مسیحی ایمان آزمایا جائیگا
”سب میں ایمان نہیں۔“—۲-تھسلنیکیوں ۳:۲۔
۱. تاریخ نے کیسے ظاہر کِیا ہے کہ سب سچا ایمان نہیں رکھتے؟
پوری تاریخ کے دوران، سچا ایمان رکھنے والے مرد، عورتیں اور بچے رہے ہیں۔ اسمصفت ”سچا“ بہت موزوں ہے کیونکہ دیگر لاکھوں لوگوں نے خوشاعتقادی، کسی ٹھوس بنیاد یا وجہ کے بغیر یقین کر لینے پر آمادگی جیسا ایمان ظاہر کِیا ہے۔ ایسے ایمان میں اکثر جھوٹے معبود یا پرستش کے طریقے شامل رہے ہیں جو قادرِمطلق، یہوواہ اور اُس کے منکشف کلام سے کسی بھی طرح مطابقت نہیں رکھتے۔ چنانچہ پولس رسول نے تحریر کِیا: ”سب میں ایمان نہیں۔“—۲-تھسلنیکیوں ۳:۲۔
۲. ہمارے لئے اپنے ایمان کی جانچ کرنا کیوں نہایت اہم ہے؟
۲ تاہم پولس کا بیان اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ اُس وقت بعض لوگ واقعی سچا ایمان رکھتے تھے اور، نتیجتاً، بعض آج بھی رکھتے ہیں۔ اس جریدے کے بیشتر قارئین ایسا سچا ایمان—الہٰی سچائی کے درست علم کے مطابق ایمان—حاصل کرنے اور اس میں افزائش کرنے کے خواہاں ہیں۔ (یوحنا ۱۸:۳۷؛ عبرانیوں ۱۱:۶) کیا آپ بھی ایسا ہی چاہتے ہیں؟ تو پھر یہ اشد ضروری ہے کہ آپ اس حقیقت کو پہچانیں اور اس کے لئے تیار رہیں کہ آپ کا ایمان آزمایا جائے گا۔ ایسا کیوں کہا جا سکتا ہے؟
۳، ۴. ایمان کی آزمائشوں کے سلسلے میں ہمیں یسوع پر کیوں غور کرنا چاہئے؟
۳ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ یسوع مسیح ہمارے ایمان کا مرکز ہے۔ بِلاشُبہ، بائبل اُس کا ہمارے ایمان کے کامل کرنے والے کے طور پر ذکر کرتی ہے۔ اس کی وجہ یسوع کی باتیں اور کام، بالخصوص اُس کا پیشینگوئی کو پورا کرنا ہے۔ اُس نے اُس بنیاد کو مضبوط کِیا جس پر انسان اپنا سچا ایمان استوار کر سکتے ہیں۔ (عبرانیوں ۱۲:۲؛ مکاشفہ ۱:۱، ۲) پھربھی، ہم پڑھتے ہیں کہ یسوع ”سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تو بھی بیگناہ رہا۔“ (عبرانیوں ۴:۱۵) جیہاں، یسوع کا ایمان آزمایا گیا تھا۔ ہمارے لئے حوصلہشکنی یا تشویش کا باعث بننے سے بعید، اس بات کو ہمیں تسلی دینی چاہئے۔
۴ سولی پر موت کی حد تک بڑی آزمائشیں سہنے سے یسوع نے ”فرمانبرداری سیکھی۔“ (عبرانیوں ۵:۸) اُس نے ثابت کر دکھایا کہ انسان اپنے اُوپر آنے والی کسی بھی طرح کی آزمائشوں کے باوجود سچے ایمان کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ یہ بات اُس وقت خاص اہمیت کی حامل بن جاتی ہے جب ہم یسوع کے ان الفاظ پر غور کرتے ہیں جو اُس نے اپنے پیروکاروں کی بابت کہے: ”جو بات مَیں نے تُم سے کہی تھی اسے یاد رکھو کہ نوکر اپنے مالک سے بڑا نہیں ہوتا۔“ (یوحنا ۱۵:۲۰) دراصل، ہمارے زمانے میں اپنے پیروکاروں کی بابت یسوع نے پیشگوئی کی: ”میرے نام کی خاطر سب قومیں تم سے عداوت رکھینگی۔“—متی ۲۴:۹۔
۵. صحائف کیسے واضح کرتے ہیں کہ ہمیں آزمائشوں کا سامنا ہوگا؟
۵ اس صدی کے اوائل میں، عدالت خدا کے گھر سے ہی شروع ہوئی تھی۔ صحائف نے پیشازوقت بیان کِیا: ”وہ وقت آ پہنچا ہے کہ خدا کے گھر سے عدالت شروع ہو اور جب ہم ہی سے شروع ہوگی تو اُن کا کیا انجام ہوگا جو خدا کی خوشخبری کو نہیں مانتے؟ اور جب راستباز ہی مشکل سے نجات پائے گا تو بےدین اور گنہگار کا کیا ٹھکانا؟“—۱-پطرس ۴:۱۷، ۱۸۔
ایمان آزمایا جاتا ہے—کیوں؟
۶. آزمودہ ایمان بیشبہا کیوں ہے؟
۶ ایک لحاظ سے، جو ایمان آزمایا نہ گیا ہو اُسکی کوئی آزمودہ قدروقیمت نہیں ہوتی اور اس کی خوبی بھی معلوم نہیں ہو پاتی۔ آپ اسے ایک ایسے چیک سے تشبِیہ دے سکتے ہیں جسے ابھی کیش نہیں کرایا گیا۔ آپ نے غالباً اس چیک کو اپنے کسی کام کے عوض، اُن اشیاء کے عوض جو آپ نے فراہم کیں یا ایک تحفے کے طور پر حاصل کِیا ہو۔ یہ چیک صحیح دکھائی دے سکتا ہے لیکن کیا یہ ہے بھی؟ کیا اس کی قیمت واقعی اُتنی ہے جتنی اس پر لکھی ہے؟ اسی طرح، ہمارے ایمان کو بھی محض دکھاوے یا دعوے سے زیادہ کچھ ہونا چاہئے۔ اگر ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس میں واقعی کوئی جوہر اور حقیقی خوبی ہے تو اس کی آزمائش ہونی چاہئے۔ جب ہمارے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے تو اُس وقت ہمیں یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ مضبوط اور گرانقدر ہے۔ آزمائش ایسے حلقوں کا انکشاف بھی کر سکتی ہے جن میں ہمارے ایمان کو مزید اصلاح یا تقویت کی ضرورت ہے۔
۷، ۸. ہمارے ایمان کی آزمائشوں کا ماخذ کیا ہے؟
۷ خدا ہم پر اذیت اور ایمان کی دیگر آزمائشیں آنے کی اجازت دیتا ہے۔ ہم پڑھتے ہیں: ”جب کوئی آزمایا جائے تو یہ نہ کہے کہ میری آزمایش خدا کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ نہ تو خدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے۔“ (یعقوب ۱:۱۳) کون یا کیا چیز ایسی آزمائشوں کی ذمہدار ہے؟ یہ شیطان، دُنیا اور ہمارا اپنا ناکامل جسم ہے۔
۸ ہم یہ تسلیم کر سکتے ہیں کہ شیطان دُنیا، اس کے اندازِفکر اور اس کے طورطریقوں پر زبردست اثر ڈالتا ہے۔ (۱-یوحنا ۵:۱۹) نیز ہم شاید یہ جانتے ہیں کہ وہ مسیحیوں کے خلاف اذیت برپا کرتا ہے۔ (مکاشفہ ۱۲:۱۷) تاہم کیا ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ شیطان ہمارے ناکامل جسم کو لبھانے، ہماری آنکھوں میں دُنیاوی تحریصات کے خواب بسانے سے ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ اُمید کرتا ہے کہ ہم چارہ نگل جائیں گے اور خدا کی نافرمانی کر کے انجامکار یہوواہ کی ناپسندیدگی کا شکار ہو جائیں گے؟ بِلاشُبہ، ہمیں شیطان کے ہتھکنڈوں سے حیران نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اُس نے یسوع کو آزمانے کی کوشش میں ایسی ہی تدابیر استعمال کی تھیں۔—متی ۴:۱-۱۱۔
۹. ہم ایمان کی مثالوں سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟
۹ اپنے کلام اور مسیحی کلیسیا کے ذریعے، یہوواہ ہمارے سامنے ایمان کے مثبت نمونے رکھتا ہے جنکی ہم نقل کر سکتے ہیں۔ پولس نے نصیحت کی: ”اَے بھائیو! تم سب مل کر میری مانند بنو اور اُن لوگوں کو پہچان رکھو جو اس طرح چلتے ہیں جسکا نمونہ تم ہم میں پاتے ہو۔“ (فلپیوں ۳:۱۷) پہلی صدی میں خدا کے ممسوح خادموں میں سے ایک کی حیثیت سے، پولس نے اپنے تجربے میں آنے والی بڑی آزمائشوں کے باوجود ایماندارانہ کام کرنے میں پیشوائی کی۔ اس ۲۰ویں صدی کے اختتام پر، ہمارے پاس ایمان کی ایسی ہی مثالوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ عبرانیوں ۱۳:۷ کے الفاظ کا اطلاق آج بھی اُتنے ہی زوردار طریقے سے ہوتا ہے جتناکہ اُس وقت ہوتا تھا جب پولس نے اُنہیں تحریر کِیا تھا: ”جو تمہارے پیشوا تھے اور جنہوں نے تمہیں خدا کا کلام سنایا اُنہیں یاد رکھو اور اُن کی زندگی کے انجام پر غور کر کے اُن جیسے ایماندار ہو جاؤ۔“
۱۰. حالیہ وقتوں میں ہمارے پاس ایمان کی کونسی نمایاں مثالیں ہیں؟
۱۰ جب ہم ممسوح بقیے کی زندگی کے انجام پر غور کرتے ہیں تو اس نصیحت کا خاص اثر ہوتا ہے۔ ہم اُن کے نمونے پر غور کر سکتے اور اُن کے ایمان کی تقلید کر سکتے ہیں۔ اُن کا ایمان سچا ہے جسے آزمائشوں کے ذریعے پاک کِیا گیا ہے۔ پیچھے ۱۸۷۰ کے دہے میں چھوٹی سی شروعات سے ایک عالمگیر مسیحی برادری بن گئی۔ اُس وقت سے لیکر ممسوح اشخاص کے ایمان اور صبر کے پھل کے طور پر، ساڑھے پانچ ملین سے زیادہ یہوواہ کے گواہ اب خدا کی بادشاہت کی منادی کر رہے ہیں اور اُس کی بابت تعلیم دے رہے ہیں۔ سرگرم سچے پرستاروں کی موجودہ عالمگیر کلیسیا آزمودہ ایمان کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔—ططس ۲:۱۴۔
۱۹۱۴ کی بابت ایمان کی آزمائش ہوئی
۱۱. سی. ٹی. رسل اور اُن کے ساتھیوں کے لئے ۱۹۱۴ اہمیت کا حامل کیوں تھا؟
۱۱ پہلی عالمی جنگ کے آغاز سے کئی سال پہلے، ممسوح بقیہ یہ اعلان کر رہا تھا کہ بائبل پیشینگوئی میں ۱۹۱۴ ایک اہم دَور ہوگا۔ تاہم، اُن کی بعض توقعات کا ابھی وقت نہیں آیا تھا اور جو کچھ واقع ہوگا اُس کی بابت اُن کا نظریہ بالکل صحیح نہیں تھا۔ مثال کے طور پر، واچ ٹاور سوسائٹی کے پہلے صدر، سی. ٹی. رسل اور اُن کے ساتھی یہ دیکھ سکتے تھے کہ وسیع منادی کا کام بہت ضروری ہے۔ اُنہوں نے پڑھا تھا: ”بادشاہی کی اس خوشخبری کی منادی تمام دُنیا میں ہو گی تاکہ سب قوموں کے گواہی ہو۔ تب خاتمہ ہوگا۔“ (متی ۲۴:۱۴) تاہم، اُن کا نسبتاً چھوٹا سا گروہ یہ کام کیسے کر سکتا تھا؟
۱۲. رسل کے ساتھیوں میں سے ایک نے بائبل سچائی کے لئے کیسا جوابیعمل دکھایا؟
۱۲ غور کریں کہ اس بات نے رسل کے ایک ساتھی، اے. ایچ. میکملن کو کیسے متاثر کِیا۔ کینیڈا میں پیدا ہونے والا میکملن ابھی ۲۰ برس کا بھی نہیں تھا جب اُس نے رسل کی کتاب دی پلان آف دی ایجز حاصل کی (۱۸۸۶)۔ (یہ کتاب جو دی ڈیوائن پلان آف دی ایجز بھی کہلاتی ہے، وسیع پیمانے پر تقسیم ہونے والے سیٹ سٹڈیز ان دی سکرپچرز کی جِلد ۱ بنی۔ جِلد ۲، دی ٹائم از ایٹ ہینڈ [۱۸۸۹]، نے ۱۹۱۴ کی ”غیرقوموں کی معیاد“ کے خاتمے کے طور پر نشاندہی کی۔ [لوقا ۲۱:۲۴]) اُسی رات میکملن نے اُسے پڑھنا شروع کر دیا، اُنہوں نے سوچا: ”یہ تو سچائی معلوم ہوتی ہے!“ ۱۹۰۰ کے موسمِگرما میں، بائبل سٹوڈنٹس کے ایک کنونشن پر جیسےکہ یہوواہ کے گواہ اُس وقت کہلاتے تھے، اُس کی ملاقات رسل سے ہوئی۔ جلد ہی میکملن نے بپتسمہ لے لیا اور بھائی رسل کے ساتھ نیو یارک میں سوسائٹی کے ہیڈکوارٹرز میں کام کرنا شروع کر دیا۔
۱۳. متی ۲۴:۱۴ کی تکمیل کے سلسلے میں میکملن اور دیگر نے کیا مشکل محسوس کی؟
۱۳ اپنی بائبل پڑھائی کی مطابقت میں، اُن ممسوح مسیحیوں نے خدا کے مقصد میں ۱۹۱۴ کی ایک نقطۂانقلاب کے طور پر نشاندہی کی۔ تاہم، میکملن اور دیگر اس سوچ میں پڑ گئے کہ باقیماندہ قلیل وقت میں متی ۲۴:۱۴ میں بیانکردہ قوموں کے درمیان منادی کا کام کیسے انجام دیا جا سکتا ہے۔ بعدازاں اُنہوں نے کہا: ”مجھے یاد ہے کہ مَیں اکثر بھائی رسل کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو کِیا کرتا تھا اور وہ کہا کرتے تھے، ’بھائی دیکھو یہاں نیو یارک میں ہی یروشلیم سے زیادہ یہودی رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں ڈبلن سے زیادہ آئرش لوگ آباد ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں روم سے زیادہ اطالوی مکین ہیں۔ اب اگر ہم یہاں اُن تک پہنچتے ہیں تو یہ دُنیا تک پیغام لیکر پہنچنے کے مترادف ہوگا۔‘ تاہم اس سے ہمارے ذہنوں کو تسلی نہیں ہوتی تھی۔ لہٰذا ’فوٹو-ڈرامے‘ کا منصوبہ بنایا گیا۔“
۱۴. کس غیرمعمولی پروجیکٹ پر ۱۹۱۴ سے پہلے کام کِیا گیا تھا؟
۱۴ ”فوٹو-ڈرامہ آف کریئیشن“ کیا ہی انوکھا کام تھا! یہ بائبل تقاریر اور فونوگراف ریکارڈز پر موسیقی سے ہمآہنگ متحرک تصاویر اور رنگین گلاس سلائیڈز پر مشتمل تھا۔ سن ۱۹۱۳ میں، دی واچ ٹاور نے آرکانساس، یو.ایس.اے. میں ایک کنونشن کی بابت کہا: ”متفقہ رائے سے یہ طے کر لیا گیا کہ بائبل سچائیوں کی تعلیم دینے میں حرکت کرنے والی تصاویر کو استعمال کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ . . . [رسل] نے وضاحت کی کہ وہ اس خاص منصوبے پر تین سال سے کام کر رہے ہیں اور اب سینکڑوں خوبصورت تصاویر تقریباً تیار ہیں جو بِلااحتمال بڑے ہجوموں کی توجہ کا مرکز بنیں گی اور انجیل کی منادی اور خدا پر لوگوں کے ایمان کو بحال کرنے میں مدد کریں گی۔“
۱۵. ”فوٹو-ڈرامہ“ سے کیسے نتائج برآمد ہوئے؟
۱۵ ”فوٹو-ڈرامہ“ نے جنوری ۱۹۱۴ میں اپنی افتتاحی نمائش کے بعد سے اسی مقصد کو سرانجام دیا۔ درجذیل رپورٹس ۱۹۱۴ کے دی واچ ٹاور سے لی گئی ہیں:
اپریل ۱: ”ایک پادری نے دو حصے دیکھنے کے بعد کہا، ’مَیں نے تو ابھی آدھا ہی فوٹو-ڈرامہ آف کریئیشن دیکھا ہے لیکن بائبل کی بابت اتنا کچھ سیکھ گیا ہوں جتنا کہ مَیں نے اپنے تھیولاجیکل سیمنری کے تین سالہ کورس میں بھی نہیں سیکھا تھا۔‘ ایک یہودی نے اسے دیکھنے کے بعد رائےزنی کی، ’یہاں آنے کے وقت کی نسبت اب مَیں زیادہ بہتر یہودی بن کر جا رہا ہوں۔‘ کئی ایک کیتھولک راہبوں اور راہبات نے بھی ڈرامہ دیکھا اور بڑی قدردانی کا اظہار کِیا۔ . . . ابھی ڈرامے کے صرف بارہ سیٹ مکمل ہوئے ہیں . . . مگر ہم اکتیس شہروں میں پہنچ چکے ہیں اور وہاں اسے پیش کر رہے ہیں . . . ہر روز پینتیس ہزار سے زیادہ لوگ اسے دیکھ رہے ہیں، سن رہے ہیں، اس کی تعریف کر رہے ہیں اور اس پر غوروفکر کرنے سے برکت حاصل کر رہے ہیں۔“
جون ۱۵: ”تصاویر نے میرے اندر سچائی کی تشہیر کرنے کے لئے اَور زیادہ جوش پیدا کر دیا ہے اور آسمانی باپ اور ہمارے عزیز بڑے بھائی یسوع کے لئے میری محبت کو فروغ بخشا ہے۔ مَیں روزانہ فوٹو-ڈرامہ آف کریئیشن اور اس کی پیشکش میں شامل تمام لوگوں پر خدا کی بڑی برکت کے لئے دُعا کرتا ہوں . . . مَیں مسیح میں آپ کا خادم ہوں، ایف. ڈبلیو. نوچی۔—آئیووا۔“
جولائی ۱۵: ”ہم اُس شاندار مبارک اثر کو دیکھ کر بہت خوش ہیں جو اِن تصاویر نے اس شہر پر ڈالا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ دُنیا کے لئے اس گواہی کو ایسے بہت سے لوگوں کو جمع کرنے کے لئے بھی استعمال کِیا جا رہا ہے جو خداوند کے پسندیدہ جواہرات ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ ہم خلوصدل بائبل طالبعلموں کی کثیر تعداد سے واقف ہیں جو اب فوٹو-ڈرامہ کی بدولت جماعت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ . . . خداوند میں آپکی بہن، ایما ایل. برِکر۔“
نومبر ۱۵: ”ہمیں یقین ہے کہ دی لنڈن اوپرا ہاؤس، کنگزوے میں فوٹو-ڈرامہ آف کریئیشن کے ذریعے جو عظیمالشان گواہی دی جا رہی ہے آپ اُس کی بابت سن کر ضرور خوش ہونگے۔ خداوند کا رہبر ہاتھ اس نمائش کے ہر چھوٹے سے چھوٹے مرحلے میں بھی اسقدر حیرانکُن طریقے سے ظاہر ہوا ہے کہ بھائی بڑی خوشی کر رہے ہیں . . . ہمارے حاضرین تمام طبقات اور اقسام کے لوگوں پر مشتمل تھے؛ ہم نے بہت سے پادریوں کو بھی حاضر ہوتے دیکھا ہے۔ ایک وِکر نے . . . ٹکٹوں کے لئے درخواست کی تاکہ وہ اور اُس کی بیوی دوبارہ آ کر اسے دیکھ سکیں۔ چرچ آف انگلینڈ کا ایک ریکٹر کئی مرتبہ ڈرامہ دیکھنے آ چکا ہے اور . . . اسے دیکھنے کے لئے اپنے بہت سے دوستوں کو بھی لایا ہے۔ دو بشپ بھی آئے ہیں اور بہتیری معروف ہستیاں بھی۔“
دسمبر ۱: ”مَیں اور میری بیوی اُس بڑی اور بیشقیمت برکت کے لئے اپنے آسمانی باپ کے واقعی شکرگزار ہیں جو آپ کے وسیلے ہمیں حاصل ہوئی ہے۔ یہ آپ کا خوبصورت فوٹو-ڈرامہ ہی تھا جو ہمارے لئے سچائی کو دیکھنے اور قبول کرنے کا باعث بنا . . . ہمارے پاس آپ کی سٹڈیز اِن دی سکرپچرز کی چھ جِلدیں بھی ہیں۔ وہ نہایت کارآمد ہیں۔“
اُس وقت آزمائشوں کے لئے جوابیعمل
۱۶. سن ۱۹۱۴ ایمان کی آزمائش کا باعث کیوں بنا؟
۱۶ تاہم، اُس وقت کیا ہوا جب ایسے مخلص اور عقیدتمند مسیحیوں نے دیکھا کہ ۱۹۱۴ میں ہی خداوند کے ساتھ ملا دئے جانے کی اُن کی توقع پوری نہیں ہوئی؟ اُن ممسوح اشخاص کو غیرمعمولی طور پر ایک آزمائشی دَور میں سے گزرنا پڑا۔ نومبر ۱، ۱۹۱۴ کے دی واچ ٹاور نے بیان کِیا: ”یاد رکھیں کہ ہم ایک آزمائش کی گھڑی سے گزر رہے ہیں۔“ اس کی بابت، جیہوواز وٹنسز—پروکلیمرز آف گاڈز کنگڈم (۱۹۹۳) بیان کرتی ہے: ”۱۹۱۴ سے ۱۹۱۸ کے سال بائبل طالبعلموں کے لئے واقعی ’ایک آزمائش کی گھڑی‘ ثابت ہوئے۔“ کیا وہ اپنے ایمان کو سچا بنانے اور اپنی سوچ کو درست کرنے کی اجازت دینگے تاکہ وہ اُس بڑے کام کا بیڑا اُٹھا سکیں جو اُن کے سامنے تھا؟
۱۷. وفادار ممسوح اشخاص نے ۱۹۱۴ کے بعد بھی زمین پر رہنے کی بابت کیسا جوابیعمل دکھایا؟
۱۷ ستمبر ۱، ۱۹۱۶ کے دی واچ ٹاور نے بیان کِیا: ”ہم نے یہ سوچا تھا کہ کلیسیا [ممسوح اشخاص] کو جمع کرنے کا کٹائی کا کام غیرقوموں کی میعاد کے ختم ہونے سے پہلے مکمل ہو جائے گا؛ لیکن بائبل میں ایسا کچھ نہیں کہا گیا۔ . . . کیا ہمیں اس بات کا افسوس ہے کہ کٹائی کا کام ابھی تک جاری ہے؟ . . . عزیز بھائیو، ہمارے موجودہ رویے کو خدا کے لئے بڑی شکرگزاری ظاہر کرنے والا ہونا چاہئے جو اُس دلکش سچائی کے لئے ہماری قدردانی کو بڑھاتا ہے جسے دیکھنے اور ہماری پہچان بننے کا شرف اُس نے ہمیں بخشا ہے اور دوسروں کو اس سچائی سے واقف کرانے میں مدد دینے کے لئے ہمارے جذبے کو بڑھاتا ہے۔“ اُن کے ایمان کی آزمائش ہوئی تھی مگر پھربھی اُنہوں نے اُس آزمائش کا مقابلہ کِیا اور کامیابی سے اس پر قابو پایا۔ پس ہم مسیحیوں کو اس بات سے باخبر رہنا چاہئے کہ ایمان کی آزمائشیں متعدد اور مختلف ہو سکتی ہیں۔
۱۸، ۱۹. بھائی رسل کی وفات کے فوراً بعد خدا کے لوگوں پر ایمان کی دیگر کونسی آزمائشیں آئیں؟
۱۸ مثال کے طور پر، بھائی چارلس ٹی. رسل کی وفات کے فوراً بعد بقیے پر ایک اَور آزمائش آئی۔ یہ اُن کی وفاداری اور ایمان کی آزمائش تھی۔ متی ۲۴:۴۵ کا ’دیانتدار نوکر‘ کون تھا؟ بعض نے محسوس کِیا کہ بھائی رسل خود ہی تھے اور یوں اُنہوں نے نئے تنظیمی انتظامات سے تعاون کرنے سے انکار کر دیا۔ اگر وہی نوکر تھا تو اب اُس کی موت کے بعد بھائیوں کو کیا کرنا تھا؟ کیا اُنہیں کسی نئے مُتعیّنہ شخص کی پیروی کرنی چاہئے یا کیا اب یہ جاننے کا وقت تھا کہ یہوواہ کسی ایک شخص کو نہیں بلکہ مسیحیوں کے ایک پورے گروہ کو آلۂکار یا نوکر جماعت کے طور پر استعمال کر رہا تھا؟
۱۹ سن ۱۹۱۸ میں جب دُنیاوی حکام نے دُنیائےمسیحیت کے پادریوں کے اُکسانے پر، یہوواہ کی تنظیم کیخلاف ’قانون کی آڑ میں شرارت کا منصوبہ گھڑا‘ تو سچے مسیحیوں پر ایک اَور آزمائش آئی۔ (زبور ۹۴:۲۰) شمالی امریکہ اور یورپ دونوں میں بائبل طالبعلموں کیخلاف متشدّد اذیت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ پادریوں کی برانگیختہ اذیت مئی ۷، ۱۹۱۸ میں انتہا کو پہنچ گئی جب جے. ایف. رتھرفورڈ اور اے. ایچ. میکملن سمیت اُس کے کئی قریبی ساتھیوں کو گرفتار کرنے کے لئے یو.ایس. فیڈرل وارنٹس جاری کئے گئے۔ اُن پر بغاوت کا جھوٹا الزام لگایا گیا اور حکام نے اُن کی بیگناہی کی اپیلوں کو نظرانداز کر دیا۔
۲۰، ۲۱. جیساکہ ملاکی ۳:۱-۳ میں بیان کِیا گیا تھا، ممسوحوں کے درمیان کونسا کام کِیا گیا تھا؟
۲۰ اگرچہ اُس وقت تو ایسا خیال نہ کِیا گیا مگر پاکصاف کرنے کا ایک عمل جاری تھا، جیساکہ ملاکی ۳:۱-۳ میں بیان کِیا گیا ہے: ”اُس کے آنے کے دن کی کس میں تاب ہے؟ اور جب اُس کا ظہور ہوگا تو کون کھڑا رہ سکے گا؟ کیونکہ [عہد کا رسول] سنار کی آگ اور دھوبی کے صابون کی مانند ہے۔ اور وہ چاندی کو تانے اور پاکصاف کرنے والے کی مانند بیٹھیگا اور بنی لاوی کو سونے اور چاندی کی مانند پاکصاف کریگا تاکہ وہ راستبازی سے خداوند کے حضور ہدئے گذرانیں۔“
۲۱ جب پہلی عالمی جنگ ختم ہونے کے قریب پہنچی تو بعض بائبل طالبعلموں کو ایمان کی ایک اَور آزمائش کا سامنا کرنا پڑا—آیا وہ دُنیاوی فوجی معاملات میں قطعی غیرجانبداری برقرار رکھینگے۔ (یوحنا ۱۷:۱۶؛ ۱۸:۳۶) بعض نے ایسا نہ کِیا۔ لہٰذا ۱۹۱۸ میں، یہوواہ نے ”عہد کے رسول،“ مسیح یسوع کو اپنے پرستاروں کے چھوٹے سے گروہ کو دُنیاوی آلودگیوں سے پاکصاف کرنے کے لئے اپنے روحانی ہیکل کے انتظام میں بھیجا۔ جو لوگ سچا ایمان ظاہر کرنے کا عزم کئے ہوئے تھے، اُنہوں نے تجربے سے سبق سیکھا اور سرگرمی سے منادی کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔
۲۲. ایمان کی آزمائشوں کے سلسلے میں، کس بات پر غور کرنا باقی ہے؟
۲۲ ہم ابھی جوکچھ زیرِبحث لائے ہیں وہ محض ماضی سے متعلق دلچسپ تاریخ نہیں ہے۔ یہ یہوواہ کی عالمگیر کلیسیا کی موجودہ روحانی حالت سے براہِراست وابستہ ہے۔ تاہم آئیے اگلے مضمون میں آجکل خدا کے لوگوں کو درپیش ایمان کی بعض آزمائشوں پر غور کریں اور یہ دیکھیں کہ ہم کامیابی کے ساتھ کیسے ان پر غالب آ سکتے ہیں۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
◻یہوواہ کے لوگوں کو اس بات کی توقع کیوں رکھنی چاہئے کہ اُنکا ایمان آزمایا جائیگا؟
◻سن ۱۹۱۴ سے پہلے خدا کے پیغام کی تشہیر کیلئے کونسی کوششیں زیرِعمل تھیں؟
◻”فوٹو-ڈرامہ“ کیا تھا اور اس سے کونسے نتائج برآمد ہوئے؟
◻سن ۱۹۱۴-۱۹۱۸ کے عرصے میں واقعات نے کس طرح ممسوحوں کو آزمانے کا کام انجام دیا؟
[صفحہ 8 پر تصویر]
اس صدی کے آغاز پر، بہت سے ممالک کے لوگ ”ملینیئل ڈان“ کی سیریز کی مدد سے بائبل کا مطالعہ کر رہے تھے جو بعد میں ”سٹڈیز اِن دی سکرپچرز“ کہلائی
[صفحہ 9 پر تصویر]
ریکارڈنگ کیلئے افتتاحی اقتباس کیساتھ سی. ٹی. رسل کی طرف سے ایک خط جس میں اُنہوں نے فرمایا: ”’دی فوٹو-ڈرامہ آف کریئیشن‘ آئیبیایساے—انٹرنیشنل بائبل سٹوڈنٹس ایسوسیایشن—کی طرف سے پیش کِیا گیا ہے۔ اس کا مقصد مذہبیوسائنسی خطوط پر اور بائبل کے دفاع میں عوامی تعلیموتربیت ہے“
[صفحہ 10 پر تصویر]
ڈیمٹریس پاپاجورج نے ”فوٹو-ڈرامہ آف کریئیشن“ کی نمائش کرتے ہوئے سفر کِیا۔ بعدازاں، اُسکی مسیحی غیرجانبداری کی وجہ سے اُسے قید کر دیا گیا تھا