فہم پر اپنا دل لگائیں
”خداوند حکمت بخشتا ہے۔ علموفہم اُسی کے مُنہ سے نکلتے ہیں۔“—امثال ۲:۶۔
۱. ہم اپنا دل فہم پر کیسے لگا سکتے ہیں؟
یہوواہ ہمارا عظیم مُعلم ہے۔ (یسعیاہ ۳۰:۲۰، ۲۱) لیکن ہمیں اُس کے کلام میں منکشف ”خدا کی معرفت“ سے مستفید ہونے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ جزوی طور پر، ہمیں ’فہم پر اپنا دل لگانا‘ چاہئے—اس خوبی کو حاصل کرنے اور ظاہر کرنے کی دلی خواہش رکھنی چاہئے۔ اس مقصد کے لئے ہمیں خدا پر آس لگانی چاہئے کیونکہ دانشمند آدمی نے کہا: ”خداوند حکمت بخشتا ہے۔ علموفہم اُسی کے مُنہ سے نکلتے ہیں۔“ (امثال ۲:۱-۶) علم، حکمت اور فہم کیا ہیں؟
۲. (ا) علم کیا ہے؟ (ب) آپ حکمت کی تعریف کیسے کرینگے؟ (پ) فہم کیا ہے؟
۲ علم تجربے، مشاہدے یا مطالعے سے حاصلشُدہ حقائق سے واقفیت کا نام ہے۔ حکمت علم کو بروئےکار لانے کی لیاقت کو کہتے ہیں۔ (متی ۱۱:۱۹) جب دو عورتیں ایک ہی بچے کی دعویدار تھیں تو سلیمان نے حکمت کا مظاہرہ کِیا اور جھگڑے کو نپٹانے کے لئے اپنی اولاد کی خاطر ایک ماں کی پُر جوش محبت کی بابت اپنے علم کو استعمال کِیا۔ (۱-سلاطین ۳:۱۶-۲۸) فہم سے مُراد ”بصیرت کی تیزی“ ہے۔ یہ ”ذہنی قوت یا صلاحیت ہے جس سے ذہن چیزوں میں امتیاز کرتا ہے۔“ (ویبسٹر یونیورسل ڈکشنری) اگر ہم فہم پر اپنا دل لگاتے ہیں تو یہوواہ اپنے بیٹے کے وسیلے سے ہمیں یہ عطا فرمائیگا۔ (۲-تیمتھیس ۲:۱، ۷) لیکن فہم زندگی کے مختلف پہلوؤں پر کیسے اثرانداز ہو سکتا ہے؟
فہم اور ہماری گفتگو
۳. آپ امثال ۱۱:۱۲، ۱۳ کی وضاحت کیسے کرینگے اور ”بےعقل“ ہونے سے کیا مُراد ہے؟
۳ فہم یہ سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے کہ ”چپ رہنے کا ایک وقت ہے اور بولنے کا ایک وقت ہے۔“ (واعظ ۳:۷) یہ خوبی ہماری گفتگو کے سلسلے میں بھی ہمیں محتاط بناتی ہے۔ امثال ۱۱:۱۲، ۱۳ بیان کرتی ہیں: ”اپنے پڑوسی کی تحقیر کرنے والا بےعقل ہے لیکن صاحبِفہم خاموش رہتا ہے۔ جو کوئی لتراپن کرتا پھرتا ہے راز فاش کرتا ہے لیکن جس میں وفا کی روح ہے وہ رازدار ہے۔“ جیہاں، جو مرد یا عورت کسی دوسرے شخص کی تحقیر کرتا ہے وہ ”بےعقل“ ہے۔ لغتنویس دلہم جیزینیاَس کے مطابق ایسا فرد ”سمجھ سے عاری“ ہوتا ہے۔ اُس مرد یا عورت میں بصیرت کی کمی ہوتی ہے اور اصطلاح ”عقل“ کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ باطنی شخص کی مثبت خوبیاں ناقص ہو گئی ہیں۔ اگر کوئی دعویدار مسیحی اپنی فضولگوئی کو الزامتراشی یا بیہودہگوئی کی حد تک جاری رکھتا یا رکھتی ہے تو کلیسیا سے اس ناگوار صورتحال کو ختم کرنے کے لئے مُتعیّنہ بزرگوں کو کارروائی کرنی چاہئے۔—احبار ۱۹:۱۶؛ زبور ۱۰۱:۵؛ ۱-کرنتھیوں ۵:۱۱۔
۴. خفیہ معلومات کے سلسلے میں فہیم اور ایماندار مسیحی کیا کرتے ہیں؟
۴ ”بےعقل“ لوگوں کے برعکس ”فہم“ رکھنے والے اشخاص اگر موزوں ہو تو خاموش رہتے ہیں۔ وہ رازفاش نہیں کرتے۔ (امثال ۲۰:۱۹) یہ جانتے ہوئے کہ غیرمحتاط گفتگو تکلیف کا باعث بن سکتی ہے، فہیم اشخاص ”وفا کی روح“ رکھتے ہیں۔ وہ ساتھی ایمانداروں کے وفادار ہوتے ہیں اور راز کی باتوں کو افشا نہیں کرتے جو شاید اُنہیں خطرے میں ڈال دینگی۔ اگر فہیم مسیحیوں کو کلیسیا کے متعلق کسی قسم کی خفیہ معلومات کا پتہ چل جاتا ہے تو وہ اُنہیں اپنے ہی دل میں چھپائے رکھتے ہیں جبتککہ یہوواہ کی تنظیم اپنی اشاعت کے ذریعے اسے ظاہر کرنے کو مناسب خیال نہیں کرتی۔
فہم اور ہمارا چالچلن
۵. ’احمق اشخاص‘ بدچلنی کو کیسا خیال کرتے ہیں اور کیوں؟
۵ بائبل امثال فہم کو استعمال کرنے اور نامناسب چالچلن سے گریز کرنے کے لئے ہماری مدد کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، امثال ۱۰:۲۳ بیان کرتی ہے: ”احمق کے لئے شرارت کھیل ہے پر حکمت عقلمند کے لئے ہے۔“ جن لوگوں کے نزدیک بدچلنی ایک ”کھیل“ ہوتی ہے وہ اپنی روش کے ٹیڑھے ہونے کے سلسلے میں اندھے ہوتے ہیں اور خدا کو ایسی ہستی تسلیم ہی نہیں کرتے جس کے حضور سب کو جواب دینا پڑے گا۔ (رومیوں ۱۴:۱۲) ایسے ’احمق اشخاص‘ اپنے استدلال میں یہ فرض کر لینے کی حد تک گمراہ ہو جاتے ہیں کہ خدا اُن کی خطاکاری کو نہیں دیکھتا۔ درحقیقت وہ اپنے افعال کے ذریعے یہ کہتے ہیں کہ ”کوئی خدا نہیں۔“ (زبور ۱۴:۱-۳؛ یسعیاہ ۲۹:۱۵، ۱۶) خدائی اصولوں سے راہنمائی نہ پانے کی وجہ سے اُن میں فہم کی کمی ہوتی ہے اور صحیح طرح سے معاملات میں تمیز نہیں کر سکتے۔—امثال ۲۸:۵۔
۶. بدچلنی احمقانہ بات کیوں ہے اور اگر ہمارے پاس فہم ہے تو ہم اسے کیسا خیال کریں گے؟
۶ ”صاحبِفہم“ جانتا ہے کہ بدچلنی کوئی ”کھیل،“ تماشہ نہیں ہے۔ اُسے معلوم ہے کہ یہ خدا کو ناراض کرتی ہے اور اُس کے ساتھ ہمارے رشتے کو تباہ کر سکتی ہے۔ ایسا چالچلن احمقانہ ہے کیونکہ یہ لوگوں سے اُنکی عزتِنفس چھین لیتا ہے، شادیوں کو برباد کر دیتا ہے، جسم اور دماغ دونوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور روحانیت کے خسارے کا سبب بنتا ہے۔ اسلئے آئیے فہم پر اپنا دل لگائیں اور بدچلنی یا کسی بھی قسم کی بداخلاقی سے بچیں۔—امثال ۵:۱-۲۳۔
فہم اور ہمارا مزاج
۷. غصے کے بعض جسمانی اثرات کیا ہیں؟
۷ فہم پر دل لگانے سے اپنے مزاج کو قابو میں رکھنے کے لئے بھی ہماری مدد ہوتی ہے۔ ”جو قہر کرنے میں دھیما ہے بڑا عقلمند ہے،“ امثال ۱۴:۲۹ کہتی ہے، ”پر وہ جو جھکی ہے حماقت کو بڑھاتا ہے۔“ ایک فہیم شخص بےقابو غصے سے بچنے کی کوشش کیوں کرتا ہے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس کا ہم پر جسمانی لحاظ سے بُرا اثر پڑتا ہے۔ اس سے فشارِخون بلند ہو سکتا ہے اور تنفّسی امراض لاحق ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر غصے اور طیش کا ایسے جذبات کے طور پر حوالہ دیتے ہیں جو دمہ، جِلدی امراض، ہاضمے کے مسائل اور السر جیسی بیماریوں کو بگاڑتے یا پیدا کرتے ہیں۔
۸. بےصبری کس چیز کا باعث بن سکتی ہے لیکن اس سلسلے میں فہم ہماری مدد کیسے کر سکتا ہے؟
۸ ہمیں محض اپنی صحت کو نقصان پہنچانے سے بچنے کی غرض سے ہی فہم کو استعمال کرنا اور ”قہر کرنے میں دھیما“ نہیں ہونا چاہئے۔ بےصبری ایسے احمقانہ قدم اُٹھانے پر منتج ہو سکتی ہے جن پر ہمیں پشیمان ہونا پڑے گا۔ فہم ہمیں یہ سوچنے کی تحریک دیتا ہے کہ بےلگام گفتگو یا جلدبازی کے کاموں کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے اور یوں ہمیں کوئی غیردانشمندانہ کام کرکے ”حماقت بڑھانے“ سے بچاتا ہے۔ خاص طور پر فہم یہ سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے کہ طیش ہمارے سوچنے کے عوامل کو خراب کر سکتا ہے تاکہ ہم پُختہ بصیرت کو کام میں نہ لا سکیں۔ اس سے ہماری الہٰی مرضی پوری کرنے کی لیاقت اور خدا کے راست اصولوں کے مطابق زندگی کو نقصان پہنچے گا۔ جیہاں، بےقابو غصے کی زد میں آ جانا روحانی طور پر مُضر ہے۔ درحقیقت، ”غصہ“ ”جسم کے“ مکروہ ”کاموں“ کی فہرست میں شمار ہوتا ہے جو ہمیں خدا کی بادشاہت کی میراث پانے سے روکیں گے۔ (گلتیوں ۵:۱۹-۲۱) لہٰذا، فہیم مسیحیوں کے طور پر، آئیے ”سننے میں تیز اور بولنے میں دھیرا اور قہر میں دھیما“ بنیں۔—یعقوب ۱:۱۹۔
۹. اختلافات دُور کرنے کے لئے فہم اور برادرانہ اُلفت ہماری مدد کیسے کر سکتے ہیں؟
۹ اگر ہم غصے میں آ جاتے ہیں تو فہم اشارہ دے سکتا ہے کہ ہمیں جھگڑے سے بچنے کے لئے خاموش ہی رہنا چاہئے۔ امثال ۱۷:۲۷ بیان کرتی ہے: ”صاحبِعلم کمگو ہے اور صاحبِفہم متین ہے۔“ فہم اور برادرانہ اُلفت بِنا سوچےسمجھے کوئی صدمہخیز بات کہہ دینے کی دُھن پر قابو پانے کی ضرورت کو پہچاننے میں ہماری مدد کرینگے۔ اگر غصہ پہلے ہی اپنا کام دکھا چکا ہے تو محبت اور فروتنی ہمیں معذرت اور تلافی کرنے کی تحریک دینگے۔ لیکن فرض کریں کہ کسی نے ہمیں صدمہ پہنچایا ہے۔ توپھر آئیے نرممزاجی اور بُردباری سے اور صلح کو قائم رکھنے کے اوّلین مقصد کے ساتھ تنہائی میں اُس سے باتچیت کریں۔—متی ۵:۲۳، ۲۴؛ ۱۸:۱۵-۱۷۔
فہم اور ہمارا خاندان
۱۰. حکمت اور فہم خاندانی زندگی میں کیا کردار ادا کرتے ہیں؟
۱۰ خاندان کے ارکان کو حکمت اور فہم ظاہر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ خوبیاں کسی بھی گھرانے کو مضبوط بنائینگی۔ امثال ۲۴:۳، ۴ بیان کرتی ہیں: ”حکمت سے گھر تعمیر کِیا جاتا ہے اور فہم سے اُسکو قیام ہوتا ہے۔ اور علم کے وسیلہ سے کوٹھریاں نفیسولطیف مال سے معمور کی جاتی ہیں۔“ حکمت اور فہم کامیاب خاندانی زندگی کے لئے عمدہ تعمیری بلاکوں کی مانند ہیں۔ فہم بچوں کے احساسات اور تفکرات کو بھانپ لینے میں مسیحی والدین کی مدد کرتا ہے۔ ایک فہیم شخص رابطہ قائم رکھنے، بات کو غور سے سننے اور اپنے بیاہتا ساتھی کے احساسات اور خیالات کو سمجھنے کے قابل ہوتا ہے۔—امثال ۲۰:۵
۱۱. ایک فہیم بیاہتا عورت کیسے ’اپنے گھر کو مضبوط بنا‘ سکتی ہے؟
۱۱ حکمت اور فہم مسلمہ طور پر خوشحال خاندانی زندگی کے لئے نہایت اہم ہیں۔ مثلاً، امثال ۱۴:۱ کہتی ہے: ”دانا عورت اپنا گھر بناتی ہے پر احمق اُسے اپنے ہی ہاتھوں سے برباد کرتی ہے۔“ اپنے شوہر کی مناسب اطاعت کرنے والی ایک دانشمند اور فہیم بیاہتا عورت گھرانے کی بہتری کے لئے جانفشانی کریگی اور یوں اپنے خاندان کو مضبوط بنانے کے لئے مدد کریگی۔ ایک چیز جو ’اُس کے گھر کو مضبوط‘ بنائیگی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے شوہر کی بابت اچھی اچھی باتیں کرتی ہے اور یوں اُس کے لئے دوسروں کے احترام کو بڑھاتی ہے۔ اور ایک لائق، فہیم بیوی جو یہوواہ کا مؤدبانہ خوف مانتی ہے اپنے لئے بھی عزت کماتی ہے۔—امثال ۱۲:۴؛ ۳۱:۲۸، ۳۰۔
فہم اور ہماری زندگی کی روش
۱۲. ”بےعقل“ لوگ بیوقوفی کو کیسا خیال کرتے ہیں اور کیوں؟
۱۲ فہم اپنے تمام معاملات میں مناسب روش اختیار کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ اسے امثال ۱۵:۲۱ میں ظاہر کِیا گیا ہے جو بیان کرتی ہے: ”بےعقل کے لئے حماقت شادمانی کا باعث ہے پر صاحبِفہم اپنی روش کو درست کرتا ہے۔“ ہمیں اس مثل کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟ بیوقوفی کی روش یا حماقت ناسمجھ مردوں، عورتوں اور نوجوان لوگوں کے لئے خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ وہ ”بےعقل“ ہیں، اُن میں اچھے محرک کی کمی ہوتی ہے اور اسقدر غیردانشمند ہوتے ہیں کہ اپنی بیوقوفی پر بھی خوش ہوتے ہیں۔
۱۳. ہنسیقہقہے اور تفریحِطبع کی بابت سلیمان نے کیا جان لیا؟
۱۳ اسرائیل کے بادشاہ سلیمان نے سیکھ لیا کہ تفریحِطبع ہی زندگی میں سب کچھ نہیں۔ اُس نے تسلیم کِیا: ”مَیں نے اپنے دل سے کہا آ مَیں تجھکو خوشی میں آزماؤنگا۔ سو عشرت کر لے۔ لو یہ بھی بطلان ہے۔ مَیں نے ہنسی کو دیوانہ کہا اور شادمانی کے بارے میں کہا اِس سے کیا حاصل؟“ (واعظ ۲:۱، ۲) صاحبِفہم شخص کے طور پر، سلیمان نے دیکھا کہ محض خوشیوخرمی اور ہنسیقہقہے اطمینانبخش نہیں ہوتے کیونکہ ان سے حقیقی اور دائمی شادمانی حاصل نہیں ہوتی۔ ہنسیقہقہے شاید عارضی طور پر اپنے مسائل کو بھول جانے میں ہماری مدد کریں لیکن تھوڑی ہی دیر بعد شاید وہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ اُبھرنے لگیں۔ سلیمان بجا طور پر ہنسیقہقہے کو ”دیوانہ“ کہہ سکتا تھا۔ کیوں؟ اسلئے کہ بغیر سوچےسمجھے ہنستے رہنا پُختہ بصیرت کو ماند کر دیتا ہے۔ یہ ہمارے لئے نہایت سنجیدہ معاملات کو معمولی خیال کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ درباری مسخرے کی باتوں اور حرکات سے حاصل ہونے والی خوشی کو کوئی قابلِقدر اثر چھوڑنے والی چیز خیال نہیں کِیا جا سکتا۔ ہنسیقہقہے اور خوشیوخرمی کے سلسلے میں سلیمان کے تجربے کی اہمیت پر غور کرنے سے ہماری مدد ہوتی ہے کہ ”خدا کی نسبت عیشوعشرت کے دوست“ بننے سے گریز کریں۔—۲-تیمتھیس ۳:۱، ۴۔
۱۴. کیسے صاحبِفہم ”روش درست رکھتا“ ہے؟
۱۴ صاحبِفہم اپنی ”روش“ درست رکھتا ہے، اِس کا کیا مطلب ہے؟ روحانی فہم اور خدائی اصولوں کا اطلاق لوگوں کو سیدھی، راست روش کی طرف مائل کرتا ہے۔ بائینگٹن کا ترجمہ واضح طور پر بیان کرتا ہے: ”نادان آدمی کے لئے بیوقوفی باعثِمسرت ہے لیکن ذیشعور آدمی سیدھا چلے گا۔“ ”صاحبِفہم“ اپنے قدموں کی راہوں کو سیدھا بناتا ہے اور زندگی میں خدا کے کلام کا اطلاق کرنے کی وجہ سے صحیح اور غلط کے درمیان امتیاز کرنے کے قابل ہوتا ہے۔—عبرانیوں ۵:۱۴؛ ۱۲:۱۲، ۱۳۔
فہم کے لئے ہمیشہ یہوواہ پر آس لگائیں
۱۵. ہم امثال ۲:۶-۹ سے کیا سیکھتے ہیں؟
۱۵ زندگی میں راست روش اختیار کرنے کے لئے، ہم سب کو اپنی ناکاملیت کو تسلیم کرنے اور روحانی فہم کے لئے یہوواہ پر آس لگانے کی ضرورت ہے۔ امثال ۲:۶-۹ کہتی ہیں: ”خداوند حکمت بخشتا ہے۔ علموفہم اُسی کے مُنہ سے نکلتے ہیں۔ وہ راستبازوں کے لئے مدد تیار رکھتا ہے اور راسترَو کے لئے سپر ہے۔ تاکہ وہ عدل کی راہوں کی نگہبانی کرے اور اپنے مُقدسوں کی راہ کو محفوظ رکھے۔ تب تُو صداقت اور عدل اور راستی کو بلکہ ہر ایک اچھی راہ کو سمجھے گا۔“—مقابلہ کریں یعقوب ۴:۶۔
۱۶. کوئی حکمت، فہم یا مشورت یہوواہ کے مقابل کیوں نہیں ٹھہر سکتی؟
۱۶ یہوواہ پر اپنے اعتماد کو تسلیم کرتے ہوئے، آئیے اُس کے کلام کی گہری تحقیق کرنے سے فروتنی کے ساتھ اُس کی مرضی جاننے کی کوشش کریں۔ وہ مکمل مفہوم میں حکمت کا مالک ہے اور اُس کی مشورت ہمیشہ مفید ہوتی ہے۔ (یسعیاہ ۴۰:۱۳؛ رومیوں ۱۱:۳۴) دراصل، اُس کے خلاف کوئی بھی پندونصیحت بیکار ہے۔ امثال ۲۱:۳۰ بیان کرتی ہے: ”کوئی حکمت کوئی فہم اور کوئی مشورت نہیں جو خداوند کے مقابل ٹھہر سکے۔“ (مقابلہ کریں امثال ۱۹:۲۱۔) صرف روحانی فہم ہی زندگی میں مناسب روش کی جستجو کرنے کے لئے ہماری مدد کریگا جو ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کی طرف سے فراہمکردہ مطبوعات کی مدد کے ساتھ خدا کے کلام کے مطالعے سے فروغ پاتا ہے۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) اسلئے آئیے اپنا طرزِزندگی یہوواہ کی مشورت کے مطابق ڈھالیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ دوسری کوئی بھی مشورت خواہ کتنی ہی معقول کیوں نہ دکھائی دے اُس کے کلام کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی۔
۱۷. اگر غلط مشورت دی جاتی ہے تو کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟
۱۷ فہیم مسیحی جو مشورت پیش کرتے ہیں اس بات کو جانتے ہیں کہ اسے پختگی سے خدا کے کلام پر مبنی ہونا چاہئے اور یہ کہ کسی بھی سوال کا جواب دینے سے قبل بائبل مطالعہ اور غوروخوض لازمی ہیں۔ (امثال ۱۵:۲۸) اگر سنجیدہ معاملات کی بابت سوالات کا غلط جواب دیا جاتا ہے تو بہت زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔ لہٰذا، مسیحی بزرگوں کو روحانی فہم درکار ہے اور اُنہیں ساتھی ایمانداروں کی روحانی طور پر مدد کرنے کی کوشش کرتے وقت یہوواہ کی ہدایت کے لئے دُعا کرنی چاہئے۔
روحانی فہم سے معمور ہوں
۱۸. اگر کلیسیا میں کوئی مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے تو فہم ہمارے روحانی توازن کو برقرار رکھنے میں کیسے مدد کرتا ہے؟
۱۸ یہوواہ کو خوش کرنے کے لئے ہمیں ”سب باتوں کی سمجھ“ کی ضرورت ہے۔ (۲-تیمتھیس ۲:۷) شوق سے بائبل کا مطالعہ کرنا اور خدا کی روح اور تنظیم کی راہنمائی کے مطابق عمل کرنا اس بات کو سمجھنے میں ہماری مدد کریگا کہ جب ہمیں غلط روش اختیار کرنے پر مجبور کرنے والی حالتوں کا سامنا ہو تو اُس وقت کیا کریں۔ مثال کے طور پر، فرض کریں کہ کلیسیا میں کوئی معاملہ ہماری سوچ کے مطابق نہیں نپٹایا گیا۔ روحانی فہم یہ دیکھنے میں ہماری مدد کریگا کہ یہ یہوواہ کے لوگوں کی رفاقت کو ترک کر دینے اور خدا کی خدمت کو چھوڑ دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ خدا کی خدمت کرنے کے شرف کی بابت، اُس روحانی آزادی کی بابت جس سے ہم محظوظ ہوتے ہیں اور اُس خوشی کی بابت سوچیں جو ہم بادشاہتی مُنادوں کے طور پر اپنی خدمت سے حاصل کر سکتے ہیں۔ روحانی فہم ہمیں صحیح نقطۂنظر اپنانے اور یہ سمجھنے کے قابل بناتا ہے کہ ہم خدا کے لئے مخصوص ہیں اور دوسرے خواہ کچھ بھی کریں ہمیں اُس کے ساتھ اپنے رشتے کو عزیز رکھنا چاہئے۔ اگر کسی مسئلے کو سلجھانے کے لئے تھیوکریٹک طور پر ہم کچھ نہیں کر سکتے توپھر صورتحال کا حل نکالنے کے لئے ہمیں صبر کے ساتھ یہوواہ کا انتظار کرنے کی ضرورت ہے۔ بےحوصلہ یا قنوطیت کا شکار ہونے کی بجائے، آئیے ”خدا سے اُمید“ رکھیں۔—زبور ۴۲:۵، ۱۱۔
۱۹. (ا) فلپیوں کے لئے پولس کی دُعا کا لُبِلُباب کیا تھا؟ (ب) اگر ہم کوئی بات مکمل طور پر نہیں سمجھ پاتے تو فہم ہماری مدد کیسے کر سکتا ہے؟
۱۹ روحانی فہم ہمیں خدا اور اُس کے لوگوں کا وفادار رہنے میں مدد دیتا ہے۔ پولس نے فلپی کے مسیحیوں کو بتایا: ”یہ دُعا کرتا ہوں کہ تمہاری محبت [”کامل،“ اینڈبلیو] علم اور ہر طرح کی تمیز [”فہم،“ اینڈبلیو] کے ساتھ اَور بھی زیادہ ہوتی جائے۔ تاکہ عمدہ عمدہ باتوں کو پسند کر سکو اور مسیح کے دن تک صاف دل رہو اور ٹھوکر نہ کھاؤ۔“ (فلپیوں ۱:۹، ۱۰) موزوں استدلال کے لئے ہمیں ”کامل علم اور ہر طرح کے فہم“ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس یونانی لفظ کا ترجمہ یہاں ”فہم“ کِیا گیا ہے اُس کا مطلب ہے ”گہرا اخلاقی ادراک۔“ جب ہم کچھ سیکھتے ہیں تو ہم خدا اور مسیح کے ساتھ اس کے تعلق کو سمجھنا اور اس بات پر غوروخوض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ یہوواہ کی شخصیت اور فراہمیوں کی عظمت کو کیسے عیاں کرتا ہے۔ یہ ہمارے فہم اور جوکچھ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح نے ہماری خاطر کِیا ہے اُس کے لئے ہماری قدردانی کو بڑھاتا ہے۔ اگر ہم کسی بات کو مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں تو فہم یہ سمجھنے میں ہماری مدد کریگا کہ خدا، مسیح اور الہٰی مقصد کی بابت ہم نے جو اہم باتیں سیکھی ہیں اُن تمام میں اپنے ایمان کا دامن نہ چھوڑیں۔
۲۰. ہم روحانی فہم سے کیسے معمور ہو سکتے ہیں؟
۲۰ اگر ہم ہمیشہ اپنے خیالات اور افعال کو خدا کے کلام کے مطابق ڈھالتے ہیں تو ہم روحانی فہم سے معمور ہونگے۔ (۲-کرنتھیوں ۱۳:۵) ایک تعمیری انداز میں ایسا کرنا ہمیں خودرائے اور دوسروں پر نکتہچینی کرنے والے نہیں بلکہ فروتن بناتا ہے۔ فہم ہمیں اصلاح سے فائدہ اُٹھانے اور زیادہ اہم باتوں کا یقین کرنے میں مدد دیگا۔ (امثال ۳:۷) یہوواہ کو خوش کرنے کی خواہش کے ساتھ، آئیے اُس کے کلام کے صحیح علم سے معمور رہنے کی کوشش کریں۔ یہ ہمیں صحیح اور غلط میں امتیاز کرنے، واقعی اہم کام کا تعیّن کرنے اور یہوواہ کے ساتھ اپنے بیشقیمت رشتے کو وفاداری سے قائم رکھنے کے قابل بنائیگا۔ اگر ہم فہم پر اپنا دل لگاتے ہیں تو یہ سب کچھ ممکن ہے۔ لیکن، کسی اَور چیز کی بھی ضرورت ہے۔ ہمیں فہم کو اپنی حفاظت کرنے کا موقع دینا چاہئے۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
▫ ہمیں فہم پر اپنا دل کیوں لگانا چاہئے؟
▫ فہم ہماری گفتگو اور چالچلن پر کیسے اثرانداز ہو سکتا ہے؟
▫ فہم کا ہمارے مزاج پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟
▫ فہم کیلئے ہمیں ہمیشہ یہوواہ پر کیوں آس لگانی چاہئے؟
[صفحہ 10 پر تصویر]
فہم اپنے مزاج کو قابو میں رکھنے کیلئے ہماری مدد کرتا ہے
[صفحہ 12 پر تصویر]
فہیم بادشاہ سلیمان نے جان لیا کہ تفریحِطبع درحقیقت اطمینانِبخش نہیں ہے