آزمائشوں کے باوجود، اپنے ایمان پر قائم رہیں!
”اَے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمایشوں میں پڑو تو اِسکو . . . کمال خوشی کی بات سمجھنا۔“—یعقوب ۱:۲، ۳۔
۱. کس چیز کے باوجود یہوواہ کے لوگ ایمان اور ”خوشدلی“ کے ساتھ اُسکی خدمت کرتے ہیں؟
یہوواہ کے لوگ اُس پر ایمان اور ”خوشدلی“ کے ساتھ اُس کے گواہوں کے طور پر خدمت کرتے ہیں۔ (استثنا ۲۸:۴۷؛ یسعیاہ ۴۳:۱۰) اگرچہ اُنہیں بہت سی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے توبھی وہ ایسا کرتے ہیں۔ اپنی مشکلات کے باوجود، وہ ان الفاظ سے تسلی پاتے ہیں: ”اَے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمایشوں میں پڑو۔ تو اِسکو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارے ایمان کی آزمایش صبر [”برداشت،“ اینڈبلیو] پیدا کرتی ہے۔“—یعقوب ۱:۲، ۳۔
۲. یعقوب کا خط لکھنے والے کی بابت کیا مشہور ہے؟
۲ یہ بیان یسوع مسیح کے سوتیلے بھائی، شاگرد یعقوب نے ۶۲ س.ع. میں قلمبند کِیا تھا۔ (مرقس ۶:۳) یعقوب یروشلیم کی کلیسیا میں ایک بزرگ تھا۔ دراصل، وہ، کیفا (پطرس) اور یوحنا کلیسیا کے ”رُکن [”ستون،“ اینڈبلیو]“—مضبوط، پُختہ سہارا ”سمجھے جاتے تھے۔“ (گلتیوں ۲:۹) جب ۴۹ س.ع. میں ختنے کے مسئلے کو ”رسولوں اور بزرگوں“ کے سامنے پیش کِیا گیا تو یعقوب نے پُختہ صحیفائی تجویز پیش کی جسے پہلی صدی کی گورننگ باڈی نے قبول کر لیا تھا۔—اعمال ۱۵:۶-۲۹۔
۳. پہلی صدی کے مسیحیوں کو بعض کونسے مسائل درپیش تھے اور ہم یعقوب کے خط سے کس طرح بہتر طور پر استفادہ کر سکتے ہیں؟
۳ ایک فکر رکھنے والے روحانی چرواہے کے طور پر، یعقوب ’اپنے ریوڑ کا حال جانتا تھا۔‘ (امثال ۲۷:۲۳) اُس نے محسوس کِیا کہ اُس وقت مسیحی سخت آزمائشوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔ بعض کو اپنی سوچ کو بدلنے کی ضرورت تھی کیونکہ وہ دولتمندوں کیلئے پاسداری دکھا رہے تھے۔ کئی ایک کیلئے پرستش محض ایک رسم تھی۔ بعض اپنی بےلگام زبانوں سے نقصان پہنچا رہے تھے۔ دُنیاوی روح مُضر اثرات پیدا کر رہی تھی اور بہتیرے نہ تو صابر اور نہ ہی دُعاگو تھے۔ درحقیقت، چند ایک مسیحی روحانی بیماری کا شکار ہو گئے تھے۔ یعقوب کا خط ایسے معاملات سے حوصلہافزا طریقے سے نپٹتا ہے اور اُسکی مشورت پہلی صدی س.ع. کی طرح آج بھی اُسی قدر عملی ہے۔ اگر ہم اس خط کو ایسا خیال کرتے ہیں کہ گویا یہ ذاتی طور پر ہمارے لئے لکھا گیا ہے تو ہم اس سے بہت زیادہ مستفید ہونگے۔a
جب ہم آزمائشوں کا تجربہ کرتے ہیں
۴. ہمیں آزمائشوں کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟
۴ یعقوب ہمیں آگاہ کرتا ہے کہ آزمائشوں کو کیسا خیال کریں۔ (یعقوب ۱:۱-۴) خدا کے بیٹے کیساتھ اپنے خاندانی رشتے کا ذکر کئے بغیر وہ فروتنی کیساتھ خود کو ”خدا کا اور خداوند یسوؔع مسیح کا بندہ“ کہتا ہے۔ یعقوب روحانی اسرائیل کے ”بارہ قبیلوں“ کو لکھتا ہے جو شروع میں اذیت کی وجہ سے ”جابجا“ بکھر گئے تھے۔ (اعمال ۸:۱؛ ۱۱:۱۹؛ گلتیوں ۶:۱۶؛ ۱-پطرس ۱:۱) مسیحیوں کے طور پر، ہم بھی ستائے جاتے ہیں اور ہمیں ”طرح طرح کی آزمایشوں“ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر ہم یہ یاد رکھتے ہیں کہ آزمائشوں کی برداشت ہمارے ایمان کو مضبوط کرتی ہے تو جب ہمیں اُنکا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہم اسے ”کمال خوشی کی بات“ سمجھیں گے۔ اگر ہم آزمائش کے دوران خدا کیلئے اپنی راستی پر قائم رہتے ہیں تو یہ ہمارے لئے دائمی خوشی کا باعث ہوگا۔
۵. ہماری آزمائشوں میں کیا کچھ شامل ہو سکتا ہے اور جب ہم کامیابی کے ساتھ اُنہیں برداشت کرتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟
۵ ہماری آزمائشوں میں نوعِانسان کو درپیش مصائب بھی شامل ہیں۔ مثال کے طور پر، خراب صحت ہمیں تکلیف پہنچا سکتی ہے۔ اس وقت خدا معجزانہ شفائیں انجام نہیں دے رہا مگر وہ علالت سے نپٹنے کیلئے درکار حکمت اور برداشت کیلئے ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے۔ (زبور ۴۱:۱-۳) ہم راستبازی کی خاطر ستائے جانے والے یہوواہ کے گواہوں کے طور پر بھی تکلیف اُٹھاتے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۲؛ ۱-پطرس ۳:۱۴) جب ہم کامیابی کیساتھ ایسی آزمائشوں کی برداشت کرتے ہیں تو ہمارے ایمان کی پرکھ ہوتی ہے، یہ ”کامل“ ہو جاتا ہے۔ نیز جب ہمارا ایمان غالب آتا ہے تو یہ ”برداشت پیدا“ کرتا ہے۔ آزمائشوں کے باعث مضبوط کِیا گیا ایمان ہمیں مستقبل کی آزمائشوں کو برداشت کرنے میں مدد دیگا۔
۶. کیسے ”برداشت اپنا کام پورا کرتی ہے“ اور آزمائش کے تحت ہم کونسے عملی اقدام اُٹھا سکتے ہیں؟
۶ یعقوب بیان کرتا ہے، ”اور صبر [”برداشت،“ اینڈبلیو] کو اپنا کام پورا کرنے دو۔“ اگر ہم غیرصحیفائی ذرائع سے اسے روکنے کی کوشش کئے بغیر آزمائش کو جاری رہنے دیتے ہیں تو برداشت ہمیں ایک ایسے مسیحی کے طور پر کامل بنانے کیلئے ”کام“ کریگی جس میں ایمان کی کمی نہیں ہوتی۔ بِلاشُبہ، اگر آزمائش کسی کمزوری کی نشاندہی کرتی ہے تو ہمیں اس پر قابو پانے کیلئے یہوواہ کی مدد کے خواہاں ہونا چاہئے۔ اُس وقت کیا ہو جب آزمائش جنسی بداخلاقی میں پڑنے کی ترغیب ہے؟ آئیے اس مسئلے کی بابت دُعا کریں اور پھر اپنی دُعاؤں کی مطابقت میں عمل کریں۔ ممکن ہے ہمیں اپنی جائےملازمت تبدیل کرنے یا خدا کیلئے اپنی راستی برقرار رکھنے کیلئے دیگر اقدام اُٹھانے کی ضرورت پڑے۔—پیدایش ۳۹:۷-۹؛ ۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۳۔
حکمت کیلئے جستجو
۷. آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کیسے ہماری مدد ہو سکتی ہے؟
۷ یعقوب ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہم کسی آزمائش کا مقابلہ کرنا نہیں جانتے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ (یعقوب ۱:۵-۸) یہوواہ ہمیں حکمت کی کمی کیلئے اور ایمان کیساتھ اس کیلئے دُعا کرنے پر ملامت نہیں کریگا۔ وہ ہمیں آزمائش کو مناسب زاویے سے دیکھنے اور اسے برداشت کرنے کیلئے مدد دیگا۔ ساتھی ایمانداروں کے ذریعے یا بائبل مطالعہ کے دوران، صحائف کی جانب ہماری توجہ مبذول کرائی جا سکتی ہے۔ خدا کی قدرت سے رُونما ہونے والے واقعات ہمیں یہ سمجھنے کے قابل بنا سکتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ خدا کی روح کے ذریعے بھی ہماری راہنمائی ہو سکتی ہے۔ (لوقا ۱۱:۱۳) ایسے استحقاقات سے استفادہ کرنے کیلئے، لازمی طور پر ہمیں خدا اور اُسکے لوگوں کی قربت میں رہنا چاہئے۔—امثال ۱۸:۱۔
۸. ایک شک کرنے والے شخص کو کیوں یہوواہ سے کچھ نہیں ملیگا؟
۸ اگر ہم ”ایمان سے“ مانگتے اور ”کچھ شک“ نہیں کرتے تو یہوواہ ہمیں آزمائشوں سے نپٹنے کیلئے حکمت عطا کرتا ہے۔ ایک شک کرنے والا شخص ”سمندر کی لہر کی مانند ہوتا ہے“ جو غیرمتوقع طور پر ”ہوا سے بہتی اور اُچھلتی ہے۔“ اگر ہم روحانی اعتبار سے اسقدر تغیرپذیر ہیں تو ’ہمیں یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہمیں یہوواہ سے کچھ ملیگا۔‘ ہمیں دُعا میں یا کسی بھی دوسرے طریقے سے ”دو دِلا“ اور ”بےقیام“ نہیں ہونا چاہئے۔ اسکی بجائے، آئیے یہوواہ پر ایمان رکھیں جو حکمت کا سرچشمہ ہے۔—امثال ۳:۵، ۶۔
دولتمند اور غریب خوش ہو سکتے ہیں
۹. یہوواہ کے پرستاروں کے طور پر ہمارے پاس خوش ہونے کی وجہ کیوں ہے؟
۹ اگر غربت ہماری آزمائشوں میں سے ایک ہے تو بھی آئیے یہ یاد رکھیں کہ دولتمند اور غریب دونوں طرح کے مسیحی خوش ہو سکتے ہیں۔ (یعقوب ۱:۹-۱۱) یسوع کے پیروکار بننے سے پہلے، ممسوح لوگوں کی اکثریت کے پاس مادی طور پر بہت کم تھا اور دُنیا اُنہیں حقارت کی نظر سے دیکھتی تھی۔ (۱-کرنتھیوں ۱:۲۶) مگر وہ بادشاہتی وارثوں کے طور پر اپنی ”سرفرازی“ پر خوش ہو سکتے تھے۔ (رومیوں ۸:۱۶، ۱۷) اسکے برعکس، دولتمند لوگ جنکی پہلے عزت کی جاتی تھی اُنہوں نے مسیح کے پیروکاروں کے طور پر دُنیا کی نظروں میں حقیر ہونے کے باعث ”تذلیل“ کا تجربہ کِیا۔ (یوحنا ۷:۴۷-۵۲؛ ۱۲:۴۲، ۴۳) تاہم، یہوواہ کے خادموں کے طور پر، ہم سب خوش ہو سکتے ہیں کیونکہ دُنیاوی دولت اور مرتبہ اُن روحانی خزانوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جن سے ہم لطفاندوز ہوتے ہیں۔ نیز ہم کتنے شکرگزار ہیں کہ ہمارے درمیان معاشرتی حیثیت کے اعتبار سے فخر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے!—امثال ۱۰:۲۲؛ اعمال ۱۰:۳۴، ۳۵۔
۱۰. ایک مسیحی کو مادی دولت کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟
۱۰ یعقوب ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ ہماری زندگی کا انحصار دولت اور دُنیاوی کامرانیوں پر نہیں ہے۔ جیسے ایک پھول کی خوبصورتی اُسے سورج کی ”سخت دھوپ“ میں مُرجھا جانے سے نہیں روک سکتی اُسی طرح ایک دولتمند شخص کی دولت اُسکی زندگی میں اضافہ نہیں کر سکتی۔ (زبور ۴۹:۶-۹؛ متی ۶:۲۷) وہ کاروبار ہی میں اپنی ”راہ پر چلتے چلتے“ مر سکتا ہے۔ لہٰذا، اہم بات یہ ہے کہ ”خدا کی نظر میں دولتمند“ بنیں اور بادشاہتی مفادات کو فروغ دینے کیلئے ہم جوکچھ کر سکتے ہیں وہ کریں۔—لوقا ۱۲:۱۳-۲۱؛ متی ۶:۳۳؛ ۱-تیمتھیس ۶:۱۷-۱۹۔
مبارک ہیں وہ جو آزمائش کی برداشت کرتے ہیں
۱۱. اُن کے لئے کیا امکانات ہیں جو آزمائشوں کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہتے ہیں؟
۱۱ خواہ دولتمند ہیں یا غریب، ہم صرف اُسی صورت میں مبارک ہو سکتے ہیں اگر ہم اپنی آزمائشوں کی برداشت کرتے ہیں۔ (یعقوب ۱:۱۲-۱۵) اگر ہم اپنے مضبوط ایمان کیساتھ ایسی آزمائشوں کی برداشت کرتے ہیں تو ہم مبارک کہلا سکتے ہیں کیونکہ خدا کی نظر میں درست کام کرنے سے خوشی ملتی ہے۔ جان دینے تک اپنے ایمان پر قائم رہنے سے، روح سے مسحشُدہ مسیحی ”زندگی کا تاج“ آسمانوں پر غیرفانیت حاصل کرتے ہیں۔ (مکاشفہ ۲:۱۰؛ ۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۰) اگر ہم زمینی اُمید رکھتے ہیں اور خدا پر اپنا ایمان قائم رکھتے ہیں تو ہم فردوسی زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔ (لوقا ۲۳:۴۳؛ رومیوں ۶:۲۳) یہوواہ اُن سب پر کتنا مہربان ہے جو اُس پر ایمان رکھتے ہیں!
۱۲. مصیبت کا تجربہ کرتے وقت، ہمیں یہ کیوں نہیں کہنا چاہئے کہ ”میری آزمایش خدا کی طرف سے ہوتی ہے“؟
۱۲ کیا یہ ممکن ہے کہ یہوواہ خود ہمیں مصیبت سے آزماتا ہے؟ نہیں، ہمیں یہ نہیں کہنا چاہئے کہ ”میری آزمایش خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔“ یہوواہ ہمیں گناہ کرنے کی ترغیب دینے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ یقینی طور پر ہماری مدد کرتا ہے اور اگر ہم ایمان میں مضبوط رہتے ہیں تو ہمیں آزمائشوں کی برداشت کرنے کیلئے درکار قوت بھی عطا کرتا ہے۔ (فلپیوں ۴:۱۳) خدا پاک ہے لہٰذا وہ ہمیں ایسے حالات میں نہیں پڑنے دیتا جو غلطکاری کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں کمزور بنا دینگے۔ اگر ہم خود کو کسی ناپاک حالت میں پھنسا لیتے ہیں اور کوئی گناہ کر لیتے ہیں تو ہمیں اُسے الزام نہیں دینا چاہئے، ”کیونکہ نہ تو خدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے۔“ اگرچہ خدا ہماری بہتری کیلئے ہمیں تنبیہ کرنے کی غرض سے کسی آزمائش کی اجازت دے سکتا ہے، وہ ہمیں بُری نیت کیساتھ نہیں آزماتا۔ (عبرانیوں ۱۲:۷-۱۱) شیطان ہمیں غلط کام کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے مگر خدا ہمیں اُس شریر سے بچا سکتا ہے۔—متی ۶:۱۳۔
۱۳. اگر ہم غلط خواہش کو مسترد نہیں کرتے تو کیا واقع ہو سکتا ہے؟
۱۳ ہمیں دُعاگو بننے کی ضرورت ہے کیونکہ کوئی بھی حالت ایسی غلط خواہش کو پیدا کر سکتی ہے جو ہمیں گناہ کرنے کی ترغیب دے سکتی ہے۔ یعقوب بیان کرتا ہے: ”ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔“ اگر ہم نے اپنے دل کو گنہگارانہ خواہش پر سوچنے دیا ہے تو ہم اپنے گناہ کیلئے خدا کو الزام نہیں دے سکتے۔ اگر ہم غلط خواہش کو دل سے نہیں نکالتے تو ’وہ بڑھنے لگتی ہے،‘ ہمارے دل میں پروان چڑھتی ہے اور ”گناہ کو جنتی ہے۔“ جب گناہ سرزد ہو جاتا ہے تو وہ ”موت پیدا کرتا ہے۔“ صاف ظاہر ہے کہ ہمیں اپنے دلوں کی حفاظت کرنے اور گنہگارانہ رغبتوں کی مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے۔ (امثال ۴:۲۳) قائن کو خبردار کِیا گیا تھا کہ گناہ اُس پر غلبہ پانے کو تھا مگر اُس نے مزاحمت نہیں کی تھی۔ (پیدایش ۴:۴-۸) تاہم، اگر ہم غیرصحیفائی روش پر چلنے لگتے ہیں تو پھر کیا ہو؟ اگر مسیحی بزرگ ہماری اصلاح کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہم خدا کے خلاف گناہ نہ کریں تو ہمیں ممنون ہونا چاہئے۔—گلتیوں ۶:۱۔
خدا—اچھی بخششوں کا سرچشمہ
۱۴. کس مفہوم میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا کی بخششیں ”کامل“ ہیں؟
۱۴ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ آزمائشوں کا نہیں بلکہ اچھی چیزوں کا سرچشمہ ہے۔ (یعقوب ۱:۱۶-۱۸) یعقوب ساتھی ایمانداروں کو ”اَے میرے پیارے بھائیو!“ کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ خدا ’ہر اچھی بخشش اور کامل انعام کا عطا کرنے والا ہے۔‘ یہوواہ کی روحانی اور مادی بخششیں ”کامل“ یا مکمل ہیں جن میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں ہے۔ وہ ”اُوپر سے“ آسمان میں خدا کی سکونتگاہ سے آتی ہیں۔ (۱-سلاطین ۸:۳۹) یہوواہ ”نوروں“—سورج، چاند اور ستاروں ”کا باپ“ ہے۔ وہ ہمیں بھی روحانی نور اور سچائی بخشتا ہے۔ (زبور ۴۳:۳؛ یرمیاہ ۳۱:۳۵؛ ۲-کرنتھیوں ۴:۶) سورج کے برعکس جسکی حرکت کیساتھ ساتھ سایے بدلتے رہتے ہیں اور جو ٹھیک بارہ بجے ہی پوری آبوتاب سے چمکتا ہے، خدا ہمیشہ اچھی چیزیں فراہم کرنے کے سلسلے میں عروج پر رہتا ہے۔ اگر ہم اُس کے کلام اور ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کے ذریعے فراہمکردہ روحانی فراہمیوں سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں تو وہ یقینی طور پر ہمیں آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے لیس کریگا۔—متی ۲۴:۴۵۔
۱۵. یہوواہ کی شاندار بخششوں میں سے ایک کیا ہے؟
۱۵ کیا چیز خدا کی شاندار بخششوں میں سے ایک رہی ہے؟ خوشخبری یا ”کلامِحق“ کی مطابقت میں، روحاُلقدس کے وسیلہ سے روحانی بیٹے پیدا کرنا۔ روحانی پیدائش کا تجربہ کرنے والے ”ایک طرح سے پہلے پھل“ ہیں جو آسمانی ”بادشاہی اور کاہن“ بننے کیلئے انسانوں میں سے منتخب کئے جاتے ہیں۔ (مکاشفہ ۵:۱۰؛ افسیوں ۱:۱۳، ۱۴) شاید یعقوب نیسان ۱۶ پر جوکہ یسوع کے زندہ ہونے کی تاریخ تھی نذر کئے جانے والے جَو کے پہلے پھلوں کی بابت سوچ رہا ہو اور پنتِکُست کے دن پر جب روحاُلقدس نازل کی گئی گندم کی دو روٹیوں کے نذر کئے جانے کی بابت سوچ رہا ہو۔ (احبار ۲۳:۴-۱۱، ۱۵-۱۷) اس صورت میں، یسوع پہلا پھل اور اُسکے ہممیراث ”ایک طرح کے پہلے پھل“ ہونگے۔ اگر ہماری اُمید زمینی ہے تو کیا ہے؟ اسے ذہن میں رکھنا ”ہر اچھی بخشش“ کے عطا کرنے والے پر اپنے ایمان کو قائم رکھنے میں ہماری مدد کریگا جس نے بادشاہتی حکمرانی کے تحت ہمیشہ کی زندگی کو ممکن بنایا ہے۔
’کلام پر عمل کرنے والے‘ بنیں
۱۶. ہمیں ’سننے میں تیز اور بولنے اور غصے میں دھیما‘ کیوں ہونا چاہئے؟
۱۶ خواہ ہم اس وقت اپنے ایمان کی آزمائشوں کا تجربہ کر رہے ہیں یا نہیں، ہمیں ”کلام پر عمل کرنے والے“ ہونا چاہئے۔ (یعقوب ۱:۱۹-۲۵) خدا کے کلام پر فرمانبرداری سے عمل کرنے والا بننے کیلئے ہمیں اسے ”سننے میں تیز“ بننے کی ضرورت ہے۔ (یوحنا ۸:۴۷) دوسری طرف، اپنے الفاظ کا بغور جائزہ لیتے ہوئے، ہمیں ”بولنے میں دھیرا“ ہونا چاہئے۔ (امثال ۱۵:۲۸؛ ۱۶:۲۳) شاید یعقوب ہمیں جلدی سے یہ نہ کہنے کی تلقین کر رہا ہو کہ ہماری آزمائشیں خدا کی طرف سے ہیں۔ ہمیں ”قہر میں دھیما“ ہونے کی بھی نصیحت کی گئی ہے؛ ”کیونکہ انسان کا قہر خدا کی راستبازی کا کام نہیں کرتا۔“ اگر ہم کسی کے کچھ کہنے کی وجہ سے ناراض ہیں تو ہمیں ’غصے سے‘ کام نہیں لینا چاہئے اور انتقامپرور جواب دینے سے گریز کرنا چاہئے۔ (افسیوں ۴:۲۶، ۲۷) غضبناک روح جوکہ ہمارے لئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے اور دوسروں کیلئے ایک آزمائش بن سکتی ہے وہ چیز پیدا نہیں کر سکتی جسکا اپنے راست خدا پر ایمان ہم سے تقاضا کرتا ہے۔ مزیدبرآں، اگر ہم کافی ”عقلمند“ ہیں تو ہم ”قہر میں دھیمے“ ہونگے اور ہمارے بھائی اور بہنیں ہماری طرف راغب ہونگے۔—امثال ۱۴:۲۹۔
۱۷. دل اور دماغ سے بُرائی کو نکال دینے سے کیا انجام پاتا ہے؟
۱۷ یقینی طور پر ہمیں ”ساری نجاست“—ہر اُس چیز سے پاک ہونے کی ضرورت ہے جو خدا کو ناپسند ہے اور غصے کو بھڑکاتی ہے۔ علاوہازیں، ہمیں ’بدی کے فضلہ کو دُور‘ کرنا چاہئے۔ ہم سب کو اپنی زندگی میں سے ہر طرح کی جسمانی اور روحانی آلودگی کو خارج کر دینا چاہئے۔ (۲-کرنتھیوں ۷:۱؛ ۱-پطرس ۱:۱۴-۱۶؛ ۱-یوحنا ۱:۹) دلودماغ سے بدی کے اخراج نے ہمیں ”بڑے شوق سے“ سچائی کے ”کلام کو قبول“ کرنے میں مدد دی تھی۔ (اعمال ۱۷:۱۱، ۱۲) اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کتنے عرصہ سے سچائی میں ہیں، ہمیں اَور زیادہ صحیفائی سچائیوں کو اپنے اندر جڑ پکڑنے دینی چاہئے۔ کیوں؟ اسلئے کہ خدا کی روح کے ذریعے، دلنشین کِیا گیا کلام ”نئی انسانیت“ پیدا کرتا ہے جوکہ نجات کا باعث بنتی ہے۔—افسیوں ۴:۲۰-۲۴۔
۱۸. ایک شخص جو کلام کا محض سننے والا ہے اُس شخص سے کیسے فرق ہے جو اس پر عمل بھی کرتا ہے؟
۱۸ ہم کیسے ظاہر کرتے ہیں کہ کلام ہمارا رہبر ہے؟ فرمانبرداری سے ”کلام“ پر ”عمل کرنے والے نہ محض سننے والے“ بننے سے۔ (لوقا ۱۱:۲۸) ”عمل کرنے والے“ ایسا ایمان رکھتے ہیں جو مسیحی خدمتگزاری میں پُرجوش کارگزاری جیسے کاموں اور خدا کے لوگوں کی اجلاسوں میں باقاعدہ شرکت پر منتج ہوتا ہے۔ (رومیوں ۱۰:۱۴، ۱۵؛ عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵) کلام کا محض سننے والا ”اُس شخص کی مانند ہے جو اپنی قدرتی صورت آئینہ میں دیکھتا ہے۔“ وہ نظر ڈالتا ہے، پھر چلا جاتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ اپنی وضعقطع کو درست کرنے کیلئے کس چیز کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ ”کلام پر عمل کرنے“ والوں کے طور پر ہم خدا کی ”کامل شریعت“ کا بغور مطالعہ اور فرمانبرداری کرتے ہیں جو ہر اس بات کا احاطہ کرتی ہے جسکا وہ ہم سے تقاضا کرتا ہے۔ پس جس آزادی سے ہم لطف اُٹھاتے ہیں وہ گناہ اور موت کی غلامی کے بالکل برعکس ہے کیونکہ یہ زندگی کا باعث بنتی ہے۔ پس آئیے ’کامل شریعت پر غور‘ کرتے ہوئے متواتر اسکی جانچپڑتال اور فرمانبرداری کرتے رہیں۔ پس ذرا سوچیں! ’بھولنے والوں کی بجائے کلام پر عمل کرنے والوں‘ کے طور پر ہمیں خدا کی کرمفرمائی پر منتج ہونے والی خوشی حاصل ہے۔—زبور ۱۹:۷-۱۱۔
رسمی پرستاروں سے کہیں زیادہ
۱۹، ۲۰. (ا)یعقوب ۱:۲۶، ۲۷ کے مطابق، پاک پرستش ہم سے کیا تقاضا کرتی ہے؟ (ب) بےعیب پرستش کی چند ایک مثالیں کونسی ہیں؟
۱۹ اگر ہمیں الہٰی کرمفرمائی سے استفادہ کرنا ہے تو ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ سچی پرستش محض ایک رسم نہیں ہے۔ (یعقوب ۱:۲۶، ۲۷) شاید ہم یہ سوچیں کہ ہم یہوواہ کے قابلِقبول ’رسمی پرستار‘ ہیں مگر درحقیقت جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ ہم میں سے ہر ایک کی بابت اُس کا نظریہ ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۴:۴) ایک سنگین نقص ’زبان کو لگام‘ دینے میں ناکامی ہو سکتا ہے۔ اگر ہم دوسروں پر تہمت لگاتے، جھوٹ بولتے یا دیگر طریقوں سے زبان کا غلط استعمال کرتے ہیں تو ہمارا یہ خیال کرنا کہ خدا ہماری پرستش سے خوش ہے محض خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہوگا۔ (احبار ۱۹:۱۶؛ افسیوں ۴:۲۵) یقیناً ہم نہیں چاہتے کہ ہماری ”طرزِعبادت“ ”بیکار“ اور کسی بھی وجہ سے خدا کے حضور ناقابلِقبول ہو۔
۲۰ اگرچہ یعقوب پاک پرستش کے ہر پہلو کو بیان نہیں کرتا، تو بھی وہ بیان کرتا ہے کہ اس میں ’یتیموں اور بیواؤں کی اُنکے مصیبت کے وقت میں خبر لینا‘ شامل ہے۔ (گلتیوں ۲:۱۰؛ ۶:۱۰؛ ۱-یوحنا ۳:۱۸) مسیحی کلیسیا بیواؤں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے خاص توجہ دیتی ہے۔ (اعمال ۶:۱-۶؛ ۱-تیمتھیس ۵:۸-۱۰) چونکہ خدا یتیم اور بیوہ کا محافظ ہے اسلئے ہمیں چاہئے کہ اپنی استطاعت کے مطابق روحانی اور مادی طور پر اُنکی مدد کرتے ہوئے اُسکے ساتھ تعاون کریں۔ (استثنا ۱۰:۱۷، ۱۸) پاک پرستش کا یہ بھی مطلب ہے کہ ”خود کو دُنیا“ یعنی شیطان کے قبضہ میں پڑے ہوئے ناراست انسانی معاشرے سے ”بیداغ رکھیں۔“ (یوحنا ۱۷:۱۶؛ ۱-یوحنا ۵:۱۹) لہٰذا آئیے دُنیا کے بیدین چالچلن سے الگ رہیں تاکہ ہم یہوواہ کو جلال دے سکیں اور اُسکی خدمت کے لائق ثابت ہوں۔—۲-تیمتھیس ۲:۲۰-۲۲۔
۲۱. یعقوب کے خط کے سلسلے میں، مزید کونسے سوالات ہماری توجہ کے مستحق ہیں؟
۲۱ ابھی تک ہم نے یعقوب کی جس مشورت پر غور کِیا ہے اُسے آزمائشوں کو برداشت کرنے اور اپنے ایمان پر قائم رہنے میں ہماری مدد کرنی چاہئے۔ اِسے اچھی بخششوں کے پُرمحبت مُعطی کیلئے ہماری قدردانی کو بڑھانا چاہئے۔ گویا یعقوب کے الفاظ ہمیں پاک پرستش کو اپنا شعار بنانے میں مدد دیتے ہیں۔ وہ اَور کس چیز کو ہماری توجہ میں لاتا ہے؟ یہوواہ پر حقیقی ایمان کو ثابت کرنے کیلئے ہم مزید کونسے اقدام اُٹھا سکتے ہیں؟
[فٹنوٹ]
a اس مضمون اور اسکے بعد کے دو مضامین کے ذاتی یا خاندانی مطالعہ کے دوران آپ یعقوب کے خط کے بیانکردہ ہر ایمانافزا حصے کو پڑھنا بالخصوص مفید پائینگے۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
◻آزمائشوں کو برداشت کرنے میں کیا چیز ہماری مدد کریگی؟
◻آزمائشوں کے باوجود، مسیحی کیوں خوش ہو سکتے ہیں؟
◻ہم کلام پر عمل کرنے والے کیسے بن سکتے ہیں؟
◻پاک پرستش میں کیا کچھ شامل ہے؟
[صفحہ 10 پر تصویر]
”کلام پر عمل کرنے والے“ تمام دُنیا میں خدا کی بادشاہی کی منادی کر رہے ہیں