پُرخطر علاقے سے دُور رہیں!
یہ ماہرینِبرکانیات کا کام ہے کہ مشاہدات کر کے اور شواہد کا جائزہ لیکر آئندہ آتشفشاں کے پھٹنے کی بابت آگاہ کریں۔ (کوہِفوجن کے پھٹنے کے بعد پولیس کو لوگوں کو پُرخطر علاقے سے دُور رکھنا پڑا تھا۔) اسی طرح بائبل طالبعلم اس ”دُنیا کے آخر“ ہونے کے نشان کا مشاہدہ کرتے اور دوسرے لوگوں کو سر پر منڈلانے والے خطرے سے آگاہ کرتے ہیں۔—متی ۲۴:۳۔
سر پر منڈلانے والی عالمگیر تباہی کی بابت آگاہ کرنے والے بائبل کے اسی باب میں ہم ابتدائی علامات کی یہ تفصیل بھی پڑھ سکتے ہیں: ”قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی اور جگہ جگہ کال پڑیں گے اور بھونچال آئیں گے۔ . . . بہت سے جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور بہتیروں کو گمراہ کریں گے۔ اور بےدینی کے بڑھ جانے سے بہتیروں کی محبت ٹھنڈی پڑ جائے گی۔ . . . اور بادشاہی کی اس خوشخبری کی منادی تمام دُنیا میں ہوگی تاکہ سب قوموں کے لئے گواہی ہو۔ تب خاتمہ ہوگا۔“—متی ۲۴:۷-۱۴۔
اس پیشینگوئی کی جدید تکمیل کو سمجھنے کیلئے ہمیں خبروں کا تجزیہ کرنے والا بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے ۱۹۱۴ سے خاص طور پر اس کی تکمیل کو دیکھا ہے۔ اس صدی نے دو عالمی جنگوں، بیشمار خانہجنگیوں، علاقائی جنگوں، نسلی اور مذہبی آویزشوں کا تجربہ کِیا ہے۔ قدرتی آفات کے باعث آنے والی تنگدستی کے علاوہ ایسی جنگوں کے نتیجے میں نوعِانسان کو خوراک کی کمی کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ بھونچالوں نے کئی جانیں ہڑپ کر لی ہیں۔ مشتبہ پیشواؤں اور متعصّبانہ پیروکاروں پر مشتمل کئی مَسلک وجود میں آ گئے ہیں۔ لہٰذا ”بےدینی کے بڑھ جانے“ سے لوگوں نے محبت دکھانا چھوڑ دی ہے اور ہمسائیگی کا تو اب رواج ہی نہیں رہا۔
نشان کا ایک اَور پہلو، مُنادی کا عالمگیر کام، یقینی طور پر تکمیل پا رہا ہے۔ ذرا اس رسالے کے سرِورق پر واپس جائیں تو آپ عنوان کے حصے کے طور پر ”یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے“ کے الفاظ دیکھیں گے۔ مینارِنگہبانی جسکی ۱۳۲ زبانوں میں اشاعت اور ۲۲ ملین سے زیادہ تقسیم ہوتی ہے، تمام آبادشُدہ زمین پر ”بادشاہی کی اِس خوشخبری“ کا اعلان کرنے والے لوگوں کیلئے سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اس خوشخبری میں یہ پیغام بھی شامل ہے کہ کائنات کے خالق، یہوواہ خدا نے ایک آسمانی بادشاہت قائم کی ہے جو بدکار نظاماُلعمل کو ختم کر کے زمین پر فردوس قائم کریگی۔ واقعی اس وقت یہ نشان بہت صاف نظر آ رہا ہے کہ خدا بہت جلد کارروائی کریگا اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس نظاماُلعمل میں رہنے والے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔—مقابلہ کریں ۲-تیمتھیس ۳:۱-۵؛ ۲-پطرس ۳:۳، ۴؛ مکاشفہ ۶:۱-۸۔
یہوواہ کا خوفناک دن
جب یہوواہ کی عدالتی کارروائی کا وقت آ پہنچے گا تو پھر کیا ہوگا؟ اُس وقت جوکچھ ہوگا اُسکی بابت اُس کے اپنے تفصیلی بیان پر غور کریں: ”مَیں زمینوآسمان میں عجائب ظاہر کرونگا یعنی خون اور آگ اور دھوئیں کے ستون۔ اس سے پیشتر کہ [یہوواہ] کا خوفناک روزِعظیم آئے آفتاب تاریک اور مہتاب خون ہو جائیگا۔“—یوایل ۲:۳۰، ۳۱۔
وہ دن بالکل قریب ہے جو کسی بھی علاقائی آتشفشاں پہاڑ کے پھٹنے یا بھونچال سے زیادہ خوفناک اور تباہکُن ہوگا۔ صفنیاہ نبی بیان کرتا ہے: ”[یہوواہ] کا روزِعظیم قریب ہے ہاں وہ نزدیک آ گیا۔ وہ آ پہنچا! سنو! . . . تمام ملک کو اُسکی غیرت کی آگ کھا جائیگی کیونکہ وہ یکلخت ملک کے سب باشندوں کو تمام کر ڈالیگا۔“ اگرچہ ”اُنکا سونا چاندی اُنکو بچا نہ سکے گا،“ تاہم اُس خوفناک دن سے بچنے کا ایک طریقہ ہے۔—صفنیاہ ۱:۱۴-۱۸۔
اس طریقے کو واضح کرتے ہوئے صفنیاہ بیان کرتا ہے: ”اِس سے پہلے کہ تقدیرِالہٰی ظاہر ہو اور وہ دن بُھس کی مانند جاتا رہے اور [یہوواہ] کا قہرِشدید تم پر نازل ہو اور اُسکے غضب کا دن تم پر آ پہنچے۔ اَے ملک کے سب حلیم لوگو . . . راستبازی کو ڈھونڈو۔ فروتنی کی تلاش کرو۔ شاید [یہوواہ] کے غضب کے دن تم کو پناہ ملے۔“ (صفنیاہ ۲:۲، ۳) ’یہوواہ کے طالب ہونے، راستبازی کو ڈھونڈنے اور فروتنی کی تلاش کرنے سے‘ ہم پناہ حاصل کر سکتے ہیں۔ آجکل کون لوگ یہوواہ کے طالب ہیں؟
بِلاشُبہ یہوواہ کے گواہوں کی مُنادی کی کارگزاری کی وجہ سے آپ لفظ ”یہوواہ“ کو اُنکے ساتھ وابستہ کرتے ہیں۔ آپ نے شاید اُن میں سے کسی سے یہ رسالہ حاصل کِیا ہو۔ وہ بااخلاق شہریوں کے طور پر مشہور ہیں جو دیانتدارانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہ ”نئی انسانیت“ کو پہننے کی کوشش کرتے ہیں جس میں فروتنی کی خوبی پیدا کرنا شامل ہے۔ (کلسیوں ۳:۸-۱۰) وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا صرف یہوواہ کی دیدنی تنظیم سے تعلیم پانے کی صورت میں ہی ہو سکتا ہے جس کی نمائندگی پوری دُنیا میں یہوواہ کے گواہوں کی مقامی کلیسیاؤں سے ہوتی ہے۔ جیہاں، آپ دُنیابھر میں یہوواہ کے گواہوں کی ’عالمی برادری‘ کے درمیان پناہ حاصل کر سکتے ہیں۔—۱-پطرس ۵:۹۔
پناہ حاصل کرنے کا یہی وقت ہے
یہوواہ کے طالب ہوتے ہوئے پناہ حاصل کرنے کیلئے ہمیں اُسکا دوست بننے کی ضرورت ہے۔ اس میں کیا کچھ شامل ہے؟ بائبل جواب دیتی ہے: ”اَے زنا کرنے والیو! کیا تمہیں نہیں معلوم کہ دُنیا سے دوستی رکھنا خدا سے دشمنی کرنا ہے؟ پس جو کوئی دُنیا کا دوست بننا چاہتا ہے وہ اپنے آپ کو خدا کا دشمن بناتا ہے۔“ (یعقوب ۴:۴) خدا کا دوست بننے کیلئے ہمیں موجودہ شریر دُنیا کے ساتھ اپنی ہر طرح کی جذباتی وابستگی کو ختم کرنا ہوگا جس کا خاصہ خدا کیلئے باغیانہ روش ہے۔
بائبل ہمیں نصیحت کرتی ہے: ”نہ دُنیا سے محبت رکھو نہ اُن چیزوں سے جو دُنیا میں ہیں۔ جو کوئی دُنیا سے محبت رکھتا ہے اُس میں باپ کی محبت نہیں۔ کیونکہ جوکچھ دُنیا میں ہے یعنی جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی وہ باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دُنیا کی طرف سے ہے۔ دُنیا اور اُس کی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہے گا۔“ (۱-یوحنا ۲:۱۵-۱۷) آجکل بیشتر لوگ شدید جنسی رغبت، حریصانہ دولت کے حصول اور طاقت کے ناجائز استعمال جیسی جسمانی خواہشات سے تحریک پاتے ہیں۔ تاہم یہوواہ کیساتھ چلنے کیلئے ایک شخص کو ایسی خواہشات پر قابو پانا ہوگا۔—کلسیوں ۳:۵-۸۔
شاید آپ نے وقتاًفوقتاً اس جریدے کو پڑھا ہو اور شاید آپ اِس بات سے بھی متفق ہوںکہ یہ بائبل پیشینگوئیوں کا اطلاق کرتا ہے۔ لیکن شاید آپ یہوواہ کے گواہوں سے رفاقت رکھنے کے سلسلے میں مزید اقدام اُٹھانے سے ہچکچا رہے ہیں۔ تاہم اگر ہمیں کسی مصیبت کا سامنا ہے تو کیا محض آگاہی کو سننا ہی کافی ہوگا؟ جیساکہ ہم کوہِفوجن کے پھٹنے کے معاملے میں دیکھ سکتے ہیں ہمیں آگاہی کے مطابق کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں کہ بہت زیادہ قریب سے تصویریں کھینچنے کے شوق میں کمازکم ۱۵ نیوز رپورٹر اور کیمرہمین اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ مرتے وقت ایک کیمرہمین کی اُنگلی اُس کے کیمرے کے شٹر بٹن پر تھی۔ ایک ماہرِبرکانیات کو—جس نے یہ کہا تھا کہ ”اگر مجھے مرنا ہی پڑا تو مَیں کسی آتشفشاں کے قریب مرنا پسند کرونگا“—اُس نے بھی اپنی خواہش کے مطابق اپنی جان گنوا دی۔ وہ سب اپنے اپنے کام اور فرائض کیلئے وقف تھے۔ تاہم، آگاہی کو نظرانداز کرنے کی قیمت چکانے کیلئے اُنہیں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔
آجکل، بہتیرے اس بدکار نظاماُلعمل کو ختم کرنے کی بابت خدا کی عدالتی کارروائی کے پیغام کو سنتے ہیں اور کسی حد تک اس آگاہی کو درست بھی سمجھتے ہیں۔ ’بالآخر تو اس نے آنا ہی ہے،‘ وہ استدلال کرتے ہیں، ’مگر آج نہیں۔‘ وہ بڑی آسانی کیساتھ یہوواہ کے دن کو التوا میں ڈال دیتے ہیں تاکہ اس وقت جوکچھ اُنکی نظر میں زیادہ اہم ہے اُس سے اُنکی توجہ نہ ہٹے۔
بارُوک کیساتھ ایسا ہی مسئلہ تھا۔ قدیمی نبی یرمیاہ کے مُنشی کے طور پر، بارُوک نے دلیری کیساتھ یروشلیم کے اسرائیلیوں کو جلد آنے والی تباہی سے آگاہ کِیا۔ تاہم، ایک وقت پر وہ اپنے کام سے بیدل ہو گیا۔ اُس وقت، یہوواہ نے اُسکی اصلاح کی: ”کیا تُو اپنے لئے اُمورِعظیم کی تلاش میں ہے؟ اُنکی تلاش چھوڑ دے۔“ خواہ یہ دولت، شہرت یا مادی تحفظ ہی کیوں نہ ہو، بارُوک کو ’اپنے لئے اُمورِعظیم کی تلاش نہیں کرنی تھی۔‘ اُسے تو صرف خدا کی مرضی بجا لاتے ہوئے، لوگوں کو خدا کی طرف لانے کیلئے اُنکی مدد کرنے میں ہی دلچسپی رکھنی چاہئے تھی۔ نتیجتاً، ’اُسکی جان اُس کے لئے غنیمت ٹھہرئیگی۔‘ (یرمیاہ ۴۵:۱-۵) اِسی طرح سے، ’اپنے لئے اُمورِعظیم تلاش کرنے‘ کی بجائے، ہمیں یہوواہ کی تلاش کرنی چاہئے جو ہمارے لئے اپنی جانیں بچانے کا باعث بن سکتا ہے۔
جب کوہِفوجن کے انتہائی گرم لاوے نے لوگوں کو اپنا نشانہ بنایا تو اُس وقت درجن سے زیادہ پولیس والے اور آگ بجھانے والے رضاکار ڈیوٹی پر تھے۔ وہ خطرے سے دوچار لوگوں کو بچانے اور اُنکی مدد کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ اُن مخلص آدمیوں اور عورتوں کی مانند تھے جو اس دُنیا کو بہتر بنانے میں محو ہیں۔ اُنکے محرکات خواہ کتنے ہی بلند کیوں نہ ہوں، ”وہ جو ٹیڑھا ہے سیدھا نہیں ہو سکتا۔“ (واعظ ۱:۱۵) اِس ٹیڑھے نظاماُلعمل کو سیدھا نہیں کِیا جا سکتا۔ کیا اس عالمی نظام کو بچانے کی کوشش میں جسے خدا ختم کرنے کا ارادہ کئے ہوئے ہے، اپنے آپکو ”دُنیا کا دوست“ بنا لینا معقول بات ہے؟
ایک مرتبہ نکل آنے کے بعد دُور رہیں
خطرناک نظام سے نکل آنا ایک بات ہے تاہم ”برداری“ کے تحفظ میں رہنا بالکل فرق بات ہے۔ (۱-پطرس ۲:۱۷) اُن کسانوں کو نہ بھولیں جو علاقہ خالی کر دینے کے بعد، کوہِفوجن کے قریب اپنے کھیتوں کو دیکھنے واپس گئے تھے۔ غالباً وہ اپنے ”معمول“ کی اُسی زندگی کو دوبارہ شروع کرنے کے آرزومند تھے جسکے وہ عادی ہو چکے تھے۔ لیکن آپ سمجھتے ہیں کہ واپس جانے کا اُنکا فیصلہ غیردانشمندانہ تھا۔ شاید حدود پار کرنے کی یہ اُنکی پہلی کوشش نہیں تھی۔ شاید اُنہوں نے محض چند لمحوں کیلئے ہی خطرناک علاقے میں قدم رکھا ہو اور کچھ بھی نہ ہؤا ہو۔ اگلی مرتبہ شاید وہ تھوڑی زیادہ دیر وہاں ٹھہرے ہوں مگر کچھ بھی واقع نہ ہؤا ہو۔ غالباً جلد ہی، تحفظ کی حدود کو پار کرنا اُنکا معمول بن گیا اور وہ بڑی دلیری کیساتھ اُس پُرخطر علاقے میں زیادہ دیر ٹھہرنے لگے تھے۔
یسوع مسیح نے اسی طرح کی حالت کا ذکر کِیا جو اس ”دُنیا کے آخر“ میں رونما ہوگی۔ اُس نے فرمایا: ”کیونکہ جس طرح طوفان سے پہلے کے دنوں میں لوگ کھاتے پیتے اور بیاہ شادی کرتے تھے اُس دن تک کہ نوؔح کشتی میں داخل ہؤا۔ اور جب تک طوفان آ کر اُن سب کو بہا نہ لے گیا اُنکو خبر نہ ہوئی اُسی طرح ابنِآدؔم کا آنا ہوگا۔“—متی ۲۴:۳، ۳۸، ۳۹۔
غور کریں کہ یسوع نے کھانے، پینے اور بیاہ شادی کرنے کا ذکر کِیا۔ ان میں سے کوئی بھی چیز بذاتِخود یہوواہ کی نظر میں غلط نہیں ہے۔ پھر غلط کیا تھا؟ نوح کے زمانے کے لوگ اپنی روزمرّہ زندگی کے معمول میں اسقدر مصروف تھے کہ ”اُنکو خبر نہ ہوئی۔“ ہنگامی صورتحال میں، کوئی بھی شخص ”معمول کے مطابق“ زندگی نہیں گزار سکتا۔ ایک مرتبہ جب آپ فنا ہونے والی اس موجودہ دُنیا سے نکل آتے ہیں یا اپنے آپ کو اس سے الگ کر لیتے ہیں تو پھر آپکو اس سے کسی بھی قسم کا فائدہ اُٹھانے کیلئے واپس جانے کی ہر خواہش کو مسترد کر دینا چاہئے۔ (۱-کرنتھیوں ۷:۳۱) شاید آپ روحانی طور پر محفوظ علاقے سے باہر جانے اور کسی کو معلوم ہوئے بغیر صحیح سلامت واپس آنے کے قابل ہوئے ہوں۔ تاہم، غالباً یہی چیز آپکو دلیر بنائیگی اور آپ کے دُنیا میں دوبارہ کچھ وقت کیلئے واپس جانے کا باعث بنے گی۔ جلد ہی یہ میلان پیدا ہو سکتا ہے: ”آج تو خاتمہ نہیں آئیگا۔“
اس کے علاوہ، اُن تین ٹیکسی ڈرائیوروں کی بابت بھی سوچیں جو آتشفشانی لاوے کے بہہ نکلنے کے وقت نیوز رپورٹروں اور کیمرہمینوں کا انتظار کرتے کرتے اپنی جانیں کھو بیٹھے تھے۔ آجکل بعض لوگ شاید اُن لوگوں کیساتھ مل جائیں جنہوں نے دُنیا میں واپس جانے کی جُرات کی ہے۔ کوئی بھی وجہ ہو، یہ بات صاف عیاں ہے کہ پُرخطر علاقے میں واپس جانے کے فریب میں آ جانا کسی بھی صورت میں دانشمندانہ بات نہیں ہوگی۔
کوہِفوجن کی زد میں آنے والے سب لوگ تحفظ کی تمام حدیں پار کرکے پُرخطر علاقے میں چلے گئے تھے۔ اگرچہ اُن سب کو توقع تھی کہ کسی نہ کسی دن پہاڑ پھٹ جائیگا تاہم اُن میں سے کسی نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ آج ہی ایسا ہو جائیگا۔ اس نظاماُلعمل کے خاتمے کے نشان کو دیکھتے ہوئے، بیشتر لوگ یہوواہ کے دن کے آنے کے منتظر ہیں مگر شاید اُنکے خیال میں یہ جلد آنے والا نہیں ہے۔بعض تو یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ وہ دن ”آج“ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ایسا میلان بِلاشُبہ خطرناک ہے۔
”[یہوواہ] کا دن چور کی طرح آ جائیگا،“ پطرس رسول آگاہ کرتا ہے۔ ”خدا کے اُس دن کے آنے کا . . . منتظر اور مشتاق“ رہتے ہوئے ہمیں ”اُسکے سامنے اطمینان کی حالت میں بیداغ اور بےعیب نکلنے کی“ پوری کوشش کرنی چاہئے۔ (۲-پطرس ۳:۱۰-۱۴) موجودہ بدکار نظاماُلعمل کے برباد ہو جانے کے بعد خدا کی بادشاہت کے تحت ایک فردوسی زمین ہماری منتظر ہے۔ دُعا ہے کہ ہم اپنے ذہن میں جنم لینے والی کسی بھی وجہ کے پیشِنظر پُرخطر علاقے میں جانے کی آزمائش میں نہ پڑیں کیونکہ جس دن ہم حد کو عبور کر کے واپس دُنیا میں چلے جاتے ہیں شاید وہی یہوواہ کا دن ہو۔
[صفحہ ۷ پر تصویریں]
یہوواہ کے لوگوں کے درمیان پناہ حاصل کریں اور اُنکے ساتھ ہی رہیں
[صفحہ ۴ پر تصویر کا حوالہ]
Iwasa/Sipa Press