کیا آپ دُنیا کے لوگوں سے فرق نظر آتے ہیں؟
”تُم . . . صادق اور شریر میں . . . اِمتیاز کرو گے۔“—ملاکی 3:18۔
1، 2. خدا کے بندوں کو کس مشکل صورتحال کا سامنا ہے؟ (مضمون کے شروع میں دی گئی تصویروں کو دیکھیں۔)
بہت سے ڈاکٹر اور نرسیں ایسے لوگوں کی دیکھبھال کرتی ہیں جنہیں چُھوت کی کوئی بیماری ہوتی ہے۔ وہ ایسا اِس لیے کرتے ہیں کیونکہ وہ اُن لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اُنہیں احتیاط بھی برتنی پڑتی ہے تاکہ اُنہیں اُس شخص کی بیماری نہ لگ جائے جس کی وہ دیکھبھال کر رہے ہوتے ہیں۔ یہوواہ کے بندوں کے طور پر ہماری صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ہم میں سے زیادہتر ایسے لوگوں کے بیچ رہتے یا اُن کے ساتھ کام کرتے ہیں جو دُنیا کی سوچ سے متاثر ہیں۔ ایسے لوگوں کی خصلتیں اُن خوبیوں کے بالکل اُلٹ ہیں جو خدا کو پسند ہیں۔ لہٰذا ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
2 اِس آخری زمانے میں بہت سے لوگ اخلاقی طور پر گِرے ہوئے ہیں۔ پولُس رسول نے تیمُتھیُس کے نام اپنے خط میں ایسے لوگوں کی بُری خصلتوں کا ذکر کِیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ جیسے جیسے اِس بُری دُنیا کا خاتمہ نزدیک آتا جائے گا، یہ خصلتیں عام ہوتی جائیں گی۔ (2-تیمُتھیُس 3:1-5، 13 کو پڑھیں۔) حالانکہ ہمیں یہ خصلتیں بہت بُری لگتی ہیں لیکن پھر بھی ہم اِس دُنیا کے لوگوں کی سوچ، باتوں اور طورطریقوں سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ (امثال 13:20) اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ یہ خصلتیں اُن خوبیوں سے کتنی فرق ہیں جو خدا کے بندوں میں پائی جاتی ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ جب ہم یہوواہ کے بارے میں جاننے میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں تو ہم اُن بُری خصلتوں سے متاثر ہونے سے کیسے بچ سکتے ہیں جن کا پولُس رسول نے ذکر کِیا۔
3. دوسرا تیمُتھیُس 3:2-5 میں پولُس نے جن خصلتوں کا ذکر کِیا، وہ کن لوگوں میں پائی جاتی ہیں؟
3 پولُس رسول نے کہا کہ ”آخری زمانے میں مشکل وقت آئے گا۔“ پھر اُنہوں نے 19 ایسی خصلتوں کا ذکر کِیا جو ہمارے زمانے میں بہت عام ہیں۔ یہ خصلتیں اُن خصلتوں سے ملتی جلتی ہیں جن کا ذکر پولُس نے رومیوں 1:29-31 میں کِیا۔ لیکن تیمُتھیُس کے نام خط میں موجود خصلتوں کی فہرست میں اُنہوں نے ایسی اِصطلاحیں اِستعمال کی ہیں جو یونانی صحیفوں میں کہیں اَور نہیں ملتیں۔ لیکن جن خصلتوں کا پولُس نے ذکر کِیا، وہ تمام لوگوں میں نہیں پائی جاتیں۔ خدا کے بندوں میں ایسی خوبیاں ہیں جو اِن خصلتوں سے بالکل فرق ہیں۔—ملاکی 3:18 کو پڑھیں۔
غرور سے بچیں اور خاکسار بنیں
4. گھمنڈی لوگوں کی شخصیت کیسی ہوتی ہے؟
4 جب پولُس نے کہا کہ لوگ خودغرض اور پیسے سے پیار کرنے والے ہوں گے تو اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ لوگ شیخی مارنے والے، مغرور اور گھمنڈی ہوں گے۔ جن لوگوں میں یہ خصلتیں موجود ہوتی ہیں، وہ اپنی صلاحیتوں، خوبصورتی، مالودولت اور مرتبے کی وجہ سے خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ تعریف کے بھوکے ہوتے ہیں۔ ایک ایسے شخص کے بارے میں ایک عالم نے لکھا: ”اُس نے اپنے دل میں ایک چھوٹی سے قربانگاہ بنائی ہوتی ہے جس کے سامنے جھک کر وہ اپنی تعظیم کرتا ہے۔“ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ غرور اِتنی ناگوار چیز ہے کہ جو لوگ خود مغرور ہوتے ہیں، اُنہیں بھی دوسروں میں غرور دیکھ کر بالکل اچھا نہیں لگتا۔
5. یہوواہ کے کچھ بندے مغرور کیسے بن گئے؟
5 یہوواہ غرور کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ اُسے ’اُونچی آنکھوں‘ سے نفرت ہے۔ (امثال 6:16، 17) ایک مغرور شخص خدا کے قریب نہیں جا سکتا۔ (زبور 10:4) غرور شیطان کی شخصیت کا حصہ ہے۔ (1-تیمُتھیُس 3:6) افسوس کی بات ہے کہ خدا کے کچھ بندوں کے دل میں بھی غرور سما گیا۔ مثال کے طور پر بادشاہ عُزیاہ بہت سال تک خدا کے وفادار رہے۔ لیکن بائبل میں اُن کے بارے میں لکھا ہے: ”جب وہ زورآور ہو گیا تو اُس کا دل اِس قدر پھول گیا کہ وہ خراب ہو گیا اور [یہوواہ] اپنے خدا کی نافرمانی کرنے لگا۔“ عُزیاہ نے ہیکل میں جا کر بخور جلایا حالانکہ اُنہیں ایسا کرنے کی اِجازت نہیں تھی۔ بعد میں بادشاہ حِزقیاہ بھی مغرور بن گئے لیکن پھر اُنہوں نے غرور کو اپنے دل سے نکال دیا۔—2-تواریخ 26:16؛ 32:25، 26۔
6. (الف) داؤد کس وجہ سے مغرور بن سکتے تھے؟ (ب) داؤد خاکسار کیوں رہے؟
6 کچھ لوگ اِس لیے مغرور ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ خوبصورت ہوتے ہیں، لوگوں میں مقبول ہوتے ہیں، اچھا گاتے ہیں، کوئی ساز بجانے کا ہنر رکھتے ہیں، طاقتور ہوتے ہیں یا کوئی بڑا مرتبہ رکھتے ہیں۔ داؤد کے پاس یہ سب کچھ تھا لیکن پھر بھی وہ ساری زندگی خاکسار رہے۔ مثال کے طور پر جب داؤد نے جولیت کو مار ڈالا تو ساؤل نے اُنہیں اپنی بیٹی سے شادی کرنے کی پیشکش کی۔ لیکن داؤد نے اُن سے کہا: ”مَیں کیا ہوں اور میری ہستی ہی کیا اور اِؔسرائیل میں میرے باپ کا خاندان کیا ہے کہ مَیں بادشاہ کا داماد بنوں؟“ (1-سموئیل 18:18) داؤد خاکسار کیوں رہ پائے؟ وہ جانتے تھے کہ اُن کے پاس جو بھی خوبیاں، صلاحیتیں اور اعزاز ہیں، وہ اِس لیے ہیں کیونکہ یہوواہ نے فروتنی سے اُن پر نظرِکرم کی ہے۔ (زبور 113:5-8) داؤد اِس بات کو سمجھتے تھے کہ اُنہیں جو کچھ بھی ملا ہے، وہ خدا کی طرف سے ملا ہے۔—1-کُرنتھیوں 4:7 پر غور کریں۔
خدا کے بندوں میں خاکساری دیکھ کر لوگ یہوواہ کے بارے میں سیکھنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔
7. کن باتوں کو یاد رکھنے سے ہم خاکساری کی خوبی ظاہر کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں؟
7 داؤد کی طرح آج بھی خدا کے بندے خاکسار رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات ہمارے دل کو چُھو لیتی ہے کہ کائنات کا حاکمِاعلیٰ بھی فروتن ہے۔ اِس لیے ہم بائبل میں درج اِس ہدایت پر عمل کرنا چاہتے ہیں: ”شفقت، ہمدردی، مہربانی، خاکساری، نرمی اور تحمل کا لباس پہنیں۔“ (کُلسّیوں 3:12) ہم جانتے ہیں کہ محبت ”شیخی نہیں مارتی“ اور ”غرور نہیں کرتی۔“ (1-کُرنتھیوں 13:4) جب دوسرے لوگ ہم میں خاکساری دیکھتے ہیں تو اُن کے دل میں یہوواہ کے بارے میں جاننے کا شوق پیدا ہو سکتا ہے۔ جس طرح ایک غیرایمان شوہر اپنی مسیحی بیوی کے اچھے چالچلن کو دیکھ کر سچائی کی طرف کھنچ سکتا ہے اُسی طرح لوگ خدا کے بندوں میں خاکساری دیکھ کر یہوواہ کے بارے میں سیکھنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔—1-پطرس 3:1۔
آپ دوسروں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں؟
8. (الف) ہمارے زمانے میں کچھ لوگ ماں باپ کی نافرمانی کرنے کو کیسا خیال کرتے ہیں؟ (ب) بائبل میں بچوں کو کیا حکم دیا گیا ہے؟
8 پولُس رسول نے بتایا کہ آخری زمانے میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کیسے پیش آئیں گے۔ اُنہوں نے لکھا کہ بچے ماں باپ کے نافرمان ہوں گے۔ آج بہت سی کتابوں، فلموں اور پروگراموں میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اگر بچے ماں باپ کی نافرمانی کرتے ہیں تو یہ کوئی بُری بات نہیں ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ بچوں کی نافرمانی سے خاندان کمزور ہو جاتے ہیں اور اِس وجہ سے معاشرہ بھی کمزور ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے اِنسان کافی عرصے سے واقف ہیں۔ مثال کے طور پر قدیم یونان میں جو شخص اپنے والدین پر ہاتھ اُٹھاتا تھا، اُسے اُس کے معاشرتی حقوق سے محروم کر دیا جاتا تھا۔ اِس کے علاوہ رومی قانون کے تحت جو شخص اپنے باپ پر ہاتھ اُٹھاتا تھا، اُسے وہی سزا دی جاتی تھی جو ایک قاتل کو دی جاتی تھی۔ عبرانی اور یونانی دونوں صحیفوں میں بچوں کو اپنے ماں باپ کی عزت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔—خروج 20:12؛ اِفسیوں 6:1-3۔
9. بچے اپنے والدین کے فرمانبردار کیسے رہ سکتے ہیں؟
9 بچے اُس صورت میں بھی اپنے والدین کے فرمانبردار کیسے رہ سکتے ہیں اگر اُن کے اِردگِرد لوگ ایسا نہیں کرتے؟ وہ اِس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ اُن کے والدین نے اُن کے لیے کتنا کچھ کِیا ہے۔ یوں اُن کے دل میں اپنے والدین کے لیے شکرگزاری اور فرمانبرداری کا جذبہ پیدا ہوگا۔ بچوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ خدا جو ہم سب کا باپ ہے، اُن سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ اپنے والدین کے فرمانبردار رہیں۔ جب بچے اپنے دوستوں سے اپنے والدین کے بارے میں اچھی باتیں کرتے ہیں تو اُن کے دوستوں کو بھی اپنے والدین کی عزت کرنے کی ترغیب مل سکتی ہے۔ بِلاشُبہ اگر والدین خاندانی محبت سے خالی ہوں گے تو اُن کے بچوں کے لیے اُن کا فرمانبردار رہنا مشکل ہوگا۔ مگر جب ایک بچہ یہ دیکھتا ہے کہ اُس کے ماں باپ اُس سے پیار کرتے ہیں تو وہ تب بھی اُن کا فرمانبردار رہتا ہے جب اُس کے لیے ایسا کرنا آسان نہیں ہوتا۔ آسٹن نامی نوجوان نے لکھا: ”میرا دل اکثر یہ چاہتا تھا کہ مَیں ہر کام اپنی مرضی کے مطابق کروں۔ لیکن میرے امی ابو نے گھر میں جو اصول بنائے ہوئے تھے، وہ زیادہ سخت نہیں تھے اور مجھے یہ بتایا تھا کہ اِن اصولوں کے پیچھے کیا وجہ ہے۔ اِس کے علاوہ وہ ہمیشہ مجھے اپنی رائے کا اِظہار کرنے کا موقع دیتے تھے۔ اِن سب باتوں کی وجہ سے مَیں اُن کا فرمانبردار رہ پایا۔ مجھے یہ احساس تھا کہ وہ میری فکر کرتے ہیں اور اِس لیے میرا دل چاہتا تھا کہ مَیں اُنہیں خوش رکھوں۔“
10، 11. (الف) لوگوں میں کون سی بُری خصلتیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے پیار نہیں کرتے؟ (ب) سچے مسیحی دوسروں سے کس حد تک محبت کرتے ہیں؟
10 پولُس نے کچھ اَور ایسی خصلتوں کا ذکر بھی کِیا جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے پیار نہیں کرتے۔ یہ بیان کرنے کے بعد کہ بچے ”ماں باپ کے نافرمان“ ہوں گے، اُنہوں نے کہا کہ لوگ ناشکر ہوں گے۔ دراصل نافرمان بچوں کی طرح ناشکر لوگ بھی اُن اچھے کاموں کی قدر نہیں کرتے جو دوسرے اُن کے لیے کرتے ہیں۔ پولُس نے یہ بھی کہا کہ لوگ بےوفا ہوں گے۔ وہ ضدی ہوں گے یعنی دوسروں کے ساتھ صلح کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ وہ دھوکےباز اور کفر بکنے والے ہوں گے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نہ صرف اِنسانوں کے بارے میں بلکہ خدا کے بارے میں بھی اُلٹی سیدھی باتیں کہیں گے۔ وہ بدنامی کرنے والے ہوں گے یعنی لوگوں کے بارے میں جھوٹی باتیں کر کے اُن کی نیک نامی برباد کریں گے۔a
11 یہوواہ کے بندے دُنیا کے زیادہتر لوگوں سے فرق ہیں کیونکہ وہ دوسروں کے لیے حقیقی محبت ظاہر کرتے ہیں۔ خدا کے بندے شروع سے ہی ایسا کرتے آئے ہیں۔ یسوع مسیح نے کہا کہ موسیٰ کی شریعت میں خدا سے محبت کرنے کے حکم کے بعد سب سے بڑا حکم یہ تھا کہ دوسرے اِنسانوں سے محبت کی جائے۔ (متی 22:38، 39) یسوع مسیح نے یہ بھی کہا کہ لوگ سچے مسیحیوں کی آپسی محبت کو دیکھ کر یہ پہچان جائیں گے کہ وہ مسیح کے شاگرد ہیں۔ (یوحنا 13:34، 35 کو پڑھیں۔) سچے مسیحی تو اپنے دُشمنوں سے بھی محبت کرتے ہیں۔—متی 5:43، 44۔
12. یسوع مسیح نے دوسروں کے لیے محبت کیسے ظاہر کی؟
12 یسوع مسیح نے دوسروں کے لیے حقیقی محبت ظاہر کی۔ اِسی محبت کی وجہ سے وہ لوگوں کو بادشاہت کی خوشخبری سنانے کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کِیا کرتے تھے۔ اُنہوں نے اندھوں، لنگڑوں، کوڑھیوں اور بہروں کو شفا دی۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے مُردوں کو بھی زندہ کِیا۔ (لُوقا 7:22) یسوع مسیح نے تو اِنسانوں کے لیے اپنی جان بھی قربان کر دی حالانکہ بہت سے اِنسان اُن سے نفرت کرتے تھے۔ یسوع مسیح نے بالکل ویسی ہی محبت ظاہر کی جیسی اُن کا باپ کرتا ہے۔ دُنیا بھر میں یہوواہ کے گواہ یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرتے ہیں اور دوسروں کے لیے محبت ظاہر کرتے ہیں۔
13. جب ہم دوسروں کے لیے محبت ظاہر کرتے ہیں تو اُن کے دل میں یہوواہ کے بارے میں جاننے کا شوق کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟
13 جب دوسرے لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ہم اُن کے لیے محبت ظاہر کرتے ہیں تو اُن کے دل میں ہمارے آسمانی باپ کے بارے میں جاننے کا شوق پیدا ہو سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں تھائیلینڈ سے ایک مثال پر غور کریں۔ وہاں جب ایک شخص پہلی دفعہ ہمارے ایک علاقائی اِجتماع پر گیا تو وہ بہن بھائیوں کی آپسی محبت کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ جب وہ اپنے گھر واپس گیا تو اُس نے یہوواہ کے گواہوں سے ہفتے میں دو بار بائبل کورس کرنے کی درخواست کی۔ پھر اُس نے اپنے رشتےداروں کو گواہی دی۔ صرف چھ مہینے بعد اُس نے پہلی بار کنگڈم ہال میں بائبل کی تلاوت کی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھی دوسروں کے لیے محبت ظاہر کر رہے ہیں؟ خود سے پوچھیں: ”کیا مَیں اپنے گھر میں، کلیسیا میں اور مُنادی کے کام کے دوران دوسروں کی مدد کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہوں؟ کیا مَیں دوسروں کو اُسی نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں جس سے یہوواہ دیکھتا ہے؟“
بھیڑیے اور برّے
14، 15. (الف) بہت سے لوگوں میں کون سی بُری خصلتیں پائی جاتی ہیں؟ (ب) کچھ لوگوں نے اپنی شخصیت کو کیسے تبدیل کِیا ہے؟
14 اِس آخری زمانے میں لوگوں میں اَور بھی ایسی خصلتیں ہیں جنہیں اپنانے سے ہمیں بچنا چاہیے۔ مثال کے طور پر بہت سے لوگ نیکی کے دُشمن ہیں۔ وہ بےضبط اور وحشی ہیں۔ اِس کے علاوہ بعض لوگ ہٹدھرم ہیں۔ ایسے لوگ کچھ بھی کرنے سے پہلے سوچتے نہیں اور نہ ہی اِس بات کی پرواہ کرتے ہیں کہ اُن کے کاموں کا دوسروں پر کیا اثر ہوتا ہے۔
15 بہت سے لوگ جن کی شخصیت پہلے وحشی درندوں جیسی تھی، اب بدل گئے ہیں۔ بائبل میں اِس تبدیلی کی پیشگوئی بڑے خوبصورت انداز میں کی گئی تھی۔ (یسعیاہ 11:6، 7 کو پڑھیں۔) اِس میں کہا گیا تھا کہ جنگلی جانور، مثلاً بھیڑیے اور شیر امن و سکون سے پالتو جانوروں، مثلاً برّوں اور بچھڑوں کے ساتھ رہیں گے۔ ایسا اِس لیے ہوگا کیونکہ ”زمین [یہوواہ] کے عرفان [یعنی علم] سے معمور ہوگی۔“ (یسعیاہ 11:9) چونکہ جانور یہوواہ کے بارے میں سیکھ نہیں سکتے اِس لیے یہ پیشگوئی اُن تبدیلیوں کی طرف اِشارہ کرتی ہے جو اِنسان اپنی شخصیتوں میں کرتے ہیں۔
16. لوگوں نے بائبل کی مدد سے اپنی شخصیتوں میں تبدیلیاں کیسے کی ہیں؟
اپنی زندگی میں تبدیلیاں کرنا آسان نہیں ہوتا لیکن خدا کی پاک روح اُن لوگوں کی مدد کرتی ہے جو خلوصِدل سے اُسے خوش کرنا چاہتے ہیں۔
16 جس طرح بھیڑیا ایک وحشی جانور ہوتا ہے اُسی طرح ہمارے بہت سے بہن بھائی پہلے ظالم اور غصیلے تھے۔ مگر اب وہ امنپسند بن گئے ہیں۔ آپ ایسے کچھ بہن بھائیوں کے بارے میں ہماری ویبسائٹ jw.org پر سلسلہوار مضمون ”پاک کلام کی تعلیم زندگی سنوارتی ہے“ میں پڑھ سکتے ہیں۔ جن لوگوں نے یہوواہ کو قریب سے جان لیا ہے اور اُس کی خدمت کرنے لگے ہیں، وہ اُن لوگوں کی طرح نہیں ہیں جو ’دِکھنے میں تو بڑے خداپرست لگتے ہیں لیکن جن کا طرزِزندگی خدا کے حکموں کے مطابق نہیں ہے۔‘ پولُس نے جن لوگوں کا ذکر کِیا، وہ خدا کی عبادت کرنے کا دِکھاوا تو کرتے ہیں لیکن اُن کے طورطریقوں سے کچھ اَور ہی ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن یہوواہ کے بندوں میں بہت سے ایسے لوگ شامل ہیں جو پہلے وحشی اور ظالم تھے لیکن اب ’اُس نئی شخصیت کو پہن چُکے ہیں جو خدا کی مرضی کے مطابق ڈھالی گئی ہے اور حقیقی نیکی اور وفاداری پر مبنی ہے۔‘ (اِفسیوں 4:23، 24) جب لوگ خدا کے بارے میں سیکھتے ہیں تو اُنہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اُنہیں اُس کے معیاروں پر چلنے کی ضرورت ہے۔ یوں اُنہیں یہ ترغیب ملتی ہے کہ وہ اپنے عقیدوں، سوچ اور کاموں میں تبدیلی لائیں۔ ایسی تبدیلیاں کرنا آسان نہیں ہوتا لیکن خدا کی پاک روح اُن لوگوں کی مدد کرتی ہے جو خلوصِدل سے اُسے خوش کرنا چاہتے ہیں۔
”اِس طرح کے لوگوں سے دُور رہیں“
17. ہم ایسے لوگوں کے اثر سے کیسے بچ سکتے ہیں جن میں بُری خصلتیں پائی جاتی ہیں؟
17 وقت کے ساتھ ساتھ خدا کی خدمت کرنے والوں اور نہ کرنے والوں میں فرق اَور نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں محتاط رہنا چاہیے کہ ہم اُن لوگوں کی بُری خصلتیں نہ اپنائیں جو خدا کی عبادت نہیں کرتے۔ ہم یہوواہ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ایسے لوگوں سے دُور رہنا چاہتے ہیں جن میں 2-تیمُتھیُس 3:2-5 میں بیان کی گئی خصلتیں پائی جاتی ہیں۔ سچ ہے کہ ہم ایسے لوگوں کے ساتھ مکمل طور پر تعلقات ختم نہیں کر سکتے۔ شاید ہمیں اُن کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے یا سکول جانا پڑتا ہے یا اُن کے بیچ رہنا پڑتا ہے۔ مگر پھر بھی ہم اُن لوگوں کی سوچ اور طورطریقے اپنانے سے بچ سکتے ہیں۔ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ ہمیں یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی مضبوط کرنی چاہیے۔ اِس کے لیے ہمیں بائبل کا مطالعہ کرنا چاہیے اور ایسے لوگوں سے دوستی کرنی چاہیے جو یہوواہ سے پیار کرتے ہیں۔
18. ہماری باتوں اور کاموں سے دوسروں کے اندر یہوواہ کے بارے میں جاننے کا شوق کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟
18 ہمیں یہ کوشش بھی کرنی چاہیے کہ ہم یہوواہ کو قریب سے جاننے میں لوگوں کی مدد کریں۔ لہٰذا دوسروں کو گواہی دینے کے موقعے ڈھونڈیں اور اِس سلسلے میں یہوواہ سے درخواست کریں کہ وہ صحیح وقت پر صحیح بات کہنے میں آپ کی مدد کرے۔ ہمیں دوسروں کو یہ بتانا چاہیے کہ ہم یہوواہ کے گواہ ہیں۔ پھر ہمارے اچھے چالچلن سے ہماری نہیں بلکہ یہوواہ کی بڑائی ہوگی۔ یہوواہ نے ہماری تربیت کی ہے تاکہ ”ہم بُرائی اور دُنیاوی خواہشات کو رد کر سکیں اور اِس زمانے میں خدا کی بندگی کرتے ہوئے سمجھداری اور نیکی سے زندگی گزار سکیں۔“ (طِطُس 2:11-14) جب ہم یہوواہ کی مثال پر عمل کریں گے اور اُس کی مرضی پر چلیں گے تو یہ بات دوسروں کی نظر سے اوجھل نہیں رہے گی۔ بعض شاید ہم سے یہ بھی کہیں: ”ہم تمہارے ساتھ جائیں گے کیونکہ ہم نے سنا ہے کہ خدا تمہارے ساتھ ہے۔“—زکریاہ 8:23۔
a بائبل میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ’بدنامی کرنے والا‘ اور ”اِلزام لگانے والا“ کِیا گیا ہے، وہ لفظ شیطان کے ایک لقب کے طور پر اِستعمال کِیا گیا ہے کیونکہ شیطان خدا پر جھوٹے اِلزام لگاتا ہے۔