’تربیت کی بات سنیں اور دانا بنیں‘
”اَے بیٹو! . . . تربیت کی بات سنو اور دانا بنو۔“—امثال 8:32، 33۔
1. ہم دانشمندی کیسے حاصل کر سکتے ہیں اور ہمیں اِس کا کیا فائدہ ہوگا؟
یہوواہ خدا دانشمندی کا سرچشمہ ہے اور وہ دوسروں کو بھی فیاضی سے دانشمندی عطا کرتا ہے۔ یعقوب 1:5 میں لکھا ہے: ”اگر آپ میں سے کسی شخص میں دانشمندی کی کمی ہو تو وہ بار بار خدا سے مانگے اور یہ اُس کو دی جائے گی کیونکہ خدا بغیر ڈانٹے بڑی فیاضی سے سب کو دیتا ہے۔“ خدا سے دانشمندی حاصل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم اُس کی طرف سے کی جانے والی اِصلاح کو قبول کریں۔ اِس دانشمندی کے ذریعے ہم غلط کاموں سے بچنے اور یہوواہ خدا کے قریب رہنے کے قابل ہوں گے۔ (امثال 2:10-12) اِس کے علاوہ ہمیں ہمیشہ کی زندگی کی شاندار اُمید بھی حاصل ہوگی۔—یہوداہ 21۔
2. ہمارے دل میں خدا کی طرف سے کی جانے والی اِصلاح کے لیے محبت کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟
2 عیبدار ہونے کی وجہ سے یا جس ماحول میں ہم پرورش پاتے ہیں، اُس کی وجہ سے ہمیں اِصلاح کو قبول کرنا اور اِسے فائدہمند خیال کرنا مشکل لگ سکتا ہے۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کی طرف سے کی جانے والی اِصلاح کو قبول کرنے سے ہمیں زندگی میں کتنے فائدے ہوتے ہیں تو ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ خدا ہم سے کتنا پیار کرتا ہے۔ امثال 3:11، 12 میں بتایا گیا ہے: ”اَے میرے بیٹے! [یہوواہ] کی تنبیہ [”اِصلاح،“ ترجمہ نئی دُنیا] کو حقیر نہ جان . . . کیونکہ [یہوواہ] اُسی کو ملامت کرتا ہے جس سے اُسے محبت ہے۔“ ہم اِس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہماری بہتری چاہتا ہے۔ (عبرانیوں 12:5-11 کو پڑھیں۔) چونکہ یہوواہ خدا ہمیں اچھی طرح سے جانتا ہے اِس لیے وہ ہمیشہ مناسب حد تک اور صحیح طریقے سے ہماری اِصلاح کرتا ہے۔ اِس مضمون میں ہم اِن چار باتوں پر غور کریں گے جن کا تعلق اِصلاح اور تربیت کرنے سے ہے: (1) اپنی تربیت کرنا، (2) بچوں کی تربیت کرنا، (3) کلیسیا کی طرف سے ملنے والی تربیت اور اِصلاح اور (4) اِصلاح کو قبول نہ کرنے کے نتائج۔
اپنی تربیت کرنے سے دانشمندی ظاہر کریں
3. ایک بچہ اپنی تربیت کرنا کیسے سیکھ سکتا ہے؟ مثال دیں۔
3 اپنی تربیت کرنے میں یہ شامل ہے کہ ہم اپنی سوچ کو قابو میں رکھنا اور ایسے کاموں سے دُور رہنا سیکھیں جو ہمارے لیے نقصاندہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہم میں اپنی تربیت کرنے کی صلاحیت پیدائشی طور پر نہیں ہوتی بلکہ ہمیں اِسے پیدا کرنا پڑتا ہے۔ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔ جب ایک بچہ سائیکل چلانا سیکھتا ہے تو شروع میں ماں یا باپ میں سے ایک سائیکل کو پکڑ کر رکھتا ہے تاکہ یہ گِر نہ جائے۔ لیکن جیسے جیسے بچہ سائیکل پر اپنا توازن برقرار رکھنا سیکھتا جاتا ہے، والدین بیچ بیچ میں چند لمحوں کے لیے سائیکل کو چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر جب والدین کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ اب بچہ سائیکل کو سنبھال سکتا ہے تو وہ اُسے خود ہی سائیکل چلانے دیتے ہیں۔ اِسی طرح جب والدین صبر سے ”یہوواہ کی طرف سے [بچوں] کی تربیت اور رہنمائی کرتے ہوئے اُن کی پرورش“ کرتے ہیں تو وہ اُن کی مدد کرتے ہیں تاکہ وہ دانشمند بنیں اور اپنی تربیت کرنا سیکھیں۔—اِفسیوں 6:4۔
4، 5. (الف) اپنی تربیت کرنا ”نئی شخصیت“ کو پہننے کا ایک اہم حصہ کیوں ہے؟ (ب) اگر ہم سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو ہمیں بےحوصلہ کیوں نہیں ہونا چاہیے؟
4 جب ایک بالغ شخص یہوواہ کے بارے میں سیکھتا ہے تو شاید اُس میں کسی حد تک اپنی تربیت کرنے کی صلاحیت ہو۔ لیکن اُس وقت وہ پُختہ مسیحی نہیں ہوتا۔ پھر جب وہ ”نئی شخصیت“ کو پہنتا ہے اور مسیح کی مثال پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ پختگی کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔ (اِفسیوں 4:23، 24) اور اِس دوران وہ اپنی تربیت کرنا سیکھتا ہے۔ یہی صلاحیت اُسے اِس قابل بناتی ہے کہ ’وہ بُرائی اور دُنیاوی خواہشات کو رد کر سکے اور اِس زمانے میں خدا کی بندگی کرتے ہوئے سمجھداری اور نیکی سے زندگی گزار سکے۔‘—طِطُس 2:12۔
5 لیکن ہم سب خطاکار ہیں۔ (واعظ 7:20) لہٰذا اگر ہم سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو کیا اِس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہم اپنی تربیت کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں؟ ضروری نہیں کہ ایسا ہو۔ امثال 24:16 میں لکھا ہے: ”صادق سات بار گِرتا ہے اور پھر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔“ پھر سے ’اُٹھ کھڑے ہونے‘ میں کیا چیز ہماری مدد کرے گی؟ ہم اپنی طاقت سے تو نہیں لیکن خدا کی پاک روح کی طاقت سے ایسا کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ (فِلپّیوں 4:13 کو پڑھیں۔) دراصل پاک روح کے پھل میں ضبطِنفس کی خوبی شامل ہے اور ضبطِنفس کا اپنی تربیت کرنے سے گہرا تعلق ہے۔
6. ہم خدا کے کلام کے اچھے طالبِعلم کیسے بن سکتے ہیں؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
6 دُعا کرنے، بائبل کا مطالعہ کرنے اور اِس پر سوچ بچار کرنے سے بھی ہم اپنی تربیت کرنا سیکھ سکتے ہیں۔ لیکن آپ اُس صورت میں کیا کر سکتے ہیں اگر آپ کو بائبل کا مطالعہ کرنا مشکل لگتا ہے؟ ہمت نہ ہاریں۔ یہوواہ آپ کی مدد کر سکتا ہے تاکہ آپ اپنے اندر اُس کے کلام کی ”طلب پیدا کریں۔“ (1-پطرس 2:2) یہوواہ سے درخواست کریں کہ وہ آپ میں اپنی تربیت کرنے کی صلاحیت پیدا کرے۔ اِس طرح آپ غیرضروری کاموں کو چھوڑ کر بائبل کا مطالعہ کرنے کے لیے وقت نکال پائیں گے۔ شاید شروع میں آپ مطالعہ کرنے میں ہر روز تھوڑا وقت صرف کر سکتے ہیں۔ آہستہ آہستہ آپ کے لیے بائبل کا مطالعہ کرنا آسان ہو جائے گا اور آپ کو اِس میں مزہ آنے لگے گا۔ جب آپ خدا کے کلام میں لکھی بیشقیمت باتوں پر سوچ بچار کرنے میں وقت صرف کریں گے تو آپ کو بہت اچھا لگے گا۔—1-تیمُتھیُس 4:15۔
7. اپنی تربیت کرنے سے ایک شخص خدا کی خدمت کے حوالے سے اپنے منصوبوں کو پورا کرنے کے قابل کیسے ہو سکتا ہے؟
7 اپنی تربیت کرنے سے ایک شخص خدا کی خدمت کے حوالے سے اپنے منصوبوں کو پورا کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ اِس سلسلے میں ایک خاندان کے سربراہ کی مثال پر غور کریں۔ اُسے لگا کہ خدا کی خدمت کے لیے اُس کا جوش ٹھنڈا پڑ رہا ہے۔ لہٰذا اُس نے یہ منصوبہ بنایا کہ وہ پہلکار کے طور پر خدمت کرے گا۔ اُس نے ہمارے رسالوں میں سے ایسے مضامین پڑھے جو پہلکار کے طور پر خدمت کرنے کے حوالے سے تھے اور پھر اِس بارے میں دُعا بھی کی۔ اِس طرح یہوواہ خدا کے ساتھ اُس کا رشتہ مضبوط ہوا۔ اُس کے لیے جب بھی ممکن ہوتا، وہ مددگار پہلکار کے طور پر خدمت بھی کرتا۔ اپنی تربیت کرنے سے وہ اِس قابل ہوا کہ اپنا مکمل دھیان اپنے منصوبے کو پورا کرنے پر رکھے اور کسی بھی چیز کو اِس میں رُکاوٹ نہ بننے دے۔ کچھ عرصے بعد وہ پہلکار بن گیا۔
یہوواہ کی طرف سے اپنے بچوں کی تربیت کریں
8-10. والدین اپنے بچوں کی اچھی تربیت کیسے کر سکتے ہیں؟ ایک مثال دیں۔
8 یہوواہ خدا نے والدین کو یہ ذمےداری دی ہے کہ وہ اُس کی طرف سے بچوں کی ”تربیت اور رہنمائی کرتے ہوئے اُن کی پرورش کریں۔“ (اِفسیوں 6:4) اِس دُنیا میں ایسا کرنا آسان کام نہیں ہے۔ (2-تیمُتھیُس 3:1-5) جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو وہ صحیح اور غلط میں فرق کرنا نہیں جانتے۔ اُن کے اندر ضمیر تو ہوتا ہے لیکن اُنہیں اِس کی تربیت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ (رومیوں 2:14، 15) بائبل کے ایک عالم نے بتایا کہ جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”تربیت“ کِیا گیا ہے، اُس کا مطلب بچے کی اِس طرح سے پرورش کرنا بھی ہے کہ وہ ایک ذمےدار شخص بن جائے۔
9 جب والدین محبت سے بچوں کی تربیت کرتے ہیں تو بچے محسوس کرتے ہیں کہ اُن کے والدین کو اُن کی فکر ہے۔ وہ یہ سیکھ جاتے ہیں کہ وہ ہر معاملے میں اپنی مرضی نہیں کر سکتے اور جو کچھ وہ کرتے ہیں، اُنہیں اُس کے نتیجے بھی بھگتنے پڑتے ہیں۔ لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ والدین بچوں کی پرورش کرنے کے سلسلے میں یہوواہ کی رہنمائی پر چلیں۔ بچوں کی پرورش کے حوالے سے ہر ملک میں فرق فرق طورطریقے ہوتے ہیں اور یہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ البتہ جو والدین اِس سلسلے میں خدا کی رہنمائی پر بھروسا کرتے ہیں، وہ اِس اُلجھن کا شکار نہیں ہوتے کہ بچوں کی تربیت کرنے کا بہترین طریقہ کون سا ہے۔
10 اِس سلسلے میں ذرا نوح کی مثال پر غور کریں۔ جب یہوواہ نے نوح کو کشتی بنانے کا حکم دیا تو نوح اِس کام کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔ اُنہیں یہوواہ پر بھروسا کرنا تھا اور بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ”نوح نے . . . جیسا خدا نے اُسے حکم دیا تھا ویسا ہی عمل کِیا۔“ (پیدایش 6:22) اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟ کشتی کی بدولت نوح اور اُن کے گھر والوں کی جان بچ گئی۔ نوح ایک بہت اچھے والد بھی تھے۔ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟ کیونکہ وہ خدا کی رہنمائی پر چلتے تھے۔ اُنہوں نے اپنے بچوں کے لیے عمدہ مثال قائم کی اور اُن کی بہت اچھی تربیت کی حالانکہ جس زمانے میں وہ رہ رہے تھے، اُس میں ایسا کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔—پیدایش 6:5۔
11. والدین کو اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرنے کے لیے سخت کوشش کیوں کرنی چاہیے؟
11 اگر آپ کے بچے ہیں تو آپ نوح کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ یہوواہ کی بات سنیں۔ اِس سلسلے میں اُس کے کلام اور اُس کی تنظیم کے مشوروں پر عمل کریں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو بہت ممکن ہے کہ آپ کا بچہ بعد میں اِس کے لیے آپ کا شکرگزار ہو۔ ایک بھائی نے لکھا: ”جس طرح سے میرے والدین نے میری تربیت کی ہے، اُس کے لیے مَیں اُن کا بےحد شکرگزار ہوں۔ اُنہوں نے میرے دل تک پہنچنے کی پوری کوشش کی۔“ اُس نے بتایا کہ اُس کے والدین نے ہی اُس کی مدد کی تاکہ وہ یہوواہ کے قریب جا سکے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ والدین کی بہت اچھی تربیت کے باوجود ایک بچہ یہوواہ سے دُور چلا جائے۔ مگر جو والدین اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں، وہ صاف ضمیر رکھ سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ وہ یہ اُمید بھی رکھ سکتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن اُن کا بچہ یہوواہ کی طرف لوٹ آئے گا۔
12، 13. (الف) اگر آپ کے بچے کو کلیسیا سے خارج کر دیا جاتا ہے تو آپ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ آپ خدا کے فرمانبردار ہیں؟ (ب) جب ایک خاندان میں والدین یہوواہ کے فرمانبردار رہے تو اِس سے اُس خاندان کو کیا فائدہ پہنچا؟
12 بعض والدین کے ایمان کا ایک کڑا اِمتحان اُس وقت ہوتا ہے جب اُن کے بچے کو کلیسیا سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ ایک بہن نے جس کی خارجشُدہ بیٹی گھر چھوڑ کر چلی گئی، تسلیم کِیا: ”مَیں ہماری کتابوں اور رسالوں میں ایسی باتیں تلاش کرنے لگی جن کی بِنا پر مجھے اپنی بیٹی اور نواسی کے ساتھ وقت گزارنے کا بہانہ مل سکے۔“ لیکن اُس بہن کے شوہر نے بڑے پیار سے اُس کی یہ سمجھنے میں مدد کی کہ فیالحال وہ اپنی بیٹی کے لیے کچھ نہیں کر سکتے اور اُنہیں یہوواہ کا وفادار رہنے کی ضرورت ہے۔
13 کچھ سال بعد اُن کی بیٹی کو کلیسیا میں بحال کر دیا گیا۔ اُس کی ماں نے کہا: ”وہ مجھے تقریباً ہر روز فون یا میسج کرتی ہے۔ اور چونکہ مَیں نے اور میرے شوہر نے یہوواہ کا کہنا مانا اِس لیے وہ ہمارا بڑا احترام کرتی ہے۔ اب ہم ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔“ اگر آپ کے بیٹے یا بیٹی کو کلیسیا سے خارج کر دیا جاتا ہے تو کیا آپ ”سارے دل سے [یہوواہ] پر توکل“ کریں گے؟ کیا آپ یہ ظاہر کریں گے کہ آپ ’اپنے فہم پر تکیہ نہیں‘ کرتے؟ (امثال 3:5، 6) یاد رکھیں کہ جب یہوواہ ہماری اِصلاح کرتا ہے تو اِس سے اُس کی محبت اور دانشمندی ظاہر ہوتی ہے۔ کبھی نہ بھولیں کہ اُس نے اپنا بیٹا تمام اِنسانوں کے لیے قربان کر دیا جن میں آپ کا بچہ بھی شامل ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ سب اِنسان ہمیشہ کی زندگی پائیں۔ (2-پطرس 3:9 کو پڑھیں۔) لہٰذا والدین، اِس بات پر بھروسا رکھیں کہ یہوواہ کی رہنمائی اور اُس کی طرف سے اِصلاح ہمیشہ صحیح اور فائدہمند ہوتی ہے، پھر چاہے اِس کی حمایت کرنے کے لیے آپ کو تکلیف سے ہی کیوں نہ گزرنا پڑے۔ اِس لیے کبھی بھی یہوواہ کی طرف سے کی جانے والی اِصلاح کے خلاف نہ جائیں۔
کلیسیا کی طرف سے ملنے والی تربیت اور اِصلاح
14. ہم اُن ہدایات سے فائدہ کیسے حاصل کر سکتے ہیں جو یہوواہ ’وفادار مختار‘ کے ذریعے ہمیں دیتا ہے؟
14 یہوواہ نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ کلیسیا کی دیکھبھال کرے گا، اِس کی حفاظت کرے گا اور اِسے تعلیم دے گا۔ وہ ایسا مختلف طریقوں سے کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اُس نے کلیسیا کی دیکھبھال کے لیے اپنے بیٹے کو مقرر کِیا ہے۔ اور یسوع نے ’وفادار مختار‘ کو یہ ذمےداری سونپی ہے کہ ہمیں روحانی کھانا فراہم کرے تاکہ ہم خدا کے وفادار رہ سکیں۔ (لُوقا 12:42) یہ ”مختار“ ہمیں مفید ہدایات دیتا ہے اور ہماری تربیت کرتا ہے۔ بِلاشُبہ آپ نے کبھی نہ کبھی کوئی ایسی تقریر سنی ہوگی یا ہمارے رسالوں میں کوئی ایسا مضمون پڑھا ہوگا جس کی بدولت آپ اپنی سوچ اور طورطریقوں میں تبدیلی لانے کے قابل ہوئے۔ اگر آپ نے ایسی تبدیلیاں کی ہیں تو آپ خوش ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ آپ یہوواہ کی طرف سے تربیت پا رہے ہیں۔—امثال 2:1-5۔
15، 16. (الف) ہم بزرگوں کے کاموں کے لیے قدر کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟ (ب) ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ بزرگ خوشی سے اپنی ذمےداری پوری کر سکیں؟
15 مسیح نے کلیسیا کی دیکھبھال کرنے کے لیے بزرگوں کو بھی مقرر کِیا ہے۔ بائبل میں اِن بھائیوں کو ”آدمیوں کے رُوپ میں نعمتیں“ کہا گیا ہے۔ (اِفسیوں 4:8، 11-13) ہم بزرگوں کے کاموں کے لیے قدر کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟ ہم اُن جیسا ایمان پیدا کر سکتے ہیں اور اُن کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ جب وہ بائبل سے ہماری اِصلاح کرتے ہیں تو ہم اِسے قبول کر سکتے ہیں۔ (عبرانیوں 13:7، 17 کو پڑھیں۔) بزرگ ہم سے پیار کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم خدا کی قربت میں رہیں۔ اگر وہ دیکھتے ہیں کہ ہم باقاعدگی سے اِجلاسوں میں نہیں آ رہے یا خدا کی خدمت کے لیے ہمارا جوش ٹھنڈا پڑ رہا ہے تو وہ فوراً ہماری مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ توجہ سے ہماری بات سنتے ہیں اور پھر ہماری حوصلہافزائی کرتے اور ہمیں خدا کے کلام سے مفید مشورے دیتے ہیں۔ کیا آپ اُن کی طرف سے ملنے والی مدد کو یہوواہ کی محبت کا ثبوت خیال کرتے ہیں؟
16 اِس بات کو ذہن میں رکھیں کہ شاید بزرگوں کے لیے ہماری اِصلاح کرنا اِتنا آسان نہ ہو۔ ایک مرتبہ بادشاہ داؤد نے گُناہ کرنے کے بعد اِسے چھپانے کی کوشش کی اور یہوواہ نے ناتن نبی کو اُن کی اِصلاح کرنے کے لیے اُن کے پاس بھیجا۔ ذرا سوچیں کہ ناتن نبی کو بادشاہ داؤد کی اِصلاح کرتے وقت کیسا لگا ہوگا؟ (2-سموئیل 12:1-14) اِس کے علاوہ ذرا اُس وقت کے بارے میں بھی سوچیں جب پطرس اُن مسیحیوں سے تعصب برت رہے تھے جن کا تعلق یہودی قوم سے نہیں تھا۔ اُس موقعے پر پولُس نے پطرس کی اِصلاح کی حالانکہ پطرس 12 رسولوں میں سے ایک تھے۔ بِلاشُبہ اِس کے لیے پولُس کو بڑی ہمت جٹانی پڑی ہوگی۔ (گلتیوں 2:11-14) آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ بزرگوں کے لیے آپ کی اِصلاح کرنا آسان ہو؟ خاکسار بنیں، شکرگزاری کا جذبہ ظاہر کریں اور اپنی شخصیت کو ایسا بنائیں کہ دوسرے آسانی سے آپ سے بات کر سکیں۔ اُن کی طرف سے ملنے والی مدد کو یہوواہ کی محبت کا ثبوت سمجھیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف آپ کو فائدہ ہوگا بلکہ بزرگ بھی خوشی سے اپنی ذمےداری کو نبھا سکیں گے۔
17. بزرگوں نے ایک بہن کی مدد کیسے کی؟
17 ایک بہن نے بتایا کہ اُس کے ساتھ ماضی میں جو کچھ ہوا، اُس کی وجہ سے وہ جذباتی طور پر بالکل ٹوٹ گئی تھی اور اِس لیے اُسے یہوواہ سے محبت کرنا مشکل لگتا تھا۔ اُس نے کہا: ”مَیں جانتی تھی کہ مجھے بزرگوں سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جب مَیں نے اُن سے بات کی تو اُنہوں نے نہ تو مجھے ڈانٹا اور نہ مجھ پر تنقید کی۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے میری ہمت بڑھائی اور مجھے دِلاسا دیا۔ ہر اِجلاس کے بعد خواہ وہ کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوتے، اُن میں سے کوئی ایک میرے پاس ضرور آتا اور میرا حال چال پوچھتا۔ اپنے ماضی کی وجہ سے مَیں خود کو اِس لائق نہیں سمجھتی تھی کہ یہوواہ مجھ سے محبت کرے۔ لیکن یہوواہ خدا نے بار بار کلیسیا اور بزرگوں کے ذریعے یہ ثابت کِیا کہ وہ مجھ سے پیار کرتا ہے۔ میری دُعا ہے کہ مَیں کبھی اُس سے دُور نہ جاؤں۔“
اِصلاح کو قبول نہ کرنے کا انجام
18، 19. اِصلاح کو رد کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے؟ مثال دیں۔
18 جب ہماری اِصلاح کی جاتی ہے تو یہ ہمارے لیے تکلیفدہ ہو سکتا ہے۔ لیکن خدا کی طرف سے اِصلاح کو رد کرنا اِس سے بھی کہیں زیادہ تکلیف کا باعث بن سکتا ہے۔ (عبرانیوں 12:11) اِس سلسلے میں ہم قائن اور بادشاہ صدقیاہ کی بُری مثالوں سے اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔ جب خدا نے دیکھا کہ قائن نے اپنے دل میں اپنے بھائی کے لیے نفرت پالی ہوئی ہے اور وہ اُسے قتل کرنا چاہتا ہے تو خدا نے اُسے خبردار کِیا: ”تُو کیوں غضبناک ہوا؟ اور تیرا مُنہ کیوں بگڑا ہوا ہے؟ اگر تُو بھلا کرے تو کیا تُو مقبول نہ ہوگا؟ اور اگر تُو بھلا نہ کرے تو گُناہ دروازہ پر دبکا بیٹھا ہے اور تیرا مشتاق ہے پر تُو اُس پر غالب آ۔“ (پیدایش 4:6، 7) قائن نے خدا کی طرف سے کی جانے والی اِصلاح کو قبول نہیں کِیا اور اپنے بھائی کو قتل کر دیا۔ اِس کے بُرے نتائج کا سامنا اُسے ساری زندگی کرنا پڑا۔ (پیدایش 4:11، 12) اگر قائن خدا کی بات مان لیتا تو اُسے اِتنی تکلیف نہ اُٹھانی پڑتی۔
19 صدقیاہ ایک بزدل اور بُرا بادشاہ تھا۔ جب وہ یروشلیم پر حکومت کرتا تھا تو ملک کے حالات بہت بُرے تھے۔ یرمیاہ نبی نے اُسے بار بار خبردار کِیا کہ وہ اپنی روِش بدل لے۔ لیکن بادشاہ نے یہوواہ کی طرف سے اِصلاح کو رد کر دیا اور اُسے اِس کے بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ (یرمیاہ 52:8-11) یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کی بات مانیں اور تکلیف اُٹھانے سے بچ جائیں۔—یسعیاہ 48:17، 18 کو پڑھیں۔
20. اُن لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا جو خدا کی طرف سے اِصلاح کو قبول کرتے ہیں اور اُن کا کیا انجام ہوگا جو اِسے رد کرتے ہیں؟
20 آجکل بہت سے لوگ خدا کی طرف سے کی جانے والی اِصلاح کا مذاق اُڑاتے ہیں اور اِسے نظرانداز کرتے ہیں۔ لیکن بہت جلد اِن لوگوں کو تکلیفدہ نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ (امثال 1:24-31) لہٰذا ’تربیت کی بات سنیں اور دانا بنیں۔‘ اور امثال 4:13 میں درج اِس ہدایت پر عمل کریں: ”تربیت کو مضبوطی سے پکڑے رہ۔ اُسے جانے نہ دے۔ اُس کی حفاظت کر کیونکہ وہ تیری حیات ہے۔“