کیا آپ وفادار مختار ہیں؟
”تُم اپنے نہیں۔“—۱-کر ۶:۱۹۔
آپ اِن سوالوں کے کیا جواب دیں گے؟
پُرانے زمانے میں مختار کونسی ذمہداریاں انجام دیتے تھے؟
خدا کے مختاروں کے طور پر ہم سب کو کونسی ذمہداریاں دی گئی ہیں؟
مختاروں کے طور پر ہمیں اپنی ذمہداریوں کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟
۱. جب لوگ لفظ نوکر سنتے ہیں تو اُن کے ذہن میں کیا آتا ہے؟
جب آپ لفظ نوکر سنتے ہیں تو آپ کے ذہن میں کیا آتا ہے؟ بہت سے لوگ شاید ایک ایسے شخص کے بارے میں سوچیں جو بہت ادنیٰ ہے؛ جو ہر کام اپنی مرضی سے نہیں کر سکتا اور جسے اُس کی محنت کا پھل نہیں ملتا۔ اِسی وجہ سے کوئی بھی اپنی خوشی سے کسی کا نوکر نہیں بنتا۔
۲، ۳. (الف) یسوع مسیح کے شاگرد اگرچہ نوکروں کی طرح خدمت کریں گے پھر بھی اُنہیں کیسا خیال کِیا جائے گا؟ (ب) اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟
۲ یسوع مسیح نے اشارہ دیا تھا کہ اُن کے شاگرد نوکروں کی طرح خدمت کریں گے۔ لیکن اُن کا مالک اُنہیں حقیر نہیں سمجھے گا اور اُن کے ساتھ بُرا سلوک نہیں کرے گا۔ اِس کی بجائے وہ اُن پر بھروسا کرے گا اور اُنہیں ذمہداریاں سونپے گا۔ مثال کے طور پر اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے یسوع مسیح نے ایک ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کا ذکر کِیا۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ اِس نوکر کو ذمہداریاں سونپیں گے۔—متی ۲۴:۴۵-۴۷۔
۳ دلچسپی کی بات ہے کہ لوقا کی اِنجیل میں اِسی نوکر کو ”داروغہ“ کہا گیا ہے۔ (لوقا ۱۲:۴۲-۴۴ کو پڑھیں۔) اِن آیتوں میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ داروغہ کِیا گیا ہے، وہ مختار کے معنی بھی رکھتا ہے۔ آجکل زیادہتر مسیحی اِس وفادار داروغہ جماعت کا حصہ نہیں ہیں۔ لیکن پاک کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے تمام بندے مختاروں کی حیثیت سے اُس کی خدمت کرتے ہیں۔ مختاروں کے طور پر ہماری ذمہداریاں کیا ہیں؟ ہمیں اِن ذمہداریوں کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟ اِن سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے لئے آئیں، دیکھیں کہ پُرانے زمانے میں مختار کیا ذمہداریاں انجام دیتے تھے۔
ایک مختار کی ذمہداریاں
۴، ۵. مثالوں سے واضح کریں کہ پُرانے زمانے میں مختار کونسی ذمہداریاں انجام دیتے تھے؟
۴ پُرانے زمانے میں مختار ایک ایسا نوکر ہوتا تھا جو اپنے مالک کے گھریلو اور کاروباری معاملات کی دیکھبھال کرتا تھا۔ وہ اپنے مالک کی جائیداد اور روپے پیسے کو سنبھالتا تھا اور دوسرے نوکروں کی نگرانی کرتا تھا۔ مثال کے طور پر الیعزر، ابرہام کے گھر کے مختار تھے جنہیں بھاری ذمہداریاں سونپی گئی تھیں۔ غالباً الیعزر ہی وہ نوکر تھے جنہیں ابرہام نے مسوپتامیہ بھیجا تاکہ وہ وہاں سے اِضحاق کے لئے دلہن لے کر آئیں۔ یہ واقعی بہت بڑی ذمہداری تھی۔—پید ۱۳:۲؛ ۱۵:۲؛ ۲۴:۲-۴۔
۵ ابرہام کے پڑپوتے یوسف، فوطیفار کے گھر کے مختار تھے۔ (پید ۳۹:۱، ۲، ۴) بعد میں یوسف نے اپنے گھر کے لئے بھی ایک مختار مقرر کِیا۔ اِسی مختار نے یوسف کے دس بھائیوں کے کھانےپینے کا اِنتظام کِیا تھا۔ جب یوسف نے اپنے بھائیوں کو آزمانے کے لئے اُن پر چاندی کا پیالہ چوری کرنے کا الزام لگایا تو اِس منصوبے میں اُن کے مختار نے ایک اہم کردار ادا کِیا تھا۔ بِلاشُبہ پُرانے زمانے میں مالک اپنے گھر کے مختار پر بہت بھروسا کرتے تھے۔—پید ۴۳:۱۹-۲۵؛ ۴۴:۱-۱۲۔
۶. بزرگ مختاروں کی حیثیت سے کونسی ذمہداریاں نبھاتے ہیں؟
۶ تقریباً ۱۸۰۰ سو سال بعد پولس رسول نے لکھا کہ مسیحی ’نگہبان خدا کے مختار‘ ہیں۔ (طط ۱:۷) بزرگوں کو ”خدا کے . . . گلّہ کی گلّہبانی“ اور رہنمائی کرنے کے لئے مقرر کِیا گیا ہے۔ (۱-پطر ۵:۱، ۲) لیکن سب کے پاس ایک ہی طرح کی ذمہداریاں نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر زیادہتر بزرگ اپنیاپنی کلیسیا میں خدمت کرتے ہیں۔ سفری نگہبان کئی کلیسیاؤں کی دیکھبھال کرتے ہیں۔ برانچ کمیٹی کے رُکن پورے ملک کی کلیسیاؤں کو سنبھالتے ہیں۔ لیکن سب بزرگوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ وفاداری سے اپنی ذمہداریاں نبھائیں۔ دراصل اُن سب کو خدا کو ”حساب دینا پڑے گا۔“—عبر ۱۳:۱۷۔
۷. ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ خدا کے تمام بندے مختاروں کے طور پر خدمت کرتے ہیں؟
۷ لیکن وہ مسیحی جو بزرگ نہیں ہیں، کیا وہ بھی مختاروں کی حیثیت سے خدمت کرتے ہیں؟ اِس کا جواب ہمیں پطرس رسول کے اُن الفاظ سے ملتا ہے جو اُنہوں نے تمام مسیحیوں کو لکھے تھے۔ اُنہوں نے لکھا: ”خدا نے تُم میں سے ہر ایک کو کوئی نہ کوئی نعمت عطا کی ہے لہٰذا اُن نعمتوں کو اچھے مختاروں کی طرح ایک دوسرے کی خدمت کرنے میں صرف کرو۔“ (۱-پطر ۴:۱۰، نیو اُردو بائبل ورشن) یہوواہ خدا نے ہم سب کو طرحطرح کے ہنر اور صلاحیتوں سے نوازا ہے جنہیں ہم اپنے بہنبھائیوں کی خدمت کرنے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں کہ خدا کے تمام بندے مختاروں کے طور پر خدمت کرتے ہیں۔ اُنہیں یہ اعزاز خدا کی طرف سے ملا ہے۔ خدا اُن پر اعتماد کرتا ہے اور اُن سے توقع کرتا ہے کہ وہ اپنی ذمہداریوں کو جیجان سے پورا کریں۔
ہم خدا کے ہیں
۸. ہمیں کونسی بات یاد رکھنی چاہئے؟
۸ آئیں، تین اہم باتوں پر غور کریں جو مختاروں کے طور پر تمام مسیحیوں کو یاد رکھنی چاہئیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہم خدا کے ہیں اور اُس کے حضور جوابدہ ہیں۔ اِس سلسلے میں پولس رسول نے لکھا: ”تُم اپنے نہیں۔ کیونکہ قیمت سے خریدے گئے ہو۔“ دراصل یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کی قربانی دے کر ہمیں خریدا ہے۔ (۱-کر ۶:۱۹، ۲۰) چونکہ ہم یہوواہ خدا کے ہیں اِس لئے اُس کے حکموں کو ماننا ہمارا فرض ہے اور اُس کے حکم سخت نہیں۔ (روم ۱۴:۸؛ ۱-یوح ۵:۳) ہم یہوواہ خدا کے علاوہ یسوع مسیح کے نوکر بھی ہیں۔ پُرانے زمانے کے مختاروں کی طرح ہمیں بھی کافی حد تک آزادی حاصل ہے۔ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہر بات میں اپنی منمانی کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی تمام ذمہداریوں کو خدا کی ہدایات کے مطابق پورا کرنا چاہئے۔ ہمارے پاس چاہے جتنے بھی شرف ہوں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے نوکر ہیں۔
۹. یسوع مسیح کی تمثیل سے کیسے پتہ چلتا ہے کہ ایک مالک اپنے نوکر سے کیا توقع رکھتا ہے؟
۹ ایک مرتبہ یسوع مسیح نے ایک مالک اور نوکر کے متعلق تمثیل دی جس سے پتہ چلتا ہے کہ مالک اپنے نوکر سے کیا توقع کرتا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ جب ایک نوکر سارا دن کام کرنے کے بعد گھر آتا ہے تو اُس کا مالک یہ نہیں کہتا ہے کہ ”جلد آ کر کھانا کھانے بیٹھ۔“ اِس کی بجائے وہ یہ کہتا ہے کہ ”میرا کھانا تیار کر اور جب تک مَیں کھاؤں پیوں کمر باندھ کر میری خدمت کر۔ اُس کے بعد تُو خود کھا پی لینا۔“ یسوع مسیح نے اِس تمثیل کو اپنے شاگردوں پر کیسے لاگو کِیا؟ اُنہوں نے کہا: ”اِسی طرح تُم بھی جب اُن سب باتوں کی جن کا تمہیں حکم ہوا تعمیل کر چکو تو کہو کہ ہم نکمّے نوکر ہیں۔ جو ہم پر کرنا فرض تھا وہی کِیا ہے۔“—لو ۱۷:۷-۱۰۔
۱۰. ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہماری محنت کی بڑی قدر کرتا ہے؟
۱۰ یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کے لئے ہم جو بھی محنت کرتے ہیں، وہ بِلاشُبہ اُس کی بڑی قدر کرتا ہے۔ بائبل میں بتایا گیا ہے: ”خدا بےانصاف نہیں جو تمہارے کام اور اُس محبت کو بھول جائے جو تُم نے اُس کے نام کے واسطے . . . ظاہر کی۔“ (عبر ۶:۱۰) یہوواہ خدا ہم سے کبھی ایسے کام کی توقع نہیں کرتا جو ہمارے بس میں نہیں۔ اُس کے حکم سخت نہیں بلکہ ہماری بھلائی کے لئے ہیں۔ پھر بھی یسوع مسیح کی تمثیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک نوکر پر لازم ہے کہ وہ اپنے مالک کے کاموں کو زیادہ اہمیت دے۔ اِسی طرح جب ہم خود کو یہوواہ خدا کے لئے وقف کر دیتے ہیں تو ہم یہ عزم کرتے ہیں کہ ہم اُس کی مرضی کو سب سے زیادہ اہمیت دیں گے۔
ہماری بنیادی ذمہداریاں
۱۱، ۱۲. مختاروں کے طور پر ہمیں کونسی خوبی ظاہر کرنی چاہئے؟ اور ہمیں کن کاموں سے بچنا چاہئے؟
۱۱ دوسری بات جو ہمیں یاد رکھنی چاہئے، وہ یہ ہے کہ مختاروں کے طور پر ہم سب کو ایک جیسی بنیادی ذمہداریاں دی گئی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ خدا کی تنظیم میں بعض ذمہداریاں ایسی ہیں جو چند بہنبھائیوں کو دی جاتی ہیں۔ لیکن زیادہتر ذمہداریاں ایسی ہیں جو ہم سب کو دی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر مسیح کے پیروکار اور یہوواہ کے گواہ ہوتے ہوئے ہم سب پر لازم ہے کہ ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں۔ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ محبت سچے مسیحیوں کی پہچان ہے۔ (یوح ۱۳:۳۵) لیکن ہم صرف اپنے ہمایمانوں سے ہی نہیں بلکہ دوسروں سے بھی محبت رکھتے ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہے۔
۱۲ ہم سب کے لئے یہ بھی لازمی ہے کہ ہم اپنا چالچلن نیک رکھیں۔ ہمیں ایسے کاموں سے گریز کرنا چاہئے جو یہوواہ خدا کو پسند نہیں ہیں۔ اِس سلسلے میں پولس رسول نے لکھا: ”نہ حرامکار خدا کی بادشاہی کے وارث ہوں گے نہ بُتپرست نہ زناکار نہ عیاش۔ نہ لونڈےباز۔ نہ چور۔ نہ لالچی نہ شرابی۔ نہ گالیاں بکنے والے نہ ظالم۔“ (۱-کر ۶:۹، ۱۰) خدا کے حکموں پر چلنے کے لئے ہمیں سخت کوشش کرنی پڑتی ہے۔ لیکن اِس کوشش سے ہمیں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم بہت سی بیماریوں سے بچتے ہیں، دوسروں کے ساتھ ہمارے تعلقات خوشگوار رہتے ہیں اور ہمیں خدا کی قربت حاصل ہوتی ہے۔—یسعیاہ ۴۸:۱۷، ۱۸ کو پڑھیں۔
۱۳، ۱۴. سب مسیحیوں کو کونسا کام سونپا گیا ہے؟ اور ہمیں اِس کام کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟
۱۳ ہم دیکھ چکے ہیں کہ پُرانے زمانے میں مختار بہت سے کام کرتے تھے۔ ہمیں بھی ایک اہم کام سونپا گیا ہے۔ یہوواہ خدا نے ہمیں ایک شاندار نعمت بخشی ہے۔ یہ نعمت وہ علم ہے جو اُس نے ہمیں اپنی ذات اور صفات کے بارے میں عطا کِیا ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ ہم یہ علم دوسروں تک پہنچائیں۔ (متی ۲۸:۱۹، ۲۰) پولس رسول نے لکھا کہ ہم ’مسیح کے خادم اور خدا کے بھیدوں کے مختار ہیں۔‘ (۱-کر ۴:۱) اُن کی نظر میں دوسروں کو خدا کے بھیدوں کی تعلیم دینا ایک سنجیدہ ذمہداری تھی۔ وہ اپنے مالک یسوع مسیح کی ہدایات کے مطابق اِس ذمہداری کو دلوجان سے پورا کرنا چاہتے تھے۔—۱-کر ۹:۱۶۔
۱۴ جب ہم دوسروں کو خدا کے بھیدوں کی تعلیم دیتے ہیں تو ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہمیں لوگوں سے محبت ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم سب کے حالات فرقفرق ہوتے ہیں۔ اِس لئے ہم سب مُنادی کے کام میں ایک جتنا وقت صرف نہیں کر سکتے۔ یہوواہ خدا اِس بات کو سمجھتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جتنا ہمارے لئے ممکن ہے، ہم مُنادی کے کام میں اُتنا حصہ ضرور لیں۔ اِس طرح ہم خدا اور اپنے پڑوسی کے لئے بےغرض محبت ظاہر کرتے ہیں۔
وفاداری کی اہمیت
۱۵-۱۷. (الف) ایک مختار کے لئے یہ کیوں ضروری ہے کہ وہ اپنے مالک کا وفادار ہو؟ (ب) یسوع مسیح نے کیسے واضح کِیا کہ جو نوکر اپنے مالک کا وفادار نہیں رہتا، اُس کا انجام کیا ہوتا ہے؟
۱۵ تیسری بات جو مختاروں کے طور پر ہمیں یاد رکھنی چاہئے، وہ یہ ہے کہ ہمیں وفادار اور فرمانبردار ہونا چاہئے۔ ایک مختار میں بہت سی صلاحیتیں ہو سکتی ہیں۔ لیکن اگر وہ غیرذمہدار یا نافرمان ہے تو اُس کی کسی صلاحیت کا کوئی فائدہ نہیں۔ اِس لئے وفاداری ایک اہم صفت ہے جو مختار میں ہونی چاہئے۔ اِس سلسلے میں پولس رسول نے کہا تھا: ”مختار میں یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ دیانتدار نکلے۔“a—۱-کر ۴:۲۔
۱۶ اگر ہم خدا کے وفادار رہیں گے تو وہ ہمیں اِس کا اجر ضرور دے گا۔ لیکن اگر ہم اُس کے وفادار نہیں رہیں گے تو ہم اُس کی خوشنودی کھو بیٹھیں گے۔ یہ بات یسوع مسیح کی ایک اَور تمثیل سے واضح ہوتی ہے۔ اِس تمثیل میں یسوع مسیح نے بتایا کہ ایک مالک نے اپنا مال اپنے نوکروں کے سپرد کِیا۔ جن نوکروں نے اپنے مالک کا حکم مانا اور اُس کے پیسے سے ”لیندین“ کِیا، اُنہیں اپنے مالک سے شاباش ملی اور اُنہیں مزید ذمہداریاں دی گئیں۔ لیکن جس نوکر نے نافرمانی کی، اُسے ”شریر،“ ”سُست“ اور ’نکما‘ کہا گیا۔ جو مال اُسے دیا گیا تھا، وہ بھی اُس سے لے لیا گیا اور اُسے ”باہر اندھیرے میں ڈال“ دیا گیا۔—متی ۲۵:۱۴-۱۸، ۲۳، ۲۶، ۲۸-۳۰ کو پڑھیں۔
۱۷ یسوع مسیح نے ایک اَور تمثیل دی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو نوکر اپنے مالک کا وفادار نہیں رہتا، اُس کا انجام بُرا ہوتا ہے۔ اُنہوں نے کہا: ’کسی دولتمند کا ایک مختار تھا۔ اُس کی لوگوں نے مالک سے شکایت کی کہ یہ تیرا مال اُڑاتا ہے۔ پس اُس نے مختار کو بلا کر کہا کہ یہ کیا ہے جو مَیں تیرے حق میں سنتا ہوں؟ اپنی مختاری کا حساب دے کیونکہ آگے کو تُو مختار نہیں رہ سکتا۔‘ (لو ۱۶:۱، ۲) چونکہ مختار کی غیرذمہداری کی وجہ سے مالک کا نقصان ہوا اِس لئے اُس مختار کو اُس کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ہم اِس تمثیل سے سیکھتے ہیں کہ یہوواہ خدا نے ہمیں جو بھی ذمہداریاں دی ہیں، ہمیں اُنہیں وفاداری سے پورا کرنا چاہئے۔
اپنے کام کا موازنہ دوسروں کے کام سے نہ کریں
۱۸. ہمیں اپنے کام کا موازنہ دوسروں کے کام سے کیوں نہیں کرنا چاہئے؟
۱۸ ہم سب کو خود سے پوچھنا چاہئے کہ ”مَیں کس قسم کا مختار ہوں؟“ ایک مختار کے طور پر ہمیں اپنے کام کا موازنہ دوسروں کے کام سے نہیں کرنا چاہئے۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ”ہر شخص اپنے ہی کام کو آزما لے۔ اِس صورت میں اُسے اپنی ہی بابت فخر کرنے کا موقع ہوگا نہ کہ دوسرے کی بابت۔“ (گل ۶:۴) دوسروں سے اپنا موازنہ کرنے کی بجائے ہمیں اِس بات پر دھیان دینا چاہئے کہ ہم اپنے حالات کے مطابق خدا کی خدمت میں جتنا بھی وقت صرف کر سکتے ہیں اُتنا دلوجان سے کریں۔ یوں ہم میں نہ تو غرور پیدا ہوگا اور نہ ہی ہم بےحوصلہ ہوں گے۔ ہمیں اِس حقیقت کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے حالات بدلتے رہتے ہیں۔ ہماری صحت، عمر یا مختلف ذمہداریوں کی وجہ سے شاید اب ہم خدا کی خدمت میں پہلے جتنا وقت صرف نہیں کر سکتے۔ یا پھر ہم خدا کے کام میں جتنا وقت اب لگا رہے ہیں، شاید ہم اُس سے زیادہ لگا سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو کیوں نہ خدا کی خدمت میں زیادہ وقت صرف کرنے کی کوشش کریں؟
۱۹. اگر ہمیں کلیسیا میں ایسا شرف نہیں ملتا جس کی ہمیں خواہش ہے تو ہمیں مایوس کیوں نہیں ہونا چاہئے؟
۱۹ ہمیں اُن بہنبھائیوں کے ساتھ بھی اپنا موازنہ نہیں کرنا چاہئے جن کے پاس ایسے شرف ہیں جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بھائی کی شاید یہ خواہش ہو کہ وہ کلیسیا میں بزرگ بنے یا اُسے اجتماعات پر تقریریں پیش کرنے کا موقع ملے۔ ایسے شرف حاصل کرنے کے لائق بننے کی کوشش کرنا اچھی بات ہے۔ لیکن اگر ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں یہ شرف دینے میں دیر کی جا رہی ہے تو ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ ہو سکتا ہے کہ اِس کے پیچھے کوئی ایسی وجہ ہو جسے ہم فیالحال سمجھ نہیں پا رہے۔ ایسی صورت میں ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بعض شرف حاصل کرنے کے لئے ہمیں انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ موسیٰ نبی نے بھی ایک وقت پر سوچا تھا کہ وہ بنیاسرائیل کو مصر کی غلامی سے نکالنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن اُنہیں یہ شرف ۴۰ سال کے انتظار کے بعد ملا۔ اِس عرصے کے دوران اُنہیں اپنے اندر ایسی خوبیاں پیدا کرنے کا موقع ملا جو ایک ضدی اور باغی قوم کی پیشوائی کرنے کے لئے ضروری تھیں۔—اعما ۷:۲۲-۲۵، ۳۰-۳۴۔
۲۰. ہم یونتن کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟
۲۰ بعض اوقات ہو سکتا ہے کہ کلیسیا میں ہمیں وہ شرف کبھی نہ ملے جس کی ہمیں خواہش ہے۔ اِس سلسلے میں یونتن کی مثال پر غور کریں۔ وہ ساؤل بادشاہ کے بیٹے تھے اور اپنے باپ کے بعد تخت کے وارث تھے۔ لیکن خدا نے داؤد کو بنیاسرائیل کا بادشاہ چنا جو یونتن سے عمر میں کافی چھوٹے تھے۔ اِس پر یونتن نے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟ اُنہوں نے خدا کے فیصلے کو مانا اور داؤد کی مدد کرنے کے لئے اپنی جان تک کی پرواہ نہ کی۔ اُنہوں نے داؤد سے کہا: ”تُو اؔسرائیل کا بادشاہ ہوگا اور مَیں تجھ سے دوسرے درجے پر ہوں گا۔“ (۱-سمو ۲۳:۱۷) ہم یونتن کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟ اُنہوں نے اِس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ وہ کبھی بھی بنیاسرائیل کے بادشاہ نہیں بنیں گے۔ اُنہوں نے اپنے باپ کی طرح داؤد سے حسد نہ کِیا۔ ہمیں بھی اُن لوگوں سے حسد نہیں کرنا چاہئے جن کے پاس ایسا شرف ہے جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اِس کی بجائے ہمارے پاس جو بھی ذمہداریاں ہیں، ہمیں اُنہیں جیجان سے نبھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا نئی دُنیا میں اپنے خادموں کی ہر جائز خواہش کو پورا کرے گا۔
۲۱. مختاروں کے طور پر ہمیں اپنی ذمہداریوں کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟
۲۱ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم سب ’خدا کے مختار‘ ہیں۔ وہ ہمیں حقیر نہیں جانتا بلکہ ہمیں عزت بخشتا ہے۔ وہ ہمیں اپنی ذمہداریوں کو پورا کرنے کی کافی حد تک آزادی دیتا ہے۔ اُس نے ہمیں اِس آخری زمانے میں خوشخبری سنانے کا نہایت اہم کام سونپا ہے۔ یہ ایک ایسا کام ہے جسے کرنے کا موقع ہمیں پھر کبھی نہیں ملے گا۔ لہٰذا آئیں، ہم یہ عزم کریں کہ ہم مختاروں کے طور پر اپنی ذمہداریوں کو وفاداری سے نبھائیں گے۔ اور کائنات کی عظیمترین ہستی کی خدمت کرنے کے اعزاز کی قدر کرتے رہیں گے۔
[فٹنوٹ]
a اِس آیت میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ دیانتدار کِیا گیا ہے، وہ وفادار کے معنی بھی رکھتا ہے۔
[صفحہ ۲۰ پر تصویریں]
اپنی ذمہداریوں کو وفاداری سے پورا کریں۔