آسمانی وطن والے مسیحی گواہ
”مگر ہمارا وطن آسمان پر ہے۔“—فلپیوں ۳:۲۰۔
۱. بعض انسانوں کے سلسلے میں یہوؔواہ کیا شاندار مقصد رکھتا ہے؟
انسانوں کے طور پر پیدا ہونے والے افراد آسمان میں فرشتوں پر بھی بادشاہوں اور کاہنوں کے طور پر حکمرانی کرینگے۔ (۱-کرنتھیوں ۶:۲، ۳؛ مکاشفہ ۲۰:۶) یہ کیا ہی حیرانکُن سچائی ہے! تاہم، یہوؔواہ نے اِسکا قصد کِیا، اور وہی اِسے اپنے اکلوتے بیٹے، یسوؔع مسیح کے ذریعے پورا کرتا ہے۔ ہمارا خالق ایسا کام کیوں کرتا ہے؟ اور اِسکے علم کو آجکل ایک مسیحی پر کس طرح اثرانداز ہونا چاہئے؟ آئیے دیکھیں بائبل اِن سوالوں کے جواب کیسے دیتی ہے؟
۲. یوؔحنا اصطباغی نے کس نئے کام کا اعلان کِیا جو یسوؔع کریگا، اور اِس نئے کام کا تعلق کس سے تھا؟
۲ جب یوؔحنا اصطباغی یسوؔع کیلئے راہ تیار کر رہا تھا تو اُس نے اعلان کِیا کہ یسوؔع کوئی نیا کام کریگا۔ ریکارڈ بیان کرتا ہے: ”[یوؔحنا] یہ منادی کرتا تھا کہ میرے بعد وہ شخص آنے والا ہے جو مجھ سے زورآور ہے۔ مَیں اِس لائق نہیں کہ جھک کر اُسکی جوتیوں کا تسمہ کھولوں۔ مَیں نے تو تمکو پانی سے بپتسمہ دیا مگر وہ تمکو رُوحالقدس سے بپتسمہ دیگا۔“ (مرقس ۱:۷، ۸) اس سے پہلے، کسی کو بھی رُوحالقدس کے ذریعے بپتسمہ نہیں دیا گیا تھا۔ رُوحالقدس پر مشتمل یہ ایک نیا بندوبست تھا، اور انسانوں کو آسمانی حکمرانی کیلئے تیار کرنے کیلئے آشکارا ہونے والے یہوؔواہ کے مقصد سے اسکا قریبی تعلق تھا۔
”نئے سرے سے پیدا“
۳. یسوؔع نے نیکدیمسؔ سے آسمان کی بادشاہی کی بابت کس نئے کام کی وضاحت کی؟
۳ ایک ممتاز فریسی کے ساتھ خفیہ ملاقات میں، یسوؔع نے اِس الہٰی مقصد کی بابت مزید اِنکشاف کِیا۔ وہ فریسی، نیکدیمسؔ، رات میں یسوؔع کے پاس آیا، اور یسوؔع نے اُس سے کہا: ”جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہی کو دیکھ نہیں سکتا۔“ (یوحنا ۳:۳) نیکدیمسؔ، جس نے ایک فریسی کے طور پر عبرانی صحائف کا ضرور مطالعہ کِیا ہوگا، خدا کی بادشاہت کی شاندار سچائی کی بابت کچھ جانتا تھا۔ دانیؔایل کی کتاب نے پیشینگوئی کی کہ بادشاہت ”ایک شخص“ کو جو ”آدمزاد کی مانند“ ہے اور ”حقتعالیٰ کے مُقدس لوگوں“ کو بخشی جائیگی۔ (دانیایل ۷:۱۳، ۱۴، ۲۷) بادشاہت نے ”تمام دوسری مملکتوں کو ”ٹکڑےٹکڑے اور نیست“ کرنا اور ابد تک قائم رہنا تھا۔ (دانیایل ۲:۴۴) غالباً، نیکدیمسؔ نے سوچا کہ یہ پیشینگوئیاں یہودی قوم کے سلسلے میں پوری ہونگی؛ لیکن یسوؔع نے کہا بادشاہت کو دیکھنے کی خاطر، کسی کو نئے سرے سے پیدا ہونا تھا۔ نیکدیمسؔ نے نہ سمجھا، لہٰذا یسوؔع مزید کہنے لگا: ”جب تک کوئی آدمی پانی اور روح سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتا۔“—یوحنا ۳:۵۔
۴. روحالقدس سے پیدا ہونے والوں کیلئے، یہوؔواہ کیساتھ اُنکا رشتہ کیسے تبدیل ہوگا؟
۴ یوؔحنا اصطباغی روحالقدس کے ذریعے بپتسمے کا ذکر کر چکا تھا۔ اب، یسوؔع اضافہ کرتا ہے کہ اگر ایک شخص نے خدا کی بادشاہی میں داخل ہونا ہے تو ضرور ہے کہ وہ روحالقدس سے پیدا ہو۔ اِس منفرد پیدائش کے ذریعے، ناکامل مرد اور عورتیں یہوؔواہ خدا کیساتھ ایک نہایت ہی مخصوص رشتے میں داخل ہو جاتے ہیں۔ وہ اُسکے لےپالک فرزند بن جاتے ہیں۔ ہم پڑھتے ہیں: ”لیکن جتنوں نے [یسوؔع کو] قبول کِیا اُس نے اُنہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی اُنہیں جو اُسکے نام پر ایمان لاتے ہیں۔ وہ نہ خون سے نہ جسم کی خواہش سے نہ انسان کے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے۔“—یوحنا ۱:۱۲، ۱۳؛ رومیوں ۸:۱۵۔
خدا کے فرزند
۵. وفادار شاگردوں کا روحالقدس کے ذریعے بپتسمہ کب ہوا تھا، اور روحالقدس کے کونسے متعلقہ عمل اُسی وقت رونما ہوئے؟
۵ جب یسوؔع نے نیکدیمسؔ سے باتچیت کی، اس سے پہلے ہی خدا کی بادشاہت میں اُسکے آئندہ بادشاہ ہونے کے لئے اُسے مسح کرتے ہوئے روحالقدس یسوؔع پر نازل ہو چکی تھی، اور خدا یسوؔع کو اعلانیہ طور پر بطور اپنے بیٹے کے تسلیم کر چکا تھا۔ (متی ۳:۱۶، ۱۷) یہوؔواہ ۳۳ س.ع. پنتِکُست پر مزید روحانی فرزندوں کا باپ بن گیا۔ یرؔوشلیم میں بالاخانے پر جمع وفادار شاگردوں کو روحالقدس کے ذریعے بپتسمہ دیا گیا تھا۔ اُسی وقت، وہ خدا کے روحانی فرزند ہونے کیلئے روحالقدس سے نئے سرے سے پیدا ہوئے تھے۔ (اعمال ۲:۲-۴، ۳۸؛ رومیوں ۸:۱۵) علاوہازیں، اُنہیں آئندہ آسمانی میراث پانے کی غرض سے روحالقدس سے مسح کِیا گیا تھا، اور اُس آسمانی اُمید کے ثبوت کے طور پر شروع میں ان پر روحالقدس کے ذریعے مہر کر دی گئی تھی۔—۲-کرنتھیوں ۱:۲۱، ۲۲۔
۶. آسمانی بادشاہت کے سلسلے میں یہوؔواہ کا کیا مقصد ہے، اور یہ کیوں موزوں ہے کہ انسانوں کو اِس میں حصہ لینا چاہئے؟
۶ یہ پہلے ناکامل انسان تھے جنہیں بادشاہت میں داخل ہونے کیلئے خدا نے چنا تھا۔ یعنی اپنی موت اور قیامت کے بعد، اُنہیں آسمانی بادشاہتی تنظیم کا حصہ بننا تھا جو انسانوں اور فرشتوں پر حکمرانی کریگی۔ یہوؔواہ کا یہ مقصد ہے کہ اِس بادشاہت کے ذریعے، تمام مخلوقات کے سامنے اُسکے عظیم نام کی تقدیس اور اُسکی حاکمیت کی برأت کی جائیگی۔ (متی ۶:۹، ۱۰؛ یوحنا ۱۲:۲۸) یہ کسقدر موزوں ہے کہ انسانوں کا اِس بادشاہت میں حصہ ہے! شیطان نے پیچھے ماضی میں باغِعدؔن کے اندر یہوؔواہ کی حاکمیت کے خلاف اپنا پہلا چیلنج پیش کرتے وقت انسانوں کو استعمال کِیا، اور اب یہوؔواہ کا یہ مقصد ہے کہ اُس چیلنج کا جواب دینے کیلئے انسان شامل ہوں گے۔ (پیدایش ۳:۱-۶؛ یوحنا ۸:۴۴) پطرؔس رسول نے اس بادشاہت میں حکمرانی کرنے کیلئے منتخب لوگوں کو لکھا: ”ہمارے خداوند یسوؔع مسیح کے خدا اور باپ کی حمد ہو جس نے یسوؔع مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے باعث اپنی بڑی رحمت سے ہمیں زندہ اُمید کے لئے نئے سرے سے پیدا کِیا۔ تاکہ ایک غیرفانی اور بےداغ اور لازوال میراث کو حاصل کریں۔ وہ تمہارے واسطے . . . آسمان پر محفوظ ہے۔“—۱-پطرس ۱:۳-۵۔
۷. روحالقدس کے ذریعے بپتسمہ پانے والے یسوؔع کیساتھ کس منفرد رشتے کا لطف اُٹھاتے ہیں؟
۷ خدا کے لےپالک فرزندوں کے طور پر، یہ برگزیدہ مسیحی یسوؔع مسیح کے بھائی بن گئے۔ (رومیوں ۸:۱۶، ۱۷؛ ۹:۴، ۲۶؛ عبرانیوں ۲:۱۱) چونکہ یسوؔع وہ نسل ثابت ہوا جسکا وعدہ اؔبرہام سے کِیا گیا تھا، اِسلئے یہ روح سے مسحشُدہ مسیحی اُس نسل کا نائب یا ذیلی حصہ ہیں، جو ایماندار نوعِانسان کو برکت عطا کرینگے۔ (پیدایش ۲۲:۱۷، ۱۸؛ گلتیوں ۳:۱۶، ۲۶، ۲۹) کونسی برکت؟ گناہ سے فدیہ دیکر چھڑائے جانے اور خدا کیساتھ ملاپ کرائے جانے اور اب اور ابد تک اُسکی خدمت کرنے کا موقع۔ (متی ۴:۲۳؛ ۲۰:۲۸؛ یوحنا ۳:۱۶، ۳۶؛ ۱-یوحنا ۲:۱، ۲) زمین پر ممسوح مسیحی اپنے روحانی بھائی یسوؔع مسیح اور اپنے لےپالک باپ، یہوؔواہ خدا کی بابت گواہی دینے سے راستدل اشخاص کی توجہ اِس برکت پر دلاتے ہیں۔—اعمال ۱:۸؛ عبرانیوں ۱۳:۱۵۔
۸. روح سے پیداشُدہ خدا کے فرزندوں کا ”ظاہر ہونا“ کیا مطلب رکھتا ہے؟
۸ بائبل رُوح سے پیداشُدہ خدا کے ان بیٹوں کے ”ظاہر ہونے“ کا ذکر کرتی ہے۔ (رومیوں ۸:۱۹) یسوؔع کیساتھ نائب بادشاہوں کے طور پر بادشاہت میں داخل ہونے سے، وہ شیطان کے عالمگیر نظامالعمل کو نیست کرنے میں حصہ لیتے ہیں۔ بعدازاں، ہزار سال کیلئے، وہ نوعِانسان کو فدیے کی قربانی کے فائدے پہنچانے کیلئے مدد کرتے ہیں اور یوں نسلِانسانی کو کاملیت تک پہنچاتے ہیں جسے آؔدم نے کھو دیا تھا۔ (۲-تھسلنیکیوں ۱:۸-۱۰؛ مکاشفہ ۲:۲۶، ۲۷؛ ۲۰:۶؛ ۲۲:۱، ۲) اُن کے ظاہر ہونے میں یہ سب کچھ شامل ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی ایماندار مخلوقات اشتیاق سے منتظر ہے۔
۹. بائبل ممسوح مسیحیوں کی عالمگیر جماعت کا حوالہ کیسے دیتی ہے؟
۹ ”اُن پہلوٹھوں کی عام جماعت جنکے نام آسمان پر لکھے ہیں،“ ممسوح مسیحیوں کا عالمگیر گروہ ہے۔ (عبرانیوں ۱۲:۲۳) یسوؔع کے فدیے کی قربانی سے فائدہ اُٹھانے والوں میں سے وہ پہلے ہیں۔ وہ ”مسیح کا بدن“ بھی ہیں جو اُنکے ایک دوسرے کیساتھ اور یسوؔع کیساتھ ایک قریبی رشتے کو ظاہر کرتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۲:۲۷) پولسؔ نے لکھا: ”کیونکہ جس طرح بدن ایک ہے اور اُسکے اعضا بہت سے ہیں اور بدن کے سب اعضا گو بہت سے ہیں مگر باہم ملکر ایک ہی بدن ہیں اُسی طرح مسیح بھی ہے۔ کیونکہ ہم سب نے خواہ یہودی ہوں خواہ یونانی۔ خواہ غلام خواہ آزاد۔ ایک ہی روح کے وسیلہ سے ایک بدن ہونے کیلئے بپتسمہ لیا اور ہم سب کو ایک ہی روح پلایا گیا۔“—۱-کرنتھیوں ۱۲:۱۲، ۱۳؛ رومیوں ۱۲:۵؛ افسیوں ۱:۲۲، ۲۳؛ ۳:۶۔
”خدا کا اسرائیل“
۱۰، ۱۱. پہلی صدی میں، نئے اسرائیل کی کیوں ضرورت تھی، اور کن لوگوں نے اِس نئی قوم کو تشکیل دیا؟
۱۰ یسوؔع کے مسیحا کے طور پر آنے سے ۱،۵۰۰ سال سے زیادہ عرصہ پیشتر، جسمانی بنی اسرائیل یہوؔواہ کی خاص اُمت تھے۔ مسلسل یاددہانیوں کے باوجود، قوم مجموعی طور پر بےوفا ثابت ہوئی۔ جب یسوؔع منظرِعام پر آیا تو قوم نے اُسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ (یوحنا ۱:۱۱) لہٰذا، یسوؔع نے یہودی مذہبی لیڈروں کو بتایا: ”خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائیگی اور اُس قوم کو جو اُسکے پھل لائے دیدی جائیگی۔“ (متی ۲۱:۴۳) ”[بادشاہت کے] پھل لانے [والی] قوم“ کو پہچاننا نجات کیلئے لازمی ہے۔
۱۱ نئی قوم ممسوح مسیحیوں کی کلیسیا ہے جو ۳۳ س.ع. کے پنتِکُست پر پیدا ہوئی۔ اِسکے پہلے رکن یسوؔع کے یہودی شاگرد تھے جنہوں نے اُسے اپنے آسمانی بادشاہ کے طور پر قبول کِیا۔ (اعمال ۲:۵، ۳۲-۳۶) تاہم، وہ اپنی یہودی نسل کی بنیاد پر نہیں، بلکہ یسوؔع پر اپنے ایمان کی بنیاد پر خدا کی نئی قوم کے رکن تھے۔ لہٰذا، خدا کا یہ نیا اسرائیل کوئی منفرد چیز یعنی ایک روحانی قوم تھا۔ جب یہودیوں کی اکثریت نے یسوؔع کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تو نئی قوم کا حصہ ہونے کیلئے سامریوں اور غیراقوام کو دعوت دی گئی تھی۔ نئی قوم کو ”خدا کے اسرائیل“ کا نام دیا گیا تھا۔—گلتیوں ۶:۱۶۔
۱۲، ۱۳. یہ بات کیسے واضح ہو گئی کہ نیا اسرائیل محض یہودیت کا ایک فرقہ نہ تھا؟
۱۲ قدیم اسرائیل میں، جب غیریہودی نومرید بنے تو اُنہیں موسوی شریعت کی اطاعت کرنی پڑی تھی، اور مردوں کو اپنا ختنہ کرانے سے یہ بات ظاہر کرنی پڑی تھی۔ (خروج ۱۲:۴۸، ۴۹) بعض یہودی مسیحیوں نے محسوس کِیا کہ خدا کے اسرائیل میں غیریہودیوں پر اِسکا اطلاق ہونا چاہئے۔ تاہم، یہوؔواہ کے ذہن میں کوئی اور بات تھی۔ روحالقدس نے پطرؔس رسول کو غیرقوم کُرنیلیسؔ کے گھر جانے کی ہدایت کی۔ جب کُرنیلیسؔ اور اُسکا خاندان پطرؔس کی منادی سے اثرپذیر ہوا تو اُنہوں نے پانی میں بپتسمہ لینے سے پہلے ہی روحالقدس حاصل کی۔ اِس چیز نے واضح طور پر ظاہر کر دیا کہ یہوؔواہ نے اِن غیراقوام کو یہ تقاضا کئے بغیر خدا کے اسرائیل کے اراکین کے طور پر قبول کر لیا تھا کہ وہ موسوی شریعت کی اطاعت کریں۔—اعمال ۱۰:۲۱-۴۸۔
۱۳ بعض ایمانداروں نے اِسے قبول کرنا مشکل پایا، اور جلد ہی پورے معاملے پر یرؔوشلیم میں رسولوں اور بزرگوں کو بحث کرنی پڑی تھی۔ اُس بااختیار جماعت نے یہ تفصیل بیان کرنے والی اس شہادت کو سنا کہ کس طرح روحالقدس غیریہودی ایمانداروں پر سرگرمِعمل رہی تھی۔ بائبل تحقیق نے ظاہر کِیا کہ یہ الہامی پیشینگوئی کی تکمیل میں تھا۔ (یسعیاہ ۵۵:۵؛ عاموس ۹:۱۱، ۱۲) ایک صحیح فیصلہ کر لیا گیا تھا: غیریہودی مسیحیوں کو موسوی شریعت کی اطاعت کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ (اعمال ۱۵:۱، ۶-۲۹) پس، روحانی اسرائیل واقعی ایک نئی قوم تھا نہ کہ محض یہودیت کا ایک فرقہ۔
۱۴. یعقوؔب کا مسیحی کلیسیا کو ”بارہ قبیلے جو جابجا رہتے ہیں“ کہنے سے کیا مفہوم تھا؟
۱۴ اِسکی مطابقت میں، پہلی صدی کے ممسوح مسیحیوں کو لکھتے وقت، یعقوؔب شاگرد نے ”اُن بارہ قبیلوں کو جو جابجا رہتے ہیں“ اپنا خط لکھا۔ (یعقوب ۱:۱؛ مکاشفہ ۷:۳-۸) بِلاشُبہ، نئے اسرائیل کے باشندوں کو مخصوص قبیلے تفویض نہیں کئے گئے تھے۔ روحانی اسرائیل کے ۱۲ قبائل میں کوئی تقسیم نہیں تھی جیسے کہ جسمانی اسرائیل میں رہی تھی۔ تاہم، یعقوؔب کا الہامی اظہار ظاہر کرتا ہے کہ یہوؔواہ کی نظر میں خدا کے اسرائیل نے مکمل طور پر پیدائشی اسرائیل کے ۱۲ قبائل کی جگہ لے لی تھی۔ اگر کوئی پیدائشی اسرائیلی نئی قوم کا حصہ بنتا تو اُسکی جسمانی نسل کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔—خواہ وہ یہوؔداہ یا لاویؔ کے قبیلے کا ہی ہوتا۔—گلتیوں ۳:۲۸؛ فلپیوں ۳:۵، ۶۔
ایک نیا عہد
۱۵، ۱۶. (ا) خدا کے اسرائیل کے غیریہودی اراکین کو یہوؔواہ کیسا خیال کرتا ہے؟ (ب) کس قانونی بنیاد پر نئے اسرائیل کو اُستوار کِیا گیا تھا؟
۱۵ نئی قوم کے غیراسرائیلی ممبر یہوؔواہ کی نظر میں پوری طرح روحانی یہودی ہیں! پولس رسول نے وضاحت کی: ”یہودی وہ نہیں جو ظاہر کا ہے اور نہ وہ ختنہ ہے جو ظاہری اور جسمانی ہے۔ بلکہ یہودی وہی ہے جو باطن میں ہے اور ختنہ وہی ہے جو دل کا اور روحانی ہے نہ کہ لفظی۔ اَیسے کی تعریف آدمیوں کی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔“ (رومیوں ۲:۲۸، ۲۹) بہتیرے غیرقوم لوگوں نے خدا کے اسرائیل کا حصہ بننے کی دعوت کا جواب دیا، اور اِس عمل نے بائبل پیشینگوئی کی تکمیل کی۔ مثال کے طور پر، ہوسیعؔ نبی نے لکھا: ”مَیں جس کے لئے رحم نہیں دکھایا گیا اس پر رحم کروں گا، اور جو میرے لوگ نہیں ہیں مَیں ان سے کہونگا: ’تم میرے لوگ ہو‘؛ اور وہ اس کے جواب میں کہیں گے: ’آپ ہمارے خدا ہیں۔‘“—ہوسیع ۲:۲۳، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن؛ رومیوں ۱۱:۲۵، ۲۶۔
۱۶ اگر روحانی اسرائیلی موسوی شریعتی عہد کے تحت نہیں تھے تو کس بنیاد پر وہ نئی قوم کا حصہ تھے؟ یہوؔواہ نے اِس روحانی اسرائیل کیساتھ یسوؔع کے ذریعے ایک نیا عہد باندھا۔ (عبرانیوں ۹:۱۵) جب یسوؔع نے نیسان ۱۴، ۳۳ س.ع. کو اپنی موت کی یادگاری کا آغاز کِیا تو اُس نے ۱۱ وفادار رسولوں کو روٹی اور مے پیش کی اور کہا کہ یہ مے ”عہد کے خون“ کی علامت ہے۔ (متی ۲۶:۲۸؛ یرمیاہ ۳۱:۳۱-۳۴) جیسے لوؔقا کی سرگزشت میں بیان کِیا گیا ہے، یسوؔع نے کہا کہ مے کا پیالہ ”نئے عہد“ کی علامت ہے۔ (لوقا ۲۲:۲۰) یسوؔع کے الفاظ کی تکمیل میں، جب پنتِکُست پر روحالقدس انڈیلی گئی اور خدا کے اسرائیل کی پیدائش ہوئی تو بادشاہی جسمانی اسرائیل سے لے لی گئی تھی اور نئے، روحانی اسرائیل کو دے دی گئی۔ جسمانی اسرائیل کی بجائے، اب اُسکے گواہوں پر مشتمل، یہ نئی قوم یہوؔواہ کا خادم تھی۔—یسعیاہ ۴۳:۱۰، ۱۱۔
”نیا یرؔوشلیم“
۱۷، ۱۸. مکاشفہ کی کتاب میں اُس جلال کی بابت کیا وضاحتیں پیش کی گئی ہیں جو کہ ممسوح مسیحیوں کا منتظر ہے؟
۱۷ کیا ہی جلال اُنکا منتظر ہے جنہیں آسمانی بلاہٹ میں شریک ہونے کا استحقاق بخشا گیا ہے! اور اُن عجائب کی بابت سیکھنا کیا ہی خوشی کی بات ہے جو اُنکے منتظر ہیں! مکاشفہ کی کتاب ہمیں اُنکی آسمانی میراث کی بابت ہیجانخیز جھلک دکھاتی ہے۔ مثال کے طور پر، مکاشفہ ۴:۴ میں ہم پڑھتے ہیں: ”[یہوؔواہ کے] تخت کے گرد چوبیس تخت ہیں اور اُن تختوں پر چوبیس بزرگ سفید پوشاک پہنے ہوئے بیٹھے ہیں اور اُنکے سروں پر سونے کے تاج ہیں۔“ یہ ۲۴ بزرگ قیامتیافتہ، ممسوح مسیحی ہیں اور اب اُس آسمانی مرتبے پر فائز ہیں جسکا یہوؔواہ نے اُن سے وعدہ کِیا۔ اُنکے تاج اور تخت ہمیں اُنکے شاہی اقتدار کی یاد دلاتے ہیں۔ اور یہوؔواہ کے تخت کے چوگرد خدمت کرنے کے اُنکے غیرمعمولی طور پر اعلیٰ استحقاق کی بابت بھی سوچیں!
۱۸ مکاشفہ ۱۴:۱ میں ہم اُنکی بابت ایک اور جھلک دیکھتے ہیں: ”پھر مَیں نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بّرہ صیوؔن کے پہاڑ پر کھڑا ہے اور اُسکے ساتھ ایک لاکھ چوالیس ہزار شخص ہیں جنکے ماتھے پر اُسکا اور اُسکے باپ کا نام لکھا ہوا ہے۔“ یہاں پر ہم اِن ممسوح اشخاص کی محدود تعداد—۱۴۴،۰۰۰—کو دیکھتے ہیں۔ اُنکی شاہانہ حیثیت اِس بات سے واضح طور پر دکھائی دیتی ہے کہ وہ یہوؔواہ کے تختنشین بادشاہ ”بّرہ“ یسوؔع کیساتھ کھڑے ہیں۔ اور وہ آسمانی کوہِ صیوؔن پر ہیں۔ زمینی کوہِصیوؔن اسرائیل کے شاہی شہر، یرؔوشلیم کی جائےوقوع تھا۔ آسمانی کوہِصیوؔن یسوؔع اور اُسکے ہممیراثوں کے بلند مرتبے کی نمائندگی کرتا ہے، جو آسمانی یرؔوشلیم کو تشکیل دیتے ہیں۔—۲-تواریخ ۵:۲؛ زبور ۲:۶۔
۱۹، ۲۰. (ا) ممسوح مسیحی کس آسمانی تنظیم کا حصہ ہونگے؟ (ب) کس وقت کے دوران یہوؔواہ نے اُن لوگوں کا چناؤ کِیا جنکا وطن آسمان میں ہوگا؟
۱۹ اِسکی مطابقت میں، اپنے آسمانی جلال میں ممسوح اشخاص کا ”نئے یرؔوشلیم“ کے طور پر بھی ذکر کِیا گیا ہے۔ (مکاشفہ ۲۱:۲) زمینی یرؔوشلیم ”بزرگ بادشاہ کا شہر“ اور ہیکل کی جائےوقوع بھی تھا۔ (متی ۵:۳۵) نیا آسمانی یرؔوشلیم شاہانہ بادشاہتی تنظیم ہے جسکے ذریعے عظیم حاکم، یہوؔواہ، اور اُسکا مُتعیّنہ بادشاہ، یسوؔع اب حکمرانی کرتے ہیں اور جس کے تحت کہانتی خدمت انجام دی جاتی ہے جب یہوؔواہ کے تخت سے بھرپور برکات نوعِانسان کی شفا کے لئے جاری ہوتی ہیں۔ (مکاشفہ ۲۱:۱۰، ۱۱؛ ۲۲:۱-۵) ایک اَور رویا میں یوؔحنا سنتا ہے کہ وفادار، قیامتیافتہ، ممسوح مسیحیوں کا ’برّے کی بیوی‘ کے طور پر حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ یسوؔع کیساتھ گہری قربت کی جس سے وہ لطف اُٹھائینگے اور اُس کیلئے خوشی سے اُنکی تابعداری کی کیا ہی پُرجوش تصویرکشی کرتا ہے! آسمان میں اُس خوشی کا تصور کریں جب اُنکا آخری رکن بالآخر اپنا آسمانی اجر حاصل کرتا ہے۔ اب، آخرکار، ”برّہ کی شادی“ ہو سکتی ہے! وہ شاہانہ آسمانی تنظیم اس وقت مکمل ہو جائیگی۔—مکاشفہ ۱۹:۶-۸۔
۲۰ جیہاں، شاندار برکات اُنکی منتظر ہیں جنکی بابت پولسؔ رسول نے کہا: ”مگر ہمارا وطن آسمان پر ہے۔“ (فلپیوں ۳:۲۰) تقریباً دو ہزار سال سے یہوؔواہ اپنے روحانی فرزندوں کا چناؤ کرتا اور اُنہیں ایک آسمانی میراث کیلئے تیار کرتا رہا ہے۔ تمام شہادت کے پیشِنظر، چناؤ اور تیاری کا یہ کام تقریباً مکمل ہے۔ لیکن اِسکے بعد اور کچھ واقع ہونا تھا، جیسے کہ مکاشفہ ۷ باب میں درج اُسکی رویا میں یوؔحنا پر آشکارا کِیا گیا۔ لہٰذا اب، مسیحیوں کا ایک اَور گروہ ہماری توجہ کا تقاضا کرتا ہے، اور ہم اِس گروہ پر اگلے مضمون میں غور کرینگے۔ (۹ ۷/۰۱ w۹۵)
کیا آپکو یاد ہے؟
▫ آسمانی میراث والوں پر روح کے مختلف عوامل کیا ہیں؟
▫ ممسوح کس قریبی رشتے سے لطفاندوز ہوتے ہیں: یہوؔواہ کیساتھ؟ مسیح کیساتھ؟
▫ ممسوح مسیحیوں کی جماعت کو بائبل میں کیسے بیان کِیا گیا ہے؟
▫ خدا کے اسرائیل کو کس قانونی بنیاد پر استوار کِیا گیا تھا؟
▫ کونسے روحانی استحقاق ممسوح مسیحیوں کے منتظر ہیں؟