خدا کو خوش کرنے والی قربانیاں
”ہر سردار کاہن نذریں اور قربانیاں گذراننے کے واسطے مقرر ہوتا ہے۔“—عبرانیوں ۸:۳۔
۱. لوگ خدا کی طرف رُجوع کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کرتے ہیں؟
”انسان کے لئے دُعا کی طرح قربانی گذراننا بھی ایک ’فطرتی‘ امر ہے؛ قربانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان اپنی بابت کیسا محسوس کرتا ہے جبکہ دُعا خدا کیلئے اُس کے احساسات کی عکاسی کرتی ہے،“ بائبل مؤرخ الفریڈ ایڈرشیم تحریر کرتا ہے۔ گناہ جب سے دُنیا میں آیا ہے تب سے یہ ندامت، خدا سے علیٰحدگی اور بےبسی کے تکلیفدہ احساس کا باعث بنا ہے۔ ان سے چھٹکارا ضروری ہے۔ لہٰذا، یہ بات قابلِفہم ہے کہ جب لوگ خود کو ایسی مایوسکُن حالت میں پاتے ہیں تو وہ مدد کیلئے خدا کی طرف رُجوع کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔—رومیوں ۵:۱۲۔
۲. بائبل میں ہم خدا کے حضور پیش کی جانے والی کن پہلی قربانیوں کا ذکر پاتے ہیں؟
۲ بائبل میں خدا کے حضور قربانیاں پیش کرنے کا ذکر پہلی مرتبہ قائن اور ہابل کے حوالے سے آتا ہے۔ ہم پڑھتے ہیں: ”چند روز کے بعد یوں ہؤا کہ قاؔئن اپنے کھیت کے پھل کا ہدیہ [یہوواہ] کے واسطے لایا۔ اور ہابلؔ بھی اپنی بھیڑبکریوں کے کچھ پہلوٹھے بچوں کا اور کچھ اُن کی چربی کا ہدیہ لایا۔“ (پیدایش ۴:۳، ۴) اس کے بعد، ہمیں نوح کے زمانے کا ذکر ملتا ہے جب خدا نے ایک بہت بڑے طوفان کے ذریعے تمام بدکار لوگوں کو ہلاک کر دیا مگر نوح کو بچا لیا جس نے اظہارِتشکر میں یہوواہ کے حضور ”مذبح پر سوختنی قربانیاں چڑھائیں۔“ (پیدایش ۸:۲۰) کئی مواقع پر، خدا کے وفادار خادم اور دوست ابرہام نے اُس کے وعدوں اور برکات سے تحریک پا کر ’قربانگاہ بنائی اور یہوواہ سے دُعا کی۔‘ (پیدایش ۱۲:۸؛ ۱۳:۳، ۴، ۱۸) بعدازاں، جب یہوواہ نے ابرہام کو اپنے بیٹے اضحاق کو سوختنی قربانی کے طور پر گذراننے کا حکم دیا تو یہ اُس کے ایمان کی سب سے بڑی آزمائش تھی۔ (پیدایش ۲۲:۱-۱۴) یہ بیانات مختصر ہونے کے باوجود، قربانی کے موضوع پر کافی روشنی ڈالتے ہیں، جیساکہ ہم دیکھینگے۔
۳. پرستش میں قربانیاں کیا کردار ادا کرتی ہیں؟
۳ ان اور دیگر بائبل بیانات سے، یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ قربانی کے سلسلے میں یہوواہ کی مخصوص شریعت سے بھی بہت عرصہ پہلے اسے پرستش میں بنیادی مقام حاصل تھا۔ اس بات کے پیشِنظر، ایک حوالہجاتی کتاب ”قربانی“ کی تشریح ”ایک مذہبی رسم“ کے طور پر کرتی ہے ”جس کے تحت انسان ایک مُقدس نظام میں اپنی موافق حیثیت قائم کرنے، برقرار رکھنے یا بحال کرنے کیلئے کسی معبود کے حضور کوئی چیز پیش کرتا ہے۔“ لیکن اس سے محتاط غوروفکر کے حامل سوال پیدا ہوتے ہیں، جیسےکہ: پرستش میں قربانی کی ضرورت کیوں ہے؟ خدا کس قسم کی قربانیاں پسند کرتا ہے؟ نیز قدیم قربانیاں آجکل ہمارے لئے کیا مطلب رکھتی ہیں؟
قربانی کی ضرورت کیوں ہے؟
۴. آدم اور حوا کو اپنے گناہ کا کیا نتیجہ بھگتنا پڑا؟
۴ آدم نے قصداً گناہ کِیا تھا۔ اس نے جانبوجھ کر نیکوبد کی پہچان کے درخت سے پھل لیکر کھایا تھا۔ اس نافرمانی کی سزا موت تھی جیساکہ خدا واضح طور پر بیان کر چکا تھا: ”جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔“ (پیدایش ۲:۱۷) آدم اور حوا نے گناہ کی مزدوری پائی—وہ مر گئے۔—پیدایش ۳:۱۹؛ ۵:۳-۵۔
۵. یہوواہ نے آدم کی اولاد کے حق میں پہل کیوں کی اور اُس نے ان کیلئے کیا کِیا؟
۵ تاہم، آدم کی اولاد کی بابت کیا ہے؟ آدم سے گناہ اور ناکاملیت کا ورثہ پانے کی وجہ سے، وہ بھی خدا سے علیٰحدگی، نومیدی اور موت کا شکار ہیں جس کا تجربہ پہلے انسانی جوڑے کو ہوا تھا۔ (رومیوں ۵:۱۴) تاہم، یہوواہ نہ صرف انصاف اور قدرت بلکہ—درحقیقت، بنیادی طور پر—محبت کا خدا بھی ہے۔ (۱-یوحنا ۴:۸، ۱۶) لہٰذا، وہ اس نقصان کی تلافی کرنے میں پہل کرتا ہے۔ یہ بیان کرنے کے بعد کہ ”گُناہ کی مزدوری موت ہے“ بائبل مزید کہتی ہے، ”مگر خدا کی بخشش ہمارے خداوند مسیح یسوؔع میں ہمیشہ کی زندگی ہے۔“—رومیوں ۶:۲۳۔
۶. آدم کے گناہ سے واقع ہونے والے نقصان کے سلسلے میں یہوواہ کی مرضی کیا ہے؟
۶ اس بخشش کو یقینی بنانے کیلئے خدا نے بالآخر ایسی چیز فراہم کی جو آدم کے گناہ سے واقع ہونے والے نقصان کا ازالہ کر سکتی تھی۔ عبرانی میں، لفظ کوفر کا پہلا مطلب غالباً ”ڈھاپنا“ یا ”پونچھ ڈالنا“ ہے اور اس کا ترجمہ ”کفارہ“ بھی کِیا گیا ہے۔a باالفاظِدیگر، یہوواہ نے آدم سے ورثے میں پائے ہوئے گناہ کو ڈھانپنے اور اس سے واقع ہونے والے نقصان کو مٹا ڈالنے کیلئے موزوں ذریعہ فراہم کِیا تاکہ اس بخشش کے لائق ٹھہرنے والوں کو گناہ اور موت کی سزا سے چھڑایا جا سکے۔—رومیوں ۸:۲۱۔
۷. (ا) خدا نے شیطان کو جو سزا سنائی اُس سے اُمید کی کونسی کرن دکھائی دی؟ (ب) گناہ اور موت سے نسلِانسانی کے چھٹکارے کیلئے کونسی قیمت ادا کی جانی تھی؟
۷ پہلے انسانی جوڑے کے گناہ کرنے کے فوراً بعد گناہ اور موت کی غلامی سے آزادی کی اُمید کا اشارہ دے دیا گیا تھا۔ شیطان کو سزا سناتے وقت، جس کی نمائندگی اس وقت سانپ نے کی تھی، یہوواہ نے بیان کِیا: ”مَیں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالونگا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تُو اُسکی ایڑی پر کاٹیگا۔“ (پیدایش ۳:۱۵) اس نبوّتی بیان سے، ان تمام لوگوں کیلئے اُمید کی ایک کرن دکھائی دی جو اس وعدے پر ایمان لائینگے۔ تاہم، اس آزادی کی قیمت چکائی جانی تھی۔ موعودہ نسل نے آکر شیطان کو محض تباہ نہیں کر دینا تھا بلکہ اُسکی ایڑی پر بھی کاٹا جانا تھا یعنی اُسے مرنا تھا مگر ہمیشہ کیلئے نہیں۔
۸. (ا) قائن کیسے مایوسکُن ثابت ہوا؟ (ب) ہابل کی قربانی خدا کی نظر میں مقبول کیوں ٹھہری؟
۸ اس میں کوئی شک نہیں کہ آدم اور حوا نے اس موعودہ نسل کی شناخت کی بابت کافی سوچا ہوگا۔ جب حوا نے اپنے پہلوٹھے بیٹے، قائن کو جنم دیا تو اس نے کہا: ”مجھے [یہوواہ] سے ایک مرد ملا۔“ (پیدایش ۴:۱) کیا وہ یہ سوچ رہی تھی کہ شاید اس کا بیٹا وہ نسل ثابت ہوگا؟ اُس نے خواہ ایسا سوچا تھا یا نہیں، قائن اور اُس کی قربانی دونوں مایوسکُن ثابت ہوئے۔ اس کے برعکس، اس کے بھائی ہابل نے خدا کے وعدے پر ایمان ظاہر کِیا اور اپنے گلّے میں سے کچھ پہلوٹھوں کو یہوواہ کے حضور قربان کِیا۔ ہم پڑھتے ہیں: ”ایمان ہی سے ہابلؔ نے قاؔئن سے افضل قربانی خدا کے لئے گذرانی اور اُسی کے سبب سے اُس کے راستباز ہونے کی گواہی دی گئی۔“—عبرانیوں ۱۱:۴۔
۹. (ا) ہابل نے کس بات پر ایمان رکھا اور اس نے اس کا اظہار کیسے کِیا؟ (ب) ہابل کی قربانی نے کیا سرانجام دیا؟
۹ ہابل محض خدا کی موجودگی پر ایمان نہیں رکھتا تھا کیونکہ ایسا ایمان تو قائن میں بھی تھا۔ ہابل ایماندار انسانوں کی نجات کا باعث بننے والی نسل کی بابت خدا کے وعدے پر ایمان رکھتا تھا۔ یہ بات اس پر آشکارا تو نہیں کی گئی تھی کہ یہ کیسے ہوگا البتہ خدا کے وعدے نے ہابل کو اس بات سے آگاہ کر دیا تھا کہ کسی کی ایڑی پر کاٹا ضرور جائے گا۔ جیہاں، وہ بظاہر یہ نتیجہ اخذ کر چکا تھا کہ خون بہایا جائے گا—قربانی پیش کی جائے گی۔ ہابل نے یہوواہ کے وعدے کی تکمیل کو دیکھنے کی شدید آرزو اور انتظار کی علامت میں زندگی کے ماخذ کے حضور زندگی اور خون کی نذر گذرانی۔ ایمان کے اس اظہار نے ہابل کی قربانی کو یہوواہ کے حضور مقبول بنانے کے علاوہ قربانی—گنہگار انسانوں کیلئے خدا تک رسائی اور اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ—کی حقیقی نوعیت کو بھی واضح کِیا۔—پیدایش ۴:۴؛ عبرانیوں ۱۱:۱، ۶۔
۱۰. جب یہوواہ نے ابرہام سے اضحاق کو قربان کرنے کا تقاضا کِیا تو اس سے قربانی کا مفہوم کس طرح واضح ہوا تھا؟
۱۰ جب یہوواہ نے ابرہام کو اپنے بیٹے اضحاق کو سوختنی قربانی کے طور پر گذراننے کا حکم دیا تو اس سے قربانی کا مفہوم ڈرامائی طور پر عیاں ہوا۔ اگرچہ یہ قربانی سچمچ تو نہیں گذرانی گئی تھی توبھی اس نے اس بات کی تصویرکشی کی کہ انجامکار یہوواہ نسلِانسانی کے سلسلے میں اپنی مرضی پوری کرنے کیلئے اپنے اکلوتے بیٹے کو عظیمترین قربانی کے طور پر گذرانے گا۔ (یوحنا ۳:۱۶) موسوی شریعت کی قربانیوں اور نذروں کیساتھ یہوواہ نے اپنی برگزیدہ اُمت کو یہ سکھانے کیلئے نبوّتی نمونے قائم کئے کہ انہیں اپنے گناہوں سے معافی حاصل کرنے اور نجات کی اُمید کو مستحکم کرنے کیلئے کیا کرنا ہوگا۔ ہم ان سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
یہوواہ کے حضور قابلِقبول قربانیاں
۱۱. اسرائیل کا سردار کاہن کونسی دو اقسام کی چیزیں پیش کرتا تھا اور ان کے مقاصد کیا تھے؟
۱۱ ”ہر سردار کاہن نذریں اور قربانیاں گذراننے کے واسطے مقرر ہوتا ہے،“ پولس رسول بیان کرتا ہے۔ (عبرانیوں ۸:۳) غور کریں کہ قدیم اسرائیل میں سردار کاہن خدا کے حضور جو چیزیں پیش کرتا تھا پولس اُنہیں دو اقسام میں تقسیم کرتا ہے یعنی ”نذریں“ اور ”قربانیاں“ یا ”گناہوں کی قربانیاں۔“ (عبرانیوں ۵:۱) لوگ عام طور پر اُلفت اور قدردانی کا اظہار کرنے، نیز دوستی، کرمفرمائی یا خوشنودی حاصل کرنے کیلئے نذرانے دیتے ہیں۔ (پیدایش ۳۲:۲۰؛ امثال ۱۸:۱۶) اسی طرح، شریعت کے تحت بھی یہوواہ کی کرمفرمائی اور خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اُسکے حضور ”نذریں“ پیش کی جاتی تھیں۔b شریعت کی خلافورزی سے واقع ہونے والے نقصان کی تلافی کیلئے ہرجانہ یا ”گناہوں کی قربانیاں“ پیش کی جاتی تھیں۔ توریت، بالخصوص خروج، احبار اور گنتی کی کتابیں مختلف اقسام کی قربانیوں اور نذروں کے متعلق ضخیم معلومات پیش کرتی ہیں۔ اگرچہ ان ساری تفصیلات کو سمجھنا اور یاد رکھنا مشکل ہو سکتا ہے توبھی مختلف اقسام کی قربانیوں کے متعلق بعض کلیدی نکات ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔
۱۲. بائبل میں ہمیں شریعت کی قربانیوں یا نذروں کی بابت تفصیلات کہاں مل سکتی ہیں؟
۱۲ ہم غور کر سکتے ہیں کہ احبار ۱ تا ۷ ابواب میں پانچ اہم اقسام کی قربانیاں—سوختنی قربانی، نذر کی قربانی، سلامتی کا ذبیحہ، خطا کی قربانی اور جُرم کی قربانی—علیٰحدہ علیٰحدہ بیان کی گئی ہیں اگرچہ ان میں سے بعض کو اکٹھا پیش کِیا جاتا تھا۔ ہم یہ بھی نوٹ کرتے ہیں کہ ان نذروں کو مختلف مقاصد کیساتھ ان ابواب میں دو مرتبہ بیان کِیا گیا ہے: ایک مرتبہ احبار ۱:۲ تا ۶:۷ میں یہ تفصیل بیان کی گئی ہے کہ مذبح پر کیا چڑھایا جانا چاہئے اور دوسری مرتبہ احبار ۶:۸ تا ۷:۳۸ میں کاہنوں اور قربانی پیش کرنے والے شخص کیلئے مخصوص کئے گئے حصوں کی بابت بتایا گیا ہے۔ اس کے بعد، ہم دیکھتے ہیں کہ گنتی ۲۸ اور ۲۹ ابواب میں وقت کا تعیّن کِیا گیا ہے کہ ہر روز، ہفتہوار، ماہوار اور سالانہ عیدوں پر کونسی قربانیاں پیش کی جانی تھیں۔
۱۳. اپنی خوشی سے خدا کے حضور پیش کی جانے والی قربانیوں کو بیان کریں۔
۱۳ سوختنی قربانیاں، نذر کی قربانیاں اور سلامتی کے ذبیحے خدا کی کرمفرمائی حاصل کرنے کیلئے اُس کے پاس جانے کی خاطر اپنی خوشی سے گذرانے جاتے تھے۔ بعض عالم یہ رائے پیش کرتے ہیں کہ ”سوختنی قربانی“ کیلئے عبرانی اصطلاح کا مطلب ”صعودی قربانی“ یا ”اُوپر اُٹھنے والی قربانی“ ہے۔ یہ موزوں ہے کیونکہ سوختنی قربانی میں ذبح کئے ہوئے جانور کو قربانگاہ پر جلایا جاتا تھا جسکی بھینی بھینی یا راحتانگیز خوشبو آسمان پر خدا کی طرف جاتی تھی۔ سوختنی قربانی کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اسکے خون کو قربانگاہ کے گرد چھڑکے جانے کے بعد پورا جانور جلایا جاتا تھا۔ کاہن ”سب کو مذبح پر [جلاتا] کہ وہ سوختنی قربانی یعنی [یہوواہ] کیلئے راحتانگیز خوشبو کی آتشین قربانی ہو۔“—احبار ۱:۳، ۴، ۹؛ پیدایش ۸:۲۱۔
۱۴. نذر کی قربانی کیسے پیش کی جاتی تھی؟
۱۴ نذر کی قربانی احبار ۲ باب میں بیان کی گئی ہے۔ یہ رضا کی قربانی تھی جس میں عام طور پر تیل ملا ہوا میدہ اور لبان شامل ہوتا تھا۔ ”[کاہن] تیل ملے ہوئے میدہ میں سے اِس طرح اپنی مٹھیبھر کر نکالے کہ سب لبان اُس میں آ جائے۔ تب کاہن اُسے نذر کی قربانی کی یادگاری کے طور پر مذبح کے اُوپر جلائے۔ یہ [یہوواہ] کے لئے راحتانگیز خوشبو کی آتشین قربانی ہوگی۔“ (احبار ۲:۲) لبان پاک بخور کے اجزائےترکیبی میں بھی شامل تھا جسے خیمۂاجتماع اور ہیکل میں بخور کی قربانگاہ پر جلایا جاتا تھا۔ (خروج ۳۰:۳۴-۳۶) داؤد بادشاہ کے ذہن میں بدیہی طور پر یہی بات تھی جب اس نے کہا: ”میری دُعا تیرے حضور بخور کی مانند ہو اور میرا ہاتھ اُٹھانا شام کی [نذر کی] قربانی کی مانند۔“—زبور ۱۴۱:۲۔
۱۵. سلامتی کے ذبیحے کا کیا مقصد تھا؟
۱۵ ایک اَور رضا کی قربانی سلامتی کا ذبیحہ تھا جسے احبار ۳ باب میں بیان کِیا گیا ہے۔ اس نام کا ترجمہ ”صلح کی قربانی“ بھی کِیا جا سکتا ہے۔ عبرانی میں، لفظ ”سلامتی“ کا مفہوم محض جنگ یا ہنگامہآرائی سے آزادی نہیں ہے۔ کتاب اسٹڈیز ان دی موزیک انسٹیٹیوشنز کے مطابق ”بائبل اس لفظ کو اس مفہوم کے علاوہ، خدا کے ساتھ صلح کے رشتے یا حالت، مرفہالحالی، شادمانی اور خوشی کے مفہوم میں بھی استعمال کرتی ہے۔“ لہٰذا، سلامتی کے ذبیحے خدا سے صلح طلب کرنے یا اُس کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے پیش نہیں کئے جاتے تھے بلکہ خدا کے منظورِنظر لوگ اُس کے ساتھ صلح کی بابرکت حالت کی شکرگزاری یا اس کیلئے اپنی خوشی کے اظہار میں ایسی قربانیاں گذرانتے تھے۔ خون اور چربی کو یہوواہ کے حضور چڑھانے کے بعد، کاہن اور قربانی گذراننے والا باقی حصہ کھایا کرتے تھے۔ (احبار ۳:۱۷؛ ۷:۱۶-۲۱؛ ۱۹:۵-۸) ایک خوبصورت اور علامتی طریقے سے کاہن، قربانی گذراننے والا اور یہوواہ خدا کھانے میں شریک ہوتے تھے جس سے اُنکے درمیان صلح کی نشاندہی ہوتی تھی۔
۱۶. (ا) خطا کی قربانی اور جُرم کی قربانی کا کیا مقصد تھا؟ (ب) یہ سوختنی قربانی سے کیسے فرق تھیں؟
۱۶ گناہ کی معافی یا شریعت کی خلافورزیوں کے کفارہ کے لئے خطا کی قربانی اور جُرم کی قربانی پیش کی جاتی تھی۔ اگرچہ ان قربانیوں کو بھی قربانگاہ پر جلایا جاتا تھا توبھی یہ سوختنی قربانی سے فرق تھیں کیونکہ اس میں سارا جانور خدا کے حضور پیش کرنے کی بجائے صرف چربی اور دیگر خاص حصے پیش کئے جاتے تھے۔ جانور کے باقی حصوں کو لشکرگاہ کے باہر جلایا جاتا تھا یا بعض معاملات میں کاہن کھا لیا کرتے تھے۔ یہ فرق معنیخیز تھا۔ سوختنی قربانی کا مقصد خدا تک رسائی حاصل کرنا تھا اسلئے یہ مکمل طور پر خدا کے حضور پیش کی جاتی تھی اور دوسرا کوئی اس میں شریک نہیں ہو سکتا تھا۔ دلچسپی کی بات ہے کہ سوختنی قربانی سے پہلے خطا کی قربانی یا جُرم کی قربانی بھی پیش کی جاتی تھی جو اس بات کی علامت تھی کہ خدا کے حضور ایک گنہگار کی نذر کے قابلِقبول ہونے کیلئے گناہوں کی معافی ضروری تھی۔—احبار ۸:۱۴، ۱۸؛ ۹:۲، ۳؛ ۱۶:۳، ۵۔
۱۷، ۱۸. خطا کی قربانی کیوں فراہم کی گئی تھی اور جُرم کی قربانی کا مقصد کیا تھا؟
۱۷ خطا کی قربانی شریعت کے خلاف صرف نادانستہ گناہ یعنی جسم کی کمزوری کے باعث ہونے والے گناہ کی صورت میں قبول کی جاتی تھی۔ ”اگر کوئی ان کاموں میں سے جنکو [یہوواہ] نے منع کِیا ہے کسی کام“ کو کرتا تو گنہگار کو علاقے میں اپنی حیثیت یا مرتبے کے مطابق خطا کی قربانی چڑھانی پڑتی تھی۔ (احبار ۴:۲، ۳، ۲۲، ۲۷) اس کے برعکس، غیرتائب گنہگاروں کو کاٹ ڈالا جاتا؛ اُن کیلئے کوئی قربانی پیش نہیں کی جا سکتی تھی۔—خروج ۲۱:۱۲-۱۵؛ احبار ۱۷:۱۰؛ ۲۰:۲، ۶، ۱۰؛ گنتی ۱۵:۳۰؛ عبرانیوں ۲:۲۔
۱۸ جُرم کی قربانی کا مطلب اور مقصد احبار ۵ اور ۶ باب میں واضح کِیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی شخص سے نادانستہ طور پر گناہ ہو گیا ہو۔ پھربھی، اُس کی خطا کو ساتھی انسانوں یا یہوواہ خدا کے حقوق کے خلاف ہونے کی وجہ سے اصلاح یا درستی کی ضرورت ہو سکتی تھی۔ اس سلسلے میں گناہ کی کئی اقسام کا ذکر کِیا گیا ہے۔ بعض نجی گناہ (۵:۲-۶)، بعض ”[یہوواہ] کی پاک چیزوں“ کے خلاف گناہ (۵:۱۴-۱۶) اور بعض مکمل طور پر نادانستہ نہ ہونے کے باوجود غلط خواہشات یا جسمانی کمزوری کی وجہ سے سرزد ہونے والے گناہ تھے (۶:۱-۳)۔ ایسے گناہوں کا اقرار کرنے کے علاوہ، خطاکار سے جہاں واجب ہو تلافی کرنے اور اس کے بعد یہوواہ کے حضور جُرم کی قربانی پیش کرنے کا تقاضا کِیا جاتا تھا۔—احبار ۶:۴-۷۔
آنے والی کوئی بہتر چیز
۱۹. شریعت اور اسکی قربانیوں کے باوجود، اسرائیلی یہوواہ کی خوشنودی حاصل کرنے میں کیوں ناکام ہو گئے؟
۱۹ اپنی بہت سی قربانیوں اور نذروں سمیت موسوی شریعت، اسرائیلیوں کو موعودہ نسل کے آنے تک خدا کے نزدیک جانے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے دی گئی تھی۔ پیدائشی یہودی، پولس رسول اس سلسلے میں یوں بیان کرتا ہے: ”شریعت مسیح تک پہنچانے کو ہمارا اُستاد بنی تاکہ ہم ایمان کے سبب سے راستباز ٹھہریں۔“ (گلتیوں ۳:۲۴) افسوس کی بات ہے کہ اسرائیلی قوم نے اس راہنمائی کو قبول کرنے کی بجائے اسے نظرانداز کر دیا۔ نتیجتاً، ان کی کثیر قربانیاں یہوواہ کے نزدیک مکروہ بن گئیں جس نے بیان کِیا: ”مَیں مینڈھوں کی سوختنی قربانیوں سے اور فربہ بچھڑوں کی چربی سے بیزار ہوں اور بیلوں اور بھیڑوں اور بکروں کے خون میں میری خوشنودی نہیں۔“—یسعیاہ ۱:۱۱۔
۲۰. شریعت اور اسکی قربانیوں کیساتھ ۷۰ س.ع. میں کیا واقع ہوا؟
۲۰ یہودی نظامالعمل اپنی ہیکل اور کہانت سمیت ۷۰ س.ع. میں تباہوبرباد ہو گیا۔ اسکے بعد، شریعت کی عائدکردہ قربانیاں گذراننا ممکن نہ رہا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قربانیاں جو شریعت کا جزوِلازم تھیں آجکل خدا کے پرستاروں کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں؟ اس بات کا جائزہ ہم اگلے مضمون میں لینگے۔
[فٹنوٹ]
a واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ انسائٹ آن دی سکرپچرز بیان کرتی ہے: ”بائبل کے استعمال کے مطابق، ’کفارہ‘ ڈھانپنے یا ’عوضانے‘ کا بنیادی خیال پیش کرتا ہے اور اس کیلئے پیش کی جانی والی چیز کو اُس چیز کے بالکل مساوی ہونا چاہئے جسکا عوضانہ پیش کرنا یا جسے ڈھانپنا مقصود ہے۔ . . . آدم نے جس چیز کو کھو دیا اُسکا موزوں کفارہ ادا کرنے کیلئے ایک کامل انسانی زندگی کا خطا کی قربانی کے طور پر پیش کِیا جانا لازمی تھا۔“
b عبرانی لفظ قربان کا ترجمہ اکثر ”نذر“ کِیا جاتا ہے۔ مرقس نے فقیہوں اور فریسیوں کے بےاُصول دستور کے سلسلے میں یسوع کی مذمت کے واقعہ کو درج کرتے ہوئے واضح کِیا کہ ”قربان“ سے مُراد ایسی چیز ہے جو ”خدا کی نذر ہو چکی“ ہے۔—مرقس ۷:۱۱۔
[صفحہ ۱۴ پر تصویر کی عبارت]
ہابل کی قربانی مقبول ٹھہری کیونکہ یہ یہوواہ کے وعدے پر اُسکے ایمان کا اظہار تھی
[صفحہ ۱۵ پر تصویر کی عبارت]
کیا آپ اس منظر کا مفہوم سمجھتے ہیں؟
[صفحہ ۱۶ پر تصویر کی عبارت]
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
• کس چیز نے زمانۂقدیم کے وفادار انسانوں کو یہوواہ کے حضور قربانیاں پیش کرنے کی تحریک دی؟
• قربانیوں کی ضرورت کیوں تھی؟
• شریعت کے تحت کونسی اہم اقسام کی قربانیاں پیش کی جاتی تھیں اور انکے مقاصد کیا تھے؟
• پولس کے مطابق، شریعت اور اس کی قربانیوں نے کیا کلیدی مقصد انجام دیا؟