”مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“ کے حوالے
2-8 ستمبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | عبرانیوں 7، 8
”تُم مَلکیصدق جیسے کاہن ہو اور ہمیشہ رہو گے“
(عبرانیوں 7:1، 2) مَلکیصدق جو سالم کے بادشاہ اور خدا تعالیٰ کے کاہن تھے، اُس وقت ابراہام سے ملنے گئے جب ابراہام بادشاہوں کو شکست دے کر آ رہے تھے۔ مَلکیصدق نے اُن کو برکت دی 2 اور ابراہام نے اُنہیں ہر چیز کا دسواں حصہ دیا۔ مَلکیصدق کے نام کا مطلب ”صداقت کا بادشاہ“ ہے اور وہ سالم کے بادشاہ یعنی ”سلامتی کے بادشاہ“ بھی ہیں۔
آئیٹی-2 ص. 366
مَلکیصدق
مَلکیصدق قدیم شہر سالم کے بادشاہ اور یہوواہ خدا کے کاہن تھے۔ (پید 14:18، 22) پاک صحیفوں میں سب سے پہلے مَلکیصدق کو کاہن کہا گیا۔ اُنہیں 1933 قبلازمسیح سے پہلے کاہن کے طور پر مقرر کِیا گیا تھا۔ سالم کا مطلب ہے: ”سلامتی۔“ اِس لیے پولُس رسول نے مَلکیصدق کو ’سلامتی کا بادشاہ‘ اور اُن کے نام کے بِنا پر اُنہیں ’صداقت کا بادشاہ‘ کہا۔ (عبر 7:1، 2) قدیم شہر سالم اُس شہر کا مرکز تھا جو بعد میں یروشلیم بن گیا۔ اور یروشلیم کا نام لفظ سالم سے نکلا ہے۔ اِس لیے کبھی کبھار یروشلیم کا حوالہ ”سالم“ کے طور پر بھی دیا جاتا ہے۔—زبور 76:2۔
کدرلاعمر اور اُس کے ساتھ کے بادشاہوں کو شکست دینے کے بعد ابرام (ابراہام) ”سوی کی وادی“ یعنی ”بادشاہی وادی“ میں آئے۔ وہاں مَلکیصدق اُن کے لیے ”روٹی اور مے“ لائے اور یہ کہہ کر اُنہیں برکت دی: ”خداتعالیٰ کی طرف سے جو آسمان اور زمین کا مالک ہے اؔبرام مبارک ہو۔ اور مبارک ہے خداتعالیٰ جس نے تیرے دشمنوں کو تیرے ہاتھ میں کر دیا۔“ اِس پر ابراہام نے مَلکیصدق کو جو کاہن اور بادشاہ تھے، مالِغنیمت میں سے ”سب سے اچھی چیزوں“ کا دسواں حصہ دیا۔—پید 14:17-20؛ عبر 7:4۔
(عبرانیوں 7:3) اُن کے ماں باپ، اُن کے نسبنامے اور اُن کی زندگی کے آغاز اور اِختتام کے بارے میں کچھ پتہ نہیں بلکہ وہ خدا کے بیٹے کی طرح ہیں اور اِس لیے وہ ہمیشہ تک کاہن رہیں گے۔
آئیٹی-2 ص. 367 پ. 4
مَلکیصدق
یہ کہنا کیوں درست ہے کہ مَلکیصدق کی ”زندگی کے آغاز اور اِختتام کے بارے میں کچھ پتہ نہیں“؟
پولُس رسول نے مَلکیصدق کے بارے میں ایک حیرانکُن بات بتائی۔ اُنہوں نے کہا: ”اُن کے ماں باپ، اُن کے نسبنامے اور اُن کی زندگی کے آغاز اور اِختتام کے بارے میں کچھ پتہ نہیں بلکہ وہ خدا کے بیٹے کی طرح ہیں اور اِس لیے وہ ہمیشہ تک کاہن رہیں گے۔“ (عبر 7:3) مَلکیصدق دوسرے اِنسانوں کی طرح پیدا ہوئے اور فوت ہوئے۔ لیکن اُن کے والدین، اُن کے باپ دادا اور اُن کی اولاد کے بارے میں کوئی معلومات موجود نہیں۔ پاک کلام میں اُن کی ”زندگی کے آغاز اور اِختتام کے بارے میں“ کچھ نہیں بتایا گیا۔ چونکہ یسوع مسیح ہمیشہ تک کاہن ہوں گے اِس لیے مَلکیصدق صحیح طور پر اُن کا عکس پیش کر سکتے تھے۔ جس طرح مَلکیصدق کسی کی جگہ کاہن مقرر نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی اُن کی جگہ کوئی اَور کاہن مقرر ہوا تھا بالکل اُسی طرح مسیح سے پہلے اُس کی مانند کوئی کاہنِاعظم نہیں ہوا تھا اور پاک کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس کے بعد بھی کوئی کاہن مقرر نہیں ہوگا۔ حالانکہ یسوع یہوداہ کے قبیلے اور داؤد کی نسل سے آئے لیکن اُنہیں بادشاہ اور کاہن کا عہدہ نہ تو کسی خاص قبیلے سے تعلق کی بِنا پر اور نہ ہی باپدادا کی طرف سے ملا تھا۔ یسوع اُس قسم کی بِنا پر کاہن مقرر ہوئے جو یہوواہ نے اُن سے کھائی تھی۔
(عبرانیوں 7:17) کیونکہ اُس کے بارے میں یہ گواہی دی گئی کہ ”تُم مَلکیصدق جیسے کاہن ہو اور ہمیشہ رہو گے۔“
آئیٹی-2 ص. 366
مَلکیصدق
مسیح مَلکیصدق جیسا کاہن۔ مسیح کے حوالے سے ایک اہم پیشگوئی میں یہوواہ نے داؤد کے ”خداوند“ یعنی ”مالک“ سے قسم کھائی کہ ”تُو ملکِصدؔق کے طور پر ابد تک کاہن ہے۔“ (زبور 110:1، 4) اِس زبور کی بِنا پر عبرانی یہ سمجھ گئے کہ جس مسیح کے آنے کا وعدہ کِیا گیا تھا، وہ کاہن بھی ہوگا اور بادشاہ بھی۔ عبرانیوں کے نام خط میں پولُس رسول نے واضح طور پر بتا دیا کہ یسوع ہی مَلکیصدق جیسے ”کاہنِاعظم“ ہیں اور ”ہمیشہ رہیں گے۔“—عبر 6:20؛ 5:10۔
آئیٹی-1 ص. 1113 پ. 4، 5
کاہن کے طور پر یسوع مسیح کا عہدہ افضل ہے۔ عبرانیوں کے خط میں بتایا گیا ہے کہ یسوع مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھنے اور آسمان میں داخل ہونے کے بعد سے ”مَلکیصدق جیسے کاہنِاعظم بن گئے اور ہمیشہ رہیں گے۔“ (عبر 6:20؛ 7:17، 21) پولُس رسول نے بتایا کہ مَلکیصدق بادشاہ اور کاہن اِس لیے تھے کہ یہوواہ خدا نے اُنہیں اِن دونوں عہدوں پر مقرر کِیا تھا نہ کہ اِس لیے کہ اُن کا تعلق کسی خاص قبیلے سے تھا۔ اِس طرح پولُس نے واضح کِیا کہ کاہن کے طور پر مسیح کا عہدہ ہارون کی نسل سے آنے والے کاہنوں کے عہدے سے افضل ہے۔ یسوع مسیح لاوی کے قبیلے سے نہیں تھے بلکہ یہوداہ کے قبیلے سے اور داؤد کی نسل سے تھے۔ لہٰذا اُنہیں کاہن کا عہدہ ہارون کی نسل سے آنے کی وجہ سے نہیں ملا بلکہ اِس لیے ملا کہ خدا نے مَلکیصدق کی طرح اُنہیں بھی خود کاہن مقرر کِیا تھا۔ (عبر 5:10) یہوواہ نے اُس قسم کی بِنا پر یسوع کو آسمان پر بادشاہ اور کاہن مقرر کِیا ہے جو زبور 110:4 میں درج ہے جہاں لکھا ہے: ”[یہوواہ] نے قسم کھائی ہے اور پھرے گا نہیں کہ تُو ملکِصدؔق کے طور پر ابد تک کاہن ہے۔“ یسوع کو بادشاہ اِس لیے بھی مقرر کِیا گیا ہے کہ وہ داؤد کی نسل سے تھے۔ اِس لحاظ سے یسوع اُس بادشاہت کے وارث بن گئے جس کا داؤد سے وعدہ کِیا گیا تھا۔ (2-سمو 7:11-16) یہی وجہ ہے کہ مَلکیصدق کی طرح یسوع مسیح بادشاہ بھی ہیں اور کاہن بھی۔
پولُس نے ایک اَور طریقے سے بھی یہ ظاہر کِیا کہ کاہن کے طور پر مسیح کا عہدہ افضل ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ لاوی کاہنوں نے ایک لحاظ سے مَلکیصدق کو مال کا دسواں حصہ دیا کیونکہ جب ابراہام نے سالم کے بادشاہ اور کاہن کو مالِغنیمت کا دسواں حصہ دیا تو لاوی ابراہام کی آنے والی اولاد تھے۔ لہٰذا جب مَلکیصدق نے ابراہام کو برکت دی تو ایک طرح سے لاویوں کو بھی برکت ملی اور اصول یہ ہے کہ بڑا چھوٹے کو برکت دیتا ہے۔ (عبر 7:4-10) پولُس نے اِس بات پر بھی توجہ دِلائی کہ مَلکیصدق کے ”ماں باپ، اُن کے نسبنامے اور اُن کی زندگی کے آغاز اور اِختتام کے بارے میں کچھ پتہ نہیں۔“ مَلکیصدق نے اِس بات کا عکس پیش کِیا کہ یسوع مسیح جو ”نہ ختم ہونے والی زندگی“ کے لیے جی اُٹھے ہیں، ”ہمیشہ تک کاہن رہیں گے۔“—عبر 7:3، 15-17۔
سنہری باتوں کی تلاش
(عبرانیوں 8:3) ہر کاہنِاعظم کو نذرانے اور قربانیاں پیش کرنے کے لیے مقرر کِیا جاتا ہے اِس لیے ضروری تھا کہ ہمارا کاہنِاعظم بھی کچھ پیش کرے۔
م00 15/8 ص. 14 پ. 11
خدا کو خوش کرنے والی قربانیاں
”ہر سردار کاہن نذریں اور قربانیاں گذراننے کے واسطے مقرر ہوتا ہے،“ پولس رسول بیان کرتا ہے۔ (عبرانیوں 8:3) غور کریں کہ قدیم اسرائیل میں سردار کاہن خدا کے حضور جو چیزیں پیش کرتا تھا پولس اُنہیں دو اقسام میں تقسیم کرتا ہے یعنی ”نذریں“ اور ”قربانیاں“ یا ”گناہوں کی قربانیاں۔“ (عبرانیوں 5:1) لوگ عام طور پر اُلفت اور قدردانی کا اظہار کرنے، نیز دوستی، کرمفرمائی یا خوشنودی حاصل کرنے کیلئے نذرانے دیتے ہیں۔ (پیدایش 32:20؛ امثال 18:16) اسی طرح، شریعت کے تحت بھی یہوواہ کی کرمفرمائی اور خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اُسکے حضور ”نذریں“ پیش کی جاتی تھیں۔ شریعت کی خلافورزی سے واقع ہونے والے نقصان کی تلافی کیلئے ہرجانہ یا ”گناہوں کی قربانیاں“ پیش کی جاتی تھیں۔ توریت، بالخصوص خروج، احبار اور گنتی کی کتابیں مختلف اقسام کی قربانیوں اور نذروں کے متعلق ضخیم معلومات پیش کرتی ہیں۔ اگرچہ ان ساری تفصیلات کو سمجھنا اور یاد رکھنا مشکل ہو سکتا ہے توبھی مختلف اقسام کی قربانیوں کے متعلق بعض کلیدی نکات ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔
(عبرانیوں 8:13) جب اُس نے ”نئے عہد“ کا ذکر کِیا تو اُس نے پہلے کو فالتو قرار دیا۔ اب جو چیز پُرانی اور فالتو ہے، وہ مٹنے والی ہے۔
آئیٹی-1 ص. 523 پ. 5
عہد
بنیاِسرائیل کے ساتھ باندھا گیا عہد کب ”فالتو“ قرار دیا گیا؟
بنیاِسرائیل کے ساتھ باندھا گیا عہد ایک لحاظ سے اُسی وقت ”فالتو“ ہو گیا جب یہوواہ نے یرمیاہ نبی کے ذریعے یہ اِعلان کِیا کہ وہ ایک نیا عہد باندھے گا۔ (یرم 31:31-34؛ عبر 8:13) 33ء میں جب یسوع نے سُولی پر اپنی جان قربان کی تو بنیاِسرائیل کے ساتھ باندھا گیا عہد ختم ہو گیا (کُل 2:14) اور اِس کی جگہ نئے عہد نے لے لی۔—عبر 7:12؛ 9:15؛ اعما 2:1-4۔
9-15 ستمبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | عبرانیوں 9، 10
”شریعت آنے والی اچھی چیزوں کا محض سایہ ہے“
(عبرانیوں 9:12-14) پھر وہ مُقدسترین خانے میں ایک ہی بار ہمیشہ کے لیے داخل ہوا لیکن بکروں اور بچھڑوں کا خون لے کر نہیں بلکہ اپنا خون لے کر اور یوں ہمارے لیے ابدی نجات حاصل کی۔ 13 کیونکہ کاہن بکروں اور بیلوں کا خون اور بچھیا کی راکھ چھڑک کر ناپاک لوگوں کو جسمانی طور پر پاک کرتے ہیں۔ 14 لیکن مسیح کا خون تو اِس سے کہیں زیادہ قیمتی ہے! اُس نے ابدی روح کی رہنمائی میں اپنے آپ کو خدا کے لیے ایک بےعیب قربانی کے طور پر پیش کِیا اور اپنے خون سے ہمارے ضمیر کو مُردہ کاموں سے پاک کِیا تاکہ ہم زندہ خدا کی عبادت کر سکیں۔
آئیٹی-1 ص. 862 پ. 1
معافی
بنیاِسرائیل کو دی گئی شریعت کے مطابق جو شخص خدا یا کسی اِنسان کے خلاف گُناہ کرتا تھا، اُسے اپنے گُناہوں کی معافی حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا ہوتا تھا؟ پہلے تو اُسے شریعت میں بتائے گئے طریقے کے مطابق گُناہ سے ہونے والے نقصان کی بھرپائی کرنی ہوتی تھی اور پھر اُسے زیادہتر صورتوں میں یہوواہ کے حضور جانوروں کی قربانی چڑھانی ہوتی تھی۔ (احبا 5:5–6:7) اِسی لیے پولُس رسول نے کہا: ”تقریباً ساری چیزیں خون سے پاک ہو جاتی ہیں اور جب تک خون نہیں بہایا جاتا، گُناہ معاف نہیں ہوتے۔“ (عبر 9:22) لیکن جانوروں کے بہائے ہوئے خون سے نہ تو گُناہوں کو مٹایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ایک شخص کو مکمل طور پر صاف ضمیر حاصل ہو سکتا ہے۔ (عبر 10:1-4؛ 9:9، 13، 14) اِس کے برعکس نئے عہد کے تحت یسوع مسیح کی قربانی کی بِنا پر صحیح معنوں میں گُناہوں کی معافی حاصل کرنا ممکن ہے۔ (یرم 31:33، 34؛ متی 26:28؛ 1-کُر 11:25؛ اِفس 1:7) جب یسوع زمین پر تھے تو اُنہوں نے ایک فالجزدہ شخص کو ٹھیک کرنے سے ظاہر کِیا کہ اُنہیں گُناہوں کو معاف کرنے کا اِختیار دیا گیا ہے۔—متی 9:2-7۔
(عبرانیوں 9:24-26) کیونکہ مسیح ہاتھ سے بنے مُقدسترین خانے میں داخل نہیں ہوا جو اصل کی نقل ہے بلکہ وہ آسمان میں داخل ہوا تاکہ ہماری خاطر خدا کے سامنے حاضر ہو۔ 25 یوں مسیح نے اپنے آپ کو قربانی کے طور پر بار بار پیش نہیں کِیا جیسے کاہنِاعظم کرتا ہے جب وہ ہر سال جانوروں کا خون لے کر مُقدسترین خانے میں جاتا ہے۔ 26 ورنہ تو مسیح کو دُنیا کی بنیاد ڈالے جانے سے لے کر اب تک بار بار تکلیف اُٹھانی پڑتی۔ لیکن وہ اِس آخری زمانے میں ایک ہی بار آیا تاکہ اپنی جان دے کر گُناہوں کو مٹا دے۔
م09 1/9 ص. 30 پ. 8، 9
کیا آپ نجات کے لئے خدا کے بندوبست کے شکرگزار ہیں؟
شریعت کے تحت جن قربانیوں کا حکم دیا گیا تھا اُن میں یومِکفارہ پر گزرانی جانے والی قربانیاں خاص طور پر اہمیت کی حامل تھیں۔ اُس دن پر سردار کاہن جوکچھ انجام دیتا تھا وہ علامتی طور پر بہت اہم تھا۔ یومِکفارہ پر وہ پہلے کاہنوں اور پھر پوری اسرائیلی جماعت کے گُناہوں کی معافی کے لئے یہوواہ خدا کے حضور قربانیاں گزرانتا تھا۔ سردار کاہن ہیکل کے پاکترین مقام میں جاتا تھا جہاں وہ سال میں صرف اِسی دن پر جا سکتا تھا۔ وہاں وہ قربانیوں کا خون عہد کے صندوق کے سامنے چھڑکتا تھا۔ بعض موقعوں پر عہد کے صندوق کے اُوپر اَبر یعنی بادل دکھائی دیتا تھا جو یہوواہ خدا کی موجودگی کو ظاہر کرتا تھا۔—خر 25:22؛ احبا 16:1-30۔
پولس رسول نے الہام سے یہ واضح کِیا کہ یومِکفارہ پر سردار کاہن جو کچھ انجام دیتا تھا اُس کا کیا مطلب تھا؟ اُس نے بیان کِیا کہ سردارکاہن مسیحا یعنی یسوع مسیح کی عکاسی کرتا ہے جبکہ قربانیاں گزراننا مسیح کی قربانی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ (عبر 9:11-14) یسوع کی قربانی نے کاہنوں کی جماعت یعنی مسیح کے 1 لاکھ 44 ہزار ممسوح بھائیوں اور اُس کی ’اَور بھی بھیڑوں‘ کے لئے حقیقی کفارہ فراہم کرنا تھا۔ (یوح 10:16) سردارکاہن کے پاکترین مقام میں داخل ہونے سے یسوع مسیح کے آسمان پر جانے کا عکس پیش کِیا گیا جہاں اُس نے یہوواہ خدا کے حضور فدیے کی قیمت پیش کی۔—عبر 9:24، 25۔
(عبرانیوں 10:1-4) شریعت آنے والی اچھی چیزوں کا محض سایہ ہے لیکن بذاتِخود وہ چیزیں نہیں ہے۔ اِس لیے یہ اُن قربانیوں کے ذریعے جو سالہاسال بار بار پیش کی جاتی ہیں، اُن لوگوں کو کامل نہیں بنا سکتی جو خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ 2 اگر ایسا ہوتا تو کیا قربانیاں چڑھانے کی ضرورت رہتی؟ کیونکہ اگر عبادت کرنے والے پاک ہو جاتے تو اُن کا ضمیر اُن کو پھر کبھی گُناہ کا احساس نہ دِلاتا۔ 3 مگر یہ قربانیاں تو سالہاسال گُناہوں کا احساس دِلاتی ہیں 4 کیونکہ بیلوں اور بکروں کا خون گُناہوں کو مٹا نہیں سکتا۔
آئیٹی-2 ص. 602
کامل
بنیاِسرائیل کو دی گئی شریعت کس لحاظ سے کامل تھی؟ بنیاِسرائیل کو موسیٰ کے ذریعے جو شریعت دی گئی، اُس کے مختلف پہلوؤں میں کاہنوں کا بندوبست اور مختلف جانوروں کی قربانیاں دینا شامل تھا۔ حالانکہ یہ شریعت خدا کی طرف سے تھی اور اِس میں کوئی عیب نہیں تھا لیکن نہ تو شریعت اور نہ ہی کاہن اور قربانیاں اُن لوگوں کو کامل بنا سکتی تھیں جو اِس شریعت کے تحت تھے جیسے کہ پولُس رسول نے خدا کے اِلہام سے لکھا۔ (عبر 7:11، 19؛ 10:1) شریعت کے ذریعے گُناہ اور موت سے رِہائی نہیں ملی بلکہ اِس کے ذریعے تو یہ ظاہر ہوا کہ گُناہ کیا ہے۔ (روم 3:20؛ 7:7-13) اِس کے باوجود شریعت کے ذریعے وہ مقصد پورا ہوا جس کے لیے خدا نے شریعت دی تھی۔ شریعت ایک ”نگران“ بن کر لوگوں کو مسیح تک لے آئی اور یوں مکمل طور پر ’آنے والی اچھی چیزوں کا سایہ‘ ثابت ہوئی۔ (گل 3:19-25؛ عبر 10:1) لہٰذا جب پولُس نے کہا کہ ”شریعت جسم کی وجہ سے کمزور تھی“ (روم 8:3) تو اصل میں وہ یہ کہہ رہے تھے کہ یہودی کاہنِاعظم (جسے شریعت کے تحت مقرر کِیا جاتا تھا تاکہ وہ قربانیوں کے اِنتظامات کی نگرانی کرے اور جو یومِکفارہ پر مُقدسترین خانے میں قربانی کا خون لے کر جاتا تھا) اُن لوگوں کو ”مکمل نجات“ نہیں دِلا سکتا جن کی خدمت کے لیے اُسے مقرر کِیا گیا تھا جیسے کہ عبرانیوں 7:11، 18-28 میں واضح کِیا گیا ہے۔ اگرچہ ہارون کی نسل سے آنے والے کاہنوں کے ذریعے پیش کی جانے والی قربانیوں کے ذریعے لوگوں کو کسی حد تک خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی تھی لیکن گُناہ کا احساس مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا تھا۔ پولُس رسول نے اِس کے بارے میں بتایا کہ یومِکفارہ پر پیش کی جانے والی قربانیاں ’اُن لوگوں کو کامل نہیں بنا سکتیں جو خدا کی عبادت کرتے ہیں‘ یعنی اُن کے ضمیر کو مکمل طور پر پاک نہیں کر سکتیں۔ (عبر 10:1-4؛ عبرانیوں 9:9 پر غور کریں۔) یہ کاہنِاعظم وہ فدیہ ادا نہیں کر سکتا تھا جو اِنسانوں کو گُناہ سے مکمل طور پر چھٹکارا دِلانے کے لیے ضروری تھا۔ صرف مسیح ہی کاہنِاعظم کے طور پر اپنی جان قربان کرنے سے ایسا کر سکتا تھا۔—عبر 9:14؛ 10:12-22۔
سنہری باتوں کی تلاش
(عبرانیوں 9:16، 17) کیونکہ جب ایک عہد باندھا جاتا ہے تو عہد کے اِنسانی درمیانی کو مرنا پڑتا ہے 17 کیونکہ عہد موت کے ذریعے ہی عمل میں آتا ہے۔ جب تک عہد کا اِنسانی درمیانی زندہ ہے تب تک عہد عمل میں نہیں آتا۔
ڈبلیو92 1/3 ص. 31 پ. 4-6
قارئین کے سوال
پولُس رسول نے بتایا کہ خدا اور اِنسانوں کے درمیان کوئی عہد کسی کی موت کے ذریعے ہی عمل میں آ سکتا تھا۔ اِس کی ایک مثال شریعت کے تحت باندھا جانے والا عہد ہے۔ موسیٰ اِس عہد کے درمیانی تھے جن کے ذریعے خدا اور بنیاِسرائیل کے درمیان یہ عہد باندھا گیا۔ لہٰذا موسیٰ نے اِس عہد کے سلسلے میں ایک اہم کردار ادا کِیا۔ اُنہوں نے اُس وقت بنیاِسرائیل تک خدا کے پیغام پہنچائے جب بنیاِسرائیل شریعت کے عہد کے تحت آ رہے تھے۔ اِس لیے موسیٰ کو شریعت کے عہد کا جو یہوواہ خدا نے باندھا تھا، اِنسانی درمیانی کہا جا سکتا ہے۔ لیکن کیا شریعت کے عہد کے عمل میں آنے کے لیے موسیٰ کو اپنا خون بہانا پڑا؟ نہیں۔ اُس وقت جانوروں کی قربانیاں چڑھائی گئیں اور موسیٰ کے خون کی بجائے جانوروں کا خون پیش کِیا گیا۔—عبرانیوں 9:18-22۔
اب ذرا نئے عہد پر غور کریں جو یہوواہ خدا اور روحانی اِسرائیل کے درمیان باندھا گیا۔ یسوع مسیح کا اِس عہد کے درمیانی کے طور پر بڑا اہم کردار ہے۔ حالانکہ یہ عہد یہوواہ خدا کی طرف سے تھا لیکن اِس کی بنیاد یسوع مسیح تھے۔ درمیانی ہونے کے ساتھ ساتھ یسوع مسیح نے اُن لوگوں کے بیچ رہ کر اُن تک خدا کے پیغام پہنچائے جو سب سے پہلے اِس عہد میں شامل ہوئے۔ (لُوقا 22:20، 28، 29) اِس کے علاوہ یسوع مسیح وہ قربانی دینے کے قابل تھے جو اِس عہد کے عمل میں آنے کے لیے ضروری تھی۔ یہ قربانی محض جانوروں کی قربانی نہیں تھی بلکہ ایک بےعیب اِنسانی زندگی کی قربانی تھی۔ اِس لیے پولُس رسول یہ کہہ سکتے تھے کہ مسیح نئے عہد کے اِنسانی درمیانی ہیں۔ جب ”مسیح . . . آسمان میں داخل ہوا تاکہ ہماری خاطر خدا کے سامنے حاضر ہو“ تو نیا عہد عمل میں آ گیا۔—عبرانیوں 9:12-14، 24۔
جب پولُس رسول نے موسیٰ اور یسوع کا اِنسانی درمیانی کے طور پر ذکر کِیا تو وہ یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ یہ عہد اُن کی طرف سے تھے کیونکہ یہ عہد اصل میں یہوواہ نے باندھے تھے۔ اِس کی بجائے موسیٰ اور یسوع نے درمیانی کے طور پر بڑا اہم کردار ادا کِیا تاکہ یہ عہد عمل میں آ سکیں۔ یہ دونوں عہد کسی کی موت کے ذریعے ہی عمل میں آ سکتے تھے۔ لہٰذا شریعت کے عہد میں شامل لوگوں کے لیے موسیٰ کی بجائے جانوروں کی قربانیاں پیش کی گئیں اور نئے عہد میں شامل لوگوں کے لیے یسوع مسیح نے اپنا خون بہایا۔
(عبرانیوں 10:5-7) لہٰذا جب مسیح دُنیا میں آیا تو اُس نے کہا: ””تُو قربانیاں اور نذرانے نہیں چاہتا تھا بلکہ تُو نے میرے لیے ایک جسم تیار کِیا۔ 6 تجھے سالم آتشی قربانیاں اور گُناہ کی قربانیاں پسند نہیں تھیں۔“ 7 پھر مَیں نے کہا: ”دیکھ، مَیں آیا ہوں۔ کتاب میں میرے بارے میں لکھا ہے۔ اَے خدا، مَیں تیری مرضی پر چلنے آیا ہوں۔““
آئیٹی-1 ص. 249
بپتسمہ
لُوقا نے بیان کِیا کہ یسوع بپتسمہ لیتے وقت دُعا کر رہے تھے۔ (لُو 3:21) اِس کے علاوہ عبرانیوں کے نام خط میں پولُس نے بتایا کہ جب یسوع ’دُنیا میں آئے‘ (اِس سے مُراد وہ وقت نہیں جب یسوع پیدا ہوئے تھے اور پڑھ لکھ یا بول نہیں سکتے تھے بلکہ وہ وقت ہے جب اُنہوں نے بپتسمہ لیا اور مُنادی کرنا شروع کِیا) تو اُنہوں نے وہ الفاظ کہے جو زبور 40:6-8 میں درج ہیں۔ اُنہوں نے کہا: ”تُو قربانیاں اور نذرانے نہیں چاہتا تھا بلکہ تُو نے میرے لیے ایک جسم تیار کِیا۔ . . . ”دیکھ، مَیں آیا ہوں۔ کتاب میں میرے بارے میں لکھا ہے۔ اَے خدا، مَیں تیری مرضی پر چلنے آیا ہوں۔““ یسوع یہودی قوم میں پیدا ہوئے جو یہوواہ کے ساتھ شریعت کے عہد میں بندھی تھی۔ (خر 19:5-8؛ گل 4:4) لہٰذا جب یسوع یوحنا کے پاس بپتسمہ لینے گئے تو وہ پہلے سے ہی شریعت کے عہد کے تحت تھے جو یہوواہ نے بنیاِسرائیل کے ساتھ باندھا تھا۔ اِس طرح یسوع نے ایک ایسا کام کِیا جو شریعت کے تحت کرنا لازمی نہیں تھا اور یوں اپنے آپ کو یہوواہ کی مرضی پر چلنے کے لیے پیش کِیا۔ یہوواہ کی مرضی یہ تھی کہ یسوع اپنے اُس جسم کو قربان کر دیں جو اُن کے لیے ”تیار“ کِیا گیا تھا تاکہ شریعت کے تحت قربانیاں چڑھانے کا سلسلہ ختم ہو جائے۔ اِس کے بارے میں پولُس رسول نے کہا: ”اِسی ”مرضی“ کے ذریعے ہم پاک کیے گئے ہیں کیونکہ یسوع مسیح کا جسم ایک ہی بار ہمیشہ کے لیے قربان کِیا گیا۔“ (عبر 10:10) یہوواہ کی مرضی یہ بھی تھی کہ یسوع مسیح لوگوں کو بادشاہت کی خوشخبری سنائیں اور اِس کام کے لیے بھی یسوع نے خود کو پیش کِیا۔ (لُو 4:43؛ 17:20، 21) جب یسوع نے خود کو پیش کِیا تو یہوواہ نے اُنہیں قبول کرتے ہوئے پاک روح سے مسح کِیا اور کہا: ”تُم میرے پیارے بیٹے ہو، مَیں تُم سے خوش ہوں۔“—مر 1:9-11؛ لُو 3:21-23؛ متی 3:13-17۔
16-22 ستمبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | عبرانیوں 11
”ایمان کی اہمیت“
(عبرانیوں 11:1) ایمان اِس بات کی ضمانت ہے کہ ہماری اُمید ضرور پوری ہوگی۔ ایمان اُن حقیقتوں کا ثبوت ہے جو ہم دیکھ نہیں سکتے۔
خدا کے وعدوں پر ایمان ظاہر کریں
بائبل میں ایمان کی تشریح عبرانیوں 11:1 میں ہے۔ (اِس آیت کو پڑھیں۔) ایمان کا تعلق دو چیزوں سے ہے۔ (1) ”ہماری اُمید“ سے: اِس اُمید میں خدا کے وہ وعدے شامل ہیں جو ابھی پورے نہیں ہوئے، مثلاً بُرائی کا خاتمہ اور نئی دُنیا۔ (2) اُن ’حقیقتوں سے جو ہم دیکھ نہیں سکتے‘: اِن حقیقتوں میں یہوواہ خدا، یسوع مسیح اور فرشتوں کا وجود اور آسمانی بادشاہت کی سرگرمیاں شامل ہیں۔ (عبر 11:3) ہم کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم خدا کے وعدوں اور اُن اَندیکھی چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں جن کا بائبل میں ذکر کِیا گیا ہے؟ ہم اپنی باتوں اور اپنے کاموں سے یہ ثابت کر سکتے ہیں۔
(عبرانیوں 11:6) ایمان کے بغیر خدا کو خوش کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ جو شخص خدا کی عبادت کرتا ہے، اُس کو ایمان رکھنا ہوگا کہ وہ ہے اور اُن سب کو اجر دے گا جو لگن سے اُس کی خدمت کرتے ہیں۔
ڈبلیو13 1/11 ص. 11 پ. 2-5
یہوواہ ”اُن سب کو اجر دے گا جو لگن سے اُس کی خدمت کرتے ہیں“
ہم یہوواہ کو خوش کیسے کر سکتے ہیں؟ پولُس رسول نے کہا: ”ایمان کے بغیر خدا کو خوش کرنا ممکن نہیں ہے۔“ غور کریں کہ پولُس رسول نے یہ نہیں کہا کہ ایمان کے بغیر خدا کو خوش کرنا مشکل ہے بلکہ یہ کہا کہ ایمان کے بغیر خدا کو خوش کرنا ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا خدا کو خوش کرنے کے لیے ایمان لازمی ہے۔
یہوواہ کس طرح کے ایمان سے خوش ہوتا ہے؟ یہوواہ پر ایمان رکھنے میں دو باتیں شامل ہیں۔ پہلی یہ کہ ہم اِس بات پر ایمان رکھیں کہ ”وہ ہے۔“ بائبل کے ایک اَور ترجمے میں کہا گیا کہ ہمیں اِس بات پر ”ایمان لانا چاہیے کہ وہ موجود ہے۔“ اگر ہم خدا کے وجود پر شک کرتے ہیں تو ہم اُسے خوش کیسے کر سکتے ہیں؟ حقیقی ایمان میں صرف خدا کے وجود پر ایمان رکھنا شامل نہیں ہے کیونکہ بُرے فرشتے بھی خدا کے وجود پر ایمان رکھتے ہیں۔ (یعقوب 2:19) خدا کے وجود پر ایمان کے ذریعے ہمیں ترغیب ملنی چاہیے کہ ہم اِس ایمان کو ایسے کاموں سے ظاہر کریں جن سے خدا خوش ہوتا ہے۔—یعقوب 2:20، 26۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں ”ایمان رکھنا ہوگا“ کہ خدا ”اجر“ دیتا ہے۔ جو شخص مضبوط ایمان کا مالک ہوتا ہے، وہ اِس بات پر پورا بھروسا رکھتا ہے کہ خدا کو خوش کرنے کی اُس کی کوششیں فضول نہیں ہیں۔ (1-کُرنتھیوں 15:58) اگر ہم یہوواہ کی اجر دینے کی صلاحیت یا خواہش پر شک کرتے ہیں تو ہم اُسے خوش کیسے کر سکتے ہیں؟ (یعقوب 1:17؛ 1-پطرس 5:7) اگر کوئی شخص یہ سوچتا ہے کہ خدا کو میری کوئی پرواہ نہیں، وہ میری قدر نہیں کرتا اور مجھ سے پیار نہیں کرتا تو اصل میں وہ سچے خدا کو جانتا ہی نہیں۔
یہوواہ کن کو اجر دیتا ہے؟ پولُس نے کہا کہ یہوواہ اُن کو اجر دیتا ہے ”جو لگن سے اُس کی خدمت کرتے ہیں۔“ جس یونانی فعل کا ترجمہ ’لگن سے خدمت کرنا‘ کِیا گیا ہے، اُس کا مطلب ہے: ”سخت کوشش کرنا۔“ یہوواہ اُن کو اجر دیتا ہے جو اپنے مضبوط ایمان کی بِنا پر دلوجان سے اُس کی خدمت کرتے ہیں۔—متی 22:37۔
(عبرانیوں 11:33-38) ایمان کی بدولت اِن لوگوں نے سلطنتوں کو شکست دی، نیکی کی، خدا کے وعدے حاصل کیے، شیروں کے مُنہ بند کیے، 34 آگ کی شدت کو ٹھنڈا کِیا، تلوار سے بچ گئے، کمزور حالت میں طاقت پائی، دلیری سے جنگ لڑی اور دُشمن کی فوجوں کو بھگا دیا۔ 35 عورتوں کو اپنے مُردہ رشتےدار زندہ حالت میں واپس ملے۔ آدمیوں نے مرتے دم تک اذیت سہی کیونکہ وہ کسی قیمت پر سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں تھے تاکہ اُنہیں بہتر لحاظ سے زندہ کِیا جائے۔ 36 بعض کو طعنے دیے گئے اور کوڑے لگائے گئے یہاں تک کہ اُنہیں زنجیروں میں جکڑا گیا، اُنہیں قید میں ڈالا گیا، 37 اُنہیں سنگسار کِیا گیا، اُنہیں بہکانے کی کوشش کی گئی، اُنہیں آرے سے چیرا گیا، اُنہیں تلوار سے مار ڈالا گیا، اُنہوں نے بھیڑوں اور بکریوں کی کھالیں پہنیں، اُنہوں نے بدسلوکی برداشت کی، وہ ضرورتمند اور مصیبتزدہ تھے 38 اور دُنیا اُن کے لائق نہیں تھی۔ وہ ریگستانوں اور پہاڑوں اور غاروں اور کھوؤں میں رہے۔
خدا کے وعدوں پر اپنا ایمان مضبوط کریں
پولُس رسول نے عبرانیوں 11 باب میں خدا کے اَور بھی بندوں کا ذکر کِیا جن پر طرح طرح کی آزمائشیں آئیں۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے کچھ ایسی عورتوں کا ذکر کِیا جن کے بیٹے فوت ہو گئے لیکن بعد میں اُنہیں زندہ کِیا گیا۔ اِس کے بعد پولُس نے ایسے آدمیوں کی مثال دی جنہوں نے ”مرتے دم تک اذیت سہی کیونکہ وہ کسی قیمت پر سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں تھے تاکہ اُنہیں بہتر لحاظ سے زندہ کِیا جائے۔“ (عبر 11:35) ہم نہیں جانتے کہ پولُس رسول نے یہ بات کن آدمیوں کے بارے میں کہی۔ لیکن شاید وہ نبوت اور زکریاہ کا سوچ رہے تھے جنہیں اِس لیے سنگسار کِیا گیا کیونکہ وہ خدا کے حکم سے ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ (1-سلا 21:3، 15؛ 2-توا 24:20، 21) جب دانیایل اور اُن کے ساتھیوں پر آزمائش آئی تو اُنہیں سمجھوتا کرنے کا موقع ملا۔ لیکن وہ خدا کے وفادار رہے کیونکہ اُنہیں اِس بات پر مضبوط ایمان تھا کہ خدا اُنہیں زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ خدا کی مدد سے اُنہوں نے ایک طرح سے ”شیروں کے مُنہ بند کیے اور آگ کی شدت کو ٹھنڈا کِیا۔“—عبر 11:33، 34؛ دان 3:16-18، 20، 28؛ 6:13، 16، 21-23۔
یرمیاہ اور میکایاہ نبی کو اُن کے ایمان کی وجہ سے ”طعنے دیے گئے اور . . . قید میں ڈالا گیا۔“ خدا کے دوسرے نبی، مثلاً ایلیاہ ”ریگستانوں اور پہاڑوں اور غاروں اور کھوؤں میں رہے۔“ یہ سب نبی اِن آزمائشوں کے دوران ثابتقدم رہے کیونکہ اُنہیں اِس بات پر پکا ایمان تھا کہ اُن کی ”اُمید ضرور پوری ہوگی۔“—عبر 11:1، 36-38؛ 1-سلا 18:13؛ 22:24-27؛ یرم 20:1، 2؛ 28:10، 11؛ 32:2۔
سنہری باتوں کی تلاش
(عبرانیوں 11:4) ایمان کی بدولت ہابل نے خدا کے سامنے قائن سے زیادہ اچھی قربانی چڑھائی۔ اور اِسی ایمان کی وجہ سے ہابل کو گواہی ملی کہ وہ نیک ہیں کیونکہ خدا نے اُن کے نذرانوں کو قبول کِیا۔ حالانکہ ہابل مر چکے ہیں لیکن وہ اب بھی اپنے ایمان کے ذریعے بات کرتے ہیں۔
ایمان ظاہر کریں، ص. 12، 13 پ. 14-17
’حالانکہ وہ مر چکے ہیں لیکن وہ اب بھی بات کرتے ہیں‘
یہوواہ خدا کی پیشگوئیاں: آدم اور حوا نے یقیناً اپنے بیٹوں کو بتایا ہوگا کہ جب یہوواہ خدا نے اُن کو باغِعدن سے نکالا تھا تو اُس نے کن کن باتوں کی پیشگوئی کی تھی۔ ہابل نے خدا کی اِن پیشگوئیوں پر بھی سوچ بچار کِیا ہوگا۔
یہوواہ نے آدم اور حوا سے کہا تھا کہ زمین لعنتی ہوگی۔ ہابل نے دیکھا کہ یہوواہ خدا کی یہ بات پوری ہوئی ہے کیونکہ زمین پر بہت زیادہ کانٹےدار جھاڑیاں اُگ رہی تھیں۔ یہوواہ نے حوا سے کہا تھا کہ اُنہیں حمل اور زچگی کے دوران شدید تکلیف سے گزرنا پڑے گا۔ جب ہابل کے چھوٹے بہن بھائی پیدا ہوئے تو ہابل نے دیکھا ہوگا کہ یہوواہ کی یہ بات بھی پوری ہوئی ہے۔ یہوواہ نے یہ بھی کہا تھا کہ حوا کو اپنے شوہر کی محبت اور توجہ کی شدید طلب ہوگی اور آدم اپنی بیوی پر رُعب جمائیں گے۔ ہابل نے اپنے ماں باپ کی زندگی میں اِس بات کو بھی پورا ہوتے دیکھا ہوگا۔ اِس طرح ہابل کو پتہ چل گیا ہوگا کہ یہوواہ جو کچھ کہتا ہے، وہ ضرور پورا ہوتا ہے۔ اِس لیے ہابل پکا یقین رکھ سکتے تھے کہ یہوواہ کے وعدے کے مطابق ایک ایسا شخص ضرور آئے گا جو شیطان کو مات دے کر زمین پر اچھے حالات لائے گا۔—پید 3:15-19۔
یہوواہ خدا کے خادم: ہابل کے گھر والوں نے اُن کے لیے اچھی مثال قائم نہیں کی تھی۔ تو پھر ہابل نے کس کی مثال پر عمل کِیا؟ اُس زمانے میں زمین پر ایک اَور طرح کی مخلوق بھی تھی جو بڑی باشعور تھی۔ یہ کون سی مخلوق تھی؟ جب خدا نے آدم اور حوا کو باغِعدن سے نکالا تو اُس نے باغِعدن کے داخلی راستے پر کروبیوں کو جو اعلیٰ درجہ رکھنے والے فرشتے ہیں، کھڑا کر دیا۔ اِس کے علاوہ اُس نے وہاں ایک شعلہزن تلوار بھی نصب کر دی جو چاروں طرف گھومتی رہتی تھی۔ اِن فرشتوں اور تلوار کی وجہ سے کوئی بھی باغِعدن میں نہیں جا سکتا تھا۔—پیدایش 3:24 کو پڑھیں۔
جب ہابل چھوٹے تھے تو وہ اِن فرشتوں کو دیکھتے ہوں گے۔ اِن فرشتوں نے اِنسانی بدن اپنائے ہوئے تھے اور وہ بہت ہی طاقتور لگتے تھے۔ اُن کے پاس ہی موجود شعلہزن تلوار کو دیکھ کر بھی ہابل دنگ رہ جاتے ہوں گے۔ وقت گزرتا گیا اور ہابل بڑے ہو گئے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ یہ فرشتے اُسی جگہ کھڑے ہیں جہاں یہوواہ خدا نے اُن کو کھڑا ہونے کو کہا تھا۔ فرشتوں نے تنگ آ کر اُس کام کو نہیں چھوڑا جو یہوواہ خدا نے اُن کو دیا تھا۔ خدا کے یہ خادم واقعی فرمانبردار اور وفادار تھے۔ یقیناً اُنہوں نے ہابل کے لیے اچھی مثال قائم کی۔ اِن کو دیکھ کر ہابل کا ایمان اَور مضبوط ہوا ہوگا۔
(عبرانیوں 11:5) ایمان کی بدولت حنوک کو منتقل کِیا گیا تاکہ وہ موت کو نہ دیکھیں اور وہ غائب ہو گئے کیونکہ خدا نے اُن کو منتقل کر دیا۔ لیکن منتقل ہونے سے پہلے اُن کو گواہی ملی کہ خدا اُن سے خوش ہے۔
مع17.1 ص. 12 پ. 5
’خدا اُن سے خوش تھا‘
تو پھر اِس بات کا کیا مطلب تھا کہ ”حنوک کو منتقل کِیا گیا تاکہ وہ موت کو نہ دیکھیں“؟ غالباً یہوواہ خدا نے حنوک کو آرام سے موت کی نیند سلا دیا جس کی وجہ سے اُنہیں اپنے دُشمنوں کے ہاتھوں مرنا نہیں پڑا۔ لیکن اِس سے پہلے حنوک کو ”گواہی ملی کہ خدا اُن سے خوش ہے۔“ ہو سکتا ہے کہ خدا نے حنوک کو اُن کی موت سے پہلے ایک رُویا میں دِکھایا ہو کہ زمین فردوس بن چُکی ہے۔ اِس طرح یہوواہ خدا نے اُنہیں یہ یقین دِلایا کہ وہ اُن سے خوش ہے۔ پھر حنوک موت کی نیند سو گئے۔ پولُس نے حنوک اور خدا کے دوسرے وفادار بندوں کے بارے میں لکھا: ”یہ سب لوگ مرتے دم تک اپنے ایمان پر قائم رہے۔“ (عبرانیوں 11:13) ہو سکتا ہے کہ حنوک کی موت کے بعد اُن کے دُشمنوں نے اُن کی لاش کو ڈھونڈا ہو لیکن اُنہیں اِس کا کوئی پتہ نہیں ملا۔ شاید اِس لیے کہ یہوواہ خدا نے اُن کی لاش کو غائب کر دیا ہو تاکہ اِس کی بےحُرمتی نہ کی جا سکے یا اِسے جھوٹے مذہب کو فروغ دینے کے لیے اِستعمال نہ کِیا جا سکے۔
23-29 ستمبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | عبرانیوں 12، 13
”اِصلاح—یہوواہ کی محبت کا ثبوت“
(عبرانیوں 12:5) اور آپ بالکل بھول گئے ہیں کہ آپ کو بیٹا کہہ کر یہ نصیحت کی گئی: ”بیٹا، یہوواہ کی طرف سے اِصلاح کو حقیر نہ سمجھو اور جب وہ تمہاری درستی کرے تو ہمت نہ ہارو۔
م12 1/3 ص. 31 پ. 18
پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں
اصلاح۔ شاید ماضی میں بزرگوں نے ہماری اصلاح کی تھی جس کی وجہ سے ہم ابھی تک خفا ہیں۔ ایسی صورت میں ہم ”بےدل“ ہونے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ (عبر 12:5) ہو سکتا ہے کہ ہم اصلاح کو ’ناچیز جان کر‘ اِسے فوراً رد کر دیں یا پھر پہلے اِسے قبول کریں لیکن بعد میں اِس پر عمل کرنا چھوڑ دیں۔ دونوں صورتوں میں ہمیں اصلاح سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اِس لئے اچھا ہوگا کہ ہم بادشاہ سلیمان کی اِس نصیحت پر کان لگائیں: ”تربیت کو مضبوطی سے پکڑے رہ۔ اُسے جانے نہ دے۔ اُس کی حفاظت کر کیونکہ وہ تیری حیات ہے۔“ (امثا 4:13) جس طرح ایک ڈرائیور سڑک کے کنارے لگے ہوئے سائنبورڈز پر دی گئی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے اُسی طرح آئیں، ہم بھی اصلاح کو قبول کریں اور آگے بڑھیں۔—امثا 4:26، 27؛ عبرانیوں 12:12، 13 کو پڑھیں۔
(عبرانیوں 12:6، 7) کیونکہ یہوواہ اُن کی اِصلاح کرتا ہے جن سے وہ محبت کرتا ہے، ہاں، وہ ہر اُس شخص کو سزا دیتا ہے جسے وہ بیٹا بناتا ہے۔“ 7 آپ جو کچھ برداشت کرتے ہیں، وہ آپ کی اِصلاح کے لیے ہے کیونکہ خدا آپ کو بیٹا خیال کرتا ہے۔ اور کون سا باپ اپنے بیٹے کی اِصلاح نہیں کرتا؟
اِصلاح—خدا کی محبت کا ثبوت!
جب آپ لفظ اِصلاح سنتے ہیں تو آپ کے ذہن میں کیا آتا ہے؟ بہت سے لوگوں کے ذہن میں شاید سزا کا خیال آئے۔ لیکن اِصلاح کرنے میں اَور بھی بہت کچھ شامل ہے۔ کسی کی اِصلاح کرنے کا تعلق اُس کی تربیت کرنے سے ہے۔ خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ تربیت ہم سب کے لیے فائدہمند ہے اور کبھی کبھار اِس کا ذکر علم، حکمت، محبت اور زندگی کے ساتھ کِیا جاتا ہے۔ (امثال 1:2-7؛ 4:11-13) اِس کی وجہ یہ ہے کہ جب خدا ہماری تربیت اور اِصلاح کرتا ہے تو اِس سے ہمیں اِس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ وہ ہم سے پیار کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہم ہمیشہ تک زندہ رہیں۔ (عبرانیوں 12:6) یہ سچ ہے کہ جب خدا ہماری اِصلاح کرتا ہے تو وہ کبھی کبھار ہمیں سزا بھی دیتا ہے۔ لیکن وہ ہم پر ظلم ڈھانے یا ہمیں نقصان پہنچانے کے لیے ایسا نہیں کرتا۔ دراصل بائبل میں جس لفظ کا ترجمہ اِصلاح اور تربیت کِیا گیا ہے، اُس میں بنیادی طور پر کسی کو تعلیم دینا شامل ہے، بالکل ویسے ہی جیسے والدین اپنے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں۔
یہوواہ اِس لیے ہماری درستی کرتا، ہمیں تعلیم دیتا اور ہماری تربیت کرتا ہے کیونکہ وہ ہم سے پیار کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کے قریب رہیں اور ہمیشہ تک زندہ رہیں۔ (1-یوحنا 4:16) وہ نہ تو کبھی ہماری بےعزتی کرتا ہے اور نہ ہی ہمیں یہ احساس دِلاتا ہے کہ ہماری کوئی قدر نہیں ہے۔ (امثال 12:18) اِس کی بجائے وہ ہماری خوبیوں پر دھیان دیتا ہے اور یہ یاد رکھتا ہے کہ اُس نے ہمیں اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کی آزادی دی ہوئی ہے۔ جب بائبل، ہماری مطبوعات، والدین یا کلیسیا کے بزرگوں کے ذریعے آپ کی اِصلاح کی جاتی ہے تو کیا آپ اِسے خدا کی محبت کا ثبوت خیال کرتے ہیں؟ چاہے ہم سے کوئی غلطی انجانے میں ہوئی ہو یا جان بُوجھ کر، جب بزرگ نرمی اور محبت سے ہماری اِصلاح کرتے ہیں تو دراصل وہ یہوواہ کی مثال پر عمل کر رہے ہوتے ہیں۔—گلتیوں 6:1۔
(عبرانیوں 12:11) یہ سچ ہے کہ جب ہماری اِصلاح کی جاتی ہے تو ہمیں خوشی نہیں بلکہ تکلیف ہوتی ہے لیکن جو لوگ اِس کے ذریعے تربیت پاتے ہیں، وہ بعد میں صلحپسند اور نیک بن جاتے ہیں۔
’تربیت کی بات سنیں اور دانا بنیں‘
جب ہماری اِصلاح کی جاتی ہے تو یہ ہمارے لیے تکلیفدہ ہو سکتا ہے۔ لیکن خدا کی طرف سے اِصلاح کو رد کرنا اِس سے بھی کہیں زیادہ تکلیف کا باعث بن سکتا ہے۔ (عبرانیوں 12:11) اِس سلسلے میں ہم قائن اور بادشاہ صدقیاہ کی بُری مثالوں سے اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔ جب خدا نے دیکھا کہ قائن نے اپنے دل میں اپنے بھائی کے لیے نفرت پالی ہوئی ہے اور وہ اُسے قتل کرنا چاہتا ہے تو خدا نے اُسے خبردار کِیا: ”تُو کیوں غضبناک ہوا؟ اور تیرا مُنہ کیوں بگڑا ہوا ہے؟ اگر تُو بھلا کرے تو کیا تُو مقبول نہ ہوگا؟ اور اگر تُو بھلا نہ کرے تو گُناہ دروازہ پر دبکا بیٹھا ہے اور تیرا مشتاق ہے پر تُو اُس پر غالب آ۔“ (پیدایش 4:6، 7) قائن نے خدا کی طرف سے کی جانے والی اِصلاح کو قبول نہیں کِیا اور اپنے بھائی کو قتل کر دیا۔ اِس کے بُرے نتائج کا سامنا اُسے ساری زندگی کرنا پڑا۔ (پیدایش 4:11، 12) اگر قائن خدا کی بات مان لیتا تو اُسے اِتنی تکلیف نہ اُٹھانی پڑتی۔
سنہری باتوں کی تلاش
(عبرانیوں 12:1) اب چونکہ ہمارے اِردگِرد گواہوں کا اِتنا بڑا بادل ہے اِس لیے آئیں، ہر طرح کے بوجھ اور اُس گُناہ کو اُتار پھینکیں جو ہمیں آسانی سے اُلجھا لیتا ہے اور ثابت قدمی سے اُس دوڑ میں دوڑتے رہیں جو ہمیں دوڑنی ہے۔
م11 1/9 ص. 20 پ. 11
ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ میں دوڑتے رہیں
پولس رسول نے خدا کے ایسے خادموں کا ذکر کِیا جو مسیحی زمانے سے پہلے رہتے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ لوگ ’گواہوں کا ایک بڑا بادل‘ ہیں جو ہمیں گھیرے ہوئے ہے۔ ’گواہوں کے اِس بڑے بادل‘ میں شامل لوگ ایسے کھلاڑی تھے جنہوں نے ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ میں حصہ لیا اور اِسے مکمل کِیا۔ یہ لوگ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک خدا کے وفادار رہے۔ اِن کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیحی بھی ہر صورت میں یہوواہ خدا کے وفادار رہ سکتے ہیں۔ اِن کی مثال پر غور کرنے سے یہودیہ اور یروشلیم کے مسیحیوں کو پکا یقین ہو جاتا کہ وہ بھی مشکل صورتحال کے باوجود ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ کو مکمل کر سکتے ہیں۔ اور اُن کی طرح ہم بھی اِس دوڑ کو مکمل کر سکتے ہیں۔
(عبرانیوں 13:9) طرح طرح کی عجیب تعلیمات سے گمراہ نہ ہوں۔ بہتر ہے کہ دل کھانوں سے نہیں بلکہ خدا کی عظیم رحمت سے مضبوط ہو کیونکہ جو لوگ کھانوں کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، اُن کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
ڈبلیو89 12/15 ص. 22 پ. 10
ایسی قربانیاں دیں جن سے یہوواہ خوش ہوتا ہے
عبرانیوں کو چاہیے تھا کہ وہ اُن مسیحیوں کی ”طرح طرح کی عجیب تعلیمات سے گمراہ نہ ہوں“ جو کہتے تھے کہ موسیٰ کی شریعت کی پابندی کرنا لازمی ہے۔ (گلتیوں 5:1-6) کسی شخص کے دل کو ایسی تعلیمات نہیں بلکہ ”خدا کی عظیم رحمت“ مضبوط کر سکتی ہے تاکہ وہ سچائی پر قائم رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ مسیحی کھانوں اور قربانیوں کی بحث میں اُلجھے ہوئے تھے کیونکہ پولُس نے کہا کہ ’دل کھانوں سے نہیں بلکہ خدا کی عظیم رحمت سے مضبوط ہوتا ہے کیونکہ جو لوگ کھانوں کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، اُن کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔‘ روحانی لحاظ سے فائدہ اُن لوگوں کو ہوتا ہے جو خدا کی بندگی کرتے ہیں اور مسیح کی قربانی کی قدر کرتے ہیں نہ کہ اُن لوگوں کو جو کچھ خاص قسم کے کھانے کھانے اور کچھ خاص دنوں کو منانے پر زور دیتے ہیں۔ (رومیوں 14:5-9) اِس کے علاوہ مسیح کی قربانی کے ذریعے وہ قربانیاں بےاثر ہو گئیں جو لاوی کاہن چڑھاتے تھے۔—عبرانیوں 9:9-14؛ 10:5-10۔
30 ستمبر–6 اکتوبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | یعقوب 1، 2
”گُناہ اور موت کی طرف لے جانے والا راستہ“
(یعقوب 1:14) بلکہ ہر شخص اپنی ہی خواہشوں کی وجہ سے آزمایا اور اُکسایا جاتا ہے۔
جی17.4 ص. 14
آزمائش
جب آپ کسی چیز خاص طور پر کسی غلط چیز کی طرف مائل ہوتے ہیں تو آپ غلط کام کرنے کی آزمائش میں ہوتے ہیں۔ فرض کریں کہ آپ بازار جاتے ہیں اور وہاں آپ کو کوئی چیز اچھی لگتی ہے۔ آپ کے دل میں خیال آتا ہے کہ مَیں کسی کی نظروں میں آئے بغیر آسانی سے یہ چیز چُرا سکتا ہوں۔ لیکن آپ کا ضمیر آپ کو ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ اِس لیے آپ اُس خیال کو رد کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اُس وقت آزمائش ختم ہو جاتی ہے اور آپ اِس پر قابو پانے میں کامیاب رہتے ہیں۔
پاک صحیفوں کی تعلیم
آزمائش میں پڑنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ایک بُرے شخص ہیں۔ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ ہم سب کو آزمائشوں کا سامنا ہوتا ہے۔ (1-کُرنتھیوں 10:13) اہم بات یہ ہے کہ ہم آزمائش کی صورت میں کیسا ردِعمل دِکھاتے ہیں۔ کچھ لوگ غلط خواہش کو دل سے نہیں نکالتے اور فوراً یا بعد میں اِس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں جبکہ دوسرے لوگ غلط خواہش کو فوراً دل سے نکال دیتے ہیں۔
(یعقوب 1:15) جب یہ خواہشیں دل میں بڑھتے بڑھتے پک جاتی ہیں تو گُناہ پیدا ہوتا ہے اور گُناہ کا انجام موت ہوتا ہے۔
جی17.4 ص. 14
آزمائش
پاک کلام سے پتہ چلتا ہے کہ ایک شخص غلط کام کیوں کر بیٹھتا ہے۔ یعقوب 1:15 میں لکھا ہے: ”جب [غلط] خواہشیں دل میں بڑھتے بڑھتے پک [یونانی میں: ”خواہشیں حاملہ ہو،“ فٹنوٹ] جاتی ہیں تو گُناہ پیدا ہوتا ہے اور گُناہ کا انجام موت ہوتا ہے۔“ سادہ لفظوں میں کہیں تو اگر ہم اپنے دل سے غلط خواہشوں کو نہیں نکالتے تو ایک وقت آتا ہے جب ہم خود کو غلط کام کرنے سے روک نہیں پاتے، بالکل ویسے ہی جیسے ایک حاملہ عورت بچے کی پیدائش کو روک نہیں سکتی۔ لیکن ہم غلط خواہشوں کے غلام بننے سے بچ سکتے ہیں اور اِن پر غالب آ سکتے ہیں۔
سنہری باتوں کی تلاش
(یعقوب 1:17) ہر اچھی نعمت اور ہر کامل بخشش اُوپر سے آتی ہے یعنی آسمانی روشنیوں کے باپ سے۔ وہ سایے کی طرح نہیں ہے جس میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔
آئیٹی-2 ص. 253، 254
روشنی
یہوواہ ’آسمانی روشنیوں کا باپ‘ ہے۔ (یعقو 1:17) اُس نے نہ صرف ”دن کی روشنی کے لئے سورج کو مقرر کِیا“ اور ”رات کی روشنی کے لئے چاند اور ستاروں کا نظام قائم کِیا“ ہے (یرم 31:35) بلکہ وہ ہمارے دلوں کو بھی اپنے شاندار علم سے روشن کرتا ہے۔ (2-کُر 4:6) اُس کے قوانین، فیصلے اور کلام اُن لوگوں کے لیے روشنی ہیں جو اِن کی رہنمائی میں چلتے ہیں۔ (زبور 43:3؛ 119:105؛ امثا 6:23؛ یسع 51:4) زبورنویس نے لکھا کہ ”تیرے نُور کی بدولت ہم روشنی دیکھیں گے۔“ (زبور 36:9؛ زبور 27:1؛ 43:3 پر غور کریں۔) جس طرح سورج کی روشنی صبح سویرے سے ”دوپہر تک بڑھتی ہی جاتی ہے“ اُسی طرح خدا کی دانشمندی کی بدولت اُس کے نیک بندوں کی راہ روشن ہوتی جاتی ہے۔ (امثا 4:18) یہوواہ کی راہ پر چلنے کے لیے اُس کی روشنی میں چلنا ضروری ہے۔ (یسع 2:3-5) لیکن اگر کوئی شخص کسی چیز کو غلط نظر یا غلط نیت سے دیکھتا ہے تو وہ گہری روحانی تاریکی میں ہے یعنی وہ خدا کے شاندار علم سے محروم ہے۔ متی 6:23 میں یسوع مسیح نے کہا: ”اگر آپ کی آنکھ بُری چیزوں پر ٹکی ہے تو آپ کا پورا جسم تاریک ہوگا۔ اگر وہ روشنی جو آپ میں ہے دراصل تاریکی ہے تو آپ کا جسم کس قدر تاریک ہے!“—اِستثنا 15:9؛ 28:54-57؛ امثال 28:22؛ 2-پطرس 2:14 پر غور کریں۔
(یعقوب 2:8) اگر آپ اُس شاہی حکم پر عمل کرتے ہیں جو صحیفوں میں لکھا ہے یعنی ”اپنے پڑوسی سے اُسی طرح محبت کرو جس طرح تُم اپنے آپ سے کرتے ہو“ تو آپ اچھا کرتے ہیں۔
آئیٹی-2 ص. 222 پ. 4
شریعت
”شاہی حکم۔“ ”شاہی حکم“ اُن حکموں سے افضل ہے جو دوسروں سے پیش آنے کے سلسلے میں دیے گئے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے ایک بادشاہ کا عہدہ دوسرے لوگوں سے افضل ہوتا ہے۔ (یعقو 2:8) شریعت کے تحت باندھے گئے عہد کی بنیاد محبت تھی اور یہ حکم کہ ”اپنے پڑوسی سے اُسی طرح محبت کرو جس طرح تُم اپنے آپ سے کرتے ہو،“ (شاہی حکم) اُن دو حکموں میں سے دوسرا حکم ہے جو ”شریعت اور نبیوں کی تعلیم کی بنیاد ہیں۔“ (متی 22:37-40) اگرچہ مسیحی، بنی اِسرائیل کو دی گئی شریعت کے تحت نہیں ہیں لیکن وہ بادشاہ یہوواہ خدا اور بادشاہ یسوع مسیح کی اُس شریعت کے پابند ضرور ہیں جو نئے عہد کے تحت دی گئی۔
مسیحیوں کے طور پر زندگی
”اویک!،“ نومبر 2013ء، ص. 4، 5
گھریلو زندگی کو خوشگوار بنائیں—بچوں کی پرورش
آپ اپنے بچوں سے سیکسٹنگ کے بارے میں کیسے بات کر سکتے ہیں؟
مسئلہ
آجکل بہت سے نوجوان سیکسٹنگ (فون کے ذریعے گندے پیغام، تصویریں اور ویڈیوز بھیجنا) کرتے ہیں۔ شاید آپ سوچیں کہ ”کہیں میرا بچہ بھی تو ایسا نہیں کر رہا؟“
آپ اِس موضوع پر اپنے بچے سے بات کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ اِس سوال کے جواب سے پہلے آئیں، اِس بات پر غور کریں کہ کچھ نوجوان سیکسٹنگ کیوں کرتے ہیں اور آپ کو اِس بارے میں فکرمند کیوں ہونا چاہیے۔
مسئلے کی وجہ
• کچھ نوجوان کسی شخص سے دللگی کرنے کے لیے اُسے فون کے ذریعے گندے پیغام بھیجتے ہیں۔
• کچھ صورتوں میں کوئی لڑکا کسی لڑکی پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ اپنی گندی تصویر بھیجے۔
• کبھی کبھی کوئی لڑکا کسی لڑکی کی گندی تصویر بہت سے لوگوں کو بھیج دیتا ہے کیونکہ وہ اُس لڑکی سے بدلہ لینا چاہتا ہے یا اپنے دوستوں کو خوش کرنا چاہتا ہے۔
مسئلے کی وجہ چاہے کچھ بھی ہو، جب ایک نوجوان کے پاس موبائل فون ہوتا ہے تو وہ بڑی مشکل میں پڑ سکتا ہے۔ کتاب ”بچوں کو اِنٹرنیٹ کے خطروں سے محفوظ رکھیں“ میں بتایا گیا ہے کہ ”صرف ایک بٹن دبانے سے زندگیاں ہمیشہ کے لیے بدل جاتی ہیں۔“
بہت سے لوگوں کو اندازہ نہیں ہوتا کہ جب اُن کی کوئی تصویر اِنٹرنیٹ پر چلی جاتی ہے تو اُن کا اِس بات پر کوئی اِختیار نہیں رہتا کہ اِس تصویر کو کیسے اِستعمال کِیا جائے گا۔ امریکہ کے ایک تفتیشی اِدارے ایفبیآئی نے ایک کیس کے بارے میں یہ رپورٹ دی: ”ایک اٹھارہ سالہ لڑکی نے خودکُشی کر لی کیونکہ اُس نے اپنے بوائےفرینڈ کو اپنے فون سے کپڑوں کے بغیر اپنی ایک تصویر بھیجی جو کہ اُس کے سکول کے سینکڑوں نوجوانوں تک پہنچ گئی۔ دوسرے بچے جو اِس تصویر کو اَور لوگوں کو بھیجتے رہے، اُن پر اُس لڑکی کو ہراساں کرنے کا اِلزام ہے۔“
سیکسٹنگ کی وجہ سے قانونی مسئلے بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ ملکوں میں جن بچوں نے دوسرے بچوں کو گندی تصویریں بھیجیں، اُن کو فحاشی پھیلانے کا مُجرم قرار دیا گیا اور اُن کا نام جنسی بدفعلی کے مُجرموں میں شامل کِیا گیا۔ والدین کے طور پر آپ کو بھی اُس صورت میں قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے اگر آپ کا نام موبائل فون کے کنٹریکٹ میں ہے یا آپ اپنے بچے کو سیکسٹنگ سے روکنے کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھاتے۔
آپ کیا کر سکتے ہیں؟
اصول بنائیں۔ یہ سچ ہے کہ آپ ہر وقت اِس بات پر نظر نہیں رکھ سکتے کہ آپ کا بچہ فون کو کیسے اِستعمال کر رہا ہے۔ لیکن آپ کے بچوں کو یہ ضرور پتہ ہونا چاہیے کہ آپ نے اِس سلسلے میں کون سے اصول بنائے ہیں اور اِنہیں توڑنے کے کیا نتائج نکلیں گے۔ یاد رکھیں کہ والدین کے طور پر آپ کو اپنے بچے کے فون پر نظر رکھنے کا پورا حق ہے۔—پاک کلام کا اصول: اِفسیوں 6:1۔
اپنے بچے کو سمجھائیں کہ سیکسٹنگ غلط کیوں ہے۔ آپ کچھ یوں کہہ سکتے ہیں: ”سیکسٹنگ کے بارے میں لوگوں کی فرق فرق رائے ہے۔ آپ کے خیال میں سیکسٹنگ میں کیا کچھ شامل ہے؟“ ”آپ کے خیال میں کس طرح کی تصویریں نامناسب ہوتی ہیں؟“ ”کچھ ملکوں میں قانون کی نظر میں وہ بچے مُجرم ہوتے ہیں جو کسی بچے کی ننگی تصویر دوسروں کو بھیجتے ہیں۔ آپ کے خیال میں کیا یہ معاملہ اِتنا سنگین ہے؟“ ”سیکسٹنگ غلط کیوں ہے؟“ اپنے بچے کی باتوں کو دھیان سے سنیں اور اُس کی یہ سمجھنے میں مدد کریں کہ سیکسٹنگ کے نتائج کتنے بھیانک ہو سکتے ہیں۔—پاک کلام کا اصول: عبرانیوں 5:14۔
فرضی صورتحال کے بارے میں سوچنے کو کہیں۔ آپ اپنی بیٹی سے کہہ سکتے ہیں: ”فرض کریں کہ ایک لڑکا ایک لڑکی پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اُسے گندے پیغام، تصویریں یا ویڈیوز بھیجے۔ ایسی صورت میں اُس لڑکی کو کیا کرنا چاہیے: اُس لڑکے کی بات مان لینی چاہیے تاکہ اُن کی دوستی نہ ٹوٹے؟ اُس کی بات نہیں ماننی چاہیے لیکن اُس سے دللگی کرتے رہنا چاہیے؟ اُس سے دوستی ختم کر لینی چاہیے؟ یا کسی بڑے کو بتانا چاہیے؟“ اپنی بیٹی کی مدد کریں کہ وہ اِس معاملے پر سوچ بچار کرے۔ آپ اپنے بیٹے سے بات کرتے ہوئے بھی یہی طریقہ اپنا سکتے ہیں۔—پاک کلام کا اصول: گلتیوں 6:7۔
اپنے بچے میں اچھائی کا جذبہ جگائیں۔ اُس سے کچھ ایسے سوال پوچھیں: ”آپ کی نظر میں نیکنامی کتنی اہم ہے؟“ ”آپ کیا چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو کس وجہ سے پہچانیں؟“ ”اگر آپ کسی کی کوئی نامناسب تصویر دوسروں کو بھیج کر اُس کی بدنامی کریں گے تو آپ کو اپنے بارے میں کیسا لگے گا؟“ ”اگر آپ صحیح کام کرنے کے لیے قدم اُٹھائیں گے تو آپ کو کیسا لگے گا؟“ اپنے بچے کی مدد کریں کہ وہ ”اپنا ضمیر صاف“ رکھ سکے۔—1-پطرس 3:16۔
اپنی مثال سے سکھائیں۔ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ جو دانشمندی خدا دیتا ہے، وہ پاک اور بےریا ہوتی ہے۔ (یعقوب 3:17) کیا یہ بات آپ کے کاموں سے واضح ہوتی ہے؟ کتاب ”بچوں کو اِنٹرنیٹ کے خطروں سے محفوظ رکھیں“ میں بتایا گیا ہے کہ ”ہمیں اپنے بچوں کے لیے اچھی مثال قائم کرنی چاہیے اور ایسی تصویریں اور ویبسائٹس نہیں دیکھنی چاہئیں جو نامناسب یا غیرقانونی ہوں۔“
تجاویز
اگر آپ کو اپنے بچوں سے سیکسٹنگ کے بارے میں بات کرنا مشکل لگتا ہے تو آپ یہ کر سکتے ہیں:
پہلے اپنے بچے سے پوچھیں کہ دوسرے نوجوان کیا کچھ کرتے ہیں۔ اِس کے بعد اُس سے کہیں: ”مَیں نے سیکسٹنگ کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے۔ کیا زیادہتر لوگ ایسا کرتے ہیں؟“
اِس کے بعد یہ جاننے کی کوشش کریں کہ دوسرے جو کچھ کرتے ہیں، اُس کے بارے میں آپ کا بچہ کیسا محسوس کرتا ہے۔ شاید آپ پوچھ سکتے ہیں: ”کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ سیکسٹنگ کے کتنے بُرے نتائج نکل سکتے ہیں؟“
پھر اِس بارے میں بات کریں کہ اگر آپ کے بچے کو ایسی صورتحال کا سامنا ہو تو وہ کیا کرے گا۔ آپ اُس سے کہہ سکتے ہیں: ”آئیں، اِس بارے میں بات کریں کہ اگر کوئی شخص آپ کو کوئی گندا پیغام بھیجتا ہے تو آپ کو کیا کرنا چاہیے۔“
مشورہ: آپ باتچیت شروع کرنے کے لیے کسی خبر کا ذکر کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کہہ سکتے ہیں: ”مَیں نے ایک لڑکی کے بارے میں پڑھا ہے جس کی گندی تصویر پورے سکول میں پھیل گئی تھی۔ کیا سچ میں آجکل ایسا ہوتا ہے؟“