”غیروں کی آواز“ سے خبردار رہیں
”وہ غیرشخص کے پیچھے نہ جائینگی بلکہ اُس سے بھاگیں گی کیونکہ غیروں کی آواز پہچانتیں۔“—یوحنا ۱۰:۵۔
۱، ۲. (ا) جب یسوع نے مریم کو نام سے پکارا تو مریم نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟ یہ واقعہ یسوع کی کونسی تمثیل کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ (ب) یسوع مسیح کے نمونے پر چلنے کیلئے ہمیں کونسی صلاحیت کی ضرورت ہے؟
مریم مگدلینی روتی ہوئی یسوع مسیح کی خالی قبر کے پاس کھڑی ہے۔ تقریباً دو سال پہلے یسوع نے اُس سے بدروحیں نکالی تھیں۔ تب سے مریم یسوع اور اُسکے رسولوں کی خدمت کرتی آ رہی ہے۔ (لوقا ۸:۱-۳) لیکن چند دن پہلے یسوع کو مار ڈالا گیا۔ اور اب اُسکی لاش قبر سے غائب ہو گئی ہے! مریم بڑا صدمہ جھیل رہی ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتی کہ یسوع کو مُردوں میں سے جی اُٹھایا گیا ہے۔ یسوع اچانک مریم کے پاس آ کر اُس سے پوچھتا ہے کہ ”اَے عورت تُو کیوں روتی ہے؟ کس کو ڈھونڈتی ہے؟“ مریم اُسے باغبان سمجھ کر کہتی ہے: ”اَے میاں اگر تُو نے اُسکو یہاں سے اُٹھایا ہو تو مجھے بتا دے کہ اُسے کہاں رکھا ہے تاکہ مَیں اسے لے جاؤں۔“ اس پر یسوع اُس سے کہتا ہے: ”مریم!“ جس انداز سے وہ یہ کہتا ہے اس سے مریم کو فوراً پتہ چل جاتا ہے کہ یہ یسوع ہی ہے۔ وہ خوشی کے مارے پکارتی ہے: ”اَے اُستاد!“—یوحنا ۲۰:۱۱-۱۸۔
۲ یہ واقعہ ہمیں یسوع کی ایک تمثیل کی یاد دلاتا ہے جو اُس نے کچھ عرصے پہلے اپنے شاگردوں کو دی تھی۔ اس تمثیل میں یسوع خود کو ایک چرواہے کا روپ دیتا ہے اور اُسکے شاگرد بھیڑوں کی مانند ہیں۔ یسوع نے کہا کہ چرواہا اپنی بھیڑوں کو نام بنام بلاتا ہے اور بھیڑیں اُسکی آواز پہچانتی ہیں۔ (یوحنا ۱۰:۳، ۴، ۱۴، ۲۷، ۲۸) جیسے بھیڑیں اپنے چرواہے کو پہچانتی ہیں اسی طرح مریم نے اپنے ”چرواہے“ یسوع مسیح کو بھی پہچان لیا۔ آج بھی یسوع کے شاگرد اُسکی آواز پہچانتے ہیں۔ (یوحنا ۱۰:۱۶) بھیڑیں اپنے چرواہے کے پیچھے پیچھے چلتی ہیں کیونکہ وہ اپنے چرواہے کی آواز کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اسی طرح ہمیں اپنے چرواہے یسوع مسیح کے نقشِقدم پر چلنے کیلئے روحانی سمجھ درکار ہے۔—یوحنا ۱۳:۱۵؛ ۱-یوحنا ۲:۶؛ ۵:۲۰۔
۳. ہم کن سوالات پر غور کرینگے؟
۳ یسوع کی تمثیل کے مطابق ایک بھیڑ اپنے چرواہے اور غیروں کی آواز میں امتیاز کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہمیں بھی اپنے مخالفین کی آواز پہچاننے کی صلاحیت رکھنی چاہئے۔ لیکن ہمارے مخالفین کون ہیں؟ وہ ہمیں کن طریقوں سے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں؟ ہم اپنے آپکو اُن سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ آئیں ہم دیکھتے ہیں کہ یسوع نے اپنی تمثیل میں اسکے بارے میں کیا کہا۔
’جو کوئی دروازہ سے داخل نہیں ہوتا‘
۴. یسوع کی تمثیل کے مطابق بھیڑیں کس کے پیچھے چلتی ہیں اور کس سے بھاگتی ہیں؟
۴ یسوع نے بیان کِیا کہ ”جو دروازہ سے داخل ہوتا ہے وہ بھیڑوں کا چرواہا ہے۔ اسکے لئے دربان دروازہ کھول دیتا ہے اور بھیڑیں اُسکی آواز سنتی ہیں اور وہ اپنی بھیڑوں کو نام بنام بلا کر باہر لے جاتا ہے۔ جب وہ اپنی سب بھیڑوں کو باہر نکال چکتا ہے تو اُنکے آگے آگے چلتا ہے اور بھیڑیں اسکے پیچھے پیچھے ہو لیتی ہیں کیونکہ وہ اُسکی آواز پہچانتی ہیں۔ مگر وہ غیر شخص کے پیچھے نہ جائینگی بلکہ اُس سے بھاگیں گی کیونکہ غیروں کی آواز پہچانتیں۔“ (یوحنا ۱۰:۲-۵) ان آیات میں یسوع لفظ ”آواز“ تین مرتبہ استعمال کرتا ہے۔ دو مرتبہ وہ چرواہے کی آواز کا ذکر کرتا ہے۔ لیکن تیسری مرتبہ یسوع ”غیروں کی آواز“ کا بیان کرتا ہے۔ لیکن ”غیروں کی آواز“ سے کیا مُراد ہے؟
۵. جن ”غیروں“ کا ذکر یوحنا ۱۰ میں کِیا گیا ہے ہم انکی مہماننوازی کیوں نہیں کرتے؟
۵ کیا اسکا مطلب ہے کہ ہمیں ہر قسم کے اجنبی سے کنارہ کرنا چاہئے؟ نہیں کیونکہ جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”مسافرپروری“ اور ”مہمانداری“ سے کِیا گیا ہے اسکا لفظی مطلب ہے ”اجنبیوں سے محبت۔“ (عبرانیوں ۱۳:۲) لہٰذا یسوع اپنی تمثیل میں ایک ایسے اجنبی کی بات نہیں کر رہا تھا جسے ہم مہمان کے طور پر اپنے گھر آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ ایک ایسے غیرشخص کی بات کر رہا تھا جو ”دروازہ سے بھیڑخانہ میں داخل نہیں ہوتا بلکہ اَور کسی طرف سے چڑھ جاتا ہے۔“ دراصل ایسا شخص ”چور اور ڈاکو ہے۔“ (یوحنا ۱۰:۱) بائبل کے مطابق سب سے پہلا چور اور ڈاکو کون تھا؟ پیدائش کی کتاب سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ شیطان تھا۔
جب غیرشخص کی آواز پہلی بار سنائی دی
۶، ۷. شیطان کس لحاظ سے غیرشخص اور چور ہے؟
۶ پیدایش ۳:۱-۵ میں اُس واقعے کا بیان کِیا گیا ہے جس میں زمین پر پہلی بار کسی غیرشخص کی آواز سنی گئی تھی۔ ان آیات کے مطابق شیطان نے ایک سانپ کے ذریعے حوا سے باتیں کیں اور اُسے دھوکا دیا۔ یہاں شیطان کو ”غیرشخص“ کا لقب تو نہیں دیا جاتا ہے لیکن یوحنا ۱۰ کے غیرشخص اور شیطان میں بہت سی مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ آئیں ہم ان میں سے چند پر غور کرتے ہیں۔
۷ یسوع نے کہا کہ وہ غیرشخص چپکے سے بھیڑخانے میں داخل ہوتا ہے تاکہ بھیڑیں اُسے فوراً نہیں پہچان سکیں۔ اسی طرح شیطان نے حوا سے سانپ کے ذریعے بات کی تاکہ حوا کو شک نہ ہو۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ شیطان درحقیقت ایک چالاک ڈاکو ہے۔ بھیڑخانے میں جو اجنبی داخل ہوتا ہے وہ بھیڑوں کو چھین لینا چاہتا ہے۔ وہ کوئی عام چور نہیں کیونکہ وہ ”مار ڈالنے اور ہلاک کرنے“ کیلئے آیا ہے۔ (یوحنا ۱۰:۱۰) اسی طرح شیطان بھی ایک چور ہے۔ اُس نے حوا کا دل خدا کی عبادت سے پھیر لیا اور اپنے لئے چرا لیا۔ اسکے علاوہ اُس نے انسان کو موت کے حوالہ کر دیا۔ اسلئے وہ قاتل بھی ہے۔
۸. شیطان نے خدا کی باتوں پر شک کیسے ڈالا؟
۸ شیطان کی چالاکی اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اُس نے خدا کی باتوں پر شک ڈالا۔ اُس نے حوا سے پوچھا: ”کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تُم نہ کھانا؟“ شیطان حیران ہونے کا محض دِکھاوا کر رہا تھا۔ دراصل اسکے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ’خدا تمہارا حق چھین رہا ہے۔‘ اُس نے یہ بھی کہا کہ ”خدا جانتا ہے کہ جس دن تُم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کُھل جائینگی۔“ ذرا شیطان کے ان الفاظ پر دوبارہ غور کریں: ”خدا جانتا ہے۔“ اصل میں شیطان کہہ رہا تھا کہ ’مَیں جانتا ہوں کہ خدا کے دل میں کیا ہے۔ اسکے دل میں تو بُرائی ہے۔‘ (پیدایش ۲:۱۶، ۱۷؛ ۳:۱، ۵) افسوس کی بات ہے کہ آدم اور حوا نے اس غیرشخص کی آواز کو نظرانداز کرنے کی بجائے اس پر کان لگایا۔ اسطرح وہ اپنے اور اپنی اولاد کے اُوپر بہت تکلیف لائے۔—رومیوں ۵:۱۲، ۱۴۔
۹. ہمیں آج بھی غیروں کی آواز سے کیوں خبردار رہنا چاہئے؟
۹ شیطان آج بھی خدا کے لوگوں کو گمراہ کرنے کیلئے کچھ ایسے ہی طریقے استعمال کرتا ہے۔ (مکاشفہ ۱۲:۹) وہ ”جھوٹ کا باپ“ ہے۔ ایسے لوگ جو شیطان کی طرح خدا کے خادموں کو بہکانے کی کوشش کرتے ہیں وہ اُسکی اولاد ہیں۔ (یوحنا ۸:۴۴) غور کریں کہ غیروں کی آواز آج کسطرح سنائی دیتی ہے۔
آج غیروں کی آواز کیسے سنائی دیتی ہے
۱۰. ایک طریقہ بیان کیجئے جسکے ذریعے غیروں کی آواز سنائی دیتی ہے۔
۱۰ جھوٹی تعلیمات۔ پولس رسول نے نصیحت کی کہ ”مختلف اور بیگانہ تعلیم کے سبب سے بھٹکتے نہ پھرو۔“ (عبرانیوں ۱۳:۹) یہاں پولس کس قسم کی تعلیم کی طرف اشارہ کر رہا تھا؟ وہ ایسی تعلیمات کا ذکر کر رہا تھا جو ہمارے لئے روحانی طور پر ’بھٹکتے پھرنے‘ کا باعث بن سکتی ہے۔ وہ کون ہیں جو اتنی نقصاندہ تعلیم پھیلا رہے ہیں؟ پولس نے ایسے لوگوں کو بےنقاب کرتے ہوئے کلیسیا کے چند بزرگوں کو کہا کہ ”خود تُم میں سے آدمی اٹھینگے جو اُلٹی اُلٹی باتیں کہینگے تاکہ شاگردوں کو اپنی طرف کھینچ لیں۔“ (اعمال ۲۰:۳۰) ہمارے زمانے میں بھی ایسے لوگ جو مسیحی کلیسیا کے رُکن ہوا کرتے تھے اب ”اُلٹی اُلٹی باتیں“ کہہ رہے ہیں، یعنی وہ جھوٹی تعلیمات کے ذریعے بھیڑوں کو بہکانا چاہتے ہیں۔ پطرس رسول انکے بارے میں کہتا ہے کہ وہ ایسی ’باتیں بناتے‘ ہیں جو سچی لگتی تو ہیں لیکن دراصل جھوٹی ہوتی ہیں۔—۲-پطرس ۲:۳۔
۱۱. ہم ۲-پطرس ۲:۱، ۳ کی مدد سے برگشتہ لوگوں کی چال اور اُنکے مقاصد کیسے دریافت کر سکتے ہیں؟
۱۱ پطرس رسول ان برگشتہ لوگوں کے بارے میں یہ بھی بیان کرتا ہے کہ وہ ”پوشیدہ طور پر ہلاک کرنے والی بدعتیں نکالینگے۔“ (۲-پطرس ۲:۱، ۳) برگشتہ لوگ کھل کر اپنا مقصد نہیں بیان کرتے بلکہ ہمیں دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ (گلتیوں ۲:۴؛ یہوداہ ۴) وہ اس چور کی مانند ہیں جو ”دروازہ سے بھیڑخانہ میں داخل نہیں ہوتا بلکہ اَور کسی طرف سے چڑھ جاتا ہے۔“ ان برگشتہ لوگوں کا مقصد کیا ہے؟ پطرس رسول اسکو یوں بیان کرتا ہے: ”[وہ] تُم کو اپنے نفع کا سبب ٹھہرائینگے۔“ برگشتہ لوگ اپنے مقصد کے بارے میں جو کچھ بھی کہیں، دراصل وہ بھیڑوں کو ’چرانا اور مار ڈالنا اور ہلاک کرنا‘ چاہتے ہیں۔ (یوحنا ۱۰:۱۰) ایسے اجنبیوں سے خبردار رہیں!
۱۲. (ا) غیروں کی آواز اُن لوگوں میں سے کیسے سنائی دیتی ہے جنکے ساتھ ہم میلجول رکھتے ہیں؟ (ب) شیطان اور ’غیراشخاص‘ کی چال میں کونسی مشابہت پائی جاتی ہے؟
۱۲ بُری صحبتیں۔ کبھیکبھار غیروں کی آواز اُن لوگوں میں سے بھی سنائی دیتی ہے جنکے ساتھ ہم میلجول رکھتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوان لوگ بُری صحبت کی وجہ سے بگڑ جانے کے خطرے میں ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳) شیطان نے حوا کو اسلئے اپنا نشانہ بنایا تھا کیونکہ وہ آدم سے عمر کے لحاظ سے چھوٹی تھی اور اُسے زندگی میں کم تجربہ بھی تھا۔ اُس نے حوا کے دل میں یہ سوچ ڈالی کہ یہوواہ نے انسان کی آزادی پر حد سے زیادہ پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ لیکن یہ سراسر جھوٹ ہے۔ یہوواہ اپنی مخلوق سے گہری محبت رکھتا ہے اور انسان کی بھلائی چاہتا ہے۔ (یسعیاہ ۴۸:۱۷) ’غیراشخاص‘ آج بھی نوجوانوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اُنکے مسیحی والدین اُنکی حد سے زیادہ روکٹوک کرتے ہیں۔ اسکا آپ پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟ ایک مسیحی لڑکی یوں کہتی ہے: ”میرے ہمجماعت کہا کرتے تھے کہ تمہارا مذہب تمہاری زندگی کو بہت ہی محدود رکھتا ہے۔ اس وجہ سے میرا ایمان کچھ عرصے کیلئے کمزور پڑ گیا تھا۔“ سچ تو یہ ہے کہ آپکے والدین آپ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ اسلئے جب آپکے ہمجماعت آپکے دل میں والدین کے بارے میں شک ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں تو حوا کی طرح فریب نہ کھائیں!
۱۳. داؤد نے بُری صحبتوں کے سلسلے میں کونسا رویہ اختیار کِیا اور ہم اسکی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۳ داؤد نے بُری صحبتوں کی بابت یوں کہا: ”مَیں بیہودہ لوگوں کیساتھ نہیں بیٹھا۔ مَیں ریاکاروں کیساتھ کہیں نہیں جاؤنگا۔“ (زبور ۲۶:۴) جیہاں، ان غیروں کی جانپہچان یہی ہے کہ وہ ریاکار ہیں۔ جسطرح شیطان نے سانپ کے ذریعے اپنی شناخت چھپائی تھی اسی طرح آج کے اجنبی بھی اپنی شناخت چھپا لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آجکل بعض دھوکاباز لوگ انٹرنیٹ چیٹروم کے ذریعے نوجوانوں سے باتچیت کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں بتاتے کہ اصل میں وہ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ خود بھی ایک نوجوان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن دراصل وہ بالغ اشخاص ہیں جو نوجوانوں کو بداخلاقی میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اَے نوجوانو، اپنے آپ کو ایسے حملوں سے خبردار رکھیں۔ ایسا کرنے سے آپ اپنی روحانیت کو تباہوبرباد ہونے سے بچا سکتے ہیں۔—زبور ۱۱۹:۱۰۱؛ امثال ۲۲:۳۔
۱۴. غیروں کی جھوٹی آواز بعض اوقات خبروں میں کسطرح سنائی دیتی ہے؟
۱۴ جھوٹے الزامات۔ یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں اکثر بہت اچھی خبریں پیش کی جاتی ہیں۔ لیکن بعض اوقات اخباروں میں، یا ریڈیو اور ٹیلیویژن پر غیروں کی جھوٹی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک ملک کی خبروں میں کہا گیا کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہوواہ کے گواہوں نے ہٹلر کی حکومت کی حمایت کی تھی۔ ایک دوسرے ملک میں یہ دعویٰ کِیا گیا ہے کہ یہوواہ کے گواہ گرجاگھروں میں جا کر توڑپھوڑ کرتے ہیں۔ کچھ ممالک میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہوواہ کے گواہ اپنے بچوں کا علاج نہیں کرواتے اور یہ کہ وہ اپنی کلیسیاؤں میں سنگین گناہوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ (متی ۱۰:۲۲) لیکن خلوصدل لوگ جانتے ہیں کہ یہ تمام الزامات جھوٹے ہیں۔
۱۵. ہر ایک خبر پر یقین کرنا عقلمندی کی بات کیوں نہیں؟
۱۵ جب غیراشخاص یہوواہ کے گواہوں پر بُرے الزامات لگاتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ایسی صورتحال میں امثال ۱۴:۱۵ کی نصیحت پر دھیان دیں: ”نادان ہر بات کا یقین کر لیتا ہے لیکن ہوشیار آدمی اپنی روش کو دیکھتا بھالتا ہے۔“ جتنی خبریں پیش کی جاتی ہیں ان میں سے ہر ایک پر یقین کرنا عقلمندی کی بات نہیں۔ اگرچہ ہم عام طور پر شکی تو نہیں ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ ”ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔“—۱-یوحنا ۵:۱۹۔
”سب باتوں کو آزماؤ“
۱۶. (ا) کس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھیڑیں واقعی چرواہے کی ”آواز پہچانتی ہیں“؟ (ب) بائبل ہمیں کیا کرنے کی نصیحت دیتی ہے؟
۱۶ ہم کیسے معلوم کر سکتے ہیں کہ آیا ایک شخص ہمارا ساتھ دے رہا ہے یا ہمارے خلاف ہے؟ یسوع نے کہا کہ بھیڑیں چرواہے کے پیچھے چلتی ہیں ”کیونکہ وہ اُسکی آواز پہچانتی ہیں۔“ (یوحنا ۱۰:۴) بھیڑیں چرواہے کو اُسکی شکل سے نہیں بلکہ اُسکی آواز سے پہچانتی ہیں۔ ایک کتاب جو بائبل کے علاقوں کے بارے میں تفصیل دیتی ہے اس سلسلے میں اس دلچسپ واقعے کو بیان کرتی ہے: ایک سیاح نے دعویٰ کِیا کہ بھیڑیں چرواہے کو آواز سے نہیں بلکہ اُسکے کپڑوں سے پہچانتی ہیں۔ اس پر چرواہے نے یہ تجویز پیش کی کہ آپ میرے کپڑے پہن لیجئے اور مَیں آپکے کپڑے پہن لیتا ہوں۔ پھر دیکھا جائیگا کہ آپکا دعویٰ درست ہے یا نہیں۔ ان دونوں نے ایسا ہی کِیا۔ جب سیاح نے بھیڑوں کو بلایا تو وہ نہیں آئیں۔ لیکن جب چرواہے نے بھیڑوں کو بلایا تو وہ فوراً دوڑ کر اُسکے پاس آ گئیں۔ لہٰذا ایک شخص دیکھنے میں تو چرواہے کی طرح لگ سکتا ہے لیکن بھیڑیں اسکی آواز جانچتی ہیں کہ آیا یہ واقعی چرواہا ہے یا نہیں۔ غیروں کی آواز کے سلسلے میں ہم خدا کے کلام میں پڑھتے ہیں کہ ”سب باتوں کو آزماؤ۔ جو اچھی ہو اُسے پکڑے رہو۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۲۱؛ ۲-تیمتھیس ۱:۱۳) ہم ایسا کسطرح کر سکتے ہیں؟
۱۷. (ا) ہم یہوواہ کی آواز کیسے سُن سکتے ہیں؟ (ب) اگر ہم یہوواہ کی آواز کو اچھی طرح سے پہچانتے ہیں تو ہم کیا کرنے کے قابل ہونگے؟
۱۷ ظاہری بات ہے کہ اگر ہم یہوواہ کی آواز یا اُسکے کلام کو بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں تو ہم غیروں کی آواز آسانی سے پہچاننے کے قابل ہونگے۔ لیکن ہم یہ قابلیت کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟ بائبل بیان کرتی ہے: ”تیرے کان تیرے پیچھے سے یہ آواز سنینگے کہ راہ یہی ہے اس پر چل۔“ (یسعیاہ ۳۰:۲۱) یہ آواز جو ہمارے پیچھے سے سنائی دیتی ہے خدا کا کلام ہے۔ جب بھی ہم بائبل پڑھتے ہیں ہم اپنے ”چوپان“ یہوواہ خدا کی آواز سنتے ہیں۔ (زبور ۲۳:۱) لہٰذا، جتنا ہم بائبل کا مطالعہ کرینگے اُتنا ہی ہم خدا کی آواز پہچاننے کے قابل ہونگے۔ اسطرح ہم غیروں کی آواز بھی آسانی سے پہچان سکیں گے۔—گلتیوں ۱:۸۔
۱۸. (ا) یہوواہ کی آواز کو پہچاننے میں اَور کیا کچھ شامل ہے؟ (ب) متی ۱۷:۵ کے مطابق ہمیں یسوع کی آواز پر کیوں کان لگانا چاہئے؟
۱۸ یہوواہ کی آواز کو پہچاننے میں اَور کیا کچھ شامل ہے؟ ہمیں اُسکے حکموں پر عمل بھی کرنا چاہئے۔ یسعیاہ ۳۰:۲۱ کے الفاظ پر دوبارہ غور کریں۔ اس آیت میں یہوواہ کہتا ہے کہ ”راہ یہی ہے۔“ ہم یہوواہ کی راہنمائی بائبل کا مطالعہ کرتے وقت حاصل کرتے ہیں۔ پھر یہوواہ حکم کرتا ہے کہ ”اس پر چل۔“ اسکا مطلب ہے کہ یہوواہ ہمیں سنی ہوئی بات پر عمل کرنے کو کہتا ہے۔ اسطرح ہم ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم یہوواہ کی آواز نہ صرف سنتے بلکہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ (استثنا ۲۸:۱) یہوواہ کی سننے کے علاوہ ہمیں یسوع کی آواز پر بھی دھیان دینا چاہئے کیونکہ یہوواہ ہی نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ (متی ۱۷:۵) یسوع ہمارا ”اچھا چرواہا“ ہے۔ اُس نے ہمیں شاگرد بنانے اور ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کی ہدایت پر بھروسہ کرنے کو کہا ہے۔ (متی ۲۴:۴۵؛ ۲۸:۱۸-۲۰) ہمیں ہمیشہ کی زندگی اس شرط پر مل سکتی ہے کہ ہم اُسکی آواز پر کان لگائیں۔—اعمال ۳:۲۳۔
’وہ اُس سے بھاگیں گی‘
۱۹. جب ہم غیروں کی آواز سنتے ہیں تو ہمارا ردِعمل کیا ہونا چاہئے؟
۱۹ جب ہم غیروں کی آواز سنتے ہیں تو ہمیں کیسا ردِعمل دکھانا چاہئے؟ وہی ردِعمل جو بھیڑیں بھی ایسی صورتحال میں دکھاتی ہیں۔ یسوع نے کہا کہ ”وہ غیرشخص کے پیچھے نہ جائینگی بلکہ اُس سے بھاگیں گی۔“ (یوحنا ۱۰:۵) اوّل تو ہمیں ’غیرشخص کے پیچھے جانا ہی نہیں‘ چاہئے۔ اسکا مطلب ہے کہ ہم ایک ایسے غیرشخص سے قطعتعلق کرینگے۔ اس آیت میں یونانی زبان میں جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان سے مُراد ہے کہ ہمیں ایک ایسے شخص سے تعلقات بالکل ختم کر دینے چاہئیں۔ (متی ۲۴:۳۵؛ عبرانیوں ۱۳:۵) دوسری بات یہ ہے کہ ہم ’اُس سے بھاگیں گے،‘ یعنی اُس سے مُنہ موڑ لینگے۔ ایسا کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ وہ ایک ایسا شخص ہے جسکی تعلیم ہمارے اچھے چرواہے کی تعلیم کے خلاف ہے۔
۲۰. ہمارا ردِعمل کیسا ہوگا جب ہم (ا) برگشتہ اشخاص (ب) بُری صحبتوں (پ) جھوٹے الزامات کا سامنا کرتے ہیں؟
۲۰ اسلئے جب ہم کہیں بھی کسی شخص کو برگشتہ باتیں کرتے سنتے ہیں تو ہم خدا کے اس حکم پر عمل کرینگے: ”جو لوگ اُس تعلیم کے برخلاف جو تُم نے پائی پھوٹ پڑنے اور ٹھوکر کھانے کا باعث ہیں اُنکو تاڑ لیا کرو اور ان سے کنارہ کِیا کرو۔“ (رومیوں ۱۶:۱۷؛ ططس ۳:۱۰) اسی طرح مسیحی نوجوان جب بُری صحبت میں پڑنے کے خطرے میں ہوتے ہیں تو انہیں پولس کی اس مشورت پر دھیان دینا چاہئے: ”جوانی کی خواہشوں سے ھاگ۔“ جب خبروں میں ہم پر جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ پولس کہتا ہے کہ بعض لوگ ایسی صورتحال میں ’کہانیوں پر متوجہ ہوتے ہیں۔‘ اسلئے وہ تیمتھیس کو نصیحت کرتا ہے: ”مگر تُو سب باتوں میں ہوشیار رہ۔“ (۲-تیمتھیس ۲:۲۲؛ ۴:۳-۵) غیراشخاص کی باتیں شاید میٹھی ہوں لیکن ہم اُن سے بھاگیں گے کیونکہ وہ ہمارے ایمان کو تباہ کر سکتی ہیں۔—زبور ۲۶:۵؛ امثال ۷:۵، ۲۱؛ مکاشفہ ۱۸:۲، ۴۔
۲۱. اگر ہم ”غیروں کی آواز“ سے خبردار رہینگے تو ہمارا انعام کیا ہوگا؟
۲۱ ممسوح مسیحی جو غیروں کی آواز کو ردّ کرتے ہیں وہ اچھے چرواہے کے ان الفاظ سے خوش ہوتے ہیں: ”اَے چھوٹے گلّے نہ ڈر کیونکہ تمہارے باپ کو پسند آیا کہ تمہیں بادشاہی دے۔“ (لوقا ۱۲:۳۲) اور ’دوسری بھیڑیں‘ یسوع کے ان الفاظ کو سننے کی مشتاق ہیں: ”آؤ میرے باپ کے مبارک لوگو جو بادشاہی بنایِعالم سے تمہارے لئے تیار کی گئی ہے اُسے میراث میں لو۔“ (یوحنا ۱۰:۱۶؛ متی ۲۵:۳۴) اگر ہم ”غیروں کی آواز“ سے کنارہ کرینگے تو یہ انعام ہمارا ہوگا!
کیا آپکو یاد ہے؟
• شیطان کسطرح اس غیرشخص کی مانند ہے جس کا ذکر یسوع نے بھیڑخانے کی تمثیل میں کِیا تھا؟
• آجکل غیروں کی آواز کن طریقوں سے سنائی دیتی ہے؟
• ہم غیروں کی آواز کیسے پہچان سکتے ہیں؟
• غیروں کی آواز سنتے ہی ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
مریم نے یسوع کو پہچان لیا
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
غیرشخص بھیڑوں کو چپکے چپکے چھین لینے کی کوشش کرتا ہے
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
غیروں کی آواز سنتے ہی آپ کیسا ردِعمل دکھائیں گے؟