۔“—اِفسیوں 4:26۔
جب آپ کو غصہ آنے لگے تو اُس جگہ سے چلے جائیں۔ پاک کلام میں بتایا گیا ہے: ”جھگڑے کا شروع پانی کے پھوٹ نکلنے کی مانند ہے اِس لئے لڑائی سے پہلے جھگڑے کو چھوڑ دو۔“ (امثال 17:14) اگر آپ کے اور کسی دوسرے شخص کے درمیان کوئی مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے تو یہ سمجھ داری کی بات ہوگی کہ آپ اُس مسئلے کو جتنی جلدی ہو سکے، حل کر لیں۔ لیکن اِس کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے آپ اور دوسرا شخص اپنے غصے کو ٹھنڈا کر لیں تاکہ آپ معاملے پر آرام سے بات کر سکیں۔
معاملے کو پوری طرح سمجھیں۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”آدمی کی تمیز اُس کو قہر کرنے میں دھیما بناتی ہے۔“ (امثال 19:11) سمجھ داری اِس میں ہے کہ ہم پوری بات جانے بغیر کوئی نتیجہ نہ نکال لیں۔ جب ہم پوری توجہ سے دوسرے شخص کی بات سنیں گے تو ہم معاملے کو پوری طرح سمجھ پائیں گے اور یوں ہم بِلاوجہ غصہ کرنے سے بچ جائیں گے۔—یعقوب 1:19۔
اِطمینان حاصل کرنے کے لیے دُعا کریں۔ جب آپ دُعا کریں گے تو ”خدا آپ کو وہ اِطمینان دے گا جو سمجھ سے باہر ہے۔“ (فِلپّیوں 4:7) دُعا کے ذریعے ہم خدا کی پاک روح حاصل کر سکتے ہیں اور خدا کی پاک روح ہماری مدد کرے گی کہ ہم خود میں اِطمینان، تحمل اور ضبط نفس جیسی خوبیاں پیدا کر سکیں۔—لُوقا 11:13؛ گلتیوں 5:22، 23۔
سوچ سمجھ کر دوست بنائیں۔ ہم اُن لوگوں جیسے بن سکتے ہیں جن کے ساتھ ہم اُٹھتے بیٹھتے ہیں۔ (امثال 13:20؛ 1-کُرنتھیوں 15:33) اِسی لیے پاک کلام میں یہ نصیحت کی گئی ہے: ”غصہ ور آدمی سے دوستی نہ کر اور غضب ناک شخص کے ساتھ نہ جا۔ مبادا [یعنی کہیں ایسا نہ ہو کہ] تُو اُس کی روشیں سیکھے اور اپنی جان کو پھندے میں پھنسائے۔“—امثال 22:24، 25۔
a غالباً یُوناہ نبی نے اِصلاح کو قبول کر لیا تھا اور اپنے غصے پر قابو پا لیا تھا۔ اِسی لیے خدا نے اُن سے پاک کلام کی ایک کتاب لکھوائی جو یُوناہ کے نام سے کہلاتی ہے۔