یہوواہ خدا امن کا بانی ہے
”خدا . . . امن کا بانی ہے۔“—۱-کر ۱۴:۳۳۔
۱، ۲. (الف) پیدایش ۳۲ اور ۳۳ باب میں جس واقعے کا ذکر ہے، اِس کا خلاصہ پیش کریں۔ (ب) عیسو اور یعقوب کی ملاقات کا کیا نتیجہ نکلا؟
دریائےیردن کے مشرق میں فنیایل کے نزدیک ایک بہت ہی سنسنیخیز ملاقات ہونے والی تھی۔ عیسو اور یعقوب بڑے عرصے بعد ایک دوسرے سے ملنے والے تھے۔ تقریباً ۲۰ سال پہلے کی بات تھی کہ عیسو نے پہلوٹھے ہونے کا حق اپنے بھائی یعقوب کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ جب عیسو نے سنا کہ یعقوب گھر لوٹ رہے ہیں تو وہ ۴۰۰ آدمی لے کر اُن سے ملنے کے لئے گئے۔ یہ سُن کر یعقوب بہت ہی ڈر گئے۔ اُن کا خیال تھا کہ عیسو ابھی بھی اُن سے خفا ہیں اور اُن کو قتل کرنے کے لئے آ رہے ہیں۔ اِس لئے یعقوب نے اپنے نوکروں کے ہاتھ عیسو کے لئے مویشیوں کے بہت سے گلّے بھیجے۔ جب بھی عیسو کو ایک گلّہ نظر آتا، یعقوب کے نوکر اُن کو بتاتے کہ یہ جانور آپ کے بھائی کی طرف سے آپ کے لئے تحفہ ہیں۔ یعقوب نے اپنے بھائی کو ۵۵۰ سے زیادہ مویشی تحفے میں دئے۔
۲ جب اِن دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو کیا ہوا؟ یعقوب نے بڑی عاجزی اور جُرأت سے کام لیا۔ وہ عیسو کی طرف بڑھے اور سات بار زمین تک جھکے۔ لیکن اِس ملاقات سے پہلے یعقوب نے ایک اَور کام کِیا اور یہ کام اُن تمام کاموں سے زیادہ اہم تھا جو اُنہوں نے اپنے بھائی سے صلح کرنے کے لئے کئے تھے۔ یہ کونسا کام تھا؟ یعقوب نے دُعا کی کہ یہوواہ خدا اُن کو عیسو سے بچا لے۔ یہوواہ خدا نے اُن کی سُن لی۔ بائبل میں لکھا ہے کہ ”عیسوؔ [یعقوب] سے ملنے کو دوڑا اور اُس سے بغلگیر ہوا اور اُسے گلے لگایا اور چُوما اور وہ دونوں روئے۔“—پید ۳۲:۱۱-۲۰؛ ۳۳:۱-۴۔
۳. ہم صلحپسند ہونے کے سلسلے میں یعقوب سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۳ اِس واقعے سے ہم سیکھتے ہیں کہ جب کلیسیا میں کسی بھائی یا بہن سے ہمارا اختلاف ہو جاتا ہے تو ہمیں اِسے حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو کلیسیا کا اتحاد خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ یاد کریں کہ یعقوب نے کوئی ایسا کام نہیں کِیا تھا جس کے لئے اُنہیں عیسو سے معافی مانگنی پڑتی۔ دراصل غلطی عیسو کی تھی جنہوں نے اپنے پہلوٹھے ہونے کے حق کی قدر نہیں کی اور اِسے ایک وقت کے کھانے کے لئے بیچ دیا۔ اِس کے باوجود یعقوب نے اپنے بھائی سے صلح کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ (پید ۲۵:۳۱-۳۴؛ عبر ۱۲:۱۶) یعقوب کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں کلیسیا کے بہنبھائیوں کے ساتھ امن سے رہنے کی بہت ہی کوشش کرنی چاہئے۔ اِس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جب ہم یہوواہ خدا سے دُعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں لوگوں کے ساتھ امن سے رہنے کی توفیق عطا کرے تو وہ ہماری سنتا ہے۔ بائبل میں اَور بھی بہت سے صلحپسند لوگوں کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ اِن سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ ہم دوسروں کے ساتھ امن سے کیسے رہ سکتے ہیں۔ لیکن آئیں، پہلے یہوواہ خدا کی مثال پر غور کرتے ہیں جس نے صلحپسند ہونے کی بہترین مثال قائم کی۔
صلحپسند ہونے کی بہترین مثال
۴. یہوواہ خدا نے انسانوں کو گُناہ اور موت سے نجات دلانے کے لئے کیا کِیا؟
۴ یہوواہ خدا نے صلحپسند ہونے کے سلسلے میں سب سے اچھی مثال قائم کی۔ بائبل میں اُسے ”امن کا بانی“ کہا گیا ہے۔ (۱-کر ۱۴:۳۳) ذرا سوچیں کہ خدا نے ہم سے دوستی کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کِیا۔ چونکہ ہم آدم اور حوا کی اولاد ہیں اِس لئے ہم سب گُناہ کرتے ہیں۔ اور گُناہ کی سزا موت ہے۔ (روم ۶:۲۳) لیکن یہوواہ خدا کو ہم سے اِتنی محبت تھی کہ اُس نے ہمیں گُناہ اور موت سے نجات دلانے کا بندوبست کِیا۔ اُس نے اپنے پیارے بیٹے کو زمین پر بھیجا تاکہ وہ ہماری خاطر اپنی جان قربان کرے اور یوں ہمیں اپنے گُناہوں کی معافی ملے۔ اور یسوع مسیح اپنے باپ کی مرضی بجا لائے اور اُنہوں نے خوشی سے اپنی بےعیب انسانی جان ہمارے لئے قربان کر دی۔ (یوح ۱۰:۱۷، ۱۸) یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کو روحانی جسم کے ساتھ زندہ کِیا۔ پھر یسوع مسیح نے آسمان پر جا کر یہوواہ خدا کو اپنی انسانی جان کی قیمت فدیے کے طور پر پیش کی۔ خدا اِس فدیے کی بِنا پر اُن لوگوں کو موت کے چنگل سے آزاد کرے گا جو توبہ کرتے ہیں۔—عبرانیوں ۹:۱۴، ۲۴ کو پڑھیں۔
۵، ۶. انسان یسوع مسیح کی قربانی کے ذریعے خدا کے دوست کیوں بن سکتے ہیں؟
۵ آدم اور حوا کے گُناہ کی وجہ سے تمام انسان خدا کے دُشمن بن گئے۔ لیکن یسوع مسیح کی قربانی کے ذریعے انسانوں کو یہوواہ خدا کے دوست بننے کا موقع دیا گیا۔ اِس سلسلے میں بائبل میں لکھا ہے: ”جو سزا ہماری سلامتی کا باعث ہوئی وہ اُس نے اُٹھائی، اور اُس کے کوڑے کھانے سے ہم شفایاب ہوئے۔“ (یسع ۵۳:۵؛ نیو اُردو بائبل ورشن) ایک اَور آیت میں لکھا ہے کہ ’ہم کو یسوع مسیح کے خون کے وسیلے سے مخلصی یعنی قصوروں کی معافی حاصل ہے۔‘—افس ۱:۷۔
۶ بائبل میں یسوع مسیح کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ”باپ کو یہ پسند آیا کہ ساری معموری اُسی میں سکونت کرے۔“ اِس کا مطلب ہے کہ خدا یسوع مسیح کے ذریعے اپنا ارادہ پورا کرے گا۔ خدا کا ارادہ ہے کہ وہ ’یسوع مسیح کے خون کے وسیلے سے صلح کرکے سب چیزوں کا اپنے ساتھ میل کر لے۔‘ خدا ’زمین کی چیزوں‘ اور ’آسمان کی چیزوں‘ کے ساتھ میل یعنی دوستی کرتا ہے۔ آئیں، دیکھیں کہ ’زمین کی چیزیں‘ اور ’آسمان کی چیزیں‘ کیا ہیں۔—کلسیوں ۱:۱۹، ۲۰ کو پڑھیں۔
۷. (الف) ’آسمان کی چیزیں‘ کیا ہیں؟ (ب) ’زمین کی چیزیں‘ کیا ہیں؟
۷ یسوع مسیح کی قربانی کی بِنا پر ممسوح مسیحی خدا کے بیٹوں کے طور پر ’راستباز ٹھہرتے‘ ہیں اور ’خدا کے ساتھ صلح رکھتے ہیں۔‘ (رومیوں ۵:۱ کو پڑھیں۔) بائبل میں ممسوح مسیحیوں کو ’آسمان کی چیزیں‘ کہا گیا ہے کیونکہ خدا اِنہیں روحانی جسم کے ساتھ زندہ کرتا ہے تاکہ وہ آسمان پر رہ سکیں۔ وہاں وہ یسوع مسیح کے ساتھ مل کر ”زمین پر بادشاہی“ کریں گے اور کاہنوں کے طور پر خدمت کریں گے۔ (مکا ۵:۱۰) ’زمین کی چیزوں‘ سے مُراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گُناہوں سے توبہ کی ہے اور جو زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں گے۔—زبور ۳۷:۲۹۔
۸. جب کلیسیا کے بہنبھائیوں میں اختلاف پیدا ہو جاتے ہیں تو وہ یہوواہ خدا سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۸ پولس رسول نے شہر افسس کے ممسوح مسیحیوں کو لکھا: ’جب ہم قصوروں کے سبب سے مُردہ ہی تھے تو خدا نے اپنے رحم کی دولت سے ہم کو مسیح کے ساتھ زندہ کِیا۔‘ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں ”فضل ہی سے نجات ملی ہے۔“ (افس ۲:۴، ۵) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولس رسول، یسوع مسیح کی قربانی کے لئے بہت شکرگزار تھے۔ خواہ ہم آسمان پر زندگی حاصل کرنے کی اُمید رکھتے ہوں یا زمین پر، ہم سب خدا کے شکرگزار ہیں کہ اُس نے ہم پر رحم اور فضل کِیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ خدا نے ہم سے دوستی کرنے کے لئے کتنی بڑی قربانی دی اور ہم اِس بات کے لئے اُس کے بہت احسانمند ہیں۔ کبھیکبھی ہم کلیسیا کی کسی بہن یا بھائی سے خفا ہو جاتے ہیں جس سے کلیسیا کا اتحاد خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اِس صورت میں ہمیں یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کرنا چاہئے اور اُس بہن یا بھائی سے صلح کر لینی چاہئے۔
ابرہام اور اضحاق کی اچھی مثال
۹، ۱۰. ہمیں کیسے معلوم ہے کہ ابرہام صلحپسند تھے؟
۹ بائبل میں کہا گیا ہے کہ ”اؔبرہام [یہوواہ] خدا پر ایمان لایا اور یہ اُس کے لئے راستبازی گنا گیا اور وہ [یہوواہ] خدا کا دوست کہلایا۔“ (یعقو ۲:۲۳) چونکہ ابرہام یہوواہ خدا پر ایمان رکھتے تھے اِس لئے وہ صلحپسند تھے۔ مثال کے طور پر ایک دفعہ ابرہام کے چرواہوں اور لوط کے چرواہوں میں جھگڑا ہو گیا۔ (پید ۱۲:۵؛ ۱۳:۷) اِس لئے اِن دونوں نے طے کِیا کہ وہ فرقفرق علاقوں میں چلے جائیں۔ ابرہام، لوط کے چچا تھے۔ وہ نہ صرف عمر میں لوط سے بڑے تھے بلکہ وہ خدا کے دوست بھی تھے۔ اِس کے باوجود ابرہام نے لوط کو اِس بات کا انتخاب کرنے دیا کہ وہ کہاں پر رہنا چاہتے ہیں۔ یوں ابرہام نے ظاہر کِیا کہ وہ اپنے بھتیجے کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
۱۰ ابرہام نے اپنے بھتیجے سے کہا: ”میرے اور تیرے درمیان اور میرے چرواہوں اور تیرے چرواہوں کے درمیان جھگڑا نہ ہؤا کرے کیونکہ ہم بھائی ہیں۔“ پھر اُنہوں نے کہا: ”کیا یہ سارا مُلک تیرے سامنے نہیں؟ سو تُو مجھ سے الگ ہو جا۔ اگر تُو بائیں جائے تو مَیں دہنے جاؤں گا اور اگر تُو دہنے جائے تو مَیں بائیں جاؤں گا۔“ لوط نے اپنے لئے سب سے زرخیز علاقہ چُنا۔ ابرہام نے اُن کی بات مان لی اور اپنے دل میں اُن کے لئے ناراضگی نہیں رکھی۔ (پید ۱۳:۸-۱۱) اِس کا ثبوت اِس بات سے ملتا ہے کہ جب دُشمنوں نے لوط کو اسیر کر لیا تو ابرہام فوراً اُنہیں بچانے کے لئے گئے۔—پید ۱۴:۱۴-۱۶۔
۱۱. ابرہام نے فلستیوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم رکھنے کے لئے کیا کِیا؟
۱۱ آئیں، دیکھیں کہ ابرہام نے فلستیوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم رکھنے کے لئے کیا کچھ کِیا۔ ابرہام کنعان کے ملک میں رہتے تھے جہاں فلستی بھی رہتے تھے۔ ابرہام کے نوکروں نے بیرسبع میں ایک کنواں کھودا لیکن فلستیوں نے اُن سے یہ کنواں ”زبردستی چھین لیا۔“ ابرہام نے فیصلہ کِیا کہ وہ نہ تو کچھ کہیں گے اور نہ ہی کوئی کارروائی کریں گے۔ اِس کے کچھ عرصے بعد فلستیوں کے بادشاہ ابیملک، ابرہام سے ملنے کے لئے آئے۔ وہ ابرہام سے صلح کا عہد باندھنا چاہتے تھے۔ ابرہام نے وعدہ کِیا کہ وہ بادشاہ ابیملک کے بیٹوں اور پوتوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں گے۔ یہ وعدہ کرنے کے بعد ہی ابرہام نے بادشاہ ابیملک کو اُس کنویں کے بارے میں بتایا جو فلستیوں نے اُن سے چھین لیا تھا۔ بادشاہ کو یہ سُن کر بڑا افسوس ہوا اور اُنہوں نے یہ کنواں ابرہام کو واپس دلوا دیا۔ اِس کے بعد ابرہام کنعان کے ملک میں امنوسلامتی سے رہے حالانکہ وہ پردیسی تھے۔—پید ۲۱:۲۲-۳۱، ۳۴۔
۱۲، ۱۳. (الف) اضحاق نے اپنے باپ کی مثال پر کیسے عمل کِیا؟ (ب) چونکہ اضحاق صلحپسند تھے اِس لئے یہوواہ خدا نے اُنہیں کونسی برکت دی؟
۱۲ ابرہام کے بیٹے اضحاق بھی صلحپسند تھے۔ اُنہوں نے بھی فلستیوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی۔ جب اضحاق بیرلحیروئی کے علاقے میں رہ رہے تھے تو ملک میں کال پڑا۔ اِس لئے وہ اِس علاقے کو چھوڑ کر جرار کے زرخیز علاقے میں جا بسے۔ یہ فلستیوں کا علاقہ تھا۔ یہوواہ خدا نے اضحاق کو بڑی برکت دی۔ اُن کے کھیتوں کی فصلیں اچھی ہوئیں اور اُن کے مویشیوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ یہ دیکھ کر فلستی اضحاق سے حسد کرنے لگے۔ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ اضحاق کے مالودولت میں اضافہ ہو۔ اِس لئے اُنہوں نے اضحاق کے کنوؤں کو مٹی سے بھر دیا۔ آخرکار فلستیوں کے بادشاہ نے اضحاق سے کہا کہ ”تُو ہمارے پاس سے چلا جا۔“ چونکہ اضحاق صلحپسند تھے اِس لئے اُنہوں نے بادشاہ کی بات مان لی اور وہاں سے چلے گئے اور جرار کی وادی میں آباد ہو گئے۔—پید ۲۴:۶۲؛ ۲۶:۱، ۱۲-۱۷۔
۱۳ اضحاق کے چرواہوں نے جرار کی وادی میں بھی کنواں کھودا۔ وہاں بھی فلستی اِن چرواہوں سے لڑنے لگے کہ ”یہ پانی ہمارا ہے۔“ اپنے باپ کی طرح اضحاق نے بھی یہ فیصلہ کِیا کہ وہ فلستیوں سے نہیں لڑیں گے۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے اپنے نوکروں سے کہا کہ وہ ایک اَور کنواں کھودیں۔ لیکن فلستی اِس کنویں کے لئے بھی اُن سے جھگڑنے لگے۔ ایک بار پھر سے اضحاق امن کی خاطر اپنا گھر بار لے کر کہیں اَور جا بسے۔ وہاں بھی اُن کے خادموں نے ایک کنواں کھودا اور اضحاق نے اِس جگہ کا نام رحوبوت رکھا۔ اِس کے کچھ عرصے بعد اضحاق بیرسبع کے زرخیز علاقے میں جا بسے۔ وہاں یہوواہ خدا نے اضحاق کو برکت دی اور اُن سے کہا: ”مت ڈر کیونکہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تجھے برکت دوں گا اور اپنے بندہ اؔبرہام کی خاطر تیری نسل بڑھاؤں گا۔“—پید ۲۶:۱۷-۲۵۔
۱۴. جب فلستیوں کا بادشاہ، اضحاق سے عہد باندھنے کے لئے آیا تو اضحاق نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ صلحپسند ہیں؟
۱۴ اضحاق کو اُن کنوؤں پر حق تھا جو اُن کے خادموں نے کھودے تھے۔ اگر اضحاق چاہتے تو وہ اپنے کنوؤں کے لئے فلستیوں کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ فلستیوں کا بادشاہ بھی اِس حقیقت سے واقف تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہوواہ خدا نے اضحاق کے ہر کام کو برکت دی ہے۔ اِس لئے فلستیوں کا بادشاہ، اضحاق سے عہد باندھنا چاہتا تھا۔ وہ اپنے دوست اور اپنے سپہسالار کے ساتھ اضحاق سے ملنے بیرسبع آیا۔ وہاں پہنچ کر بادشاہ نے اضحاق سے کہا: ”ہم نے خوب . . . دیکھا کہ [یہوواہ] تیرے ساتھ ہے۔“ حالانکہ فلستیوں نے باربار اضحاق کے ساتھ بڑی زیادتی کی تھی لیکن اضحاق نے ہر موقعے پر صلحپسندی سے کام لیا۔ اِس موقعے پر بھی اضحاق فلستیوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے لئے تیار تھے۔ بائبل میں لکھا ہے: ”[اِضحاق] نے [اپنے مہمانوں] کے لئے ضیافت تیار کی اور اُنہوں نے کھایا پیا۔ اور وہ صبح سویرے اُٹھے اور آپس میں قسم کھائی اور اِضحاؔق نے اُن کو رخصت کِیا اور وہ اُس کے پاس سے سلامت چلے گئے۔“—پید ۲۶:۲۶-۳۱۔
یوسف کی عمدہ مثال
۱۵. یوسف کے بڑے بھائی اُن سے سیدھے مُنہ بات کیوں نہیں کرتے تھے؟
۱۵ بائبل میں اضحاق کے دو بیٹوں کے بارے میں لکھا ہے کہ ”عیسو شکار کرنے کا ماہر . . . جبکہ یعقوب حلیم“ تھا۔ (پید ۲۵:۲۷، کیتھولک ترجمہ)جیسا کہ ہم اِس مضمون کے شروع میں دیکھ چکے ہیں، یعقوب نے اپنے بھائی سے صلح کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اِس طرح یعقوب نے اپنے باپ کی اچھی مثال پر عمل کِیا۔ کیا یعقوب کے بیٹوں نے اپنے باپ کی مثال پر عمل کِیا؟ یعقوب اپنے ۱۲ بیٹوں میں سے یوسف سے سب سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ یوسف اپنے باپ کی عزت کرتے تھے اور اُن کا کہنا مانتے تھے۔ یعقوب جانتے تھے کہ وہ یوسف کی ہر بات کا یقین کر سکتے ہیں۔ (پید ۳۷:۲، ۱۴) یوسف کے بڑے بھائی اُن سے اِس قدر حسد کرنے لگے کہ وہ اُن سے سیدھے مُنہ بات بھی نہیں کرتے تھے۔ اُنہیں یوسف سے اِتنی نفرت تھی کہ اُنہوں نے اپنے بھائی کو بیچ ڈالا اور اپنے باپ کو یہ تاثر دیا کہ کسی خونخوار جانور نے یوسف کو پھاڑ ڈالا ہے۔—پید ۳۷:۴، ۲۸، ۳۱-۳۳۔
۱۶، ۱۷. یوسف نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ صلحپسند ہیں؟
۱۶ یہوواہ خدا نے یوسف کو برکت دی۔ کچھ عرصے کے بعد یوسف مصر کے وزیرِاعظم بن گئے۔ جب کنعان کے ملک میں کال پڑا تو یوسف کے بھائی اناج خریدنے مصر آئے۔ وہاں اُن کی ملاقات یوسف سے ہوئی مگر وہ اُن کو پہچان نہیں پائے کیونکہ یوسف بالکل مصری لگتے تھے۔ (پید ۴۲:۵-۷) یوسف اگر چاہتے تو وہ اپنے بھائیوں سے بدلہ لے سکتے تھے۔ لیکن اُنہوں نے اپنے بھائیوں سے صلح کرنے کے لئے قدم اُٹھائے۔ جب یوسف نے دیکھا کہ اُن کے بھائیوں نے اپنی سوچ بدل لی ہے تو اُنہوں نے اُن کو بتا دیا کہ وہ کون ہیں۔ پھر یوسف نے کہا: ”اِس بات سے کہ تُم نے مجھے بیچ کر یہاں پہنچوایا نہ تو غمگین ہو اور نہ اپنےاپنے دل میں پریشان ہو کیونکہ خدا نے جانوں کو بچانے کے لئے مجھے تُم سے آگے بھیجا۔“ پھر یوسف نے ”سب بھائیوں کو چُوما اور اُن سے مل کر رویا۔“—پید ۴۵:۱، ۵، ۱۵۔
۱۷ جب یعقوب فوت ہو گئے تو یوسف کے بھائیوں نے سوچا کہ اب تو یوسف ضرور اُن سے بدلہ لیں گے۔ لیکن جب اُنہوں نے یوسف سے اِس بات کا ذکر کِیا تو ’یوسف اُن کی یہ باتیں سُن کر رو پڑے‘ اور کہا کہ ”تُم مت ڈرو۔ مَیں تمہاری اور تمہارے بال بچوں کی پرورش کرتا رہوں گا۔“ پھر یوسف نے ”اپنی ملائم باتوں سے اُن کی خاطر جمع کی۔“ یوسف نے ایک بار پھر سے ثابت کِیا کہ وہ صلحپسند انسان ہیں۔—پید ۵۰:۱۵-۲۱۔
’یہ باتیں ہماری تعلیم کے لئے لکھی گئیں‘
۱۸، ۱۹. (الف) آپ نے صلحپسند ہونے کے سلسلے میں یہوواہ خدا، ابرہام، اضحاق، یعقوب اور یوسف سے کیا سیکھا ہے؟ (ب) اگلے مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
۱۸ پولس رسول نے لکھا: ”جتنی باتیں پہلے لکھی گئیں وہ ہماری تعلیم کے لئے لکھی گئیں تاکہ صبر سے اور کتابِمُقدس کی تسلی سے اُمید رکھیں۔“ (روم ۱۵:۴) ہم نے صلحپسند ہونے کے سلسلے میں یہوواہ خدا، ابرہام، اضحاق، یعقوب اور یوسف سے کیا سیکھا ہے؟
۱۹ ذرا سوچیں کہ یہوواہ خدا نے ہم سے دوستی کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کِیا؟ اِس بات پر غور کرنے سے ہمارے دل میں یہ خواہش پیدا ہوگی کہ ہم بھی دوسروں کے ساتھ امن سے رہنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ ابرہام، اضحاق، یعقوب اور یوسف کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ والدین صلحپسند ہونے کے سلسلے میں اپنے بچوں کے لئے اچھی مثال قائم کر سکتے ہیں۔ اِس مضمون میں ہم نے یہ بھی سیکھا ہے کہ اگر ہم دوسروں کے ساتھ امن سے رہنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہوواہ خدا ہماری مدد کرے گا۔ واقعی پولس رسول نے سچ کہا کہ یہوواہ خدا ”امن کا بانی ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۴:۳۳ کو پڑھیں۔) پولس رسول نے بتایا کہ دوسروں کے ساتھ امن سے رہنا اہم کیوں ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہئے تاکہ ہم دوسروں کے ساتھ امن سے رہ سکیں۔ اگلے مضمون میں ہم اِن باتوں پر غور کریں گے۔
آپ نے کیا سیکھا ہے؟
• یعقوب نے اپنے بھائی سے صلح کرنے کے لئے کونسے اقدام اُٹھائے؟
• یہوواہ خدا نے انسانوں سے دوستی کرنے کے لئے جو کچھ کِیا، اِس پر غور کرنے سے آپ کے دل میں کونسی خواہش پیدا ہوتی ہے؟
• آپ نے صلحپسند ہونے کے سلسلے میں ابرہام، اضحاق، یعقوب اور یوسف سے کیا سیکھا ہے؟
[صفحہ ۱۹ پر تصویریں]
جو کام یعقوب نے اپنے بھائی سے صلح کرنے کے لئے کئے تھے، اِن میں سے کونسا کام سب سے اہم تھا؟