ایمان ہمیں صابر اور دُعاگو بناتا ہے
”صبر کرو اور اپنے دلوں کو مضبوط رکھو کیونکہ خداوند کی آمد [”موجودگی،“ اینڈبلیو] قریب ہے۔“—یعقوب ۵:۸۔
۱. ہمیں یعقوب ۵:۷، ۸ پر کیوں دھیان دینا چاہئے؟
یسوع مسیح کی ”موجودگی“ جسکا طویل عرصے سے انتظار تھا اب ایک حقیقت ہے۔ (متی ۲۴:۳-۱۴) خدا اور مسیح پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرنے والے تمام لوگوں کے پاس شاگرد یعقوب کے اِن الفاظ پر پہلے سے کہیں زیادہ دھیان دینے کی معقول وجہ ہے: ”اَے بھائیو! خداوند کی آمد [”موجودگی،“ اینڈبلیو] تک صبر کرو۔ دیکھو۔ کسان زمین کی قیمتی پیداوار کے انتظار میں پہلے اور پچھلے مینہ کے برسنے تک صبر کرتا رہتا ہے۔ تُم بھی صبر کرو اور اپنے دلوں کو مضبوط رکھو کیونکہ خداوند کی آمد [”موجودگی،“ اینڈبلیو] قریب ہے۔“—یعقوب ۵:۷، ۸۔
۲. جن لوگوں کو یعقوب نے خط لکھا اُنہیں بعض کونسے مسائل کا سامنا تھا؟
۲ یعقوب نے جن لوگوں کو اپنا الہامی خط لکھا اُنہیں صبر کرنے اور مختلف مسائل کو حل کرنے کی ضرورت تھی۔ خدا پر ایمان کا دعویٰ کرنے والوں سے جو توقع کی جاتی تھی بہتیرے اُسکے برعکس عمل کر رہے تھے۔ مثال کے طور پر، اُن خواہشات کی بابت کچھ کرنے کی ضرورت تھی جو بعض کے دلوں میں پیدا ہو گئی تھیں۔ اُن ابتدائی مسیحیوں میں اَمنوامان بحال کرنے کی ضرورت تھی۔ اُنہیں صابر اور دُعاگو بننے کیلئے بھی مشورت درکار تھی۔ یعقوب نے اُن سے جوکچھ کہا اُس پر غور کرتے ہوئے آئیے دیکھیں کہ ہم اُس کے الفاظ کا اپنی زندگیوں پر کیسے اطلاق کر سکتے ہیں۔
غلط خواہشات تباہکُن ہیں
۳. کلیسیائی جھگڑوں کی وجوہات کیا تھیں اور ہم اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۳ بعض اقبالی مسیحیوں میں اَمن کا فقدان تھا اور اِس حالت کی بنیادی وجہ غلط خواہشات تھیں۔ (یعقوب ۴:۱-۳) جھگڑے انتشار کا باعث بن رہے تھے اور بعض غیرمشفقانہ طور پر اپنے بھائیوں کی عیبجوئی کر رہے تھے۔ یہ اسلئے واقع ہو رہا تھا کیونکہ شہوتِنفسانی کیلئے رغبتیں اُنکے جسمانی اعضا میں ایک کشمکش کا باعث بن رہی تھیں۔ ہمیں بھی شہرت، اقتدار اور دولت کیلئے اپنی جسمانی خواہشات پر قابو پانے کیلئے دُعا کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے تاکہ ہم کسی بھی صورت میں کلیسیا کے اَمن کو تباہ کرنے کا باعث نہ بنیں۔ (رومیوں ۷:۲۱-۲۵؛ ۱-پطرس ۲:۱۱) پہلی صدی کے بعض مسیحیوں میں لالچ نفرتانگیز، قاتلانہ میلان کی حد تک بڑھ گیا تھا۔ چونکہ خدا نے تو اُنکی غلط خواہشات کو پورا نہیں کرنا تھا اسلئے وہ اپنے مقاصد کے حصول کی تگودو میں جھگڑتے رہے۔ اگر ہم بھی ایسی غلط خواہشات رکھتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ ہم بھی مانگیں مگر نہ پائیں کیونکہ ہمارا پاک خدا ایسی دُعاؤں کا جواب نہیں دیتا۔—نوحہ ۳:۴۴؛ ۳-یوحنا ۹، ۱۰۔
۴. یعقوب نے بعض کو ”زنا کرنے والیو“ کیوں کہا اور اُسکے بیان کو ہم پر کیسے اثرانداز ہونا چاہئے؟
۴ پہلی صدی کے بعض مسیحیوں کے اندر بھی دُنیاداری، حسد اور غرور پایا جاتا تھا۔ (یعقوب ۴:۴-۶) یعقوب نے بعض کو ”زنا کرنے والیو“ کہا کیونکہ وہ دُنیا کے دوست تھے اور یوں روحانی زناکاری کے مُجرم تھے۔ (حزقیایل ۱۶:۱۵-۱۹، ۲۵-۴۵) یقینی طور پر ہم اپنے رویے، گفتگو اور افعال میں دُنیادار بننا نہیں چاہتے کیونکہ یہ ہمیں خدا کے دشمن بنا دیگا۔ اُسکا کلام ہم پر واضح کرتا ہے کہ ”حسد کا میلان“ گنہگار انسانوں میں غلط رُجحان یا ”روح“ کا ایک حصہ ہے۔ (پیدایش ۸:۲۱؛ گنتی ۱۶:۱-۳؛ زبور ۱۰۶:۱۶، ۱۷؛ واعظ ۴:۴) لہٰذا اگر ہمیں یہ احساس ہو جاتا ہے کہ ہمیں حسد، غرور یا کسی اَور بُرے رُجحان کے خلاف نبردآزما ہونے کی ضرورت ہے تو آئیے روحاُلقدس کے ذریعے خدا کی مدد کے طالب ہوں۔ خدا کے غیرمستحق فضل سے حاصل ہونے والی یہ قوت ”حسد کے میلان“ سے بڑھکر ہے۔ پس یہوواہ چونکہ مغروروں کا مقابلہ کرتا ہے اسلئے اگر ہم گنہگارانہ رُجحانات کے خلاف نبردآزما ہوتے ہیں تو وہ ہمیں غیرمستحق فضل سے نوازے گا۔
۵. خدا کے غیرمستحق فضل سے لطفاندوز ہونے کے لئے ہمیں کن تقاضوں پر پورا اُترنا چاہئے؟
۵ ہم خدا کا غیرمستحق فضل کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ (یعقوب ۴:۷-۱۰) یہوواہ کے غیرمستحق فضل سے استفادہ کرنے کیلئے ہمیں اُسکا حکم ماننا، اُسکی فراہمیوں کو قبول کرنا اور اُسکی مرضی بجا لانا چاہئے۔ (رومیوں ۸:۲۸) علاوہازیں ہمیں ابلیس کی ”مخالفت“ یا ’مقابلہ‘ بھی کرنا چاہئے۔ اگر ہم یہوواہ کی عالمگیر حاکمیت کے حامیوں کے طور پر ڈٹے رہتے ہیں تو وہ ’ہم سے بھاگ جائیگا۔‘ ہمیں یسوع کی مدد حاصل ہے جو دُنیا کی بدطینت ایجنسیوں کو قابو میں رکھتا ہے تاکہ وہ ہمیں کوئی بھی مستقل نقصان نہ پہنچا سکیں۔ تاہم یہ کبھی نہ بھولیں: دُعا، فرمانبرداری اور ایمان کے ذریعے ہم خدا کے قریب جاتے ہیں اور وہ ہمارے نزدیک آتا ہے۔—۲-تواریخ ۱۵:۲۔
۶. یعقوب بعض مسیحیوں کو ”گنہگار“ کیوں کہتا ہے؟
۶ یعقوب خدا پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرنے والوں میں سے بعض کے لئے ”گنہگار“ کی اصطلاح کیوں استعمال کرتا ہے؟ اس لئےکہ وہ ”جنگوں“ اور کینہپرور نفرت—مسیحیوں کے لئے ناقابلِقبول رویوں—کے مجرم تھے۔ (ططس ۳:۳) بُرے کاموں کے باعث اُنکے آلودہ ”ہاتھوں“ کو صفائی کی ضرورت تھی۔ اُنہیں اپنے ”دِلوں،“ محرکات کے ماخذ کو بھی پاک کرنے کی ضرورت تھی۔ (متی ۱۵:۱۸، ۱۹) یہ ”دو دِلے“ اشخاص خدا سے دوستی اور دُنیا سے دوستی کے سلسلے میں متذبذب تھے۔ اُن کے خراب نمونے سے آگاہی پاتے ہوئے، ہمیں چاہئے کہ پوری طرح ہوشیار رہیں تاکہ ایسی باتیں ہمارے ایمان کو غرق نہ کر دیں۔—رومیوں ۷:۱۸-۲۰۔
۷. یعقوب بعض کو ”رونے اور ماتم“ کرنے کیلئے کیوں کہتا ہے؟
۷ یعقوب اپنے قارئین سے کہتا ہے کہ ”افسوس اور ماتم کرو اور روؤ۔“ اگر وہ خداپرستی کے غم کا اظہار کرتے ہیں تو یہ توبہ کا ثبوت ہوگا۔ (۲-کرنتھیوں ۷:۱۰، ۱۱) آجکل، ایمان رکھنے کا دعویٰ کرنے والے بعض لوگ دُنیا کے ساتھ دوستی پیدا کر رہے ہیں۔ اگر ہم میں سے کوئی ایسی روِش پر چل رہا ہے تو کیا ہمیں اپنی کمزور روحانی حالت پر افسوس کرنا اور معاملات کو درست کرنے کیلئے فوری اقدام نہیں اُٹھانے چاہئیں؟ ضروری ردوبدل کرنا اور خدا سے معافی حاصل کرنا، ایک پاک ضمیر اور ہمیشہ کی زندگی کے خوشکُن امکان کے باعث ہمیں خوشی کا احساس بخشے گا۔—زبور ۵۱:۱۰-۱۷؛ ۱-یوحنا ۲:۱۵-۱۷۔
ایک دوسرے پر الزام نہ لگائیں
۸، ۹. ہمیں کیوں ایک دوسرے کی بدگوئی نہیں کرنی چاہئے یا ایک دوسرے پر الزام نہیں لگانا چاہئے؟
۸ ایک ساتھی ایماندار کی بدگوئی کرنا گناہ ہے۔ (یعقوب ۴:۱۱، ۱۲) تاہم، بعض شاید خود کو راستباز خیال کرنے کے اپنے رویے کے باعث یا دوسروں کی تحقیر کر کے خود کو بڑا بنانے کی خواہش کی وجہ سے ساتھی مسیحیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ (زبور ۵۰:۲۰؛ امثال ۳:۲۹) یونانی اصطلاح جسکا ترجمہ ’بدگوئی کرنا‘ کِیا گیا ہے، مخالفت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور مبالغہآمیز یا جھوٹا الزام لگانے کی دلالت کرتی ہے۔ یہ ایک بھائی پر ناموافق الزام لگانے کے مترادف ہے۔ یہ کسطرح ’خدا کی شریعت کی بدگوئی کرنا اور اُس پر الزام لگانا ہے‘؟ بہرکیف، فقیہوں اور فریسیوں نے ’روایتاً خدا کے حکم کو ترک کر دیا‘ اور اپنے ذاتی معیاروں کی بِنا پر انصاف کرتے تھے۔ (مرقس ۷:۱-۱۳) اسی طرح، اگر ہم ایک بھائی کو حقیر جانتے ہیں جسے یہوواہ حقیر نہیں جانتا تو کیا ہم ’خدا کی شریعت پر الزام‘ نہیں لگا رہے ہونگے اور گنہگارانہ طور پر یہ دلالت نہیں کر رہے ہونگے کہ یہ ناکافی ہے؟ نیز، غیرمنصفانہ طور پر اپنے بھائی پر تنقید کرنے سے ہم محبت کی شریعت کو پورا نہیں کر رہے ہونگے۔—رومیوں ۱۳:۸-۱۰۔
۹ آئیے یہ یاد رکھیں: یہوواہ—”حاکم. . . اور شریعت دینے والا ہے۔“ اُسکی ’شریعت کامل‘ ہے، ادھوری نہیں ہے۔ (زبور ۱۹:۷؛ یسعیاہ ۳۳:۲۲) صرف خدا ہی نجات کیلئے معیار اور ضابطے قائم کرنے کا حق رکھتا ہے۔ (لوقا ۱۲:۵) لہٰذا یعقوب استفسار کرتا ہے: ”تُو کون ہے جو اپنے پڑوسی پر الزام لگاتا ہے؟“ دوسروں پر الزام لگانا اور اُنہیں حقیر جاننا ہمارا حق نہیں ہے۔ (متی ۷:۱-۵؛ رومیوں ۱۴:۴، ۱۰) خدا کی حاکمیت اور غیرجانبداری اور اپنی ذاتی گنہگارانہ حالت پر غور کرنا ہمیں خود کو راستباز خیال کرتے ہوئے دوسروں پر الزام لگانے سے باز رہنے میں مدد دیگا۔
متکبرانہ خوداعتمادی سے بچیں
۱۰. ہمیں اپنی روزمرّہ زندگیوں میں یہوواہ کو کیوں شامل کرنا چاہئے؟
۱۰ ہمیں ہمیشہ یہوواہ اور اُسکی شریعت پر دھیان دینا چاہئے۔ (یعقوب ۴:۱۳-۱۷) خدا کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، خوداعتماد شخص کہتا ہے: ’آج یا کل ہم فلاں شہر کو جائینگے، وہاں ایک برس ٹھہرینگے، کاروبار کرینگے اور نفع کمائینگے۔‘ اگر ہم ’اپنے لئے خزانے جمع کرتے ہیں اور خدا کے نزدیک دولتمند نہیں ہیں‘ تو ہو سکتا ہے کہ اگلے ہی دن ہماری زندگی ختم ہو جائے اور ہمارے پاس یہوواہ کی خدمت کرنے کا کوئی موقع نہ رہے۔ (لوقا ۱۲:۱۶-۲۱) جیسے یعقوب کہتا ہے، ہمارا حال بخارات کا سا ہے ”ابھی نظر آئے۔ ابھی غائب ہو گئے۔“ (۱-تواریخ ۲۹:۱۵) صرف یہوواہ پر ایمان رکھنے سے ہی ہم دائمی خوشی اور ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔
۱۱. یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ ”اگر خدا [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] نے چاہا“؟
۱۱ متکبرانہ طور پر خدا کو نظرانداز کرنے کی بجائے، ہمیں یہ موقف اختیار کرنا چاہئے: ”اگر خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] چاہے تو ہم زندہ بھی رہینگے اور یہ یا وہ کام بھی کرینگے۔“ یہ کہنا ”اگر یہوواہ چاہے“ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہم اُسکی مرضی کی مطابقت میں عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے خاندان کی کفالت کرنے کیلئے کاروبار کرنا، بادشاہتی کام کیلئے سفر کرنا اور اسی طرح کے دیگر کام کرنا ضروری ہو سکتا ہے۔ لیکن آئیے کبھی بھی شیخی نہ ماریں۔ ”ایسا سب فخر بُرا ہے“ کیونکہ یہ خدا پر انحصار کرنے کو نظرانداز کرتا ہے۔—زبور ۳۷:۵؛ امثال ۲۱:۴؛ یرمیاہ ۹:۲۳، ۲۴۔
۱۲. یعقوب ۴:۱۷ کے الفاظ سے کیا مُراد ہے؟
۱۲ بظاہر خوداعتمادی اور شیخی کی بابت اپنی باتچیت کو ختم کرتے ہوئے یعقوب بیان کرتا ہے: ”جو کوئی بھلائی کرنا جانتا ہے اور نہیں کرتا اُسکے لئے یہ گناہ ہے۔“ ہر مسیحی کو بڑی عاجزی کیساتھ خدا پر اپنے انحصار کو تسلیم کرنا چاہئے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو ”اُسکے لئے یہ گناہ ہے۔“ بِلاشُبہ، خدا پر ایمان جس چیز کا تقاضا کرتا ہے اُسے کرنے میں ناکام رہنے پر بھی اسی اصول کا اطلاق ہوتا ہے۔—لوقا ۱۲:۴۷، ۴۸۔
دولتمندوں کی بابت آگاہی
۱۳. یعقوب اپنی دولت کا ناجائز استعمال کرنے والوں کی بابت کیا کہتا ہے؟
۱۳ چونکہ بعض ابتدائی مسیحی مادہپرست بن گئے تھے یا دولتمندوں کو پسند کرتے تھے اسلئے یعقوب بعض دولتمند آدمیوں کی بابت سخت الفاظ استعمال کرتا ہے۔ (یعقوب ۵:۱-۶) جب خدا اُنہیں اُنکے کاموں کے مطابق بدلہ دیتا ہے تو دُنیادار آدمی جو اپنی دولت کا غلط استعمال کرتے ہیں ’اپنے اُوپر آنے والی مصیبتوں پر واویلا کرتے ہوئے روئیں گے۔‘ اُن دنوں میں، زیادہتر لوگوں کی دولت بالخصوص لباس، اناج اور مے جیسی چیزوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ (یوایل ۲:۱۹؛ متی ۱۱:۸) ان چیزوں میں سے بعض خراب ہو سکتی ہیں یا اُنکو ”کیڑا کھا“ سکتا ہے، مگر یعقوب دولت کے ناکارہ ہونے کی بجائے اُس کی فناپذیری پر زور دے رہا ہے۔ اگرچہ سونے اور چاندی کو زنگ نہیں لگتا لیکن اگر ہمیں اُنکو ذخیرہ کرنا ہو تو وہ زنگآلودہ چیزوں کی طرح ہی بیکار ثابت ہونگی۔ ”زنگ“ ظاہر کرتا ہے کہ مادی دولت کا اچھا استعمال نہیں کِیا گیا ہے۔ اسلئے، ہم سب کو یاد رکھنا چاہئے کہ جو لوگ اپنے مادی اثاثوں پر بھروسہ رکھتے ہیں اُنہوں نے ”آگ کی طرح“ کی کوئی چیز اس ”اخیر زمانہ میں جمع“ کی ہے جب خدا کا قہر اُن پر نازل ہوتا ہے۔ چونکہ ہم ”اخیر زمانہ“ میں رہ رہے ہیں لہٰذا ایسے الفاظ ہمارے لئے خاص مطلب رکھتے ہیں۔—دانیایل ۱۲:۴؛ رومیوں ۲:۵۔
۱۴. دولتمند عموماً کیسے کام کرتے ہیں اور ہمیں اِس کی بابت کیا کرنا چاہئے؟
۱۴ دولتمند اکثر اپنے مُزارعین کے ساتھ دھوکا کرتے تھے جنکی ادا نہ کی جانے والی اُجرتیں ادائیگی کے لئے ’پکارتی‘ ہیں۔ (مقابلہ کریں پیدایش ۴:۹، ۱۰۔) دُنیادار دولتمند اشخاص نے ”عیشوعشرت“ کی زندگی بسر کی ہے۔ جی بھر کے شہوتِنفسانی کے مزے لینے سے وہ اپنے دِلوں کو بیحس، موٹا بنا لیتے ہیں اور اپنے ذبح کئے جانے کے ”دن“ تک ایسا ہی کرتے رہینگے۔ وہ ’راستباز کو قصوروار ٹھہراتے اور قتل کرتے ہیں۔‘ لہٰذا یعقوب استفسار کرتا ہے: ”کیا وہ تمہارا مقابلہ نہیں کرتا؟“ لیکن ایک اَور ترجمہ یوں بیان کرتا ہے، ”راستباز شخص؛ تمہارا مقابلہ نہیں کرتا۔“ بہرصورت، ہمیں دولتمندوں کی طرفداری نہیں کرنی چاہئے۔ ہمیں روحانی مفادات کو زندگی میں پہلا درجہ دینا چاہئے۔—متی ۶:۲۵-۳۳۔
ایمان ہمیں صبر کرنے میں مدد دیتا ہے
۱۵، ۱۶. صبر کرنا اسقدر اہم کیوں ہے؟
۱۵ دُنیا کے ظالم دولتمندوں پر تبصرہ کرنے کے بعد، یعقوب ستائے ہوئے مسیحیوں کی صبر کرنے کیلئے حوصلہافزائی کرتا ہے۔ (یعقوب ۵:۷، ۸) اگر ایماندار اپنی مشکلات کو صبر کیساتھ برداشت کرتے ہیں تو اُنہیں مسیح کی موجودگی کے وقت وفاداری کا اجر دیا جائیگا جبکہ اُنکے ستانے والوں پر سزا آئیگی۔ (متی ۲۴:۳۷-۴۱) اُن ابتدائی مسیحیوں کو اُس کسان کی مانند بننے کی ضرورت تھی جو خزاں کی پہلی بارش کیلئے جب وہ فصل اُگا سکتا ہے اور پیداوار پر منتج ہونے والی موسمِبہار کی آخری بارش کا صبر سے انتظار کرتا ہے۔ (یوایل ۲:۲۳) ہمیں بھی صبر کرنے اور اپنے دِلوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، بالخصوص اسلئےکہ ”خداوند“ یسوع مسیح ”کی آمد [”موجودگی،“ اینڈبلیو]“ قریب ہے!
۱۶ ہمیں کیوں صابر ہونا چاہئے؟ (یعقوب ۵:۹-۱۲) جب ساتھی ایماندار ہمیں دق کرتے ہیں تو صبر ہمیں کراہنے یا آہیں مارنے سے باز رہنے میں مدد دیتا ہے۔ اگر ہم بُری نیت کیساتھ ”ایک دوسرے کی شکایت“ کرتے ہیں تو منصف یسوع مسیح ہمیں ردّ کر دیگا۔ (یوحنا ۵:۲۲) اب جبکہ اُسکی ”موجودگی“ شروع ہو چکی ہے اور وہ ”دروازہ پر کھڑا ہے“ تو آئیے ایمان کی بہت سی آزمائشوں سے گزرنے والے اپنے بھائیوں کے ساتھ صبر سے پیش آتے ہوئے اَمن کو فروغ دیں۔ جب ہم یہ یاد رکھتے ہیں کہ خدا نے ایوب کو صبر کیساتھ اپنی آزمائشیں برداشت کرنے کیلئے اجر بخشا تو اس سے ہمارا اپنا ایمان مضبوط ہوتا ہے۔ (ایوب ۴۲:۱۰-۱۷) اگر ہم ایمان اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ہم یہ جان جائینگے کہ ” خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] بہت ترس اور رحم“ کرنے والا ہے۔—میکاہ ۷:۱۸، ۱۹۔
۱۷. یعقوب یہ کیوں کہتا ہے کہ ”قسم نہ کھاؤ“؟
۱۷ اگر ہم صابر نہیں ہیں تو ہو سکتا ہے کہ ہم دباؤ کے تحت اپنی زبان کا غلط استعمال کریں۔ مثال کے طور پر، ہو سکتا ہے ہم جلدبازی میں قسمیں اُٹھا لیں۔ غیرضروری طور پر قسم اُٹھانے کے خلاف آگاہ کرتے ہوئے یعقوب کہتا ہے، ”قسم نہ کھاؤ۔“ قسموں کے ذریعے متواتر اپنے بیانات کی تصدیق کرنا بھی ریاکاری دکھائی دیتا ہے۔ لہٰذا، ہمیں صرف سچ بولنا چاہئے، ہماری ہاں ہاں اور نہیں نہیں ہونی چاہئے۔ (متی ۵:۳۳-۳۷) بِلاشُبہ، یعقوب یہ نہیں کہہ رہا کہ عدالت میں سچائی بیان کرنے کیلئے قسم اُٹھانا غلط ہے۔
ایمان اور ہماری دُعائیں
۱۸. ہمیں کن حالتوں کے تحت ”دُعا“ کرتے رہنا اور ”حمد کے گیت“ گاتے رہنا چاہئے؟
۱۸ اگر ہم اپنی گفتگو پر قابو رکھنا، صبر دکھانا اور خدا پر مضبوط ایمان رکھنا چاہتے ہیں تو دُعا کو ہماری زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرنا چاہئے۔ (یعقوب ۵:۱۳-۲۰) بالخصوص آزمائش کے تحت ہمیں ”دُعا کرتے“ رہنا چاہئے۔ اگر ہم خوش ہیں تو ہمیں ”حمد کے گیت“ گانے چاہئیں جیسا یسوع اور اُس کے رسولوں نے اُس وقت کِیا جب اُس نے اپنی موت کی یادگار منانے کا انعقاد کِیا۔ (مرقس ۱۴:۲۶) بعضاوقات، ہو سکتا ہے کہ ہم خدا کیلئے اسقدر شکرگزاری سے معمور ہوں کہ ہم دل ہی دل میں اُس کی حمد کے گیت گائیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۴:۱۵؛ افسیوں ۵:۱۹) لیکن مسیحی اجلاسوں پر گیت کے ذریعے یہوواہ کی بڑائی کرنا کیا ہی پُرمسرت بات ہے!
۱۹. اگر ہم روحانی طور پر بیمار ہو جاتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے اور ایسا قدم کیوں اُٹھائیں؟
۱۹ خراب چالچلن کی وجہ سے یا شاید باقاعدگی سے یہوواہ کے دسترخوان سے کھانا کھانے سے قاصر رہنے کی وجہ سے اگر ہم روحانی طور پر بیمار ہیں تو ہو سکتا ہے کہ ہم گیت گانا پسند نہ کریں۔ اگر ہم ایسی حالت میں ہیں تو پھر آئیے فروتنی کیساتھ بزرگوں کو بلائیں تاکہ وہ ’ہمارے لئے دُعا کریں۔‘ (امثال ۱۵:۲۹) وہ ’یہوواہ کے نام سے ہمیں تیل بھی ملیں گے۔‘ زخم پر آرامبخش تیل کی طرح، اُنکے تسلیبخش الفاظ اور صحیفائی مشورت ہمیں افسردگی، شک اور خوف سے نکلنے میں مدد دیگی۔ ’ایمان سے کی گئی دُعا ہمیں صحت عطا کریگی‘ بشرطیکہ اسے ہمارے اپنے ایمان کی حمایت حاصل ہو۔ اگر بزرگ محسوس کرتے ہیں کہ ہماری روحانی بیماری کسی سنگین گناہ کے باعث ہے تو وہ نرمی کیساتھ ہماری غلطی کو ہم پر واضح کرینگے اور ہماری مدد کرنے کی کوشش کرینگے۔ (زبور ۱۴۱:۵) نیز اگر ہم تائب ہیں تو ہم یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا اُنکی دُعاؤں کو سنیگا اور ہمیں معاف کریگا۔
۲۰. ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار اور ایک دوسرے کیلئے دُعا کیوں کرنی چاہئے؟
۲۰ ’ایک دوسرے کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے‘ کو مزید گناہ کرنے سے باز رکھنے کا کام انجام دینا چاہئے۔ اسے ایک دوسرے پر رحم کرنے کی حوصلہافزائی کرنی چاہئے، ایک ایسی خوبی جو ہمیں ”ایک دوسرے کیلئے دُعا“ کرنے کی تحریک دیگی۔ ہم یہ اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ یہ مفید ہوگا کیونکہ ’ایک راستباز‘—ایک شخص جو ایمان رکھتا ہے اور خدا کی نظر میں راست ہے—اُسکی دُعا یہوواہ کے حضور بہت پُرمطلب ہے۔ (۱-پطرس ۳:۱۲) ایلیاہ نبی میں بھی ہماری طرح کی کمزوریاں تھیں مگر اُسکی دُعاؤں میں اثر تھا۔ اُس نے دُعا کی اور ساڑھے تین سال تک بارش نہ ہوئی۔ جب اُس نے دوبارہ دُعا کی تو بارش ہوئی۔—۱-سلاطین ۱۷:۱؛ ۱۸:۱، ۴۲-۴۵؛ لوقا ۴:۲۵۔
۲۱. اگر کوئی ساتھی مسیحی ”سچائی سے گمراہ“ ہو جاتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟
۲۱ لیکن اگر کلیسیا کا کوئی رُکن درست تعلیم اور چالچلن سے منحرف ہوتے ہوئے ”سچائی سے گمراہ“ ہو جائے تو کیا ہو؟ ہم بائبل کی مشورت، دُعا اور دیگر مدد کے ذریعے اُسے اُسکی غلطی سے باز رکھنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ اُسے مسیح کے فدیے کے زیرِسایہ رکھتا ہے اور اُسے روحانی موت اور ہلاکت میں پڑنے سے بچاتا ہے۔ خطا کرنے والے کی مدد کرنے سے ہم اُسکے بہت سے گناہوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ جب وہ شخص جسے سرزنش کی گئی تھی بُری راہ سے باز آتا ہے، توبہ کرتا ہے اور معافی کا طلبگار ہوتا ہے تو ہمیں خوشی ہوگی کہ ہم اُسکے گناہوں کو ڈھانپنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔—زبور ۳۲:۱، ۲؛ یہوداہ ۲۲، ۲۳۔
یہ ہم سب کیلئے ہے
۲۲، ۲۳. ہمیں یعقوب کے الفاظ سے کیسے اثرپذیر ہونا چاہئے؟
۲۲ واضح طور پر، یعقوب کے خط میں ہم سب کے فائدے کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ یہ ہمیں آزمائشوں کا مقابلہ کرنا سکھاتا ہے، پاسداری کے خلاف آگاہ کرتا اور ہمیں نیک کاموں میں مشغول رہنے کی تاکید کرتا ہے۔ یعقوب ہمیں زبان پر قابو رکھنے، دُنیاوی اثر کی مزاحمت کرنے اور اَمن کو فروغ دینے کی تلقین کرتا ہے۔ اُسکے الفاظ کو ہمیں صابر اور دُعاگو بھی بنانا چاہئے۔
۲۳ سچ ہے کہ یعقوب کا خط اصل میں ابتدائی ممسوح مسیحیوں کو لکھا گیا تھا۔ تاہم، ہم سب کو چاہئے کہ ایمان پر قائم رہنے کے لئے اس کی مشورت کو اپنی مدد کرنے کا موقع دیں۔ یعقوب کے الفاظ ایسے ایمان کو فروغ دے سکتے ہیں جو ہمیں خدا کی خدمت میں فیصلہکُن قدم اُٹھانے کی تحریک دیتا ہے۔ لہٰذا الہٰی طور پر مُلہَم یہ خط ایسے مضبوط ایمان کو فروغ دیتا جو ہمیں آجکل ”خداوند کی آمد [”موجودگی،“ اینڈبلیو]“ کے دوران یہوواہ کے صابر، دُعاگو گواہ بناتا ہے۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
◻بعض ابتدائی مسیحیوں کو اپنا رویہ اور چالچلن بدلنے کی ضرورت کیوں تھی؟
◻یعقوب دولتمندوں کو کیا آگاہی دیتا ہے؟
◻ہمیں کیوں صبر کرنا چاہئے؟
◻ہمیں باقاعدگی سے دُعا کیوں کرنی چاہئے؟