مسیحی اجتماعات کی قدر کرنا
”محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے کے لئے ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں۔ اور ایک دوسرے کیساتھ جمع ہونے سے باز نہ آئیں۔“—عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵۔
۱، ۲. (ا) سچے مسیحیوں کے کسی اجتماع میں حاضر ہونا ایک شرف کیوں ہے؟ (ب) کس مفہوم میں یسوع اپنے پیروکاروں کے اجتماعات میں موجود ہوتا ہے؟
ایک مسیحی اجتماع پر حاضر ہونا کتنا بڑا شرف ہے، خواہ یہ دس سے کم یا یہوواہ کے کئی ہزار پرستاروں پر مشتمل ہو کیونکہ یسوع نے کہا تھا: ”جہاں دو یا تین میرے نام پر اکٹھے ہیں وہاں مَیں اُن کے بیچ میں ہوں“! (متی ۱۸:۲۰) سچ ہے کہ یسوع یہ وعدہ کرتے وقت عدالتی معاملات پر بحث کر رہا تھا جنہیں کلیسیا میں پیشواؤں کے ذریعے درست طور پر نپٹانے کی ضرورت تھی۔ (متی ۱۸:۱۵-۱۹) تاہم کیا یسوع کے الفاظ کا اطلاق اُن تمام مسیحی اجتماعات پر بھی کِیا جا سکتا ہے جنکا آغاز اور اختتام اُس کے نام سے دُعا کے ساتھ کِیا جاتا ہے؟ جیہاں۔ یاد ہے جب یسوع نے اپنے پیروکاروں کو شاگرد بنانے کے کام کا حکم دیا تو اُس نے وعدہ کِیا: ”دیکھو مَیں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔“—متی ۲۸:۲۰۔
۲ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسیحی کلیسیا کا سردار، خداوند یسوع مسیح، ایماندار پیروکاروں کے تمام اجتماعات میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ علاوہازیں، ہم اس بات کا بھی یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ خدا کی پاک روح کے ذریعے اُن میں موجود ہے۔ (اعمال ۲:۳۳؛ مکاشفہ ۵:۶) یہوواہ خدا بھی ہمارے باہم جمع ہونے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ان اجتماعات کا بنیادی مقصد ”جماعتوں میں“ خدا کی حمدوستائش کرنا ہے۔ (زبور ۲۶:۱۲) ہمارا کلیسیائی اجلاسوں پر حاضر ہونا اُس کیلئے ہماری محبت کا ثبوت ہے۔
۳. کن اہم وجوہات کی بِنا پر ہم مسیحی اجتماعات کی قدر کرتے ہیں؟
۳ مسیحی اجتماعات کی قدر کرنے کی اَور بھی موزوں وجوہات ہیں۔ زمین کو چھوڑنے سے پہلے، یسوع مسیح نے اپنے ممسوح شاگردوں کو مقرر کِیا کہ ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کے طور پر ایمان کے ضامن گھرانے کو بروقت روحانی خوراک فراہم کرے۔ (متی ۲۴:۴۵) ایک اہم طریقہ جس سے ایسی روحانی خوراک فراہم کی جاتی ہے وہ کلیسیائی اجلاس اور بڑے بڑے اجتماعات—اسمبلیاں اور کنونشنیں ہیں۔ خداوند یسوع مسیح اُن تمام لوگوں کیلئے جو اس شریر دستورالعمل کے خاتمے سے بچنا اور خدا کی راست نئی دُنیا میں زندگی حاصل کرنا چاہتے ہیں، دیانتدار نوکر کی ایسے تمام اجتماعات پر اہم معلومات فراہم کرنے کیلئے راہنمائی کرتا ہے۔
۴. بائبل میں کس خطرناک ”دستور“ کا ذکر کِیا گیا ہے اور کیا چیز اس سے گریز کرنے میں ہماری مدد کریگی؟
۴ لہٰذا کوئی بھی مسیحی اُس خطرناک دستور کو ترقی نہیں دے سکتا جسکا پولس رسول نے ذکر کِیا، جس نے لکھا: ”محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے کے لئے ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہونے سے باز نہ آئیں جیسا بعض لوگوں کا دستور ہے بلکہ ایک دوسرے کو نصیحت کریں اور جس قدر اس دن کو نزدیک ہوتے ہوئے دیکھتے ہو اُسی قدر زیادہ کِیا کرو۔“ (عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵) مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونے کے استحقاق اور فوائد پر غوروخوض کرنا وفاداری اور پورے دلوجان سے ایسے اجتماعات کی حمایت کرنے میں ہماری مدد کریگا۔
اجلاس جو حوصلہافزائی کرتے ہیں
۵. (ا) ہماری باتچیت کو اجلاسوں پر کیسا اثر ڈالنا چاہئے؟ (ب) ہمیں دلچسپی رکھنے والے نئے اشخاص کو اجلاسوں پر مدعو کرنے میں تاخیر کیوں نہیں کرنی چاہئے؟
۵ چونکہ مسیحی یہوواہ کی پاک روح کے مسیحی اجلاسوں پر سرگرمِعمل ہونے کیلئے دُعا کرتے ہیں اسلئے حاضر ہونے والے ہر شخص کو اپنی بھرپور کوشش کرنی چاہئے کہ روح کی مطابقت میں عملپیرا ہو اور ”خدا کے پاک رُوح کو رنجیدہ نہ“ کرے۔ (افسیوں ۴:۳۰) جب پولس رسول نے یہ الہامی الفاظ تحریر کئے تو وہ زبان کے مناسب استعمال کی بابت گفتگو کر رہا تھا۔ جو بات بھی ہم کہتے ہیں اُسے ہمیشہ ”ضرورت کے موافق ترقی کے لئے اچھی“ ہونا چاہئے ”تاکہ اس سے سننے والوں پر فضل ہو۔“ (افسیوں ۴:۲۹) مسیحی اجتماعات کیلئے یہ بات خاص طور پر ضروری ہے۔ کرنتھیوں کے نام اپنے خط میں، پولس نے اجلاسوں کے تعمیری، معلوماتی اور حوصلہافزا ہونے کی ضرورت پر زور دیا۔ (۱-کرنتھیوں ۱۴:۵، ۱۲، ۱۹، ۲۶، ۳۱) نئے آنے والوں سمیت، تمام حاضرین ایسے اجلاسوں سے مستفید ہوتے ہیں جو اس بات کا اقرار کر سکتے ہیں کہ ”بیشک خدا تُم میں ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۴:۲۵) اس لئے ہمیں نئے دلچسپی لینے والے اشخاص کو اپنے ساتھ جمع ہونے کی دعوت دینے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ایسا کرنا اُنکی روحانی ترقی کو تیز کریگا۔
۶. اجلاس کو تعمیری بنانے میں مدد دینے والے بعض عناصر کونسے ہیں؟
۶ وہ سب لوگ جنہیں مسیحی اجلاسوں پر تقاریر، انٹرویو یا مظاہرے تفویض کئے جاتے ہیں اُنہیں اس بات کا یقین کر لینا چاہئے کہ اُنکی گفتگو تعمیری اور خدا کے تحریری کلام بائبل کی مطابقت میں ہو۔ درست زبان استعمال کرنے کے علاوہ، ہمیں ایسے احساسات اور جذبات کا بھی اظہار کرنا چاہئے جو خدا اور مسیح کی پُرمحبت شخصیتوں کے شایانِشان ہیں۔ اجلاس کے پروگرام میں حصے پیش کرنے والے تمام لوگ اگر ’محبت، صبر اور ایمان جیسے خدا کے رُوح کے پھل‘ ظاہر کرنے کیلئے مستعد ہیں تو پھر تمام حاضرین یقینی طور پر حوصلہافزائی محسوس کرینگے۔—گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳۔
۷. تمام حاضرین ایک حوصلہافزا اجتماع کا باعث کیسے بن سکتے ہیں؟
۷ کلیسیائی اجلاسوں کے پروگرام میں اگرچہ چند اشخاص ہی کے حصے ہو سکتے ہیں توبھی تمام لوگ ایک ترقیپسندانہ اجتماع کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اکثر سامعین کے پاس سوالات کے جواب دینے کے مواقع ہوتے ہیں۔ یہی اپنے ایمان کا علانیہ اظہار کرنے کے مواقع ہوتے ہیں۔ (رومیوں ۱۰:۹) اُنہیں کبھی بھی اپنے ذاتی نظریات کو فروغ دینے، اپنی ذاتی کامیابیوں پر فخر کرنے یا ایک ساتھی ایماندار پر نکتہچینی کرنے کیلئے استعمال نہیں کِیا جانا چاہئے۔ کیا اس سے خدا کی رُوح رنجیدہ نہیں ہوگی؟ ساتھی ایمانداروں کیساتھ اختلافات علیٰحدگی میں محبت کی رُوح کے ساتھ نپٹائے جانے چاہئیں۔ بائبل بیان کرتی ہے: ”ایک دوسرے پر مہربان اور نرمدل ہو اور جس طرح خدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کئے ہیں تُم بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کرو۔“ (افسیوں ۴:۳۲) اس عمدہ مشورت کا اطلاق کرنے کیلئے مسیحی اجتماعات ہمارے لئے کیا ہی شاندار موقع فراہم کرتے ہیں! ایسا کرنے کیلئے بہتیرے لوگ اجلاسوں پر پہلے پہنچ جاتے ہیں اور ختم ہونے کے بعد تک رہتے ہیں۔ اس سے بھی نئے دلچسپی لینے والے اشخاص کی مدد ہوتی ہے جنہیں یہ محسوس کرنے کی خاص ضرورت ہے کہ اُن کا خیرمقدم کِیا جا رہا ہے۔ لہٰذا ’ایک دوسرے کو محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہوئے،‘ اجلاسوں کو حوصلہافزائی کا باعث بنانے کیلئے تمام مخصوصشُدہ مسیحیوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
اچھی تیاری کریں
۸. (ا) اجلاسوں پر حاضر ہونے کیلئے بعض لوگ کونسی قابلِتعریف قربانیاں دیتے ہیں؟ (ب) چوپان کے طور پر یہوواہ کیا نمونہ قائم کرتا ہے؟
۸ اگرچہ بعض کیلئے مسیحی اجتماعات پر حاضر ہونا نسبتاً آسان ہو سکتا ہے جبکہ دیگر سے یہ مسلسل قربانی کا تقاضا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک مسیحی ماں جسے اپنے گھرانے کی ضروریات پوری کرنے میں مدد دینے کیلئے دُنیاوی ملازمت کرنی پڑتی ہے عموماً تھکن سے چُور گھر واپس لوٹتی ہے۔ اسکے بعد شاید اُسے کھانا تیار کرنا ہو اور اپنے بچوں کو اجلاس کیلئے تیار کرنا ہو۔ دیگر مسیحیوں کو شاید اجلاسوں پر پہنچنے کیلئے طویل مسافت طے کرنی پڑتی ہو یا شاید وہ جسمانی کمزوریوں یا بڑھاپے کی وجہ سے محدود ہوں۔ یقینی طور پر، یہوواہ خدا اجلاس پر حاضر ہونے والے ہر وفادار شخص کی حالت کو سمجھتا ہے، بالکل اُسی طرح جیسے ایک شفیق چرواہا اپنے گلّے کی انفرادی بھیڑوں کی خصوصی ضروریات کو سمجھتا ہے۔ ”چوپان کی مانند،“ بائبل بیان کرتی ہے، ”[یہوواہ] اپنا گلّہ چرائیگا۔ وہ برّوں کو اپنے بازوؤں میں جمع کریگا اور اپنی بغل میں لیکر چلیگا اور اُنکو جو دُودھ پلاتی ہیں آہستہ آہستہ لے جائیگا۔“—یسعیاہ ۴۰:۱۱۔
۹، ۱۰. ہم اجلاسوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ کیسے اٹھا سکتے ہیں؟
۹ وہ لوگ جنہیں اجلاسوں پر باقاعدہ حاضر ہونے کیلئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں ممکن ہے کہ اُنکے پاس اُس مواد کی تیاری کیلئے زیادہ وقت نہ ہو جس پر غور کِیا جائیگا۔ بائبل پڑھائی کے ہفتہوار شیڈول کی پابندی کرنا تھیوکریٹک منسٹری سکول میں حاضر ہونے کو اَور زیادہ بااجر بنا دیتا ہے۔ اسی طرح، دوسرے اجلاسوں جیسےکہ مینارِنگہبانی کا مطالعہ اور کلیسیائی کتابی مطالعہ کیلئے بھی قبلازوقت تیاری، انہیں مزید مفید بناتی ہے۔ مطالعے کے مواد کی پیشگی پڑھائی اور کمازکم چند ایک حوالہشُدہ صحائف پر غور کرنے سے وقتطلب خاندانی حالات والے لوگ بھی ان خصوصی بائبل مباحثوں میں پُرمعنی شرکت کرنے کے قابل ہونگے۔
۱۰ دیگر، جنکے حالات زیادہ وقت کا تقاضا نہیں کرتے، وہ اجلاسوں کی تیاری میں زیادہ وقت صرف کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، وہ اُن صحائف پر تحقیق کر سکتے ہیں جنکا حوالہ تو دیا گیا ہے مگر لکھے نہیں گئے۔ یوں تمام لوگ اجلاسوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کیلئے تیار ہونگے اور اپنی تقاریر اور تبصروں سے کلیسیا کی ترقی میں عمدہ حصہ ادا کرینگے۔ اچھی تیاری کرنے سے بزرگ اور خدمتگزار خادم چھوٹے اور مختصر جوابات دینے میں عمدہ نمونہ قائم کرینگے۔ یہوواہ کی فراہمیوں کیلئے احترام کے پیشِنظر، سامعین اجلاسوں کے دوران انتشارِخیال کا باعث بننے والے تمام کاموں سے گریز کرینگے۔—۱-پطرس ۵:۳۔
۱۱. اجلاسوں کیلئے تیار ہونے کی خاطر ذاتی تربیت کی ضرورت کیوں ہے؟
۱۱ ہماری روحانی صحت کے لئے غیرضروری کارگزاریاں اور تفریحات ہمارا بہت سا وقت ضائع کر سکتی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ہمیں وقت کے استعمال کے سلسلے میں اپنا جائزہ لینے اور ”نادان نہ بننے“ کی ضرورت ہے۔ (افسیوں ۵:۱۷) ہمارا نصبالعین یہ ہونا چاہئے کہ غیرضروری معاملات سے ’وقت کو غنیمت‘ جانتے ہوئے ذاتی بائبل مطالعہ اور اجلاسوں کی تیاری نیز بادشاہتی خدمت میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں۔ (افسیوں ۵:۱۶) بیشک ایسا کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا اور اس کیلئے ذاتی تربیت درکار ہے۔ جو نوجوان اس پر توجہ دیتے ہیں وہ آئندہ ترقی کرنے کیلئے ایک اچھی بنیاد قائم کر رہے ہیں۔ پولس نے اپنے نوجوان ساتھی تیمتھیس کو لکھا: ”ان باتوں کی فکر رکھ [تیمتھیس کے لئے پولس کی نصیحت]۔ ان ہی میں مشغول رہ تاکہ تیری ترقی سب پر ظاہر ہو۔“—۱-تیمتھیس ۴:۱۵۔
خدا کے کلام سے نمونے
۱۲. سموئیل کے خاندان نے کونسا شاندار نمونہ قائم کِیا؟
۱۲ سموئیل کے خاندان کی طرف سے قائمکردہ عمدہ نمونے پر غور کریں جو اُس وقت ساتھی پرستاروں کیساتھ جمع ہونے کے انتظامات میں باقاعدہ شرکت کرتا تھا جب خدا کا مسکن سیلا میں واقع تھا۔ صرف مردوں سے عیدیں منانے کیلئے ہر سال حاضر ہونے کا تقاضا کِیا جاتا تھا۔ تاہم سموئیل کا باپ، القانہ، جب ”اپنے شہر سے سیلاؔ میں ربالافواج کے حضور سجدہ کرنے اور قربانی گذراننے کو جاتا تھا“ تو وہ اپنے سارے خاندان کو ساتھ لیکر جاتا تھا۔ (۱-سموئیل ۱:۳-۵) غالباً سموئیل کا آبائی شہر راماتیم صوفیم، جدید زمانے کے رانتس کے ساحل کے قریب ”افرائیمؔ کے کوہستانی مُلک“ کے دامن میں واقع تھا۔ (۱-سموئیل ۱:۱) لہٰذا سیلا جانے کیلئے تقریباً ۲۰ میل کا سفر اُن دنوں کے لحاظ سے ایک تھکا دینے والا سفر ہوگا۔ ”سالبسال . . . جب وہ خداوند کے گھر [جاتے]“ تو القانہ کا خاندان وفاداری کیساتھ ایسا ہی کرتا تھا۔—۱-سموئیل ۱:۷۔
۱۳. یسوع کی زمینی زندگی کے وقت وفادار یہودیوں نے کونسا نمونہ قائم کِیا تھا؟
۱۳ یسوع نے بھی ایک بڑے خاندان میں پرورش پائی تھی۔ یروشلیم میں عیدِفسح پر حاضر ہونے کیلئے ہر سال خاندان ناصرۃ سے جنوب کی طرف تقریباً ۶۰ میل کا سفر کرتا تھا۔ وہ دو ممکنہ راستے اختیار کرتے ہونگے۔ زیادہ سیدھے راستے میں مجدو کی وادی میں اُترنا اور اسکے بعد سامریہ کے علاقے سے یروشلیم کی طرف کوئی ۲،۰۰۰ فٹ کی بلندی پر چڑھنا شامل تھا۔ ایک دوسرا مقبول راستہ وہ تھا جو یسوع نے ۳۳ س.ع. میں یروشلیم کی طرف اپنے آخری سفر کے دوران اختیار کِیا تھا۔ اس میں سطح سمندر سے نیچے یردن کی وادی میں نیچے کی طرف چلتے رہنا شامل تھا جب تک وہ ”یہوؔدیہ کی سرحدوں میں اور یرؔدن کے پار“ نہ پہنچ گیا۔ (مرقس ۱۰:۱) اس جگہ سے، ”یرؔوشلیم“ کوئی ۲۰ میل کے فاصلے پر ہے جس میں ۳،۷۰۰ فٹ سے زیادہ نشیب میں اُترنا شامل ہے۔ (مرقس ۱۰:۳۲) عیدیں منانے والے وفادار لوگ، باقاعدہ طور پر گلیل سے یروشلیم کا مشکل سفر کِیا کرتے تھے۔ (لوقا ۲:۴۴) آجکل متموّل ممالک میں رہنے والے یہوواہ کے خادموں کیلئے کیا ہی عمدہ نمونہ، جن میں سے بہتیرے جدید قسم کی ذرائع آمدورفت کے باعث نسبتاً آسانی کیساتھ مسیحی اجتماعات پر حاضر ہو سکتے ہیں!
۱۴، ۱۵. (ا) حناہ نے کیا نمونہ قائم کِیا؟ (ب) اجلاسوں پر حاضر ہونے والے بعض نئے اشخاص کی طرف سے ظاہرکردہ عمدہ میلان سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۴ ایک اَور مثال ۸۴ سالہ بیوہ حناہ کی ہے۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ وہ ”ہیکل سے جدا نہ ہوتی تھی۔“ (لوقا ۲:۳۷) مزیدبرآں، حناہ دوسروں میں پُرمحبت دلچسپی ظاہر کرتی تھی۔ ننھے یسوع کو دیکھ کر اور یہ جان کر کہ وہ موعودہ مسیحا ہے، اُس نے کیا کِیا؟ اُس نے خدا کا شکر ادا کِیا اور ”اُن سب سے جو یرؔوشلیم کے چھٹکارے کے منتظر تھے اُسکی [بچے کی] بابت باتیں کرنے لگی۔“ (لوقا ۲:۳۸) کسقدر عمدہ میلان، آجکل کے مسیحیوں کیلئے ایک قابلِتقلید نمونہ!
۱۵ جیہاں، ہمارے اجلاسوں میں حاضری اور شرکت کو اسقدر خوشی کا باعث ہونا چاہئے کہ حناہ کی طرح، ہمیں کبھی بھی اُن سے غیرحاضر نہیں ہونا چاہئے۔ بہتیرے نئے اشخاص ایسا ہی جذبہ رکھتے ہیں۔ تاریکی سے نکل کر خدا کی عجیب روشنی میں آنے کے بعد، وہ حتیالوسع سب کچھ سیکھنا چاہتے ہیں اور بہتیرے لوگ مسیحی اجلاسوں کیلئے بہت زیادہ گرمجوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ اسکی دوسری طرف، وہ لوگ جو کافی عرصہ سے سچائی میں ہیں اُنہیں ’پہلی سی محبت نہ چھوڑ دینے‘ کی بابت خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ (مکاشفہ ۲:۴) صحت سے متعلق سنگین مسائل یا ایک شخص کے قابو سے باہر دیگر عناصر بعضاوقات اجلاس پر حاضری کو محدود کر سکتے ہیں۔ تاہم ہمیں مادہپرستی، سیروتفریح یا دلچسپی کی کمی کو کبھی بھی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ ہمارے تیاری نہ کرنے، سُست یا اجلاسوں پر بےقاعدہ ہونے کا باعث بنے۔—لوقا ۸:۱۴۔
بہترین نمونہ
۱۶، ۱۷. (ا) روحانی اجتماعات کی بابت یسوع کا کیا میلان تھا؟ (ب) تمام مسیحیوں کو کونسے اچھے دستور کی پیروی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے؟
۱۶ روحانی چیزوں کیلئے قدردانی ظاہر کرنے میں یسوع نے ایک شاندار نمونہ قائم کِیا۔ اُس نے ۱۲ برس کی عمر میں یروشلیم میں خدا کے گھر کیلئے محبت کا مظاہرہ کِیا۔ اُس کے والدین اُسے کھو بیٹھے لیکن آخر میں اُسے ہیکل میں اُستادوں کیساتھ خدا کے کلام کی بابت گفتگو کرتے پایا۔ اپنے والدین کی فکرمندی کے جواب میں یسوع نے بڑے احترام کیساتھ پوچھا: ”کیا تُم کو معلوم نہ تھا کہ مجھے اپنے باپ کے ہاں ہونا ضرور ہے؟“ (لوقا ۲:۴۹) اطاعتشعاری کیساتھ، نوعمر یسوع اپنے والدین کیساتھ ناصرۃ واپس لوٹ گیا۔ وہاں وہ عبادتخانہ میں باقاعدہ حاضری سے پرستش کے اجلاسوں کیلئے اپنی محبت کا اظہار کرتا رہا۔ لہٰذا، جب اُس نے اپنی خدمتگزاری کا آغاز کِیا تو بائبل بیان کرتی ہے: ”وہ ناؔصرۃ میں آیا جہاں اس نے پرورش پائی تھی اور اپنے دستور کے موافق سبت کے دن عبادتخانہ میں گیا اور پڑھنے کو کھڑا ہوا۔“ یسوع کے یسعیاہ ۶۱:۱، ۲ کو پڑھنے اور سمجھانے کے بعد، سامعین ”ان پُرفضل باتوں پر جو اس کے مُنہ سے نکلتی تھیں تعجب کرنے لگے۔“—لوقا ۴:۱۶، ۲۲۔
۱۷ آجکل بھی مسیحی اجلاس اسی بنیادی نمونے کی مطابقت میں ترتیب دئے جاتے ہیں۔ گیت اور دُعا کیساتھ اجلاس کے شروع ہونے کے بعد، بائبل میں سے آیات (یا بائبل مطالعے کے مواد میں حوالہشُدہ آیات) پڑھی اور سمجھائی جاتی ہیں۔ سچے مسیحی یسوع مسیح کے اچھے دستور کی نقل کرنے کے پابند ہیں۔ جہاں تک اُنکے حالات اجازت دیتے ہیں، وہ مسیحی اجتماعات پر باقاعدہ حاضر ہونے سے خوش ہوتے ہیں۔
جدید زمانے کی مثالیں
۱۸، ۱۹. غریب ممالک میں بھی بھائیوں نے اجلاسوں، اسمبلیوں اور کنونشنوں کے سلسلے میں کونسے شاندار نمونے قائم کئے ہیں؟
۱۸ دُنیا کے ایسے علاقوں میں جہاں لوگ زیادہ مالدار نہیں ہیں، ہمارے بہت سے بہن بھائی مسیحی اجتماعات کیلئے قدردانی کی عمدہ مثالیں قائم کرتے ہیں۔ موزمبیق میں ڈسٹرکٹ اوورسیئر اورلینڈو اور اُسکی بیوی امیلیا کو ایک اسمبلی پر خدمت انجام دینے کیلئے ایک اُونچے پہاڑ پر سے کوئی ۵۵ میل سفر کرنے کیلئے تقریباً ۴۵ گھنٹے چلنا پڑا۔ اسکے بعد دوسری اسمبلی پر خدمت انجام دینے کیلئے اُنہیں اُتنی ہی مسافت کر کے واپس آنا پڑا۔ اورلینڈو بڑی انکساری سے بیان کرتا ہے: ”جب ہم باوا کی کلیسیا کے بھائیوں سے ملے تو ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ ہم نے کچھ بھی نہیں کِیا۔ اسمبلی پر حاضر ہونے اور اپنے گھر واپس جانے میں ۲۵۰ میل کی چھ دن کی پیدل مسافت شامل تھی اور اُن کے درمیان ایک ۶۰ سالہ عمررسیدہ بھائی بھی تھا!“
۱۹ ہفتہوار کلیسیائی اجلاسوں کیلئے قدردانی کی بابت کیا ہے؟ کاشواشوا نجامبا ۷۰ سال کی ایک کمزور سی بہن ہے۔ وہ رنڈو، نیمبیا میں کنگڈمہال سے تین میل دُور ایک چھوٹے سے گاؤں کیسوسوسی میں رہتی ہے۔ اجلاسوں پر حاضر ہونے کیلئے اُسے جنگل میں سے آنے جانے کیلئے چھ میل کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ کئی لوگوں کو اس راستے میں لُوٹا گیا ہے مگر کاشواشوا پھر بھی آتی رہتی ہے۔ زیادہتر اجلاس ایسی زبانوں میں منعقد کئے جاتے ہیں جنہیں وہ نہیں سمجھتی۔ پس حاضر ہونے سے وہ کیسے فائدہ اٹھاتی ہے؟ ”ساتھ ساتھ صحائف دیکھنے سے،“ کاشواشوا کہتی ہے، ”مَیں یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتی ہوں کہ تقریر کس چیز کی بابت ہے۔“ تاہم اَنپڑھ ہوتے ہوئے وہ صحائف کیسے دیکھتی ہے؟ ”مَیں اُن صحائف پر دھیان دیتی ہوں جو مجھے زبانی یاد ہیں،“ وہ جواب دیتی ہے۔ نیز سالوں کے دوران، اُس نے کافی زیادہ صحائف زبانی یاد کر لئے ہیں۔ بائبل استعمال کرنے کی اپنی لیاقت کو بہتر بنانے کیلئے، وہ کلیسیا کی طرف سے ترتیب دی گئی تعلیمبالغاں کی جماعت میں جاتی ہے۔ ”مجھے اجلاسوں پر جانا بہت پسند ہے،“ وہ کہتی ہے۔ ”وہاں سیکھنے کیلئے ہمیشہ نئی باتیں ہوتی ہیں۔ مجھے بھائیوں اور بہنوں سے رفاقت رکھنا بہت اچھا لگتا ہے۔ اگرچہ مَیں اُن میں سے ہر ایک کیساتھ بات نہیں کر سکتی توبھی وہ ہمیشہ میرے پاس آتے اور مجھے سلام کرتے ہیں۔ نیز سب سے بڑھ کر، مَیں جانتی ہوں کہ اجلاسوں پر حاضر ہونے سے مَیں یہوواہ کے دل کو شاد کر رہی ہوں۔“
۲۰. ہمیں اپنے مسیحی اجتماعات سے کیوں غیرحاضر نہیں ہونا چاہئے؟
۲۰ کاشواشوا کی طرح، تمام دُنیا میں یہوواہ کے لاکھوں پرستار مسیحی اجلاسوں کیلئے قابلِتعریف قدردانی ظاہر کرتے ہیں۔ جُوںجُوں شیطان کی دُنیا اپنے خاتمے کی طرف بڑھتی ہے، ہمارے پاس باہم جمع ہونے سے باز رہنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسکی بجائے، آئیے روحانی طور پر بیدار رہیں اور اجلاسوں، اسمبلیوں اور کنونشنوں کیلئے گہری قدردانی کا اظہار کریں۔ یہ چیز نہ صرف یہوواہ کے دل کو شاد کریگی بلکہ جب ہم ہمیشہ کی زندگی کا باعث بننے والی الہٰی تعلیم میں شریک ہوتے ہیں تو یہ ہمیں بہت زیادہ فائدہ پہنچائیگی۔—امثال ۲۷:۱۱؛ یسعیاہ ۴۸:۱۷، ۱۸؛ مرقس ۱۳:۳۵-۳۷۔
اعادے کے سوالات
◻مسیحی اجتماعات پر حاضر ہونا ایک شرف کیوں ہے؟
◻تمام حاضرین ایک تعمیری اجلاس کا باعث کیسے بن سکتے ہیں؟
◻یسوع مسیح نے کونسا شاندار نمونہ قائم کِیا؟
◻غریب ممالک کے بھائیوں سے کونسا سبق سیکھا جا سکتا ہے؟
[صفحہ 29 پر بکس]
وہ ہفتہوار اجلاسوں کی قدر کر,تے ہیں
لاکھوں لوگ غربت اور جُرم سے متاثرہ شہروں میں رہتے ہیں۔ اُن میں رہنے والے سچے مسیحی ایسے حالات کے باوجود، مسیحی اجتماعات کے لئے قابلِتعریف قدردانی ظاہر کرتے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں گاؤتنگ کی سوویٹو کلیسیاؤں میں سے ایک میں خدمت انجام دینے والا ایک بزرگ بیان کرتا ہے: ”۶۰ گواہوں اور غیربپتسمہیافتہ پبلشروں پر مشتمل ایک کلیسیا میں، ہمارے اجلاسوں پر ۷۰ اور ۸۰ کے درمیان یا کبھیکبھار اس سے زیادہ حاضری ہوتی ہے۔ اگرچہ بھائیوں اور بہنوں کو حاضر ہونے کیلئے کافی زیادہ سفر تو نہیں کرنا پڑتا، البتہ سوویٹو کے اس علاقے میں صورتحال ذرا مشکل ہے۔ ایک بھائی کی پیٹھ میں اُس وقت چھرا گھونپ دیا گیا جب وہ اجلاس پر جا رہا تھا۔ کمازکم دو بہنوں کو لُوٹنے کیلئے اُن کیساتھ زبردستی کی گئی تھی۔ تاہم یہ چیز اُنہیں حاضر ہونے سے نہیں روکتی۔ اتوار کے دن، دُعا کیساتھ اجلاس کے اختتام کے بعد ہم کچھ وقت کیلئے گیتوں کی مشق کرتے ہیں۔ کمازکم ۹۵ فیصد باقاعدگی سے رُکتے ہیں اور آئندہ ہفتے اجلاسوں پر استعمال کئے جانے والے تمام گیت گاتے ہیں۔ اس سے نئے دلچسپی لینے والے اشخاص کو گیت سیکھنے اور ساتھ ملکر گانے میں مدد ملتی ہے۔“
دیہاتوں میں بسنے والوں کی دیگر مشکلات ہوتی ہیں جیسےکہ طویل سفر جوکہ ہفتے میں تین بار اجلاسوں پر حاضر ہونے کیلئے اُنہیں کرنا پڑتا ہے۔ دلچسپی لینے والا ایک جوڑا بوٹسوانا، لوبٹس کے کنگڈم ہال سے نو میل کے فاصلے پر رہتا ہے۔ گزشتہ سال وہ اپنے دونوں بچوں کیساتھ باقاعدگی سے اجلاسوں پر حاضر ہوتے رہے ہیں۔ خاندان کی کفالت کیلئے شوہر جوتوں کی مرمت کرتا ہے۔ خاندان کی آمدنی میں اضافہ کرنے کیلئے بیوی چھوٹیموٹی چیزیں فروخت کرتی ہے تاکہ وہ اجلاسوں پر حاضر ہونے کیلئے کرایہ ادا کر سکیں۔
حال ہی میں، موسمِگرما کی ایک شام، سرکٹاوورسیئر کیساتھ ایک اجلاس کے بعد، اس خاندان نے رات ۹ بجے خود کو بس سٹاپ پر بےیارومددگار پایا۔ خراب موسم کے باعث بسیں جلدی بند ہو گئی تھیں۔ ایک پولیس افسر نے اپنی وین روک کر اُن سے پوچھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ اُنکی پریشانی سن کر اُسے اُن پر ترس آیا اور اُس نے نو میل گاڑی چلا کر اُنہیں گھر پہنچا دیا۔ بیوی نے جو ایک غیربپتسمہیافتہ پبلشر ہے، اپنے شوہر سے کہا: ”دیکھا اگر ہم اجلاسوں کو پہلا درجہ دیتے ہیں تو یہوواہ ہمیشہ مدد کرتا ہے۔“ اب شوہر نے بھی خوشخبری کا مُناد بننے کی خواہش کا اظہار کِیا ہے۔
[صفحہ 31 پر تصویر]
رومانیہ میں اسطرح کے گواہ اجتماعات کیلئے قدردانی کی عمدہ مثالیں قائم کرتے ہیں