خدا کی بادشاہت کب آئے گی؟
”جب تُم اِن سب باتوں کو دیکھو تو جان لو کہ وہ نزدیک بلکہ دروازہ پر ہے۔“—متی ۲۴:۳۳۔
۱، ۲. (الف) بعض اوقات لوگ کسی ایک بات پر پوری طرح دھیان کیوں نہیں دے پاتے؟ (ب) ہم خدا کی بادشاہت کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
اگر دو اشخاص نے ایک حادثے کو دیکھا ہے تو اکثر اِن میں سے ایک کو اِس حادثے کی بہت سی تفصیلات یاد رہتی ہیں لیکن دوسرے کو نہیں۔ جب ایک ڈاکٹر ایک شخص کو اُس کی بیماری کے بارے میں بتاتا ہے تو بعد میں شاید اُس شخص کو یاد نہیں رہتا ہے کہ ڈاکٹر نے اُسے کیا بتایا تھا۔ ایک شخص اپنی چابیاں یا چشمہ ڈھونڈ رہا ہے مگر یہ اُسے نظر نہیں آتا حالانکہ یہ کہیں اُس کے آسپاس ہی ہے۔ اِن تینوں صورتوں میں مسئلہ کیا ہے؟ دراصل اِن تینوں اشخاص کا دھیان کسی اَور بات پر تھا۔ تحقیقدانوں نے یہ دریافت کِیا ہے کہ ہمارا دماغ ایک وقت میں کسی ایک بات پر ہی پوری طرح دھیان دے سکتا ہے۔ اِس لئے اگر ایک وقت میں ہم کسی ایک بات کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں تو دیگر باتوں پر ہمارا دھیان نہیں جاتا۔
۲ آجکل بہت سے لوگوں کا دھیان اِس بات پر نہیں جاتا کہ زمین پر ہونے والے واقعات کیا اہمیت رکھتے ہیں۔ شاید وہ یہ مانتے ہیں کہ ۱۹۱۴ء سے دُنیا کے حالات بہت بدل گئے ہیں لیکن وہ اِس تبدیلی کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ بائبل کا مطالعہ کرنے سے ہم نے یہ سیکھا ہے کہ خدا کی بادشاہت ایک لحاظ سے ۱۹۱۴ء میں آئی کیونکہ اُس وقت یسوع مسیح کو آسمان پر بادشاہ بنایا گیا تھا۔ لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہماری اِس دُعا کا جواب ابھی پوری طرح سے نہیں ملا کہ ”تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔“ (متی ۶:۱۰) اِس دُعا کا مکمل جواب تب ملے گا جب اِس بُری دُنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اُس وقت زمین پر خدا کی مرضی ویسے ہی ہوگی جیسے آسمان پر ہو رہی ہے۔
۳. خدا کے کلام کا مطالعہ کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوا ہے؟
۳ باقاعدگی سے بائبل کا مطالعہ کرنے کی وجہ سے ہم جانتے ہیں کہ آخری زمانے کے بارے میں بائبل کی پیشگوئی پوری ہو رہی ہے۔ لیکن دوسرے لوگ یہ نہیں جانتے۔ وہ اپنی زندگی کے معاملات میں بےحد مگن رہتے ہیں۔ اِس لئے اُن کا دھیان اُن حقائق کی طرف نہیں جاتا جن سے پتہ چلتا ہے کہ یسوع مسیح ۱۹۱۴ء سے آسمان پر بادشاہ بن چکے ہیں اور جلد ہی وہ بُرے لوگوں کو ختم کریں گے۔ شاید آپ کافی سالوں سے خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو خود سے پوچھیں: ”کیا مجھے ابھی بھی پورا یقین ہے کہ دُنیا کے حالات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خاتمہ نزدیک ہے؟“ اگر آپ حال ہی میں یہوواہ کے گواہ بنے ہیں تو خود سے پوچھیں: ”کیا میرے طرزِزندگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ مَیں دُنیا کے حالات کی اہمیت کو سمجھتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ یہ آخری زمانہ ہے؟“ آئیں، ہم تین ایسی وجوہات پر غور کریں جن کی بِنا پر ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ بادشاہ یسوع مسیح جلد ہی کچھ اہم قدم اُٹھائیں گے جن کے نتیجے میں زمین پر خدا کی مرضی پوری ہوگی۔
گُھڑسوار اپنا کام شروع کرتے ہیں
۴، ۵. (الف) یسوع مسیح ۱۹۱۴ء سے کیا کر رہے ہیں؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔) (ب) تین گُھڑسوار کس کی طرف اِشارہ کرتے ہیں؟ اور جب سے اُنہوں نے اپنا کام شروع کِیا ہے تب سے حالات کیسے ہیں؟
۴ سن ۱۹۱۴ء میں آسمان پر یسوع مسیح کو ”تاج دیا گیا“ یعنی اُنہیں بادشاہ بنایا گیا۔ مکاشفہ ۶ باب میں درج پیشگوئی کے مطابق یسوع مسیح سفید گھوڑے پر سوار ہیں۔ بادشاہ بننے کے فوراً بعد وہ شیطان کی دُنیا کو فتح کرنے کے لئے نکلے۔ (مکاشفہ ۶:۱، ۲ کو پڑھیں۔) اِس پیشگوئی میں بتایا گیا تھا کہ جیسے ہی خدا کی بادشاہت حکمرانی شروع کرے گی، زمین پر حالات بہت بگڑ جائیں گے۔ جنگیں، کال، بیماریاں اور دیگر وبائیں پہلے سے کہیں زیادہ عام ہو جائیں گی۔ پیشگوئی میں یسوع مسیح کے پیچھے آنے والے جن تین گُھڑسواروں کا ذکر کِیا گیا ہے، وہ اِنہی حالات کی طرف اِشارہ کرتے ہیں۔—مکا ۶:۳-۸۔
۵ دُنیا کے حکمرانوں نے امن قائم کرنے کی بڑی کوششیں کی ہیں لیکن پیشگوئی کے مطابق ”زمین پر سے صلح اُٹھا“ لی گئی ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد ہولناک جنگوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا ہے جو رُکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ حالانکہ ۱۹۱۴ء سے دُنیا میں سائنسی اور معاشی لحاظ سے بہت ترقی ہوئی ہے پھر بھی بہت سے لوگوں کو دو وقت کی روٹی نہیں ملتی۔ اِس کے علاوہ ہر سال طرحطرح کی بیماریوں، وباؤں اور قدرتی آفتوں کی وجہ سے لاکھوں لوگ موت کا لقمہ بن جاتے ہیں۔ اِس طرح کے حالات دُنیابھر میں دیکھنے کو ملتے ہیں، یہ پہلے سے کہیں زیادہ عام ہو گئے ہیں اور اِن کی وجہ سے پہلے سے کہیں زیادہ لوگ ہلاک ہو رہے ہیں۔ کیا آپ اِن حالات کی اہمیت کو سمجھتے ہیں؟
۶. کن لوگوں نے خدا کی بادشاہت کے بارے میں بائبل کی پیشگوئی پر دھیان دیا؟ اور اِس سے اُنہیں کیا کرنے کی ترغیب ملی؟
۶ سن ۱۹۱۴ء میں بہت سے لوگوں کا سارا دھیان پہلی عالمی جنگ اور بعد میں سپینش فلو کی وبا پر لگ گیا۔ لیکن ممسوح مسیحیوں کا دھیان اِس بات پر تھا کہ ۱۹۱۴ء میں ”غیرقوموں کی معیاد“ ختم ہوگی۔ (لو ۲۱:۲۴) وہ پوری طرح تو نہیں جانتے تھے کہ اِس سال میں کیا ہوگا لیکن اُنہیں اِتنا ضرور معلوم تھا کہ اِس سال میں خدا کی حکمرانی کے سلسلے میں کوئی اہم واقعہ ضرور ہوگا۔ جیسے ہی اُنہوں نے دیکھا کہ آخری زمانے کے بارے میں بائبل کی پیشگوئی پوری ہو رہی ہے، اُنہوں نے دوسروں کو یہ بتانا شروع کر دیا کہ خدا کی بادشاہت قائم ہوگی ہے۔ اِس کے نتیجے میں اُنہیں بہت اذیت اُٹھانی پڑی۔ یہ بھی اِس بات کا ایک نشان تھا کہ بائبل کی پیشگوئی پوری ہو رہی ہے۔ آئندہ سالوں کے دوران خدا کی بادشاہت کے دُشمنوں نے ”قانون کی آڑ میں بدی“ کے منصوبے گھڑے۔ اُنہوں نے خدا کے بندوں کو تشدد کا نشانہ بنایا، اُنہیں قیدخانوں میں ڈالا، یہاں تک کہ ہمارے بعض بھائیوں کو پھانسی دی گئی، بعض کو گولی مار کر ہلاک کِیا گیا اور کچھ کا تو سر قلم کر دیا گیا۔—زبور ۹۴:۲۰؛ مکا ۱۲:۱۵۔
۷. آجکل بہت سے لوگ دُنیا کے حالات کی اہمیت کو کیوں نہیں سمجھ پاتے؟
۷ اِس بات کے بہت سے ثبوت ہیں کہ خدا کی بادشاہت آسمان پر قائم ہو چکی ہے۔ پھر بھی بہت سے لوگ اِس بات کا یقین کیوں نہیں کرتے؟ خدا کے بندے کئی سالوں سے لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ آجکل جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بائبل کے مطابق آخری زمانے کا نشان ہے۔ پھر بھی لوگ اِن باتوں کو کیوں نہیں سمجھتے؟ اِس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ صرف اُنہی باتوں پر دھیان دیتے ہیں جنہیں وہ دیکھ سکتے ہیں۔ (۲-کر ۵:۷) وہ اپنی زندگی میں اِتنے مصروف رہتے ہیں کہ وہ یہ دیکھ ہی نہیں پاتے کہ خدا کیا کچھ انجام دے رہا ہے۔ (متی ۲۴:۳۷-۳۹) شیطان کی دُنیا کے نظریات سے متاثر ہونے کی وجہ سے بعض لوگوں کا دھیان اِس بات کی طرف بالکل نہیں جاتا کہ موجودہ حالات آخری زمانے کا نشان ہیں۔ (۲-کر ۴:۴) یہ سمجھنے کے لئے کہ خدا کی بادشاہت آجکل کیا کر رہی ہے، ہمیں ایمان کی ضرورت ہے۔ کتنی خوشی کی بات ہے کہ ہمارا دھیان خدا کی بادشاہت سے نہیں ہٹا۔
بُرائی میں دنبہدن اِضافہ ہو رہا ہے
۸-۱۰. (الف) آجکل ۲-تیمتھیس ۳:۱-۵ میں درج پیشگوئی کیسے پوری ہو رہی ہے؟ (ب) ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ آجکل بُرائی میں دنبہدن اِضافہ ہو رہا ہے؟
۸ آجکل بُرائی میں دنبہدن اِضافہ ہو رہا ہے۔ یہ دوسری وجہ ہے جس کی بِنا پر ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا کی بادشاہت جلد ہی زمین پر حکمرانی شروع کرے گی۔ تقریباً پچھلے سو سال سے لوگ ایسی سوچ اور رویے ظاہر کر رہے ہیں جن کے بارے میں ۲-تیمتھیس ۳:۱-۵ میں بتایا گیا ہے۔ اِس تمام عرصے کے دوران لوگ بگڑتے چلے گئے ہیں۔ کیا آپ نے بھی دیکھا ہے کہ یہ پیشگوئی پہلے سے کہیں زیادہ وسیع پیمانے پر پوری ہو رہی ہے؟ آئیں، اِس کی چند مثالوں پر غور کریں۔—۲-تیمتھیس ۳:۱، ۱۳ کو پڑھیں۔
۹ آج سے تقریباً ۶۰ سال پہلے جن کاموں کو بُرا سمجھا جاتا تھا، اب وہی کام ملازمت کی جگہوں، کھیل اور تفریح کے میدان میں اور فیشن کی دُنیا میں عام نظر آتے ہیں۔ تشدد اور بدکاری بہت پھیل گئے ہیں۔ بہت سے لوگ دوسروں پر ظلم کرکے یا کوئی گھناؤنا کام کرکے بڑی شیخی مارتے ہیں۔ پچاس سال پہلے ٹیلیویژن پر جو پروگرام دِکھانا نامناسب سمجھا جاتا تھا، آجکل وہی پروگرام سب گھر والے مل کر دیکھتے ہیں۔ فیشن اور تفریح کی دُنیا میں ہمجنسپرستوں کا کردار بڑھتا جا رہا ہے اور یوں وہ عوام میں اپنے طرزِزندگی کو فروغ دے رہے ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا ایسے کاموں سے نفرت کرتا ہے اور وہ اُن لوگوں کو سخت سزا دے گا جو ایسے کام کرتے ہیں۔—یہوداہ ۱۴، ۱۵ کو پڑھیں۔
۱۰ اِس کے علاوہ تقریباً ۶۰ سال پہلے بچوں کی جن حرکتوں کو نافرمانی یا بغاوت خیال کِیا جاتا تھا، اب وہی بہت عام ہیں۔ پہلے ماںباپ کو فکر ہوتی تھی کہ کہیں ہمارے بچے سگریٹ اور شراب تو نہیں پینے لگے اور کہیں وہ بےہودہ قسم کا ڈانس تو نہیں کرتے۔ لیکن آجکل تو بچے اِن سے کہیں زیادہ بُرے کام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ۱۵ سالہ نوجوان نے اپنے ہمجماعتوں پر گولیاں چلائیں جس سے ۲ بچے ہلاک اور ۱۳ زخمی ہو گئے۔ شراب کے نشے میں دُھت کچھ نوجوانوں نے ایک نو سالہ لڑکی کو بڑی بےرحمی سے قتل کر دیا اور اُس کے باپ اور ایک رشتےدار کو بُری طرح پیٹا۔ ایشیا کے ایک ملک میں پچھلے دس سالوں میں جتنے بھی جُرم ہوئے، اُن میں سے آدھے جرائم میں نوجوان ملوث تھے۔ کیا اِس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ حالات پہلے سے کہیں زیادہ بگڑ گئے ہیں؟
۱۱. لوگ اِس بات پر دھیان کیوں نہیں دیتے کہ دُنیا کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں؟
۱۱ پطرس رسول نے کہا: ”اخیر دنوں میں ایسے ہنسی ٹھٹھا کرنے والے آئیں گے جو اپنی خواہشوں کے موافق چلیں گے اور کہیں گے کہ اُس کے آنے کا وعدہ کہاں گیا؟ کیونکہ جب سے باپدادا سوئے ہیں اُس وقت سے اب تک سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا خلقت کے شروع سے تھا۔“ (۲-پطر ۳:۳، ۴) بعض لوگ ایسا کیوں سوچتے ہیں؟ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک بات یا صورتحال بہت عام ہو جاتی ہے تو لوگ اُس پر کم دھیان دیتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں لوگوں کے رویے میں تبدیلی ایک دم نہیں بلکہ آہستہآہستہ آئی ہے۔ اگر ہمارے کسی دوست کا رویہ فوراً بدلتا ہے تو ہمیں دھچکا لگتا ہے۔ لیکن اگر ہمارے معاشرے کے لوگوں کے رویے میں آہستہآہستہ تبدیلی آتی ہے تو ہمیں زیادہ حیرت نہیں ہوتی۔ حالانکہ ایسی تبدیلی خطرناک ہوتی ہے۔
۱۲، ۱۳. (الف) اِس وقت دُنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، ہمیں اُس سے مایوس کیوں نہیں ہونا چاہئے؟ (ب) ہم اِن ’بُرے دنوں‘ سے کیسے نپٹ سکتے ہیں؟
۱۲ پولُس رسول نے بتایا کہ ”اخیر زمانہ میں بُرے دن آئیں گے۔“ (۲-تیم ۳:۱) لیکن ہم اِن بُرے دنوں سے نپٹ سکتے ہیں۔ ہم یہوواہ خدا، اُس کی پاک روح اور کلیسیا کی مدد کے ذریعے ہر طرح کے خوف اور مایوسی کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور یہوواہ خدا کے وفادار رہ سکتے ہیں۔ وہ ہمیں ”حد سے زیادہ قدرت“ عطا کرتا ہے۔—۲-کر ۴:۷-۱۰۔
۱۳ غور کریں کہ پولُس رسول نے آخری زمانے کے بارے میں پیشگوئی کا آغاز اِن الفاظ سے کِیا: ”یہ جان رکھ۔“ اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِس پیشگوئی میں جو کچھ بھی کہا گیا ہے، وہ ضرور ہوگا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ بُرے لوگ اُس وقت تک بگڑتے ہی چلے جائیں گے جب تک خدا اُنہیں ختم نہیں کر دیتا۔ اِنسانی تاریخ میں ہمیں ایسی قوموں کی مثالیں ملتی ہیں جو بدچلنی کی راہ اِختیار کرنے کی وجہ سے تباہ ہو گئیں۔ لیکن پوری تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ساری کی ساری دُنیا میں ہی بُرائی اِنتہا کو پہنچ گئی ہو۔ بہت سے لوگ شاید اِس بات کی اہمیت کو نظرانداز کریں۔ لیکن ۱۹۱۴ء سے ہونے والے واقعات اِس بات کا ثبوت ہیں کہ خدا کی بادشاہت بہت جلد بُرائی کا خاتمہ کر دے گی۔
یہ نسل ہرگز ختم نہیں ہوگی
۱۴-۱۶. اِس بات پر یقین کرنے کی تیسری وجہ کیا ہے کہ خدا کی بادشاہت جلد آنے والی ہے؟
۱۴ خدا کے بندوں کی تاریخ پر غور کرنے سے تیسری وجہ سامنے آتی ہے جس کی بِنا پر ہم یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ خاتمہ نزدیک ہے۔ آسمان پر خدا کی بادشاہت قائم ہونے سے پہلے ممسوح مسیحیوں کا ایک گروہ زمین پر بڑی لگن سے خدا کی خدمت کر رہا تھا۔ جب ۱۹۱۴ء کے سلسلے میں اِس گروہ کی کچھ اُمیدیں پوری نہ ہوئیں تو اُنہوں نے کیا کِیا؟ اِس گروہ کے زیادہتر رُکن مشکلوں اور اذیت کے باوجود یہوواہ خدا کے وفادار رہے۔ اب بہت سے ممسوح مسیحی آسمان پر اپنا اجر پا چکے ہیں۔
۱۵ دُنیا کے آخر کے بارے میں پیشگوئی میں یسوع مسیح نے کہا کہ ”جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں یہ نسل ہرگز تمام نہ ہوگی۔“ (متی ۲۴:۳۳-۳۵ کو پڑھیں۔) جس ”نسل“ کا یسوع مسیح نے ذکر کِیا، وہ دراصل ممسوح مسیحیوں کے دو گروہوں پر مشتمل ہے۔ پہلا گروہ ۱۹۱۴ء میں موجود تھا۔ اِس گروہ میں شامل مسیحیوں نے یسوع مسیح کی موجودگی کے بارے میں پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھا تھا۔ اِس گروہ کے رُکن ۱۹۱۴ء میں یا اِس سے پہلے مسح ہو چکے تھے۔—روم ۸:۱۴-۱۷۔
۱۶ دوسرے گروہ کے رُکن پہلے گروہ کے مسیحیوں کی زندگی کے دوران نہ صرف موجود تھے بلکہ وہ اُن کی زندگی میں ہی روح سے مسح کئے گئے تھے۔ لہٰذا آجکل ہر ممسوح مسیحی اُس ”نسل“ میں شامل نہیں جس کا یسوع مسیح نے ذکر کِیا تھا۔ دوسرے گروہ کے ممسوح مسیحیوں میں سے بعض اب کافی بوڑھے ہو چکے ہیں۔ لیکن متی ۲۴:۳۴ میں درج الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑی مصیبت شروع ہونے سے پہلے اِس ”نسل“ کے کچھ رُکن زمین پر موجود ہوں گے۔ اِس سے اِس بات پر ہمارا ایمان اَور مضبوط ہو جاتا ہے کہ خدا کی بادشاہت کا بادشاہ بہت جلد اِس بُری دُنیا کو ختم کرے گا اور اِس زمین کو فردوس بنا دے گا جس میں ”راستبازی بسی رہے گی۔“—۲-پطر ۳:۱۳۔
یسوع مسیح جلد شیطان کی دُنیا پر فتح پائیں گے
۱۷. ہم نے بائبل کی جن تین پیشگوئیوں پر غور کِیا ہے، اُن سے کس بات پر ہمارا اِعتماد مضبوط ہوتا ہے؟
۱۷ ہم نے جن تین پیشگوئیوں پر غور کِیا، اُن سے ہم کس نتیجے پر پہنچتے ہیں؟ یسوع مسیح کے کہنے کے مطابق ہم اِس دُنیا کے خاتمے کے دن اور گھڑی کے بارے میں نہیں جانتے۔ (متی ۲۴:۳۶؛ ۲۵:۱۳) لیکن پولُس رسول کے مطابق ہم اُس ”وقت [یعنی زمانے] کو پہچان“ سکتے ہیں جب خاتمہ نزدیک ہوگا۔ (رومیوں ۱۳:۱۱ کو پڑھیں۔) اب ہم اُسی زمانے میں رہ رہے ہیں۔ اگر ہم اِس بات پر دھیان دیتے ہیں کہ بائبل کی پیشگوئیاں آجکل کیسے پوری ہو رہی ہیں اور خدا کی بادشاہت اب کیا کر رہی ہے تو اِس بات پر ہمارا اِعتماد بڑھتا ہے کہ یہ دُنیا جلد ختم ہونے والی ہے۔
۱۸. جو لوگ بادشاہ یسوع مسیح کے اِختیار کو نہیں مانتے، اُن کا انجام کیا ہوگا؟
۱۸ بادشاہ یسوع مسیح اِس وقت سفید گھوڑے پر سوار ہیں۔ جو لوگ اُن کے اِختیار کو نہیں مانتے، اُنہیں جلد ہی یہ پتہ چل جائے گا کہ اُنہوں نے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔ اُنہیں بچ نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آئے گا۔ اُس وقت وہ دہشت اور خوف کی شدت سے چلا اُٹھیں گے: ”اب کون ٹھہر سکتا ہے؟“ (مکا ۶:۱۵-۱۷) اِس سوال کا جواب مکاشفہ ۷ باب سے ملتا ہے۔ اُس وقت ممسوح مسیحی اور زمین پر زندگی کی اُمید رکھنے والے مسیحی خدا کے حضور ”ٹھہر“ سکیں گے کیونکہ اُنہیں خدا کی خوشنودی حاصل ہوگی۔ پھر ”بڑی بِھیڑ“ بڑی مصیبت سے بچ کر نئی دُنیا میں جائے گی۔—مکا ۷:۹، ۱۳-۱۵۔
۱۹. آپ ہرمجِدّون کے بعد کس طرح کی زندگی کی اُمید رکھتے ہیں؟
۱۹ اگر ہم بائبل کی اُن پیشگوئیوں پر دھیان دیتے ہیں جو ہمارے زمانے میں پوری ہو رہی ہیں تو ہم شیطان کی دُنیا کی سوچ سے متاثر نہیں ہوں گے۔ ہمارا دھیان اِس بات رہے گا کہ اِس دُنیا کے حالات کیا رُخ اِختیار کرتے ہیں۔ بادشاہ یسوع مسیح جلد ہی ہرمجِدّون کی جنگ میں شیطان کی دُنیا کو ختم کریں گے۔ (مکا ۱۹:۱۱، ۱۹-۲۱) اِس کے بعد ہماری زندگی خوشیوں اور برکتوں سے بھر جائے گی۔—مکا ۲۰:۱-۳، ۶؛ ۲۱:۳، ۴۔