عمررسیدہ کا خیال رکھنا —ایک مسیحی ذمہداری
”مَیں تمہارے بُڑھاپے تک وہی ہوں اور سر سفید ہونے تک تُم کو اُٹھائے پِھرونگا۔“ —یسعیاہ ۴۶:۴۔
۱، ۲. یہوواہ خدا کے سہارے اور انسانی والدین کے سہارے میں کیا فرق ہے؟
والدین اپنے بچوں کی پیدائش سے لیکر اُن کے بالغ ہونے تک پرورش کرتے ہیں۔ والدین کا سایہ تب بھی اولاد پر رہتا ہے جب وہ اپنا گھر بسا لیتی ہے۔
۲ لیکن والدین صرف ایک حد تک اپنے بچوں کا سہارا بن سکتے ہیں۔ اس کے برعکس یہوواہ خدا کسی بھی صورتحال میں اپنے خادموں کو سہارا دے سکتا ہے۔ یہوواہ نے بنیاسرائیل سے کہا: ”مَیں تمہارے بڑھاپے تک وہی ہوں اور سر سفید ہونے تک تم کو اُٹھائے پھرونگا۔“ (یسعیاہ ۴۶:۴) یہ الفاظ آجکل کے عمررسیدہ مسیحیوں کے لئے کتنے تسلیبخش ہیں! یہوواہ اپنے وفادار خادموں کو بڑھاپے میں ترک نہیں کرتا۔ اُس کا وعدہ ہے کہ وہ اُنہیں زندگی بھر سہارا دے گا اور اُن کی راہنمائی بھی کرتا رہے گا۔—زبور ۴۸:۱۴۔
۳. اس مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟
۳ یہوواہ کی طرح ہم اپنے عمررسیدہ مسیحی بہنبھائیوں کا سہارا کیسے بن سکتے ہیں؟ (افسیوں ۵:۱، ۲) آیئے ہم کچھ ایسے طریقوں پر غور کریں جن کے ذریعے بچے، کلیسیا کے بزرگ اور کلیسیا کا ہر فرد عمررسیدہ مسیحیوں کی مدد کر سکتا ہے۔
بچوں کی ذمہداری
۴. مسیحی بچوں کی ذمہداریوں میں کیا کچھ شامل ہے؟
۴ ”اپنے باپ کی اور ماں کی عزت کر۔“ (افسیوں ۶:۲؛ خروج ۲۰:۱۲) پولس نے عبرانی صحائف میں سے یہ حوالہ دیتے ہوئے بچوں کو اپنی ذمہداریوں کی یاد دلائی۔ اس ذمہداری میں اپنے عمررسیدہ والدین کی تیمارداری کرنا بھی شامل ہے جیساکہ یوسف کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے۔
۵. (ا) ہم کیسے جانتے ہیں کہ یوسف بیٹے کے طور پر اپنی ذمہداری کو نہیں بھولا تھا؟ (ب) والدین کی عزت کرنے میں کیا کچھ شامل ہے اور اس سلسلے میں یوسف نے کیا نمونہ قائم کِیا؟
۵ یوسف تقریباً ۲۰ سال پہلے اپنے باپ یعقوب سے بچھڑ گیا تھا۔ لیکن جُدائی کے اس عرصے کے دوران باپ کے لئے اُس کی محبت تازہ رہی۔ جب یوسف اپنے بھائیوں سے ملا تو اُس نے فوراً سوال کِیا کہ ”کیا میرا باپ اب تک جیتا ہے؟“ (پیدایش ۴۳:۷، ۲۷؛ ۴۵:۳) اُس وقت یعقوب کی عمر ۱۳۰ سال تھی اور وہ کنعان میں رہتے تھے جہاں سخت کال پڑا ہوا تھا۔ اس لئے یوسف نے اپنے بھائیوں کے ذریعے اپنے باپ کو یہ پیغام بھیجوایا: ”تُو میرے پاس چلا آ دیر نہ کر۔ تُو جشنؔ کے علاقہ میں رہنا اور تُو . . . میرے نزدیک [ہوگا]۔ اور وہیں مَیں تیری پرورش کروں گا۔“ (پیدایش ۴۵:۹-۱۱؛ ۴۷:۱۲) جیہاں، عمررسیدہ ماںباپ کی عزت کرنے میں اُن کی ضروریات پوری کرنا اور ان کو نقصان سے محفوظ رکھنا بھی شامل ہے۔ (۱-سموئیل ۲۲:۱-۴؛ یوحنا ۱۹:۲۵-۲۷) یوسف نے خوشاسلوبی سے اس فرض کو نبھایا۔
۶. یوسف نے اپنے والد کے لئے اپنی گہری محبت کا کیسے اظہار کِیا اور ہم اُس کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟
۶ یہوواہ خدا کی برکت سے یوسف ملکِمصر کا نہایت بااختیار اور دولتمند شخص بن گیا۔ (پیدایش ۴۱:۴۰) اُس نے اپنے ۱۳۰ سالہ ضعیف باپ کی عزت دکھانے کے لئے خود کو بہت زیادہ اہم اور مصروف خیال نہیں کِیا۔ جب یوسف کو بتایا گیا کہ یعقوب (یعنی اسرائیل) مصر پہنچ گیا ہے تو ”یوؔسف اپنا رتھ تیار کروا کے اپنے باپ اؔسرائیل کے اِستقبال کے لئے جشنؔ کو گیا اور اُس کے پاس جاکر اُس کے گلے سے لپٹ گیا اور وہیں لپٹا ہوا دیر تک روتا رہا۔“ (پیدایش ۴۶:۲۸، ۲۹) یوسف نے ایسا محض رسمی طور پر نہیں کِیا تھا۔ اُسے اپنے باپ سے گہری محبت تھی اور وہ اس محبت کو ظاہر کرنے سے ہچکچایا نہیں تھا۔ کیا یوسف کی طرح ہم اپنے عمررسیدہ والدین کے لئے فراخدلی کے ساتھ اپنے پیار کا اظہار کرتے ہیں؟
۷. یعقوب کنعان میں کیوں دفن ہونا چاہتا تھا؟
۷ یعقوب زندگیبھر یہوواہ کا وفادار رہا۔ (عبرانیوں ۱۱::۲۱) اُسے پُختہ یقین تھا کہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے گا اس لئے وہ مصر کی بجائے کنعان میں دفن ہونا چاہتا تھا۔ یوسف نے اپنے باپ کی خواہش پوری کی حالانکہ ایسا کرنے میں کافی خرچ اور کوشش درکار تھی۔—پیدایش ۴۷:۲۹-۳۱؛ ۵۰:۷-۱۴۔
۸. (ا) اپنے عمررسیدہ والدین کی دیکھبھال کرنے کی سب سے اہم وجہ کیا ہونی چاہئے؟ (ب) ایک کُلوقتی خادم اپنے عمررسیدہ والدین کی دیکھبھال کرنے کے لئے کیا کچھ کرنے کو تیار تھا؟ (صفحہ ۱۷ کے بکس کو دیکھیں۔)
۸ یوسف نے اپنے والد کی تیمارداری کیوں کی؟ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ یوسف کو اپنے باپ سے بےتحاشا پیار تھا۔ یعقوب نے اُس کو پالپوس کر بڑا کِیا تھا اس لئے یوسف اپنے بوڑھے باپ کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ لیکن اس کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ یوسف یہوواہ کو خوش کرنا چاہتا تھا۔ ہمیں بھی ایسی ہی خواہش رکھنی چاہئے۔ پولس رسول نے لکھا: ”اگر کسی بیوہ کے بیٹے یا پوتے ہوں تو وہ پہلے اپنے ہی گھرانے کے ساتھ دینداری کا برتاؤ کرنا اور ماںباپ کا حق ادا کرنا سیکھیں کیونکہ یہ خدا کے نزدیک پسندیدہ ہے۔“ (۱-تیمتھیس ۵:۴) ہمیں یہوواہ کی تعظیم اور محبت کی بِنا پر خوشی سے اپنے عمررسیدہ والدین کی دیکھبھال کرنی چاہئے، خواہ اس کے لئے ہمیں کتنی ہی مشکلات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔a
کلیسیا کے بزرگ کیسے سہارا بنتے ہیں
۹. یہوواہ نے عمررسیدہ اشخاص سمیت سب کی گلّہبانی کرنے کے لئے کن کو مقرر کِیا ہے؟
۹ یعقوب نے اپنی زندگی کے آخری مرحلے پر پہنچ کر کہا کہ یہوواہ نے ”ساری عمر آج کے دن تک میری پاسبانی کی۔“ (پیدایش ۴۸:۱۵) آجکل یہوواہ کلیسیا کے نگہبانوں کے ذریعے اپنے خادموں کی گلّہبانی کرتا ہے۔ یہ بزرگ ”سردار گلّہبان“ یسوع مسیح کی ہدایت پر عمل کرتے ہیں۔ (۱-پطرس ۵:۲-۴) کلیسیا کے بزرگ عمررسیدہ مسیحیوں کی گلّہبانی کرتے وقت یہوواہ کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۰. عمررسیدہ مسیحیوں کی مدد کرنے کے لئے کونسے انتظامات کئے گئے ہیں؟ (صفحہ ۱۹ کے بکس کو دیکھیں۔)
۱۰ مسیحی کلیسیا کے آغاز کے تھوڑے عرصے بعد ہی رسولوں نے ’سات نیکنام شخصوں کو چن لیا جو رُوح اور دانائی سے بھرے ہوئے تھے۔‘ ان نیکنام اشخاص نے مسیحی بیواؤں کی ”روزانہ خبرگیری“ کرتے ہوئے اُنہیں روٹی فراہم کی۔ (اعمال ۶:۱-۶) بعدازاں پولس رسول نے مسیحی نگہبان تیمتھیس کو کلیسیا کی بوڑھی بیواؤں کی ایک فہرست تیار کرنے کی ہدایت دی۔ ان میں سے ضروری شرائط پر پورا اُترنے والی بیواؤں کو کلیسیا کی طرف سے مدد ملتی تھی۔ (۱-تیمتھیس ۵:۳، ۹، ۱۰) اسی طرح آج بھی کلیسیا کے بزرگ عمررسیدہ مسیحیوں کی مدد کا انتظام کرتے ہیں۔ لیکن عمررسیدہ مسیحیوں کو سہارا دینے میں اَور کچھ بھی شامل ہے۔
۱۱. یسوع نے اُس کنگال بیوہ کے بارے میں کیا کہا جس نے ہیکل کے خزانے میں دو دمڑیاں ڈالی تھیں؟
۱۱ ایک موقع پر یسوع ”دیکھ رہا تھا کہ لوگ ہیکل کے خزانہ میں پیسے کس طرح ڈالتے ہیں۔“ اچانک اُس کی نظر ایک عمررسیدہ بیوہ پر پڑی۔ سرگزشت بیان کرتی ہے کہ اِس ”کنگال بیوہ نے آکر دو دمڑیاں یعنی ایک دھیلا ڈالا۔“ یسوع نے اپنے شاگردوں کو پاس بلایا اور ان سے کہا ”مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ جو ہیکل کے خزانہ میں ڈال رہے ہیں اس کنگال بیوہ نے ان سب سے زیادہ ڈالا۔ کیونکہ سبھوں نے اپنے مال کی بہتات سے ڈالا مگر اس نے اپنی ناداری کی حالت میں جوکچھ اس کا تھا یعنی اپنی ساری روزی ڈالدی۔“ (مرقس ۱۲:۴۱-۴۴) ان دو دمڑیوں کی قیمت بہت کم تھی لیکن یسوع جانتا تھا کہ یہوواہ ان کو قیمتی خیال کرتا ہے کیونکہ بیوہ نے خدا کے لئے اپنی گہری محبت کا اظہار کِیا تھا۔ جوکچھ بیوہ نے دیا تھا یسوع نے اس کی قدر کی۔
۱۲. مسیحی نگہبان عمررسیدہ بہنبھائیوں کی حوصلہافزائی کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۲ اسی طرح مسیحی نگہبانوں کو عمررسیدہ بہنبھائیوں کی کوششوں کی قدر کرنی چاہئے۔ یہ بہنبھائی مُنادی کے کام میں اور اجلاسوں میں حصہ لینے کے علاوہ کلیسیا میں اچھی مثال قائم کرتے اور دوسروں کے لئے صبر کا نمونہ بنتے ہیں۔ جتنا بھی وہ کر سکتے ہیں اگر اُنہیں ان کاموں کے لئے داد دی جائے تو یہ اُن کے لئے ”فخر کرنے کا موقع“ ہو سکتا ہے۔ پھر وہ اس بات پر دلبرداشتہ نہیں ہوں گے کہ آج کی نسبت وہ جوانی میں زیادہ کچھ کر سکتے تھے اور وہ دوسروں کے ساتھ اپنا مقابلہ بھی نہیں کریں گے۔—گلتیوں ۶:۴۔
۱۳. کلیسیا کے بزرگ عمررسیدہ بہنبھائیوں کے تجربے اور اُن کی صلاحیتوں کی قدردانی کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۳ کلیسیا کے بزرگوں کو عمررسیدہ بہنبھائیوں کے تجربے اور اُن کی صلاحیتوں کی قدردانی کرنی چاہئے۔ مثال کے طور پر وہ وقتاًفوقتاً ان بہنبھائیوں کے انٹرویو لے سکتے اور ان سے مظاہرہ پیش کرنے کی درخواست کر سکتے ہیں۔ ایک نگہبان کہتا ہے: ”جب بھی مَیں کسی عمررسیدہ بہن یا بھائی کا انٹرویو لیتا ہوں جس نے اپنے بچوں کو یہوواہ کی راہ میں تربیت دی ہے تو تمام کلیسیا توجہ سے سنتی ہے۔“ ایک دوسری کلیسیا کے بزرگ بتاتے ہیں کہ ایک ۷۱ سالہ کُلوقتی مُناد بہن نے دوسروں کی مدد کی ہے تاکہ وہ مُنادی کے کام میں باقاعدگی سے حصہ لے سکیں۔ اسی بہن نے ان مسیحیوں کو باقاعدگی سے بائبل اور روزانہ کی آیت کی پڑھائی کرنے اور اس پر غور کرنے میں بھی مدد دی ہے۔
۱۴. ایک کلیسیا کے بزرگوں نے ایک عمررسیدہ ساتھی بزرگ کے لئے کس طرح قدردانی ظاہر کی؟
۱۴ جوان بزرگ اپنے عمررسیدہ ساتھی بزرگوں کی بھی قدر کرتے ہیں۔ زوزے کی مثال لیجئے جس کی عمر ۷۰ سے اُوپر ہے اور جو بہت عرصے سے کلیسیا میں بزرگ بھی ہے۔ حال ہی میں اُس کا بہت بڑا آپریشن ہونا تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ تندرست ہونے میں کافی دیر لگے گی۔ اس لئے اُس نے صدارتی نگہبان کی خدمت کرنے کے اپنے شرف کو چھوڑنے کا منصوبہ بنایا۔ زوزے بیان کرتا ہے: ”باقی بزرگوں نے مجھے حیران کر دیا! میری اس تجویز پر عمل کرنے کی بجائے اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ وہ کس طرح سے میری مدد کر سکتے ہیں تاکہ مَیں بزرگ کے طور پر اپنی ذمہداریاں جاری رکھ سکوں۔“ زوزے ایک جوان بزرگ کی مدد سے صدارتی نگہبان کے طور پر کلیسیا کی خدمت کرتا رہا جس سے بہنبھائیوں کو بہت فائدہ پہنچا۔ اسی کلیسیا کا ایک اَور بزرگ بیان کرتا ہے: ”بہنبھائی زوزے کے ایمان اور تجربہ کی بہت قدر کرتے ہیں۔ وہ بھائی سے محبت کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کا بہت احترام بھی کرتے ہیں۔ وہ ہماری کلیسیا کا قیمتی اثاثہ ہے۔“
ایک دوسرے کا خیال رکھیں
۱۵. عمررسیدہ مسیحیوں کا خیال رکھنا کلیسیا کے تمام بہنبھائیوں کی ذمہداری کیوں ہے؟
۱۵ عمررسیدہ مسیحیوں کا خیال رکھنا محض اُن کے بچوں اور کلیسیا کے بزرگوں کی ذمہداری نہیں ہے۔ پولس رسول نے کلیسیا کو انسانی بدن سے تشبیہ دی۔ اُس نے لکھا: ”خدا نے بدن کو اِس طرح مرکب کِیا ہے کہ جو عضو محتاج ہے اُسی کو زیادہ عزت دی جائے۔ تاکہ بدن میں تفرقہ نہ پڑے بلکہ اعضا ایک دوسرے کی برابر فکر رکھیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۲:۲۴، ۲۵) اس کا مطلب ہے کہ کلیسیا کی یکجہتی کے لئے اس کے ہر فرد کو ایک دوسرے کا اور خاص طور پر عمررسیدہ مسیحیوں کا خیال رکھنا چاہئے۔—گلتیوں ۶:۲۔
۱۶. مسیحی اجلاسوں پر ہم عمررسیدہ بہنبھائیوں کی حوصلہافزائی کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۶ مسیحی اجلاس عمررسیدہ مسیحیوں سے رفاقت رکھنے کا بہترین موقع ہوتے ہیں۔ (فلپیوں ۲:۴؛ عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵) کیا ہم اجلاسوں پر عمررسیدہ بہنبھائیوں سے باتچیت کرتے ہیں؟ ایسے موقعوں پر ہمیں ان کی خیریت کے بارے میں دریافت کرنے کے علاوہ انہیں ”کوئی روحانی نعمت“ سے بھی نوازنا چاہئے۔ مثال کے طور پر ہم انہیں مُنادی کے کام میں ہونے والے کسی تجربہ کے بارے میں بتا سکتے ہیں یا پھر کوئی ایسی بات سنا سکتے ہیں جو ہم نے اپنے ذاتی مطالعے میں پڑھی ہو۔ اکثر عمررسیدہ بہنبھائی اپنی نشست سے اُٹھنے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔ اس لئے کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ اُن کے پاس جاکر اُن سے گفتگو کریں؟ اگر ایک بوڑھا شخص اُونچا سنتا ہے تو ہمیں آہستہ سے اور واضح تلفظ میں بات کرنی چاہئے۔ نیز جب وہ بات کر رہا ہو تو ہمیں دھیان سے سننا چاہئے تاکہ ہم بھی اُس کی بات سے فائدہ اُٹھا سکیں۔—رومیوں ۱:۱۱، ۱۲۔
۱۷. جب عمررسیدہ مسیحیوں کے لئے گھر سے نکلنا ناممکن ہو تو ہم ان کے لئے اپنی فکرمندی کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
۱۷ اگر بعض عمررسیدہ مسیحی اجلاسوں پر حاضر نہیں ہو سکتے تو ایسی صورتحال میں کیا کِیا جا سکتا ہے؟ یعقوب ۱:۲۷ کے مطابق ’یتیموں اور بیواؤں کی مصیبت کے وقت اُن کی خبر لینا‘ ہمارا فرض ہے۔ یونانی لفظ ”خبر لینا“ کا ترجمہ ”کسی سے ملنے کے لئے اُس کے گھر جانا“ بھی کِیا گیا ہے۔ (اعمال ۱۵:۳۶) جب ہم عمررسیدہ بہنبھائیوں سے ملنے کے لئے اُن کے گھر جاتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔ جب پولس رسول ۶۵ س. ع میں کافی ’بوڑھا‘ ہو چکا تھا اور روم میں قید تھا تو اُس نے خود کو بہت تنہا محسوس کِیا۔ وہ اپنے ساتھی مسیحی تیمتھیس کو دیکھنے کے لئے بہت بےچین تھا۔ اس لئے اُس نے خط میں لکھا: ”میرے پاس جلد آنے کی کوشش کر۔“ (فلیمون ۹؛ ۲-تیمتھیس ۱:۳، ۴؛ ۴:۹) آجکل عمررسیدہ مسیحی پولس کی طرح قید تو نہیں ہیں لیکن شاید اُن کے لئے گھر سے نکلنا ناممکن ہو۔ شاید وہ گھر میں بیٹھے بیٹھے دل میں کہہ رہے ہوں کہ ’میرے پاس جلد آنے کی کوشش کر۔‘ کیا ہم اُن کی اس آرزو کو پورا کر رہے ہیں؟
۱۸. عمررسیدہ مسیحیوں سے ملاقات کرنے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟
۱۸ ایسی ملاقاتیں عمررسیدہ مسیحیوں کے لئے بڑی فائدہمند ہوتی ہیں۔ اُنیسفرس نامی ایک مسیحی نے روم جا کر پولس کو تلاش کِیا۔ پھر اُنیسفرس اکثر پولس سے ملنے کے لئے جاتا تھا۔ پولس نے ان ملاقاتوں کے بارے میں کہا کہ ’اُس نے بہت دفعہ مجھے تازہ دم کِیا۔‘ (۲-تیمتھیس ۱:۱۶، ۱۷) آج بھی عمررسیدہ مسیحی ایسا محسوس کرتے ہیں۔ ایک عمررسیدہ بہن کہتی ہے: ”مجھے جوان لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا بہت اچھا لگتا ہے۔ وہ مجھے اپنے ہی خاندان کا حصہ خیال کرتے ہیں جس سے مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے۔“ ایک اَور بہن کہتی ہے: ”جب کوئی مجھے کارڈ بھیجتا، میرے ساتھ تھوڑی دیر کے لئے فون پر باتچیت کرتا ہے یا مجھ سے ملنے کے لئے آتا ہے تو مَیں بہت خوش ہوتی ہوں۔ ایسی باتوں سے مَیں تازہدم ہو جاتی ہوں۔“
یہوواہ دوسروں کی فکر کرنے والوں کو اَجر بخشتا ہے
۱۹. عمررسیدہ بہنبھائیوں کا خیال رکھنے سے کونسے فائدے حاصل ہوتے ہیں؟
۱۹ عمررسیدہ بہنبھائیوں کا خیال رکھنے والے خود بھی فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ وہ ایسے بہنبھائیوں کی دانائی اور اُن کے تجربے سے سیکھ سکتے اور اپنا وقت، اپنی طاقت وغیرہ صرف کرنے سے خوشی حاصل کرتے ہیں۔ (اعمال ۲۰:۳۵) اپنی مسیحی ذمہداری پر پورا اُترنے سے اُن کو دلی اطمینان بھی حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ مسیحی جو اپنے بوڑھے بہنبھائیوں کا خیال رکھتے ہیں یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ جب وہ خود بوڑھے ہو جائیں گے تو اُن کا بھی کوئی خیال رکھے گا۔ کیونکہ خدا کے کلام میں کہا گیا ہے کہ ”فیاض دل موٹا ہو جائے گا اور سیراب کرنے والا خود بھی سیراب ہوگا۔“—امثال ۱۱:۲۵۔
۲۰، ۲۱. یہوواہ عمررسیدہ بہنبھائیوں کی خدمت کرنے والوں کے بارے میں کیسا نظریہ رکھتا ہے اور ہمیں کیا کرنے کا پُختہ ارادہ کر لینا چاہئے؟
۲۰ یہوواہ اُن بچوں، کلیسیا کے بزرگوں اور باقی افراد کو انعام دے گا جو عمررسیدہ بہنبھائیوں کی خوشی کے ساتھ خدمت کرتے ہیں۔ بائبل میں لکھا ہے کہ ”جو مسکینوں پر رحم کرتا ہے [یہوواہ] کو قرض دیتا ہے اور وہ اپنی نیکی کا بدلہ پائے گا۔“ (امثال ۱۹:۱۷) جب ہم محبت کی بِنا پر حاجتمندوں اور غریبوں کے لئے سہارا بنتے ہیں تو یہ یہوواہ کے نزدیک ایک قرض کے برابر ہے۔ اس قرض کو چکانے کے لئے وہ ہمیں برکت سے نوازے گا۔ یہی بات تب بھی لاگو ہوتی ہے جب ہم بوڑھے مسیحی بہنبھائیوں کی مدد کرتے ہیں جن میں سے بہتیرے ’جہان کے غریب‘ یعنی مالی طور پر حاجتمند ہیں لیکن ”ایمان میں دولتمند“ ہیں۔—یعقوب ۲:۵۔
۲۱ یہوواہ کی طرف سے یہ انعام کتنا پُرکشش ہے! اس میں ہمیشہ کے لئے زندہ رہنے کا موقع شامل ہے۔ یہوواہ کے زیادہتر خادم ہمیشہ کے لئے زمینی فردوس کا لطف اُٹھائیں گے۔ اس فردوس میں گُناہ کے بُرے اثرات مٹا دئے جائیں گے جس کی وجہ سے وفادار بوڑھے دوبارہ جوان اور توانا بن جائیں گے۔ (مکاشفہ ۲۱:۳-۵) آئیے ہم عمررسیدہ مسیحی بہنبھائیوں کا سہارا بن کر اُس وقت کے منتظر رہیں۔
[فٹنوٹ]
a عمررسیدہ والدین کی دیکھبھال کرنے کی خاطر عملی تجاویز کے لئے فروری ۸، ۱۹۹۴ کے اویک! کے صفحہ ۳-۱۰ کو دیکھیں۔
آپ کیا جواب دیں گے؟
• بچے اپنے عمررسیدہ والدین کی عزت کیسے کر سکتے ہیں؟
• کلیسیا کے بزرگ عمررسیدہ بہنبھائیوں کی قدر کیسے کر سکتے ہیں؟
• کلیسیا کا ہر فرد عمررسیدہ مسیحیوں کا کیسے خیال رکھ سکتا ہے؟
• عمررسیدہ مسیحیوں کی دیکھبھال کرنے سے کونسی برکات حاصل ہوتی ہیں؟
[صفحہ ۱۷ پر بکس]
جب اُسکے والدین کو مدد کی ضرورت تھی
فلپ کو ۱۹۹۹ میں اطلاع ملی کہ اُسکا باپ سخت بیمار ہے۔ اُس وقت وہ لائبیریا میں رضاکارانہ طور پر تعمیراتی کام میں مصروف تھا۔ فلپ جانتا تھا کہ اسکی ماں اِس صورتحال سے تنہا نہیں نپٹ سکتی۔ اسلئے اُس نے گھر لوٹ کر اپنے باپ کے علاج کا انتظام کرنے کا فیصلہ کِیا۔
فلپ بیان کرتا ہے کہ ”میرے لئے اپنی تفویض چھوڑ کر واپس گھر جانا آسان نہیں تھا۔ لیکن مجھے معلوم تھا کہ ماںباپ کی مدد کرنا میری اولین ذمہداری ہے۔“ فلپ کے ماںباپ نے اسکی مدد سے گھر بدل لیا۔ اگلے تین سال کے دوران فلپ نے مسیحی بہنبھائیوں کی مدد سے اس گھر میں اپنے باپ کی خاص ضروریات کے مطابق ردوبدل پیدا کِیا۔
اب فلپ کی ماں اپنے شوہر کی تیمارداری خود کر سکتی ہے۔ اسلئے حال ہی میں فلپ مکدینہ میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر میں رضاکارانہ کام کرنے کی دعوت قبول کرنے کے قابل ہوا ہے۔
[صفحہ ۱۹ پر بکس]
اُنہوں نے اپنی مسیحی بہن کی دیکھبھال کرنے کو ایک شرف سمجھا
تقریباً ۱۰ سال پہلے جب آسٹریلیا میں رہنے والی ایک ۸۵ سالہ مسیحی بہن ایدا کیلئے بیماری کی وجہ سے اپنے گھر سے نکلنا ناممکن ہو گیا تو کلیسیا کے بزرگوں نے ایدا کی مدد کیلئے انتظام کِیا۔ ایسا کرنے کیلئے مسیحی بہنبھائیوں کا ایک گروپ تشکیل دیا گیا جنہوں نے ایدا کے گھر کی صفائیستھرائی، کھانا پکانے، کپڑے دھونے اور بازار سے سوداسلف لانے کا بندوبست کِیا۔
تیس سے زیادہ یہوواہ کے گواہوں نے پچھلے ۱۰ سالوں سے ایدا کی باقاعدہ دیکھبھال کی ہے۔ وہ ایدا کے گھر جاتے اور اُنہیں بائبل پر مبنی رسالوں وغیرہ سے پڑھ کر سناتے، کلیسیا کے مختلف بہنبھائیوں کی ترقی کی خبر دیتے اور اُسکے ساتھ دُعا بھی کرتے ہیں۔
کلیسیا کے ایک بزرگ نے کہا: ”بہنبھائی ایدا کی مدد کرنے کو ایک شرف سمجھتے ہیں۔ ایدا کی سالہاسال کی وفادارانہ خدمت نے بہت سے بہنبھائیوں کو حوصلہافزائی بخشی ہے۔ ایدا کی دیکھبھال کرنا اُنکے لئے بوجھ نہیں بلکہ خوشی کا باعث ہے۔“
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
کیا ہم اپنے عمررسیدہ والدین کے لئے اپنے پیار کا اظہار کرتے ہیں؟
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
کلیسیا کا ہر فرد عمررسیدہ بہنبھائیوں کے لئے اپنی محبت کا اظہار کر سکتا ہے