آخری زمانہ—یہ کب ہوگا؟
فلکیات کے ایک میگزین کے حالیہ شمارے میں بیان کِیا گیا: ”ہمارا خیال ہے کہ بڑھتی ہوئی تپش کی وجہ سے ایک ارب سال کے اندر پوری زمین بنجر اور ویران ہو جائے گی اور انسان، جانور اور پودے اِس پر زندہ نہیں رہ پائیں گے۔“ اِس میگزین نے یہ بھی لکھا: ”سورج کی تپش اِس حد تک بڑھ جائے گی کہ سمندروں کا پانی اُبلنے لگے گا اور بّراعظم جل جائیں گے۔ یہ صورتحال ایک دردناک اور اٹل حقیقت ہے۔“
تاہم، پاک صحائف بیان کرتے ہیں: ”[خدا] نے زمین کو اُس کی بنیاد پر قائم کِیا تاکہ وہ کبھی جنبش نہ کھائے۔“ (زبور ۱۰۴:۵) واقعی صرف زمین کا خالق ہی اِسے قائم رکھ سکتا ہے۔ کیونکہ اُسی نے ”زمین بنائی اور . . . اُس کو آبادی کے لئے آراستہ کِیا۔“ (یسعیاہ ۴۵:۱۸) لیکن اُس نے زمین کو شریر انسانوں کے لئے نہیں بنایا تھا۔ دانیایل ۲:۴۴ میں بیان کِیا گیا ہے کہ خدا نے اپنی بادشاہت کو قائم کرنے کا وقت مقرر کِیا ہے۔ اِس بادشاہت کے ذریعے وہ شریر لوگوں کو تباہ کر دے گا۔
یسوع مسیح نے خدا کی بادشاہت کی مُنادی کی۔ اُس نے لوگوں کو خدا کی عدالت کے بارے میں بھی بتایا۔ اِس کے علاوہ، اُس نے ایک ایسی مصیبت کے آنے سے آگاہ کِیا جو پہلے کبھی دُنیا پر نہ آئی تھی۔ اُس نے دُنیا کے خاتمے کے بارے میں ایک نشان بھی دیا تاکہ ہم جان سکیں کہ یہ کب نزدیک ہوگا۔—متی ۹:۳۵؛ مرقس ۱۳:۱۹؛ لوقا ۲۱:۷-۱۱؛ یوحنا ۱۲:۳۱۔
چونکہ یسوع مسیح ایک بہت ہی اہم شخص تھا اِس لئے آج تک لوگ دُنیا کے خاتمے کے بارے میں اُس کی پیشینگوئیوں پر دھیان دیتے رہے ہیں۔ یہ پیشینگوئیاں کب پوری ہونی تھیں؟ بعض لوگوں نے بائبل کی پیشینگوئیوں اور تاریخ کا مطالعہ کرنے سے اِس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ خاتمے کا وقت کب ہوگا۔ اِس موضوع پر تحقیق کرنے والے لوگوں میں سے ایک سترھویں صدی کا ریاضیدان سر آئزک نیوٹن تھا جس نے کششِثقل کا قانون دریافت کِیا۔
یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا: ”اُن وقتوں اور میعادوں کا جاننا جنہیں باپ نے اپنے ہی اختیار میں رکھا ہے تمہارا کام نہیں۔“ (اعمال ۱:۷) اپنے ”آنے اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان“ دیتے وقت بھی یسوع نے بیان کِیا: ”اُس دن اور اُس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا۔ نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر صرف باپ۔“ (متی ۲۴:۳، ۳۶) اِس کے بعد یسوع نے نوح کے دنوں میں شریر لوگوں کی تباہی کا موازنہ اُس تباہی سے کِیا جو ’ابنِآدم کے آنے‘ کے وقت ہوگی۔ پھر اُس نے کہا: ”پس جاگتے رہو کیونکہ تُم نہیں جانتے کہ تمہارا خداوند کس دن آئے گا۔“—متی ۲۴:۳۹، ۴۲۔
اگرچہ اِس ”دُنیا“ پر آنے والے خاتمے کا وقت ہم پر آشکارا نہیں کِیا گیا توبھی یسوع مسیح کے دئے ہوئے ”نشان“ کی مدد سے ہم یہ جاننے کے قابل ہوں گے کہ ہم آخری زمانہ میں رہ رہے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱) پس ہمیں ’جاگتے رہنے‘ کی ضرورت ہے تاکہ ہم ”اِن سب ہونے والی باتوں سے بچنے اور ابنِآدم کے حضور کھڑے ہونے“ کے لائق ٹھہر سکیں۔—لوقا ۲۱:۳۶۔
نشان دینے سے پہلے یسوع مسیح نے آگاہ کِیا: ”خبردار! گمراہ نہ ہونا کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے کہ وہ مَیں ہی ہوں اور یہ بھی کہ وقت نزدیک آ پہنچا ہے۔ تُم اُن کے پیچھے نہ چلے جانا۔ اور جب لڑائیوں اور فسادوں کی افواہیں سنو تو گھبرا نہ جانا کیونکہ اُن کا پہلے واقع ہونا ضرور ہے لیکن اُس وقت فوراً خاتمہ نہ ہوگا۔“—لوقا ۲۱:۸، ۹۔
آخری زمانہ کا نشان کیا ہے؟
یسوع مسیح نے واضح کِیا کہ دُنیا میں ہونے والے کن واقعات سے یہ ظاہر ہوگا کہ ہم آخری زمانہ میں رہ رہے ہیں۔ اُس نے کہا: ”قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی۔ اور بڑے بڑے بھونچال آئیں گے اور جا بجا کال اور مری پڑے گی اور آسمان پر بڑی بڑی دہشتناک باتیں اور نشانیاں ظاہر ہوں گی۔“ (لوقا ۲۱:۱۰، ۱۱) یسوع مسیح نے یہ بھی کہا: ”بادشاہی کی اِس خوشخبری کی مُنادی تمام دُنیا میں ہوگی تاکہ سب قوموں کے لئے گواہی ہو۔ تب خاتمہ ہوگا۔“ (متی ۲۴:۱۴) یسوع مسیح نے جنگوں، زلزلوں، بیماریوں اور قحط کا ذکر کِیا۔ اِن سب واقعات کا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہوگی کیونکہ یہ سب کچھ انسانی تاریخ کے آغاز ہی سے ہو رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہوگا کہ یہ سب کچھ بڑے پیمانے پر ایک ہی وقت میں واقع ہوگا۔
ذرا سوچیں، یسوع مسیح نے آخری زمانے کے بارے میں جن باتوں کا ذکر کِیا، وہ کب ایک ساتھ واقع ہوئیں؟ سن ۱۹۱۴ سے، دو عالمی جنگیں ہوئی ہیں؛ ہولناک زلزلے اور سونامی آئے ہیں؛ جانلیوا بیماریاں مثلاً ملیریا، فلو اور ایڈز پھیلی ہیں؛ خوراک کی کمی کی وجہ سے لاکھوں لوگ مر گئے ہیں؛ دہشتگردی اور جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے پوری دُنیا میں خوف کی فضا پھیل گئی ہے۔ اِس کے علاوہ، یہوواہ کے گواہ دُنیابھر میں خوشخبری کی مُنادی کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ یسوع مسیح کی پیشینگوئی کے عین مطابق ہے۔
پولس رسول کے اِن الفاظ پر بھی غور کیجئے: ”یہ جان رکھ کہ اخیر زمانہ میں بُرے دن آئیں گے۔ کیونکہ آدمی خودغرض۔ زردوست۔ شیخیباز۔ مغرور۔ بدگو۔ ماںباپ کے نافرمان۔ ناشکر۔ ناپاک۔ طبعی محبت سے خالی۔ سنگدل۔ تہمت لگانے والے۔ بےضبط۔ تُندمزاج۔ نیکی کے دشمن۔ دغاباز۔ ڈھیٹھ۔ گھمنڈ کرنے والے۔ خدا کی نسبت عیشوعشرت کو زیادہ دوست رکھنے والے ہوں گے۔ وہ دینداری کی وضع تو رکھیں گے مگر اُس کے اثر کو قبول نہ کریں گے۔“ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵) جیہاں، اِن ’بُرے دنوں‘ میں پوری دُنیا میں بدعنوانی، بےدینی، ظلم اور خودغرضی عام ہیں۔a
تاہم، کیا اِس بات کا اَور بھی ثبوت موجود ہے کہ ہم واقعی اخیر زمانے میں رہ رہے ہیں؟ اِس زمانے کے آغاز کے بارے میں اَور کیا بتایا گیا ہے؟
آخری زمانہ کا آغاز کب ہوا؟
دانیایل نبی نے مستقبل میں ہونے والے واقعات کی جھلک دیکھنے کے بعد ”خاتمہ کے وقت“ کے بارے میں بیان کِیا: ”اُس وقت میکاؔئیل مقرب فرشتہ [یعنی یسوع مسیح] جو تیری قوم کے فرزندوں کی حمایت کے لئے کھڑا ہے اُٹھے گا۔“ (دانیایل ۱۲:۱؛ ۱۱:۴۰) میکائیل کیا کرے گا؟
مکاشفہ کی کتاب اُس وقت کا ذکر کرتی ہے جب میکائیل بادشاہ کے طور پر حکمرانی کرے گا: ”آسمان پر لڑائی ہوئی۔ میکاؔئیل اور اُس کے فرشتے اژدہا سے لڑنے کو نکلے اور اژدہا اور اُس کے فرشتے اُن سے لڑے۔ لیکن غالب نہ آئے اور اِس کے بعد آسمان پر اُن کے لئے جگہ نہ رہی۔ اور وہ بڑا اژدہا یعنی وہی پُرانا سانپ جو اِبلیس اور شیطان کہلاتا ہے اور سارے جہان کو گمراہ کر دیتا ہے زمین پر گِرا دیا گیا اور اُس کے فرشتے بھی اُس کے ساتھ گِرا دئے گئے۔ پس اَے آسمانو اور اُن کے رہنے والو خوشی مناؤ! اَے خشکی اور تری تُم پر افسوس! کیونکہ اِبلیس بڑے قہر میں تمہارے پاس اُتر کر آیا ہے۔ اِسلئےکہ جانتا ہے کہ میرا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے۔“—مکاشفہ ۱۲:۷-۹، ۱۲۔
خدا کے کلام میں واضح کِیا گیا ہے کہ اِس لڑائی کے ذریعے شیطان اور اُس کے فرشتوں کو آسمان سے نکال دیا جائے گا۔ لیکن یہ بات زمین کے لئے افسوس کا باعث ہوگی کیونکہ شیطان یہ جان کر غضبناک ہوگا کہ زمین پر حکمرانی کرنے کے لئے اُس کے پاس تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے۔ آخری زمانہ کے دوران اُس کا غصہ اُس وقت تک بڑھتا جائے گا جبتک اُسے ہرمجدون کی جنگ میں مکمل شکست نہ دی جائے گی۔—مکاشفہ ۱۶:۱۴، ۱۶؛ ۱۹:۱۱، ۱۵؛ ۲۰:۱-۳۔
آسمان میں ہونے والی اِس جنگ کے نتائج بتانے کے بعد یوحنا رسول نے بیان کِیا: ”مَیں نے آسمان پر سے یہ بڑی آواز آتی سنی کہ اب ہمارے خدا کی نجات اور قدرت اور بادشاہی اور اُس کے مسیح کا اختیار ظاہر ہوا کیونکہ ہمارے بھائیوں پر الزام لگانے والا جو رات دن ہمارے خدا کے آگے اُن پر الزام لگایا کرتا ہے گِرا دیا گیا۔“ (مکاشفہ ۱۲:۱۰) کیا آپ نے غور کِیا کہ جس وقت شیطان کو زمین پر گِرا دیا گیا اُس وقت یسوع مسیح کو بادشاہت کا اختیار مل چکا تھا؟ یہ بادشاہت سن ۱۹۱۴ میں آسمان پر قائم ہوئی۔b تاہم، جیساکہ زبور ۱۱۰:۲ میں لکھا ہے یسوع اُس وقت تک ”اپنے دشمنوں میں حکمرانی“ کرے گا جبتک اُس کی آسمانی بادشاہت زمین پر اختیار نہ سنبھال لے۔—متی ۶:۱۰۔
دلچسپی کی بات ہے کہ دانیایل نبی کو آنے والے واقعات کے بارے میں بتانے والے فرشتے نے یہ بھی کہا: ”تُو اَے دانیؔایل اِن باتوں کو بند کر رکھ اور کتاب پر آخری زمانہ تک مہر لگا دے۔ بہتیرے اِس کی تفتیشوتحقیق کریں گے اور دانش افزون ہوگی۔“ (دانیایل ۱۲:۴) اِس سے ہمیں اِس بات کا مزید ثبوت ملتا ہے کہ اب ہم ”اخیر زمانہ“ میں رہ رہے ہیں۔ اِن پیشینگوئیوں کا مطلب واضح ہو چکا ہے اور اب پوری دُنیا میں اِن کا اعلان کِیا جا رہا ہے۔c
آخری زمانہ کا اختتام کب ہوگا؟
پاک صحائف واضح طور پر یہ بیان نہیں کرتے کہ اخیر زمانہ کتنا طویل ہوگا۔ تاہم، جیسے جیسے شیطان کا وقت کم ہوتا جا رہا ہے زمین کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ اِس سلسلے میں پولس رسول نے پہلے ہی سے آگاہی دی تھی کہ ”بُرے اور دھوکاباز آدمی فریب دیتے اور فریب کھاتے ہوئے بگڑتے چلے جائیں گے۔“ (۲-تیمتھیس ۳:۱۳) یسوع مسیح نے بھی آنے والی باتوں کے متعلق بیان کِیا: ”وہ دن ایسی مصیبت کے ہوں گے کہ خلقت کے شروع سے جِسے خدا نے خلق کِیا نہ اب تک ہوئی ہے نہ کبھی ہوگی۔ اور اگر [یہوواہ] اُن دنوں کو نہ گھٹاتا تو کوئی بشر نہ بچتا مگر اُن برگزیدوں کی خاطر جن کو اُس نے چُنا اُن دنوں کو گھٹایا۔“—مرقس ۱۳:۱۹، ۲۰۔
مستقبل میں ایک ایسا عرصہ شروع ہوگا جسے خدا کے کلام میں ”بڑی مصیبت“ کہا گیا ہے۔ اِس مصیبت کے اختتام پر ہرمجدون کی لڑائی ہوگی اور شیطان اور اُس کے فرشتوں پر پابندی لگا دی جائے گی تاکہ وہ انسانوں پر اثرانداز نہ ہو سکیں۔ (متی ۲۴:۲۱) پاک صحائف بیان کرتے ہیں کہ ’خدا کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا۔‘ (ططس ۱:۲) اُسی نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ یہ سب کچھ ضرور واقع ہوگا۔ اُسی کی کارروائی کی وجہ سے ہرمجدون کی لڑائی ہوگی اور شیطان کو قید کِیا جائے گا۔
پولس رسول نے خدا کے الہام سے ہمیں بتایا کہ خدا کے ہاتھوں آنے والی تباہی سے پہلے کیا واقع ہوگا۔ ”وقتوں اور موقعوں“ کے سلسلے میں اُس نے لکھا: ”[یہوواہ] کا دِن اِس طرح آنے والا ہے جس طرح رات کو چور آتا ہے۔ جس وقت لوگ کہتے ہوں گے کہ سلامتی اور امن ہے اُس وقت اُن پر اِس طرح ناگہاں ہلاکت آئے گی جس طرح حاملہ کو درد لگتے ہیں اور وہ ہرگز نہ بچیں گے۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱-۳) یہاں یہ بیان نہیں کِیا گیا کہ کونسی بات ”سلامتی اور امن“ کے اعلان کا باعث بنے گی۔ یہ وقت ہی بتائے گا۔ تاہم، یہ اعلان یہوواہ کی عدالت کو نہ روک سکے گا۔
اگر ہم اِن پیشینگوئیوں پر یقین رکھتے ہیں تو ہمیں کچھ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ پطرس رسول نے اِس سوال کا جواب یوں دیا: ”جب یہ سب چیزیں اِس طرح پگھلنے والی ہیں تو تمہیں پاک چالچلن اور دینداری میں کیسا کچھ ہونا چاہئے۔ اور [یہوواہ] خدا کے اُس دن کے آنے کا کیسا کچھ منتظر اور مشتاق رہنا چاہئے۔“ (۲-پطرس ۳:۱۱، ۱۲) آپ شاید سوچیں کہ یہ دن مجھ پر کیسے اثرانداز ہوگا؟ اِس سوال کا جواب اگلے مضمون میں دیا جائے گا۔
[فٹنوٹ]
a ”اخیر زمانہ“ کے بارے میں مزید معلومات کے لئے یہوواہ کے گواہوں کے شائعکردہ مینارِنگہبانی اکتوبر ۱، ۲۰۰۵ صفحہ ۴-۷ کو پڑھیں۔
b اِس سلسلے میں مزید معلومات کے لئے یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ کتاب پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں کے صفحہ ۲۱۵-۲۱۸ کو پڑھیں۔
c اِن پیشینگوئیوں کے بارے میں مزید معلومات کے لئے یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ کتاب دانیایل کی نبوت پر دھیان دیں کو پڑھیں۔
[صفحہ ۵ پر عبارت]
یسوع مسیح نے فرمایا کہ ”اُس دن اور اُس گھڑی“ کے بارے میں صرف خدا جانتا ہے
[صفحہ ۴ پر تصویر]
سر آئزک نیوٹن
[تصویر کا حوالہ]
A. H. C./age fotostock ©
[صفحہ ۷ پر تصویریں]
یسوع مسیح کا دیا ہوا نشان سن ۱۹۱۴ سے ظاہر ہو رہا ہے
[تصویروں کے حوالہجات]
Heidi Bradner/Panos Pictures ©
Paul Smith/Panos Pictures ©