بُرائی سے پُر دُنیا میں پاکیزگی برقرار رکھنا
”سب کام شکایت اور تکرار بغیر کِیا کرو تاکہ تم بےعیب اور بھولے ہو کر ٹیڑھے اور کجرو لوگوں میں خدا کے بےنقص فرزند بنے رہو۔“—فلپیوں ۲:۱۴، ۱۵۔
۱، ۲. خدا نے کنعانیوں کا قلعقمع کرنے کا تقاضا کیوں کِیا؟
یہوواہ کے حکم مصالحت کیلئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑتے ہیں۔ اسرائیلی ملکِموعود میں داخل ہونے ہی والے تھے جب موسیٰ نبی نے اُنہیں حکم دیا: ”جب خداوند تیرا خدا اُنکو تیرے آگے شکست دِلائے اور تُو اُنکو مار لے تو تُو اُنکو بالکل نابود کر ڈالنا۔ تُو اُن سے کوئی عہد نہ باندھنا اور نہ اُن پر رحم کرنا۔ بلکہ تُو اِنکو یعنی حِتّی اور اموری اور کنعانی اور فرزّی اور حوّی اور یبوسی قوموں کو جیسا خداوند تیرے خدا نے تجھ کو حکم دیا ہے بالکل نیست کر دینا۔“—استثنا ۷:۲؛ ۲۰:۱۷۔
۲ چونکہ یہوواہ خدائےرحیم ہے تو پھر اُس نے کنعانی باشندوں کا قلعقمع کرنے کا تقاضا کیوں کِیا؟ (خروج ۳۴:۶) ایک وجہ تو یہ ہے کہ: ’کہیں وہ اسرائیلیوں کو اپنے سے مکروہ کام کرنے نہ سکھائیں جو اُنہوں نے اپنے دیوتاؤں کیلئے کئے اور یوں وہ یہوواہ خدا کے خلاف گناہ کریں۔‘ (استثنا ۲۰:۱۸) موسیٰ نے یہ بھی کہا: ”خداوند تیرا خدا اِن قوموں کی شرارت کے باعث اِنکو تیرے آگے سے خارج کرتا ہے۔“ (استثنا ۹:۴) کنعانی بُرائی کی جیتیجاگتی مثال تھے۔ جنسی کجروی اور بتپرستی اُنکی پرستش کا نمایاں وصف تھیں۔ (خروج ۲۳:۲۴؛ ۳۴:۱۲، ۱۳؛ گنتی ۳۳:۵۲؛ استثنا ۷:۵) محرمات سے مباشرت، سدومیت اور جانوروں سے بدفعلی ’ملکِکنعان کا دستور‘ تھا۔ (احبار ۱۸:۳-۲۵) معصوم بچوں کو بےدردی سے جھوٹے دیوتاؤں کیلئے قربان کر دیا جاتا تھا۔ (استثنا ۱۸:۹-۱۲) پس کچھ عجب نہیں کہ یہوواہ نے اِن قوموں کے وجود کو اپنے لوگوں کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی فلاح کیلئے ایک خطرہ تصور کِیا!—خروج ۳۴:۱۴-۱۶۔
۳. کنعانی باشندوں کے سلسلے میں اسرائیلیوں کے خدا کے احکامات کی پوری طرح سے تعمیل نہ کرنے کا کیا نتیجہ نکلا؟
۳ خدا کے احکام کی پوری طرح سے تعمیل نہ کرنے کی وجہ سے ملکِموعود پر اسرائیل کی فتح کے بعد بھی بیشتر کنعانی باشندے بچ گئے۔ (قضاۃ ۱:۱۹-۲۱) کنعانیوں کے عیارانہ اثرات کو بروقت محسوس کر لیا گیا تھا اور یہ کہا جا سکتا تھا: ”اور اُس [یہوواہ] کے آئین کو اور اُسکے عہد کو جو اُس نے اُنکے باپ دادا سے باندھا تھا اور اُسکی شہادتوں کو جو اُس نے اُنکو دی تھیں رد کِیا اور باطل باتوں کے پیرو ہوکر نکمّے ہو گئے اور اپنے آسپاس کی قوموں کی تقلید کی جنکے بارے میں خداوند نے اُنکو تاکید کی تھی کہ وہ اُنکے سے کام نہ کریں۔“ (۲-سلاطین ۱۷:۱۵) جی ہاں، سالہاسال کے دوران بہت سے اسرائیلی بھی اُنہی بُرائیوں میں پڑ گئے جنکے باعث خدا نے کنعانیوں کو نیستونابود کرنے کا حکم دیا تھا۔—بتپرستی، جنسی بےاعتدالیاں اور بچوں کی قربانی!—قضاۃ ۱۰:۶؛ ۲-سلاطین ۱۷:۱۷؛ یرمیاہ ۱۳:۲۷۔
۴، ۵. (ا) بےوفا اسرائیل اور یہوداہ کے ساتھ کیا واقع ہوا؟ (ب) فلپیوں ۲:۱۴، ۱۵ میں کیا نصیحت کی گئی ہے اور کونسے سوالات اُٹھائے گئے ہیں؟
۴ اِسی لئے ہوسیع نبی نے اعلان کِیا: ”اے بنی اسرائیل خداوند کا کلام سنو کیونکہ اِس مُلک میں رہنے والوں سے خداوند کا جھگڑا ہے کیونکہ یہ مُلک راستیوشفقت اور خداشناسی سے خالی ہے۔ بدزبانی عہدشکنی اور خونریزی اور چوری اور حرامکاری کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ ظلم کرتے ہیں اور خون پر خون ہوتا ہے۔ اِسلئے مُلک ماتم کریگا اور اِسکے تمام باشندے جنگلی جانوروں اور ہوا کے پرندوں سمیت ناتواں ہو جائینگے بلکہ سمندر کی مچھلیاں بھی غائب ہو جائینگی۔“ (ہوسیع ۴:۱-۳) ۷۴۰ ق۔س۔ع۔ میں، اسرائیل کی بدکار شمالی بادشاہت پر اسور نے قبضہ کر لیا تھا۔ تقریباً ایک صدی بعد، بےوفا یہوداہ کی جنوبی بادشاہت کو بابل نے زیر کر لیا تھا۔
۵ یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارا بُرائی میں پڑ جانا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ خدا ناراستی سے نفرت کرتا ہے اور اُسے اپنے لوگوں میں برداشت نہیں کریگا۔ (۱-پطرس ۱:۱۴-۱۶) یہ درست ہے کہ ہم ”اِس موجودہ خراب جہان“ میں رہتے ہیں، ایک ایسی دُنیا جس میں بدکاری بڑھتی جا رہی ہے۔ (گلتیوں ۱:۴؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱۳) پھر بھی خدا کا کلام تمام مسیحیوں کو نصیحت کرتا ہے کہ اِسطرح سے عمل کریں کہ وہ ”بےعیب اور بھولے ہو کر ٹیڑھے اور کجرو لوگوں میں خدا کے بےنقص فرزند بنے رہیں (جنکے درمیان [وہ] دُنیا میں چراغوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں)۔“ (فلپیوں ۲:۱۴، ۱۵) لیکن ہم بُرائی سے پُر دُنیا میں پاکیزگی کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟ کیا ایسا کرنا واقعی ممکن ہے؟
بُرائی سے پُر رومی دُنیا
۶. پہلی صدی کے مسیحیوں کو پاکیزگی برقرار رکھنے کے چیلنج کا سامنا کیوں تھا؟
۶ پہلی صدی کے مسیحیوں نے پاکیزگی کو برقرار رکھنے کے چیلنج کا سامنا کِیا کیونکہ بُرائی رومی معاشرے کے ہر شعبے میں سرایت کر گئی تھی۔ رومی فلاسفر سینیکا نے اپنے ہمعصروں کے بارے میں کہا: ”آدمی بدکاری میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر روز خطاکاری کی خواہش بڑھ رہی ہے اور اِس کا خوف کم ہے۔“ اُس نے رومی معاشرے کو ”جنگلی جانوروں کے ایک گروہ“ سے تشبِیہ دی۔ لہٰذا یہ حیرانی کی بات نہیں کہ رومیوں نے تفریح کی خاطر بہت سے افسوسناک تماشوں کے مقابلے اور تھیٹر پر نفسپرستانہ مظاہروں کا اہتمام کِیا۔
۷. پولس نے پہلی صدی ق۔س۔ میں بہتیروں میں پائی جانے والی عام بُرائیوں کو کس طرح بیان کِیا؟
۷ شاید پولس رسول کے ذہن میں پہلی صدی کے لوگوں کا گراوٹ کا شکار رویہ ہوگا جب اُس نے لکھا: ”اِسی سبب سے خدا نے اُنکو گندی شہوتوں میں چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ اُنکی عورتوں نے اپنے طبعی کام کو خلافِطبع کام سے بدل ڈالا۔ اِسی طرح مرد بھی عورتوں سے طبعی کام چھوڑ کر آپس کی شہوت میں مست ہو گئے یعنی مردوں نے مردوں کے ساتھ روسیاہی کے کام کر کے اپنے آپ میں گمراہی کے لائق بدلہ پایا۔“ (رومیوں ۱:۲۶، ۲۷) ناپاک جسمانی خواہشات کے حصول کا متلاشی رومی معاشرہ بُرائی کی نذر ہو گیا۔
۸. یونانی اور رومی معاشروں میں بچوں کیساتھ کیا بدسلوکی کی جاتی تھی؟
۸ تاریخ اِس کو واضح نہیں کرتی کہ رومیوں میں ہمجنسپرستی کس حد تک عام تھی۔ تاہم، اِس میں شک نہیں کہ وہ اپنے یونانی پیشرؤوں کے زیرِاثر تھے جن میں یہ بہت عام تھی۔ بڑی عمر کے مردوں کا یہ دستور تھا کہ وہ نوجوان لڑکوں کو اُستاد اور شاگرد کے رشتے کے تحت اپنی شاگردی میں لیتے اور اُنکے ساتھ بدکاری کرتے جوکہ نوجوانوں کو عموماً جنسی طور پر کجروی کی طرف لے جاتا۔ بِلاشُبہ، ایسی بُرائی اور بچوں کیساتھ اِس بدسلوکی کے پیچھے شیطان اور اُسکے شیاطین تھے۔—یوایل ۳:۳؛ یہوداہ ۶، ۷۔
۹، ۱۰. (ا) کس طریقے سے ۱-کرنتھیوں ۶:۹، ۱۰ مختلف بُرائیوں کی مذمت کرتی ہے؟ (ب) کرنتھس کی کلیسیا میں بعض کا پسمنظر کیا تھا اور اُنکے معاملے میں کیا تبدیلی واقع ہوئی تھی؟
۹ خدائی الہام کے تحت لکھتے ہوئے، پولس نے کرنتھس کے مسیحیوں کو بتایا: ”کیا تم نہیں جانتے کہ بدکار خدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہونگے؟ فریب نہ کھاؤ۔ نہ حرامکار خدا کی بادشاہی کے وارث ہونگے نہ بتپرست نہ زناکار نہ عیاش۔ نہ لونڈےباز۔ نہ چور۔ نہ لالچی نہ شرابی۔ نہ گالیاں بکنے والے نہ ظالم۔ اور بعض تم میں ایسے ہی تھے بھی مگر تم خداوند یسوؔع مسیح کے نام سے اور ہمارے خدا کے روح سے دُھل گئے اور پاک ہوئے اور راستباز بھی ٹھہرے۔“—۱-کرنتھیوں ۶:۹-۱۱۔
۱۰ لہٰذا پولس کا الہامی خط جنسی بداخلاقی کی مذمت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ”حرامکار“ ”خدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہونگے۔“ تاہم، بہت سی بُرائیوں کی فہرست دینے کے بعد، پولس نے کہا: ”بعض تم میں ایسے ہی تھے بھی مگر. . .دُھل گئے۔“ خدا کی مدد سے خطاکاروں کیلئے اُسکے حضور پاک بن جانا ممکن تھا۔
۱۱. پہلی صدی کے مسیحیوں نے اپنے زمانے کے بدکار ماحول کا کیسے مقابلہ کِیا؟
۱۱ جیہاں، پہلی صدی کی بُرائی سے پُر دُنیا میں بھی مسیحی پاکیزگی نے ترقی پائی تھی۔ ایمانداروں نے ’عقل نئی ہو جانے سے اپنی صورت بدل لی تھی۔‘ (رومیوں ۱۲:۲) اُنہوں نے اپنے ”اگلے چالچلن“ کو بدل ڈالا اور ’اپنی عقل کی روحانی حالت میں نئے‘ بن گئے تھے۔ لہٰذا اُنہوں نے دُنیا کی بُرائیوں سے کنارہکشی کی اور ”نئی انسانیت کو پہنا جو خدا کے مطابق سچائی کی راستبازی اور پاکیزگی میں پیدا کی گئی“ تھی۔—افسیوں ۴:۲۲-۲۴۔
آج کی برائی سے پُر دُنیا
۱۲. ۱۹۱۴ سے لیکر دُنیا میں کیا تبدیلی رونما ہوئی ہے؟
۱۲ ہمارے زمانے کی بابت کیا ہے؟ جس دُنیا میں ہم رہتے ہیں وہ پہلے سے کہیں زیادہ برائی سے بھری ہوئی ہے۔ خاصکر ۱۹۱۴ سے لیکر عالمگیر پیمانے پر اخلاقی تنزلی واقع ہوئی ہے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵) آدابواطوار، نیکنامی، اخلاقیات اور پاکیزگی کے روایتی تصورات کو رد کرتے ہوئے بہتیرے اپنی سوچ میں خودپسند بن گئے ہیں اور ”سُن ہو گئے“ ہیں۔ (افسیوں ۴:۱۹) نیوزویک میگزین نے کہا: ”ہم ایسے دَور میں رہتے ہیں جس میں پسندِخاطر اخلاقیات کا نظریہ پایا جاتا ہے۔“ جس نے مروجہ اخلاقی فضا میں اضافہ کرتے ہوئے ”صحیحوغلط کے متعلق تمام تصورات کو ذاتی پسند، جذباتی ترجیح اور ثقافت کے انتخاب پر چھوڑ دیا ہے۔“
۱۳. (ا) آجکل کی بیشتر تفریح کس طرح بُرائی کو فروغ دیتی ہے؟ (ب) نامناسب تفریح افراد پر کیا بُرا اثر ڈال سکتی ہے؟
۱۳ پہلی صدی کی طرح آج بھی گھٹیا تفریح عام ہے۔ ٹیلیویژن، ریڈیو، فلمیں اور ویڈیوز جنسیات پر مبنی مواد مسلسل پیش کر رہے ہیں۔ بُرائی کمپیوٹر نٹورک میں بھی سرایت کر گئی ہے۔ فحش مواد بڑی حد تک موجودہ کمپیوٹر نٹورکس پر ممکنالحصول ہو رہا ہے اور مختلف عمر کے لوگ اس تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔ اِس تمام کے اثرات کیا ہیں؟ ایک اخباری کالمنویس بیان کرتا ہے: ”جب قتلوغارت اور دانستہ تشدد اور گھٹیا جنس ہماری مروّجہ ثقافت پر غالب آ جاتی ہے تو ہم اِسی قتلوغارت اور دانستہ تشدد اور گھٹیا جنس کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ہم اُکتا جاتے ہیں۔ اخلاقیات کی تنزلی سے زیادہ سے زیادہ رواداری برتی جاتی ہے چونکہ یہ ہمیں اتنی رسواکُن دکھائی نہیں دیتی۔“—مقابلہ کریں ۱-تیمتھیس ۴:۱، ۲۔
۱۴، ۱۵. اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ جنسی اخلاقیات پوری دُنیا میں گراوٹ کا شکار ہے؟
۱۴ دی نیویارک ٹائمز کی اِس رپورٹ پر غور کریں: ”۲۵ سال پہلے جسے رسواکُن سمجھا جاتا تھا اب وہ قابلِقبول طرزِزندگی بن گیا ہے۔ جوڑے جو شادی کے بغیر ہی ایک ساتھ رہنے کا انتخاب کرتے ہیں، اُنکی تعداد [ریاستہائے متحدہ امریکہ میں] ۱۹۸۰ سے ۱۹۹۱ کے درمیان ۸۰ فیصد بڑھ گئی ہے۔“ یہ صرف شمالی امریکہ کا واقعہ ہی نہیں ہے۔ ایشیا ویک میگزین رپورٹ دیتا ہے: ”سارے [ایشیائی] ممالک میں ایک تہذیبی بحث زور پکڑ رہی ہے۔ موضوع ہے جنسی آزادی بمقابلہ روایتی اقدار، اور تبدیلی کیلئے دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔“ اعدادوشمار کئی ممالک میں، حرامکاری اور شادی سے پہلے جنسی تعلقات کی مقبولیت میں اضافے کو ظاہر کرتے ہیں۔
۱۵ بائبل نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ہمارے زمانے میں شیطانی سرگرمیاں عروج پر ہونگی۔ (مکاشفہ ۱۲:۱۲) لہٰذا، ہمیں اِس سے حیران نہیں ہونا چاہئے کہ بُرائی اِس خطرناک حد تک پھیل رہی ہے۔ مثال کے طور پر، بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی وبائی صورت اختیار کر گئی ہے۔a یونائیٹڈ نیشنز چلڈرنز فنڈ رپورٹ دیتا ہے کہ ”درحقیقت تجارتی جنسی استحصال کے باعث دُنیا کے تقریباً ہر مُلک میں بچوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔“ ہر سال ”ایک رپورٹ کے مطابق پوری دُنیا میں ۱ ملین سے زیادہ بچوں کو عصمتفروشی، غیرقانونی سرگرمیوں اور جنسی مقاصد کے لئے فروخت کر دیا جاتا ہے، اور انہیں طفلی فحش مواد کی تیاری کے لئے بھی استعمال کِیا جاتا ہے۔“ ہمجنسپسندی بھی عام ہے، جسے ”متبادل طرزِزندگی“ کے طور پر فروغ دینے میں سیاسی اور مذہبی راہنما پیشپیش ہیں۔
دُنیا کی بُرائیوں کو رد کرنا
۱۶. جنسی اخلاقیات کے سلسلے میں یہوواہ کے گواہ کیا موقف اختیار کرتے ہیں؟
۱۶ یہوواہ کے گواہ اُن لوگوں کے ساتھ شامل نہیں ہوتے جو جنسی اخلاقیات کے سلسلے میں اِس دُنیا کے اِباحتی معیاروں کو قبول کرتے ہیں۔ ططس ۲:۱۱، ۱۲ بیان کرتی ہے: ”خدا کا وہ فضل ظاہر ہوا ہے جو سب آدمیوں کی نجات کا باعث ہے۔ اور ہمیں تربیت دیتا ہے تاکہ بیدینی اور دُنیوی خواہشوں کا انکار کر کے اِس موجودہ جہان میں پرہیزگاری اور راستبازی اور دینداری کے ساتھ زندگی گذاریں۔“ جیہاں، ہم حرامکاری، ہمجنسپسندی اور شادی سے پہلے جنسی تعلقات جیسی بُرائیوں کیلئے حقیقی نفرت بلکہ کراہیت کو پیدا کرتے ہیں۔b (رومیوں ۱۲:۹؛ افسیوں ۵:۳-۵) پولس نے یہ نصیحت کی: ”جو کوئی خداوند کا نام لیتا ہے ناراستی سے باز رہے۔“—۲-تیمتھیس ۲:۱۹۔
۱۷. سچے مسیحی الکحلی مشروبات کے سلسلے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں؟
۱۷ سچے مسیحی دُنیا کے بظاہر جھوٹی بُرائیوں کے نظریے کو رد کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، آج بہتیرے لوگ الکحل کے ناجائز استعمال کو محض ہنسیمذاق کا معاملہ سمجھتے ہیں۔ لیکن یہوواہ کے لوگ افسیوں ۵:۱۸ کی مشورت پر دھیان دیتے ہیں: ”شراب میں متوالے نہ بنو کیونکہ اِس سے بدچلنی واقع ہوتی ہے بلکہ رُوح سے معمور ہوتے جاؤ۔“ اگر ایک مسیحی شرابنوشی کا انتخاب کرتا ہے تو وہ اعتدال میں رہتے ہوئے ایسا کرتا ہے۔—امثال ۲۳:۲۹-۳۲۔
۱۸. اپنے خاندان کے افراد کیساتھ برتاؤ کے سلسلے میں بائبل اصول کس طرح یہوواہ کے خادموں کی راہنمائی کرتے ہیں؟
۱۸ یہوواہ کے خادموں کے طور پر، ہم دُنیا کے اِس نظریے کو بھی رد کرتے ہیں کہ اپنے ساتھی اور بچوں پر چیخناچلانا یا اُنکے ساتھ غیرشائستہ زبان استعمال کرنا قابلِقبول ہے۔ پاکیزہ طورطریقوں کے حصول میں رہنے کے عزم کے ساتھ، مسیحی شوہر اور بیویاں پولس کی مشورت کے اطلاق کیلئے ملکر کام کرتے ہیں: ”ہر طرح کی تلخمزاجی اور قہر اور غصہ اور شوروغل اور بدگوئی ہر قسم کی بدخواہی سمیت تم سے دُور کی جائیں۔ اور ایک دوسرے پر مہربان اور نرم دل ہو اور جس طرح خدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کئے ہیں تم بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کرو۔“—افسیوں ۴:۳۱، ۳۲۔
۱۹. کاروباری دُنیا میں بُرائی کس حد تک سرایت کر چکی ہے؟
۱۹ بددیانتی، فراڈ، جھوٹ بولنا، مقابلہبازی والے کاروباری طریقے اور چوری بھی آجکل عام ہیں۔ ایک بزنس میگزین سیایفاو کا ایک مضمون بیان کرتا ہے: ”۴،۰۰۰ کارکنوں سے کئے گئے ایک سروے کے مطابق ۳۱ فیصد جواب دینے والوں نے گذشتہ سال ”سنگین بداخلاقی“ کا مشاہدہ کِیا۔ اس بداخلاقی میں جھوٹ بولنا، ریکارڈ میں ردوبدل کرنا، جنسی چھیڑچھاڑ اور چوری شامل ہیں۔ اگر ہمیں یہوواہ کے حضور اخلاقی لحاظ سے پاکصاف رہنا ہے تو ہمیں اِس قسم کے چالچلن سے گریز کرنا ہوگا اور مالی معاملات میں دیانتدار بننا ہوگا۔—میکاہ ۶:۱۰، ۱۱۔
۲۰. مسیحیوں کو ”زر کی دوستی“ سے خالی رہنے کی ضرورت کیوں ہے؟
۲۰ غور کریں کہ ایک شخص کے ساتھ کیا واقع ہوا جب اُس نے سوچا کہ اگر وہ مالی لحاظ سے ایک دم بہت سی دولت حاصل کر لے تو وہ خدا کی خدمت میں زیادہ وقت صرف کر سکے گا۔ اُس نے اُن کے امکانی منافعوں کے متعلق مبالغہآرائی کرتے ہوئے دوسروں کو سرمایہ لگانے والی ایک سکیم میں شامل کر لیا۔ جب مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوئے تو جو نقصان واقع ہوا تھا اُسے پورا کرنے کے سلسلے میں وہ اِس قدر پریشان ہوا کہ اُس نے وہ رقم خوردبرد کر لی جس کے سلسلے میں اُس پر اعتماد کِیا گیا تھا۔ اُس کے طرزِعمل اور غیرتائب رویے کی وجہ سے اُسے مسیحی کلیسیا سے خارج کر دیا گیا۔ بائبل کی آگاہی سچ ہے: ”لیکن جو دولتمند ہونا چاہتے ہیں وہ ایسی آزمایش اور پھندے اور بہت سی بیہودہ اور نقصان پہنچانے والی خواہشوں میں پھنستے ہیں جو آدمیوں کو تباہی اور ہلاکت کے دریا میں غرق کر دیتی ہیں۔ کیونکہ زر کی دوستی ہر قسم کی بُرائی کی جڑ ہے جسکی آرزو میں بعض نے ایمان سے گمراہ ہو کر اپنے دلوں کو طرح طرح کے غموں سے چھلنی کر لیا۔“!—۱-تیمتھیس ۶:۹، ۱۰۔
۲۱. دُنیا کے بااختیار لوگوں میں کس قسم کا روّیہ پایا جاتا ہے لیکن مسیحی کلیسیا میں ذمہدار اشخاص کا روّیہ کیسا ہونا چاہئے؟
۲۱ دُنیا میں جو لوگ اختیار اور اثرورسوخ رکھتے ہیں، اُن میں عموماً پاکیزگی کی کمی ہوتی ہے جوکہ اِس مقولے کی صداقت کو سچ ثابت کرتا ہے کہ ’اختیار بدعنوان بناتا ہے۔‘ (واعظ ۸:۹) بعض ممالک میں رشوت اور بدعنوانی کی دیگر اقسام ججوں، پولیس، اور سیاسی راہنماؤں کا طرزِزندگی ہیں۔ تاہم، مسیحی کلیسیا میں جو پیشوائی کرتے ہیں اُنہیں پاکباز ہونا چاہئے اور اُنہیں دوسروں پر حکومت نہیں جتانی چاہئے۔ (لوقا ۲۲:۲۵، ۲۶) بزرگ اور خدمتگزار خادم ”ناجائز نفع کے لئے“ خدمت نہیں کرتے۔ اُنہیں ایسی تمام باتوں سے مبرا ہونا چاہئے جو اُن کے فیصلوں کو اُنکے ذاتی مفاد کے امکان کے پیشِنظر متاثر کریں یا اُسکا غلط استعمال کریں۔—۱-پطرس ۵:۲؛ خروج ۲۳:۸؛ امثال ۱۷:۲۳؛ ۱-تیمتھیس ۵:۲۱۔
۲۲. اگلا مضمون کس چیز پر باتچیت کریگا؟
۲۲ مجموعی طور پر، ہماری بُرائی سے پُر دُنیا میں پاکیزگی برقرار رکھنے کے چیلنج کے ساتھ مسیحی کامیابی سے نپٹ رہے ہیں۔ تاہم، پاکیزگی میں صرف بدی سے گریز کرنے کے علاوہ بھی بہت کچھ شامل ہے۔ اگلا مضمون اِس پر باتچیت کریگا کہ پاکیزگی کو ترقی دینے کیلئے واقعی کیا چیز درکار ہے۔
]فٹ نوٹس[
a اکتوبر ۸، ۱۹۹۳ کے اویک! میں شائع ہونے والے سلسلہوار مضامین ”پروٹیکٹ یور چلڈرن!،“ [”اپنے بچوں کی حفاظت کریں“!] دیکھئے۔
b جو لوگ ماضی میں ہمجنسپسندی کے کاموں میں ملوث رہے ہیں، وہ اپنے طورطریقوں میں بالکل ویسے ہیں تبدیلی لا سکتے ہیں جیسے بعض پہلی صدی میں لائے تھے۔ (۱-کرنتھیوں ۶:۱۱) مارچ ۲۲، ۱۹۹۵ کے اویک! میں ۲۱ تا ۲۳ صفحات پر مفید معلومات پیش کی گئی تھیں۔
اعادے کیلئے نکات
▫ یہوواہ نے کنعانیوں کا قلعقمع کرنے کا حکم کیوں دیا؟
▫ پہلی صدی میں کونسی بُرائیاں عام تھیں اور مسیحیوں نے ایسے ماحول کا کیسے مقابلہ کِیا؟
▫ اِس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ۱۹۱۴ سے لیکر دُنیا نے عالمگیر اخلاقی تنزلی کا مشاہدہ کِیا ہے؟
▫ یہوواہ کے لوگوں کو کن عام بُرائیوں کو رد کر دینا چاہئے؟
[صفحہ 9 پر تصویر]
پہلی صدی کے مسیحی پاکباز تھے اگرچہ وہ بُرائی سے پُر دُنیا میں رہتے تھے
[صفحہ 10 پر تصویر]
بُرائی، کمپیوٹر نٹورک میں بھی سرایت کر گئی ہے جوکہ بہت سے نوجوانوں اور دیگر لوگوں کیلئے فحش مواد کو قابلِرسائی بناتی ہے
[صفحہ 12 پر تصویر]
مسیحیوں کو دوسروں کے بددیانت طور طریقوں کی نقل نہ کرتے ہوئے پاکیزگی کو برقرار رکھنا چاہئے