ایمان کی کمی سے خبردار رہیں
”اَے بھائیو! خبردار! تم میں سے کسی کا ایسا بُرا اور بےایمان دل نہ ہو جو زندہ خدا سے پِھر جائے۔“—عبرانیوں ۳:۱۲۔
۱. عبرانی مسیحیوں کیلئے پولس کے الفاظ حواسباختہ کرنے والی کس حقیقت پر ہماری توجہ مبذول کراتے ہیں؟
کیا ہی ہولناک خیال کہ ایک وقت میں یہوواہ کیساتھ ذاتی رشتہ رکھنے والے لوگوں کا ”بُرا اور بےایمان دل“ ہو سکتا ہے اور وہ ’زندہ خدا سے پھر‘ سکتے ہیں! چنانچہ یہ ایک انتباہ ہے! پولس رسول نے یہ الفاظ بےایمانوں سے نہیں بلکہ اُن لوگوں سے کہے تھے جو یسوع مسیح کے فدیے کی قربانی پر ایمان کی بدولت یہوواہ کیلئے اپنی زندگیاں مخصوص کر چکے تھے۔
۲. ہمیں کن سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے؟
۲ ایسی بابرکت روحانی حالت سے فیضیاب ہونے والے کسی شخص کا ”بُرا اور بےایمان دل“ کیسے ہو سکتا ہے؟ درحقیقت، خدا کی محبت اور غیرمستحق فضل کا مزہ چکھنے والا شخص جانبوجھ کر اُس سے کیسے دُور ہو سکتا ہے؟ تاہم کیا ہم سب کیساتھ بھی ایسا واقع ہو سکتا ہے؟ یہ نہایت سنجیدہ خیالات ہیں اور ہمارے لئے اس آگاہی کے پیچھے وجہ کا جائزہ لینا نہایت ضروری ہے۔—۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۱۔
ایسی سخت نصیحت کیوں؟
۳. یروشلیم کے اندر اور اسکے گِردونواح میں پہلی صدی کے مسیحیوں پر اثرانداز ہونے والے حالات کو بیان کریں۔
۳ پولس نے یہ خط ۶۱ س.ع. میں یہودیہ کے عبرانی مسیحیوں کے نام تحریر کِیا تھا۔ ایک مؤرخ بیان کرتا ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب ”شہرِیروشلیم یا پورے صوبے میں کسی بھی سنجیدہ، دیانتدار انسان کیلئے کہیں بھی کوئی امن یا تحفظ نہیں تھا۔“ یہ رومی فوج کے مظالم، رومیوں کے مخالف زیلوتیس یہودیوں کے احمقانہ کاموں اور افراتفری کے اس عالم میں لٹیروں کی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی لاقانونیت اور تشدد کا وقت تھا۔ اِن تمام حالات نے مسیحیوں کیلئے واقعی بڑی مشکل پیدا کر رکھی تھی جو ایسے معاملات سے دُور رہنے کی کوشش میں تھے۔ (۱-تیمتھیس ۲:۱، ۲) درحقیقت، اُنکے غیرجانبدارانہ موقف کی وجہ سے بعض لوگ اُنہیں اپنے معاشرے کیلئے ناموزوں، حتیٰکہ باغی خیال کرتے تھے۔ مسیحی اکثر بدسلوکی کا نشانہ بنتے تھے اور اُنہیں ذاتی نقصان اُٹھانا پڑا تھا۔—عبرانیوں ۱۰:۳۲-۳۴۔
۴. عبرانی مسیحی کس مذہبی بوجھ تلے دبے ہوئے تھے؟
۴ عبرانی مسیحیوں کو بھی شدید مذہبی دباؤ کا سامنا تھا۔ یسوع کے وفادار شاگردوں کے جوشوجذبے اور اسکے نتیجے میں مسیحی کلیسیا کی تیز رفتار توسیع سے یہودیوں—بالخصوص اُنکے مذہبی پیشواؤں—کا حسد اور قہر بھڑک اُٹھا۔ اُنہوں نے یسوع مسیح کے پیروکاروں کو تنگ کرنے اور اذیت پہنچانے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی۔a (اعمال ۶:۸-۱۴؛ ۲۱:۲۷-۳۰؛ ۲۳:۱۲، ۱۳؛ ۲۴:۱-۹) اگرچہ بعض مسیحی اذیت کا نشانہ بننے سے تو بچ گئے مگر یہودیوں کی طرف سے حقارت اور تمسخر کا شکار ہو گئے۔ مسیحیت کو ایک نوخیز مذہب کے طور پر حقارت کا نشانہ بنایا گیا جس میں ہیکل، کہانت، تہوار، باضابطہ قربانیاں اور دیگر چیزیں نہ ہونے کی وجہ سے یہودیت جیسی شانبان نہیں تھی۔ اُنکے تو پیشوا، یسوع کو ایک مجرم کے طور پر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تھا۔ اپنے مذہب پر چلنے کیلئے مسیحیوں کو ایمان، جرأت اور برداشت کی ضرورت تھی۔
۵. یہودیہ کے مسیحیوں کیلئے روحانی طور پر چوکس رہنا اہم کیوں تھا؟
۵ سب سے بڑھکر، یہودیہ کے عبرانی مسیحی اُس قوم کی تاریخ کے نہایت نازک دَور سے گزر رہے تھے۔ اُنکے خداوند، یسوع مسیح نے یہودی نظام کے خاتمے کی نشاندہی کرنے والی جن باتوں کا ذکر کِیا تھا اُن میں سے بیشتر پہلے ہی سے واقع ہو چکی تھیں۔ خاتمہ دُور نہیں تھا۔ بچنے کیلئے یہ ضروری تھا کہ مسیحی روحانی طور پر چوکس رہیں اور ’پہاڑوں پر بھاگ جانے کیلئے تیار رہیں۔‘ (متی ۲۴:۶، ۱۵، ۱۶) کیا اُن میں، یسوع کی ہدایات کے مطابق، فوری قدم اُٹھانے کیلئے ضروری ایمان اور روحانی طاقت ہوگی؟ یہ بات کچھ مشکوک سی تھی۔
۶. یہودیہ کے مسیحیوں کو فوری طور پر کس چیز کی ضرورت تھی؟
۶ تمام یہودی نظامالعمل کی تباہی سے پیشتر آخری عشرہ کے دوران، عبرانی مسیحیوں کو واقعی کلیسیا کے اندر اور باہر شدید دباؤ کا سامنا تھا۔ اُنہیں حوصلہافزائی کی ضرورت تھی۔ تاہم اُنہیں یہ سمجھنے میں مدد دینے کیلئے مشورت اور ہدایت کی بھی ضرورت تھی کہ اُنکی روِش درست ہے اور اُنکا مصیبت اُٹھانا اور برداشت کرنا بیفائدہ نہیں ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ پولس نے اس چیلنج کو قبول کِیا اور اُنکی مدد کی۔
۷. پولس نے عبرانی مسیحیوں کیلئے جوکچھ لکھا ہمیں اُس میں دلچسپی کیوں لینی چاہئے؟
۷ پولس نے عبرانی مسیحیوں کو جوکچھ لکھا اُسے ہمارے لئے نہایت دلچسپی کا حامل ہونا چاہئے۔ کیوں؟ اسلئے کہ ہم بھی ویسے ہی زمانے میں رہ رہے ہیں۔ ہم شیطان کے قبضے میں پڑی ہوئی دُنیا کی طرف سے ہر روز دباؤ کا سامنا کرتے ہیں۔ (۱-یوحنا ۵:۱۹) آخری ایّام اور اس ”دُنیا کے آخر“ کی بابت یسوع اور رسولوں کی پیشینگوئیاں ہماری آنکھوں کے سامنے پوری ہو رہی ہیں۔ (متی ۲۴:۳-۱۴؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱-۵؛ ۲-پطرس ۳:۳، ۴؛ مکاشفہ ۶:۱-۸) سب سے بڑھکر، ہمیں روحانی طور پر چوکس رہنا چاہئے تاکہ ہمیں ”ان سب ہونے والی باتوں سے بچنے . . . کا مقدور ہو۔“—لوقا ۲۱:۳۶۔
کوئی موسیٰ سے بھی بڑا
۸. عبرانیوں ۳:۱ میں درج بیان سے، پولس اپنے ساتھی مسیحیوں کو کیا کرنے کی تاکید کر رہا تھا؟
۸ ایک نہایت اہم نکتے کا ذکر کرتے ہوئے، پولس نے لکھا: ”اُس رسول اور سردار کاہن یسوع پر غور کرو جسکا ہم اقرار کرتے ہیں۔“ (عبرانیوں ۳:۱) ”غور“ کا مطلب ہے، ”صاف طور پر دیکھنا . . . پوری طرح سمجھنا، مشاہدہ کرنا۔“ (وائنز ایکسپوزٹری ڈکشنری آف اولڈ اینڈ نیو ٹسٹامنٹ ورڈز) لہٰذا، پولس اپنے ساتھی ایمانداروں کو تاکید کر رہا تھا کہ وہ اپنے ایمان اور نجات کے سلسلے میں یسوع کے کردار کیلئے حقیقی قدردانی دکھانے کی سنجیدہ کوشش کریں۔ ایسا کرنے سے ایمان میں ثابتقدم رہنے کیلئے اُنکے عزم کو تقویت ملیگی۔ پس، یسوع کا کردار کیا تھا اور ہمیں اُس پر ”غور“ کیوں کرنا چاہئے؟
۹. پولس نے یسوع کا ”رسول“ اور ”سردار کاہن“ کے طور پر ذکر کیوں کِیا تھا؟
۹ پولس نے یسوع کے لئے ”رسول“ اور ”سردار کاہن“ کی اصطلاحات استعمال کیں۔ ”رسول“ وہ شخص ہوتا ہے جسے بھیجا جائے اور یہاں یہ نوعِانسان کیساتھ کلام کرنے کے خدائی ذریعے کا مفہوم پیش کرتا ہے۔ ”سردار کاہن“ وہ ہوتا ہے جس کے ذریعے انسان خدا تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ سچی پرستش کیلئے یہ دونوں فراہمیاں لازمی ہیں اور یسوع ان دونوں کا تجسم ہے۔ اُسے نوعِانسان کو خدا کی بابت سچائی سکھانے کیلئے آسمان سے بھیجا گیا۔ (یوحنا ۱:۱۸؛ ۳:۱۶؛ ۱۴:۶) یسوع کو گناہوں کی معافی کیلئے یہوواہ کے روحانی ہیکل کے بندوبست میں حقیقی سردار کاہن کے طور پر بھی مقرر کِیا گیا ہے۔ (عبرانیوں ۴:۱۴، ۱۵؛ ۱-یوحنا ۲:۱، ۲) اگر ہم یسوع کے ذریعے حاصل ہونے والی برکات کی واقعی قدر کرتے ہیں تو ہم ایمان میں مضبوط رہنے کا حوصلہ اور عزمِمُصمم رکھینگے۔
۱۰. (ا) پولس نے یہودیت کے مقابلے میں مسیحیت کی فضیلت کو سمجھنے میں عبرانی مسیحیوں کی مدد کیسے کی تھی؟ (ب) اپنی بات کی تائید میں پولس کس ہمہگیر سچائی کا حوالہ پیش کرتا ہے؟
۱۰ مسیحی ایمان کی قدروقیمت کو اُجاگر کرنے کیلئے پولس نے مسیح کا موسیٰ کیساتھ موازنہ کِیا جسے یہودی اپنے آباؤاجداد میں سب سے بڑا نبی خیال کرتے تھے۔ اگر عبرانی مسیحی پورے دل سے اس حقیقت کو سمجھ لیتے کہ یسوع موسیٰ سے بھی بڑا ہے تو اُن کے پاس مسیحیت کے یہودیت سے افضل ہونے کی بابت شک کرنے کی کوئی وجہ نہ ہوتی۔ پولس نے ظاہر کِیا کہ اگرچہ موسیٰ کو خدا کے ”گھر“—اسرائیل کی قوم یا جماعت—کا امانتدار ہونے کے لائق سمجھا گیا توبھی وہ محض وفادار خادم یا نوکر تھا۔ (گنتی ۱۲:۷) اسکے برعکس، یسوع بیٹا، گھر کا مالک تھا۔ (۱-کرنتھیوں ۱۱:۳؛ عبرانیوں ۳:۲، ۳، ۵) اپنی بات کی تائید میں پولس نے اس ہمہگیر سچائی کو پیش کِیا: ”چنانچہ ہر ایک گھر کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ہوتا ہے مگر جس نے سب چیزیں بنائیں وہ خدا ہے۔“ (عبرانیوں ۳:۴) کوئی بھی اس بات پر اعتراض نہیں کریگا کہ خدا سب سے بڑا ہے کیونکہ وہ سب کا معمار یا خالق ہے۔ پس، منطقی طور پر یسوع چونکہ خدا کا ساتھی کارکن تھا اسلئے وہ موسیٰ سمیت دیگر تمام مخلوقات سے بڑا ہے۔—امثال ۸:۳۰؛ کلسیوں ۱:۱۵-۱۷۔
۱۱، ۱۲. پولس نے عبرانی مسیحیوں کو کس چیز کو ”آخر تک مضبوطی“ سے تھامے رہنے کی تاکید کی اور ہم اُسکی مشورت کا اطلاق کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۱ عبرانی مسیحی واقعی بڑی متشرف حالت میں تھے۔ پولس نے اُنہیں یاد دلایا کہ وہ ”آسمانی بلاوے [میں] شریک“ تھے جو ایک ایسا شرف تھا جسکی یہودی نظام کی پیشکردہ ہر چیز سے زیادہ قدر کی جانی چاہئے تھی۔ (عبرانیوں ۳:۱) پولس کے الفاظ نے اُن ممسوح مسیحیوں کو اس بات کیلئے شکرگزاری سے معمور کر دیا ہوگا کہ وہ اپنے یہودی ورثے سے وابستہ چیزوں کو چھوڑنے پر پچھتانے کی بجائے نئی میراث حاصل کرنے کے لائق تھے۔ (فلپیوں ۳:۸) پولس اُنہیں اپنے شرف کو مضبوطی سے تھامے رہنے اور اسے معمولی خیال نہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کہتا ہے: ”مسیح بیٹے کی طرح [خدا] کے گھر کا مختار ہے اور اُسکا گھر ہم ہیں بشرطیکہ اپنی دلیری اور اُمید کا فخر آخر تک مضبوطی سے قائم رکھیں۔“—عبرانیوں ۳:۶۔
۱۲ جیہاں، اگر عبرانی مسیحیوں کو یہودی نظام کے قریبی خاتمے سے زندہ بچنا تھا تو اُنہیں اپنی خداداد اُمید کو ”آخر تک مضبوطی“ سے تھامے رکھنے کی ضرورت تھی۔ اگر ہم اس نظام کے خاتمے سے زندہ بچنا چاہتے ہیں تو آجکل ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔ (متی ۲۴:۱۳) ہمیں زندگی کی فکروں، لوگوں کی بےحسی یا اپنے ناکامل رُجحانات کو خدا کے وعدوں پر ہمارے ایمان میں لغزش پیدا کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ (لوقا ۲۱:۱۶-۱۹) یہ دیکھنے کیلئے کہ ہم خود کو کیسے مستحکم کر سکتے ہیں آئیے پولس کے اگلے الفاظ پر غور کریں۔
”اپنے دلوں کو سخت نہ کرو“
۱۳. پولس نے کیا آگاہی پیش کی اور اُس نے زبور ۹۵ کا اطلاق کیسے کِیا؟
۱۳ عبرانی مسیحیوں کی متشرف حالت پر گفتگو کرنے کے بعد، پولس نے یہ آگاہی پیش کی: ”پس جس طرح کہ روحالقدس فرماتا ہے اگر آج تم اُسکی آواز سنو۔ تو اپنے دلوں کو سخت نہ کرو جس طرح غصہ دلانے کے وقت آزمایش کے دن جنگل میں کِیا تھا۔“ (عبرانیوں ۳:۷، ۸) پولس زبور ۹۵ سے اقتباس پیش کر رہا تھا اسلئے وہ یہ کہہ سکتا تھا کہ ”روحالقدس فرماتا ہے۔“b (زبور ۹۵:۷، ۸؛ خروج ۱۷:۱-۷) صحائف خدا کے الہام سے اُسکی روحالقدس کی معرفت لکھے گئے ہیں۔—۲-تیمتھیس ۳:۱۶۔
۱۴. یہوواہ نے اسرائیلیوں کیلئے جوکچھ کِیا تھا اُنہوں نے اُس کیلئے کیسا جوابیعمل دکھایا اور کیوں؟
۱۴ مصر کی غلامی سے چھڑائے جانے کے بعد، اسرائیلیوں کو یہوواہ کیساتھ عہد کے رشتے میں داخل ہونے کا بہت بڑا اعزاز بخشا گیا تھا۔ (خروج ۱۹:۴، ۵؛ ۲۴:۷، ۸) تاہم، خدا نے اُن کیلئے جوکچھ کِیا تھا اُس کیلئے قدر دکھانے کی بجائے اُنہوں نے جلد ہی باغیانہ روِش اختیار کر لی۔ (گنتی ۱۳:۲۵–۱۴:۱۰) ایسا کیونکر واقع ہو سکتا تھا؟ پولس نے اسکی وجہ کی نشاندہی کرتے ہوئے اُنکے دلوں کی سختی کا ذکر کِیا۔ تاہم خدا کے کلام کیلئے حساس اور اثرپذیر دل، سخت کسطرح ہو گئے؟ نیز ہمیں اس سے بچنے کیلئے کیا کرنا چاہئے؟
۱۵. (ا) ماضی اور حال میں، ’خود خدا کی آواز‘ کیسے سنائی دی ہے؟ (ب) ’خدا کی آواز‘ کے سلسلے میں ہمیں خود سے کونسے سوالات پوچھنے چاہیں؟
۱۵ پولس نے اس شرطیہ جملے کیساتھ اپنی آگاہی کا آغاز کِیا کہ ”اگر . . . تم اُسکی آواز سنو۔“ خدا نے موسیٰ اور دیگر انبیاء کی معرفت اپنے لوگوں سے کلام کِیا۔ علاوہازیں، یہوواہ نے اُن سے اپنے بیٹے، یسوع مسیح کے وسیلے سے کلام کِیا۔ (عبرانیوں ۱:۱، ۲) آجکل، ہمارے پاس خدا کا مکمل الہامی کلام، مُقدس بائبل موجود ہے۔ ہمارے ساتھ ”وقت پر“ روحانی ”کھانا“ فراہم کرنے کیلئے یسوع کا مقررکردہ ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ بھی ہے۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) لہٰذا، خدا ابھی تک کلام کر رہا ہے۔ مگر کیا ہم سن رہے ہیں؟ مثال کے طور پر، ہم لباس اور بناؤسنگھار یا تفریح اور موسیقی کے انتخاب کے سلسلے میں مشورت کیلئے کیسا جوابیعمل دکھاتے ہیں؟ کیا ہم ”سنتے“ یعنی دھیان دیتے ہیں اور جو کچھ سنتے ہیں اُس پر عمل کرتے ہیں؟ اگر عذر پیش کرنا یا مشورت پر اعتراض کرنا ہماری عادت ہے تو ہم خود کو اپنے دلوں کو سخت کر لینے کے پوشیدہ خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
۱۶. ایک طریقہ کیا ہے جس سے ہمارے دل سخت ہو سکتے ہیں؟
۱۶ جو کام ہم کر سکتے ہیں اور ہمیں کرنا بھی چاہئے اگر ہم اُس سے کنی کتراتے ہیں تو ایسی صورت میں بھی ہمارے دل سخت ہو سکتے ہیں۔ (یعقوب ۴:۱۷) یہوواہ نے اسرائیل کیلئے جوکچھ بھی کِیا اُس سب کے باوجود وہ ایمان ظاہر کرنے میں ناکام ہو گئے، موسیٰ کے خلاف بغاوت کی، کنعان کی بابت غلط رپورٹ پر یقین کرنے کا انتخاب کِیا اور موعودہ مُلک میں داخل ہونے سے انکار کر دیا۔ (گنتی ۱۴:۱-۴) لہٰذا یہوواہ نے فرمایا کہ اُنہیں ۴۰ برس تک بیابان میں رہنا پڑیگا جو اُس نسل کے بےایمان افراد کی موت کیلئے کافی تھے۔ اُن سے ناراض ہو کر خدا نے کہا: ”ان کے دل ہمیشہ گمراہ ہوتے رہتے ہیں اور انہوں نے میری راہوں کو نہیں پہچانا۔ چنانچہ مَیں نے اپنے غضب میں قسم کھائی کہ یہ میرے آرام میں داخل نہ ہونے پائیں گے۔“ (عبرانیوں ۳:۹-۱۱) کیا ہمارے لئے اس میں کوئی سبق ہے؟
ہمارے لئے ایک سبق
۱۷. اسرائیلیوں نے یہوواہ کے زبردست کاموں کو دیکھنے اور اُسکے احکام کو سننے کے باوجود ایمان کی کمی کا مظاہرہ کیوں کِیا؟
۱۷ مصر سے نکل کر آنے والے اسرائیلیوں کی پُشت نے اپنی آنکھوں سے یہوواہ کے زبردست کاموں کو دیکھا اور اپنے کانوں سے اُسکے احکام کو سنا تھا۔ پھربھی، اُنہیں یقین نہیں تھا کہ خدا اُنہیں بحفاظت ملکِموعود میں لے جا سکتا ہے۔ کیوں؟ ”اُنہوں نے میری راہوں کو نہیں پہچانا،“ یہوواہ نے فرمایا۔ وہ یہوواہ کے احکام اور کاموں سے واقف تھے لیکن وہ اُنکی دیکھبھال کرنے کی اُسکی لیاقت پر بھروسہ اور اعتماد نہیں کر پائے تھے۔ وہ اپنی ضروریات اور خواہشات میں اسقدر مگن تھے کہ اُنہوں نے خدا کی راہوں اور مقصد پر دھیان ہی نہ دیا۔ جیہاں، اُنہوں نے اُسکے وعدے پر ایمان میں کمی دکھائی۔
۱۸. پولس کے مطابق، ”بُرا اور بےایمان دل“ کس طرزِعمل پر منتج ہوگا؟
۱۸ عبرانیوں کے لئے اگلے الفاظ کا اطلاق ہم پر بھی زوردار طریقے سے ہوتا ہے: ”اَے بھائیو! خبردار! تم میں سے کسی کا ایسا بُرا اور بےایمان دل نہ ہو جو زندہ خدا سے پھر جائے۔“ (عبرانیوں ۳:۱۲) پولس معاملات کی تہہ تک پہنچتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ”بُرا اور بےایمان دل“ ”زندہ خدا سے پھر“ جانے کا نتیجہ ہے۔ اپنے خط میں پہلے اُس نے بےتوجہی کی وجہ سے ’بہہ کر دُور نکل جانے‘ کا ذکر کِیا تھا۔ (عبرانیوں ۲:۱) تاہم، جس یونانی اصطلاح کا ترجمہ ”بہ کر . . . دُور . . . چلے جائیں“ کِیا گیا ہے اُس کا مطلب ”پرے رہنا“ ہے اور لفظ ”برگشتگی“ سے وابستہ ہے۔ یہ حقارت کے اضافی عنصر کے ساتھ قصداً اور عمداً مزاحمت کرنے، پیچھے ہٹ جانے اور عیبجوئی کرنے کا مفہوم پیش کرتا ہے۔
۱۹. مشورت کو سننے میں ناکامی کیسے سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہے؟ وضاحت کریں۔
۱۹ پس، سبق یہ ہے کہ اگر ہم اُسکے کلام اور دیانتدار نوکر جماعت کے ذریعے یہوواہ کی مشورت کو نظرانداز کرتے ہوئے ”اُسکی آواز سننے“ میں ناکام رہنے کی عادت میں پڑ جاتے ہیں تو ہمارے دلوں کو بےحس، سخت ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ مثال کے طور پر، ہو سکتا ہے کہ ایک غیرشادیشُدہ جوڑا ایک دوسرے کے کچھ زیادہ ہی قریب ہو جائے۔ اگر وہ معاملے کو محض نظرانداز کر دیں تو کیا ہو؟ کیا یہ چیز اُنہیں وہی کام کرنے سے باز رکھے گی یا کیا اس سے اُن کیلئے دوبارہ اُسی کام میں ملوث ہو جانا اَور بھی سہل ہو جائے گا؟ اسی طرح، جب نوکر جماعت موسیقی اور تفریح وغیرہ کے معاملے میں انتخابپسند ہونے کی ضرورت پر مشورہ دیتی ہے تو کیا ہم شکرگزاری کیساتھ اُسے قبول کرتے اور ضروری ردوبدل کرتے ہیں؟ پولس نے ہمیں تاکید کی کہ ’باہم جمع ہونے سے باز نہ آئیں۔‘ (عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵) اس مشورت کے باوجود، بعض مسیحی اجلاسوں کو بہت معمولی خیال کرتے ہیں۔ وہ شاید محسوس کریں کہ بعض اجلاسوں سے غیرحاضر ہونے یا کچھ کو بالکل ہی چھوڑ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
۲۰. ہمارا صحیفائی مشورت کے لئے مثبت جوابیعمل دکھانا کیوں لازمی ہے؟
۲۰ اگر ہم صحائف اور بائبل پر مبنی مطبوعات سے صاف سنائی دینے والی یہوواہ کی ”آواز“ کیلئے مثبت جوابیعمل نہیں دکھاتے تو ہم جلد ہی محسوس کریں گے کہ ہم ”زندہ خدا سے پھر“ گئے ہیں۔ مشورت سے انفعالی غفلت بآسانی اسکی فعال تحقیر، نکتہچینی اور مزاحمت کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر دھیان نہ دیا جائے تو یہ ”بُرے اور بےایمان دل“ پر منتج ہوتی ہے اور پھر ایسی حالت سے نکلنا عموماً بہت مشکل ہوتا ہے۔ (مقابلہ کریں افسیوں ۴:۱۹۔) یرمیاہ نے موزوں طور پر لکھا: ”دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہباز اور لاعلاج ہے۔ اُس کو کون دریافت کر سکتا ہے؟“ (یرمیاہ ۱۷:۹) اسی وجہ سے پولس نے اپنے ساتھی عبرانی ایمانداروں کو تاکید کی: ”بلکہ جس روز تک آج کا دن کہا جاتا ہے ہر روز آپس میں نصیحت کِیا کرو تاکہ تم میں سے کوئی گناہ کے فریب میں آ کر سخت دل نہ ہو جائے۔“—عبرانیوں ۳:۱۳۔
۲۱. ہم سب سے کیا کرنے کی فہمائش کی گئی ہے اور ہمارے سامنے کیا امکانات ہیں؟
۲۱ ہم کتنے خوش ہیں کہ یہوواہ آجکل بھی اپنے کلام اور اپنی تنظیم کے ذریعے ہم سے کلام کرتا ہے! ہم شکرگزار ہیں کہ ”اپنے ابتدائی بھروسے پر آخر تک مضبوطی سے قائم“ رہنے کیلئے ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ لگاتار ہماری مدد کرتا ہے۔ (عبرانیوں ۳:۱۴) اب وقت ہے کہ ہم خدا کی محبت اور راہنمائی کیلئے جوابیعمل دکھائیں۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم یہوواہ کے ایک اَور شاندار وعدے—اُسکے آرام ’میں داخل‘ ہونے کے وعدے—سے لطفاندوز ہو سکتے ہیں۔ (عبرانیوں ۴:۳، ۱۰) پولس آگے چل کر عبرانی مسیحیوں کیساتھ اسی موضوع پر گفتگو کرتا ہے اور ہم بھی اگلے مضمون میں اسی پر غور کرینگے۔
[فٹنوٹ]
a یوسیفس نے بیان کِیا کہ فیستُس کی موت کے تھوڑے ہی عرصہ بعد، صدوقی فرقے کا حننیاہ، سردار کاہن بنا۔ اُس نے یسوع کے سوتیلے بھائی یعقوب اور دیگر شاگردوں کو صدرِعدالت کے سامنے پیش کِیا اور اُنہیں موت اور سنگسار کئے جانے کی سزا دلوائی۔
b پولس بدیہی طور پر یونانی سپتواُجنتا سے حوالہ دے رہا تھا جو ”مریبہ“ اور ”مساہ“ کے لئے عبرانی کا ترجمہ بالترتیب ”غصہ دلانے“ اور ”آزمایش“ کرتا ہے۔ واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک، انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ انسائٹ آن دی سکرپچرز کی جِلد ۲ میں صفحات ۳۵۰ اور ۳۷۹ کو دیکھیں۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
◻پولس نے عبرانی مسیحیوں کو ایسی سخت نصیحت کیوں لکھی؟
◻پولس نے عبرانی مسیحیوں کی یہ سمجھنے میں کیسے مدد کی کہ اُن کے پاس یہودیت کے تحت زندگی سے کہیں بڑھکر کوئی چیز ہے؟
◻کسی کا دل سخت کیسے ہو سکتا ہے؟
◻ہم ”بُرا اور بےایمان دل“ رکھنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
[صفحہ 12 پر تصویر]
کیا آپ بڑے موسیٰ، یسوع پر ایمان کا مظاہرہ کرتے ہیں؟