اختیار کی پُرمسرت تابعداری
”تم . . . دل سے . . . فرمانبردار ہو گئے۔“—رومیوں ۶:۱۷۔
۱، ۲. (ا) آجکل دنیا میں کونسی روح نمایاں ہے اور اسکا ماخذ اور اسکے اثرات کیا ہیں؟ (ب) یہوؔواہ کے مخصوصشدہ خادم کیسے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ فرق ہیں؟
وہ ”روح . . . جو اب نافرمانی کے فرزندوں میں تاثیر کرتی ہے“ آجکل حیرانکُن حد تک نمایاں ہے۔ یہ ”ہوا کی عملداری کے حاکم،“ شیطان سے صادر ہونے والی بےلگام خودمختاری کی روح ہے۔ یہ روح، یہ ”ہوا،“ یا نافرمانی اور خودغرضی کا مسلّط رجحان، زیادہتر نوعِانسانی پر ”عملداری“ یا اختیار رکھتا ہے۔ یہ ایک وجہ ہے جس کے باعث دنیا اس کا سامنا کر رہی ہے جسے اختیار کے بحران کا نام دیا گیا ہے۔—افسیوں ۲:۲۔
۲ خوشی کی بات ہے کہ آجکل یہوؔواہ کے مخصوصشدہ خادم اپنے روحانی پھیپھڑوں کو اس آلودہ ”ہوا،“ یا بغاوت کی روح سے نہیں بھرتے۔ وہ جانتے ہیں کہ ”نافرمانی کے فرزندوں پر خدا کا غضب نازل [ہونے کو] ہے۔“ پولسؔ رسول اضافہ کرتا ہے: ”پس اُنکے کاموں میں شریک نہ ہو۔“ (افسیوں ۵:۶، ۷) اسکی بجائے، سچے مسیحی ”[یہوؔواہ کی] روح سے معمور“ ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ ”جو حکمت اُوپر سے آتی ہے“ اُسکے اثر کو قبول کرتے ہیں جو ”پاک ہوتی ہے۔ پھر ملنسار حلیم اور تربیتپذیر۔“—افسیوں ۵:۱۷، ۱۸؛ یعقوب ۳:۱۷۔
یہوؔواہ کی حاکمیت کیلئے رضامندانہ تابعداری
۳. رضامندانہ تابعداری کی کُنجی کیا ہے، اور تاریخ ہمیں کونسا بڑا سبق سکھاتی ہے؟
۳ رضامندانہ تابعداری کی کُنجی جائز اختیار کا اعتراف کرنا ہے۔ نوعِانسانی کی تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ یہوؔواہ کی حاکمیت کا استرداد خوشی نہیں لاتا۔ ایسا استرداد نہ تو آدؔم اور حوؔا کیلئے اور نہ ہی اُنکی بغاوت کو تحریک دینے والے شیطان ابلیس کیلئے کوئی خوشی لایا۔ (پیدایش ۳:۱۶-۱۹) اپنی موجودہ پست حالت میں شیطان ”بڑے قہر“ میں ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اُس کا وقت بہت تھوڑا ہے۔ (مکاشفہ ۱۲:۱۲) نوعِانسانی، جیہاں، پوری کائنات کے امن اور خوشحالی کا انحصار یہوؔواہ کی راست حاکمیت کے عالمگیر اعتراف پر ہے۔—زبور ۱۰۳:۱۹-۲۲۔
۴. (ا) یہوؔواہ اپنے خادموں سے کس قسم کی تابعداری اور فرمانبرداری دکھانے کا تقاضا کرتا ہے؟ (ب) ہمیں کس بات کا قائل ہونا چاہئے اور زبور نویس اسے کسطرح بیان کرتا ہے؟
۴ تاہم، اپنی حیرتانگیز طور پر متوازن خوبیوں کی وجہ سے، یہوؔواہ سردمہر فرمانبرداری سے مطمئن نہیں ہے۔ وہ قدرت والا ہے، یقیناً وہ ہے! لیکن وہ ظالم حکمران نہیں ہے۔ وہ محبت کا خدا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اُسکی ذیشعور مخلوقات محبت کی رُو سے، رضامندی کیساتھ اُسکی فرمانبرداری کریں۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ اُسکی حاکمیت کی اطاعت کریں کیونکہ وہ پورے دل سے اس بات سے قائل ہوکر اپنے آپ کو اُسکے راست اور جائز اختیار کے تحت لے آنے کا انتخاب کرتے ہیں کہ اُنکے لئے ہمیشہ اُسکی فرمانبرداری کرنے سے بہتر اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ جس قسم کے شخص کو یہوؔواہ اپنی کائنات میں رکھنا چاہتا ہے وہ زبور نویس کے احساسات میں شریک ہوتا ہے جس نے لکھا: ”خداوند کی شریعت کامل ہے۔ وہ جان کو بحال کرتی ہے۔ خداوند کی شہادت برحق ہے۔ نادان کو دانش بخشتی ہے۔ خداوند کے قوانین راست ہیں۔ وہ دل کو فرحت پہنچاتے ہیں۔ خداوند کا حکم بےعیب ہے۔ وہ آنکھوں کو روشن کرتا ہے۔ خداوند کا خوف پاک ہے۔ وہ ابد تک قائم رہتا ہے۔ خداوند کے احکام برحق اور بالکل راست ہیں۔“ (زبور ۱۹:۷-۹) یہوؔواہ کی حاکمیت کی درستی اور راستبازی پر مکمل بھروسہ—اگر ہم یہوؔواہ کی نئی دنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ہمارا یہی رویہ ہونا چاہئے۔
اپنے بادشاہ کی پُرمسرت تابعداری
۵. یسوؔع کو اُسکی فرمانبرداری کیلئے کیسے اجر دیا گیا اور ہم خوشی سے کس بات کو تسلیم کرتے ہیں؟
۵ مسیح یسوؔع خود اپنے آسمانی باپ کی تابعداری کا ایک شاندار نمونہ ہے۔ ہم پڑھتے ہیں کہ ”[اُس نے] اپنے آپ کو پست کر دیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔“ پولسؔ اضافہ کرتا ہے: ”اِسی واسطے خدا نے بھی اُسے بہت سربلند کِیا اور اُسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے۔ تاکہ یسوؔع کے نام پر ہر ایک گھٹنا جھکے۔ خواہ آسمانیوں کا ہو خواہ زمینیوں کا۔ خواہ اُنکا جو زمین کے نیچے ہیں۔ اور خدا باپ کے جلال کے لئے ہر ایک زبان اِقرار کرے کہ یسوؔع مسیح خداوند ہے۔“ (فلپیوں ۲:۸-۱۱) جیہاں، ہم خوشی کے ساتھ اپنے پیشوا اور حکمران بادشاہ، مسیح یسوؔع کے سامنے گھٹنے جھکاتے ہیں۔—متی ۲۳:۱۰۔
۶. یسوؔع قومی گروہوں کیلئے کسطرح ایک گواہ اور ایک پیشوا ثابت ہوا ہے اور بڑی مصیبت کے بعد بھی اُسکی ”سلطنت“ کیسے جاری رہیگی؟
۶ ہمارے پیشوا کے طور پر مسیح کی بابت یہوؔواہ نے پیشینگوئی کی: ”دیکھو میں نے اُسے اُمتوں کے لئے گواہ مقرر کِیا بلکہ اُمتوں کا پیشوا اور فرمانروا۔“ (یسعیاہ ۵۵:۴) اپنی زمینی خدمتگزاری کے ذریعے اور اپنی موت اور قیامت کے بعد خود آسمان سے منادی کے کام کی راہنمائی کرنے کے ذریعے یسوؔع نے تمام اقوام کے لوگوں کیلئے خود کو اپنے باپ کا ”سچا اور برحق گواہ“ ظاہر کیا ہے۔ (مکاشفہ ۳:۱۴؛ متی ۲۸:۱۸-۲۰) ایسے قومی گروہوں کی نمائندگی اب ”بڑی بھیڑ“ کی بڑھتی ہوئی تعداد سے ہوتی ہے جو مسیح کی پیشوائی کے تحت ”بڑی مصیبت“ سے زندہ بچ نکلے گی۔ (مکاشفہ ۷:۹، ۱۴) لیکن یسوؔع کی پیشوائی یہاں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی۔ اُسکی ”سلطنت“ ہزار برس کیلئے قائم رہیگی۔ فرمانبردار انسانوں کیلئے، وہ اپنے نام ”عجیب مشیر خدایِقادر ابدیت کا باپ سلامتی کا شہزادہ“ کے مطابق عمل کرے گا۔—یسعیاہ ۹:۶، ۷؛ مکاشفہ ۲۰:۶۔
۷. اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ مسیح یسوؔع ہمیں ”آبِحیات کے چشموں“ کے پاس لے جائے تو پھر ہمیں بلاتاخیر کیا کرنا چاہئے اور کیا چیز ہمارے لئے یسوؔع اور یہوؔواہ کی محبت حاصل کرنے کا سبب بنے گی؟
۷ اگر ہم اُن ”آبِحیات کے چشموں“ سے مستفید ہونا چاہتے ہیں جنکی طرف برہ، مسیح یسوؔع، راستدل انسانوں کو لیکر جاتا ہے تو ضرور ہے کہ ہم بلاتاخیر اپنے طرزِعمل سے یہ ثابت کریں کہ ہم خوشی سے بادشاہ کے طور پر اُسکے اختیار کی اطاعت کرتے ہیں۔ (مکاشفہ ۷:۱۷؛ ۲۲:۱، ۲؛ مقابلہ کریں زبور ۲:۱۲۔) یسوؔع نے بیان کیا: ”اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے۔ جسکے پاس میرے حکم ہیں اور وہ اُن پر عمل کرتا ہے وہی مجھ سے محبت رکھتا ہے اور جو مجھ سے محبت رکھتا ہے وہ میرے باپ کا پیارا ہوگا اور میں اُس سے محبت رکھونگا۔“ (یوحنا ۱۴:۱۵، ۲۱) کیا آپ چاہتے ہیں کہ یسوؔع اور اُسکا باپ آپ سے محبت رکھیں؟ تو پھر اُنکے اختیار کیلئے اطاعتشعار ہوں۔
نگہبان خوشی سے فرمانبرداری کرتے ہیں
۸، ۹. (ا) کلیسیا کی ترقی کیلئے مسیح نے کیا فراہم کر دیا ہے اور کس لحاظ سے ان آدمیوں کو گلّہ کیلئے نمونے ہونا چاہئے؟ (ب) مکاشفہ کی کتاب میں مسیحی نگہبانوں کی تابعداری کی علامت کیسے پیش کی گئی ہے، اور عدالتی معاملات کو نپٹاتے وقت اُنہیں ایک ”فرمانبردار دل“ کے طالب کیسے ہونا چاہئے؟
۸ ”کلیسیا مسیح کے تابع ہے۔“ اسکے نگہبان کے طور پر، اُس نے کلیسیا کی ”ترقی“ کیلئے ”آدمیوں کی صورت میں انعام“ بخشے ہیں۔ (افسیوں ۴:۸، اینڈبلیو، ۱۱، ۱۲؛ ۵:۲۴) روحانی طور پر ان بزرگ آدمیوں سے ’اُنکے زیرِنگرانی خدا کے گلّے کی گلّہبانی‘ کرنے کو کہا گیا ہے،‘ ”اُن پر حکومت جتانے سے نہیں جو خدا کی میراث ہیں بلکہ گلّہ کیلئے نمونے بننے سے۔“ (۱-پطرس ۵:۱-۳، اینڈبلیو۔) گلّہ یہوؔواہ کا ہے اور مسیح اسکا ”اچھا چرواہا“ ہے۔ (یوحنا ۱۰:۱۴) چونکہ نگہبان موزوں طور پر بھیڑوں سے رضامندانہ تعاون کی توقع کرتے ہیں جو یہوؔواہ اور مسیح نے اُنکے سپرد کی ہیں اسلئے اُنہیں خود بھی اطاعتشعاری کے عمدہ نمونے ہونا چاہئے۔—اعمال ۲۰:۲۸۔
۹ پہلی صدی میں، کلیسیا کے سر کے طور پر اُسکے لئے اُنکی تابعداری کو ظاہر کرتے ہوئے، ممسوح نگہبانوں کی نمائندگی علامتی طور پر مسیح کے دہنے ہاتھ ”میں،“ یا ”پر“ ہونے سے کی گئی تھی۔ (مکاشفہ ۱:۱۶، ۲۰، اینڈبلیو؛ ۲:۱) اسی طرح آجکل بھی یہوؔواہ کے گواہوں کی کلیسیاؤں کے اندر نگہبانوں کو مسیح کی ہدایت کی اطاعت کرنی چاہئے اور ’خدا کے قوی ہاتھ کے نیچے فروتنی سے رہنا‘ چاہئے۔ (۱-پطرس ۵:۶) جب عدالتی معاملات کو نپٹانے کیلئے ان سے درخواست کی جاتی ہے تو سلیماؔن کی مانند اُسکے وفاداری کے سالوں کے دوران، اُنہیں یہوؔواہ سے دعا کرنی چاہئے: ”تُو اپنے خادم کو اپنی قوم کا اِنصاف کرنے کے لئے سمجھنے والا [”فرمانبردار،“ اینڈبلیو] دل عنایت کر تاکہ میں بُرے اور بھلے میں اِمتیاز کر سکوں۔“ (۱-سلاطین ۳:۹) ایک فرمانبردار دل ایک بزرگ کو معاملات پر بالکل اُسی طرح سے نگاہ ڈالنے کی تحریک دیگا جیسے کہ یہوؔواہ اور مسیح یسوؔع اُنہیں دیکھتے ہیں تاکہ جس قدر ممکن ہو زمین پر کِیا گیا فیصلہ آسمان پر کئے گئے فیصلے کے مشابہ ہو۔—متی ۱۸:۱۸-۲۰۔
۱۰. کسطرح تمام نگہبانوں کو یسوؔع کے اُس طریقے کی نقل کرنی چاہئے جس سے اُس نے بھیڑوں کیساتھ برتاؤ کیا؟
۱۰ اسی طرح سفری نگہبان اور کلیسیائی بزرگ جس طریقے سے یسوؔع نے بھیڑوں کیساتھ برتاؤ کِیا اُس میں اُس کی نقل کرنے کی کوشش کرینگے۔ فریسیوں کے برعکس، یسوؔع نے ایسے بہت سے قوانین کو عائد نہ کیا جن پر عمل کرنا مشکل تھا۔ (متی ۲۳:۲-۱۱) اُس نے بھیڑخصلت لوگوں سے کہا: ”اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ میں تمکو آرام دونگا۔ میرا جؤا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔ کیونکہ میں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔ تو تمہاری جانیں آرام پائینگی۔ کیونکہ میرا جؤا ملائم اور میرا بوجھ ہلکا۔“ (متی ۱۱:۲۸-۳۰) اگرچہ یہ سچ ہے کہ ہر مسیحی کو ”اپنا ہی بوجھ [اُٹھانا]“ چاہئے تو بھی نگہبانوں کو یسوؔع کے نمونے کو یاد رکھنا چاہئے اور یہ محسوس کرنے میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنی چاہئے کہ مسیحی ذمہداری کا اُنکا بوجھ ”ملائم،“ ”ہلکا،“ ہے اور اُسے اُٹھانا شادمانی ہے۔—گلتیوں ۶:۵۔
تھیوکریٹک تابعداری
۱۱. (ا) کیسے ایک شخص سرداری کا احترام تو کر سکتا ہے مگر حقیقت میں تھیوکریٹک نہیں ہو سکتا؟ سمجھائیں۔ (ب) صحیح معنوں میں تھیوکریٹک ہونے کا کیا مطلب ہے؟
۱۱ تھیوکریسی خدا کے ذریعے حکمرانی ہے۔ اس میں ۱-کرنتھیوں ۱۱:۳ میں بیانکردہ سرداری کا اصول شامل ہے۔ لیکن اسکا مطلب اس سے زیادہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص سرداری کیلئے احترام ظاہر کرتا ہوا دکھائی دے لیکن حقیقی معنوں میں تھیوکریٹک نہ ہو۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ مثال کے طور پر، جمہوریت عوام کے ذریعے حکومت ہے اور جمہوری شخص کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ ”ایسا شخص جو جمہوریت کے اصولوں پر اعتقاد رکھتا ہے۔“ ایک شخص شاید جمہوری ہونے کا دعویٰ کرے، انتخابات میں حصہ لے اور ایک سرگرم سیاستدان بھی ہو۔ لیکن اگر اپنے عام طرزِعمل میں وہ جمہوریت کے جذبے اور اس میں شامل تمام اصولوں کی تحقیر کرتا ہے تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ واقعی جمہوری ہے؟ اسی طرح، حقیقی تھیوکریٹک شخص ہونے کیلئے ایک شخص کو معمولی انداز میں سرداری کی اطاعت کرنے سے زیادہ کچھ کرنا چاہئے۔ اُسے یہوؔواہ کی راہوں اور خوبیوں کی ضرور نقل کرنی چاہئے۔ اُسے ہر لحاظ سے حقیقت میں یہوؔواہ سے ہدایت حاصل کرنی چاہئے۔ اور چونکہ یہوؔواہ نے سارا اختیار اپنے بیٹے کو دے دیا ہے اسلئے تھیوکریٹک ہونے کا مطلب یسوؔع کی نقل کرنا بھی ہے۔
۱۲، ۱۳. (ا) خاص طور پر تھیوکریٹک ہونے میں کیا کچھ شامل ہے؟ (ب) کیا تھیوکریٹک تابعداری میں بہت زیادہ قوانین کی تعمیل کرنا شامل ہے؟ سمجھائیں۔
۱۲ یاد رکھیں، یہوؔواہ محبت سے تحریک پائی ہوئی رضامندانہ تابعداری چاہتا ہے۔ کائنات کو چلانے کا اُسکا یہی طریقہ ہے۔ وہ تجسمِمحبت ہے۔ (۱-یوحنا ۴:۸) مسیح یسوؔع ”اُسکے جلال کا پرتَو اور اُسکی ذات کا نقش“ ہے۔ (عبرانیوں ۱:۳) وہ اپنے سچے شاگردوں سے ایکدوسرے کیساتھ محبت رکھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ (یوحنا ۱۵:۱۷) لہٰذا تھیوکریٹک ہونے میں صرف اطاعتشعار ہونا ہی نہیں بلکہ پُرمحبت ہونا بھی شامل ہے۔ اس کی تلخیص مندرجہذیل بات میں کچھ یوں کی جا سکتی ہے: تھیوکریسی خدا کے ذریعے حکمرانی ہے؛ خدا محبت ہے؛ اسلئے تھیوکریسی محبت کے ذریعے حکمرانی ہے۔
۱۳ ایک بزرگ سوچ سکتا ہے کہ تھیوکریٹک ہونے کیلئے بھائیوں کو ہر طرح کے قوانین کی تعمیل کرنی چاہئے۔ بعض بزرگوں نے وقتاًفوقتاً ”عقلمند اور دیانتدار نوکر“ کی طرف سے پیش کی جانے والی تجاویز سے قانون بنا لئے ہیں۔ (متی ۲۴:۴۵) مثلاً، ایک مرتبہ یہ تجویز کِیا گیا تھا کہ کلیسیا میں بھائیوں کیساتھ زیادہ آسانی سے واقفیت پیدا کرنے کی خاطر یہ اچھا ہوگا کہ کنگڈم ہال میں ہمیشہ ایک ہی جگہ پر نہ بیٹھا جائے۔ اسے ایک عملی مشورہ ہونا تھا، ناقابلِتغیر قانون نہیں۔ لیکن بعض بزرگ اسکو ایک قانون میں بدلنے اور یہ محسوس کرنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں کہ وہ جو اس پر نہیں چلتے تھیوکریٹک نہیں ہیں۔ تاہم بےشمار ایسی اچھی وجوہات ہو سکتی ہیں جنکے باعث کوئی بھائی یا بہن کسی خاص حلقے میں بیٹھنے کو ترجیح دے سکتا ہے۔ اگر ایک بزرگ محبت کیساتھ ایسے معاملات کو ملحوظِخاطر نہیں لاتا تو کیا وہ خود واقعی تھیوکریٹک ہے؟ تھیوکریٹک ہونے کیلئے، ”جو کچھ کرتے ہو محبت سے کرو۔“—۱-کرنتھیوں ۱۶:۱۴۔
خوشی کیساتھ خدمت کرنا
۱۴، ۱۵. (ا) کیسے کوئی بزرگ یہوؔواہ کی خدمت کرنے میں بعض بھائیوں یا بہنوں سے اُنکی خوشی چھین سکتا ہے اور یہ تھیوکریٹک کیوں نہیں ہوگا؟ (ب) کسطرح یسوؔع نے ظاہر کِیا کہ وہ مقدار کی بجائے ہماری خدمت سے ظاہر ہونے والی محبت کی قدر کرتا ہے؟ (پ) بزرگوں کو کس چیز کا لحاظ رکھنا چاہئے؟
۱۴ تھیوکریٹک ہونے کا مطلب خوشی کیساتھ یہوؔواہ کی خدمت کرنا بھی ہے۔ یہوؔواہ ”خدایِمبارک“ ہے۔ (۱-تیمتھیس ۱:۱۱) وہ چاہتا ہے کہ اُسکے پرستار خوشی سے اُسکی خدمت کریں۔ قوانین پر اصرار کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ جن ضوابط پر اسرؔائیل کو ”احتیاط کرکے . . . عمل کرنا“ تھا اُن میں سے ایک حسبِذیل تھا: ”ضرور ہے کہ تُو اپنی ہر ذمہداری میں یہوؔواہ اپنے خدا کے حضور شادمانی کرے۔“ (استثنا ۱۲:۱، ۱۸، اینڈبلیو) ہم یہوؔواہ کی خدمت میں جو کوئی بھی ذمہداری قبول کریں اُسے ایک خوشی ہونا چاہئے نہ کہ ایک بھاری بوجھ۔ نگہبان اس میں بہت کچھ کر سکتے ہیں کہ بھائی جو کچھ بھی یہوؔواہ کی خدمت میں کرتے ہیں اُس سے اُنہیں خوشی حاصل کرنے کا احساس دلائیں۔ اسکے برعکس، اگر بزرگ محتاط نہیں ہیں تو وہ بعض بھائیوں سے اُنکی خوشی کو چھین سکتے ہیں۔ مثلاً، اگر وہ تقابلی جائزے لیتے ہیں اور اُن لوگوں کی تعریف کرتے ہیں جو گواہی دینے کے کام میں صرف کئے گئے گھنٹوں میں کلیسیا کی اوسط تک پہنچے ہیں یا اس میں اضافہ کِیا ہے اور غیرواضح الفاظ میں اُن پر نکتہچینی کرتے ہیں جنہوں نے اسے حاصل نہیں کِیا تو پھر وہ لوگ کیسا محسوس کرینگے جنکے پاس وقت کی اتنی کم مقدار کی رپورٹ دینے کیلئے جائز وجہ رہی ہے؟ کیا یہ اُنہیں غیرضروری طور پر خطاوار ہونے اور اپنی خوشی سے محروم ہونے کا احساس نہیں دلا سکتا؟
۱۵ وہ چند گھنٹے جو کوئی شخص عوامی گواہی دینے کی نذر کر سکتا ہے شاید اُن متعدد گھنٹوں کی نسبت زیادہ کوشش کی نمائندگی کریں جو دیگر لوگ جواں عمری، اچھی صحت اور دیگر حالات کے پیشِنظر منادی کے کام میں صرف کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں، بزرگوں کو اُن کے متعلق کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہئے۔ یقیناً یہ یسوؔع مسیح ہی ہے جسکو باپ نے ”عدالت کرنے کا . . . اختیار“ بخشا ہے۔ (یوحنا ۵:۲۷) کیا یسوؔع نے غریب بیوہ پر نکتہچینی کی تھی کیونکہ اُس کا نذرانہ اوسط سے بھی بہت کم تھا؟ نہیں، وہ جانتا تھا کہ درحقیقت اس خاتون کے نزدیک اُن دو چھوٹی دمڑیوں کی کیا قیمت تھی۔ وہ ”اُسکا سب کچھ یعنی اُسکی ساری روزی“ تھی۔ ان سے یہوؔواہ کیلئے کیا ہی گہری محبت کی نمائندگی ہوئی تھی! (مرقس ۱۲:۴۱-۴۴) کیا بزرگوں کو اُن لوگوں کی پُرمحبت کاوشوں کی بابت اس سے کچھ کم اثرپذیر ہونا چاہئے جنکا سب کچھ تعداد کے لحاظ سے ”اوسط“ سے بھی کم ہے؟ یہوؔواہ کے لئے ایسی پُرمحبت کاوشیں اوسط سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہیں!
۱۶. (ا) اگر نگہبان اپنی تقاریر میں اعدادوشمار کو استعمال کرتے ہیں تو پھر اُنہیں سمجھداری اور اچھے توازن کی ضرورت کیوں ہے؟ (ب) کیسے بھائیوں کی اپنی خدمت کو بڑھانے میں بہتر طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے؟
۱۶ کیا اب ان تجاویز کو ایک نئے ”قانون“ میں بدل دیا جانا چاہئے کہ اعدادوشمار کا—اواسط کا بھی—کبھی ذکر نہیں ہونا چاہئے؟ ہرگز نہیں! نکتہ یہ ہے کہ نگہبانوں کو چاہئے کہ بھائیوں کو اُنکی خدمتگزاری کو وسیع کرنے میں حوصلہافزائی دینے اور اُس کام میں اُنکی مدد کرنے کے درمیان جو وہ خوشی سے کر سکتے ہیں توازن قائم کریں۔ (گلتیوں ۶:۴) یسوؔع کی توڑوں کی تمثیل میں مالک نے ”ہر ایک کو اُسکی لیاقت کے مطابق“ اپنا مال اپنے نوکروں کے سپرد کِیا۔ (متی ۲۵:۱۴، ۱۵) اسی طرح بزرگوں کو بھی ہر بادشاہتی پبلشر کی صلاحیتوں کو ملحوظِخاطر رکھنا چاہئے۔ اس کیلئے سمجھداری درکار ہے۔ ایسا ضرور ہو سکتا ہے کہ بعض کو زیادہ کام کرنے کیلئے واقعی حوصلہافزائی کی ضرورت ہو۔ وہ اپنی کارگزاری کو بہتر طریقے سے منظم کرنے میں مدد کی قدر کر سکتے ہیں۔ کسی بھی طرح اگر کام کرنے میں اُنکو مدد دی جا سکتی ہے جو وہ خوشی سے کر سکتے ہیں تو وہ خوشی غالباً اُنکو جہاں ممکن ہو اپنی مسیحی کارگزاری کو وسیع کرنے میں تقویت دے گی۔—نحمیاہ ۸:۱۰؛ زبور ۵۹:۱۶؛ یرمیاہ ۲۰:۹۔
اطمینان جو پُرمسرت تابعداری سے حاصل ہوتا ہے
۱۷، ۱۸. (ا) پُرمسرت تابعداری ہمارے لئے اِطمینان اور راستی کیسے لا سکتی ہے؟ (ب) اگر ہم حقیقت میں خدا کے احکام کے شنوا ہوتے ہیں تو کیا چیز ہماری ہو سکتی ہے؟
۱۷ یہوؔواہ کی جائز حاکمیت کیلئے پُرمسرت تابعداری ہمارے لئے بڑے اِطمینان کا باعث ہوتی ہے۔ زبور نویس نے دعا میں یہوؔواہ سے کہا: ”تیری شریعت سے محبت رکھنے والے مطمئن ہیں۔ اُنکے لئے ٹھوکر کھانے کا کوئی موقع نہیں۔“ (زبور ۱۱۹:۱۶۵) خدا کے قانون کی فرمانبرداری کرنے سے ہم خود کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ یہوؔواہ نے اسرؔائیل کو بتایا: ”خداوند تیرا فدیہ دینے والا اِسرؔائیل کا قدوس یوں فرماتا ہے کہ میں ہی خداوند تیرا خدا ہوں جو تجھے مفید تعلیم دیتا ہوں اور تجھے اُس راہ میں جس میں تجھے جانا ہے لے چلتا ہوں۔ کاش کہ تُو میرے احکام کا شنوا ہوتا اور تیری سلامتی نہر کی مانند اور تیری صداقت سمندر کی موجوں کی مانند ہوتی۔“—یسعیاہ ۴۸:۱۷، ۱۸۔
۱۸ مسیح کے فدیے کی قربانی خدا کیساتھ ہمیں اطمینان بخش حالت میں لاتی ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۵:۱۸، ۱۹) اگر ہم مسیح کے نجات دلانے والے خون پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنی کمزوریوں کیخلاف جدوجہد کرنے اور خدا کی مرضی بجا لانے کیلئے دیانتداری سے کوشش کرتے ہیں تو ہم خطا کے احساسات سے چھٹکارا حاصل کر لیتے ہیں۔ (۱-یوحنا ۳:۱۹-۲۳) اعمال کی پُشتپناہی کیساتھ ایسا ایمان ہمیں یہوؔواہ کے حضور ایک راست حیثیت اور ”بڑی مصیبت“ سے بچنے اور یہوؔواہ کی نئی دنیا میں ابد تک زندہ رہنے کی شاندار امید دیتا ہے۔ (مکاشفہ ۷:۱۴-۱۷؛ یوحنا ۳:۳۶؛ یعقوب ۲:۲۲، ۲۳) ’اگر ہم واقعی یہوؔواہ کے احکام کے شنوا ہوں‘ تو یہ سب کچھ ہمارا ہو سکتا ہے۔
۱۹. اب ہماری خوشحالی اور ابدی زندگی کی ہماری امید کا انحصار کس چیز پر ہے اور دؔاؤد نے کیسے ہمارے دلی یقین کو بیان کِیا؟
۱۹ جیہاں، اب ہماری خوشحالی اور ایک فردوسی زمین پر ابدی زندگی کی ہماری امید کا دارومدار کائنات کے حاکمِاعلیٰ کے طور پر یہوؔواہ کے اختیار کیلئے ہماری پُرمسرت تابعداری پر ہے۔ دعا ہے کہ ہم ہمیشہ دؔاؤد کے احساسات میں شریک ہوں، جس نے کہا: ”اَے خداوند عظمت اور قدرت اور جلال اور غلبہ اور حشمت تیرے ہی لئے ہیں کیونکہ سب کچھ جو آسمان اور زمین میں ہے تیرا ہے۔ اَے خداوند بادشاہی تیری ہے اور تُو ہی بحیثیتِسردار سبھوں سے ممتاز ہے۔ اور اب اَے ہمارے خدا ہم تیرا شکر اور تیرے جلالی نام کی تعریف کرتے ہیں۔“—۱-تواریخ ۲۹:۱۱، ۱۳۔ (۲۳ ۷/۱ w۹۴)
یاد رکھنے کیلئے نکات
▫ یہوؔواہ اپنے خادموں سے کس قسم کی تابعداری اور فرمانبرداری دکھانے کا تقاضا کرتا ہے؟
▫ یسوؔع کو اُسکی فرمانبرداری کیلئے کیسے اجر دیا گیا تھا اور ہمیں اپنے طرزِعمل سے کیا چیز ثابت کرنی چاہئے؟
▫ کسطرح تمام نگہبانوں کو یسوؔع کے اُس طریقے کی نقل کرنی چاہئے جس سے اُس نے بھیڑوں کیساتھ برتاؤ کیا؟
▫ تھیوکریٹک ہونے میں کیا کچھ شامل ہے؟
▫ پُرمسرت تابعداری ہمارے لئے کونسی برکات لاتی ہے؟