جو قیصر کا ہے قیصر کو ادا کرنا
”سب کا حق ادا کرو۔“—رومیوں ۱۳:۷۔
۱، ۲. (ا) یسوؔع کے مطابق، مسیحیوں کو خدا اور قیصر کے لئے اپنی ذمہداریوں کو کیسے متوازن کرنا چاہئے؟ (ب) یہوؔواہ کے گواہوں کی اوّلین فکر کیا ہے؟
یسوؔع کے مطابق، ایسی چیزیں ہیں جو ہم خدا کو ادا کرنے کے پابند ہیں اور ایسی چیزیں بھی ہیں جو ہم قیصر، یا حکومت کو ادا کرنے کے پابند ہیں۔ یسوؔع نے کہا: ”جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو۔“ ان چند الفاظ میں، اُس نے اپنے دشمنوں کو حیرت میں ڈال دیا اور بڑی خوبصورتی سے اُس متوازن رجحان کی تلخیص کی جو ہمیں خدا کیساتھ اپنے رشتے اور حکومت کیساتھ اپنے تعلقات میں رکھنا چاہئے۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ اُسکے سامعین ”اُس پر بڑا تعجب کرنے لگے۔“—مرقس ۱۲:۱۷۔
۲ بِلاشُبہ، یہوؔواہ کے خادموں کی اوّلین فکر خدا کی چیزیں خدا کو ادا کرنا ہے۔ (زبور ۱۱۶:۱۲-۱۴) تاہم، ایسا کرتے ہوئے، وہ یہ نہیں بھولتے کہ یسوؔع نے کہا تھا کہ بعض چیزیں اُنہیں قیصر کو ادا کرنی چاہئیں۔ بائبل سے تربیتیافتہ اُنکے ضمائر اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ دُعائیہ طور پر غور کریں کہ جوکچھ قیصر طلب کرتا ہے وہ کس حد تک ادا کر سکتے ہیں۔ (رومیوں ۱۳:۷) جدید وقتوں میں، بہتیرے قانوندانوں نے تسلیم کِیا ہے کہ حکومتی اقتدار کی اپنی حدود ہوتی ہیں اور یہ کہ ہر جگہ لوگ اور حکومتیں قانونِفطرت کے پابند ہیں۔
۳، ۴. قانونِفطرت، منکشف قانون، اور انسانی قانون کی بابت کونسے دلچسپ تبصرے کئے گئے ہیں؟
۳ پولسؔ رسول نے اس قانونِفطرت کا حوالہ دیا جب اُس نے دُنیا کے لوگوں کی بابت لکھا: ”جوکچھ خدا کی نسبت معلوم ہو سکتا ہے وہ اُنکے باطن میں ظاہر ہے۔ اسلئے کہ خدا نے اُسکو اُن پر ظاہر کر دیا۔ کیونکہ اُسکی اَندیکھی صفتیں یعنی اُسکی ازلی قدرت اور الُوہیت دُنیا کی پیدایش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معلوم ہوکر صاف نظر آتی ہیں۔ یہاں تک کہ اُن کو کچھ عُذر باقی نہیں۔“ اگر وہ اسکے لئے جوابیعمل دکھائینگے تو قانونِفطرت ان بےایمانوں کے ضمائر کو بھی تحریک دیگا۔ لہٰذا، پولسؔ نے مزید کہا: ”جب وہ قومیں جو شریعت نہیں رکھتیں اپنی طبیعت سے شریعت کے کام کرتی ہیں تو باوجود شریعت نہ رکھنے کے وہ اپنے لئے خود ایک شریعت ہیں۔ چنانچہ وہ شریعت کی باتیں اپنے دلوں پر لکھی ہوئی دکھاتی ہیں اور اُن کا دل [”ضمیر،“ اینڈبلیو] بھی اُن باتوں کی گواہی دیتا ہے۔“—رومیوں ۱:۱۹، ۲۰؛ ۲:۱۴، ۱۵۔
۴ ۱۸ویں صدی میں، مشہور انگریز قانوندان ولیمؔ بلیکسٹون نے لکھا: ”قدرت کا یہ قانون [قانونِفطرت]، نوعِانسان کا معاصر [ایک ہی زمانے کا] ہوتے ہوئے اور خود خدا کی طرف سے نافذالعمل ہوتے ہوئے، کسی بھی دوسرے قانون کی پابندی کے مقابلے میں بِلاشُبہ افضل ہے۔ یہ پوری دُنیا میں، تمام ممالک میں، اور تمام زمانوں میں لازم ہے: اسکے مخالف کوئی بھی انسانی قوانین کوئی حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔“ بلیکسٹون نے مزید، جیسےکہ بائبل میں پایا جاتا ہے، ”منکشف قانون“ کا ذکر کِیا اور اُس نے رائےزنی کی: ”تمام انسانی قوانین کا انحصار، ان دو بنیادوں، قدرت کے قانون اور منکشف قانون پر ہے؛ یعنی، کسی بھی طرح کے انسانی قوانین کو انکی تردید کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔“ جوکچھ یسوؔع نے خدا اور قیصر کی بابت کہا تھا یہ اُسی کی مطابقت میں ہے، جیسےکہ مرقس ۱۲:۱۷ میں درج ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے حلقے بھی ہیں جہاں جوکچھ قیصر ایک مسیحی سے تقاضا کر سکتا ہے خدا اُسے محدود کر دیتا ہے۔ صدرِعدالت بالکل اسی طرح حدود کو پار کر گئی جب اُنہوں نے رسولوں کو حکم دیا کہ یسوؔع کی بابت منادی کرنا بند کر دیں۔ لہٰذا، رسولوں نے درست طور پر جواب دیا: ”ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔“—اعمال ۵:۲۸، ۲۹۔
”جو خدا کا ہے“
۵، ۶. (ا) ۱۹۱۴ میں بادشاہت کی پیدائش کے پیشِنظر، مسیحیوں کو کس بات کو اچھی طرح ذہن میں رکھنا چاہئے؟ (ب) ایک مسیحی کیسے ثبوت پیش کرتا ہے کہ وہ خادم ہے؟
۵ بالخصوص ۱۹۱۴ سے لیکر، جب قادرِمطلق، یہوؔواہ خدا نے مسیح کی مسیحائی بادشاہت کے ذریعے بطور بادشاہ حکمرانی شروع کی تو مسیحیوں کو خدا کی چیزیں قیصر کو نہ دینے کے سلسلے میں پُراعتماد ہونا تھا۔ (مکاشفہ ۱۱:۱۵، ۱۷) پہلے سے کہیں زیادہ، اب خدا کا قانون مسیحیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ ”دُنیا کے نہیں۔“ (یوحنا ۱۷:۱۶) اپنے زندگی دینے والے، خدا، کیلئے مخصوص ہوتے ہوئے، اُنہیں صاف طور پر اس چیز کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ وہ اب سے اپنی ذات کے نہیں ہیں۔ (زبور ۱۰۰:۲، ۳) جیسے پولسؔ نے لکھا، ”ہم خداوند ہی کے ہیں۔“ (رومیوں ۱۴:۸) مزیدبرآں، ایک مسیحی کے بپتسمہ کے موقع پر، وہ خدا کے خادم کے طور پر مقرر ہو جاتا ہے، اس طرح وہ پولسؔ کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے: ”[خدا] . . . نے ہم کو . . . خادم ہونے کے لائق بھی کِیا۔“—۲-کرنتھیوں ۳:۵، ۶۔
۶ پولسؔ رسول نے یہ بھی لکھا: ”مَیں . . . اپنی خدمت کی بڑائی کرتا ہوں۔“ (رومیوں ۱۱:۱۳) یقینی طور پر ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔ خواہ ہم خدمتگزاری میں کُلوقتی یا جُزوقتی حصہ لیں، ہم یہ بات ذہن میں رکھتے ہیں کہ یہوؔواہ خود ہمیں ہماری خدمتگزاری تفویض کرتا ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۲:۱۷) چونکہ بعض لوگ ہمارے مؤقف پر اعتراض کر سکتے ہیں، ہر مخصوصشُدہ، بپتسمہیافتہ مسیحی کو اس بات کا واضح اور مثبت ثبوت پیش کرنے کے لئے تیار ہونا چاہئے کہ وہ واقعی خوشخبری کا خادم ہے۔ (۱-پطرس ۳:۱۵) اُس کی خدمتگزاری کو اُس کے چالچلن سے بھی ظاہر ہونا چاہئے۔ خدا کے خادم کے طور پر، ایک مسیحی کو پاک اخلاقی اصولوں کی تائید کرنی اور عمل میں لانا چاہئے، خاندانی اتحاد کے وقار کو بلند رکھنا، دیانتدار ہونا، اور نظمونسق کے لئے احترام ظاہر کرنا چاہئے۔ (رومیوں ۱۲:۱۷، ۱۸؛ ۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۵) ایک مسیحی کا خدا کے ساتھ رشتہ اور الہٰی طور پر تفویضشُدہ اُس کی خدمتگزاری اُس کی زندگی میں نہایت اہم چیزیں ہیں۔ وہ قیصر کے حکم کی تعمیل کرنے کے لئے انہیں چھوڑ نہیں سکتا۔ واضح طور پر، ”جو خدا کا ہے“ انہیں اُس میں شمار کِیا جانا چاہئے۔
”جو قیصر کا ہے“
۷. ٹیکس ادا کرنے کے سلسلے میں یہوؔواہ کے گواہوں کی شہرت کیسی ہے؟
۷ یہوؔواہ کے گواہ جانتے ہیں کہ وہ سرکاری حکام، ”اعلےٰ حکومتوں کا تابعدار“ رہنے کے پابند ہیں۔ (رومیوں ۱۳:۱) لہٰذا، جب قیصر، یعنی حکومت، جائز مطالبات کرتی ہے تو اُنکے بائبل سے تربیتیافتہ ضمائر اُنہیں ان مطالبات کو پورا کرنے دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، سچے مسیحی زمین پر نہایت مثالی ٹیکس ادا کرنے والوں میں سے ہیں۔ جرمنؔ میں اخبار منچز مرکر نے یہوؔواہ کے گواہوں کی بابت کہا: ”وہ وفاقی جمہوریہ میں سب سے زیادہ دیانتدار اور سب سے زیادہ بروقت ٹیکس ادا کرنے والے ہیں۔“ اٹلیؔ میں اخبار لا سٹیمپا نے بیان کِیا: ”وہ [یہوؔواہ کے گواہ] سب سے زیادہ وفادار شہری ہیں جنکی کوئی خواہش کر سکتا ہے: وہ ٹیکسوں سے کترانے یا اپنے نفع کیلئے تکلیفدہ قوانین کو نظرانداز کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔“ یہوؔواہ کے خادم ’اپنے ضمائر کی وجہ سے‘ ایسا کرتے ہیں۔—رومیوں ۱۳:۵، ۶۔
۸. جوکچھ ہم قیصر کو ادا کرنے کے پابند ہیں کیا وہ محض روپے پیسے کی صورت میں ٹیکسوں تک محدود ہے؟
۸ کیا ”جو قیصر کا ہے“ وہ صرف ٹیکس ادا کرنے کی حد تک محدود ہے؟ نہیں۔ پولسؔ نے خوف اور تعظیم جیسی دیگر چیزوں کو بھی تحریر کِیا۔ اپنی کریٹیکل اینڈ ایکسیگیٹیکل ہینڈ-بُک ٹو دی گوسپل آف میتھیو میں، جرمن سکالر ہؔینرک میئر نے لکھا: ”[قیصر کی چیزوں] کو . . . ہمیں صرف شہری محصول ہی نہیں سمجھنا چاہئے، بلکہ ہر وہ چیز جسکا قیصر اپنی جائز حکمرانی کو بُروُئےکار لاتے ہوئے حقدار ہے۔“ مؤرخ ای. ڈبلیو. باؔرنز نے اپنی کتاب دی رائز آف کرسچیئنٹی میں بیان کِیا کہ ایک مسیحی اُسی صورت میں ٹیکس ادا کریگا اگر وہ اس پر واجب ہیں اور ”اسی طرح دیگر تمام حکومتی ذمہداریوں کو قبول کریگا، بشرطیکہ اُس سے قیصر کو وہ چیزیں دینے کا تقاضا نہ کِیا جائے جو خدا کی ملکیت ہیں۔“
۹، ۱۰. قیصر کو اپنے واجبات ادا کرنے کی بابت ایک مسیحی کو کونسی ہچکچاہٹ ہو سکتی ہے، لیکن کونسے حقائق ذہن میں رکھنے چاہئیں؟
۹ حکومت اُن چیزوں پر قبضہ کئے بغیر جو بجا طور پر خدا کی ملکیت ہیں کن چیزوں کا تقاضا کر سکتی ہے؟ بعض نے یہ محسوس کِیا ہے کہ وہ جائز طور پر ٹیکسوں کی شکل میں قیصر کو پیسہ دے سکتے ہیں لیکن اَور کچھ نہیں۔ یقینی طور پر، وہ قیصر کو کوئی بھی ایسی چیز دینے سے تسکین محسوس نہیں کرینگے جو اُس وقت کو کھا جائیگی جو تھیوکریٹک کارگزاریوں کیلئے صرف کِیا جا سکتا تھا۔ تاہم، جبکہ یہ سچ ہے کہ ہمیں ’یہوؔواہ اپنے خدا سے اپنے پورے دل، جان، عقل، اور طاقت سے محبت‘ کرنی چاہئے، یہوؔواہ ہم سے اپنی پاک خدمت کے علاوہ دیگر چیزوں میں بھی وقت صرف کرنے کی توقع کرتا ہے۔ (مرقس ۱۲:۳۰؛ فلپیوں ۳:۳) مثال کے طور پر، ایک شادیشُدہ مسیحی کو اپنے بیاہتا ساتھی کو خوش رکھنے میں وقت صرف کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ایسی کارگزاریاں غلط نہیں ہیں، لیکن پولسؔ رسول بیان کرتا ہے کہ وہ ”دُنیا کی فکر“ ہے نہکہ ”خداوند کی فکر۔“—۱-کرنتھیوں ۷:۳۲-۳۴؛ مقابلہ کریں ۱-تیمتھیس ۵:۸۔
۱۰ مزیدبرآں، مسیح نے اپنے پیروکاروں کو ٹیکس ”ادا“ کرنے کی اجازت دی، اور اس میں یقیناً اُس وقت کو استعمال کرنا شامل تھا جو یہوؔواہ کے لئے مخصوص ہے—چونکہ ہماری ساری زندگیاں اسی طرح سے مخصوص ہیں۔ اگر ایک ملک میں اوسط شرحمحاصل آمدنی کا ۳۳ فیصد ہے (بعض ممالک میں یہ زیادہ ہے) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سال اوسط کارکن چار ماہ کے برابر اپنی آمدنی حکومتی خزانے کو ادا کرتا ہے۔ باالفاظِدیگر، اپنی کاروباری زندگی کے اختتام پر، اوسط درجے کا کارکن ”قیصر“ کی طرف سے مطلوب زرِمحاصل کمانے میں تقریباً ۱۵ سال صرف کر چکا ہوگا۔ سکول کی تعلیم کے معاملے پر بھی غور کریں۔ زیادہتر ممالک میں قانون والدین سے اپنے بچوں کو کم سے کم سالوں کے لئے سکول بھیجنے کا تقاضا کرتا ہے۔ سکول کی تعلیم کے سالوں کی تعداد ہر ملک میں مختلف ہے۔ زیادہتر جگہوں میں، یہ کافی طویل عرصہ ہوتا ہے۔ سچ ہے کہ ایسی سکول کی تعلیم عموماً مفید ہوتی ہے، لیکن یہ قیصر ہی ہوتا ہے جو فیصلہ کرتا ہے کہ بچے کی زندگی کا کتنا حصہ اسطرح صرف کِیا جائے، اور مسیحی والدین قیصر کے فیصلے کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
لازم فوجی خدمات
۱۱، ۱۲. (ا) بہتیرے ممالک میں قیصر کیا مطالبہ کرتا ہے؟ (ب) ابتدائی مسیحی فوجی خدمات کو کیسا خیال کرتے تھے؟
۱۱ بعض ممالک میں قیصر کی طرف سے کِیا جانے والا ایک اَور مطالبہ لازمی فوجی خدمات ہوتی ہیں۔ ۲۰ویں صدی میں، بہت سی قوموں نے جنگ کے اوقات میں اور بعض نے امن کے اوقات میں بھی اس انتظام کو نافذ کِیا ہے۔ فرانسؔ میں کئی سالوں تک اس فریضے کو محصولِخون کہا جاتا تھا، مطلب یہ کہ ہر جوان شخص کو ملک کے لئے اپنی جان قربان کرنے کو تیار رہنا ہوتا تھا۔ کیا یہ ایسی چیز ہے جسے یہوؔواہ کیلئے مخصوص لوگ فرضشناسی سے پیش کر سکتے ہیں؟ پہلی صدی کے مسیحیوں نے اس معاملے کو کیسا خیال کِیا تھا؟
۱۲ اگرچہ ابتدائی مسیحیوں نے اچھے شہری بننے کی کوشش کی توبھی اُنکے ایمان نے اُنہیں ایکدوسرے کی زندگی لینے یا حکومت کیلئے اپنی زندگیاں قربان کرنے سے باز رکھا۔ دی انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن بیان کرتا ہے: ”ٹرٹولینؔ اور اؔوریگن سمیت، ابتدائی چرچ فادروں نے تسلیم کِیا کہ مسیحیوں کو انسانی زندگی لینے سے منع کِیا گیا تھا، ایک ایسا اصول جس نے اُنہیں رومی فوج میں شامل ہونے سے باز رکھا۔“ اپنی کتاب دی ارلی چرچ اینڈ دی ورلڈ، میں پروفیسر سی.جے. کاؔڈو کس لکھتا ہے: ”مارکسؔ اوریلیئس کے دورِحکومت تک [۱۶۱-۱۸۰ س.ع.] کسی بھی صورت میں، کوئی مسیحی اپنے بپتسمہ کے بعد فوجی نہ بنا۔“
۱۳. مسیحی دُنیا کے اندر بہتیرے فوجی خدمات کو ویسا خیال کیوں نہیں کرتے جیساکہ ابتدائی مسیحی کرتے تھے؟
۱۳ دُنیائےمسیحیت کی کلیسیاؤں کے رُکن آجکل چیزوں کو اس نقطۂنظر سے کیوں نہیں دیکھتے؟ اُس بنیادی تبدیلی کی وجہ سے جو چوتھی صدی میں واقع ہوئی۔ ایک کیتھولک اشاعت اے ہسٹری آف دی کرسچئین کونسلز وضاحت کرتی ہے: ”بہتیرے مسیحی . . . مُلحد شہنشاہوں کے تحت، فوجی خدمات کے سلسلے میں مذہبی معیار رکھتے تھے، اور مثبت انداز میں ہتھیار اُٹھانے سے انکار کرتے تھے، یا پھر بِلااجازت فوج چھوڑ کر چلے آئے۔ قسطنطینؔ کی طرف سے متعارفکردہ تبدیلیوں کے پیشِنظر، [۳۱۴ س.ع. میں منعقد ہونے والے، آرلز کے] کلیسیائی اجلاس نے اس فریضے کو وضع کِیا کہ مسیحیوں کو جنگ میں حصہ لینا پڑیگا، . . . کیونکہ کلیسیا مسیحیوں کیلئے ایک بامروّت بادشاہ کے سائے میں امن سے کام کر رہی ہے۔“ اُسوقت سے لیکر اب تک، یسوؔع کی تعلیمات سے اس انحراف کے نتیجے کے طور پر، مسیحی دُنیا کے پادریوں نے ملکوں کی افواج میں خدمت کرنے کیلئے اپنے گلّوں کی حوصلہافزائی کی ہے، اگرچہ بعض اشخاص نے بااصول اعتراض کرنے والوں کے طور پر مؤقف اختیار کِیا ہے۔
۱۴، ۱۵. (ا) کن بنیادوں پر بعض جگہوں میں مسیحی فوجی خدمات سے چھوٹ حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں؟ (ب) جہاں چھوٹ نہیں دی جاتی، وہاں فوجی خدمات کے سلسلے میں ایک درست فیصلہ کرنے کیلئے کونسے صحیفائی اصول ایک مسیحی کی مدد کرینگے؟
۱۴ کیا آجکل مسیحی اس معاملے میں اکثریت کی پیروی کرنے کے پابند ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اگر کوئی مخصوصشُدہ، بپتسمہیافتہ مسیحی کسی ایسے ملک میں رہتا ہے جہاں مذہبی خادموں کو فوجی خدمات سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے تو وہ اس سہولت سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے کیونکہ وہ درحقیقت ایک خادم ہی ہے۔ (۲-تیمتھیس ۴:۵) بہت سے ممالک، بشمول ریاستہائےمتحدہ اور آسٹرؔیلیا، نے جنگ کے وقت میں بھی ایسی چھوٹ دے رکھی ہے۔ اور امن کے وقت کے دوران، بہت سے ممالک میں جو لازم فوجی خدمات کو برقرار رکھتے ہیں، یہوؔواہ کے گواہوں کو، مذہبی خادموں کے طور پر مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ یوں وہ اپنی عوامی خدمات سے لوگوں کی مدد کرنا جاری رکھ سکتے ہیں۔
۱۵ تاہم، اگر مسیحی ایسے ملک میں رہتا ہے جہاں مذہب کے خادموں کو چھوٹ نہیں دی گئی تو اُسوقت کیا ہو؟ پھر اُسے اپنے بائبل سے تربیتیافتہ ضمیر کی بات مانتے ہوئے ذاتی فیصلہ کرنا پڑیگا۔ (گلتیوں ۶:۵) قیصر کے اختیار کا خیال رکھتے ہوئے، وہ بڑی احتیاط سے اندازہ لگائے گا کہ وہ یہوؔواہ کو کیا دینے کا پابند ہے۔ (زبور ۳۶:۹؛ ۱۱۶:۱۲-۱۴؛ اعمال ۱۷:۲۸) ایک مسیحی یاد رکھیگا کہ سچی مسیحیت کا نشان اپنے تمام ساتھی ایمانداروں کیلئے محبت ہے، خواہ وہ دوسرے ممالک میں رہتے ہوں یا دوسرے قبائل سے تعلق رکھتے ہوں۔ (یوحنا ۱۳:۳۴، ۳۵؛ ۱-پطرس ۲:۱۷) اسکے علاوہ، وہ یسعیاہ ۲:۲-۴؛ متی ۲۶:۵۲؛ رومیوں ۱۲:۱۸؛ ۱۴:۱۹؛ ۲-کرنتھیوں ۱۰:۴؛ اور عبرانیوں ۱۲:۱۴ جیسی آیات میں پائے جانے والے صحیفائی اصولوں کو بھی فراموش نہیں کریگا۔
کشوری خدمات
۱۶. بعض ممالک میں، جو لوگ فوجی خدمات قبول نہیں کرتے اُن سے قیصر کونسی غیرفوجی خدمات کا مطالبہ کرتا ہے؟
۱۶ تاہم، ایسے ممالک بھی ہیں جہاں حکومت، مذہبی خادموں کو مستثنیٰ قرار نہ دینے کے باوجود تسلیم کرتی ہے کہ بعض افراد فوجی خدمات پر اعتراض کر سکتے ہیں۔ ان ممالک میں سے بہتیرے ایسے بااصول لوگوں کیلئے فوجی خدمات پر مجبور نہ کئے جانے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ بعض جگہوں پر ایک مطلوبہ کشوری خدمت، جیسےکہ معاشرے میں مفید کام، کو غیرفوجی قومی خدمت خیال کِیا جاتا ہے۔ کیا ایک مخصوصشُدہ مسیحی ایسی خدمت انجام دینے کی ذمہداری اُٹھائے گا؟ یہاں پھر، ایک مخصوصشُدہ، بپتسمہیافتہ مسیحی کو بائبل سے تربیتیافتہ اپنے ضمیر کی بِنا پر ذاتی فیصلہ کرنا ہوگا۔
۱۷. کیا غیرفوجی کشوری خدمات کی کوئی بائبلی مثال موجود ہے؟
۱۷ یہ معلوم ہوتا ہے کہ بائبل وقتوں میں لازم خدمات سرانجام دی جاتی تھیں۔ تاریخ کی ایک کتاب بیان کرتی ہے: ”یہوؔدیہ کے لوگوں سے وصول کئے جانے والے ٹیکسوں اور واجبات کے علاوہ، بیگار بھی لی جاتی تھی۔ یہ مشرق میں ایک قدیم روایت تھی جسے یونانی اور رومی حکومتوں نے قائم رکھا۔ . . . اس بات کو ظاہر کرتے ہوئے کہ یہ کسقدر عام بات تھی، نیا عہدنامہ بھی یہوؔدیہ میں بیگار کی مثالوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس دستور کی مطابقت میں، سپاہیوں نے یسوؔع کی صلیب [دُکھ کی سولی] اُٹھانے کیلئے شمعوؔن کُرینی کو بیگار میں پکڑا تھا (متی ۵:۴۱؛ ۲۷:۳۲؛ مرقس ۱۵:۲۱؛ لوقا ۲۳:۲۶)۔“
۱۸. سماجی خدمت کی کونسی غیرفوجی، غیرمذہبی اقسام کے سلسلے میں یہوؔواہ کے گواہ اکثر تعاون کرتے ہیں؟
۱۸ اسی طرح، آجکل بعض ممالک میں شہریوں سے حکومت کی طرف سے یا مقامی حکام کی طرف سے معاشرتی خدمات کی مختلف اقسام میں شرکت کرنے کا تقاضا کِیا جاتا ہے۔ بعضاوقات یہ ایک خاص کام کیلئے ہوتا ہے، جیسےکہ کنویں کھودنا یا سڑکیں بنانا؛ بعضاوقات یہ باقاعدہ بنیاد پر ہوتا ہے، جیسےکہ سڑکوں، سکولوں، ہسپتالوں کو صاف کرنے میں ہفتہوار شرکت۔ جہاں ایسی کشوری خدمت معاشرے کی بھلائی کیلئے ہے اور جھوٹے مذہب سے منسلک نہیں یا کسی بھی دوسرے طریقے سے یہوؔواہ کے گواہوں کے ضمائر کیلئے قابلِاعتراض نہیں ہے تو اُنہوں نے اکثر تعمیل کی ہے۔ (۱-پطرس ۲:۱۳-۱۵) یہ عموماً عمدہ گواہی پر منتج ہوا ہے اور بعض اوقات گواہوں پر حکومت کے مخالف ہونے کا جھوٹا الزام لگانے والوں کا مُنہ بند کر دیا ہے۔—مقابلہ کریں متی ۱۰:۱۸۔
۱۹. اگر قیصر اُسے کچھ مدت کیلئے غیرفوجی قومی خدمت انجام دینے کا حکم دیتا ہے تو ایک مسیحی کو اس معاملے کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟
۱۹ تاہم، اگر حکومت ایک مسیحی سے غیرفوجی انتظام کے تحت کچھ عرصہ کیلئے کشوری خدمت سرانجام دینے کا تقاضا کرتی ہے جو قومی خدمت کا ایک حصہ ہے تو اُسوقت کیا ہو؟ یہاں پھر، مسیحیوں کو ایک تربیتیافتہ ضمیر پر مبنی اپناذاتی فیصلہ کرنا چاہئے۔ ”ہم تو سب خدا کے تختعدالت کے آگے کھڑے ہونگے۔“ (رومیوں ۱۴:۱۰) قیصر کے تقاضے کا سامنا کرنے والے مسیحیوں کو دُعائیہ طور پر معاملے کو پرکھنا چاہئے اور اس پر سوچبچار کرنی چاہئے۔a کلیسیا میں پُختہ مسیحیوں کے ساتھ معاملے پر باتچیت کرنا بھی دانشمندی کی بات ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد ذاتی فیصلہ کِیا جانا چاہئے۔—امثال ۲:۱-۵؛ فلپیوں ۴:۵۔
۲۰. غیرفوجی قومی کشوری خدمت کے معاملے پر استدلال کرنے کیلئے کونسے سوالات اور صحیفائی اصول ایک مسیحی کی مدد کرتے ہیں؟
۲۰ ایسی تحقیق میں مصروف ہونے کے ساتھ، مسیحی متعدد بائبل اصولوں پر بھی دھیان دینگے۔ پولسؔ نے لکھا کہ ہمیں چاہئے کہ ”حاکموں اور اختیار والوں کے تابع رہیں . . . ہر نیک کام کے لئے مستعد رہیں۔ . . . نرممزاج ہوں اور سب آدمیوں کے ساتھ کمال حلیمی سے پیش آئیں۔“ (ططس ۳:۱، ۲) اس کے ساتھ ہی ساتھ، یہ اچھا ہوگا کہ مسیحی مجوزہ کشوری کام کا جائزہ لیں۔ اگر وہ اسے قبول کرتے ہیں تو کیا وہ مسیحی غیرجانبداری کو برقرار رکھنے کے قابل ہونگے؟ (میکاہ ۴:۳، ۵؛ یوحنا ۱۷:۱۶) کیا یہ اُنہیں کسی جھوٹے مذہب میں اُلجھا دے گا؟ (مکاشفہ ۱۸:۴، ۲۰، ۲۱) کیا اسے انجام دینا اُنہیں اُن کی مسیحی ذمہداریوں کو پورا کرنے سے باز رکھے گا یا نامعقول طور پر روکے گا؟ (متی ۲۴:۱۴؛ عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵) دوسری جانب، مطلوبہ خدمت انجام دینے کے ساتھ کُلوقتی خدمت میں بھی حصہ لیتے ہوئے، کیا وہ روحانی ترقی جاری رکھنے کے قابل ہونگے؟—عبرانیوں ۶:۱۱، ۱۲۔
۲۱. اُسکا فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو، کلیسیا کو اُس بھائی کو کیسا خیال کرنا چاہئے جو غیرفوجی قومی کشوری خدمت کے معاملے سے نپٹ رہا ہے؟
۲۱ اُسوقت کیا ہو اگر ایسے سوالات کے لئے ایک مسیحی کا جواب اُس کے لئے یہ نتیجہ اخذ کرنے کا باعث بنتا ہے کہ قومی کشوری خدمت ایسا ”نیک کام“ ہے جو وہ حکام کی تابعداری میں انجام دے سکتا ہے؟ یہ یہوؔواہ کے حضور اُسکا فیصلہ ہے۔ مقررہ بزرگوں اور دیگر اشخاص کو اُس بھائی کے ضمیر کا پورا احترام کرنا چاہئے اور اُسے ایک اچھی حیثیت رکھنے والے مسیحی کے طور پر خیال کرتے رہنا چاہئے۔ تاہم، اگر، ایک مسیحی محسوس کرتا ہے کہ وہ اس کشوری خدمت کو انجام نہیں دے سکتا تو اُس کے مؤقف کا بھی احترام کِیا جانا چاہئے۔ وہ بھی اچھی حیثیت برقرار رکھتا ہے اور اُس کی بھی پُرمحبت حمایت کی جانی چاہئے۔—۱-کرنتھیوں ۱۰:۲۹؛ ۲-کرنتھیوں ۱:۲۴؛ ۱-پطرس ۳:۱۶۔
۲۲. ہمیں خواہ کیسی ہی صورتحال درپیش ہو، ہم کیا کرنا جاری رکھینگے؟
۲۲ مسیحیوں کے طور پر ہم ”جس کی عزت کرنا چاہئے اُسکی عزت“ کرنا بند نہیں کریں گے۔ (رومیوں ۱۳:۷) ہم اچھے انتظام کی عزت کرینگے اور پُرامن، قانون کے پابند شہری بننے کی کوشش کریں گے۔ (زبور ۳۴:۱۴) جب ان لوگوں سے ایسے فیصلے کرنے کے لئے کہا جاتا ہے جو ہماری مسیحی زندگی اور کام پر اثرانداز ہوتے ہیں تو ہم ”بادشاہوں اور سب بڑے مرتبہ والوں کے واسطے“ دُعا بھی کر سکتے ہیں۔ ہمارے قیصر کی چیزیں قیصر کو ادا کرنے کے نتیجے میں، ہم اُمید کرتے ہیں کہ ”ہم کمال دینداری [”خدائی عقیدت،“ اینڈبلیو] اور سنجیدگی سے امنوآرام کے ساتھ زندگی گذار“ سکتے ہیں۔ (۱-تیمتھیس ۲:۱، ۲) سب سے بڑھکر، ہم فرضشناسی سے خدا کی چیزیں خدا کو ادا کرتے ہوئے، نوعِانسان کی واحد اُمید کے طور پر بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کرنا جاری رکھینگے۔ (۱۵ ۰۵/۰۱ w۹۶)
[فٹنوٹ]
a دیکھیں مئی ۱۵، ۱۹۶۴ کامینارِنگہبانی (انگریزی)، صفحہ ۳۰۸، پیراگراف ۲۱۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
▫ قیصر اور یہوؔواہ کیساتھ اپنے تعلقات کو متوازن رکھنے کے سلسلے میں، ایک مسیحی کی اوّلین فکر کیا ہے؟
▫ ہم یہوؔواہ کو کیا ادا کرنے کے پابند ہیں جو ہم قیصر کو کبھی بھی پیش نہیں کر سکتے؟
▫ بعض کونسی ایسی چیزیں ہیں جو ہم موزوں طور پر قیصر کو ادا کرتے ہیں؟
▫ لازم فوجی خدمات کے سلسلے میں درست فیصلہ کرنے کیلئے کونسے صحائف ہماری مدد کرتے ہیں؟
▫ اگر ہم سے غیرفوجی قومی کشوری خدمات کا مطالبہ کِیا جاتا ہے تو ذہن میں رکھنے کیلئے بعض باتیں کونسی ہیں؟
▫ یہوؔواہ اور قیصر کے سلسلے میں ہمیں کیا کرتے رہنا ہے؟
[تصویر]
رسولوں نے صدرِعدالت کو بتایا: ”ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے“