’مسیح کیساتھ ساتھ چلتے رہو‘
”پس جس طرح تم نے مسیح یسوؔع خداوند کو قبول کِیا اُسی طرح اُس میں چلتے رہو۔“—کلسیوں ۲:۶۔
۱، ۲. (ا) بائبل یہوواہ کے حضور حنوک کی وفادارانہ خدمت کی زندگی کو کیسے بیان کرتی ہے؟ (ب) جیسےکہ کلسیوں ۲:۶، ۷ ظاہر کرتی ہیں، یہوواہ نے اپنے ساتھ چلنے میں ہماری مدد کیسے کی ہے؟
کیا آپ نے کبھی کسی چھوٹے بچے کو اپنے والد کیساتھ ساتھ چلتے دیکھا ہے؟ چھوٹا بچہ اپنے والد کی ہر حرکت کی نقل کرتا ہے اور اُسکا چہرہ احساسِتحسین سے دمکتا ہے؛ والد اُسکی مدد کرتا ہے اور اُسکا اپنا چہرہ بھی محبت اور احساسِاستحسان سے روشن ہوتا ہے۔ موزوں طور پر، یہوواہ اپنے لئے وفادارانہ خدمت والی زندگی کی وضاحت کرنے کیلئے بالکل ایسے ہی منظر کو استعمال کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، خدا کا کلام کہتا ہے کہ ایماندار آدمی حنوک ”[سچے] خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔“—پیدایش ۵:۲۴؛ ۶:۹۔
۲ جس طرح ایک شفیق باپ اپنے چھوٹے بچے کی اپنے ساتھ چلنے میں مدد کرتا ہے ویسے ہی یہوواہ نے ہمیں سب سے بہترین مدد فراہم کی ہے۔ اُس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو زمین پر بھیجا۔ زمین پر اپنی تمام زندگی کے دوران یسوع مسیح نے ہر قدم پر اپنے آسمانی باپ کی مکمل عکاسی کی۔ (یوحنا ۱۴:۹، ۱۰؛ عبرانیوں ۱:۳) لہٰذا خدا کے ساتھ ساتھ چلنے کے لئے ہمیں یسوع کے ساتھ ساتھ چلنے کی ضرورت ہے۔ پولس رسول نے لکھا: ”پس جس طرح تم نے مسیح یسوؔع خداوند کو قبول کِیا اُسی طرح اُس میں چلتے رہو۔ اور اُس میں جڑ پکڑتے اور تعمیر ہوتے جاؤ اور جس طرح تم نے تعلیم پائی اُسی طرح ایمان میں مضبوط رہو اور خوب شکرگزاری کِیا کرو۔“—کلسیوں ۲:۶، ۷۔
۳. کلسیوں ۲:۶، ۷ کی روشنی میں، ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ مسیح کیساتھ ساتھ چلنا محض بپتسمہ لینے سے زیادہ کا تقاضا کرتا ہے؟
۳ خلوصدل بائبل طالبعلم چونکہ مسیح کیساتھ ساتھ چلنا چاہتے ہیں اسلئے وہ اُس کے کامل نقشِقدم کی پیروی کرنے کی کوشش میں بپتسمہ لیتے ہیں۔ (لوقا ۳:۲۱؛ عبرانیوں ۱۰:۷-۹) صرف ۱۹۹۷ میں، پوری دُنیا کے اندر ۳،۷۵،۰۰۰ سے زائد—ہر روز اوسطاً ۱،۰۰۰—نے یہ اہم قدم اُٹھایا تھا۔ یہ ترقی ہیجانخیز ہے! تاہم، کلسیوں ۲:۶، ۷ میں درج پولس کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ مسیح کیساتھ ساتھ چلنا محض بپتسمہ لینے سے زیادہ کا تقاضا کرتا ہے۔ جس یونانی فعل کا ترجمہ ”چلتے رہو“ کِیا گیا ہے وہ ایک مسلسل، جاری رہنے والے عمل کو ظاہر کرتا ہے۔ علاوہازیں، پولس مزید کہتا ہے کہ مسیح کیساتھ ساتھ چلنے میں چار پہلو شامل ہیں: مسیح میں جڑ پکڑنا، اُس میں تعمیر ہونا، ایمان میں مضبوط ہونا اور خوب شکرگزاری کرنا۔ آئیے ہر جزوِجملہ پر غور کریں اور دیکھیں کہ یہ مسیح کیساتھ ساتھ چلتے رہنے کیلئے کیسے ہماری مدد کرتا ہے۔
کیا آپ ’مسیح میں جڑ پکڑے ہوئے‘ ہیں؟
۴. ’مسیح میں جڑ پکڑنے‘ سے کیا مُراد ہے؟
۴ سب سے پہلے، پولس لکھتا ہے کہ ہمیں مسیح میں جڑ پکڑنے کی ضرورت ہے۔ (مقابلہ کریں متی ۱۳:۲۰، ۲۱۔) ایک شخص کیسے ’مسیح میں جڑ پکڑنے‘ کی کوشش کر سکتا ہے؟ موزوں طور پر پودے کی جڑیں نظروں سے اوجھل ہوتی ہیں مگر یہ پودے کیلئے نہایت ضروری ہوتی ہیں—یہ اُسے مضبوطی بخشتی اور غذائیت پہنچاتی ہیں۔ اسی طرح، مسیح کا نمونہ اور تعلیم ہم پر سب سے پہلے باطنی طور پر اثر کرتے ہیں یعنی ہمارے ذہنوں اور دلوں میں جاگزین ہو جاتے ہیں۔ وہاں یہ ہمیں غذائیت پہنچاتے اور مضبوط کرتے ہیں۔ جب ہم انہیں اپنی سوچ، اپنے افعال اور اپنے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی اجازت دیتے ہیں تو ہم یہوواہ کیلئے اپنی زندگیاں مخصوص کرنے کی تحریک پاتے ہیں۔—۱-پطرس ۲:۲۱۔
۵. ہم روحانی غذا کیلئے کیسے ”اشتیاق پیدا“ کر سکتے ہیں؟
۵ یسوع خدا کے علم سے بہت لگاؤ رکھتا تھا۔ اُس نے تو اسے کھانے سے تشبِیہ دی۔ (متی ۴:۴) واہ، اُس نے تو اپنے پہاڑی وعظ میں عبرانی صحائف کی آٹھ مختلف کتابوں سے ۲۱ اقتباسات پیش کئے۔ اُسکے نمونے کی پیروی کرنے کیلئے، ہمیں پطرس رسول کی نصیحت کے مطابق عمل کرنا چاہئے—”نوزاد بچوں کی مانند“ روحانی غذا کیلئے ”اشتیاق پیدا کریں۔“ (۱-پطرس ۲:۲، اینڈبلیو) جب کوئی نوزاد بچہ خوراک کی آرزو کرتا ہے تو وہ اپنے شدید اشتیاق کی بابت کسی شک کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ اگر ہم ابھی تک روحانی غذا کی بابت ایسا محسوس نہیں کرتے تو پطرس کے الفاظ ایسا اشتیاق ”پیدا“ کرنے کیلئے ہماری حوصلہافزائی کرتے ہیں۔ کیسے؟ اس سلسلے میں زبور ۳۴:۸ کا اصول مدد کر سکتا ہے: ”آزما کر دیکھو کہ خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کیسا مہربان ہے۔“ اگر ہم باقاعدگی سے یہوواہ کے کلام، بائبل کو ”آزماتے“ ہیں یعنی ہر روز غالباً اسکا کچھ حصہ پڑھتے ہیں تو ہم دیکھینگے کہ یہ روحانی طور پر غذائیتبخش اور مفید ہے۔ وقت کیساتھ ساتھ، اس کیلئے ہمارا اشتیاق بڑھ جائیگا۔
۶. جوکچھ ہم پڑھتے ہیں اُس پر غوروخوض کرنا کیوں اہم ہے؟
۶ تاہم، یہ ضروری ہے کہ غذا کھانے کے بعد ہم اسے ہضم بھی کریں۔ لہٰذا ہم جوکچھ پڑھتے ہیں ہمیں اُس پر غوروخوض کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ (زبور ۷۷:۱۱، ۱۲) مثلاً، جب ہم گریٹسٹ مین ہو ایور لِوڈ کتاب پڑھتے ہیں تو ہر باب اُس وقت زیادہ قدروقیمت کا حامل ہو جاتا ہے جب ہم رُک کر خود سے پوچھتے ہیں: ’مَیں اس بیان میں مسیح کی شخصیت کا کونسا پہلو دیکھتا ہوں اور مَیں اپنی زندگی میں اسکی نقل کیسے کر سکتا ہوں؟‘ اس طرح غوروخوض کرنا ہمیں سیکھی ہوئی باتوں کا اطلاق کرنے کے قابل بنائیگا۔ اسکے علاوہ، جب کوئی فیصلہ کرنا ہو تو ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں کہ یسوع نے ایسی صورتحال میں کیا کِیا ہوتا۔ اگر ہم اس کے مطابق اپنا فیصلہ کرتے ہیں تو ہم واقعی مسیح میں جڑ پکڑنے کا ثبوت دیتے ہیں۔
۷. سخت روحانی خوراک کی بابت ہمارا نظریہ کیا ہونا چاہئے؟
۷ پولس بھی ہمیں ”سخت غذا“ یعنی خدا کے کلام کی گہری سچائیاں حاصل کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ (عبرانیوں ۵:۱۴) اس سلسلے میں ساری بائبل پڑھنا ہمارا پہلا نشانہ ہو سکتا ہے۔ پھر مسیح کے فدیے کی قربانی، مختلف عہود جو یہوواہ نے اپنے بندوں سے باندھے یا بائبل کے بعض نبوّتی پیغامات جیسے دیگر مخصوص موضوعاتِمطالعہ بھی ہیں۔ ایسا بہت سا مواد ہے جو ایسی سخت روحانی غذا کھانے اور ہضم کرنے میں ہماری مدد کریگا۔ ایسا علم حاصل کرنے کا مقصد کیا ہے؟ اسکا مقصد شیخی بگھارنا نہیں بلکہ یہوواہ کیلئے محبت پیدا کرنا اور اُسکی قربت حاصل کرنا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۸:۱؛ یعقوب ۴:۸) اگر ہم بڑے شوق سے یہ علم حاصل کرتے ہیں، اپنے اُوپر اسکا اطلاق کرتے ہیں اور دوسروں کی مدد کرنے کیلئے اسے استعمال کرتے ہیں تو ہم واقعی مسیح کی نقل کر رہے ہونگے۔ یہ اُس میں پوری طرح جڑ پکڑنے میں ہماری مدد کریگا۔
کیا آپ ’مسیح میں تعمیر ہوتے‘ جا رہے ہیں؟
۸. ’مسیح میں تعمیر‘ ہونے سے کیا مُراد ہے؟
۸ مسیح کیساتھ ساتھ چلنے کے اگلے پہلو کیلئے پولس فوراً ایک خیال سے دوسرے خیال—پودے سے عمارت—کی طرف جاتا ہے۔ جب ہم کسی زیرِتعمیر عمارت کا تصور کرتے ہیں تو ہم صرف نیو کی بابت ہی نہیں سوچتے بلکہ اُس ڈھانچے کی بابت بھی سوچتے ہیں جو سخت محنت کے باعث قابلِدید ہوتا ہے۔ اسی طرح، ہمیں مسیح جیسی صفات اور عادات پیدا کرنے کیلئے سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی سخت محنت چھپی نہیں رہتی جیسےکہ پولس نے بھی تیمتھیس کو لکھا: ’اپنی ترقی سب پر ظاہر کر۔‘ (۱-تیمتھیس ۴:۱۵؛ متی ۵:۱۶) ایسے بعض مسیحی کام کونسے ہیں جو ہمیں تقویت بخشتے ہیں؟
۹. (ا) اپنی خدمتگزاری میں مسیح کی نقل کرنے کیلئے ہم بعض کونسے عملی نشانے قائم کر سکتے ہیں؟ (ب) ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ یہ چاہتا ہے کہ ہم اپنی خدمتگزاری سے محظوظ ہوں؟
۹ یسوع نے ہمیں خوشخبری کی منادی اور تعلیم کا کام سونپا تھا۔ (متی ۲۴:۱۴؛ ۲۸:۱۹، ۲۰) اُس نے دلیری اور اثرآفرینی سے گواہی دیتے ہوئے کامل نمونہ قائم کِیا۔ بِلاشُبہ، جس عمدگی سے اُس نے یہ کام کِیا ہم کبھی بھی نہیں کر پائینگے۔ تاہم، پطرس رسول ہمارے لئے یہ نشانہ قائم کرتا ہے: ”مسیح کو خداوند جان کر اپنے دلوں میں مُقدس سمجھو اور جو کوئی تم سے تمہاری اُمید کی وجہ دریافت کرے اُسکو جواب دینے کیلئے ہر وقت مستعد رہو مگر حلم اور خوف کیساتھ۔“ (۱-پطرس ۳:۱۵) اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ ”جواب دینے کیلئے ہر وقت مستعد“ نہیں تو مایوس نہ ہوں۔ معقول نشانے قائم کریں جو بتدریج اس معیار تک پہنچنے میں آپکی مدد کرینگے۔ پیشگی تیاری آپکو اپنی پیشکش میں تبدیلی پیدا کرنے یا اس میں ایک یا دو صحائف شامل کرنے کے قابل بنائیگی۔ آپ زیادہ بائبل لٹریچر پیش کرنے، زیادہ واپسی ملاقاتیں کرنے یا ایک بائبل مطالعہ شروع کرنے کے نشانے بھی قائم کر سکتے ہیں۔ زیادہ زور مقدار—گھنٹوں، پیشکشوں یا مطالعوں کی تعداد—پر نہیں بلکہ معیار پر دیا جانا چاہئے۔ معقول نشانے قائم کرنا اور اُن کے حصول کیلئے کوشش کرنا خود کو خدمتگزاری کیلئے وقف کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ یہوواہ یہی چاہتا ہے—ہم ”خوشی سے“ اُسکی خدمت کریں۔—زبور ۱۰۰:۲؛ مقابلہ کریں ۲-کرنتھیوں ۹:۷۔
۱۰. بعض مسیحی کام کونسے ہیں جو ہمیں کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ہماری مدد کیسے کرتے ہیں؟
۱۰ ہمیں مسیح میں تعمیر کرنے والے ایسے کام بھی ہیں جو ہم کلیسیا میں انجام دیتے ہیں۔ سب سے اہم ایک دوسرے کیلئے محبت دکھانا ہے کیونکہ یہی سچے مسیحیوں کا شناختی نشان ہے۔ (یوحنا ۱۳:۳۴، ۳۵) جب ہم مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں تو ہم میں سے بیشتر کا اپنے اُستاد کی قربت میں آ جانا فطرتی امر ہے۔ تاہم، کیا اب ہم کلیسیا میں دیگر کیساتھ واقفیت پیدا کرنے سے ”کشادہ دل“ ہونے کی بابت پولس کی مشورت پر عمل کر سکتے ہیں؟ (۲-کرنتھیوں ۶:۱۳) بزرگوں کو بھی ہماری محبت اور قدرافزائی کی ضرورت ہے۔ اُن کیساتھ تعاون کرنے سے، اُن کی طرف سے صحیفائی مشورت کے خواہاں رہنے اور اسے قبول کرنے سے، ہم اُنکی سخت محنت کو زیادہ سہل بنا دینگے۔ (عبرانیوں ۱۳:۱۷) اس کیساتھ ہی ساتھ، یہ ہمارے لئے مسیح میں تعمیر ہونے میں کارآمد ثابت ہوگا۔
۱۱. ہمیں بپتسمے کی بابت کونسا حقیقتپسندانہ نقطۂنظر اپنانا چاہئے؟
۱۱ بپتسمہ ایک ہیجانخیز موقع ہوتا ہے! تاہم، ہمیں یہ توقع نہیں کرنی چاہئے کہ اس کے بعد زندگی کا ہر لمحہ اتنا ہی ہیجانخیز ہوگا۔ ہمارے مسیح میں تعمیر ہونے کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہے کہ ”جہاں تک ہم پہنچے ہیں اُسی کے مطابق چلیں۔“ (فلپیوں ۳:۱۶) اس سے مُراد بےکیف، بیزار کر دینے والا طرزِزندگی نہیں ہے۔ اس سے مُراد سیدھی راہ پر آگے بڑھتے جانا—باالفاظِدیگر، اچھی روحانی عادات پیدا کرنا اور اُن پر روزبروز، سالبسال قائم رہنا ہے۔ یاد رکھیں، ”جو آخر تک برداشت کریگا وہ نجات پائیگا۔“—متی ۲۴:۱۳۔
کیا آپ ”ایمان میں مضبوط“ ہیں؟
۱۲. ”ایمان میں مضبوط“ ہونے سے کیا مُراد ہے؟
۱۲ مسیح کیساتھ ساتھ چلنے کو بیان کرتے ہوئے، پولس اپنے تیسرے جزوِجملہ میں ہمیں ”ایمان میں مضبوط“ رہنے کی تاکید کرتا ہے۔ ایک ترجمہ اسے یوں بیان کرتا ہے، ”ایمان کی بابت پُریقین ہوں“ کیونکہ جس یونانی لفظ کو پولس نے استعمال کِیا اُسکا مطلب ”یقین دلانا، ضمانت دینا اور قانونی لحاظ سے ناقابلِتنسیخ قرار دینا“ ہو سکتا ہے۔ جُوںجُوں ہم علم میں ترقی کرتے ہیں، ہمیں یہ دیکھنے کی مزید وجوہات ملتی ہیں کہ یہوواہ خدا پر ہمارا ایمان پُختہ اور، درحقیقت، باضابطہ طور پر تصدیقشُدہ ہے۔ اسکا نتیجہ ہماری مضبوطی میں اضافہ ہے۔ یوں شیطان کی دُنیا کیلئے ہمیں گمراہ کرنا نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ بات ہمیں پولس کی اس نصیحت کی یاد دلاتی ہے کہ ”کمال [”پختگی،“ اینڈبلیو] کی طرف قدم بڑھائیں۔“ (عبرانیوں ۶:۱) پختگی اور مضبوطی لازموملزوم ہیں۔
۱۳، ۱۴. (ا) پہلی صدی میں کُلسّے کے مسیحیوں کو اپنی مضبوطی کے سلسلے میں کن خطرات کا سامنا تھا؟ (ب) کیا چیز پولس کیلئے تشویش کا باعث بن سکتی تھی؟
۱۳ کُلسّے میں پہلی صدی کے مسیحیوں کو اپنی مضبوطی کے سلسلے میں خطرات کا سامنا تھا۔ پولس نے آگاہ کِیا: ”خبردار کوئی شخص تم کو اُس فیلسوفی اور لاحاصل فریب سے شکار نہ کر لے جو انسانوں کی روایت اور دُنیوی ابتدائی باتوں کے موافق ہیں نہ کہ مسیح کے موافق۔“ (کلسیوں ۲:۸) پولس یہ نہیں چاہتا تھا کہ کُلسّے کے مسیحی، جو ”[خدا] کے عزیز بیٹے کی بادشاہی“ کی رعایا بن چکے تھے، اپنی بابرکت روحانی حالت سے محروم ہو جائیں یا بہہ کر دُور نکل جائیں۔ (کلسیوں ۱:۱۳) کس ذریعے سے گمراہ ہو گئے؟ پولس نے ”فیلسوفی“ کی نشاندہی کی، یہ لفظ ایک ہی مرتبہ بائبل میں آتا ہے۔ کیا وہ افلاطون اور سقراط جیسے یونانی فلاسفروں کا ذکر کر رہا تھا؟ اگرچہ ان سے بھی مسیحیوں کو خطرہ لاحق تھا، اُس زمانے میں، لفظ ”فیلسوفی“ وسیع مفہوم میں استعمال کِیا جاتا تھا۔ یہ بالعموم متعدد—بشمول مذہبی—گروہوں اور مکاتبفکر کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ مثال کے طور پر، جوزیفس اور فیلو جیسے پہلی صدی کے یہودیوں نے اپنے مذہب کو—غالباً اُسکی دلکشی بڑھانے کیلئے—فیلسوفی کا نام دیا۔
۱۴ بعض فیلسوفیاں جو پولس کیلئے باعثِتشویش تھیں وہ یقیناً مذہبی نوعیت کی تھیں۔ بعدازاں کلسیوں کے نام اپنے خط کے اسی باب میں، وہ ”اِسے نہ چھونا۔ اُسے نہ چکھنا۔ اُسے ہاتھ نہ لگانا“ کی تعلیم دینے والے لوگوں سے مخاطب ہوا اور یوں موسوی شریعت کے ایسے پہلوؤں کی طرف اشارہ کِیا جو مسیح کی موت سے منسوخ ہو گئے تھے۔ (رومیوں ۱۰:۴) مُلحدانہ فیلسوفیوں کیساتھ ساتھ، مسیحی کلیسیا کی روحانیت کو خطرے میں ڈالنے والے اثرات بھی کارفرما تھے۔ (کلسیوں ۲:۲۰-۲۲) پولس نے اُس فیلسوفی کیخلاف آگاہ کِیا جو ”دُنیوی ابتدائی باتوں“ کا حصہ تھی۔ ایسی جھوٹی تعلیم کا ماخذ انسان تھے۔
۱۵. ہم اُس غیرصحیفائی سوچ سے گمراہ ہونے سے کیسے بچ سکتے ہیں جسکا ہم اکثر سامنا کرتے ہیں؟
۱۵ ایسے انسانی نظریات اور اندازِفکر کو فروغ دینا جو پختگی سے خدا کے کلام پر مبنی نہ ہوں مسیحی مضبوطی کے لئے خطرہ پیدا کر سکتے ہیں۔ آجکل ہمیں ان خطرات سے خبردار رہنا چاہئے۔ یوحنا رسول نے تاکید کی: ”اَے عزیزو! ہر ایک روح [”الہامی اظہار،“ اینڈبلیو] کا یقین نہ کرو بلکہ روحوں [”الہامی اظہارات،“ اینڈبلیو] کو آزماؤ کہ وہ خدا کی طرف سے ہیں یا نہیں۔“ (۱-یوحنا ۴:۱) پس اگر کوئی ہممکتب آپ کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ بائبل معیاروں کے مطابق زندگی گزارنا دقیانوسی ہے یا اگر کوئی ہمسایہ آپ کو مادہپرستانہ رُجحان اپنانے کی ترغیب دینا چاہتا ہے یا اگر کوئی ساتھی کارکن اپنے بائبل سے تربیتیافتہ ضمیر کی خلافورزی کرنے کیلئے آپ پر خفیتہً دباؤ ڈالتا ہے یا اگر کوئی ساتھی ایماندار بھی کلیسیا کے دیگر لوگوں کی بابت اپنی ذاتی رائے پر مبنی تنقیدی، منفی باتیں کرتا ہے تو جوکچھ وہ کہتے ہیں اُس پر دھیان نہ دیں۔ خدا کے کلام کے منافی ہر بات کی مذمت کریں۔ جب ہم ایسا کرینگے تو ہم مسیح کیساتھ ساتھ چلتے ہوئے اپنی مضبوطی برقرار رکھینگے۔
”ایمان میں . . . خوب شکرگزاری“ کرنا
۱۶. مسیح کے ساتھ ساتھ چلنے کا چوتھا پہلو کیا ہے اور ہم کونسا سوال پوچھ سکتے ہیں؟
۱۶ مسیح کیساتھ ساتھ چلنے کے حوالے سے پولس جس چوتھے پہلو کا ذکر کرتا ہے وہ ہمارا ”ایمان میں . . . خوب شکرگزاری کرنا [”شکرگزاری سے سرشار ہونا،“ اینڈبلیو]“ ہے۔ (کلسیوں ۲:۷) لفظ ”سرشار“ سے ایک ایسا دریا ذہن میں آتا ہے جس کے کناروں سے پانی باہر بہہ رہا ہو۔ یہ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ مسیحیوں کے طور پر ہماری شکرگزاری کو ایک مسلسل یا مُدامی عمل ہونا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک خود سے پوچھ سکتا ہے، ’کیا مَیں شکرگزار ہوں؟‘
۱۷. (ا) یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ مشکل اوقات میں بھی ہم سب کے پاس شکرگزار ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں؟ (ب) یہوواہ کی بعض ایسی نعمتیں کونسی ہیں جن کیلئے آپ بالخصوص شکرگزار ہیں؟
۱۷ واقعی، ہمارے پاس ہر روز یہوواہ کی خوب شکرگزاری کرنے کی بیشمار وجوہات ہیں۔ مصیبت کے اوقات میں بھی بعض ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہو سکتی ہیں جو تسکین کے لمحات فراہم کرتی ہیں۔ جیسےکہ کوئی دوست ہمدردی سے پیش آتا ہے۔ کوئی عزیز ہمتافزا بات کہتا ہے۔ رات بھر کا آرام تازہدم کر دیتا ہے۔ مزیدار کھانا بھوک مٹا دیتا ہے۔ کسی پرندے کا گیت، ایک بچے کی ہنسی، چمکدار نیلگوں آسمان، تازگیبخش ٹھنڈی ہوا کا جھونکا—ایک ہی دن میں ہمیں ان سب کا اور ان سے بھی زیادہ کا تجربہ ہو سکتا ہے۔ ایسی نعمتوں کو معمولی خیال کرنا نہایت آسان ہے۔ کیا یہ سب کی سب شکریے کی مستحق نہیں ہیں؟ یہ سب یہوواہ کی طرف سے ہیں جو ”ہر اچھی بخشش اور ہر کامل انعام“ کا منبع ہے۔ (یعقوب ۱:۱۷) نیز اُس نے ہمیں ایسی نعمتیں بھی عطا فرمائی ہیں جو انہیں کم اہم بنا دیتی ہیں—مثلاً، زندگی۔ (زبور ۳۶:۹) مزیدبرآں، اُس نے ہمیں ہمیشہ تک زندہ رہنے کا موقع بخشا ہے۔ اس نعمت کو فراہم کرنے کی غرض سے، یہوواہ نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بھیج کر جو ”اُسکی خوشنودی“ تھا افضل قربانی پیش کی۔—امثال ۸:۳۰؛ یوحنا ۳:۱۶۔
۱۸. ہم یہوواہ کے حضور اپنی شکرگزاری کا اظہار کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۸ پس، زبورنویس کے الفاظ کس قدر سچ ہیں: ”کیا ہی بھلا ہے خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کا شکر کرنا۔“ (زبور ۹۲:۱) اسی طرح، پولس نے تھسلنیکے کے مسیحیوں کو یاددہانی کرائی: ”ہر ایک بات میں شکرگزاری کرو۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۸؛ افسیوں ۵:۲۰؛ کلسیوں ۳:۱۵) ہم سب زیادہ شکرگزار بننے کا عزم کر سکتے ہیں۔ ہماری دُعاؤں کو خدا کے حضور ہماری ضروریات سے متعلق مناجاتوں پر ہی مشتمل نہیں ہونا چاہئے۔ ایسی مناجاتیں پیش کرنے میں کوئی خرابی نہیں۔ تاہم ذرا ایسے دوست کی بابت سوچیں جو آپ سے صرف ضرورت کے وقت ہی بات کرتا ہے! پس کیوں نہ یہوواہ کا شکر بجا لانے اور اُسکی حمد کرنے کیلئے بھی دُعا کریں؟ جب وہ اس ناشکری دُنیا پر نگاہ کرتا ہے تو ایسی دُعائیں اُسے کتنی خوشی بخش سکتی ہیں! اسکا ایک ثانوی فائدہ یہ بھی ہے کہ ایسی دُعائیں ہمیں یہ یاد دلاتے ہوئے زندگی کے مثبت پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں کہ ہم درحقیقت کس قدر مبارک لوگ ہیں۔
۱۹. کلسیوں ۲:۶، ۷ میں پولس کا اندازِبیان اس بات کی دلالت کیسے کرتا ہے کہ ہم سب مسیح کیساتھ ساتھ چلنے کے عمل میں مسلسل بہتری پیدا کر سکتے ہیں؟
۱۹ کیا یہ حیرتافزا بات نہیں کہ خدا کے کلام کے ایک ہی اقتباس سے کتنی زیادہ دانشمندانہ ہدایت حاصل کی جا سکتی ہے؟ پولس کی مسیح کیساتھ ساتھ چلتے رہنے کی مشورت ایسی ہے جسے ہم سب کو دلنشین کرنے کے خواہاں ہونا چاہئے۔ آئیے پھر ’مسیح میں جڑ پکڑنے،‘ ”اُس میں تعمیر“ ہونے، ”ایمان میں مضبوط“ رہنے اور ’ خوب شکرگزاری‘ کرنے کا عزم کریں۔ ایسی مشورت نئے بپتسمہیافتہ لوگوں کیلئے بالخصوص اہم ہے۔ تاہم اسکا اطلاق ہم سب پر بھی ہوتا ہے۔ تصور کریں کہ کیسے ایک ابتدائی جڑ گہری سے گہری ہوتی جاتی ہے اور کیسے ایک زیرِتعمیر عمارت بلند سے بلندتر ہوتی جاتی ہے۔ اسی طرح ہمارا مسیح کیساتھ ساتھ چلنا کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ترقی کی کافی گنجائش ہے۔ یہوواہ ہماری مدد کریگا اور ہمیں برکت دیگا کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ ہم ابداُلآباد اُسکے اور اُسکے عزیز بیٹے کیساتھ ساتھ چلتے رہیں۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
◻مسیح کیساتھ ساتھ چلنے میں کیا کچھ شامل ہے؟
◻’مسیح میں جڑ پکڑنے‘ سے کیا مُراد ہے؟
◻ہم کیسے ’مسیح میں تعمیر‘ ہو سکتے ہیں؟
◻”ایمان میں مضبوط“ ہونا اتنا اہم کیوں ہے؟
◻ہمارے پاس ’خوب شکرگزاری‘ کرنے کی کیا وجوہات ہیں؟
[صفحہ 19 پر تصویر]
درخت کی جڑیں اگرچہ دکھائی نہیں دیتیں پھر بھی وہ اسے خوراک پہنچاتی اور اسے مضبوط رکھتی ہیں