”میرے کلام پر قائم رہو“
”اگر تم میرے کلام پر قائم رہو گے تو حقیقت میں میرے شاگرد ٹھہرو گے۔“ —یوحنا ۸:۳۱۔
۱. (ا) جب یسوع آسمان پر واپس گیا تو اُس نے زمین پر اپنے پیچھے کیا چھوڑا؟ (ب) کونسے سوالات پر غور کِیا جائیگا؟
جب مسیحیت کا بانی یسوع مسیح آسمان پر چلا گیا تو اُس نے اِس زمین پر اپنی لکھی ہوئی کتابیں، بڑی بڑی عمارتیں یا دولت نہیں چھوڑی۔ تاہم اُس نے اپنے شاگردوں کو اور شاگردی کے لئے خاص تقاضوں کو چھوڑا تھا۔ اِسلئے اگر کوئی اُسکا شاگرد بننا چاہتا ہے تو اُسے یوحنا کی انجیل میں دئے گئے تین تقاضوں کو پورا کرنا پڑیگا۔ یہ تین تقاضے کونسے ہیں؟ ہم اِن تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ نیز ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ آیا ہم یسوع کے شاگرد بننے کے اہل ہیں؟a
۲. یوحنا کی انجیل کے مطابق شاگرد بننے کا ایک اہم تقاضا کیا ہے؟
۲ اپنی موت سے چھ مہینے پہلے یسوع پورا ہفتہ منائی جانے والی عیدِخیام کے موقع پر یروشلیم گیا اور لوگوں کو تعلیم دینے لگا۔ نتیجتاً، آدھی عید گزرنے کے بعد ”بھیڑ میں سے بہتیرے اُس پر ایمان لائے۔“ یسوع منادی کرتا رہا اور اس طرح عید کے آخری دن تک ”بہتیرے اُس پر ایمان لائے۔“ (یوحنا ۷:۱۰، ۱۴، ۳۱، ۳۷؛ ۸:۳۰) اِس موقع پر یسوع نئے شاگردوں سے مخاطب ہو کر اُن کی توجہ شاگرد بننے کے ایک اہم تقاضے پر دلاتا ہے۔ اس کو یوحنا رسول نے یوں درج کِیا: ”اگر تم میرے کلام پر قائم رہو گے تو حقیقت میں میرے شاگرد ٹھہرو گے۔“—یوحنا ۸:۳۱۔
۳. ’یسوع کے کلام پر قائم رہنے‘ میں کونسی خوبی ہماری مدد کریگی؟
۳ اِن الفاظ سے یسوع نئے شاگردوں کو یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ اُن میں ایمان کی کمی ہے۔ اِسکی بجائے وہ یہ ظاہر کر رہا تھا کہ اُنہیں اُسکا سچا شاگرد بننے کا موقع حاصل تھا—بشرطیکہ وہ اُسکے کلام میں قائم رہنے کیلئے ثابتقدمی دکھائیں۔ اُنہوں نے اُسکا کلام قبول کِیا جس پر اُنہیں قائم رہنے کی ضرورت تھی۔ (یوحنا ۴:۳۴؛ عبرانیوں ۳:۱۴) شاگردوں کیساتھ اپنی آخری باتچیت میں یسوع ثابتقدمی سے قائم رہنے کی اہمیت کو دو مرتبہ نصیحت کرکے واضح کر رہا تھا، جسے یوحنا رسول نے یوں درج کِیا: ”میرے پیچھے ہو لے۔“ (یوحنا ۲۱:۱۹، ۲۲) بہتیرے ابتدائی مسیحیوں نے بالکل ایسا ہی کِیا۔ (۲-یوحنا ۴) کس چیز نے ثابتقدم رہنے میں اُنکی مدد کی؟
۴. کس بات نے ابتدائی مسیحیوں کو کلام میں قائم رہنے کے قابل بنایا تھا؟
۴ کوئی ۷۰ سال سے وفاداری کیساتھ یسوع کی پیروی کرنے والے یوحنا رسول نے ایک خاص بات کی نشاندہی کی۔ اُس نے وفادار مسیحیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا: ”تم مضبوط ہو اور خدا کا کلام تم میں قائم رہتا ہے۔ اور تم اُس شریر پر غالب آ گئے ہو۔“ یسوع کے اُن شاگردوں نے ثابتقدمی دکھائی یا اُس کے کلام پر قائم رہے۔ وہ خدا کے کلام کیلئے دلیقدر رکھتے تھے۔ (۱-یوحنا ۲:۱۴، ۲۴) اِسی طرح آجکل ”آخر تک برداشت“ کرنے کیلئے ہمیں اِس بات کا یقین کر لینا چاہئے کہ خدا کا کلام ہم میں بھی قائم رہے۔ (متی ۲۴:۱۳) ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟ یسوع کی ایک تمثیل اس کا جواب دیتی ہے۔
”جو کلام کو سنتا ہے“
۵. (ا) یسوع کی تمثیل میں کتنی قسم کی زمینوں کا ذکر کِیا گیا ہے؟ (ب) یسوع کی تمثیل میں بیج اور زمین کس چیز کی نشاندہی کرتے ہیں؟
۵ یسوع نے بیج بونے والے کی تمثیل استعمال کی جو متی، مرقس اور لوقا کی انجیل میں درج ہے۔ (متی ۱۳:۱-۹، ۱۸-۲۳؛ مرقس ۴:۱-۹، ۱۴-۲۰؛ لوقا ۸:۴-۸، ۱۱-۱۵) جب آپ اس تمثیل کو پڑھتے ہیں تو آپ دیکھینگے کہ ایک ہی قسم کے بیج کو مختلف طرح کی زمینوں پر گرنے کی وجہ سے فرق فرق نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ پہلی زمین بہت سخت، دوسری پتھریلی، تیسری جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ چوتھی زمین اُن تینوں کے برعکس ”اچھی“ ہے۔ یسوع کی بیانکردہ تشریح کے مطابق بیج بادشاہت کا پیغام ہے جو خدا کے کلام میں موجود ہے اور زمین لوگوں کے مختلف دلی رُجحانات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مختلف طرح کی زمین کے ذریعے جن لوگوں کی تصویرکشی کی گئی ہے اُن سب میں ایک بات عام ہے۔ لیکن اچھی زمین والوں میں ایک ایسی خوبی ہے جو اُنکو باقی زمینوں سے فرق بنا دیتی ہیں۔
۶. (ا) اچھی زمین باقی تینوں سے کس طرح فرق ہے اور اس کا کیا مطلب ہے؟ (ب) یسوع کے پیروکاروں کو ثابتقدمی دکھانے کے لئے کس چیز کی ضرورت ہے؟
۶ لوقا ۸:۱۲-۱۵ آیات میں بتایا گیا ہے کہ لوگ ہر حالت میں ’کلام کو سنتے‘ ہیں۔ تاہم صرف وہی لوگ کلام کو سننے سے زیادہ کچھ کرتے ہیں جو ”عمدہ اور نیکدل“ رکھتے ہیں اور ”صبر سے پھل لاتے ہیں۔“ اچھی اور عمدہ زمین نرم ہونے کی وجہ سے بیج کو بڑھنے اور اُس کی جڑوں کو گہرائی تک جانے دیتی ہے اور نتیجتاً بیج پھلدار ثابت ہوتا ہے۔ (لوقا ۸:۸) اِس طرح جو اچھا دل رکھتے ہیں وہ خدا کے کلام کے لئے قدر دکھاتے اور اُس میں مشغول رہتے ہیں۔ (رومیوں ۱۰:۱۰؛ ۲ -تیمتھیس ۲:۷) خدا کا کلام اُن میں قائم رہتا ہے چنانچہ وہ صبر سے پھل پیدا کرتے ہیں۔ مضبوطی سے قائم رہنے کے لئے یسوع کے پیروکاروں کو خدا کے کلام کے لئے دلیقدر دکھانے کی ضرورت ہے۔ (۱-تیمتھیس ۴:۱۵) لیکن ہم خدا کے کلام کے لئے دلیقدردانی کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟
دل کی حالت اور پُرمطلب غوروخوض
۷. ہمارا کونسا کام ایک اچھے دل کے ساتھ تعلق رکھتا ہے؟
۷ غور کریں کہ بائبل باربار اچھے دل کو کس کام کے ساتھ منسوب کرتی ہے۔ ”صادق کا دل سوچ کر جواب دیتا ہے۔“ (امثال ۱۵:۲۸) ”میرے مُنہ کا کلام اور میرے دل کا خیال تیرے حضور مقبول ٹھہرے۔ اَے [یہوواہ]!“ (زبور ۱۹:۱۴) ”میرے دل کا خیال پُرخرد ہوگا۔“—زبور ۴۹:۳۔
۸. (ا) بائبل پڑھتے وقت ہمیں کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا چاہئے؟ (ب) خدا کے کلام پر دُعائیہ غوروخوض کرنے سے ہم کیا فوائد حاصل کر سکتے ہیں؟ (بکس ’حق بات پر قائم رہو‘ کو دیکھیں۔)
۸ اِن بائبل ئنن کی طرح ہمیں بھی خدا کے کلام اور اُسکے کاموں پر دُعائیہ غوروخوض کرنا چاہئے۔ بائبل یا بائبل پر مبنی کتابیں پڑھتے وقت ہمیں کبھی بھی اُس شخص کی طرح جلدبازی نہیں کرنی چاہئے جو کسی خوبصورت جگہ سیر کرنے کیلئے جاتا ہے لیکن اُس جگہ کا لطف نہیں اُٹھاتا بلکہ جلدی سے سب چیزوں کو دیکھ کر تصویریں اُتارتا ہے۔ اسلئے جب ہم بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں جلدی نہیں کرنی چاہئے بلکہ کچھ لمحوں کیلئے رُک کر سوچنا چاہئے۔b ایسا کرنے سے خدا کا کلام ہمارے دلوں پر اثر کریگا اور ہماری سوچ کو بدل دیگا۔ یہ ہمیں دُعا کرنے کی بھی تحریک دیگا تاکہ ہم اپنی سب باتوں میں خدا کو شریک کر سکیں۔ ایسا کرنے سے یہوواہ کیساتھ ہمارا رشتہ مضبوط ہوگا اور خدا کیلئے ہماری محبت ہمیں مشکل حالات میں بھی یسوع کی پیروی کرنے میں مدد دیگی۔ (متی ۱۰:۲۲) اِس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ہم آخر تک وفادار رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں خدا کے کلام پر غوروخوض کرنے کی ضرورت ہے۔—لوقا ۲۱:۱۹۔
۹. ہم کس طرح یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ ہمارا دل خدا کے کلام کو اپنانے کیلئے تیار ہے؟
۹ یسوع کی تمثیل یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ بیج کو یعنی خدا کے کلام کو بڑھنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پس وفادار شاگرد رہنے کیلئے ہمیں (۱) اُن رُکاوٹوں کو جاننا ہوگا جنکا اِس تمثیل میں ذکر کِیا گیا ہے، (۲) اُن کو درست کرنے کے لئے اقدام اُٹھانے ہونگے۔ ایسا کرنے سے ہم یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ ہمارا دل اُس زمین کی طرح رہیگا جس پر بادشاہتی بیج گر کر پھل پیدا کرتا ہے۔
”راہ کے کنارے“ یعنی حد سے زیادہ مصروف
۱۰. یسوع کی تمثیل میں پہلی قسم کی زمین کے بارے میں بیان کرتے ہوئے اسکی وضاحت کریں۔
۱۰ پہلی قسم کا بیج ”راہ کے کنارے“ گرا اور ”روندا گیا۔“ (لوقا ۸:۵) راہ کے کنارے کی مٹی گزرگاہ ہونے کی وجہ سے کافی سخت ہو جاتی ہے۔ (مرقس ۲:۲۳) اِسی طرح جو دُنیا کے کاموں میں اپنا وقت صرف کرتے اور اُس میں مگن ہو جاتے ہیں وہ خدا کے کلام کو سنتے تو ہیں لیکن اِس کے لئے دلیقدر نہیں دکھاتے۔ اِس سے پہلے کہ اُن کے دل میں قدر پیدا ہو ”اِبلیسؔ آ کر کلام کو اُنکے دل سے چھین لے جاتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ایمان لا کر نجات پائیں۔“ (لوقا ۸:۱۲) کیا ایسی صورتحال سے بچا جا سکتا ہے؟
۱۱. ہم کس طرح اپنے دل کو سخت زمین بن جانے سے روک سکتے ہیں؟
۱۱ راہ کے کنارے کی زمین کی طرح دل کو سخت ہو جانے سے روکنے کے لئے کیا کِیا جا سکتا ہے؟ ایسی زمین پر دوبارہ سے ہل چلایا جا سکتا ہے اور گزرگاہ کو بند کِیا جا سکتا ہے۔ اِسی طرح خدا کے کلام کا مطالعہ اور اُس پر غوروخوض کرنے سے ہم اپنے دل کو دوبارہ اچھی زمین کی مانند بنا سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم روزمرّہ کے کاموں میں حد سے زیادہ مگن نہ ہوں۔ (لوقا ۱۲:۱۳-۱۵) اِس کی بجائے زندگی میں ”عمدہ عمدہ باتوں“ کے لئے وقت کو صرف کریں۔—فلپیوں ۱:۹-۱۱۔
”پتھریلی زمین“ یعنی خوفزدہ ہونا
۱۲. دوسری قسم کی زمین میں پودے کے مُرجھا جانے کی اصل وجہ کیا ہے؟
۱۲ جب پتھریلی زمین پر بیج گرتا ہے تو وہ جڑ پکڑتا اور بڑھتا ہے۔ لیکن جب سورج کی تپش اُس پر پڑتی ہے تو وہ جل جاتا ہے۔ اِس کے مُرجھا جانے کی واحد وجہ سورج کی تپش نہیں ہے۔ بہرکیف اچھی زمین میں بوئے جانے والے پودے پر بھی سورج کی تپش پڑتی ہے مگر وہ مُرجھاتا نہیں۔ فرق کیا ہے؟ یسوع کے بیان کے مطابق ”گہری مٹی نہ ملنے کے سبب سے“ اُس پودے تک ”تری نہ پہنچی“ اور وہ مُرجھا گیا۔ (متی ۱۳:۵، ۶؛ لوقا ۸:۶) پتھریلی زمین میں اُوپر مٹی اور نیچے ”چٹان“ ہوتی ہے جو پودے کو جڑ پکڑنے نہیں دیتی اور اُسے پانی مہیا نہیں کرتی۔ اِس لئے زمین پتھریلی ہونے کی وجہ سے پودا مُرجھا جاتا ہے۔
۱۳. پتھریلی زمین کی طرح کے لوگ کیسے ہیں اور اُن کے جوابیعمل کی اصل وجہ کیا ہے؟
۱۳ تمثیل ظاہر کرتی ہے کہ ہر ایک نے ”کلام کو خوشی سے قبول“ کِیا اور پُرجوش ہو کر ”کچھ عرصہ تک“ یسوع کی پیروی کی۔ (لوقا ۸:۱۳) لیکن ”مصیبت یا ظلم“ کی وجہ سے وہ خوفزدہ ہو کر یسوع کی پیروی کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ (متی ۱۳:۲۱) تاہم خوف کی اصل وجہ مخالفت نہیں ہے اِس لئے کہ یسوع کے لاکھوں شاگرد بہت سی مصیبتوں کو برداشت کرنے کے باوجود وفادار رہے ہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۲:۴؛ ۷:۵) اُن کے خوفزدہ ہونے اور سچائی کو چھوڑ دینے کی وجہ اُن کے دلوں کی پتھریلی حالت ہے جو اُن کو خدا کے کلام پر غوروخوض کرنے نہیں دیتی۔ نتیجتاً، خدا کے لئے اور اُس کے کلام کے لئے اُن کی قدر نہیں بڑھتی اور وہ مصیبتوں کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔ کوئی ایسے نتائج سے کیسے بچ سکتا ہے؟
۱۴. ایک شخص اپنے دل کو پتھریلی زمین کی طرح بن جانے سے کیسے روک سکتا ہے؟
۱۴ ہر شخص کو یقین کر لینا چاہئے کہ اُس کے دل میں پتھر کی طرح سخت احساسات نہ ہوں، مثلاً خودغرضی یا تلخی وغیرہ۔ اگر ایسی رُکاوٹیں ہمارے دل میں موجود ہوں تو خدا کا کلام اِنکو ہٹانے میں ہماری مدد کرے گا۔ (یرمیاہ ۲۳:۲۹؛ افسیوں ۴:۲۲؛ عبرانیوں ۴:۱۲) جب ہم دُعائیہ غوروخوض کرتے ہیں تو یہ ہمیں خدا کے کلام کو ’دل میں بونے‘ کی تحریک دے گا۔ (یعقوب ۱:۲۱) اِس سے ہمیں طاقت ملے گی تاکہ ہم مشکل حالات میں بھی وفادار رہ سکیں۔
”جھاڑیوں میں“ یعنی دو دِلا ہونا
۱۵. (ا) تیسری قسم کی زمین کیوں ہماری خاص توجہ کا مرکز بنتی ہے؟ (ب) اِس قسم کی زمین کیساتھ اچانک کیا ہوتا ہے اور کیوں؟
۱۵ تیسری قسم کی زمین خاص طور پر ہماری توجہ کا مرکز بنتی ہے کیونکہ یہ اچھی زمین کی طرح ہی ہے۔ اچھی زمین کی طرح یہ زمین بھی بیج کو اُگنے اور جڑ پکڑنے دیتی ہے۔ شروع میں اِن دونوں قسم کی زمینوں میں پودے کو اُگنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ تاہم، کچھ عرصہ کے بعد زمین میں جھاڑیاں اُگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ جب پودا بڑھتا ہے تو اِسے ’جھاڑیوں کے ساتھ ساتھ بڑھنے‘ کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ آخرکار جھاڑیاں بڑھتی ہوئیں پودے کو گھیر لیتی ہیں اور اُس کے حصہ کا پانی، ہوا اور روشنی لے لیتی ہیں جس سے پودا ختم ہو جاتا ہے۔—لوقا ۸:۷۔
۱۶. (ا) کس قسم کے لوگ جھاڑیوں والی زمین کی طرح ہیں؟ (ب) مرقس، لوقا اور یوحنا کی اناجیل کے مطابق جھاڑیاں کن باتوں کو ظاہر کرتی ہیں؟—فٹنوٹ کو دیکھیں۔
۱۶ کس قسم کے لوگ جھاڑیوں کے مشابہ ہیں؟ یسوع نے بیان کِیا: ”اُس سے وہ لوگ مُراد ہیں جنہوں نے سنا لیکن ہوتے ہوتے اِس زندگی کی فکروں اور دَولت اور عیشوعشرت میں پھنس جاتے ہیں اور اُنکا پھل پکتا نہیں۔“ (لوقا ۸:۱۴) جب ایک بیج بونے والا بیج بوتا ہے تو جھاڑیاں بھی اُگ آتی ہیں۔ اسی طرح ایسے لوگ بھی ہیں جو خدا کے کلام پر چلنے کے ساتھ ساتھ ”عیشوعشرت“ کو بھی پسند کرتے ہیں۔ خدا کے کلام کی سچائی اُن کے دل میں بوئی گئی ہے لیکن وہ ایسے حالات کو اجازت دیتے ہیں جو خدا کے کلام کی طرف سے اُنکی توجہ ہٹا دیتا ہے۔ وہ دو دلے ہوتے ہیں۔ (لوقا ۹:۵۷-۶۲) ایسی حالت میں وہ دُعا اور خدا کے کلام پر غوروخوض کرنے کیلئے زیادہ وقت نہیں دیتے۔ خدا کے کلام کیلئے دل میں کمقدر ہونے کی وجہ سے دُنیاوی چیزیں اُنکی روحانیت کو مکمل طور پر ’دبا دیتی‘ ہیں۔c پورے دل سے یہوواہ کیلئے محبت نہ رکھنے والوں کا کیا ہی افسوسناک انجام!—متی ۶:۲۴؛ ۲۲:۳۷۔
۱۷. ہمیں زندگی میں کن چیزوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے؟
۱۷ روحانی چیزوں کو پہلا درجہ دینے سے ہم دُنیا کی فکروں اور عیشوعشرت میں پڑنے سے بچ جائینگے۔ (متی ۶:۳۱-۳۳؛ لوقا ۲۱:۳۴-۳۶) ہمیں بائبل کی پڑھائی اور اُس پر غوروخوض کرنے کو کبھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ اگر ہم اپنی زندگی کو سادہ رکھتے ہیں تو ہم خدا کے کلام پر دُعائیہ غوروفکر کرنے میں زیادہ وقت صرف کر سکیں گے۔ (۱-تیمتھیس ۶:۶-۸) خدا کے جن خادموں نے ایسا کِیا اُنہوں نے یہوواہ کی برکات کا تجربہ کِیا ہے۔ اُنہوں نے اپنے دل سے جھاڑیوں کو نکال دیا ہے تاکہ پودے کو پانی، ہوا اور روشنی مل سکے۔ ایک ۲۶ سالہ لڑکی سینڈرہ یوں کہتی ہے: ”جب میں سچائی سے حاصل ہونے والی برکات کا موازنہ کرتی ہوں تو دُنیا کی چیزیں اِسکے مقابلے میں کچھ بھی نہیں!“—زبور ۸۴:۱۱۔
۱۸. ہم مسیحیوں کے طور پر خدا کے کلام پر کیسے ثابتقدم رہ سکتے ہیں؟
۱۸ خواہ ہم بوڑھے ہوں یا جوان جبتک خدا کا کلام ہم میں قائم رہیگا ہم یسوع کے شاگردوں کے طور پر مضبوطی سے خدا کے کلام پر قائم رہیں گے۔ پس ہمیں اِس بات کا یقین کر لینا چاہئے کہ ہمارا دل کبھی سخت، پتھریلی یا جھاڑیوں والی زمین کی طرح نہ بن جائے بلکہ ہمیشہ نرم اور پیداوار کے لئے اچھا رہے۔ ایسا کرنے سے ہم خدا کے کلام پر غوروخوض کرنے کے قابل ہوں گے ’اور صبر سے پھل لا سکیں گے۔‘—لوقا ۸:۱۵۔
[فٹنوٹ]
a اِس مضمون میں ہم پہلے تقاضے پر غور کرینگے۔ باقی دو تقاضوں پر اگلے مضامین میں بات کی جائیگی۔
b جب آپ بائبل کا ایک حصہ پڑھتے ہیں تو اُس پر دُعائیہ غوروخوض کرنے کے لئے آپ خود سے پوچھ سکتے ہیں: ’کیا بائبل کا یہ حصہ یہوواہ کی ایک یا اس سے زیادہ خوبیوں کو ظاہر کر رہا ہے؟ یہ بائبل کے موضوع کے ساتھ کس طرح تعلق رکھتا ہے؟ مَیں اسے اپنی زندگی پر کس طرح لاگو کر سکتا ہوں یا اسے دوسروں کی مدد کے لئے کس طرح استعمال کر سکتا ہوں؟‘
c مرقس، لوقا اور یوحنا کے مطابق یسوع کی تمثیل میں بیج زندگی کی فکروں اور دُنیا کی عیشوعشرت کی وجہ سے تباہ ہو جاتا ہے: ”دُنیا کی فکر،“ ”دولت کا فریب،“ ”اَور چیزوں کا لالچ“ اور ”عیشوعشرت۔“—مرقس ۴:۱۹؛ متی ۱۳:۲۲؛ لوقا ۸:۱۴؛ یرمیاہ ۴:۳، ۴۔
آپکے جوابات کیا ہیں؟
• ہمیں ’یسوع کے کلام پر قائم‘ رہنے کی ضرورت کیوں ہے؟
• خدا کا کلام ہمارے دلوں میں کس طرح قائم رہ سکتا ہے؟
• یسوع کی تمثیل میں چار قسم کی زمین کن لوگوں کی نمائندگی کرتی ہیں؟
• آپ خدا کے کلام پر غوروخوض کرنے کیلئے کس طرح وقت نکال سکتے ہیں؟
[صفحہ ۱۰ پر تصویر کی عبارت]
’حـق بـات پـر قـائـم رہـو‘
یسوع کے کئی پُرانے شاگردوں نے وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہ ثابت کِیا ہے کہ وہ ”حق بات پر قائم“ ہیں۔ (۲-پطرس ۱:۱۲) کس بات نے اُنکی قائم رہنے میں مدد کی؟ آئیے کچھ تبصروں پر غور کرتے ہیں۔
”ہر رات سونے سے پہلے میں بائبل پڑھتی ہوں۔ اسکے بعد دُعا کرکے اُس حصے پر غوروخوض کرتی ہوں۔“—جین، بپتسمہ ۱۹۳۹۔
”جب میں اس بات پر غور کرتی ہوں کہ یہوواہ بلند اور طاقتور ہونے کے باوجود بھی ہم سے اتنا پیار کرتا ہے تو مجھے سکون اور وفاداری دکھانے کی طاقت ملتی ہے۔“—پٹریشیا، بپتسمہ ۱۹۴۶۔
”خدا کے کلام کا باقاعدگی سے مطالعہ کرنے کی عادت اور ’خدا کی تہہ کی باتوں‘ میں مشغول رہنے سے مجھے وفادار رہنے میں مدد ملی۔“—۱-کرنتھیوں ۲:۱۰؛ اینا، بپتسمہ ۱۹۳۹۔
”میں اپنے دل اور محرکات کا جائزہ لینے کی غرض سے بائبل اور بائبل پر مبنی کتابیں پڑھتی ہوں۔“—زیلڈا، بپتسمہ ۱۹۴۳۔
”جب مَیں سیر کرتے وقت دُعا میں یہوواہ سے باتچیت کرتے ہوئے اُسے اپنے احساسات کی بابت بتانے کے قابل ہوتا ہوں تو میری زندگی کے یہ بہترین لمحے ہوتے ہیں۔“—رالف، بپتسمہ ۱۹۴۷۔
”میں اپنے دن کا آغاز بائبل کی پڑھائی اور روزانہ کی آیت سے کرتی ہوں۔ اسطرح مَیں سارا دن یہوواہ کے بارے میں ایک نئے موضوع پر سوچ سکتی ہوں۔“—میری، بپتسمہ ۱۹۳۵۔
”میرے لئے بائبل کی کسی ایک کتاب پر آیتباآیت غوروخوض کرنا واقعی تقویت کا باعث ہوا ہے۔“—دانیایل، بپتسمہ ۱۹۴۶۔
آپ کب خدا کے کلام پر غوروخوض کرنے کیلئے وقت نکالتے ہیں؟—دانیایل ۶:۱۰ب؛ مرقس ۱:۳۵؛ اعمال ۱۰:۹۔
[صفحہ ۱۳ پر تصویر]
روحانی چیزوں کو پہلا درجہ دینے سے ہی ہم ’صبر سے پھل لا سکتے ہیں‘