”ہوشیار رہو“
”سب چیزوں کا خاتمہ جلد ہونے والا ہے۔ پس ہوشیار رہو اور دُعا کرنے کے لئے تیار۔“—۱-پطر ۴:۷۔
۱. یسوع مسیح کی تعلیمات کا موضوع کیا تھا؟
جب یسوع مسیح زمین پر تھا تو اُس کی تعلیمات کا موضوع خدا کی بادشاہت تھا۔ اِس بادشاہت کے ذریعے یہوواہ خدا اپنے نام کو پاک ٹھہرائے گا اور ثابت کرے گا کہ وہ ہی کائنات پر حکمرانی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اِس وجہ سے یسوع نے اپنے شاگردوں کو یوں دُعا کرنا سکھائی: ”تیرا نام پاک مانا جائے۔ تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔“ (متی ۴:۱۷؛ ۶:۹، ۱۰) یہ بادشاہت بہت جلد شیطان کی دُنیا کو تباہ کر دے گی۔ اِس بادشاہت کی نگرانی میں زمین پر خدا کی مرضی پوری ہوگی۔ دانیایل نبی نے پیشینگوئی کی کہ خدا کی بادشاہت ”اِن تمام [موجودہ] مملکتوں کو ٹکڑےٹکڑے اور نیست کرے گی اور وہی ابد تک قائم رہے گی۔“—دان ۲:۴۴۔
۲. (ا) یسوع کے پیروکار کیسے جان سکتے ہیں کہ اُس نے حکمرانی کرنا شروع کر دی؟ (ب) اِس نشان سے اَور کیا ظاہر ہوتا ہے؟
۲ یسوع کے شاگرد خدا کی بادشاہت کو اتنا اہم خیال کرتے تھے کہ اُنہوں نے یسوع سے پوچھا: ”تیرے آنے اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہوگا؟“ (متی ۲۴:۳) جب یسوع نے آسمان پر حکمرانی کرنا شروع کی تو یہ انسانی آنکھوں سے پوشیدہ تھا۔ اِس لئے انسانوں کو یسوع کی موجودگی کا نشان دیا گیا۔ خدا کے کلام میں اِس نشان کے مختلف پہلو بتائے گئے ہیں۔ اِن کو دیکھ کر یسوع کے پیروکار جان سکتے ہیں کہ یسوع نے حکمرانی کرنا شروع کر دی ہے۔ اِس نشان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان کی بُری دُنیا کا ”اخیر زمانہ“ شروع ہو گیا ہے۔—۲-تیم ۳:۱-۵، ۱۳؛ متی ۲۴:۷-۱۴۔
اخیر زمانے میں ہوشیار رہیں
۳. یسوع کے شاگردوں کو ہوشیار رہنے کی ضرورت کیوں تھی؟
۳ پطرس رسول نے لکھا: ”سب چیزوں کا خاتمہ جلد ہونے والا ہے۔ پس ہوشیار رہو اور دُعا کرنے کے لئے تیار۔“ (۱-پطر ۴:۷) یسوع کے شاگردوں کو اِس لئے ہوشیار رہنے کی ضرورت تھی تاکہ وہ دُنیا میں ہونے والے واقعات سے پہچان سکیں کہ اُس نے حکمرانی کرنا شروع کر دی ہے۔ اور جوں جوں اِس دُنیا کا خاتمہ نزدیک ہوتا جا رہا ہے، اُنہیں پہلے سے بھی زیادہ چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا: ”جاگتے رہو کیونکہ تُم نہیں جانتے کہ گھر کا مالک [شیطان کی دُنیا کی عدالت کرنے کے لئے] کب آئے گا۔“—مر ۱۳:۳۵، ۳۶۔
۴. دُنیا میں ہونے والے واقعات کے سلسلے میں یہوواہ کے گواہوں اور دوسرے لوگوں کی سوچ میں کیا فرق ہے؟ (بکس کو بھی دیکھیں۔)
۴ زیادہتر لوگ شیطان کی مٹھی میں ہیں اور دُنیا میں ہونے والے واقعات کی اہمیت نہیں سمجھتے۔ وہ یہ نہیں پہچانتے کہ یسوع مسیح نے حکمرانی کرنا شروع کر دی ہے۔ لیکن سچے مسیحی ہوشیار رہے ہیں، اِس لئے وہ پچھلی صدی میں ہونے والے واقعات کی اہمیت سمجھ گئے ہیں۔ سن ۱۹۲۵ میں یہوواہ کے گواہ سمجھ گئے کہ پہلی عالمی جنگ اور اِس کے بعد ہونے والے واقعات اِس بات کا ثبوت ہیں کہ ۱۹۱۴ میں یسوع کی حکمرانی شروع ہو گئی۔ وہ یہ بھی سمجھ گئے کہ اسی سال میں شیطان کی بُری دُنیا کا آخری زمانہ شروع ہو گیا۔ بہتیرے لوگ اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پہلی عالمی جنگ سے پہلے کا دَور اور اِس کے بعد کے دَور میں بڑا فرق تھا لیکن وہ اِس بات کی اہمیت نہیں سمجھتے ہیں۔—بکس ”ہنگامہخیز دَور“ کو دیکھیں۔
۵. ہمیں چوکس رہنے کی ضرورت کیوں ہے؟
۵ تقریباً ایک صدی سے دُنیا میں بڑے ہولناک واقعات پیش آ رہے ہیں۔ اِن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم واقعی آخری زمانے میں رہ رہے ہیں۔ جلد ہی یہوواہ خدا یسوع کو حکم کرے گا کہ وہ اپنے طاقتور فرشتوں کے ساتھ شیطان کی دُنیا کو ختم کر دے۔ (مکا ۱۹:۱۱-۲۱) بائبل میں سچے مسیحیوں کو جاگتے رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ یہ اِس لئے ضروری ہے کیونکہ اِس دُنیا کا خاتمہ نزدیک ہے۔ (متی ۲۴:۴۲) ہمیں چوکس رہنا چاہئے اور دُنیابھر میں اُس خاص کام کو انجام دینا چاہئے جس کا حکم یسوع مسیح نے کِیا تھا۔
دُنیابھر میں ہونے والا خاص کام
۶، ۷. آخری زمانے میں منادی کے کام میں کتنی ترقی ہوئی ہے؟
۶ یسوع مسیح نے یہوواہ کے خادموں کو جو خاص کام سونپا ہے یہ آخری زمانے کے نشان کا ایک پہلو ہے۔ یسوع مسیح نے پیشینگوئی کی: ”بادشاہی کی اِس خوشخبری کی مُنادی تمام دُنیا میں ہوگی تاکہ سب قوموں کے لئے گواہی ہو۔ تب خاتمہ ہوگا۔“—متی ۲۴:۱۴۔
۷ اِس پیشینگوئی کے سلسلے میں کچھ حقائق پر غور کریں۔ سن ۱۹۱۴ میں جب آخری زمانہ شروع ہوا تو اُن لوگوں کی تعداد بہت کم تھی جو بادشاہت کی منادی کر رہے تھے۔ لیکن آج اِن کی تعداد ۷۰ لاکھ سے زیادہ ہے۔ دُنیابھر میں یہوواہ کے گواہوں کی ایک لاکھ سے زیادہ کلیسیائیں ہیں۔ سن ۲۰۰۸ میں یسوع مسیح کی موت کی یادگاری پر یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ ایک کروڑ لوگ جمع ہوئے۔ اِس کا مطلب ہے کہ ۲۰۰۷ کی نسبت ۲۰۰۸ میں حاضرین کی کُل تعداد میں بڑا اضافہ ہوا۔
۸. مخالفت کے باوجود منادی کا کام کیوں کامیاب رہا ہے؟
۸ حالانکہ شیطان ’اِس جہان کا خدا ہے‘ لیکن اِس کے باوجود خدا کی بادشاہت کی منادی سب قوموں میں کی جا رہی ہے۔ (۲-کر ۴:۴) دُنیا کے تمام سیاسی، مذہبی اور تجارتی نظام شیطان کے قبضے میں ہیں۔ اِس کے علاوہ ٹیوی، انٹرنیٹ، اخباروں وغیرہ میں بھی اکثر شیطان کی سوچ کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اِن مشکلات کے باوجود یہوواہ کے گواہوں کا منادی کا کام اتنا کامیاب کیوں رہا ہے؟ یہ کام اِس لئے کامیاب رہا ہے کیونکہ اُنہیں یہوواہ خدا کی مدد حاصل ہے۔ اِس وجہ سے شیطان اِس کام کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔
۹. منادی کے کام کے سلسلے میں جو ترقی ہو رہی ہے یہ ایک معجزے سے کم کیوں نہیں؟
۹ منادی کے کام میں مسلسل ترقی ہو رہی ہے، یہوواہ کے گواہوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور بائبل کی سچائیوں کے بارے میں اُن کا علم بھی بڑھ رہا ہے۔ یہ تمام باتیں ایک معجزے سے کم نہیں ہیں۔ خدا کی مدد، راہنمائی اور تحفظ کے بغیر یہ سب ممکن نہ ہوتا۔ (متی ۱۹:۲۶ کو پڑھیں۔) یہوواہ کی پاک روح ایسے چوکس لوگوں کے دلوں پر اثر کرتی ہے جو اُس کی خدمت کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ لوگ منادی کے کام کو اُس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ”خاتمہ ہوگا۔“ یہ بہت جلد واقع ہوگا۔
”بڑی مصیبت“
۱۰. یسوع مسیح نے بڑی مصیبت کے بارے میں کیا کہا؟
۱۰ اِس دُنیا کا خاتمہ ”بڑی مصیبت“ کے ذریعے آئے گا۔ (مکا ۷:۱۴) بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ مصیبت کتنے عرصے کے لئے رہے گی لیکن یسوع نے کہا تھا: ”اُس وقت اَیسی بڑی مصیبت ہوگی کہ دُنیا کے شروع سے نہ اب تک ہوئی نہ کبھی ہوگی۔“ (متی ۲۴:۲۱) یوں تو اِس دُنیا پر بڑی بڑی مصیبتیں آ چکی ہیں مثلاً دوسری عالمی جنگ جس میں ۵ تا ۶ کروڑ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لیکن ”بڑی مصیبت“ اِن تمام مصیبتوں سے کہیں زیادہ شدید ہوگی۔ اِس کے آخر میں ہرمجدون کی لڑائی ہوگی۔ تب یہوواہ خدا اپنے آسمانی لشکروں کو حکم کرے گا کہ وہ شیطان کی دُنیا کے ہر پہلو کو تباہوبرباد کر دیں۔—مکا ۱۶:۱۴، ۱۶۔
۱۱، ۱۲. بڑی مصیبت کس واقعہ سے شروع ہوگی؟
۱۱ بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ بڑی مصیبت کا پہلا مرحلہ کس دن شروع ہوگا۔ لیکن اِس میں یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ یہ کس واقعہ سے شروع ہوگا۔ اُس وقت دُنیا کا سیاسی نظام تمام جھوٹے مذاہب کو تباہ کر دے گا۔ بائبل میں اِس بات کا ذکر مکاشفہ ۱۷ اور ۱۸ باب میں کِیا گیا ہے۔ اِن ابواب میں جھوٹے مذاہب کو ایک کسبی سے تشبیہ دی گئی ہے جو دُنیا کے سیاسی نظام کے ساتھ حرامکاری کرتی ہے۔ البتہ مکاشفہ ۱۷:۱۶ میں بتایا گیا ہے کہ بہت جلد سیاستدان ”اُس کسبی سے عداوت رکھیں گے اور اُسے بیکس اور ننگا کر دیں گے اور اُس کا گوشت کھا جائیں گے اور اُس کو آگ میں جلا ڈالیں گے۔“
۱۲ جب یہ وقت آ پہنچے گا تو”خدا اُن [سیاستدانوں] کے دلوں میں یہ ڈالے گا کہ وہ اُسی کی رای پر چلیں۔“ (مکا ۱۷:۱۷) لہٰذا جھوٹے مذاہب کی تباہی کے پیچھے خدا کا ہاتھ ہوگا۔ وہ ہی اُن ریاکار مذاہب کی عدالت کرے گا جنہوں نے جھوٹی تعلیمات کو فروغ دیا ہے اور اُس کے خادموں کو اذیت پہنچائی ہے۔ زیادہتر لوگوں کو اِس بات کی توقع نہیں ہے کہ جھوٹے مذاہب کو تباہ کر دیا جائے گا لیکن یہوواہ کے گواہوں کو اِس بات کا یقین ہے اور وہ دوسرے لوگوں کو اِس بات سے آگاہ کر رہے ہیں۔
۱۳. ہم کیسے جانتے ہیں کہ جھوٹے مذاہب کو بڑی تیزی سے ختم کر دیا جائے گا؟
۱۳ جھوٹے مذاہب کی تباہی دیکھ کر لوگ دنگ رہ جائیں گے۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ’زمین کے بادشاہوں‘ میں سے بعض بھی اِس تباہی کو دیکھ کر کہیں گے: ”افسوس! افسوس! گھڑی ہی بھر میں تجھے سزا مل گئی۔“ (مکا ۱۸:۹، ۱۰، ۱۶، ۱۹) غور کریں کہ یہ واقعہ ”گھڑی ہی بھر میں“ ہوگا۔ اِس کا مطلب ہے کہ جھوٹے مذاہب کو بڑی تیزی سے ختم کر دیا جائے گا۔
۱۴. جب یہوواہ خدا کے دُشمن اُس کے خادموں پر حملہ کریں گے تو وہ کیا کرے گا؟
۱۴ جھوٹے مذاہب کی تباہی کے کچھ عرصے بعد شیطان کے حامی یہوواہ کے خادموں پر حملہآور ہوں گے۔ (حز ۳۸:۱۴-۱۶) اُس وقت یہوواہ خدا کا غضب اُن پر بھڑکے گا۔ یہوواہ نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ اپنے خادموں کی حفاظت کرے گا۔ اُس نے اپنے کلام میں کہا: ”مَیں نے اپنی غیرت اور آتشِقہر میں فرمایا کہ . . . وہ جانیں گے کہ [یہوواہ] خدا مَیں ہوں۔“ (حزقیایل ۳۸:۱۸-۲۳ کو پڑھیں۔) اِس کے علاوہ خدا نے اپنے کلام میں اپنے خادموں سے یہ وعدہ بھی کِیا ہے: ”جو کوئی تُم کو چُھوتا ہے میری آنکھ کی پتلی کو چُھوتا ہے۔“ (زک ۲:۸) جب یہوواہ خدا کے دُشمن اُس کے خادموں پر حملہ کریں گے تو یہوواہ اُن کے خلاف فوراً کارروائی کرے گا۔ تب بڑی مصیبت کا آخری مرحلہ شروع ہوگا یعنی ہرمجدون کی لڑائی۔ یہوواہ خدا کے حکم پر عمل کرتے ہوئے یسوع مسیح اپنے فرشتوں کے ساتھ شیطان کی دُنیا کو ختم کر دے گا۔
ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۱۵. یہ جانتے ہوئے کہ اِس دُنیا کا خاتمہ نزدیک ہے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۱۵ یہ جانتے ہوئے کہ اِس دُنیا کا خاتمہ نزدیک ہے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ پطرس رسول نے لکھا: ”جب یہ سب چیزیں اِس طرح پگھلنے والی ہیں تو تمہیں پاک چالچلن اور دینداری میں کیسا کچھ ہونا چاہئے۔“ (۲-پطر ۳:۱۱) اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں اِس بات پر دھیان دینا چاہئے کہ ہمارا چالچلن خدا کے معیاروں کے مطابق ہو۔ اِس کے علاوہ ہمیں دیندار ہونا چاہئے یعنی ایسے کام کرنے چاہئیں جن سے ظاہر ہو کہ ہمیں یہوواہ خدا سے دلی محبت ہے۔ اِن کاموں میں یہ شامل ہے کہ ہم بادشاہت کی منادی کو زندگی میں پہلا درجہ دیں۔ پطرس رسول نے یہ بھی لکھا: ”سب چیزوں کا خاتمہ جلد ہونے والا ہے۔ پس . . . دُعا کرنے کے لئے تیار [رہو]۔“ (۱-پطر ۴:۷) ہمیں یہوواہ خدا کے نزدیک جانا چاہئے اور باقاعدگی سے دُعا کرنے سے اُس کے لئے اپنی محبت ظاہر کرنی چاہئے۔ ہمیں یہ دُعا کرنی چاہئے کہ وہ اپنی پاک روح اور اپنی تنظیم کے ذریعے ہماری راہنمائی کرے۔
۱۶. ہمیں افسیوں ۵:۱۵، ۱۶ میں درج خدا کی ہدایت پر کیوں عمل کرنا چاہئے؟
۱۶ اِس بُرے دَور میں ہمیں خدا کی اِس ہدایت پر عمل کرنا چاہئے: ”غور سے دیکھو کہ کس طرح چلتے ہو۔ نادانوں کی طرح نہیں بلکہ داناؤں کی مانند چلو۔ اور وقت کو غنیمت جانو کیونکہ دن بُرے ہیں۔“ (افس ۵:۱۵، ۱۶) تاریخ کے کسی دَور میں اِس حد تک بدکاری نہیں پائی گئی جتنی کہ آج پائی جاتی ہے۔ شیطان یہ نہیں چاہتا کہ لوگ یہوواہ خدا کی مرضی بجا لائیں اِس لئے وہ اُن کا دھیان بٹانے کے لئے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ سچے مسیحی اِس بات سے آگاہ ہیں اور وہ محتاط رہتے ہیں تاکہ کچھ بھی اُنہیں خدا کی مرضی بجا لانے سے نہ روک سکے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مستقبل میں کیا واقع ہونے والا ہے اور ہم اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے وعدے پورے کرے گا۔—۱-یوحنا ۲:۱۵-۱۷ کو پڑھیں۔
۱۷. جو لوگ ہرمجدون میں سے زندہ بچ نکلیں گے، وہ اُس وقت کیسا محسوس کریں گے جب مُردے زندہ کئے جائیں گے؟
۱۷ جلد ہی خدا کا یہ وعدہ بھی پورا ہوگا کہ ”راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہوگی“ یعنی مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا۔ (اعما ۲۴:۱۵) اِس وعدے کی تکمیل کے سلسلے میں یہوواہ خدا نے کہا: ”تیرے مُردے جی اُٹھیں گے۔ . . . تُم جو خاک میں جا بسے ہو جاگو اور گاؤ کیونکہ . . . زمین مُردوں کو اُگل دے گی۔“ (یسع ۲۶:۱۹) یہ پیشینگوئی پہلی مرتبہ تب پوری ہوئی جب بنیاسرائیل اپنے وطن واپس لوٹ آئے۔ اِس لئے ہم اِس بات پر بھروسا کر سکتے ہیں کہ یہ پیشینگوئی فردوس میں بھی پوری ہوگی۔ جب مُردے زندہ ہوں گے تو بڑی خوشی کا وقت ہوگا۔ جیہاں، شیطان کی دُنیا کا خاتمہ نزدیک ہے۔ جلد ہی یہ دُنیا فردوس بن جائے گی۔ بِلاشُبہ ہمیں چوکس اور ہوشیار رہنے کی اشد ضرورت ہے۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
• یسوع مسیح کی تعلیمات کا موضوع کیا تھا؟
• آخری زمانے میں منادی کے کام میں کتنی ترقی ہوئی ہے؟
• ہمیں چوکس اور ہوشیار رہنے کی ضرورت کیوں ہے؟
• اعمال ۲۴:۱۵ میں پائے جانے والے وعدے کو پڑھ کر آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟
[صفحہ ۱۶، ۱۷ پر بکس/تصویر]
ہنگامہخیز دَور
سن ۲۰۰۷ میں مصنف ایلن گرینسپین کی کتاب بعنوان ہنگامہخیز دَور: ایک بدلی ہوئی دُنیا کے قصے شائع ہوئی (یہ کتاب انگریزی میں دستیاب ہے)۔ وہ ۲۰ سال تک اُس کمیٹی کے صدر رہے ہیں جو امریکی بینکوں کے نظام کی نگرانی کرتی ہے۔ اِس مصنف نے اپنی کتاب میں بتایا کہ ۱۹۱۴ کے بعد دُنیا کے حالات میں کتنی تبدیلی آئی۔ اُنہوں نے لکھا:
”سن ۱۹۱۴ سے پہلے یوں لگ رہا تھا کہ معاشرے میں بہتری آتی جائے گی اور ٹیکنالوجی میں ترقی ہوتی جائے گی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ انسانی معاشرہ عروج تک پہنچ جائے گا۔ اُنیسویں صدی میں لوگوں کو غلاموں کے طور پر فروخت کرنے کی روایت کو ختم کر دیا گیا۔ ظلموتشدد میں نمایاں کمی آئی۔ . . . اُنیسویں صدی میں بہت سی چیزیں ایجاد ہوئیں مثلاً ریلگاڑی، ٹیلیفون، لائٹ بلب، سنیما، گاڑی وغیرہ۔ میدانِطب میں ترقی ہونے سے اور اچھی خوراک اور صاف پانی مہیا ہونے سے لوگ زیادہ عرصے تک زندہ رہنے کی اُمید رکھ سکتے تھے۔ . . . سب لوگوں کا خیال تھا کہ یہ ترقی اور خوشحالی جاری رہے گی۔“
پھر پہلی عالمی جنگ شروع ہو گئی!
”دوسری عالمی جنگ کی نسبت پہلی عالمی جنگ نے لوگوں کی سوچ اور اُن کے طورطریقوں پر زیادہ منفی اثر ڈالا۔ اِس جنگ نے لوگوں کی قدروں کو تباہ کر دیا۔ مَیں پہلی عالمی جنگ سے پہلے کی دُنیا کو نہیں بھلا سکتا۔ اُس وقت ایسا لگتا تھا کہ مستقبل روشن ہے اور انسان ترقی کی حد کو چُھو لے گا۔ لیکن آج ہماری توقعات اُن دِنوں سے بہت فرق ہیں کیونکہ ہم حقائق سے آگاہ ہیں۔ کیا دہشتگردی، بڑھتے ہوئے درجۂحرارت اور فسادات کی وجہ سے ہمارے دَور میں اتنی ہی تبدیلیاں آئیں گی جتنی کہ پہلی عالمی جنگ کی وجہ سے آئیں؟ اِس سوال کا جواب کوئی بھی نہیں جانتا۔“
اُن دِنوں کو یاد کرتے ہوئے جب وہ طالبعلم تھے، ایلن گرینسپین اپنے معاشیات کے پروفیسر کے اِس بیان کا ذکر کرتے ہیں: ”جن لوگوں نے پہلی عالمی جنگ سے پہلے ہوش سنبھالا، وہ اِس جنگ سے پہلے والے زمانے کو بڑے شوق سے یاد کرتے ہیں۔ اُس وقت اطمینان کا ایسا دَور تھا جو پھر سے دیکھنے میں نہیں آیا۔“—پروفیسر بینجمن اینڈرسن (۱۸۸۶-۱۹۴۹)۔
سن ۲۰۰۶ میں مصنف جیرلڈ مائر نے اپنی کتاب میں کچھ اسی طرح کا نتیجہ اخذ کِیا: ”اکثر کہا جاتا ہے کہ ایک واقعہ کی وجہ سے تاریخ کا رُخ مڑ گیا۔ اور پہلی عالمی جنگ [۱۹۱۴-۱۹۱۸] کے سلسلے میں یہ واقعی سچ ثابت ہوا۔ اِس جنگ نے سب کچھ بدل دیا: نہ صرف سرحدوں کو اور حکومتوں اور قوموں کے نصیب کو بلکہ اِس بات کو بھی کہ لوگ خود کو اور دُنیا کو کیسا خیال کرتے ہیں۔ یہ جنگ وقت میں ایک خلا کی طرح تھی کیونکہ اِس جنگ سے پہلے والے زمانے اور اِس کے بعد والے زمانے میں کوئی مشابہت نہیں۔“
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
ہرمجدون میں یہوواہ خدا اپنے طاقتور فرشتوں کو کارروائی کرنے کا حکم دے گا