سوالات از قارئین
▪ کیا ایک مسیحی عورت کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ زیورات یا بناؤسنگار کا استعمال کرے، اپنے بالوں کو رنگ کرے، یا اسی طرح کے دوسرے کام کرے؟
ماضی میں اور ہمارے زمانہ میں بھی، بعض جو بائبل پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں انہوں نے آرائشوزیبائش کی بابت ٹھوس مگر بہت ہی فرق نظریات اپنا لیے ہیں۔a
بعض چرچز کی خواتین مکمل طور پر بناؤسنگار اور زیورات سے گریز کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، دی ایمش پیپل کتاب بیان کرتی ہے کہ وہ ”اپنی جسمانی شکلوشباہت چھپاتی ہیں کیونکہ وہ خیال کرتی ہیں کہ کوئی بھی شخص جو دنیاوی شکلوشباہت میں ازحد دلچسپی رکھتا ہے وہ خطرے میں ہے، اس لیے کہ [اس] دلچسپی کو جسمانی باتوں کی بجائے روحانی باتوں پر مرتکز ہونا چاہیے۔ بعض . . . صحائف کا حوالہ دیں گی۔“
لہذا، ۱-سموئیل ۱۶:۷ کا حوالہ دیا گیا تھا: ”[یہوواہ] نے سموئیل سے کہا کہ تو اس کے چہرہ اور اسکے قد کی بلندی کو نہ دیکھ . . . اس لیے کہ انسان ظاہری صورت کو دیکھتا ہے پر [یہوواہ] دل پر نظر کرتا ہے۔“ تاہم، اس آیت نے داؤد کے بھائی الیاب کے قد کی بلندی کا حوالہ دیا ہے۔ سیاقوسباق سے یہ واضح ہے کہ خدا یہاں آرائشوزیبائش کے پہلوؤں پر بات نہیں کر رہا تھا، جیسے کہ آیا داؤد اور اس کے بھائی نے اپنے بالوں کو سنوارا تھا یا اپنے لباسوں پر کوئی آرائشی چیزیں استعمال کی تھیں۔ پیدایش ۳۸:۱۸، ۲-سموئیل ۱۴:۲۵، ۲۶، لوقا ۱۵:۲۲۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ مسیحیوں کو بالکل سادہ ہونا چاہیے، کسی طرح کا کوئی میک اپ یا زیورات وغیرہ استعمال نہیں کرنے چاہییں، وہ غلط طریقے سے عائدکردہ صحائف استعمال کر کے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ درحقیقت بائبل آرایشوزیبایش کی بابت کوئی تفصیلی معلومات فراہم نہیں کرتی، اور نہ ہی یہ کسی خاص قسم کے بناؤسنگار کے طریقوں کی حمایت کرتی ہے اور نہ ہی کسی کو رد کرتی ہے۔ جو چیز یہ بیان کرتی ہے وہ ہیں معقول رہبر خطوط۔ آیئے ہم ان پر غور کریں اور دیکھیں کہ ان کا اطلاق آج کل کیسے کیا جا سکتا ہے۔
پولس رسول نے الہامی ہدایت دی: ”میں چاہتا ہوں کہ اسی طرح عورتیں حیادار لباس سے شرم اور پرہیزگاری کیساتھ اپنے آپکو سنواریں نہ کہ بال گوندھنے اور سونے اور موتیوں اور قیمتی پوشاک سے۔“ (۱-تیمتھیس ۲:۹) پطرس نے اسی طرح سے لکھا: ”تمہارا سنگار ظاہری نہ ہو یعنی سرگوندھنا اور سونے کے زیور اور طرح طرح کے کپڑے پہننا بلکہ تمہاری باطنی اور پوشیدہ انسانیت حلم اور مزاج کی غربت کی غیرفانی آرایش سے آراستہ رہے کیونکہ خدا کے نزدیک اسکی بڑی قدر ہے۔“ ۱-پطرس ۳:۳، ۴۔
یہاں پر پیش کیے گئے یونانی الفاظ ”سنواریں،“ ”حیادار،“ اور ”سنگار“ کوسموس کی مختلف قسمیں ہیں، جو کہ بنیادی لفظ ”بناؤسنگار،“ سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے ”اپنے رنگ وروپ کو خوبصورت بنانا۔“ پس یہ حوالہجات ایسے سوالات کا جواب دینے میں ہماری مدد کرتے ہیں جو میک اپ یا بناؤسنگار، زیوارت، اور خواتین کی آرایشوزیبایش کے لیے استعمال کی جانے والی دوسری چیزوں کی بابت پوچھے جاتے ہیں۔
کیا پطرس اور پولس کا مطلب یہ تھا کہ مسیحیوں کو اپنے بال گوندھنے، موتیوں اور سونے کے زیورات پہننے، یا توسیع کے ساتھ، بناؤسنگار کا استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے؟ نہیں۔ ایسا دعویٰ کرنے کا مطلب ہو گا کہ مسیحی بہنیں ”کپڑے“ بھی نہ پہنیں۔ جبکہ، تبیتا، جسے پطرس نے زندہ کیا، اسے اس لیے پسند کیا جاتا تھا کیونکہ وہ دوسری بہنوں کے لیے ”کرتے اور کپڑے“ بناتی تھی۔ (اعمال ۹:۳۹) پس، ۱-تیمتھیس ۲:۹ اور ۱-پطرس ۳:۳، ۴ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بہنیں سرگوندھنے، موتیوں، کپڑے پہننے، اور اسی طرح کی دوسری چیزوں سے گریز کریں۔ بلکہ، پولس نسوانی آرایشوزیبایش میں حیاداری اور فرزانگی کی ضرورت پر زور دے رہا تھا۔ پطرس نے ظاہر کیا کہ عورتوں کو اپنے بےایمان شوہروں کو جیتنے کے لیے ظاہری بناؤسنگار یا آرایش پر زور دینے کی بجائے، باطنی انسانیت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
آسان بیان میں، بائبل ایک شخص کی اپنی شکلوشباہت کو بہتر بنانے یا آرایش کی کوششوں کو رد نہیں کرتی۔ خدا کے بعض خادم، مرد اور عورتیں دونوں، زیورات کا استعمال کرتے تھے۔ (پیدایش ۴۱:۴۲، خروج ۳۲:۲، ۳، دانیایل ۵:۲۹) وفادار آستر خوبصورتی کی خاطر ایک جامع غذائی پرہیز کے ساتھ حسنافزا روغنیات، عطریات، اور طہارت کی چیزیں استعمال کرنے پر رضامندہو گئی تھی۔ (آستر ۲:۷، ۱۲، ۱۵، مقابلہ کریں دانیایل ۱:۳-۸۔) خدا نے کہا کہ اس نے اسرائیل کو علامتی طور پر کنگن، طوق، نتھ، اور بالیوں سے آراستہ کیا۔ اس کے سبب سے وہ ”نہایت خوبصورت“ بن گئی تھی۔ حزقیایل ۱۶:۱۱-۱۳۔
تاہم، حزقیایل کا بیان، ظاہری شکلوشباہت پر توجہ مرتکز کرنے کے خلاف ایک سبق پیش کرتا ہے۔ خدا نے کہا: ”تو نے اپنی خوبصورتی پر تکیہ کیا اور اپنی شہرت کے وسیلہ سے بدکاری کرنے لگی اور ہر ایک کے ساتھ جسکا تیری طرف گزر ہوا خوب فاحشہ بنی اور اسی کی ہو گئی۔“ (حزقیایل ۱۶:۱۵، یسعیاہ ۳:۱۶، ۱۹) لہذا، حزقیایل ۱۶:۱۱-۱۵ پولس کی حکمت اور اسکے بعد پطرس کی نصیحت کو ظاہری شکلوشباہت پر زور نہ دینے کی بابت اجاگر کرتا ہے۔ اگر ایک خاتون خود کو زیورات سے آراستہ کرنے کا انتخاب کرتی ہے تو مالیت اور اسٹائل کو حیاداری کی مطابقت میں ہونا چاہیے، اور وہ بہت زیادہ یا بھڑکیلے، دکھاوے کے لیے نہ ہوں۔ یعقوب ۲:۲۔
لیکن ایک مسیحی عورت کے کاسمیٹکس، جیسے کہ سرخی، غازہ، یا آئی شیڈو اور آئیلائینر وغیرہ استعمال کرنے کی بابت کیا ہو؟ اسرائیل اور اس کے گردونواح میں ماہرین آثار قدیمہ کو سنگاردان،اور اس کے ساتھ ساتھ سنگار لگانے کی چیزیں اور آئینے بھی ملے ہیں۔ جی ہاں، قدیم مشرق میں عورتیں سنگار کی ایسی چیزیں استعمال کرتی تھیں جنہوں نے آجکل کی بہت ساری مصنوعات کی پیشبندی کی ہے۔ ایوب کی بیٹی قرنہپوک کے نام کے معنی ”سیاہ (آنکھ) رنگ کا سینگ،“ یا آنکھ کو سجانے کے لیے ایک سنگاردان سے ہیں۔ ایوب ۴۲:۱۳-۱۵۔
بناؤسنگار کی بعض چیزیں اسرائیل میں بھی استعمال ہوتی تھیں، تو بھی بائبل کے نمونے حد سے تجاوز کرنے کے خطرات کو عیاں کرتے ہیں۔ اسرائیل کی ملکہ بننے کے کئی سال بعد تک، ایزبل ”اپنی آنکھوں میں سرمہ لگاتی اور اپنا سر سنوارتی تھی۔“ (۲-سلاطین ۹:۳۰) بعد میں یہ بیان کرتے ہوئے کہ کیسے اسرائیل بتپرست قوموں کی بداخلاقی کا شکار ہوا، خدا نے فرمایا کہ وہ ”زرین زیوروں سے آراستہ، اپنی آنکھوں میں سرمہ لگائے، اپنے آپ کو خوبصورت بناتی تھی۔“ (یرمیاہ ۴:۳۰، حزقیایل ۲۳:۴۰) نہ ہی یہ آیات اور نہ ہی کوئی دوسری آیات یہ کہتی ہیں کہ اپنی وضعقطع کو دلکش بنانے کے لیے مصنوعی چیزیں استعمال کرنا غلط ہے۔ پھربھی، ایزبل کی کہانی یہ بتاتی ہے کہ وہ اپنی آنکھوں کے گرد اتنا زیادہ سرمہ لگاتی تھی کہ دور ہی سے نظر آ جاتا تھا، یاہو نے تو محل کے باہر ہی سے پہچان لیا تھا۔ اس میں کیا سبق موجود ہے؟ کبھی بھی بہت زیادہ، حد سے بڑھ کر، سنگار نہ کریں۔b
بلاشبہ، میک اپ کرنے والی یا زیورات کا استعمال کرنے والی کوئی خاتون شاید ہی اپنے طریقہءکار یا مقدار کی بابت یہ کہے کہ یہ نامناسب ہے۔ تاہم، اس کی بابت کوئی شک نہیں کہ غیرمحفوظ ہونے یا ناجائز فائدہ اٹھانے کی غرض سے تشہیر سے متاثر ہو کر، ایک عورت بہت زیادہ میک اپ استعمال کرنے کی بری عادت میں پڑ سکتی ہے۔ وہ اپنی ظاہری شکلوشباہت کی اتنی عادی ہو سکتی ہے کہ اسے اس کا احساس ہی نہیں رہتا کہ یہ چیز مسیحی عورتوں کی ”حیاداری اور فرزانگی“ کے بالکل برعکس ہے۔ دیکھیں یعقوب ۱:۲۳، ۲۴۔
مانا کہ، ذوق فرق فرق ہوتے ہیں، بعض عورتیں میک اپ یا زیورات کا استعمال بہت کم کرتی ہیں یا بالکل ہی نہیں کرتیں، جبکہ دوسری زیادہ استعمال کرتی ہیں۔ پس یہ دانشمندی نہ ہو گی کہ کسی کے میک اپ یا زیورات کے استعمال کی مختلف مقدار کی بابت کوئی فیصلہ سنایا جائے۔ ایک اور پہلو مقامی رسمورواج ہے۔ یہ کہ بعض اسٹائل کسی دوسرے ملک میں قابل قبول ہیں (یا یہ کہ وہ قدیم زمانے میں عام تھے) ہرگز یہ مطلب نہیں رکھتا کہ وہ مقامی طور پر بھی مناسب ہیں۔
ایک دانشمند مسیحی خاتون وقتاًفوقتاً اپنی آرایشوزیبایش کا جائزہ لیتی رہے گی، اور دیانتداری سے خود سے یہ سوال کرتی رہے گی: ”کیا میں عموماً اپنے علاقے کے دوسرے مسیحیوں سے زیادہ (یا بڑے) زیورات پہنتی یا میک اپ استعمال کرتی ہوں؟ کیا میں اپنے بناؤسنگار میں اپنی ذات سے عشق کرنے والے مدنیتطبع لوگوں یا فلمی ستاروں کی نقل کرتی ہوں، یا کیا میں زیادہتر ۱-تیمتھیس ۲:۹ اور ۱-پطرس ۳:۳، ۴ میں درج نصیحت پر عمل کرتی ہوں؟ جیہاں، کیا میری آرایشوزیبایش درحقیقت حیادار ہے جو کہ دوسروں کی رائے اور احساسات کے لیے حقیقی قدر کو ظاہر کرتی ہے؟“ امثال ۳۱:۳۰۔
جن عورتوں کے شوہر مسیحی ہیں وہ ان سے مشورت اور رائے لے سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ، جب اس کی مخلصانہ تلاش کی جاتی ہے تو بہنوں سے بھی مفید مشورت حاصل کی جا سکتی ہے۔ کسی دوست کی طرف رخ کرنے کی بجائے جس کی کہ ویسی ہی پسند ہو، یہ بہتر ہو سکتا ہے کہ بڑی عمر کی بہنوں سے بات کی جائے جن کی دانشمندی اور توازن کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ (مقابلہ کریں ۱-سلاطین ۱۲:۶-۸۔) بائبل یہ کہتی ہے کہ عمررسیدہ بزرگ عورتیں ”جوان عورتوں کو سکھائیں . . . کہ متقی اور پاک دامن ہوں، . . . تاکہ خدا کا کلام بدنام نہ ہو۔“ (ططس ۲:۲-۵) کوئی بھی پختہ مسیحی (بہن) نہیں چاہے گی کہ اس کی طرف سے زیورات یا سنگار کا ناشائستہ استعمال خدا کے کلام اور اسکے لوگوں کے ”بدنام ہونے کا“ سبب بنے۔
تمر کی بابت بائبل کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ عورت کا بناؤسنگار پرزور پیغام دیکر، اسکی بابت اشارہ دے سکتا ہے۔ (پیدایش ۳۸:۱۴، ۱۵) مسیحی عورت کے بالوں کا اسٹائل اور بالوں کا رنگ (اگر رنگے ہوئے ہیں) یا اسکی طرف سے زیورات اور سنگھار کا استعمال کیا پیغام دیتا ہے؟ کیا یہ ہے: یہ ایک پاک، شائستہ، اور خدا کی متوازن خادمہ ہے؟
جو کوئی مسیحیوں کو میدانی خدمتگزاری میں دیکھتا ہے، یا جو ہمارے اجلاسوں پر آتا ہے، ان پر پسندیدہ اثر ہونا چاہیے۔ مشاہدین پر اکثر اثر ہوتا ہے۔ زیادہتر مسیحی عورتیں ایک باہر والے شخص کے لیے یہ نتیجہ اخذ کرنے کا سبب نہیں بنتیں کہ ایک طرف تو وہ، پرانی وضع کی دقیانوسی ہیں، یا دوسری طرف، بہت ہی بنیسنوری یا زیبوزینت والی ہیں، بلکہ یہ کہ وہ ”خدا پرستی کا اقرار کرنے والی عورتوں کی طرح“ خود کو سنوارتی ہیں۔ ۱-تیمتھیس ۲:۱۰۔ (۳۰ ۶/۱ w۹۱)
[فٹنوٹ]
a تیسری صدی سن عام میں، ٹرٹولین نے یہ دعویٰ کیا کہ عورتیں ”جو اپنی جلد پر ادویات لگاتی ہیں، اپنی گالوں پر غازہ لگاتی ہیں، اپنی آنکھوں کو خوبصورت بنانے کے لیے [کالا] سرمہ لگاتی ہیں، وہ [خدا] کے خلاف گناہ کرتی ہیں۔“ اس نے ان پر بھی تنقید کی جو اپنے بالوں کو رنگتی ہیں۔ متی ۵:۳۶ میں یسوع کے الفاظ کا غلط اطلاق کرتے ہوئے، ٹرٹولین نے یہ الزام لگایا: ”دیکھو!“ وہ خداوند کو جھوٹا ٹھہراتی ہیں! وہ کہتی ہیں، ”سفید یا کالے کی بجائے، ہم [اپنے بالوں] کو سنہرا بنائیں گی۔“ اس نے مزید یہ اضافہ کیا: ”آپ کو ایسے لوگ بھی ملیں گے جو اپنے بوڑھا ہونے سے بھی شرماتے ہیں، اور اپنے سفید بالوں کو کالا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔“ یہ ٹرٹولین کی ذاتی رائے تھی۔ لیکن وہ چیزوں کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہا تھا، کیونکہ اس کی ساری بحث اس کے اس نظریہ پر مبنی تھی کہ عورتیں ہی انسانوں پر آنے والے سارے عذاب کی ذمہ دار ہیں، ”اس لیے انہیں اس فضیحت کی وجہ سے جو پہلے گناہ کے سبب سے ہوئی، سارا وقت حوا کی طرح، افسردہ اور پشیمان حالت میں رہنا چاہیے۔“ بائبل ایسی کوئی بات نہیں کہتی، خدا نے آدم کو نوعانسانی کی گنہگارانہ حالت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ رومیوں ۵:۱۲-۱۴، ۱-تیمتھیس ۲:۱۳، ۱۴۔
b زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ ریاستہائے متحدہ کے نیوز میڈیا نے ایک ٹیوی اونجیلسٹ کی بابت ایک شرمناک واقعہ کو بڑا اچھالا، جبکہ اس کی ساتھی مبشر بیوی بہت زیادہ توجہ کا مرکز بن گئی۔ نشری اطلاعات کے مطابق، اس کی پرورش اس عقیدے کے ساتھ ہوئی تھی کہ ”میک اپ اور موویز دونوں“ گنہگارانہ چیزیں ہیں، تو بھی بعدازاں اس نے اپنے موقف کو تبدیل کر لیا اور انتہائی شرمناک ”میک اپ کے لیے مشہور ہو گئی جو اتنا گاڑھا تھا کہ وہ مجسمہ لگتی تھی۔“