قیامت—ایک شاندار اُمید
بہتیرے لوگ قیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔ مذہب اسلام کی مُقدس کتاب قرآن میں ایک پوری سورۃ قیامت کے موضوع پر بات کرتی ہے۔ سورۃ ۷۵ کی کچھ آیات میں لکھا ہے: ”ہم کو روزِقیامت کی قسم . . . کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اُسکی (بکھری ہوئی) ہڈیاں اکٹھی نہیں کرینگے . . . پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب ہوگا؟ کیا اُس خالق کو اس بات پر قدرت نہیں کہ مُردوں کو جِلا اُٹھائے؟“—سورۃ ۷۵:۱-۶، ۴۰۔
دی نیو انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا بیان کرتا ہے کہ ”زرتشت مذہب شرارت کے خاتمے، روزِقیامت، روزِعدالت اور راستبازوں کیلئے ایک صافستھری دُنیا کی تعلیم دیتا ہے۔“
انسائیکلوپیڈیا جوڈیکا قیامت کی بابت بیان کرتا ہے کہ اس ”عقیدے کے مطابق ایک دن مُردے اپنے جسموں کیساتھ زندہ ہونگے اور اسی زمین پر دوبارہ زندگی حاصل کرینگے۔“ تاہم، یہی کتاب مزید بیان کرتی ہے کہ یہودی مذہب انسانوں کے اندر غیرفانی جان کے عقیدے کی تعلیم دیتا ہے۔ لہٰذا لوگ پریشان ہیں کہ یہ دونوں عقیدے کیسے ہمآہنگ ہیں۔ یہ کتاب تسلیم کرتی ہے کہ ”بنیادی طور پر قیامت کی اُمید اور جان کا غیرفانی ہونا دو مختلف باتیں ہیں۔“
ہندو مذہب انسان کے کئی جنم کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر یہ سچ ہے توپھر انسان کے اندر ایسی جان کا ہونا ضروری ہے جو مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔ ہندوؤں کی مُقدس کتاب بھگوَت گیتا بیان کرتی ہے: ”سارے بدن میں موجود جان لافانی ہے۔ کوئی بھی شخص اس لافانی جان کو فنا نہیں کر سکتا۔“
بدھمت اس لحاظ سے ہندو مذہب سے فرق ہے کہ یہ جان کے غیرفانی ہونے سے انکار کرتا ہے۔ تاہم، آجکل مشرقِبعید میں رہنے والے بہت سے بدھسٹ یہ ایمان رکھنے لگے ہیں کہ انسان میں غیرفانی جان ہے جو موت کے بعد زندہ رہنے کیلئے ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہو جاتی ہے۔a
قیامت کی تعلیم کی بابت اُلجھن
دُنیائےمسیحیت میں جنازے کی رسومات ادا کرتے وقت اکثر مرنے کے بعد بھی جان کے زندہ رہنے اور مُردوں کی قیامت دونوں کا ذکر کِیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، اینگلیکن مذہبی راہنما عموماً یہ الفاظ دہراتے ہیں: ”اَے قادرِمطلق خدا تُو نے ہمارے عزیز کو اس فانی زندگی سے اپنے پاس بلا لیا ہے اور اب جبکہ وہ ہم سے جُدا ہو گیا ہے ہم اُسکے جسم کو اس اُمید کیساتھ زمین کے سپرد کرتے ہیں تاکہ خاک خاک سے اور مٹی مٹی سے جا ملے اور قیامت کے روز وہ تیرے برگزیدوں کیساتھ ہمیشہ کی زندگی کیلئے جی اُٹھے۔“—دُعاؤں کی ایک کتاب سے ماخوذ۔
اس بیان سے ایک شخص اس شک میں پڑ سکتا ہے کہ آیا بائبل قیامت کی یا پھر جان کے غیرفانی ہونے کے عقیدے کی تعلیم دیتی ہے۔ تاہم، ایک فرانسیسی پروٹسٹنٹ پروفیسر اپنی کتاب میں لکھتا ہے: ”اُمیدِقیامت کی بابت مسیحی نظریے اور جان کے غیرفانی ہونے کے یونانی عقیدے میں واضح فرق ہے۔ . . . بعدازاں مسیحیت کے ان دونوں عقیدوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دینے کی وجہ سے آجکل ایک عام مسیحی ان دونوں میں بالکل فرق نہیں کر سکتا۔ لیکن مَیں اور مفکروں کی بڑی تعداد اس حقیقت کو آپ سے چھپانا نہیں چاہتے۔ . . . قیامت پر ایمان نئے عہدنامے کے پیغام کا نچوڑ ہے۔ . . . ایک مُردہ شخص صرف خدا کے ذریعے نئے سرے سے زندگی حاصل کر سکتا ہے۔“
یہ بات بالکل واضح ہے کہ عموماً لوگ موت اور مُردوں کی قیامت کی بابت اُلجھن کا شکار ہیں۔ اسکے حل کیلئے ہمیں بائبل کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے جس میں خالق یہوواہ خدا کی سچائی آشکارا کی گئی ہے۔ بائبل میں قیامت کی بابت بےشمار سرگزشتوں کا ذکر ملتا ہے۔ آئیے ان میں سے چار پر غور کریں کہ یہ کیا ظاہر کرتی ہیں۔
”عورتوں نے اپنے مُردوں کو پھر زندہ پایا“
عبرانیوں کے خط میں پولس رسول اُن مسیحیوں کی بات کر رہا ہے جو پہلے یہودی تھے۔ اُن عورتوں نے ایمان رکھنے کی وجہ سے ”اپنے مُردوں کو پھر زندہ پایا۔“ (عبرانیوں ۱۱:۳۵) اُن عورتوں میں سے ایک عورت صیدا کے نزدیک بحیرۂروم پر واقع صارپت کے فینیکی قصبے میں رہتی تھی۔ وہ ایک بیوہ تھی جس نے خدا کے نبی ایلیاہ کو شدید قحط کے دوران کھانا کھلایا اور ایسا کرنے سے اس نے مہماننوازی دکھائی۔ افسوس کی بات ہے کہ اُس عورت کا بیٹا سخت بیمار ہو گیا اور بعدازاں مر گیا۔ ایلیاہ جلدی سے اُسکو بالاخانہ میں لے گیا جہاں وہ رہتا تھا۔ اُس نے یہوواہ سے التجا کی کہ اُس لڑکے کو دوبارہ زندہ کر دے۔ ایک معجزہ کے بعد وہ لڑکا ”جی اُٹھا۔“ ایلیاہ اُسے اُسکی ماں کے پاس لیجا کر کہتا ہے: ”دیکھ تیرا بیٹا جیتا ہے۔“ آپکے خیال میں اُسکی ماں نے کیسا ردِعمل دکھایا ہوگا؟ اُس نے بڑی خوشی سے کہا: ”اب مَیں جان گئی کہ تُو مردِخدا ہے اور خداوند [یہوواہ] کا جو کلام تیرے مُنہ میں ہے وہ حق ہے۔“—۱-سلاطین ۱۷:۲۲-۲۴۔
صارپت کے جنوب میں تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر نہایت ہی مہربان میاںبیوی رہتے تھے۔ اُنہوں نے ایلیاہ کے جانشین الیشع نبی کا خیال رکھا۔ تاہم بیوی شونیم کے آبائی شہر میں دولتمند خاتون تھی۔ وہ اور اُسکا شوہر چاہتے تھے کہ الیشع کیلئے اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی کوٹھری بنائیں۔ انکی کوئی اولاد نہیں تھی اسکی وجہ سے سے وہ انتہائی غمزدہ تھے۔ لیکن جب اُس عورت نے ایک لڑکے کو جنم دیا تو انکا غم جاتا رہا۔ جب وہ لڑکا بڑا ہوا تو وہ اکثر فصل کی کٹائی کیلئے کاٹنے والوں اور اپنے باپ کیساتھ کھیت میں جایا کرتا تھا۔ مگر ایک دن افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہے۔ اُس لڑکے کے سر میں شدید درد ہوتا ہے۔ اُسکا خادم اُسے جلدی سے اُسکی ماں کے پاس گھر لے آتا ہے۔ اسکی ماں اُسے اپنے گھٹنوں پر بٹھا لیتی ہے مگر کچھ ہی دیر بعد وہ مر جاتا ہے۔ غم سے نڈھال ماں نے الیشع سے مدد لینے کا فیصلہ کِیا۔ اس نے اپنے خادم کیساتھ شمالمغرب کی طرف کوہِکرمل کا سفر کِیا جہاں الیشع رہتا تھا۔
الیشع نبی نے اسکی التجا پر اپنے خادم جیحازی کو بھیجا اور اس نے آکر بتایا کہ لڑکا واقعی مر گیا۔ تب الیشع اُٹھ کر اُس عورت کیساتھ چل پڑتا ہے جہاں وہ بچہ تھا۔ لیکن جب وہ شونیم پہنچتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں؟ دوسرا سلاطین ۴:۳۲-۳۷ آیات بتاتی ہے کہ ”جب الیشعؔ اُس گھر میں آیا تو دیکھو وہ لڑکا مرا ہوا اُسکے پلنگ پر پڑا تھا۔ سو وہ اکیلا اندر گیا اور دروازہ بند کرکے خداوند [یہوواہ] سے دُعا کی۔ اور اُوپر چڑھ کر اُس بچے پر لیٹ گیا اور اُسکے مُنہ پر اپنا مُنہ اور اُسکی آنکھوں پر اپنی آنکھیں اور اُسکے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ لئے اور اُسکے اُوپر پسر گیا۔ تب اُس بچے کا جسم گرم ہونے لگا۔ پھر وہ اُٹھ کر اُس گھر میں ایک بار ٹہلا اور اُوپر چڑھ کر اُس بچے کے اُوپر پسر گیا اور وہ بچہ سات بار چھینکا اور بچے نے آنکھیں کھول دیں۔ تب اُس نے جیحاؔزی کو بلا کر کہا اُس شونیمی عورت کو بلا لے۔ سو اُس نے اُسے بلایا اور جب وہ اُسکے پاس آئی تو اُس نے اُس سے کہا اپنے بیٹے کو اُٹھا لے۔ تب وہ اندر جاکر اُسکے قدموں پر گِری اور زمین پر سرنگون ہو گئی۔ پھر اپنے بیٹے کو اُٹھا کر باہر چلی گئی۔“
صارپت کی بیوہ کی طرح، شونیم کی عورت جان گئی کہ سب کچھ خدا کی قدرت سے ہوا ہے۔ جب ان دونوں عورتوں کے بیٹوں کو خدا نے زندہ کر دیا تو وہ خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھیں۔
یسوع نے جن مُردوں کو زندہ کِیا
تقریباً ۹۰۰ سال بعد، شونیم کے مغرب کے قریب نائین کے گاؤں کے باہر ایک مُردے کو زندہ کِیا گیا۔ یسوع مسیح اور اُسکے شاگرد کفرنحوم سے سفر کرتے ہوئے نائین کے پھاٹک کے نزدیک پہنچتے ہیں۔ اُنکے سامنے سے ایک جنازہ گزر رہا ہے۔ یسوع کی نظر اُس بیوہ پر پڑتی ہے جسکا بیٹا اب مر چکا ہے۔ یسوع نے اُس سے کہا مت رو۔ لوقا طبیب آگے بتاتا ہے: ”پھر اُس [یسوع] نے پاس آکر جنازہ کو چُھوا اور اُٹھانے والے کھڑے ہو گئے اور اُس نے کہا اَے جوان مَیں تجھ سے کہتا ہوں اُٹھ۔ وہ مُردہ اُٹھ بیٹھا اور بولنے لگا اور اُس نے اُسے اُسکی ماں کو سونپ دیا۔“ (لوقا ۷:۱۴، ۱۵) یہ معجزہ دیکھنے والے خدا کی تمجید کرنے لگے۔ مُردے کے جی اُٹھنے کی خبر سارے یہودیہ اور اردگرد کے علاقوں میں پھیل گئی۔ دلچسپی کی بات ہے کہ جب یوحنا بپتسمہ دینے والے کے شاگردوں نے یہ سنا تو اُسکو اِس معجزے کی خبر دی۔ اس پر اُس نے اپنے شاگردوں کو یسوع سے یہ پوچھنے کیلئے بھیجا کہ کیا وہ واقعی موعودہ مسیحا ہے۔ یسوع نے اُن سے کہا: ”جوکچھ تُم نے دیکھا اور سنا ہے جاکر یوؔحنا سے بیان کر دو کہ اندھے دیکھتے ہیں۔ لنگڑے چلتےپھرتے ہیں۔ کوڑھی پاکصاف کئے جاتے ہیں۔ بہرے سنتے ہیں۔ مُردے زندہ کئے جاتے ہیں۔ غریبوں کو خوشخبری سنائی جاتی ہے۔“—لوقا ۷:۲۲۔
یسوع نے جن مُردوں کو زندہ کِیا اُن میں مشہورترین معجزہ اسکے دوست لعزر کی قیامت تھی۔ تاہم، جب یسوع بیتعنیاہ میں اُس خاندان کے گھر پہنچتا ہے تو لعزر کو مرے ہوئے چار دن ہو گئے تھے۔ جب یسوع غار کے مُنہ پر رکھے ہوئے پتھر کو ہٹانے کا حکم دیتا ہے تو مرتھا اعتراض کرتی ہے: ”اَے خداوند! اُس میں سے تو اب بدبو آتی ہے کیونکہ اُسے چار دن ہو گئے۔“ (یوحنا ۱۱:۳۹) اگرچہ لعزر کی لاش خراب ہو چکی تھی توبھی یہ بات اُسے زندہ کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہ بنی۔ یسوع کے حکم کے مطابق ”جو مر گیا تھا وہ کفن سے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے نکل آیا اور اُسکا چہرہ رومال سے لپٹا ہوا تھا۔“ اس قیامت کے بعد یسوع کے دُشمنوں نے اُسے اور لعزر کو مار ڈالنا چاہا۔ لیکن اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جسے زندہ کِیا گیا تھا وہ لعزر ہی تھا۔—یوحنا ۱۱:۴۳، ۴۴؛ ۱۲:۱، ۹-۱۱۔
ہم قیامت سے متعلق ان چار سرگزشتوں سے کیا سیکھتے ہیں؟ قیامت پانے والا ہر شخص اپنی پہلی سی شخصیت کیساتھ زندہ ہوا تھا۔ وہاں موجود تمام لوگوں نے حتیٰکہ اُنکے قریبی رشتہداروں نے بھی اُنہیں آسانی سے پہچان لیا تھا۔ اسکے علاوہ مُردوں میں سے زندہ ہونے والے اشخاص نے یہ نہیں بتایا کہ موت کے مختصر وقت میں انکے ساتھ کیا واقع ہوا تھا۔ کسی نے بھی یہ نہیں بتایا کہ وہ کسی اَور جہان میں چلے گئے تھے۔ دراصل، وہ تمام اچھی صحت کیساتھ زندہ ہوئے تھے۔ گویا یہ حالت انکے کیلئے نیند کی مانند تھی اور وہ نیند سے جاگ اُٹھے تھے۔ اس بات کو یسوع نے بھی اسی طرح سے واضح کِیا تھا۔ (یوحنا ۱۱:۱۱) تاہم، کچھ عرصہ کے بعد یہ تمام اشخاص دوبارہ مر گئے تھے۔
بچھڑے ہوئے عزیزوں سے دوبارہ ملنا—ایک شاندار اُمید
جیساکہ اِس شمارے کے پہلے مضمون میں بتایا گیا ہے کہ اوون کی موت کے افسوسناک واقعے کے تھوڑی ہی دیر بعد، اسکا باپ اپنے پڑوسی کے گھر ملنے جاتا ہے۔ وہاں میز پر وہ یہوواہ کے گواہوں کی طرف سے عوامی تقریر کا ایک اشتہار پڑا دیکھتا ہے۔ اسکا موضوع تھا کہ ”مُردے کہاں ہیں؟“ اوون کے باپ کو یہ بہت پسند آیا۔ یہ عین وہی سوال تھا جو اسکے ذہن میں تھا۔ اُس نے یہ عوامی تقریر سنی اور بائبل سے حقیقی تسلی حاصل کی۔ اس نے سیکھ لیا کہ مُردے عذاب میں مبتلا نہیں ہیں۔ اوون سمیت تمام مُردے دوزخ کی آگ میں اذیت اُٹھانے یا آسمان پر فرشتے بننے کی بجائے، دوبارہ جی اُٹھنے تک قبر میں انتظار کرتے ہیں۔—واعظ ۹:۵، ۱۰؛ حزقیایل ۱۸:۴۔
کیا آپکے خاندان کیساتھ کوئی افسوسناک واقعہ رونما ہوا ہے؟ کیا اوون کے باپ کی طرح آپ بھی سوچتے ہیں کہ آپکے مر جانے والے عزیز اب کہاں ہیں اور آیا آپ انہیں دوبارہ دیکھینگے؟ اگر ایسا ہے تو ہم آپکو اس بات پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ بائبل قیامت کے بارے میں مزید کیا سکھاتی ہے۔ شاید آپ یہ سوچیں کہ مُردے کہاں پر جی اُٹھینگے اور کون دوبارہ زندہ ہونگے؟ ان سوالات کے جواب حاصل کرنے کیلئے براہِمہربانی اس شمارے کے اگلے مضامین پڑھیں۔
[فٹنوٹ]
a یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ کتاب مینکائنڈز سرچ فار گاڈ کے صفحہ ۱۵۰-۱۵۴ کا مطالعہ کریں۔
[صفحہ ۵ پر تصویر]
ایلیاہ نے یہوواہ خدا سے لڑکے کی زندگی کو پھر سے بحال کرنے کیلئے دُعا کی
[صفحہ ۵ پر تصویر]
یہوواہ خدا نے شونیمی عورت کے بیٹے کو زندہ کرنے کیلئے الیشع کو استعمال کِیا
[صفحہ ۶ پر تصویر]
یسوع مسیح نے نائین کی بیوہ کے بیٹے کو زندہ کِیا
[صفحہ ۷ پر تصویر]
لوگ اپنے مُردہ عزیزوں سے قیامت میں پھر ملیں گے