کیا آپ خدا کے آرام میں داخل ہو چکے ہیں؟
”جو اُسکے آرام میں داخل ہوا اُس نے بھی خدا کی طرح اپنے کاموں کو پورا کرکے آرام کِیا۔“—عبرانیوں ۴:۱۰۔
۱. آرام اسقدر مرغوب کیوں ہے؟
آرام! کیا ہی دلکش اور راحتبخش لفظ! دورِحاضر کی تُندرفتار اور مصروف دُنیا میں رہتے ہوئے، ہم میں سے بیشتر اس بات سے متفق ہوں گے کہ تھوڑا سا آرام بھی نہایت قابلِقدر ہے۔ جوان ہوں یا بوڑھے، شادیشُدہ ہوں یا کنوارے، ہم روزمرّہ معمول سے خستہ اور ماندہ محسوس کرتے ہیں۔ کمزور یا معذور لوگوں کے لئے تو ہر دن ایک چیلنج ہوتا ہے۔ صحائف کے مطابق، ”ساری مخلوقات مِل کر اب تک کراہتی ہے اور دردِزِہ میں پڑی تڑپتی ہے۔“ (رومیوں ۸:۲۲) لہٰذا، ضروری نہیں کہ آرام کرنے والا شخص کاہل ہو۔ آرام ایک انسانی ضرورت ہے جسے پورا کِیا جانا چاہئے۔
۲. یہوواہ کب سے آرام کر رہا ہے؟
۲ یہوواہ خدا خود بھی آرام کرتا رہا ہے۔ پیدایش کی کتاب میں ہم پڑھتے ہیں: ”آسمان اور زمین اور اُن کے کُل لشکر کا بنانا ختم ہؤا۔ اور خدا نے اپنے کام کو جسے وہ کرتا تھا ساتویں دن ختم کِیا اور اپنے سارے کام سے جسے وہ کر رہا تھا ساتویں دن فارغ ہؤا۔“ یہوواہ نے ”ساتویں دن“ کو خاص اہمیت دی، جیسےکہ الہامی ریکارڈ مزید بیان کرتا ہے: ”خدا نے ساتویں دن کو برکت دی اور اُسے مُقدس ٹھہرایا۔“—پیدایش ۲:۱-۳۔
خدا نے اپنے کام سے آرام کِیا
۳. خدا کے آرام کرنے کی کیا وجوہات نہیں ہو سکتی تھیں؟
۳ خدا نے ”ساتویں دن“ آرام کیوں کِیا تھا؟ بِلاشُبہ، اُس نے تھکاوٹ کی وجہ سے آرام نہیں کِیا تھا۔ یہوواہ میں ”قدرت کی عظمت“ ہے اور وہ ”تھکتا نہیں اور ماندہ نہیں ہوتا۔“ (یسعیاہ ۴۰:۲۶، ۲۸) خدا نے اس لئے آرام نہیں کِیا تھا کہ اُسے کسی وقفے یا سانس لینے کی ضرورت تھی، چنانچہ یسوع نے کہا تھا: ”میرا باپ اب تک کام کرتا ہے اور مَیں بھی کام کرتا ہوں۔“ (یوحنا ۵:۱۷) بہرصورت، ”خدا روح ہے“ اور بدنی نظاموں اور خاکی مخلوقات کی ضروریات کا پابند نہیں ہے۔—یوحنا ۴:۲۴۔
۴. ”ساتواں دن“ کس لحاظ سے پچھلے چھ ’دنوں‘ سے فرق تھا؟
۴ ہم اس بات کو کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ خدا نے ”ساتویں دن“ آرام کیوں کِیا تھا؟ اس بات پر غور کرنے سے کہ پچھلے چھ تخلیقی ’دنوں‘ کے طویل عرصے کے دوران اُس نے جوکچھ بھی انجام دیا اُس سے بہت خوش ہونے کے باوجود خدا نے خاص طور پر ”ساتویں دن“ کو برکت دی اور اُسے ”مُقدس“ ٹھہرایا۔ کنسائز آکسفورڈ ڈکشنری ”مُقدس“ کی تعریف ایسی چیز کے طور پر کرتی ہے جو ”کُلی طور پر (کسی معبود یا کسی مذہبی مقصد) کے لئے مخصوص یا وقف کر دی گئی“ ہو۔ پس، یہوواہ کا ”ساتویں دن“ کو برکت دینا اور اُسے مُقدس ٹھہرانا ظاہر کرتا ہے کہ اِس دن اور اُس کے ”آرام“ کا تعلق اُس کی ذاتی ضروریات کی بجائے اُس کی پاک مرضی اور مقصد کے ساتھ ہے۔ یہ تعلق کیا ہے؟
۵. خدا پہلے چھ تخلیقی ’دنوں‘ کے دوران کیا کچھ نافذ کر چکا تھا؟
۵ گزشتہ چھ تخلیقی ’دنوں‘ کے دوران، خدا زمین اور اس کے گِردونواح کے کاموں کو منظم کرنے والے نظاموں اور قوانین کو ترتیب دیکر نافذ کر چکا تھا۔ سائنسدان اب سیکھ رہے ہیں کہ انہیں کس قدر حیرتانگیز طریقے سے مرتب کِیا گیا ہے۔ ”چھٹے دن“ کے اختتام پر، خدا نے پہلے انسانی جوڑے کو خلق کِیا اور اُنہیں ”مشرق کی طرف عدن میں ایک باغ“ میں رکھا۔ آخر میں، خدا نے ان نبوّتی الفاظ میں انسانی خاندان اور زمین کی بابت اپنے مقصد کو بیان کِیا: ”پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمورومحکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرندوں اور کُل جانوروں پر جو زمین پر چلتے ہیں اختیار رکھو۔“—پیدایش ۱:۲۸، ۳۱؛ ۲:۸۔
۶. (ا) ”چھٹے دن“ کے اختتام پر خدا نے اپنی تمام تخلیق کی بابت کیسا محسوس کِیا تھا؟ (ب) ”ساتواں دن“ کس مفہوم میں مُقدس ہے؟
۶ سرگزشت بیان کرتی ہے کہ جب ”چھٹا دن“ اختتام کو پہنچا تو ”خدا نے سب پر جو اُس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھا ہے۔“ (پیدایش ۱:۳۱) خدا اپنی بنائی ہوئی ہر چیز سے مطمئن تھا۔ پس اُس نے زمین کے سلسلے میں مزید تخلیقی کام کرنے سے آرام کِیا یعنی مزید ایسا کرنے سے باز رہا۔ اُس وقت فردوسی باغ اگرچہ مکمل اور نہایت خوبصورت تھا، تاہم، یہ چھوٹے سے رقبے پر تھا اور زمین پر صرف دو ہی انسان تھے۔ زمین اور انسانی خاندان کو خدا کی ٹھہرائی ہوئی حالت تک پہنچنے کے لئے کافی وقت درکار تھا۔ اسی لئے اُس نے ”ساتویں دن“ کو مقرر کِیا جس سے گزشتہ چھ ’دنوں‘ میں تخلیقکردہ تمام چیزوں کو اُس کی پاک مرضی کے مطابق پھلنےپھولنے کا موقع ملیگا۔ (مقابلہ کریں افسیوں ۱:۱۱۔) جب ”ساتواں دن“ اپنے اختتام کو پہنچے گا تو زمین ہمیشہ کے لئے کامل انسانوں کے خاندان سے آباد ایک عالمگیر فردوس بن چکی ہوگی۔ (یسعیاہ ۴۵:۱۸) ”ساتویں دن“ کو زمین اور نوعِانسان کے لئے خدا کی مرضی کی تکمیلوتعمیل کیلئے مُتعیّن یا مخصوص کِیا گیا ہے۔ اس مفہوم میں یہ ”مُقدس“ ہے۔
۷. (ا) خدا نے ”ساتویں دن“ کس مفہوم میں آرام کِیا تھا؟ (ب) جب ”ساتواں دن“ اختتام کو پہنچتا ہے تو سب کچھ کیسے واقع ہوگا؟
۷ پس خدا نے ”ساتویں دن“ اپنے تخلیقی کام سے آرام کِیا تھا۔ گویا اُس نے مزید کام کرنا بند کر دیا اور جو نظام اُس نے شروع کِیا تھا اُسے ضابطے کے مطابق چلنے دیا۔ اُسے پورا یقین تھا کہ ”ساتویں دن“ کے اختتام پر سب کچھ اُس کی مرضی کے عین مطابق عمل میں آ چکا ہوگا۔ اگر رکاوٹیں آئیں بھی تو اُن پر قابو پا لیا جائے گا۔ جب خدا کی مرضی عملیجامہ پہنے گی تو تمام فرمانبردار نوعِانسان اس سے مستفید ہوں گے۔ کوئی بھی چیز اسے روک نہیں پائے گی کیونکہ ”ساتویں دن“ پر خدا کی برکت ہے اور اُس نے اِسے ”مُقدس“ ٹھہرایا تھا۔ فرمانبردار نوعِانسان کے لئے کیا ہی شاندار امکان!
اسرائیل خدا کے آرام میں داخل ہونے سے قاصر رہا
۸. اسرائیلی کب اور کیسے سبت منانے لگے؟
۸ اُمتِاسرائیل نے کام اور آرام کے سلسلے میں یہوواہ کے بندوبست سے فائدہ اُٹھایا تھا۔ کوہِسینا پر اسرائیلیوں کو شریعت دینے سے بھی پہلے، خدا نے موسیٰ کی معرفت اُنہیں بتایا: ”خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] نے تمکو سبت کا دن دیا ہے اسی لئے وہ تمکو چھٹے دن دو دن کا کھانا دیتا ہے۔ سو تم اپنی اپنی جگہ رہو اور ساتویں دن کوئی اپنی جگہ سے باہر نہ جائے۔“ نتیجہ یہ ہوا کہ ”لوگوں نے ساتویں دن آرام کِیا۔“—خروج ۱۶:۲۲-۳۰۔
۹. سبت کا قانون اسرائیلیوں کے لئے بِلاشُبہ ایک خوشکُن تبدیلی کیوں تھا؟
۹ کچھ ہی دیر پہلے مصر کی غلامی سے چھڑائے جانے والے اسرائیلیوں کے لئے یہ بندوبست بالکل نیا تھا۔ اگرچہ مصری اور دیگر اقوام پانچ سے دس دنوں کے عرصے میں وقت کا حساب رکھتی تھیں توبھی ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ غلام اسرائیلیوں کو آرام کے لئے کوئی بھی دن دیا جاتا تھا۔ (مقابلہ کریں خروج ۵:۱-۹۔) لہٰذا یہ نتیجہ اخذ کرنا معقول ہے کہ اسرائیلیوں نے اس تبدیلی کو ضرور پسند کِیا ہوگا۔ سبت کے تقاضے کو بوجھ یا پابندی سمجھنے کی بجائے اُنہوں نے خوشی سے اُسے پورا کِیا ہوگا۔ دراصل، خدا نے اُنہیں بعد میں بتایا کہ سبت کا مقصد اُنہیں مصر کی غلامی اور پھر وہاں سے اُن کی رہائی کی یاد دلانا تھا۔—استثنا ۵:۱۵۔
۱۰، ۱۱. (ا) فرمانبردار رہنے سے، اسرائیلی کس چیز سے لطفاندوز ہونے کی توقع کر سکتے تھے؟ (ب) اسرائیلی خدا کے آرام میں داخل ہونے میں ناکام کیوں رہے؟
۱۰ اگر موسیٰ کے ساتھ مصر سے نکل کر آنے والے اسرائیلی فرمانبردار رہتے تو اُنہیں ملکِموعود میں ”جہاں دودھ اور شہد بہتا ہے“ داخل ہونے کا شرف حاصل ہو سکتا تھا۔ (خروج ۳:۸) وہاں وہ صرف سبت پر ہی نہیں بلکہ تاحیات حقیقی آرام سے لطفاندوز ہو سکتے تھے۔ (استثنا ۱۲:۹، ۱۰) تاہم، ایسا نہ ہوا۔ پولس نے اُن کی بابت لکھا: ”کن لوگوں نے آواز سن کر غصہ دلایا؟ کیا ان سب نے نہیں جو موسیٰؔ کے وسیلہ سے مصرؔ سے نکلے تھے؟ اور وہ کن لوگوں سے چالیس برس تک ناراض رہا؟ کیا ان سے نہیں جنہوں نے گناہ کِیا اور اُن کی لاشیں بیابان میں پڑی رہیں؟ اور کن کی بابت اُس نے قسم کھائی کہ وہ میرے آرام میں داخل نہ ہونے پائینگے سوا اُن کے جنہوں نے نافرمانی کی؟ غرض ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بےایمانی کے سبب سے داخل نہ ہو سکے۔“—عبرانیوں ۳:۱۶-۱۹۔
۱۱ ہمارے لئے کیا ہی اثرآفریں سبق! یہوواہ پر ایمان کی کمی کی وجہ سے وہ نسل اُس کے موعودہ آرام کو حاصل نہ کر پائی۔ اس کی بجائے، وہ بیابان میں ہی ڈھیر ہو گئے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ ابرہام کی اولاد ہونے کے ناطے وہ زمین کی تمام قوموں کو برکات سے نوازنے کی خدائی مرضی سے گہرا تعلق رکھتے تھے۔ (پیدایش ۱۷:۷، ۸؛ ۲۲:۱۸) الہٰی مرضی کی مطابقت میں کام کرنے کی بجائے وہ اپنی دُنیوی اور خودغرضانہ خواہشات کی وجہ سے انتشارِخیال میں پڑ گئے۔ خدا کرے کہ ہم کبھی بھی ایسی روِش اختیار نہ کریں!—۱-کرنتھیوں ۱۰:۶، ۱۰۔
آرام ابھی باقی ہے
۱۲. پہلی صدی کے مسیحیوں کے لئے اُس وقت تک کونسا امکان موجود تھا اور وہ اسے کیسے حاصل کر سکتے تھے؟
۱۲ ایمان کی کمی کے باعث خدا کے آرام میں داخل ہونے میں اسرائیل کی ناکامی کا ذکر کرنے کے بعد، پولس نے ساتھی ایمانداروں پر توجہ مُرتکز کی۔ عبرانیوں ۴:۱-۵ کے مطابق، اُس نے اُنہیں یقین دلایا کہ ”[خدا] کے آرام میں داخل ہونے کا وعدہ باقی ہے۔“ پولس نے اُنہیں ”خوشخبری“ پر ایمان رکھنے کی تاکید کی کیونکہ ”ہم جو ایمان لائے اُس آرام میں داخل ہوتے ہیں۔“ چونکہ یسوع کے فدیے کی قربانی سے شریعت کو پہلے ہی راہ سے ہٹا دیا گیا تھا اس لئے یہاں پولس سبت کے جسمانی آرام کا ذکر نہیں کر رہا تھا۔ (کلسیوں ۲:۱۳، ۱۴) پیدایش ۲:۲ اور زبور ۹۵:۱۱ کا حوالہ دینے سے، پولس عبرانی مسیحیوں کو خدا کے آرام میں داخل ہونے کی تاکید کر رہا تھا۔
۱۳. زبور ۹۵ سے حوالہ پیش کرتے ہوئے، پولس نے ”آج“ کے لفظ پر کیوں توجہ دلائی؟
۱۳ عبرانی مسیحیوں کے لئے خدا کے آرام میں داخل ہونے کا امکان بالکل ویسے ہی ”خوشخبری“ ثابت ہوا ہوگا جیسے اُن سے قبل اسرائیلیوں کے لئے سبت کا آرام ایک ”خوشخبری“ ثابت ہوا تھا۔ لہٰذا، پولس اپنے ساتھی ایمانداروں کو تاکید کرتا ہے کہ وہی غلطی نہ کریں جو بیابان میں اسرائیل نے کی تھی۔ زبور ۹۵:۷، ۸ کا حوالہ دیتے ہوئے، اُس نے لفظ ”آج“ پر توجہ دلائی اگرچہ خدا کو تخلیق سے فارغ ہوئے ایک طویل عرصہ گزر چکا تھا۔ (عبرانیوں ۴:۶، ۷) پولس کا نکتہ کیا تھا؟ نکتہ یہ تھا کہ زمین اور نوعِانسان کی بابت اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے خدا کا مقررکردہ ”ساتواں دن“ ابھی تک چل رہا تھا۔ اس لئے، اُس کے ساتھی مسیحیوں کے لئے ضروری تھا کہ خودغرضانہ حاصلات میں مگن رہنے کی بجائے اُس مقصد کے مطابق کام کریں۔ اُس نے ایک مرتبہ پھر آگاہ کِیا: ”اپنے دِلوں کو سخت نہ کرو۔“
۱۴. پولس نے کیسے ظاہر کِیا کہ خدا کا ”آرام“ ابھی باقی ہے؟
۱۴ علاوہازیں، پولس نے یہ بھی واضح کِیا کہ موعودہ ”آرام“ محض یشوع کی زیرِقیادت ملکِموعود میں آباد ہونے کا ہی معاملہ نہیں تھا۔ (یشوع ۲۱:۴۴) ”اگر یشوؔع نے اُنہیں آرام میں داخل کِیا ہوتا،“ پولس دلیل پیش کرتا ہے، ”تو وہ اُس کے بعد دوسرے دن کا ذکر نہ کرتا۔“ اس کے پیشِنظر، پولس نے مزید بیان کِیا: ”خدا کی اُمت کے لئے سبت کا آرام باقی ہے۔“ (عبرانیوں ۴:۸، ۹) یہ ”سبت کا آرام“ کیا ہے؟
خدا کے آرام میں داخل ہوں
۱۵، ۱۶. (ا) اصطلاح ”سبت کا آرام“ کیا مفہوم رکھتی ہے؟ (ب) ’اپنے کاموں سے آرام‘ کرنے کا کیا مطلب ہے؟
۱۵ اصطلاح ”سبت کا آرام“ ایک یونانی لفظ کا ترجمہ ہے جسکا مطلب ”سبت کرنا“ ہے۔ (کنگڈم انٹرلینیئر) پروفیسر ولیم لین بیان کرتا ہے: ”اس اصطلاح نے خروج ۲۰:۸-۱۰ پر مبنی یہودیت میں فروغ پانے والی سبت کی تعلیم سے یہ خاص مفہوم حاصل کِیا تھا جہاں اس بات کو اُجاگر کِیا گیا کہ آرام اور مدحسرائی لازموملزوم ہیں . . . [یہ] خدا کی عبادت میں ظاہرکردہ خوشی اور شادمانی کے خاص پہلو پر زور دیتی ہے۔“ پس، موعودہ آرام محض کام سے فراغت نہیں ہے۔ اس سے مُراد تکلیفدہ، بیکار مشقت کا خدا کے لئے جلال کا باعث بننے والی پُرمسرت خدمت میں بدل جانا ہے۔
۱۶ یہ بات پولس کے اگلے الفاظ سے ظاہر ہوتی ہے: ”کیونکہ جو اُس کے آرام میں داخل ہؤا اُس نے بھی خدا کی طرح اپنے کاموں کو پورا کر کے آرام کِیا۔“ (عبرانیوں ۴:۱۰) خدا نے تھکاوٹ کی وجہ سے ساتویں تخلیقی دن پر آرام نہیں کِیا تھا۔ اس کے برعکس، وہ مزید زمینی تخلیقی کام سے باز رہا تاکہ اُس کی دستکاری کو بڑھنے اور اُس کی حمد اور تعظیم کرنے کے لئے پورے جلال تک پہنچنے کا موقع ملے۔ خدا کی تخلیق کے طور پر ہمیں بھی اس بندوبست میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ہمیں ’اپنے کاموں سے آرام‘ کرنا چاہئے یعنی ہمیں نجات حاصل کرنے کی خاطر خدا کے حضور اپنی خطاؤں کا عذر پیش کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ اس کی بجائے ہمیں یہ ایمان رکھنا چاہئے کہ ہماری نجات یسوع کے فدیے کی قربانی پر منحصر ہے جس کی بدولت تمام چیزیں ایک بار پھر خدا کے مقصد سے ہمآہنگ ہو جائینگی۔—افسیوں ۱:۸-۱۴؛ کلسیوں ۱:۱۹، ۲۰۔
خدا کا کلام مؤثر ہے
۱۷. جسمانی اسرائیلیوں نے کیا روِش اختیار کی جس سے ہمیں گریز کرنا چاہئے؟
۱۷ اسرائیلی اپنی نافرمانی اور ایمان کی کمی کی وجہ سے خدا کے موعودہ آرام میں داخل ہونے میں ناکام رہے۔ نتیجتاً، پولس نے عبرانی مسیحیوں کو تاکید کی: ”پس آؤ ہم اس آرام میں داخل ہونے کی کوشش کریں تاکہ ان کی طرح نافرمانی کر کے کوئی شخص گِر نہ پڑے۔“ (عبرانیوں ۴:۱۱) پہلی صدی کے بیشتر یہودی یسوع پر ایمان نہیں لائے تھے اس لئے اُن میں سے بیشتر نے ۷۰ س.ع. میں یہودی نظامالعمل کے خاتمے کے وقت بڑا نقصان اُٹھایا تھا۔ آجکل ہمارے لئے خدا کے قول پر ایمان رکھنا کتنا ضروری ہے!
۱۸. (ا) پولس نے خدا کے کلام پر ایمان رکھنے کی کیا وجوہات پیش کیں؟ (ب) خدا کا کلام کیسے ”ہر ایک دو دھاری تلوار سے زیادہ تیز ہے“؟
۱۸ ہمارے پاس یہوواہ کے کلام پر ایمان رکھنے کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ پولس نے لکھا: ”خدا کا کلام زندہ اور مؤثر اور ہر ایک دو دھاری تلوار سے زیادہ تیز ہے اور جان اور روح اور بندبند اور گودے کو جدا کر کے گزر جاتا ہے اور دل کے خیالوں اور ارادوں کو جانچتا ہے۔“ (عبرانیوں ۴:۱۲) جیہاں، خدا کا کلام یا پیغام کسی بھی ”دو دھاری تلوار سے زیادہ تیز ہے۔“ عبرانی مسیحیوں کو یہ یاد رکھنے کی ضرورت تھی کہ اُن کے آباؤاجداد کا کیا انجام ہوا تھا۔ یہوواہ کے اس فیصلے کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ وہ بیابان ہی میں ہلاک ہو جائیں گے اُنہوں نے ملکِموعود میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ تاہم موسیٰ نے اُنہیں آگاہ کِیا: ”وہاں تم سے آگے عمالیقی اور کنعانی لوگ ہیں۔ سو تم تلوار سے مارے جاؤ گے۔“ جب اسرائیلی سرکشی کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے تو ”عمالیقی اور کنعانی جو اُس پہاڑ پر رہتے تھے اُن پر آ پڑے اور اُن کو قتل کِیا اور حرمہؔ تک اُن کو مارتے چلے آئے۔“ (گنتی ۱۴:۳۹-۴۵) یہوواہ کا کلام کسی بھی دو دھاری تلوار سے زیادہ تیز ہے اور جو کوئی جانبوجھ کر اس سے مُنہ موڑتا ہے اُسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔—گلتیوں ۶:۷-۹۔
۱۹. خدا کا کلام کتنی اثرآفرینی سے ’گزر جاتا‘ ہے اور ہمیں خدا کے حضور اپنی جوابدہی کیوں تسلیم کرنی چاہئے؟
۱۹ خدا کا کلام کسقدر اثرآفرینی سے ”جان اور روح اور بندبند اور گودے کو جدا کر کے گزر جاتا ہے“! علامتی مفہوم میں یہ ہڈیوں سے گزر کر گودے تک پہنچ جاتا ہے یعنی لوگوں کے خیالاتومحرکات میں سرایت کر جاتا ہے! اگرچہ مصری غلامی سے آزاد ہونے والے اسرائیلیوں نے شریعت کی پابندی کرنے کا عہد کِیا تھا توبھی یہوواہ جانتا تھا کہ وہ باطنی طور پر اُس کی فراہمیوں اور تقاضوں کی قدر نہیں کرتے تھے۔ (زبور ۹۵:۷-۱۱) اُس کی مرضی پوری کرنے کی بجائے، وہ اپنی خودغرضانہ خواہشات کی تسکین کے لئے فکرمند تھے۔ لہٰذا، وہ خدا کے موعودہ آرام میں داخل ہونے کی بجائے بیابان میں ہی ہلاک ہو گئے۔ ہمیں اس بات کو ذہننشین کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ”[خدا] سے مخلوقات کی کوئی چیز چھپی نہیں بلکہ جس سے ہم کو کام ہے اُس کی نظروں میں سب چیزیں کُھلی اور بےپردہ ہیں۔“ (عبرانیوں ۴:۱۳) پس دُعا ہے کہ ہم یہوواہ کے لئے اپنی مخصوصیت کو پورا کریں اور ایسے ”ہٹنے والے“ نہ ہوں کہ ”ہلاک“ ہو جائیں۔—عبرانیوں ۱۰:۳۹۔
۲۰. آگے کیا ہے اور ہمیں خدا کے آرام میں داخل ہونے کے لئے اب کیا کرنا چاہئے؟
۲۰ اگرچہ ”ساتواں دن“—خدا کے آرام کا دن—ابھی تک چل رہا ہے تو بھی وہ زمین اور نوعِانسان کی بابت اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے مستعد ہے۔ جلد ہی، مسیحائی بادشاہ، یسوع مسیح شیطان ابلیس سمیت خدا کی مرضی کی مخالفت کرنے والے تمام لوگوں کو زمین سے مٹانے کے لئے کارروائی کریگا۔ مسیح کے عہدِہزارسالہ کے دوران، یسوع اور اُس کے ۱،۴۴،۰۰۰ ساتھی حکمران زمین اور نوعِانسان کو اُسی حالت میں لائینگے جسکا خدا نے مقصد ٹھہرایا تھا۔ (مکاشفہ ۱۴:۱؛ ۲۰:۱-۶) اب ہمارے پاس یہ ثابت کرنے کا وقت ہے کہ یہوواہ خدا کی مرضی ہماری زندگیوں کا محور ہے۔ خدا کے حضور اپنی خطاؤں کا عذر پیش کرنے اور اپنے مفادات کے حصول کیلئے تگودَو کرنے کی بجائے، اب ہمارے پاس ’اپنے کاموں سے آرام‘ کرنے اور پورے دلوجان سے بادشاہتی مفادات کی حمایت کرنے کا وقت ہے۔ ایسا کرنے اور اپنے آسمانی باپ، یہوواہ کے وفادار رہنے سے، ہم اب اور ہمیشہ تک خدا کے آرام سے مستفید ہونے کا شرف حاصل کرینگے۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
◻”ساتویں دن“ خدا نے کس لئے آرام کِیا تھا؟
◻اسرائیلی کس آرام سے لطفاندوز ہو سکتے تھے لیکن وہ اس میں داخل ہونے میں کیوں ناکام رہے؟
◻ہمیں خدا کے آرام میں داخل ہونے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟
◻خدا کا کلام کیسے زندہ، مؤثر اور ہر ایک دو دھاری تلوار سے زیادہ تیز ہے؟
[صفحہ 17 پر تصویر]
اسرائیلیوں نے سبت کی پابندی کی لیکن وہ خدا کے آرام میں داخل نہ ہوئے۔ آپ جانتے ہیں کیوں؟