مطالعے کا مضمون نمبر 46
یہوواہ مشکلوں کو برداشت کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے
”[یہوواہ] تُم پر مہربانی کرنے کے لئے اِنتظار کرے گا اور تُم پر رحم کرنے کے لئے بلند ہوگا۔“—یسع 30:18۔
گیت نمبر 3: یہوواہ، ہمارا سہارا اور آسرا
مضمون پر ایک نظرa
1-2. (الف) اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟ (ب) کس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ ہماری مدد کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہے؟
یہوواہ ہماری مدد کر سکتا ہے تاکہ ہم اپنی زندگی میں آنے والی مشکلوں سے نمٹ سکیں اور خوشی سے اُس کی خدمت کر سکیں۔ یہوواہ کن طریقوں سے ہماری مدد کرتا ہے؟ اور ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم اُس مدد سے بھرپور فائدہ حاصل کریں جو یہوواہ ہمیں دیتا ہے؟ اِس مضمون میں ہم اِن سوالوں کے جواب حاصل کریں گے۔ لیکن اِن سوالوں کے جواب حاصل کرنے سے پہلے آئیے، اِس سوال پر بات کرتے ہیں کہ کیا یہوواہ ہماری مدد کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہے؟
2 پولُس رسول نے عبرانیوں کے نام اپنے خط میں ایک ایسا لفظ اِستعمال کِیا جس سے ہمیں اپنے اِس سوال کا جواب مل سکتا ہے۔ اِس خط میں پولُس نے لکھا: ”یہوواہ میرا مددگار ہے۔ مَیں نہیں ڈروں گا۔ اِنسان میرا کیا بگاڑ سکتا ہے؟“ (عبر 13:6) بائبل کی ایک لغت کے مطابق اِس آیت میں لفظ ”مددگار“ ایک ایسے شخص کے لیے اِستعمال ہوا ہے جو اُس شخص کی مدد کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتا جو مدد کے لیے پکارتا ہے۔ یہوواہ بالکل ایسا ہی ہے۔ وہ اُن لوگوں کی مدد کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتا جو مشکلوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ بےشک اِس سے ہمیں پکا یقین ہو جاتا ہے کہ یہوواہ ہماری مدد کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہے اور اُس کی مدد سے ہم مشکلوں کو برداشت کر پائیں گے۔
3. یہوواہ کن تین طریقوں سے مشکلوں کو برداشت کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے؟
3 یہوواہ کن تین طریقوں سے ہماری مدد کرتا ہے تاکہ ہم مشکلوں کو برداشت کر سکیں؟ اِس سوال کا جواب جاننے کے لیے آئیے، یسعیاہ 30 باب کی کچھ آیتوں پر غور کرتے ہیں۔ یسعیاہ نے اِس کتاب میں یہوواہ کی پاک روح کی رہنمائی سے جو پیشگوئیاں لکھیں، اُن میں سے بہت سی پیشگوئیاں آج خدا کے بندوں پر پوری ہوتی ہیں۔ اِس کے علاوہ یسعیاہ نے اکثر یہوواہ کے بارے میں بتاتے وقت ایسے الفاظ یا اِصطلاحیں اِستعمال کیں جو ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر یسعیاہ 30 باب میں یسعیاہ نے یہ بتانے کے لیے بہت سی خوبصورت مثالیں اِستعمال کیں کہ یہوواہ اپنے بندوں کی مدد کیسے کرتا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ یہوواہ اِن تین طریقوں سے اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے: (1) وہ بڑے دھیان سے اُن کی دُعائیں سنتا ہے اور اِن کا جواب دیتا ہے، (2) وہ اُن کی رہنمائی کرتا ہے اور (3) وہ اُنہیں ابھی بھی برکتیں دیتا ہے اور مستقبل میں بھی برکتیں دے گا۔ آئیے، باری باری اِن طریقوں پر غور کرتے ہیں۔
یہوواہ ہماری دُعائیں سنتا ہے
4. (الف) یہوواہ نے یسعیاہ نبی کے زمانے کے یہودیوں کے بارے میں کیا کہا اور اُس نے کیا ہونے دیا؟ (ب) یہوواہ نے اپنے وفادار بندوں کو کون سی اُمید دی؟ (یسعیاہ 30:18، 19)
4 یسعیاہ 30 باب کے شروع میں یہوواہ نے یہودیوں کو ’باغی لڑکے‘ کہا جو ”گُناہ پر گُناہ“ کرتے ہیں۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ یہ ”باغی لوگ“ ہیں جو ”شریعت کو سننے سے اِنکار کرتے ہیں۔“ (یسع 30:1، 9) چونکہ اِن لوگوں نے یہوواہ کی بات سننے سے اِنکار کر دیا تھا اِس لیے یسعیاہ نے پیشگوئی کی کہ یہوواہ اُنہیں مصیبتوں سے گزرنے دے گا۔ (یسع 30:5، 17؛ یرم 25:8-11) اور بالکل ایسا ہی ہوا۔ بابلیوں نے اُنہیں اسیر کر لیا۔ لیکن اُن میں کچھ یہودی ایسے تھے جو یہوواہ کے وفادار تھے۔ اور یسعیاہ نے اُنہیں اُمید کا پیغام دیا۔ یسعیاہ نے اُنہیں بتایا کہ ایک دن یہوواہ اُنہیں یروشلیم واپس لے آئے گا۔ (یسعیاہ 30:18، 19 کو پڑھیں۔) اور ایسا ہوا بھی۔ لیکن یہوواہ نے اُنہیں فوراً بابلیوں کی اسیری سے آزاد نہیں کرایا۔ جب یسعیاہ نبی نے یہ بات لکھی کہ ”[یہوواہ] تُم پر مہربانی کرنے کے لئے اِنتظار کرے گا“ تو اِس سے پتہ چلا کہ وفادار یہودیوں کو بابلیوں کی اسیری سے آزاد ہونے کے لیے کچھ عرصے تک اِنتظار کرنا تھا۔ دراصل یہودیوں نے بابل کی اسیری میں 70 سال گزارے اور اِس عرصے کے بعد کچھ یہودی یروشلیم لوٹے۔ (یسع 10:21؛ یرم 29:10) جب یہودی بابل میں اسیر تھے تو وہ غم کے مارے روتے تھے۔ لیکن جب وہ یروشلیم لوٹ آئے تو اُن کے غم کے آنسو خوشی میں بدل گئے۔
5. یسعیاہ 30:19سے ہمیں کس بات کی تسلی ملتی ہے؟
5 آج ہمیں یسعیاہ 30 باب کی 19 آیت میں لکھی اِس بات سے بہت تسلی ملتی ہے: ”وہ تیری فریاد کی آواز سُن کر یقیناً تجھ پر رحم فرمائے گا۔“ یسعیاہ نبی نے ہمیں یقین دِلایا کہ جب ہم شدت سے یہوواہ سے مدد کی درخواست کرتے ہیں تو وہ ہماری بات دھیان سے سنتا ہے اور ہماری اِلتجاؤں کا فوراً جواب دیتا ہے۔ یسعیاہ نبی نے یہ بھی کہا: ”وہ سنتے ہی تجھے جواب دے گا۔“ یسعیاہ نبی کے اِن الفاظ سے ہمیں تسلی ملتی ہے کہ ہمارا آسمانی باپ اُن لوگوں کی مدد کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہے جو اُس سے مدد کے لیے اِلتجا کرتے ہیں۔ یہ بات جاننے سے ہم مشکلوں کو برداشت کر پاتے ہیں۔
6. یسعیاہ کے الفاظ سے یہ کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ اپنے ہر بندے کی دُعا سنتا ہے؟
6 اِس آیت سے ہم دُعا کے بارے میں اَور کیا سیکھتے ہیں؟ یہوواہ اپنے ہر بندے کی دُعا سنتا ہے۔ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں؟ یسعیاہ 30 باب کے شروع میں لفظ ”تُم“ ایک سے زیادہ لوگوں کی طرف اِشارہ کرتا ہے کیونکہ یہوواہ لوگوں کے ایک گروہ سے بات کر رہا تھا۔ لیکن 19 آیت میں لفظ ”تُو،“ ”تیری“ اور ”تجھے“ اِس بات کی طرف اِشارہ کرتے ہیں کہ یہوواہ ہر شخص سے ذاتی طور پر بات کر رہا تھا۔ یسعیاہ نے کہا: ”تُو پھر نہ روئے گی۔ وہ تیری فریاد کی آواز سُن کر یقیناً تجھ پر رحم فرمائے گا۔ وہ سنتے ہی تجھے جواب دے گا۔“ ہمارا آسمانی باپ یہوواہ ہم سے پیار کرتا ہے اور وہ کبھی بھی اپنے بےحوصلہ بیٹے یا بیٹی سے یہ نہیں کہے گا: ”آپ کو اپنے اُس بہن یا بھائی کی طرح ہمت والا ہونا چاہیے۔“ وہ ہم سب کا خیال رکھتا ہے اور ہماری دُعاؤں کو سنتا ہے۔—زبور 116:1؛ یسع 57:15۔
7. یسعیاہ نبی اور یسوع مسیح نے اِس بات کی اہمیت کیسے واضح کی کہ ہمیں دُعا کرتے رہنا چاہیے؟
7 جب ہم کسی ایسے معاملے کے بارے میں یہوواہ سے دُعا کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم پریشان ہیں تو ہماری مدد کرنے کے لیے یہوواہ سب سے پہلے ہمیں ہمت دیتا ہے تاکہ ہم اُس مشکل کو برداشت کر سکیں۔ لیکن اگر ہماری مشکل فوراً ختم نہیں ہوتی تو ہمیں بار بار یہوواہ سے ہمت مانگنی چاہیے۔ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم ایسا کریں۔ یہ چیز یسعیاہ کی ایک بات سے صاف پتہ چلتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہوواہ کو ”آرام نہ لینے دو۔“ (یسع 62:7) اِس کا کیا مطلب ہے؟ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں یہوواہ سے دُعا کرتے رہنا چاہیے۔ یہ ایسے ہوگا جیسے ہم یہوواہ کو آرام نہ لینے دے رہے ہوں۔ یسعیاہ کے اِن الفاظ سے ہمیں لُوقا 11:8-10، 13 میں یسوع مسیح کی بتائی گئی وہ مثالیں یاد آتی ہیں جو اُنہوں نے دُعا کے بارے میں دی تھیں۔ یہاں یسوع ہم سے یہ کہہ رہے تھے کہ ہم دُعا میں ”بار بار اِصرار“ کرتے رہیں اور پاک روح ”مانگتے رہیں۔“ ہم یہوواہ سے یہ درخواست بھی کر سکتے ہیں کہ وہ ہماری رہنمائی کرے تاکہ ہم اچھے فیصلے کر سکیں۔
یہوواہ ہماری رہنمائی کرتا ہے
8. قدیم زمانے میں یسعیاہ 30:20، 21 میں لکھے الفاظ کیسے پورے ہوئے؟
8 یسعیاہ 30:20، 21 کو پڑھیں۔ جب بابلی فوج نے ڈیڑھ سال کے لیے یروشلیم کو گھیر لیا تو یہودیوں کو شدید مشکلوں سے گزرنا پڑا۔ یہ مشکلیں روزمرہ زندگی کا حصہ بن گئیں بالکل جیسے کھانا پینا۔ لیکن 20 اور 21 آیتوں میں یہوواہ نے یہودیوں سے وعدہ کِیا کہ اگر وہ توبہ کریں گے اور خود کو بدل لیں گے تو وہ اُنہیں بابلیوں کی اسیری سے رِہائی دِلائے گا۔ یسعیاہ نے یہوواہ کو اُن کا عظیم ”مُعلم“ یعنی عظیم اُستاد کہا۔ اور اُن سے وعدہ کِیا کہ یہوواہ اُنہیں سکھائے گا کہ وہ اُس کی اُس طرح سے عبادت کیسے کر سکتے ہیں جیسی اُسے پسند ہے۔ اِن آیتوں میں لکھے الفاظ اُس وقت پورے ہوئے جب یہودی بابلیوں کی اسیری سے رِہا ہو گئے۔ اِس طرح یہ ثابت ہوا کہ یہوواہ اُن کا مُعلم ہے اور اُس کی رہنمائی میں یہودی پھر سے صحیح طرح سے اُس کی عبادت شروع کر پائے۔ ہم بہت خوش ہیں کہ یہوواہ ہمارا بھی مُعلم ہے۔
9. ایک طریقہ کیا ہے جس سے یہوواہ ہماری رہنمائی کر رہا ہے؟
9 اِن آیتوں میں لکھے یسعیاہ کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ ہم طالبِعلموں کی طرح ہیں جو دو طریقوں سے یہوواہ سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ پہلے یسعیاہ نے کہا: ”تیری آنکھیں اُس کو دیکھیں گی۔“ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک اُستاد اپنے طالبِعلموں کے سامنے کھڑا ہے۔ یہ ہمارے لیے کتنا بڑا اعزاز ہے کہ آج ہم اپنے عظیم مُعلم یعنی یہوواہ سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ لیکن یہوواہ ہمیں تعلیم کیسے دیتا ہے؟ وہ اپنی تنظیم کے ذریعے ایسا کرتا ہے۔ ہم یہوواہ کی تنظیم کے بہت شکرگزار ہیں کہ وہ ہمیں واضح ہدایتیں دیتی ہے۔ اور جو تعلیم ہمیں اِجلاسوں، اِجتماعوں، کتابوں، ویڈیوز اور براڈکاسٹنگ سے ملتی ہے، وہ مشکلوں کو برداشت کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔
10. ہم کس لحاظ سے اپنے پیچھے سے یہوواہ کی آواز سنتے ہیں؟
10 یہوواہ ایک اَور طریقے سے بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ یسعیاہ نے کہا: ’تیرے کان تیرے پیچھے سے آواز سنیں گے۔‘ یسعیاہ دراصل یہوواہ کو ایک ایسے اُستاد کے طور پر بیان کر رہے تھے جو اپنے طالبِعلموں کے پیچھے چلتا ہے اور اُنہیں بتاتا ہے کہ آگے اُنہیں کس راہ پہ جانا ہے۔ آج بھی یہوواہ ہمارے پیچھے کھڑے ہو کر ہمیں ہدایت دیتا ہے۔ کیسے؟ یہوواہ نے اپنی باتیں ہزاروں سال پہلے اپنے کلام میں لکھوا دی تھیں۔ تو جب ہم خدا کی باتوں کو بائبل سے پڑھتے ہیں تو ایک طرح سے ہم اپنے پیچھے سے اُس کی آواز سُن رہے ہوتے ہیں۔—یسع 51:4۔
11. ہمیں مشکلوں کو برداشت کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے اور کیوں؟
11 اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم یہوواہ کی تنظیم اور اُس کے کلام سے ملنے والی ہدایتوں سے پورا فائدہ حاصل کریں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ غور کریں کہ یسعیاہ نے دو باتوں کا ذکر کِیا۔ پہلی یہ کہ ”راہ یہی ہے“ اور دوسری یہ کہ ”اِس پر چل۔“ (یسع 30:21) صرف یہ پتہ ہونا کافی نہیں ہے کہ صحیح ”راہ“ کیا ہے بلکہ ہمیں اِس پر ’چلنا‘ بھی چاہیے۔ یہوواہ کے کلام اور اُس کی تنظیم کی طرف سے ملنے والی وضاحتوں کی مدد سے ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہوواہ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ ہم یہ بھی سمجھ جاتے ہیں کہ ہم اُن باتوں پر کیسے عمل کر سکتے ہیں جو ہم سیکھتے ہیں۔ مشکلوں کو برداشت کرنے اور خوشی سے یہوواہ کی خدمت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دونوں کام کریں۔ اگر ہم یہوواہ سے تعلیم حاصل کرتے اور اُن باتوں پر عمل کرتے ہیں جو ہم سیکھتے ہیں تو ہم اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں برکتیں دے گا۔
یہوواہ ہمیں برکتیں دیتا ہے
12. یسعیاہ 30:23-26 کے مطابق یہوواہ نے اپنے بندوں کو کیسے برکت دی؟
12 یسعیاہ 30:23-26 کو پڑھیں۔ یہ پیشگوئی اُن یہودیوں پر کیسے پوری ہوئی جو بابلیوں کی اسیری سے آزاد ہو کر واپس اپنے ملک یروشلیم آئے تھے؟ یہوواہ نے اُنہیں ڈھیروں برکتیں دیں۔ اُس نے اُنہیں ہر وہ چیز دی جو زندہ رہنے اور اُس کی عبادت کرتے رہنے کے لیے ضروری تھی۔ یہوواہ نے اپنے بندوں کو کھانے پینے کی بہت سی چیزیں دیں۔ لیکن سب سے بڑھ کر اُس نے اُنہیں ہر وہ چیز دی جو اُس کے قریب رہنے اور پھر سے صحیح طرح سے اُس کی عبادت کرنے کے لیے ضروری تھی۔ یہودیوں کو اِس سے پہلے ایک ساتھ اِتنی ساری برکتوں کا تجربہ نہیں ہوا تھا۔ جیسے کہ 26 آیت سے پتہ چلتا ہے، یہوواہ نے اپنے کلام کے علم کی روشنی کو بہت بڑھا دیا تھا۔ (یسع 60:2) یہوواہ کی برکتوں کی وجہ سے اُس کے بندوں کو ہمت ملی کہ وہ ”دل کی خوشی“ سے اُس کی خدمت کرتے رہیں۔—یسع 65:14۔
13. صحیح طرح سے یہوواہ کی عبادت کرنے والی پیشگوئی آج ہمارے زمانے میں کیسے پوری ہو رہی ہے؟
13 کیا صحیح طرح سے یہوواہ کی عبادت کرنے والی پیشگوئی آج ہمارے زمانے میں پوری ہو رہی ہے؟ جی بالکل۔ لیکن کس طرح؟ 1919ء سے لاکھوں لوگوں کو بابلِعظیم یعنی جھوٹے مذہب کی غلامی سے آزادی ملی ہے۔ اُنہیں اُس ملک سے بھی اچھی جگہ ملی ہے جو یہوواہ نے بنیاِسرائیل کو دیا تھا۔ یہوواہ اُنہیں روحانی فردوس میں لے آیا ہے۔ (یسع 51:3؛ 66:8) لیکن روحانی فردوس کیا ہے؟
14. روحانی فردوس کیا ہے اور آج اِس فردوس میں کون رہ رہے ہیں؟ (اِصطلاح کی وضاحت کو دیکھیں۔)
14 سن 1919ء سے مسحشُدہ مسیحی روحانی فردوس میں رہ رہے ہیں۔b لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسیح کی ’اَور بھی بھیڑوں‘ یعنی اُن لوگوں کو اِس روحانی فردوس میں رہنے کا موقع ملا جو زمین پر ہمیشہ کی زندگی پانے کی اُمید رکھتے ہیں۔ اِس روحانی فردوس میں رہتے ہوئے وہ یہوواہ کی طرف سے ملنے والی ڈھیروں برکتوں سے فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔—یوح 10:16؛ یسع 25:6؛ 65:13۔
15. روحانی فردوس کہاں ہے؟
15 آج روحانی فردوس کہاں ہے؟ یہوواہ کے بندے پوری دُنیا کے فرق فرق حصوں میں رہتے ہیں۔ اِس لیے جہاں جہاں یہوواہ کے بندے ہیں، وہاں وہاں روحانی فردوس ہے۔ ہم چاہے دُنیا کے کسی بھی حصے میں رہتے ہوں، ہم روحانی فردوس کا حصہ بن سکتے ہیں۔ لیکن صرف اُسی صورت میں اگر ہم پورے دل سے یہوواہ کی عبادت کرتے رہیں۔
16. ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہماری نظر روحانی فردوس کی خوبصورتی پر رہے؟
16 روحانی فردوس میں رہنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم دُنیا بھر میں ہماری کلیسیا کے لیے قدر ظاہر کرتے رہیں۔ لیکن ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ ہمیں اپنی نظر روحانی فردوس کی خوبصورتی پر رکھنی چاہیے نہ کہ اِس میں رہنے والوں کی غلطیوں پر۔ (یوح 17:20، 21) ایسا کرنا کیوں ضروری ہے؟ ذرا اِس بارے میں سوچیں: جب ہم کسی باغ میں جاتے ہیں تو ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ وہاں فرق فرق قسم کے درخت ہیں اور ہمیں اُنہیں دیکھ کر اچھا لگتا ہے۔ ہماری کلیسیا کے بہن بھائی بھی ایک طرح سے اِن درختوں کی طرح ہیں اور اُن کی شخصیت ایک دوسرے سے فرق ہے۔ (یسع 44:4؛ 61:3) اِس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ”درختوں“ کی خامیوں پر دھیان دینے کی بجائے اپنی نظر پورے ”باغ“ کی خوبصورتی پر رکھیں۔ ہمیں اپنی یا دوسروں کی خامیوں پر توجہ دینے کی بجائے اپنا دھیان اُس خوبصورت اِتحاد پر رکھنا چاہیے جو پوری دُنیا میں ہماری کلیسیا میں پایا جاتا ہے۔
17. ہم میں سے ہر ایک کو کیا کرنا چاہیے تاکہ ہماری کلیسیا میں اِتحاد برقرار رہے؟
17 ہم میں سے ہر ایک کو کیا کرنا چاہیے تاکہ ہماری کلیسیا میں اِتحاد برقرار رہے؟ ہمیں صلحپسند بننا چاہیے۔ (متی 5:9؛ روم 12:18) جب ہم کلیسیا کے بہن بھائیوں کے ساتھ صلح کرنے میں پہل کرتے ہیں تو ہم روحانی فردوس کی خوبصورتی کو بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہوواہ ہم میں سے ہر ایک کو اِس روحانی فردوس میں لایا ہے تاکہ ہم صحیح طریقے سے اُس کی عبادت کر سکیں۔ (یوح 6:44) ذرا سوچیں کہ یہوواہ اُس وقت کتنا خوش ہوتا ہوگا جب وہ دیکھتا ہوگا کہ ہم اُس کے بندوں کے درمیان امن اور اِتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے کتنی سخت محنت کر رہے ہیں۔—یسع 26:3؛ حج 2:7۔
18. ہمیں کس بات پر سوچ بچار کرتے رہنا چاہیے اور کیوں؟
18 یہوواہ نے اپنے بندوں کو بہت سی اچھی چیزیں دی ہیں۔ لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم اِن چیزوں سے بھرپور فائدہ حاصل کر سکیں؟ ہم بائبل اور ہماری کتابوں اور ویڈیوز میں جو کچھ پڑھتے یا دیکھتے ہیں، ہمیں اُس پر گہرائی سے سوچ بچار کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے ہم اپنے اندر ایسی خوبیاں پیدا کر پائیں گے جو کلیسیا میں ”ایک دوسرے سے بہن بھائیوں کی طرح پیار“ کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ (روم 12:10) جب ہم اُن برکتوں پر سوچ بچار کرتے ہیں جو یہوواہ ابھی ہمیں دے رہا ہے تو اُس کے ساتھ ہماری دوستی مضبوط ہوتی ہے۔ اور جب ہم اُن برکتوں کے بارے میں سوچتے ہیں جو یہوواہ مستقبل میں ہمیں دے گا تو ہمارا یہ عزم مضبوط ہوتا ہے کہ ہم ہمیشہ تک اُس کی عبادت کرتے رہیں گے۔ یہ سب چیزیں ہماری مدد کریں گی کہ ہم ابھی بھی خوشی سے یہوواہ کی خدمت کرتے رہیں۔
مشکلوں کو برداشت کرنے کا عزم کریں
19. (الف) یسعیاہ 30:18 کے مطابق ہم کس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں؟ (ب) کیا چیز مشکلوں کو برداشت کرنے میں ہماری مدد کرے گی؟
19 جب یہوواہ اِس بُری دُنیا کو ختم کرے گا تو ایک طرح سے وہ ہمارے لیے ”اُٹھ کھڑا“ ہوگا۔ (یسع 30:18، اُردو جیو ورشن) ہم اِس بات کا پکا یقین رکھتے ہیں کہ یہوواہ اِنصاف کا خدا ہے اور وہ شیطان کی دُنیا کو زیادہ دیر برداشت نہیں کرے گا۔ (یسع 25:9) یہوواہ کی طرح ہم بھی صبر سے اُس وقت کا اِنتظار کر رہے ہیں جب شیطان کی دُنیا ختم ہو جائے گی۔ لیکن جب تک وہ وقت نہیں آتا، ہمارا عزم ہے کہ ہم دُعا کرنے کے اعزاز کی قدر کرتے رہیں گے، بائبل پڑھتے اور اِس میں لکھی باتوں پر عمل کرتے رہیں گے اور یہوواہ کی طرف سے ملنے والی برکتوں پر سوچ بچار کرتے رہیں گے۔ جب ہم ایسا کریں گے تو یہوواہ ہماری مدد کرے گا کہ ہم مشکلوں کو برداشت کریں اور خوشی سے اُس کی عبادت کرتے رہیں۔
گیت نمبر 142: ہماری شاندار اُمید
a اِس مضمون میں ہم تین ایسے طریقوں پر غور کریں گے جن کے ذریعے یہوواہ مشکلوں کو برداشت کرنے میں اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے۔ اِن تین طریقوں کے بارے میں اَور جاننے کے لیے ہم یسعیاہ 30 باب پر غور کریں گے۔ اِس باب پر غور کرنے سے ہم دیکھ پائیں گے کہ یہ کیوں اہم ہے کہ ہم یہوواہ سے دُعا کریں، بائبل پڑھیں اور اِس بات پر سوچ بچار کریں کہ یہوواہ ابھی ہمارے لیے کیا کر رہا ہے اور وہ مستقبل میں کیا کچھ کرے گا۔
b اِصطلاح کی وضاحت: ”روحانی فردوس“ ایک ایسا ماحول ہے جو بہت محفوظ ہے اور جہاں ہم متحد ہو کر یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں۔ یہاں ہمیں بہت زیادہ روحانی کھانا مل رہا ہے جو جھوٹے مذہبی عقیدوں سے پاک ہے؛ ہم لوگوں کو خدا کی بادشاہت کی خوشخبری سنا رہے ہیں جس سے ہمیں بہت خوشی ملتی ہے؛ یہوواہ کے ساتھ ہماری قریبی دوستی ہے اور ہم اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ امن اور صلح سے رہ رہے ہیں جو مشکلوں کو برداشت کرنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ ہم اُس وقت روحانی فردوس میں داخل ہو جاتے ہیں جب ہم صحیح طریقے سے یہوواہ کی عبادت کرنا شروع کرتے ہیں اور اُس کی مثال پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔