کمزور ازدواجی بندھن کو مضبوط بنانے کی کوشش نہ چھوڑیں
”جن کا بیاہ ہو گیا ہے اُن کو مَیں نہیں بلکہ خداوند حکم دیتا ہے۔“—۱-کر ۷:۱۰۔
نیچے دئے گئے سوالوں کے جواب دیں:
یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ یہوواہ خدا نے شوہر اور بیوی کو ”جوڑا ہے“؟
بزرگ اُن مسیحیوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں جن کی ازدواجی زندگی مسائل کا شکار ہے؟
ہمیں شادی کے بندھن کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟
۱. مسیحیوں کو ازدواجی بندھن کو کیسا خیال کرنا چاہئے اور کیوں؟
جب ایک مسیحی مرد اور عورت شادی کرتے ہیں تو وہ خدا کے سامنے زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کا عہد باندھتے ہیں۔ اِس لئے ازدواجی بندھن کو بہت سنجیدہ خیال کِیا جانا چاہئے۔ (واعظ ۵:۴-۶) چونکہ یہوواہ خدا شادی کا بانی ہے اِس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُسی نے شوہر اور بیوی کو ”جوڑا ہے“ یعنی اُنہیں شادی کے بندھن میں باندھا ہے۔ (مر ۱۰:۹) بعض صورتوں میں اگر حکومت شادی کو توڑنے کی اجازت دے بھی دے تو بھی خدا کی نظر میں یہ بندھن نہیں ٹوٹتا۔ اگر ایک جوڑا اُس وقت یہوواہ کا گواہ نہیں تھا جب اُن کی شادی ہوئی تھی تو پھر بھی اُنہیں اپنے بندھن کو قائم رکھنا چاہئے۔
۲. اِس مضمون میں ہم کن سوالوں کے جواب حاصل کریں گے؟
۲ ایک کامیاب شادی بہت ساری خوشیاں لا سکتی ہے۔ لیکن اگر میاںبیوی کا رشتہ خوشگوار نہیں ہے تو وہ کیا کر سکتے ہیں؟ کیا ایک کمزور ازدواجی بندھن کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے؟ ایسے میاںبیوی کہاں سے مدد حاصل کر سکتے ہیں جن کی ازدواجی زندگی مسائل میں گِھری ہوئی ہے؟
شادی—ایک خوشی یا ہمیشہ کا غم
۳، ۴. اگر ایک مسیحی اپنے جیونساتھی کا انتخاب کرنے کے سلسلے میں سمجھداری سے فیصلہ نہیں کرتا تو کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟
۳ جب مسیحی جوڑے ایک کامیاب ازدواجی زندگی گزارتے ہیں تو اُنہیں خوشی حاصل ہوتی ہے اور اِس سے یہوواہ خدا کی بھی بڑائی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اُن کی شادی ناکام ہو جائے تو یہ اُن کے لئے بہت دُکھ اور تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ جو مسیحی شادی کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں، وہ یہوواہ خدا کی رہنمائی پر عمل کرنے سے اپنی شادی کی اچھی شروعات کر سکتے ہیں۔ لیکن جو مسیحی اپنا جیونساتھی چننے کے سلسلے میں سمجھداری سے فیصلہ نہیں کرتے، اُنہیں مایوسی اور مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر بعض نوجوان شادی کے چکر میں مخالف جنس کے ساتھ میلجول رکھنے لگتے ہیں حالانکہ وہ ازدواجی ذمہداریاں اُٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ بعض مسیحی انٹرنیٹ پر اپنا جیونساتھی تلاش کرتے ہیں اور جلدبازی میں شادی کر لیتے ہیں۔ مگر بعد میں اُنہیں پچھتانا پڑتا ہے۔ کچھ مسیحی شادی سے پہلے ہی جنسی حرکات میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ بعد میں وہ شادی تو کرتے ہیں لیکن ایک دوسرے کی نظر میں اُن کی عزت اور وقار کم ہو جاتا ہے اور اُن کی شادی کی بنیاد بہت ہی کمزور ہوتی ہے۔
۴ بعض مسیحی ”خداوند میں“ شادی نہیں کرتے۔ چونکہ اُن کا جیونساتھی اُن کا ہمایمان نہیں ہوتا اِس لئے اُنہیں مشکلات اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ (۱-کر ۷:۳۹) اگر آپ بھی ایسی ہی صورتحال سے گزر رہے ہیں تو یہوواہ خدا سے درخواست کریں کہ وہ آپ کو معاف کر دے اور آپ کی مدد کرے۔ یہوواہ خدا اُن مشکلات کو تو ختم نہیں کرے گا جو آپ کی ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے کھڑی ہوئی ہیں لیکن اگر آپ نے توبہ کر لی ہے تو وہ اِن مشکلات کو برداشت کرنے میں آپ کی مدد ضرور کرے گا۔ (زبور ۱۳۰:۱-۴) لہٰذا یہوواہ خدا کو خوش کرنے کی پوری کوشش کریں۔ اِس طرح ’یہوواہ کی شادمانی آپ کی پناہگاہ ہو گی۔‘—نحم ۸:۱۰۔
جب ازدواجی بندھن میں دراڑ آ جائے
۵. اگر کسی مسیحی کا ازدواجی بندھن خوشگوار نہیں ہے تو اُسے کیسی سوچ سے بچنا چاہئے؟
۵ جن مسیحیوں کا ازدواجی بندھن خوشگوار نہیں ہے، وہ شاید سوچیں: ”کیا مَیں واقعی اپنی شادی کو ٹوٹنے سے بچانا چاہتا ہوں؟ کاش مَیں وقت کا پہیہ پیچھے گھما سکتا اور کسی اَور سے شادی کر سکتا۔“ ایسے مسیحی اپنے ازدواجی بندھن سے آزاد ہونے کے خواب دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ”کیوں نہ مَیں طلاق لے لوں؟ اگر پاک کلام کے مطابق طلاق کی کوئی جائز وجہ نہیں ہے تو بھی کیوں نہ مَیں اپنے جیونساتھی سے علیٰحدہ ہو جاؤں اور مزے سے زندگی گزاروں؟“ یہ سوچنے کی بجائے کہ کاش ایسا ہوتا یا ویسا ہوتا، ایک مسیحی کو چاہئے کہ وہ خدا کی رہنمائی پر چلنے سے اپنے موجودہ حالات کو سدھارنے کی کوشش کرے۔
۶. متی ۱۹:۹ میں یسوع مسیح نے جو بات کہی، اُس کا مطلب کیا ہے؟
۶ اگر ایک مسیحی کی طلاق ہو جاتی ہے تو وہ بائبل کے اصول کے مطابق صرف ایک ہی صورت میں دوبارہ شادی کر سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں یسوع مسیح نے کہا: ”جو کوئی اپنی بیوی کو حرامکاری کے سوا کسی اَور سبب سے چھوڑ دے اور دوسری سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے۔“ (متی ۱۹:۹) حرامکاری میں زناکاری اور دیگر جنسی حرکات شامل ہیں۔ شاید شوہر یا بیوی نے حرامکاری نہیں کی لیکن پھر بھی وہ طلاق کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اِس صورت میں یہ بہت اہم ہے کہ وہ رہنمائی کے لئے یہوواہ خدا سے دُعا کریں۔
۷. اگر مسیحی شوہر اور بیوی کا ازدواجی بندھن ناکام ہو جائے تو لوگ کیا سوچتے ہیں؟
۷ اگر ایک مسیحی کی شادی ناکام ہو جاتی ہے تو یہ اِس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ وہ خدا کے معیاروں کی قدر نہیں کرتا۔ اِس سلسلے میں پولس رسول نے یہ سوال کِیا: ”جب کوئی اپنے گھر ہی کا بندوبست کرنا نہیں جانتا تو خدا کی کلیسیا کی خبرگیری کیونکر کرے گا؟“ (۱-تیم ۳:۵) جب مسیحی شوہر اور بیوی کا ازدواجی بندھن ناکام ہو جاتا ہے تو لوگ شاید سوچیں کہ یہ دوسروں کو تو بڑی نصیحتیں کرتے ہیں مگر خود اُن پر عمل نہیں کرتے۔—روم ۲:۲۱-۲۴۔
۸. اگر مسیحی شوہر اور بیوی علیٰحدہ ہونے یا طلاق لینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اِس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟
۸ بعض اوقات شاید مسیحی شوہر اور بیوی علیٰحدہ ہونے یا طلاق لینے کے بارے میں سوچیں حالانکہ اُن کے پاس پاک کلام کے مطابق اِس کی جائز وجہ نہیں ہے۔ ایسا کرنے سے وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ خدا کے قریب نہیں ہیں۔ اِس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک یا پھر دونوں ہی پاک کلام کے اصولوں پر عمل نہیں کرتے۔ اگر وہ ’سارے دل سے یہوواہ پر توکل کرتے ہیں‘ تو وہ اپنے ازدواجی بندھن کو ٹوٹنے سے ضرور بچا سکتے ہیں۔—امثال ۳:۵، ۶ کو پڑھیں۔
۹. بعض مسیحیوں کو کیا صلہ ملا ہے جنہوں نے اپنے ازدواجی بندھن کو مضبوط بنانے کی کوشش نہیں چھوڑی؟
۹ بہت سی شادیاں کامیاب ثابت ہوئی ہیں حالانکہ پہلے لگتا تھا کہ یہ ٹوٹ جائیں گی۔ جو مسیحی اپنے کمزور ازدواجی بندھن کو مضبوط بنانے کی کوشش نہیں چھوڑتے، اُنہیں اکثر اپنی کوششوں کا صلہ ملتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا جیونساتھی آپ کا ہمایمان نہیں ہے تو بھی آپ کی شادی کامیاب ہو سکتی ہے۔ اِس سلسلے میں پطرس رسول نے لکھا: ”اَے بیویو! تُم بھی اپنےاپنے شوہر کے تابع رہو۔ اِس لئے کہ اگر بعض اُن میں سے کلام کو نہ مانتے ہوں تو بھی تمہارے پاکیزہ چالچلن اور خوف کو دیکھ کر بغیر کلام کے اپنیاپنی بیوی کے چالچلن سے خدا کی طرف کھنچ جائیں۔“ (۱-پطر ۳:۱، ۲) واقعی اگر آپ اپنا چالچلن نیک رکھیں گے تو آپ کے جیونساتھی پر اِس کا اچھا اثر ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ وہ سچائی کو قبول کر لے۔ جو مسیحی اپنی شادی کو ناکام ہونے سے بچا لیتے ہیں، وہ خدا کی تمجید کا باعث بنتے ہیں۔ اور اِس سے پورے گھرانے کو خوشی ملتی ہے۔
۱۰، ۱۱. (الف) شادی کے بعد کونسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں جن سے ازدواجی بندھن میں دراڑ آ سکتی ہے؟ (ب) جو مسیحی اپنے بندھن کو نبھانے کی کوشش کرتا ہے، وہ کس بات کا یقین رکھ سکتا ہے؟
۱۰ بہت سے مسیحی یہوواہ خدا کے حکم کے مطابق صرف اُسی شخص سے شادی کرتے ہیں جو بپتسمہیافتہ گواہ ہے۔ لیکن بعض اوقات ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں جن کی توقع نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر شادی کے بعد شاید شوہر یا بیوی میں سے کوئی نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جائے۔ یا پھر شاید وہ مُنادی کے کام میں حصہ لینا چھوڑ دے۔ اِس سلسلے میں آئیں دیکھیں کہ لنڈاa کے ساتھ کیا ہوا۔ لنڈا بڑی لگن سے یہوواہ خدا کی عبادت کرتی تھیں اور اپنے بچوں کی اچھی دیکھبھال کرتی تھیں۔ لیکن اُن کا شوہر غلط کام کرنے لگا۔ وہ اپنے غلط کاموں سے باز نہیں آتا تھا اِس لئے بزرگوں نے اُسے کلیسیا سے نکال دیا۔ ذرا سوچیں کہ لنڈا کو کتنا دُکھ ہوا ہوگا۔ اگر ایسی وجہ سے ایک مسیحی کے ازدواجی رشتے میں دراڑ پڑ جائے اور اِس میں بہتری کی گنجائش دِکھائی نہ دے تو اُسے کیا کرنا چاہئے؟
۱۱ شاید آپ سوچیں: ”حالات چاہے کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں، کیا مجھے اپنے بندھن کو نبھانے کی کوشش جاری رکھنی چاہئے؟“ یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کسی اَور کو نہیں۔ اگر آپ کا ازدواجی بندھن بہت کمزور ہو گیا ہے تو بھی اِسے قائم رکھنے کی ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔ یہوواہ خدا اُن مسیحیوں کو عزیز رکھتا ہے جو اپنے ضمیر کی آواز کو سنتے ہیں اور مشکلات کے باوجود اپنے جیونساتھی سے جُدا نہیں ہوتے۔ (۱-پطرس ۲:۱۹، ۲۰ کو پڑھیں۔) یہوواہ خدا اپنے کلام اور روحُالقدس کے ذریعے ایسے مسیحی کی مدد کرتا ہے جو کٹھن مسائل کی صورت میں بھی اپنے ازدواجی بندھن کو نبھانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔
مدد مانگنے سے مت ہچکچائیں
۱۲. جب ہم اپنے ازدواجی مسائل کے سلسلے میں بزرگوں سے مدد مانگتے ہیں تو وہ ہمیں کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
۱۲ اگر آپ کی ازدواجی زندگی مسائل سے گِھری ہوئی ہے تو پُختہ مسیحیوں سے مدد حاصل کرنے سے شرم محسوس نہ کریں۔ یہوواہ خدا نے بزرگوں کو ذمہداری دی ہے کہ وہ اُس کے گلّے کی دیکھبھال کریں۔ اِس لئے بزرگ بڑی خوشی سے پاک کلام کے ذریعے آپ کی مدد کریں گے۔ (اعما ۲۰:۲۸؛ یعقو ۵:۱۴، ۱۵) یہ نہ سوچیں کہ اگر آپ بزرگوں کے ساتھ اپنے ازدواجی مسائل کے بارے میں بات کریں گے تو آپ اُن کی نظروں میں گِر جائیں گے۔ اِس کے برعکس جب بزرگ یہ دیکھیں گے کہ آپ اپنے مسائل کو حل کرنے سے خدا کو خوش کرنا چاہتے تو اُن کی نظر میں آپ کی عزت بڑھ جائے گی۔
۱۳. ۱-کرنتھیوں ۷:۱۰-۱۶ میں کیا نصیحت کی گئی ہے؟
۱۳ جب ایک مسیحی جس کا جیونساتھی اُس کا ہمایمان نہیں ہے، بزرگوں سے اپنے ازدواجی مسائل کے سلسلے میں مدد کی درخواست کرتا ہے تو بزرگ اُس کی توجہ پاک کلام کی ہدایات پر دِلاتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ پولس رسول کی اِس نصیحت کو اُس کے دھیان میں لا سکتے ہیں: ”مگر جن کا بیاہ ہو گیا ہے اُن کو مَیں نہیں بلکہ خداوند حکم دیتا ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے جُدا نہ ہو۔ (اور اگر جُدا ہو تو یا بےنکاح رہے یا اپنے شوہر سے پھر ملاپ کر لے) نہ شوہر بیوی کو چھوڑے۔ . . . کیونکہ اَے عورت! تجھے کیا خبر ہے کہ شاید تُو اپنے شوہر کو بچا لے؟ اور اَے مرد! تجھ کو کیا خبر ہے کہ شاید تُو اپنی بیوی کو بچا لے؟“ (۱-کر ۷:۱۰-۱۶) جب ایک مسیحی کا جیونساتھی بھی یہوواہ خدا کی عبادت کرنے لگتا ہے تو یہ اُس مسیحی کے لئے بڑی خوشی کی بات ہوتی ہے۔
۱۴، ۱۵. (الف) ایک مسیحی کن صورتحال میں اپنے جیونساتھی سے جُدا ہونے کے بارے میں سوچ سکتا ہے؟ (ب) اپنے جیونساتھی سے علیٰحدہ ہونے کا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنی صورتحال کا نیکنیتی سے جائزہ لینا اور دُعا کرنا کیوں ضروری ہے؟
۱۴ کیا کوئی ایسی صورتحال ہے جس میں ایک مسیحی بیوی اپنے شوہر سے ”جُدا“ ہو سکتی ہے؟ کچھ بیویاں اِس لئے اپنے شوہروں سے الگ ہو گئیں کیونکہ شوہر جانبُوجھ کر اپنے گھرانے کی بنیادی ضروریات کو پورا نہیں کرتے تھے۔ بعض اِس لئے علیٰحدہ ہو گئیں کیونکہ اُن کے شوہر یا تو اُنہیں بےحد مارتے پیٹتے تھے یا پھر اُنہیں یہوواہ خدا کی عبادت نہیں کرنے دیتے تھے۔
۱۵ اپنے جیونساتھی سے علیٰحدہ ہونا یا نہ ہونا ہر ایک کا ذاتی فیصلہ ہے۔ لیکن بپتسمہیافتہ مسیحی کو ایسا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنی صورتحال کا نیکنیتی سے جائزہ لینا چاہئے اور پھر اِس معاملے میں یہوواہ خدا کی رہنمائی کے لئے دُعا بھی کرنی چاہئے۔ مثال کے طور پر کیا ایک مسیحی کا جیونساتھی ہی اُس کے لئے یہوواہ خدا کی عبادت کرنا مشکل بنا رہا ہے یا پھر وہ مسیحی خود نہ تو باقاعدگی سے بائبل کا مطالعہ کرتا ہے، نہ اجلاسوں پر جاتا ہے اور نہ ہی مُنادی کے کام میں حصہ لیتا ہے؟
۱۶. مسیحیوں کو طلاق کے سلسلے میں جلدبازی سے کوئی فیصلہ کیوں نہیں کرنا چاہئے؟
۱۶ ہم یہوواہ خدا کی قربت کو کسی بھی قیمت پر کھونا نہیں چاہتے۔ ہم شادی کے بندھن کی قدر کرتے ہیں جو یہوواہ خدا کی ایک نعمت ہے۔ لہٰذا ہمیں طلاق دینے یا لینے کے سلسلے میں جلدبازی سے کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔ یہوواہ خدا کے بندوں کے طور پر ہم چاہتے ہیں کہ اُس کے پاک نام پر کوئی حرف نہ آئے۔ اِس لئے ہم اپنے جیونساتھی سے جان چھڑا کر کسی اَور سے بیاہ رچانے کے منصوبے نہیں باندھیں گے۔—یرم ۱۷:۹؛ ملا ۲:۱۳-۱۶۔
۱۷. کس صورتحال میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا نے ہمیں امن کے لئے بلایا ہے؟
۱۷ جس مسیحی کا جیونساتھی اُس کا ہمایمان نہیں ہے، اُس مسیحی کو اپنا بندھن قائم رکھنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن اگر اُس کی تمام کوششوں کے باوجود اُس کا جیونساتھی اُس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تو اُسے خود کو قصوروار نہیں سمجھنا چاہئے۔ اِس سلسلے میں پولس رسول نے لکھا: ”لیکن مرد جو باایمان نہ ہو اگر وہ جُدا ہو تو جُدا ہونے دو۔ ایسی حالت میں کوئی بھائی یا بہن پابند نہیں اور خدا نے ہم کو میلملاپ [امن] کے لئے بلایا ہے۔“—۱-کر ۷:۱۵۔b
یہوواہ پر آس رکھیں
۱۸. اگر شادی کو بچانے کی کوششیں ناکام ہو جائیں تو بھی ایسی کوششوں کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟
۱۸ جب ازدواجی زندگی میں مسائل کھڑے ہو جائیں تو یہوواہ خدا پر آس رکھیں اور اُس سے دُعا کریں کہ وہ آپ کو ہمت بخشے۔ (زبور ۲۷:۱۴ کو پڑھیں۔) لنڈا کی مثال پر دوبارہ غور کریں جن کا پہلے ذکر کِیا گیا ہے۔ اگرچہ اُنہوں نے اپنی شادی کو بچانے کی کئی سال تک کوشش کی لیکن پھر بھی اُن کی شادی طلاق کی بھینٹ چڑھ گئی۔ کیا وہ یہ سوچتی ہیں کہ اُنہوں نے اپنا وقت خواہمخواہ ضائع کِیا؟ اُنہوں نے اِس سلسلے میں کہا: ”مَیں نے اپنا وقت ضائع نہیں کِیا۔ مَیں نے اپنی شادی کو بچانے کی جو کوششیں کیں اُن سے دوسروں پر یہ ظاہر ہوا کہ مَیں خدا کے اصولوں پر چل رہی ہوں۔ میرا ضمیر صاف ہے۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اِن سالوں کے دوران ہماری بیٹی نے یہوواہ خدا کے اصولوں کی قدر کرنا سیکھا۔ وہ بپتسمہیافتہ گواہ بن گئی ہے اور بڑی لگن سے یہوواہ خدا کی عبادت کر رہی ہے۔“
۱۹. اپنے ازدواجی بندھن کو قائم رکھنے کی پوری کوشش کرنے کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے؟
۱۹ میریلن نامی ایک بہن کو اِس بات کی خوشی ہے کہ اُنہوں نے یہوواہ خدا پر بھروسا کِیا اور اپنی شادی کو بچانے کی پوری کوشش کی۔ اُنہوں نے کہا: ”مَیں اپنے شوہر سے علیٰحدہ ہونے کے بارے میں سوچ رہی تھی کیونکہ وہ میری بنیادی ضروریات پوری نہیں کرتے تھے اور میرے لئے یہوواہ خدا کی عبادت کرنا مشکل بنا رہے تھے۔ میرے شوہر پہلے بزرگ تھے مگر وہ کاروباری معاملات میں بہت زیادہ اُلجھن گئے۔ اُنہوں نے اجلاس پر جانا چھوڑ دیا۔ ہم نے ایک دوسرے سے بات کرنا بند کر دی۔ پھر ہمارے شہر میں دہشتگردوں نے ایک حملہ کِیا جس سے مَیں بہت سہم گئی اور بالکل چپ سادھ لی۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ ہماری گھریلو اور روحانی صورتحال کے ذمہدار صرف میرے شوہر ہی نہیں بلکہ مَیں بھی ہوں۔ ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ باتچیت کرنا شروع کی، خاندانی عبادت کرنا شروع کی اور پھر سے باقاعدگی کے ساتھ اجلاسوں پر جانے لگے۔ بزرگوں نے بڑے پیار سے ہماری مدد کی۔ یوں ہماری مُردہ ازدواجی زندگی میں پھر سے جان آ گئی۔ وقت کے ساتھساتھ میرے شوہر نے پھر سے کلیسیا میں ترقی کی۔ ہماری زندگی میں اُونچنیچ تو بہت ہوئی مگر آخرکار ہمیں بہت خوشیاں ملیں۔“
۲۰، ۲۱. ہمیں اپنی ازدواجی بندھن کے سلسلے میں کیا عزم کرنا چاہئے؟
۲۰ چاہے آپ شادیشُدہ ہیں یا غیرشادیشُدہ، ہمیشہ یہوواہ خدا پر آس رکھیں اور ہمت سے کام لیں۔ اگر آپ کو ازدواجی مسائل کا سامنا ہے تو اُنہیں حل کرنے کی پوری کوشش کریں۔ اور یہ یاد رکھیں کہ جو لوگ شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں ”وہ دو نہیں بلکہ ایک جسم ہیں۔“ (متی ۱۹:۶) شاید آپ کا جیونساتھی آپ کا ہمایمان نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یاد رکھیں کہ اگر آپ مشکلات کے باوجود اُس کے ساتھ اپنے عہدوپیمان کو نبھائیں گے تو شاید وہ یہوواہ خدا کی عبادت کرنے کی طرف مائل ہو جائے۔ یقیناً یہ آپ کے لئے بےحد خوشی کا باعث ہوگا۔
۲۱ ہمارے حالات چاہے کچھ بھی ہوں، آئیں، ہم ہمیشہ ایسے کام اور فیصلے کریں جن سے دوسرے لوگوں کے سامنے یہوواہ خدا کی بڑائی ہو۔ اگر ہماری شادی سنگین مسائل سے دوچار ہے اور ہم اپنے جیونساتھی کو چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو رہنمائی کے لئے یہوواہ خدا سے دُعا کریں۔ اِس کے علاوہ نیکنیتی سے اپنا جائزہ لیں، پاک کلام کے اصولوں پر غور کریں اور بزرگوں سے مدد حاصل کریں۔ سب سے بڑھ کر اپنے تمام کاموں سے یہوواہ خدا کی تمجید کرنے کا عزم کریں اور شادی کی نعمت کے لئے قدر ظاہر کریں۔
[فٹنوٹ]
a نام بدل دئے گئے ہیں۔
b کتاب خدا کی محبت میں قائم رہیں کے صفحہ ۲۱۹-۲۲۱ کو دیکھیں۔
[صفحہ ۱۸ پر عبارت]
اُن مسیحیوں کو اکثر اپنی کوششوں کا صلہ ملتا ہے جو اپنے کمزور ازدواجی بندھن کو مضبوط بنانے کی کوشش نہیں چھوڑتے۔
[صفحہ ۲۲ پر عبارت]
یہوواہ خدا پر آس رکھیں اور اُس سے دُعا کریں کہ وہ آپ کو ہمت بخشے۔
[صفحہ ۱۹ پر تصویر]
یہوواہ خدا اُن مسیحیوں کی مدد کرتا ہے جو کٹھن مسائل کی صورت میں بھی اپنے ازدواجی بندھن کو نبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
مسیحی بہنبھائی آپ کو تسلی اور حوصلہ دے سکتے ہیں۔