ترقی کرنے میں دوسروں کی مدد کریں
”مَیں تجھے صلاح دوں گا۔ میری نظر تجھ پر ہوگی۔“—زبور 32:8۔
1، 2. یہوواہ خدا اپنے بندوں کو کیسا خیال کرتا ہے؟
جب ماںباپ اپنے بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اکثر وہ اُن کی پیدائشی صلاحیتوں کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ شاید آپ نے خود بھی دیکھا ہو کہ آپ کا ایک بچہ بڑا پھرتیلا ہے جبکہ دوسرا بڑی اچھی ڈرائنگ کرتا ہے۔ لیکن بچوں میں چاہے جو بھی قدرتی صلاحیت ہو، والدین کو یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ بچے اَور بھی ہنر سیکھتے ہیں۔
2 ہمارا آسمانی باپ یہوواہ بھی اپنے بندوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔ وہ اُن کو ”بیشقیمت خزانے“ خیال کرتا ہے۔ (حج 2:7، اُردو جیو ورشن) اُس کی نظر میں وہ بیشقیمت اِس لیے ہیں کیونکہ وہ اُس پر ایمان رکھتے ہیں اور اُس کے وفادار ہیں۔ آپ نے شاید دیکھا ہو کہ کلیسیا کے بہنبھائی فرقفرق صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ کچھ بھائی بہت اچھی تقریریں دیتے ہیں جبکہ دوسرے بڑے اچھے طریقے سے کلیسیا کا اِنتظام سنبھالتے ہیں۔ بہت سی بہنوں میں دوسری زبانیں سیکھنے کی خاص صلاحیت ہوتی ہے اور وہ اِنہیں مُنادی کے کام میں اِستعمال کرتی ہیں جبکہ بعض بہنیں بیماروں کی دیکھبھال کرنے یا دوسروں کی حوصلہافزائی کرنے میں بڑی اچھی ہوتی ہیں۔ (روم 16:1، 12) کیا ہم اِس بات کی قدر نہیں کرتے کہ ہماری کلیسیاؤں میں ایسے بہنبھائی موجود ہیں؟
3. اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟
3 بعض مسیحی، خاص طور پر ایسے بھائی جو نوجوان ہیں یا جنہوں نے حال ہی میں بپتسمہ لیا ہے، وہ شاید سوچیں کہ کلیسیا میں اُن کا کوئی خاص کردار نہیں ہے۔ ہم اُن کی مدد کیسے کر سکتے ہیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اِستعمال کر سکیں؟ ہمیں یہوواہ خدا کی طرح اُن کی خوبیوں پر زیادہ دھیان کیوں دینا چاہیے؟
یہوواہ اپنے بندوں کی خوبیوں کو دیکھتا ہے
4، 5. قضاۃ 6:11-16 سے کیسے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ خدا دیکھتا ہے کہ اُس کے بندے کیا کرنے کے قابل ہیں؟
4 بائبل میں بہت سے ایسے واقعات پائے جاتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ نہ صرف اپنے بندوں کی خوبیوں کو دیکھتا ہے بلکہ وہ اِس بات پر بھی غور کرتا ہے کہ وہ مستقبل میں کیا کرنے کے قابل ہیں۔ مثال کے طور پر جب یہوواہ خدا نے بنیاِسرائیل کو مِدیانیوں کے ہاتھ سے چھڑانے کے لیے جدعون کو چنا تو اُس نے ایک فرشتے کو اُن کے پاس بھیجا۔ فرشتے نے جدعون سے کہا: ”اَے زبردست سورما! [یہوواہ] تیرے ساتھ ہے۔“ یہ بات سُن کر جدعون بہت حیران ہوئے ہوں گے کیونکہ وہ خود کو ”زبردست سورما“ خیال نہیں کرتے تھے۔ دراصل جدعون خود کو وہ کام کرنے کے لائق نہیں سمجھتے تھے جس کے لیے خدا نے اُن کو چنا تھا۔ لیکن یہوواہ خدا کے جواب سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جدعون کو اِس کام کے لائق خیال کرتا تھا۔—قضاۃ 6:11-16 کو پڑھیں۔
5 یہوواہ خدا نے بنیاِسرائیل کو چھڑانے کے لیے جدعون کو اِس لیے چنا کیونکہ اُس نے اُن کی خوبیوں کو دیکھا تھا۔ جب فرشتہ جدعون کو خدا کا پیغام دینے آیا تو اُس نے دیکھا کہ جدعون اپنی پوری طاقت سے گیہوں جھاڑ رہے ہیں۔ فرشتے نے ایک اَور بات بھی دیکھی۔ اُس زمانے میں کسان گیہوں کو عموماً کُھلے میدان میں جھاڑا کرتے تھے تاکہ بھوسا ہوا سے اُڑ جائے۔ لیکن جدعون گیہوں کو کولھو میں جھاڑ رہے تھے تاکہ وہ اپنی فصل کو مِدیانیوں سے چھپا کر رکھ سکیں۔ یہ واقعی بڑی سمجھداری کی بات تھی۔ اِس لیے یہوواہ خدا جانتا تھا کہ جدعون صرف محنتی نہیں ہیں بلکہ وہ ذہین اور ہوشیار بھی ہیں۔ خدا نے دیکھا کہ جدعون کیاکیا کرنے کے قابل ہیں اور پھر اُس نے اُنہیں اُس کام کے لیے تیار بھی کِیا۔
6، 7. (الف) عاموس کے بارے میں یہوواہ کے نظریے اور کچھ اِسرائیلیوں کے نظریے میں کیا فرق تھا؟ (ب) کن باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عاموس وہ ذمےداری نبھانے کے لائق تھے جو خدا نے اُنہیں سونپی تھی؟
6 عاموس کی مثال سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا دیکھتا ہے کہ اُس کے بندے کیا کرنے کے قابل ہیں۔ لوگوں کی نظر میں عاموس کی شاید کوئی حیثیت نہیں تھی۔ وہ ایک ’چرواہے اور گولر کا پھل بٹورنے والے‘ تھے۔ گولر کا پھل غریبوں کا کھانا تھا۔ اِس لیے جب یہوواہ خدا نے اُنہیں اِسرائیل کی سلطنت کو سزا سنانے کے لیے بھیجا تو کچھ اِسرائیلیوں نے سوچا ہوگا کہ عاموس اِس ذمےداری کے لائق نہیں تھے۔—عاموس 7:14، 15 کو پڑھیں۔
7 عاموس کا تعلق ایک چھوٹے سے گاؤں سے تھا مگر اِس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دُنیا میں ہونے والے واقعات سے بےخبر تھے۔ ہم یہ اِس لیے جانتے ہیں کیونکہ اُنہوں نے اپنی کتاب میں اپنے زمانے کے رسمورواج اور حکمرانوں کا ذکر کِیا۔ وہ جانتے تھے کہ ملک اِسرائیل میں حالات کیسے ہیں اور اُن کو شاید تاجروں سے پتہ چلا ہوگا کہ آسپاس کے ملکوں میں کیا ہو رہا ہے۔ (عامو 1:6، 9، 11، 13؛ 2:8؛ 6:4-6) کچھ عالموں کا کہنا ہے کہ عاموس ایک اچھے مصنف تھے کیونکہ اُنہوں نے اپنی کتاب میں بہت سادہ مگر مؤثر الفاظ اِستعمال کئے۔ عاموس، شریر کاہن امصیاہ کی دھمکی سے خوفزدہ نہیں ہوئے بلکہ دلیری سے اُن کا سامنا کِیا۔ واقعی یہوواہ خدا نے بالکل صحیح شخص کو چنا تھا حالانکہ شاید شروع میں عاموس کی خوبیاں دوسروں کی نظر سے اوجھل تھیں۔—عامو 7:12، 13، 16، 17۔
8. (الف) یہوواہ خدا نے داؤد بادشاہ کو کس بات کا یقین دِلایا؟ (ب) زبور 32:8 اُن مسیحیوں کے لیے حوصلے کا باعث کیوں ہے جن میں اِعتماد کی کمی ہے؟
8 اِن مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا جانتا ہے کہ اُس کا ہر ایک خادم کیا کرنے کے قابل ہے۔ اُس نے داؤد بادشاہ کو یقین دِلایا کہ وہ ہمیشہ اُن کی رہنمائی کرے گا اور اُن سے کہا کہ ”میری نظر تجھ پر ہوگی۔“ (زبور 32:8 کو پڑھیں۔) یہ بات ہمارے لیے بھی حوصلہافزائی کا باعث ہے۔ ہمیں شاید خود پر زیادہ اِعتماد نہیں مگر خدا ہماری مدد کر سکتا ہے تاکہ ہم ایسے کام کر سکیں جنہیں ہم خود ناممکن خیال کرتے ہیں۔ جس طرح ایک اچھا اُستاد اپنے شاگرد کی ہر قدم پر رہنمائی کرتا ہے اُسی طرح یہوواہ خدا بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے تاکہ ہم روحانی طور پر ترقی کریں اور اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اِستعمال کریں۔ اکثر وہ ہماری مدد کرنے کے لیے دوسرے مسیحیوں کو اِستعمال کرتا ہے۔ وہ کیسے؟
دوسروں کی خوبیوں پر دھیان دیں
9. ہم پولُس رسول کی اِس نصیحت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں کہ ہمیں دوسروں کے حال پر نظر رکھنی چاہیے؟
9 پولُس رسول نے مسیحیوں کو نصیحت کی کہ وہ دوسروں کے حال پر نظر رکھیں۔ (فلپیوں 2:3، 4 کو پڑھیں۔) اِس نصیحت پر عمل کرنے میں یہ شامل ہے کہ ہم دوسروں کی صلاحیتوں پر غور کریں اور اُن کی تعریف کریں۔ اگر کوئی ہماری کسی صلاحیت کی تعریف کرتا ہے تو ہمیں کیسا لگتا ہے؟ عموماً ہم اِس صلاحیت میں اَور بھی بہتری لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِسی طرح جب ہم اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے لیے قدر ظاہر کرتے ہیں تو وہ روحانی طور پر اَور بھی مضبوط ہوتے اور ترقی کرتے ہیں۔
10. ہمیں کلیسیا میں خاص طور پر کن کی ترقی پر دھیان دینا چاہیے؟
10 ہمیں کلیسیا میں خاص طور پر کن کی ترقی پر دھیان دینا چاہیے؟ ظاہری بات ہے کہ ہم سب بہت خوش ہوتے ہیں جب ہماری کوششوں کی قدر کی جاتی ہے۔ لیکن خاص طور پر ایسے بھائی جنہوں نے حال ہی میں بپتسمہ لیا یا جو نوجوان ہیں، اُنہیں احساس ہونا چاہیے کہ اُن کی محنت کی قدر کی جاتی ہے۔ یوں وہ سمجھیں گے کہ کلیسیا میں اُن کا کردار بہت اہم ہے۔ بائبل میں بھائیوں کی حوصلہافزائی کی گئی ہے کہ وہ کلیسیا میں ذمےداریاں اُٹھانے کے لائق بنیں۔ (1-تیم 3:1) لیکن اگر اُن کی تعریف نہیں کی جاتی تو ہو سکتا ہے کہ ترقی کرنے کی اُن کی خواہش مٹ جائے۔
11. (الف) ایک بزرگ نے روحانی طور پر ترقی کرنے میں ایک بھائی کی مدد کیسے کی؟ (ب) اِس تجربے سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
11 لُوڈووِک جب نوجوان تھے تو وہ کچھ بھائیوں کی مدد سے روحانی طور پر ترقی کرنے کے قابل ہوئے۔ آج وہ خود کلیسیا کے بزرگ ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ”جب مَیں کسی بھائی کی کوششوں میں دلچسپی ظاہر کرتا ہوں تو وہ زیادہ جلدی ترقی کرتا ہے۔“ وہ جولیان نامی ایک جوان بھائی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ کافی شرمیلے تھے۔ وہ کلیسیا میں کچھ کام تو کرنا چاہتے تھے لیکن جس طرح سے وہ اپنی مدد پیش کر رہے تھے، وہ ذرا عجیب تھا۔ لُوڈووِک کہتے ہیں: ”مَیں نے دیکھا تھا کہ وہ بڑا مہربان ہے اور کلیسیا میں دوسروں کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ اِس لیے مَیں نے اُس کی نیت پر شک کرنے کی بجائے اُس کی خوبیوں پر دھیان دیا اور اُس کی حوصلہافزائی کی۔“ کچھ عرصے کے بعد جولیان کلیسیا میں خادم بن گئے اور اب وہ پہلکار کے طور پر خدمت کر رہے ہیں۔
دوسروں کی تعریف کریں
12. ترقی کرنے میں دوسروں کی مدد کرنے کے لیے ہمیں کس بات پر دھیان دینا چاہیے؟ مثال دیں۔
12 جیسے جولیان کے تجربے سے ظاہر ہوتا ہے، اگر ہم دوسروں کی مدد کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اِستعمال کریں تو ہمیں اُن کی خوبیوں پر دھیان دینا چاہیے، نہ کہ اُن کی کمزوریوں پر۔ یسوع مسیح نے پطرس رسول کے ساتھ بالکل ایسا ہی کِیا۔ حالانکہ پطرس کئی موقعوں پر کمزور پڑ گئے تھے لیکن یسوع مسیح نے اُن کو پطرس کا نام دیا جس کا مطلب چٹان ہے۔ یوں اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ اُن کو بھروسا تھا کہ پطرس چٹان کی طرح مضبوط بن جائیں گے۔—یوح 1:42۔
13، 14. (الف) برنباس، مرقس کے ساتھ کیسے پیش آئے؟ (ب) ایک بزرگ نے ایک نوجوان بھائی کی مدد کیسے کی؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
13 برنباس بھی یوحنا کے ساتھ (جن کا رومی نام مرقس تھا) اِسی طرح سے پیش آئے۔ (اعما 12:25) جب پولُس رسول نے برنباس کے ساتھ پہلی بار کلیسیاؤں کا دورہ کِیا تو مرقس بھی اُن کے ساتھ تھے۔ وہ اُن کے ”خادم“ تھے اور اِس حیثیت سے شاید اُن کی ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے۔ لیکن جب وہ پمفیلیہ کے علاقے میں پہنچے تو مرقس اچانک اُنہیں چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ یوں پولُس اور برنباس کو ایک ایسے علاقے میں اکیلے سفر کرنا پڑا جس میں ڈاکوؤں کا بڑا خطرہ تھا۔ (اعما 13:5، 13) لیکن برنباس نے مرقس کی غلطی پر زیادہ دھیان نہیں دیا اور جب بعد میں موقع ملا تو اُنہوں نے مرقس کی اَور بھی تربیت کی۔ (اعما 15:37-39) اِن کوششوں کے نتیجے میں مرقس ایک پُختہ مسیحی بن گئے۔ دلچسپی کی بات ہے کہ مرقس اُس وقت پولُس رسول کے ساتھ روم میں تھے جب پولُس کو قید کِیا گیا۔ اور جب پولُسنے کلسیوں کے نام خط لکھا تو مرقس نے بھی اُس کلیسیا کو سلام بھیجا اور پولُس نے اُن کی سفارش کی۔ (کل 4:10) یہاں تک کہ پولُس نے مرقس کو اپنی مدد کے لیے اپنے پاس بلایا۔ ذرا سوچیں کہ برنباس کو اِس سے کتنی خوشی ملی ہوگی!—2-تیم 4:11۔
14 الیگزینڈر جو حال ہی میں بزرگ بنے ہیں، اُنہیں بھی ایک بھائی کے پُرمحبت رویے سے فائدہ ہوا۔ وہ بتاتے ہیں: ”جب مَیں نوجوان تھا تو مجھے دوسروں کے سامنے دُعا کرنا بہت مشکل لگتا تھا۔ ایک بزرگ نے مجھے بتایا کہ مَیں ایسی دُعاؤں کے لیے خود کو کیسے تیار کر سکتا ہوں تاکہ میری گھبراہٹ کم ہو جائے۔ بھائی نے مجھ سے دُعا کرانا بند نہیں کِیا بلکہ مجھے باقاعدگی سے مُنادی کے اِجلاس پر دُعا کرنے کو کہتے تھے۔ یوں میرا اِعتماد بڑھتا گیا۔“
15. پولُس رسول نے بہنبھائیوں کے لیے اپنی قدر کا اِظہار کیسے کِیا؟
15 جب ہم کسی بہن یا بھائی میں کوئی خوبی دیکھتے ہیں تو کیا ہم اُسے بتاتے ہیں کہ ہم اِس کی کتنی قدر کرتے ہیں؟ پولُس رسول نے رومیوں 16 باب میں 20 سے زیادہ بہنبھائیوں کی خوبیوں کی تعریف کی۔ (روم 16:3-7، 13) مثال کے طور پر اُنہوں نے اِس بات کا ذکر کِیا کہ اندرُنیکس اور یُونیاس اُن سے زیادہ عرصے سے مسیح کی خدمت کر رہے ہیں۔ یوں اُنہوں نے اُن کی ثابتقدمی کی تعریف کی۔ پولُس نے رُوفس کی ماں کا بھی بڑے پیار سے ذکر کِیا، شاید اِس لیے کہ وہ ایک ماں کی طرح اُن کا خیال رکھتی تھیں۔
16. جب بچوں اور نوجوانوں کو شاباش دی جاتی ہے تو اُن پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟
16 دوسروں کی تعریف کرنے سے بہت اچھے نتائج نکل سکتے ہیں۔ ذرا ریکو نامی ایک لڑکے کی مثال پر غور کریں جو فرانس میں رہتا ہے۔ اُس کا باپ یہوواہ کا گواہ نہیں ہے اور یہ نہیں چاہتا تھا کہ ریکو بپتسمہ لے۔ اِس سے ریکو بہت مایوس ہو گیا کیونکہ اُس کا خیال تھا کہ اب اُسے بپتسمہ لینے کے لیے بالغ ہونے تک اِنتظار کرنا پڑے گا۔ وہ اِس لیے بھی بےحوصلہ تھا کیونکہ سکول میں اُس کا مذاق اُڑایا جاتا تھا۔ کلیسیا کے ایک بزرگ، فریڈرک، ریکو کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کر رہے تھے۔ وہ بتاتے ہیں: ”مَیں نے ریکو کو شاباش دی کیونکہ دراصل اُس کی مخالفت اِس لیے کی جا رہی تھی کہ وہ دوسروں کو اپنے ایمان کے بارے میں بتا رہا تھا اور یوں اُس نے بڑی دلیری ظاہر کی۔“ شاباش ملنے کی وجہ سے ریکو کا یہ عزم مضبوط ہو گیا کہ وہ ہر صورت میں خدا کا وفادار رہے گا۔ اِس کے علاوہ اُس نے اپنے باپ کے اَور قریب آنے کے لیے قدم اُٹھائے۔ جب ریکو 12 سال کا تھا تو اُس کا بپتسمہ ہوا۔
17. (الف) ہم کلیسیا میں بھائیوں کی ہمت کیسے بڑھا سکتے ہیں تاکہ وہ اَور بھی ترقی کریں؟ (ب) ایک مشنری نے جوان بھائیوں کی مدد کیسے کی؟ اور اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟
17 جب بھی ہم کسی بھائی یا بہن کی کوششوں کی تعریف کرتے ہیں تو اُس کے دل میں خدا کی خدمت کرنے کی خواہش اَور مضبوط ہو جاتی ہے۔ سِلویa نامی ایک بہن جو کئی سالوں سے فرانس میں بیتایل میں خدمت کر رہی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ بہنیں بھی بھائیوں کی تعریف کر سکتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ مردوں کی نسبت عورتیں اکثر فرق باتوں پر دھیان دیتی ہیں۔ اِس لیے وہ شاید ایسی باتوں کی تعریف کریں جو بھائیوں کی توجہ میں نہیں آتی ہیں۔ سِلوی کہتی ہیں: ”مَیں بھائیوں کی تعریف کرنا اپنا فرض سمجھتی ہوں۔“ (امثا 3:27) ایک بھائی جس کا نام جیروم ہے، فرانسیسی گیانا میں مشنری کے طور پر خدمت کرتے ہیں۔ اُنہوں نے بہت سے جوان بھائیوں کی مدد کی تاکہ وہ مشنری کے طور پر خدمت کرنے کے لائق بنیں۔ وہ کہتے ہیں: ”مَیں نے دیکھا کہ جب مَیں جوان بھائیوں کو اِس بات کے لیے داد دیتا ہوں کہ اُنہوں نے مُنادی کے کام میں کوئی خاص مہارت ظاہر کی ہے یا اِجلاس پر کوئی اچھا جواب دیا ہے تو اُن کا اِعتماد بڑھتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں وہ اکثر اپنی صلاحیتوں میں اَور بھی بہتری لاتے ہیں۔“
18. جوان بھائیوں کے ساتھ کام کرنا کیوں فائدہمند ہے؟
18 کلیسیا میں دوسروں کے ساتھ کام کرنے سے بھی ہم اُن میں ترقی کرنے کی خواہش بڑھا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک جوان بھائی کمپیوٹر کو اِستعمال کرنے میں مہارت رکھتا ہے تو ایک بزرگ اُسے ہماری ویبسائٹ jw.org سے کوئی ایسی معلومات پرنٹ کرنے کے لیے کہہ سکتا ہے جو اُن عمررسیدہ بہنبھائیوں کے لیے فائدہمند ہوں گی جن کے پاس کمپیوٹر نہیں ہے۔ یا پھر اگر آپ کنگڈمہال کی صفائی یا مرمت کرتے ہیں تو کیوں نہ کسی نوجوان بھائی سے درخواست کریں کہ وہ آپ کے ساتھ کام کرے؟ جوان بھائیوں کے ساتھ کام کرنے سے آپ کو اُن کی صلاحیتوں کو دیکھنے اور اُن کی تعریف کرنے کا موقع ملے گا۔—امثا 15:23۔
نئے اور جوان بھائیوں کی مدد کریں
19، 20. ہمیں دوسروں کی مدد کیوں کرنی چاہیے تاکہ وہ روحانی طور پر ترقی کریں؟
19 جب یہوواہ خدا نے یشوع کو بنیاِسرائیل کے پیشوا کے طور پر مقرر کِیا تو اُس نے موسیٰ کو حکم کِیا کہ وہ یشوع کی ’حوصلہافزائی کرکے اُنہیں مضبوط‘ کریں۔ (استثنا 3:28 کو پڑھیں۔) آجکل زیادہ سے زیادہ لوگ ہماری عالمگیر کلیسیا میں شامل ہو رہے ہیں۔ لہٰذا ہمارے درمیان بہت سے ایسے بھائی ہیں جنہوں نے حال ہی میں بپتسمہ لیا ہے یا جو جوان ہیں۔ نہ صرف بزرگ بلکہ تمام تجربہکار مسیحی اُن کی مدد کر سکتے ہیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اِستعمال کریں۔ یوں زیادہ سے زیادہ بھائیوں کو کُلوقتی طور پر خدا کی خدمت کرنے کی ترغیب ملے گی اور وہ ”اَوروں کو بھی سکھانے کے قابل“ ہوں گے۔—2-تیم 2:2۔
20 چاہے ہم ایک بڑی کلیسیا کے رُکن ہوں یا پھر ہم ایک چھوٹے سے گروہ کا حصہ ہوں جو کلیسیا بننے والا ہے، ہم سب کو ایسے بھائیوں کی مدد کرنی چاہیے جو آئندہ خدا کی تنظیم میں ذمےداری نبھانے کے لائق بن سکیں۔ لہٰذا یہوواہ خدا کی طرح ہمیشہ دوسروں کی خوبیوں پر دھیان دینے کی کوشش کریں۔
a فرضی نام اِستعمال کِیا گیا ہے۔