عیدیں اسرائیل کی تاریخ کے سنگِمیل
”سال میں تین بار . . . تیرے ہاں کے سب مرد خداوند اپنے خدا کے آگے اُسی جگہ حاضر ہوا کریں جسے وہ چُنیگا . . . اور . . . خداوند کے حضور خالی ہاتھ نہ آئیں۔“—استثنا ۱۶:۱۶۔
۱. بائبل وقتوں کے عید کے مواقع کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے؟
جب آپ عید کی بابت سوچتے ہیں تو کیا چیز ذہن میں آتی ہے؟ قدیم وقتوں میں تنپروری اور بداخلاقی بعض عیدوں کا خاصہ ہوا کرتی تھیں۔ جدید زمانے کی بعض عیدوں کی بابت بھی ایسا ہی ہے۔ تاہم، اسرائیل کیلئے خدا کی شریعت میں بیانکردہ عیدیں مختلف تھیں۔ اگرچہ وہ پُرمسرت تقریبات ہوا کرتی تھیں، توبھی اُنکا ”مُقدس مجمعوں“ کے طور پر بھی ذکر کِیا جا سکتا ہے۔—احبار ۲۳:۲۔
۲. (ا) اسرائیلی مردوں سے سال میں تین مرتبہ کیا کرنے کا تقاضا کِیا جاتا تھا؟ (ب) جیسےکہ استثنا ۱۶:۱۶ میں لفظ استعمال کِیا گیا ہے، ”عید“ کیا ہے؟
۲ ایماندار اسرائیلی مرد—اکثر اپنے خاندانوں سمیت—یروشلیم کا سفر کرتے ہوئے فرحتبخش خوشی محسوس کرتے تھے ’وہ جگہ جسکا انتخاب یہوواہ نے کِیا تھا‘ اور وہ ان تین بڑی عیدوں کیلئے فیاضی کیساتھ ہدیے دیا کرتے تھے۔ (استثنا ۱۶:۱۶) کتاب اولڈ ٹسٹامنٹ ورڈ سٹڈیز استثنا ۱۶:۱۶ میں ”عید“ کیلئے ترجمہشُدہ عبرانی لفظ کی تشریح ”بڑے خوشی کے موقع“ کے طور پر کرتی ہے ”جس پر خدا کی کرمفرمائی کے بعض اہم واقعات قربانی اور ضیافت کیساتھ منائے جاتے تھے۔“a
بڑی عیدوں کی اہمیت
۳. تین سالانہ عیدیں کن برکات کی یاد دلاتی ہیں؟
۳ چونکہ اُنکا تعلق ایک زرعی معاشرے سے تھا، اسلئے اسرائیلی بارش کی صورت میں خدا کی برکت پر انحصار کرتے تھے۔ موسوی شریعت کی تین بڑی عیدیں، بہار کے اوائل میں جَو کی فصل کی کٹائی، بہار کے اختتام پر گندم کی فصل کی کٹائی اور موسمِگرما کے آخر میں باقی فصل کی کٹائی کے ساتھ آتی تھیں۔ یہ بارش کے سلسلے کو جاری رکھنے والے اور زرخیز زمین کے صانع کے حضور بہت زیادہ خوشی اور شکرگزاری کے مواقع ہوا کرتے تھے۔ تاہم، عیدوں میں اس سے زیادہ کچھ شامل تھا۔—استثنا ۱۱:۱۱-۱۴۔
۴. پہلی عید کس تاریخی واقعہ کی یاد میں منائی جاتی تھی؟
۴ پہلی عید قدیم بائبل کیلنڈر کے پہلے مہینے میں نیسان ۱۵ سے ۲۱ تک منائی جاتی تھی جوکہ ہمارے مارچ کے آخر اور اپریل کے شروع کے مطابق ہے۔ یہ بےخمیری روٹی کی عید کہلاتی تھی اور نیسان ۱۴ کی فسح کے فوراً بعد آنے کی وجہ سے اسے ”عیدِ فسح“ بھی کہتے تھے۔ (لوقا ۲:۴۱؛ احبار ۲۳:۵، ۶) یہ عید اسرائیل کو مصر کے دُکھ سے آزادی کی یاد دلاتی تھی جو اُنہوں نے مصر میں اُٹھایا تھا، بے خمیری روٹی کو ”دُکھ کی روٹی“ بھی کہا جاتا تھا۔ (استثنا ۱۶:۳) یہ اُنہیں یاد دلاتا تھا کہ مصر سے اُنکا فرار اسقدر عجلت میں تھا کہ اُنکے پاس آٹے کو خمیر لگانے اور پھر اُس کے اندر خمیر اُٹھنے کا انتظار کرنے کیلئے بھی وقت نہیں تھا۔ (خروج ۱۲:۳۴) اس عید کے دوران ایک اسرائیلی کے گھر میں کہیں بھی خمیری روٹی نہیں ہوا کرتی تھی۔ عید منانے والوں میں پردیسی سمیت خمیری روٹی کھانے والے کسی بھی شخص کو ہلاک کر دیا جاتا تھا۔—خروج ۱۲:۱۹۔
۵. دوسری عید کس استحقاق کی یاد دلا سکتی تھی اور اس خوشی میں کن کن کو شامل کِیا جا سکتا تھا؟
۵ دوسری عید نیسان ۱۶ کے سات ہفتے (۴۹ دن) بعد آتی تھی اور یہ تیسرے مہینے، سیوان کے چھٹے دن ہوا کرتی تھی جوکہ ہمارے مئی کے آخر کے مماثل ہے۔ (احبار ۲۳:۱۵، ۱۶) یہ ہفتوں کی عید کہلاتی تھی (یسوع کے دنوں میں اسے پنتِکُست بھی کہتے تھے، جسکا یونانی میں مطلب ہے ”پچاسواں“) اور یہ سال میں اُس وقت منائی جاتی تھی جب اسرائیل کوہِسینا میں شریعتی عہد میں داخل ہوا تھا۔ (خروج ۱۹:۱، ۲) اس عید کے دوران ایماندار اسرائیلی شاید خدا کی مُقدس قوم کے طور پر الگ کئے جانے کے اپنے استحقاق کو یاد کرتے ہوں۔ اُنکا خدا کی خاص اُمت ہونا خدا کی شریعت کی فرمانبرداری کا تقاضا کرتا تھا جیسےکہ مسکینوں کیلئے پُرمحبت فکرمندی دکھانے کا حکم تھا تاکہ وہ بھی عید سے لطفاندوز ہو سکیں۔—احبار ۲۳:۲۲؛ استثنا ۱۶:۱۰-۱۲۔
۶. تیسری عید خدا کے لوگوں کو کس تجربہ کی یاد دلاتی تھی؟
۶ تین بڑی سالانہ عیدوں میں سے آخری عیدِخیام کہلاتی تھی۔ یہ تشری یا ایتانیم کے ساتویں مہینے میں ۱۵ سے ۲۱ تاریخ تک منائی جاتی تھی جوکہ ہمارے اوائلی اکتوبر کے مہینے کے مطابق ہوتی تھی۔ (احبار ۲۳:۳۴) اس وقت کے دوران، خدا کے لوگ اپنے گھروں سے باہر یا اپنے گھروں کی چھتوں پر درختوں کی شاخوں اور پتوں سے بنے ہوئے عارضی سائبانوں (خیموں) میں رہتے تھے۔ یہ اُنہیں مصر سے لیکر ملکِموعود تک اُنکی ۴۰ سالہ مسافت کی یاد دلاتا تھا جس کے دوران قوم کو اپنی روزمرّہ ضروریات کیلئے خدا پر بھروسہ کرنا سیکھنا پڑا تھا۔—احبار ۲۳:۴۲، ۴۳؛ استثنا ۸:۱۵، ۱۶۔
۷. قدیم اسرائیل میں عیدوں کی تقریبات پر نظرثانی کرنے سے ہم کیسے مستفید ہوتے ہیں؟
۷ آیئے چند عیدوں کا جائزہ لیں جو خدا کے قدیم لوگوں کی تاریخ میں سنگِمیل ثابت ہوئیں۔ اسے آجکل ہمارے لئے بھی حوصلہافزائی کا باعث ہونا چاہئے کیونکہ ہمیں بھی ہر ہفتے باقاعدہ جمع ہونے اور سال میں تین مرتبہ بڑی اسمبلیوں اور کنونشنوں پر جمع ہونے کی دعوت دی جاتی ہے۔—عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵۔
داؤد کے گھرانے کے بادشاہوں کے زمانہ میں
۸. (ا) سلیمان بادشاہ کے ایّام میں کونسی تاریخی تقریب منعقد ہوئی تھی؟ (ب) ہم عیدِخیام کے کس شاندار علامتی عروج کی توقع کر سکتے ہیں؟
۸ عیدِخیام کے موقع پر ایک یادگار تقریب داؤد کے بیٹے، سلیمان بادشاہ کے کامیاب دورِحکومت کے دوران منائی گئی۔ موعودہ مُلک کے چاروں کونوں سے ”بہت بڑی جماعت“ عیدِخیام اور ہیکل کی مخصوصیت کیلئے جمع ہوئی۔ (۲-تواریخ ۷:۸) جب یہ ختم ہو گئی تو سلیمان نے عید منانے والوں کو رخصت کِیا، اُنہوں نے ”بادشاہ کو مبارکباد دی اور اُس ساری نیکی کے باعث جو خداوند نے اپنے بندہ داؔؤد اور اپنی قوم اؔسرائیل سے کی تھی اپنے ڈیروں کو دل میں خوش اور مسرور ہو کر لوٹ گئے۔“ (۱-سلاطین ۸:۶۶) یہ عید واقعی ایک سنگِمیل تھی۔ آجکل خدا کے خادم عظیم سلیمان یسوع مسیح کی ہزار سالہ بادشاہت کے اختتام پر، علامتی عیدِخیام کے شاندار عروج کے متمنی ہیں۔ (مکاشفہ ۲۰:۳، ۷-۱۰، ۱۴، ۱۵) اُس وقت، قیامت پانے والوں اور ہرمجِدّون سے بچ نکلنے والے لوگوں سمیت، زمین کے ہر حصے میں رہنے والے لوگ یہوواہ کی مسرتآفریں پرستش میں متحد ہونگے۔—زکریاہ ۱۴:۱۶۔
۹-۱۱. (ا) حزقیاہ بادشاہ کے ایّام میں کیا چیز ایک سنگِمیل عید کا باعث بنی تھی؟ (ب) دس قبائلی شمالی سلطنت کے بہت سے لوگوں نے کیا نمونہ قائم کِیا تھا اور یہ ہمیں آجکل کس بات کی یاد دلاتا ہے؟
۹ بائبل میں بیانکردہ دوسری شاندار عید، شریر بادشاہ آخز کی حکومت کے بعد منائی گئی، جس نے ہیکل کو بند کر دیا تھا اور یہوداہ کی مملکت کو برگشتہ کر دیا تھا۔ آخز کا جاننشین نیکدل بادشاہ حزقیاہ تھا۔ اپنی حکومت کے پہلے سال میں، ۲۵ سال کی عمر میں، حزقیاہ نے بحالی اور اصلاح کے ایک عظیم پروگرام کا آغاز کِیا۔ اُس نے فوری طور پر ہیکل کو کھلوایا اور اسکی مرمت کا بندوبست کِیا۔ اسکے بعد بادشاہ نے شمال میں بسنے والی اسرائیل کی دس قبائلی سلطنت کو خطوط ارسال کئے اور اُنہیں فسح اور عیدِفطیر منانے کیلئے حاضر ہونے کی دعوت دی۔ اپنے ساتھیوں کے تمسخر کے باوجود بہت سے لوگ جمع ہوئے۔—۲-تواریخ ۳۰:۱، ۱۰، ۱۱، ۱۸۔
۱۰ کیا عید کامیاب رہی؟ بائبل بیان کرتی ہے: ”جو بنیاسرائیل یرؔوشلیم میں حاضر تھے اُنہوں نے بڑی خوشی سے سات دن تک عیدِفطیر منائی اور لاؔوی اور کاہن بلند آواز کے باجوں کے ساتھ خداوند کے حضور گا گا کر ہر روز خداوند کی حمد کرتے رہے۔“ (۲-تواریخ ۳۰:۲۱) اُن اسرائیلیوں نے آجکل خدا کے لوگوں کیلئے کیا ہی شاندار نمونہ قائم کِیا جن میں سے بیشتر مخالفت کی برداشت کرتے اور کنونشنوں پر حاضر ہونے کیلئے طویل سفر کرتے ہیں!
۱۱ مثال کے طور پر، ۱۹۸۹ میں پولینڈ میں منعقد ہونے والی تین ”خدائی عقیدت“ ڈسٹرکٹ کنونشنوں پر غور کریں۔ حاضر ہونے والے ۱،۶۶،۵۱۸ لوگوں میں سابقہ سوویت یونین اور دیگر مشرقی یورپین ممالک سے جہاں اُس وقت یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی تھی بڑے بڑے گروہ شامل تھے۔ ”کنونشنوں پر حاضر ہونے والوں میں سے بعض کیلئے،“ کتاب جیہواز وٹنسز—پروکلیمرز آف گاڈز کنگڈمb بیان کرتی ہے، ”یہوواہ کے ۱۵ یا ۲۰ سے زیادہ لوگوں کے اجتماع میں شریک ہونے کا یہ پہلا موقع تھا۔ جب اُنہوں نے ہزارہا لوگوں کو سٹیڈیم میں اپنے ساتھ دُعا میں شریک اور یہوواہ کی حمد کے گیت گانے میں ہمآواز ہوتے دیکھا تو اُنکے دل قدردانی سے معمور ہو گئے۔“—صفحہ ۲۷۹۔
۱۲. یوسیاہ بادشاہ کے دورِحکومت میں کیا چیز سنگِمیل عید کا باعث بنی تھی؟
۱۲ حزقیاہ بادشاہ کی وفات کے بعد، منسی اور امون بادشاہ کے تحت، یہوداہ کے باشندے پھر جھوٹی پرستش میں پڑ گئے۔ اسکے بعد ایک دوسرے نیکدل بادشاہ، نوعمر یوسیاہ کا دورِحکومت آیا جس نے سچی پرستش کو بحال کرنے کیلئے دلیری سے کام لیا۔ یوسیاہ نے ۲۵ برس کی عمر میں حکم جاری کِیا کہ ہیکل کی مرمت کی جائے۔ (۲-تواریخ ۳۴:۸) جب مرمت ہو رہی تھی تو ہیکل سے موسیٰ کی معرفت دی گئی توریت کی کتاب ملی۔ یوسیاہ بادشاہ نے خدا کی شریعت سے جوکچھ پڑھا اُسے اُس سے بہت زیادہ تحریک ملی اور اُس نے بندوبست بنایا کہ اسے تمام لوگوں کے سامنے پڑھا جائے۔ (۲-تواریخ ۳۴:۱۴، ۳۰) اسکے بعد، اُس نے جیسا کتاب میں لکھا تھا اُس کے مطابق فسح منانے کا انتظام کِیا۔ بادشاہ نے اُس موقع پر فیاضی کیساتھ ہدیہ دینے سے بھی اچھا نمونہ قائم کِیا۔ نتیجتاً، بائبل بیان کرتی ہے: ”اسکی مانند کوئی فسح سموؔئیل نبی کے دنوں سے اؔسرائیل میں نہیں منایا گیا تھا۔“—۲-تواریخ ۳۵:۷، ۱۷، ۱۸۔
۱۳. حزقیاہ اور یوسیاہ کے زمانے کی عید کی تقاریب ہمیں آج کس بات کی یاد دلاتی ہیں؟
۱۳ حزقیاہ اور یوسیاہ کی اصلاحات سچی پرستش کی اُس حیرانکُن بحالی کے متوازی ہے جو ۱۹۱۴ میں یسوع مسیح کی تختنشینی کے وقت سے لیکر سچے مسیحیوں کے درمیان واقع ہوئی ہے۔ جیسے یوسیاہ کی اصلاحات کی بابت خاص طور پر سچ تھا، زمانۂجدید کی یہ بحالی بھی خدا کے کلام میں درج باتوں پر مبنی ہے۔ نیز، حزقیاہ اور یوسیاہ کے ایّام کا موازنہ کرتے ہوئے، اسمبلیاں اور کنونشنیں زمانۂجدید کی بحالی کا نمایاں نشان ہیں جن میں بائبل پیشینگوئیوں کی ہیجانخیز تشریحات اور بائبل اُصولوں کے بروقت اطلاق کو نمایاں کِیا گیا ہے۔ بپتسمہ پانے والوں کی بڑی تعداد ان معلوماتافزا مواقع کی خوشی میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ حزقیاہ اور یوسیاہ کے ایّام کے تائب اسرائیلیوں کی طرح، نئے بپتسمہیافتہ اشخاص نے دُنیائے مسیحیت اور شیطان کی باقیماندہ دُنیا کے بدکار کاموں کو ترک کر دیا ہے۔ سن ۱۹۹۷ میں ۳،۷۵،۰۰۰ سے زیادہ کو پاک خدا، یہوواہ کیلئے اپنی مخصوصیت کی علامت میں بپتسمہ دیا گیا تھا—اوسطاً ۱،۰۰۰ فییومیہ سے زیادہ۔
اسیری کے بعد
۱۴. کیا چیز ۵۳۷ ق.س.ع. میں ایک سنگِمیل عید کا باعث بنی؟
۱۴ یوسیاہ کی وفات کے بعد، قوم ایک بار پھر تذلیلکُن جھوٹی پرستش میں پڑ گئی۔ انجامکار، یہوواہ نے ۶۰۷ ق.س.ع. میں بابلی فوجوں کو یروشلیم کے خلاف چڑھا لانے سے اپنے لوگوں کو سزا دی۔ شہر اور اُسکی ہیکل کو تباہوبرباد کر دیا گیا اور مُلک کو بھی ویران کر دیا گیا تھا۔ اسطرح یہودیوں کو بابل کی اسیری میں ۷۰ سال گزر گئے۔ اسکے بعد خدا نے تائب یہودی بقیے کو ازسرِنو بحال کِیا جو سچی پرستش کو بحال کرنے کیلئے ملکِموعود کو واپس لوٹا۔ وہ ۵۳۷ ق.س.ع. کے ساتویں مہینے یروشلیم کے ویران شہر میں پہنچے۔ سب سے پہلا کام جو اُنہوں نے کِیا وہ روزانہ باضابطہ قربانیاں گزراننے کیلئے مذبح تیار کرنا تھا جیسےکہ شریعتی عہد میں بیان کِیا گیا تھا۔ یہ ایک دوسری تاریخی تقریب کیلئے بالکل عین وقت پر تھا۔ ”اور اُنہوں نے نوشتہ کے مطابق خیموں کی عید منائی۔“—عزرا ۳:۱-۴۔
۱۵. بحالشُدہ بقیے کے آگے ۵۳۷ ق.س.ع. میں کونسا کام تھا اور ۱۹۱۹ میں ایک متوازی حالت کیسے موجود تھی؟
۱۵ ایک عظیم کام—خدا کی ہیکل کی دوبارہ تعمیر اور یروشلیم اور اسکی دیواروں کی دوبارہ تعمیر کا کام اسیری سے واپس لوٹنے والے ان لوگوں کا منتظر تھا۔ حاسد پڑوسیوں کی طرف سے کافی مخالفت کا سامنا تھا۔ جب ہیکل تعمیر ہو رہی تھی تو یہ ”چھوٹی چیزوں کا دن“ تھا۔ (زکریاہ ۴:۱۰) یہ حالت ۱۹۱۹ میں وفادار ممسوح مسیحیوں کی حالت کے متوازی تھی۔ اُس یادگار سال میں، اُنہیں جھوٹے مذہب کی عالمی مملکت، بڑے بابل کی روحانی اسیری سے آزاد کِیا گیا تھا۔ اُنکی تعداد محض چند ہزار تھی اور اُنہیں پوری دُنیا کی مخالفت کا سامنا تھا۔ کیا خدا کے دُشمن سچی پرستش کی ترقی کو روکنے کے قابل ہونگے؟ اس سوال کا جواب عبرانی صحائف میں درج آخری دو عیدوں کی یاد دلاتا ہے۔
۱۶. ایک عید کی بابت ۵۱۵ ق.س.ع. میں خاص بات کیا تھی؟
۱۶ انجامکار ۵۱۵ ق.س.ع. کے ادار کے مہینے میں، موسمِبہار میں نیسان کی عید کیلئے ہیکل دوبارہ تعمیر ہو گئی تھی۔ بائبل بیان کرتی ہے: ”خوشی کے ساتھ سات دن تک فطیری روٹی کی عید منائی کیونکہ خداوند نے اُنکو شادمان کِیا تھا اور شاہِاؔسور کے دل کو اُنکی طرف مائل کِیا تھا تاکہ وہ خدا یعنی اؔسرائیل کے خدا کے مسکن کے بنانے میں اُنکی مدد کرے۔“—عزرا ۶:۲۲۔
۱۷، ۱۸. (ا) ۴۵۵ ق.س.ع. میں کونسی سنگِمیل عید میں کامیابی ہوئی تھی؟ (ب) آج ہم بھی کس طرح ایسی ہی حالت میں ہیں؟
۱۷ ساٹھ سال بعد، ۴۵۵ ق.س.ع. میں ایک اور سنگِمیل تک رسائی حاصل ہوئی۔ اُس سال عیدِخیام نے یروشلیم کی دیواروں کی دوبارہ تعمیر کے مکمل ہونے کی نشاندہی کی۔ بائبل بیان کرتی ہے: ”اُن لوگوں کی ساری جماعت نے جو اسیری سے پھر آئے تھے جھونپڑیاں بنائیں اور اُن ہی جھونپڑیوں میں رہے کیونکہ یشوؔعبِننوؔن کے دِنوں سے اُس دن تک بنیاسرائیل نے ایسا نہیں کِیا تھا چنانچہ بہت بڑی خوشی ہوئی۔“—نحمیاہ ۸:۱۷۔
۱۸ شدید مخالفت کے باوجود، خدا کی سچی پرستش کی کیا ہی یادگار بحالی! آج بھی حالت ویسی ہی ہے۔ اذیت اور مخالفت میں اضافے کے باوجود، خدا کی بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کا شاندار کام زمین کی انتہا تک پہنچ گیا ہے اور دُور دُور تک خدا کے عدالتی پیغامات کو مشہور کر دیا گیا ہے۔ (متی ۲۴:۱۴) ۱،۴۴،۰۰۰ کے ممسوح بقیے کے آخری حصے کا چناؤ بالکل اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ ”دوسری بھیڑوں“ سے تعلق رکھنے والے اُنکے پانچ ملین سے زیادہ ساتھیوں کو تمام قوموں سے جمع کر کے ممسوح بقیے کیساتھ ”ایک گلّے“ میں جمع کر لیا گیا ہے۔ (یوحنا ۱۰:۱۶؛ مکاشفہ ۷:۳، ۹، ۱۰) عیدِخیام کی نبوّتی تصویر کی کیا ہی شاندار تکمیل! چنانچہ جمع کرنے کا یہ شاندار کام نئی دُنیا میں بھی جاری رہیگا جب قیامتیافتہ کروڑوں لوگوں کو علامتی عیدِخیام منانے میں شریک ہونے کیلئے مدعو کِیا جائیگا۔—زکریاہ ۱۴:۱۶-۱۹۔
پہلی صدی س.ع. میں
۱۹. کس چیز نے ۳۲ س.ع. میں عیدِخیام کو غیرمعمولی بنا دیا تھا؟
۱۹ بائبل میں درج عیدوں کی شاندار تقریبات بِلاشُبہ وہی ہیں جن پر خدا کا بیٹا یسوع مسیح حاضر ہوا۔ مثال کے طور پر، ۳۲ س.ع. میں عیدِخیام پر یسوع کی موجودگی پر غور کریں۔ اُس نے اس موقع کو اہم سچائیاں سکھانے کیلئے استعمال کِیا اور اپنی تعلیم کی حمایت میں عبرانی صحائف سے اقتباسات پیش کئے۔ (یوحنا ۷:۲، ۱۴، ۳۷-۳۹) اس عید کا ایک باضابطہ پہلو ہیکل کے اندرونی صحن میں چار بڑی بڑی مومبتیاں جلانے کا دستور تھا۔ یہ عید کی اُن سرگرمیوں سے لطف اُٹھانے کا باعث بنتا تھا جو رات گئے تک جاری رہتی تھیں۔ ظاہری طور پر، یسوع ان ہی بڑی روشنیوں کی طرف اشارہ کر رہا تھا جب اُس نے کہا: ”دُنیا کا نُور مَیں ہوں۔ جو میری پیروی کریگا وہ اندھیرے میں نہ چلیگا بلکہ زندگی کا نُور پائیگا۔“—یوحنا ۸:۱۲۔
۲۰. سن ۳۳ کی فسح کیوں غیرمعمولی تھی؟
۲۰ اس کے بعد ۳۳ س.ع. کے خاص سال کی فسح اور عیدِفطیر آ گئی۔ اُس فسح کے دن پر، یسوع اپنے دُشمنوں کے ہاتھوں مارا گیا اور فسح کا علامتی برّہ بن گیا جو ”دُنیا کا گناہ“ اُٹھا لے جانے کیلئے مؤا۔ (یوحنا ۱:۲۹؛ ۱-کرنتھیوں ۵:۷) تین دن بعد، نیسان ۱۶ کو، خدا نے یسوع کو غیرفانی روحانی بدن کیساتھ زندہ کر دیا۔ یہ شریعت میں وضعکردہ جَو کی فصل کے پہلے پھلوں کی قربانی کے مماثل تھا۔ یوں، قیامتیافتہ خداوند یسوع مسیح ”جو سو گئے ہیں اُن میں پہلا پھل ہوا۔“—۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۰۔
۲۱. سن ۳۳ کے پنتِکُست پر کیا واقع ہوا؟
۲۱ ایک واقعی شاندار عید ۳۳ س.ع. پنتِکُست کی عید تھی۔ اس دن یسوع کے تقریباً ۱۲۰ شاگردوں سمیت، بہتیرے یہودی اور نومرید یروشلیم میں جمع تھے۔ جب عید کی تقریبات جاری تھیں تو قیامتیافتہ خداوند یسوع مسیح نے ۱۲۰ پر خدا کی رُوحاُلقدس نازل کی۔ (اعمال ۱:۱۵؛ ۲:۱-۴، ۳۳) یوں اُنہیں مسح کِیا گیا اور وہ نئے عہد کے وسیلے سے جس کا درمیانی یسوع مسیح ہے خدا کی منتخبکردہ نئی اُمت بن گئے۔ اس عید کے دوران یہودی سردار کاہن گندم کی فصل کے پہلے پھلوں سے تیارکردہ دو خمیری روٹیاں خدا کے حضور گذرانتے تھے۔ (احبار ۲۳:۱۵-۱۷) یہ خمیری روٹیاں ۱،۴۴،۰۰۰ ناکامل انسانوں کی تصویرکشی کرتی ہیں جنہیں یسوع نے ’خدا کے لئے خرید‘ کر ”بادشاہی اور کاہن بنا دیا“ تاکہ ”زمین پر بادشاہی“ کریں۔ (مکاشفہ ۵:۹، ۱۰؛ ۱۴:۱، ۳) یہ حقیقت کہ یہ آسمانی حکمران گنہگار انسانوں کی دو جماعتوں، یہودیوں اور غیرقوموں سے تعلق رکھتے ہیں، اسکی مثال دو خمیری روٹیوں سے بھی مل سکتی ہے۔
۲۲. (ا) مسیحی شریعت کے تحت عیدوں کو کیوں نہیں مناتے؟ (ب) اگلے مضمون میں کیا چیز زیرِغور آئیگی؟
۲۲ جب ۳۳ س.ع. کے پنتِکُست پر نیا عہد عمل میں آیا تو اسکا یہ مطلب تھا کہ پُرانا شریعتی عہد خدا کی نظروں میں اپنی اہمیت کھو چکا تھا۔ (۲-کرنتھیوں ۳:۱۴؛ عبرانیوں ۹:۱۵؛ ۱۰:۱۶) اسکا یہ مطلب نہیں کہ ممسوح مسیحی شریعت کے بغیر ہیں۔ وہ یسوع مسیح کے ذریعے سکھائی گئی اور اُنکے دلوں پر تحریرکردہ الہٰی شریعت کے تابع ہیں۔ (گلتیوں ۶:۲) لہٰذا، تین سالانہ عیدیں چونکہ پُرانے شریعتی عہد کا حصہ ہیں اسلئے مسیحی اُنہیں نہیں مناتے۔ (کلسیوں ۲:۱۶، ۱۷) تاہم، مسیحی دَور سے پہلے کے خدا کے خادموں کے اپنی عیدوں اور پرستش کے دیگر اجتماعات کی بابت رویے سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اپنے اگلے مضمون میں ہم ان مثالوں پر غور کرینگے جو بِلاشُبہ ہمیں مسیحی اجتماعات پر باقاعدہ حاضر ہونے کی ضرورت کی قدردانی کرنے کی تحریک دینگی۔
[فٹنوٹ]
a واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ کی مطبوعہ، انسائٹ آن دی سکرپچرز، جلد ۱، صفحہ ۸۲۰، کالم ۱، ”عید“ کے تحت پیراگراف ۱ اور ۳ کو بھی دیکھیں۔
b واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ۔
اعادے کے سوالات
◻اسرائیل کی تین بڑی عیدوں نے کیا مقصد انجام دیا؟
◻حزقیاہ اور یوسیاہ کے ایّام کی عیدوں کی کیا خصوصیت تھی؟
◻۴۵۵ ق.س.ع. میں کس سنگِمیل کی یاد منائی گئی اور یہ ہمارے لئے کیوں حوصلہافزائی کا باعث ہے؟
◻سن ۳۳ کی فسح اور پنتِکُست کی بابت خاص بات کیا تھی؟
[صفحہ 12 پر بکس]
آجکل ہمارے لئے عید سے متعلق ایک سبق
وہ تمام لوگ جو مسیح کی کفارے کی قربانی سے دائمی طور پر مستفید ہونگے اُنہیں اُس کی مطابقت میں زندگی بسر کرنی چاہئے جسکی تصویرکشی عیدِفطیر سے کی گئی ہے۔ یہ علامتی عید ممسوح مسیحیوں کیلئے اس شریر دُنیا سے اُنکی رہائی اور یسوع کے فدیہ کی بدولت گناہ کی لعنت سے چھوٹ جانے کی خوشی میں ایک مسرورکُن تقریب ہے۔ (گلتیوں ۱:۴؛ کلسیوں ۱:۱۳، ۱۴) حقیقی عید سات روزہ ہوتی تھی—ایسا عدد جسے بائبل میں روحانی کاملیت کو ظاہر کرنے کیلئے استعمال کِیا گیا ہے۔ علامتی عید ممسوح مسیحی کلیسیا کے زمین پر رہنے کے مکمل دورانیہ تک رہتی ہے اور اسلئے اسے ”سنجیدگی اور خلوص“ کیساتھ منایا جانا چاہئے۔ اسکا مطلب ہے کہ علامتی خمیر سے ہر وقت خبردار رہیں۔ بائبل میں خمیر کو خراب تعلیمات، ریاکاری اور بدکاری کی تصویرکشی کرنے کیلئے استعمال کِیا گیا ہے۔ یہوواہ کے سچے پرستاروں کو اسے اپنی زندگیوں کو آلودہ کرنے کی اجازت نہ دیتے ہوئے اور نہ ہی اسے مسیحی کلیسیا کی پاکیزگی کو خراب کرنے کی اجازت دیتے ہوئے ایسے خمیر کیلئے نفرت ظاہر کرنی چاہئے۔—۱-کرنتھیوں ۵:۶-۸؛ متی ۱۶:۶، ۱۲۔
[صفحہ 23 پر تصویر]
ہر سال نیسان ۱۶ پر، وہ دن جب مسیح کو زندہ کِیا گیا، جَو کی نئی فصل کا ایک پولا نذر کے طور پر گذرانا جاتا تھا
[صفحہ 24 پر تصویر]
جب یسوع نے خود کو ”دُنیا کا نُور“ کہا تو ممکن ہے کہ اُس نے عید پر روشن کی جانے والی بتّیوں کی طرف اشارہ کِیا ہو