کیا آپ دوسروں کی کمزوریوں کو یہوواہ کی نظر سے دیکھتے ہیں؟
”بدن کے وہ اعضا جو اَوروں سے کمزور معلوم ہوتے ہیں بہت ہی ضروری ہیں۔“—1-کر 12:22۔
1، 2. پولُس رسول ایک کمزور شخص کی حالت کو کیوں سمجھ سکتے تھے؟
کبھیکبھار ہم سب کمزور محسوس کرتے ہیں۔ شاید ہم بخار یا الرجی کی وجہ سے اِتنے کمزور ہو جائیں کہ ہمیں روزمرہ کے کام کرنا بھی مشکل لگے۔ تصور کریں کہ آپ چند دنوں تک نہیں بلکہ کئی مہینوں تک کمزوری محسوس کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کیا آپ اِس بات کی قدر نہیں کریں گے کہ دوسرے لوگ آپ کے لیے فکر ظاہر کریں؟
2 پولُس رسول یہ سمجھتے تھے کہ ایک شخص کمزوری کی حالت میں کیسا محسوس کرتا ہے۔ کئی بار اُنہوں نے کلیسیا کے اندر اور باہر اِس حد تک مشکلات کا سامنا کِیا کہ اُنہیں لگا کہ اب یہ صورتحال اُن کی برداشت سے باہر ہو گئی ہے۔ (2-کر 1:8؛ 7:5) اپنی مشکلات کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا: ”کس کی کمزوری سے مَیں کمزور نہیں ہوتا؟“ (2-کر 11:29) جب اُنہوں نے کلیسیا کو اِنسانی بدن سے تشبیہ دی تو اُنہوں نے کہا کہ ”بدن کے وہ اعضا جو اَوروں سے کمزور معلوم ہوتے ہیں بہت ہی ضروری ہیں۔“ (1-کر 12:22) اُن کی اِس بات کا کیا مطلب تھا؟ ہمیں اُن مسیحیوں کے بارے میں یہوواہ خدا کا نظریہ کیوں اپنانا چاہیے جو کمزور معلوم ہوتے ہیں؟ ایسا کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟
اِنسان کی کمزوریوں کے بارے میں یہوواہ کا نظریہ
3. ہم کس کے اثر میں پڑ کر کلیسیا کے بعض رُکنوں کو کمتر خیال کرنے لگ سکتے ہیں؟
3 اِس دُنیا میں مقابلہبازی بہت عام ہے اور طاقتور لوگوں کا بڑا احترام کِیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ آگے نکلنے کے لیے کمزور لوگوں کے احساسات کو روند ڈالتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اِس قسم کا رویہ غلط ہے۔ پھر بھی ہو سکتا ہے کہ ہم انجانے میں ایسے لوگوں کو کمتر خیال کرنے لگیں جنہیں مسلسل مدد کی ضرورت ہے، چاہے ایسے لوگ کلیسیا میں کیوں نہ ہوں۔ لیکن اِنسان کی کمزوریوں کے بارے میں یہوواہ خدا کا نظریہ اپنانے سے ہم اپنا نظریہ درست کر سکتے ہیں۔
4، 5. (الف) ہم 1-کرنتھیوں 12:21-23 میں دی گئی مثال سے اِنسان کی کمزوریوں کے بارے میں خدا کے نظریے کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ (ب) کمزوروں کی مدد کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟
4 یہ سمجھنے کے لیے کہ یہوواہ خدا اِنسان کی کمزوریوں کو کیسا خیال کرتا ہے، آئیں، ایک مثال پر غور کریں جس کا ذکر پولُس رسول نے 1-کرنتھیوں 12 باب میں کِیا۔ اِس میں اُنہوں نے بتایا کہ جسم کے ہر عضو کا ایک اہم کردار ہے، چاہے وہ نازیبا یا کمزور کیوں نہ معلوم ہو۔ (1-کرنتھیوں 12:12، 18، 21-23 کو پڑھیں۔) اِرتقا کے نظریے کے کچھ حامیوں نے یہ دعویٰ کِیا کہ جسم کے بعض اعضا کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ لیکن تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ایسے اعضا جنہیں کبھی بےفائدہ خیال کِیا جاتا تھا، وہ بھی جسم میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔a مثال کے طور پر بعض لوگ سوچتے تھے کہ پاؤں کی چھوٹی اُنگلی کا ہمارے جسم میں کوئی کردار نہیں لیکن اب پتہ چلا ہے کہ جسم کا توازن برقرار رکھنے کے لیے یہ عضو بہت اہم ہے۔
5 پولُس کی اِس مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ کلیسیا کے تمام رُکن بہت اہم ہیں۔ شیطان تو اِنسانوں کو احساس دِلاتا ہے کہ خدا کی نظر میں اُن کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ (ایو 4:18، 19) لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہوواہ خدا اپنے تمام خادموں کو ”ضروری“ سمجھتا ہے، یہاں تک کہ اُنہیں بھی جو کمزور معلوم ہوتے ہیں۔ اِس لیے ہمیں اُس کردار پر فخر کرنا چاہیے جو ہم مقامی کلیسیا میں اور خدا کے خادموں کی عالمگیر کلیسیا میں ادا کرتے ہیں۔ ذرا ایک مثال پر غور کریں۔ شاید آپ نے کسی عمررسیدہ شخص کو چلنے میں سہارا دیا ہو۔ اِس کے لیے آپ کو شاید اپنی رفتار کم کرنی پڑی ہو۔ لیکن کیا اُس شخص کی مدد کرنے سے آپ کو خوشی نہیں ملی تھی؟ اِس کے علاوہ ہم ضرورتمندوں کی مدد کرنے سے زیادہ صابر، شفیق اور سمجھدار بھی بن جاتے ہیں۔ (افس 4:15، 16) ہمارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ جب ایک کلیسیا میں تمام رُکنوں کی قدر کی جاتی ہے تو وہاں پُرمحبت ماحول برقرار رہتا ہے۔
6. پولُس رسول نے لفظ ”کمزور“ اور ”زورآور“ کو کیسے اِستعمال کِیا؟
6 دلچسپی کی بات ہے کہ زیادہتر وقت جب پولُس نے کرنتھیوں کے نام اپنے خط میں لفظ ”کمزور“ اِستعمال کِیا تو وہ یہ کہہ رہے تھے کہ وہ خود کمزور محسوس کرتے تھے یا دُنیا کے لوگ مسیحیوں کو کمزور خیال کرتے تھے۔ (1-کر 1:26، 27؛ 2:3) جب اُنہوں نے ”زورآوروں“ کے بارے میں بات کی تو وہ یہ تاثر نہیں دینا چاہتے تھے کہ بعض مسیحی دوسروں سے افضل ہیں۔ (روم 15:1) اِس کی بجائے اُن کا مطلب یہ تھا کہ تجربہکار مسیحیوں کو اُن بہنبھائیوں کے ساتھ صبر سے پیش آنا چاہیے جو ایمان میں اِتنے مضبوط نہیں تھے۔
کیا ہمیں اپنا نظریہ بدلنے کی ضرورت ہے؟
7. ہم بعض اوقات ضرورتمندوں کی مدد کرنے سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟
7 جب ہم ’کمزور کا خیال رکھتے ہیں‘ تو ہم نہ صرف یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کرتے ہیں بلکہ ہم اُسے خوش بھی کرتے ہیں۔ (زبور 41:1، نیو اُردو بائبل ورشن؛ افس 5:1) لیکن ہو سکتا ہے کہ ہم کبھیکبھار ضرورتمندوں کو کمتر خیال کرنے لگیں اور اِس وجہ سے اُن کی مدد نہ کریں۔ یا پھر ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ہمیں اُن سے کیا کہنا چاہیے اور اِس لیے ہم اُن سے بات کرنے سے ہچکچائیں۔ سونیاb نامی ایک بہن جن کا شوہر اُنہیں چھوڑ کر چلا گیا، کہتی ہیں: ”جب بہنبھائی آپ سے کنارہ کرتے ہیں یا آپ سے ویسا سلوک نہیں کرتے جیسا آپ اُن سے توقع کرتے ہیں تو آپ کو دُکھ پہنچتا ہے۔ لیکن مشکل گھڑی میں آپ کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو آپ کا ساتھ دیں۔“ بادشاہ داؤد کو بھی اُس وقت بہت دُکھ پہنچا جب مصیبت کے دوران اُن کے ساتھیوں نے اُنہیں تنہا چھوڑ دیا۔—زبور 31:12۔
8. اپنے بہنبھائیوں کے احساسات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ہمیں کیا یاد رکھنا چاہیے؟
8 ہم اپنے بہنبھائیوں کے احساسات کو اُس وقت بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں جب ہم یاد رکھتے ہیں کہ وہ کن مشکلات کی وجہ سے کمزور ہو گئے ہیں۔ شاید وہ کسی سنگین بیماری میں مبتلا ہیں، وہ ڈپریشن کا شکار ہیں یا پھر اُن کے گھر والے اُن کے ہمایمان نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں بھی کبھی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے۔ ملک کنعان پر قبضہ کرنے سے پہلے بنیاِسرائیل کو یاد دِلایا گیا کہ وہ ملک مصر میں غریب اور کمزور تھے اِس لیے اُنہیں اپنے ضرورتمند بھائیوں کی طرف سے ”اپنا دل سخت“ نہیں کرنا تھا۔ یہوواہ خدا اُن سے توقع کرتا تھا کہ وہ محتاجوں کی مدد کریں۔—است 15:7، 11؛ احبا 25:35-38۔
9. جب ہمارے بہنبھائی کسی مشکل سے گزرتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ مثال دے کر وضاحت کریں۔
9 جب ہمارے بہنبھائی کسی مشکل سے گزرتے ہیں تو ہمیں اُن پر نکتہچینی کرنے یا اُن پر شک کرنے کی بجائے اُنہیں پاک کلام سے تسلی دینی چاہیے۔ (ایو 33:6، 7؛ متی 7:1) اِس مثال پر غور کریں: جب کوئی شخص ٹریفک کے حادثے میں زخمی ہو جاتا ہے اور اُسے ہسپتال لایا جاتا ہے تو کیا ڈاکٹر یہ پوچھتا ہے کہ حادثے میں کس کی غلطی ہے؟ نہیں، بلکہ وہ فوراً اُس کے زخموں کی مرہمپٹی کرتا ہے۔ اِسی طرح اگر ہمارا کوئی بھائی یا بہن کسی مسئلے کی وجہ سے کمزور پڑ گیا ہے تو ہمیں اُس کی مدد کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔—1-تھسلنیکیوں 5:14کو پڑھیں۔
10. کچھ ایسے بہنبھائی جو کمزور معلوم ہوتے ہیں، وہ ”ایمان میں دولتمند“ کیسے ثابت ہوتے ہیں؟
10 اگر ہم اپنے بہنبھائیوں کے حالات پر غور کرتے ہیں تو شاید ہم یہ سمجھ جائیں کہ وہ اِتنے کمزور نہیں ہیں جتنے وہ لگتے ہیں۔ ایسی بہنوں کا سوچیں جو کئی سالوں سے اپنے گھر والوں کی مخالفت کو برداشت کر رہی ہیں۔ کچھ شاید بہت کمزور اور ضعیف لگتی ہوں لیکن کیا وہ ایمان اور دلیری کی عمدہ مثالیں نہیں ہیں؟ جب آپ ایک ماں کو دیکھتے ہیں جو اکیلی اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہے اور باقاعدگی سے اُنہیں اِجلاسوں میں لاتی ہے تو کیا آپ اُس کے ایمان اور وفاداری سے متاثر نہیں ہوتے؟ اور ذرا ایسے نوجوانوں کا سوچیں جو سکول کے خراب ماحول کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہتے ہیں۔ دوسروں کے حالات پر غور کرنے سے ہم سمجھ جائیں گے کہ جو بہنبھائی کمزور معلوم ہوتے ہیں، وہ دراصل ”ایمان میں دولتمند“ ہیں۔—یعقو 2:5۔
یہوواہ خدا کا نظریہ اپنائیں
11، 12. (الف) ہم اِنسان کی کمزوریوں کے بارے میں خدا کا نظریہ کیسے اپنا سکتے ہیں؟ (ب) ہم ہارون کی غلطیوں پر یہوواہ خدا کے ردِعمل سے کِیا سیکھتے ہیں؟
11 ہم اِنسان کی کمزوریوں کے بارے میں خدا کا نظریہ کیسے اپنا سکتے ہیں؟ اِس سلسلے میں غور کریں کہ خدا نے اپنے بعض خادموں کی کمزوریوں پر کیسا ردِعمل ظاہر کِیا۔ (زبور 130:3 کو پڑھیں۔) مثال کے طور پر اگر آپ یہ دیکھتے کہ ہارون نے سونے کا بچھڑا بنایا اور پھر طرحطرح کے بہانے بنانے لگے تو آپ کو کیسا محسوس ہوتا؟ (خر 32:21-24) اور اگر آپ یہ دیکھتے کہ ہارون اپنی بہن مریم کے اُکسانے پر موسیٰ کی نکتہچینی کرنے لگے کیونکہ موسیٰ نے ایک غیرقوم عورت سے شادی کی تھی تو آپ ہارون کے بارے میں کیسا نظریہ قائم کرتے؟ (گن 12:1، 2) اگر آپ دیکھتے کہ خدا نے ایک معجزے کے ذریعے مریبہ میں پانی فراہم کِیا لیکن ہارون اور موسیٰ نے اُس کی بڑائی نہیں کی تو آپ کا ردِعمل کیا ہوتا؟—گن 20:10-13۔
12 اِن تمام صورتوں میں یہوواہ خدا ہارون کو فوراً ہی سزا دے سکتا تھا۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ ہارون کوئی بُرے آدمی نہیں ہیں اور ساری کی ساری غلطی اُن کی نہیں تھی۔ لگتا ہے کہ اُنہوں نے دوسروں کے دباؤ میں آ کر یا حالات کی وجہ سے غلط قدم اُٹھایا تھا۔ لیکن جب اُنہیں اپنی غلطی کے بارے میں بتایا گیا تو اُنہوں نے اِسے فوراً تسلیم کِیا اور خدا کے فیصلے کو قبول کِیا۔ (خر 32:26؛ گن 12:11؛ 20:23-27) یہوواہ خدا نے اُن کے ایمان اور خاکساری پر زیادہ دھیان دیا۔ اِس لیے ہارون اور اُن کا گھرانہ صدیوں بعد بھی یہوواہ سے ڈرنے والوں کے طور پر جانا جاتا تھا۔—زبور 115:10-12؛ 135:19، 20۔
13. ہم دوسروں کی کمزوریوں کے بارے میں اپنے نظریے کا جائزہ کیسے لے سکتے ہیں؟
13 دوسروں کے بارے میں خدا کا نظریہ اپنانے کے لیے ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم اُن کو کیسا خیال کرتے ہیں جو کمزور معلوم ہوتے ہیں۔ (1-سمو 16:7) مثال کے طور پر جب ایک نوجوان تفریح کے سلسلے میں سمجھداری سے کام نہیں لیتا یا پھر اپنے کچھ کاموں میں لاپرواہی برتتا ہے تو آپ کا ردِعمل کیا ہوتا ہے؟ اُس پر تنقید کرنے کی بجائے کیوں نہ اُس کی مدد کریں تاکہ وہ زیادہ پُختہ مسیحی بن جائے۔ اگر ہم ایسے شخص کی مدد کرنے کے لیے قدم اُٹھاتے ہیں تو ہم اُسے بہتر طور پر سمجھ جاتے ہیں اور اُس کے لیے ہماری محبت بھی بڑھ جاتی ہے۔
14، 15. (الف) جب ایلیاہ نبی وقتی طور پر ہمت ہار بیٹھے تو یہوواہ خدا نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟ (ب) ہم اِس واقعے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
14 دوسروں کی کمزوریوں کے بارے میں صحیح نظریہ اپنانے کے لیے ہم اَور کیا کر سکتے ہیں؟ ہم اِس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ جب یہوواہ کے کچھ بندے بےحوصلہ ہو گئے تھے تو اُس نے کیسا ردِعمل دِکھایا۔ اور پھر ہم موازنہ کر سکتے ہیں کہ ہم ایسی صورت میں کیسا ردِعمل ظاہر کرتے۔ اِس سلسلے میں ذرا ایلیاہ نبی کی مثال پر غور کریں۔ حالانکہ اُنہوں نے ایک مرتبہ بعل کے 450 پجاریوں کا مقابلہ کِیا لیکن جب ملکہ اِیزِبل اُنہیں مار ڈالنا چاہتی تھی تو ایلیاہ خوفزدہ ہو کر بھاگ گئے۔ وہ تقریباً 150 کلومیٹر (95 میل) چل کر بیرسبع تک آئے اور پھر ریگستان میں چھپ گئے۔ تپتی دھوپ میں چلتے چلتے وہ اِتنے تھک گئے کہ وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور ”اپنے لئے موت مانگی۔“—1-سلا 18:19؛ 19:1-4۔
15 جب یہوواہ خدا نے اپنے نبی کو اِتنی افسردہ حالت میں دیکھا تو اُس نے کیسا محسوس کِیا؟ کیا وہ ایلیاہ سے ناراض ہوا کیونکہ وہ وقتی طور پر ہمت ہار بیٹھے تھے اور بےحوصلہ ہو گئے تھے؟ بالکل نہیں۔ یہوواہ خدا نے اُن کی کمزوری کا لحاظ رکھا اور ایک فرشتے کو اُن کے پاس بھیجا۔ فرشتے نے دو بار ایلیاہ کو کھانے کے لیے کہا تاکہ اُنہیں آگے سفر کرنے کے لیے توانائی ملے۔ (1-سلاطین 19:5-8 کو پڑھیں۔) غور کریں کہ خدا نے ایلیاہ کو نئی ہدایات دینے سے پہلے اُن کی بات پر دھیان دیا اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھا۔
16، 17. ہم کس طرح دوسروں کے لیے ویسی ہی فکر ظاہر کر سکتے ہیں جیسی یہوواہ خدا نے ایلیاہ کے لیے ظاہر کی تھی؟
16 ہم اپنے شفیق آسمانی باپ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ کسی کو کمزور حالت میں دیکھ کر ہمیں فوراً ہی اُسے نصیحتیں نہیں دینی چاہئیں۔ (امثا 18:13) اگر کوئی شخص اِتنا افسردہ ہو گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ”اَوروں کی نسبت ذلیل“ جانتا ہے تو بہتر یہ ہے کہ ہم پہلے اُسے اپنی محبت کا یقین دِلائیں اور اُس کی بات کو سنیں۔ (1-کر 12:23) یوں ہمیں پتہ چلے گا کہ اصل میں اُس کا مسئلہ کیا ہے اور ہم اُس کی مدد کیسے کر سکتے ہیں۔
17 دوبارہ سے سونیا کی مثال پر غور کریں جن کا پہلے ذکر ہوا ہے۔ جب اُن کا شوہر اُنہیں چھوڑ کر چلا گیا تو وہ اور اُن کی دو بیٹیاں ایک دم سے اکیلی پڑ گئیں۔ اِس صورت میں کلیسیا کے کچھ بہنبھائیوں نے کیا کِیا؟ سونیا بتاتی ہیں: ”جب ہم نے اُنہیں فون پر ساری صورتحال بتائی تو وہ 45 منٹ کے اندر اندر ہمارے گھر پہنچ گئے۔ ہم سے مل کر وہ رو پڑے۔ دو تین دن تک اُنہوں نے ہمیں کسی بھی وقت اکیلے نہیں چھوڑا۔ چونکہ ہم ٹھیک طرح سے کھانا نہیں کھا رہے تھے اور بہت جذباتی تھے اِس لیے وہ ہمیں کچھ دن کے لیے اپنے گھر لے گئے۔“ اِس واقعے سے شاید آپ کو یعقوب کی یہ بات یاد آئے: ”اگر کوئی بھائی یا بہن ننگی ہو اور اُن کو روزانہ روٹی کی کمی ہو اور تُم میں سے کوئی اُن سے کہے کہ سلامتی کے ساتھ جاؤ۔ گرم اور سیر رہو مگر جو چیزیں تن کے لئے درکار ہیں وہ اُنہیں نہ دے تو کیا فائدہ؟ اِسی طرح ایمان بھی اگر اُس کے ساتھ اعمال نہ ہوں تو اپنی ذات سے مُردہ ہے۔“ (یعقو 2:15-17) بہنبھائیوں کی مدد سے سونیا اور اُن کی بیٹیوں کو اِتنی طاقت ملی کہ اِس المیے کے چھ مہینے بعد وہ مددگار پہلکار کے طور پر خدمت کر پائیں۔—2-کر 12:10۔
کمزوروں کو سنبھالنے کے فائدے
18، 19. (الف) ہم اُن بہنبھائیوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں جو وقتی طور پر کمزور پڑ گئے ہیں؟ (ب) جب ہم کمزوروں کو سنبھالتے ہیں تو کس کس کو فائدہ ہوتا ہے؟
18 آپ نے شاید خود بھی اِس بات کا تجربہ کِیا ہو کہ کسی سنگین بیماری کے بعد پوری طرح سے صحتیاب ہونے میں وقت لگتا ہے۔ اِسی طرح جو مسیحی کسی مسئلے یا مشکل صورتحال کی وجہ سے کمزور پڑ گیا ہے، اُسے روحانی طور پر مضبوط ہونے میں بھی وقت لگ سکتا ہے۔ سچ ہے کہ اُس بھائی یا بہن کو اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے خود کچھ کام کرنے چاہئیں، مثلاً بائبل کا مطالعہ، دُعا وغیرہ۔ لیکن اِس عرصے کے دوران ہمیں اُس کے ساتھ صبر اور محبت سے پیش آنا چاہیے اور اُسے اِس بات کا یقین دِلانا چاہیے کہ ہم اُس کی بہت قدر کرتے ہیں۔—2-کر 8:8۔
19 جب ہم دوسروں کی مدد کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ”دینا لینے سے مبارک ہے“ اور یوں ہماری خوشی دوبالا ہو جاتی ہے۔ اِس کے علاوہ ہم میں محبت اور صبر کی خوبی اَور نکھر آتی ہے۔ اِس کا ایک اَور فائدے یہ ہے کہ کلیسیا میں محبت اور اِتحاد بڑھتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ہم یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کر رہے ہوتے ہیں جو اپنے ہر بندے کو بیشقیمت خیال کرتا ہے۔ بِلاشُبہ ہماری کوشش یہ ہے کہ ہم کلیسیا کے ہر فرد کو یہوواہ کی نظر سے دیکھیں اور اُس کی طرح ’کمزوروں کو سنبھالیں۔‘—اعما 20:35۔
a چارلس ڈاروِن نے اپنی کتاب اِنسان کا نزول میں کچھ ایسے اعضا کا ذکر کِیا جنہیں اُنہوں نے ”فضول“ قرار دیا۔ اُن کے ایک حامی نے دعویٰ کِیا کہ اِنسانی جسم میں درجنوں ”فالتو اعضا“ ہیں جیسے کہ اپنڈیکس۔
b فرضی نام اِستعمال کِیا گیا ہے۔