مطالعے کا مضمون نمبر 19
مکاشفہ کی کتاب میں ہمارے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟
”وہ شخص خوش رہتا ہے جو اِس کتاب میں لکھے پیغام کو اُونچی آواز میں پڑھتا ہے۔“—مکا 1:3۔
گیت نمبر 15: یہوواہ کے پہلوٹھے کی حمد کریں!
مضمون پر ایک نظرa
1-2. مکاشفہ کی کتاب پر دھیان دینے کی ایک وجہ کیا ہے؟
شاید کبھی کسی نے آپ کو اپنی تصویروں کا البم دِکھایا ہو۔ جب آپ البم کو دیکھ رہے تھے تو ہو سکتا ہے کہ اِس میں آپ نے بہت سے ایسے لوگوں کی تصویریں دیکھی ہوں جنہیں آپ نہیں جانتے تھے۔ لیکن پھر آپ کے سامنے ایک ایسی تصویر آئی جسے دیکھ کر آپ رُک گئے اور بہت دھیان سے اُسے دیکھنے لگے۔ آپ نے ایسا کیوں کِیا؟ کیونکہ اُس تصویر میں آپ تھے۔ آپ یہ یاد کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ یہ تصویر کب اور کہاں لی گئی تھی۔ پھر آپ نے تصویر میں باقی لوگوں کو بھی پہچاننے کی کوشش کی۔ وہ تصویر آپ کے لیے واقعی بہت خاص تھی۔
2 مکاشفہ کی کتاب بھی اُس تصویر کی طرح ہے۔ ایسا کہنے کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ یہ کتاب ہمارے لیے لکھی گئی تھی۔ اِس کی پہلی آیت میں لکھا ہے: ”یسوع مسیح کی طرف سے ایک مکاشفہ جو خدا نے اُن کو دیا تاکہ اپنے غلاموں کو وہ باتیں دِکھائے جو جلد ہونے والی ہیں۔“ (مکا 1:1) تو مکاشفہ میں لکھی باتیں سب لوگوں کے لیے نہیں بلکہ خدا کے بندوں کے لیے ہیں۔ خدا کے بندوں کے طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ اِس شاندار کتاب میں لکھی پیشگوئیوں کے پورا ہونے میں ہم بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں تو ہم حیران نہیں ہوتے۔ ایک لحاظ سے یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم ایک ایسی تصویر دیکھ رہے ہوں جس میں ہم بھی ہیں۔
3-4. مکاشفہ کی کتاب کے مطابق اِس میں لکھی پیشگوئیوں کو کب پورا ہونا تھا اور اِس وجہ سے ہم سب کو کیا کرنا چاہیے؟
3 مکاشفہ کی کتاب میں لکھی پیشگوئیوں پر دھیان دینے کی دوسری وجہ وہ وقت ہے جب اِن پیشگوئیوں کو پورا ہونا تھا۔ یوحنا رسول نے بتایا کہ اِن پیشگوئیوں کو کب پورا ہونا تھا۔ اُنہوں نے کہا: ”مَیں پاک روح کے اثر سے مالک کے دن میں پہنچ گیا۔“ (مکا 1:10) یوحنا نے یہ الفاظ تقریباً 96ء میں لکھے تھے۔ اُس وقت ’مالک کا دن‘ شروع ہونے میں کافی وقت تھا۔ (متی 25:14، 19؛ لُو 19:12) لیکن بائبل کی پیشگوئی کے مطابق یہ دن 1914ء میں شروع ہوا جب یسوع آسمان پر بادشاہ بن گئے۔ تب سے مکاشفہ میں لکھی پیشگوئیاں جن کا تعلق خدا کے بندوں سے ہے، پوری ہونا شروع ہو گئیں۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم ”مالک کے دن“ میں رہ رہے ہیں!
4 چونکہ ہم اِس اہم دَور میں رہ رہے ہیں اِس لیے ہمیں مکاشفہ 1:3 میں لکھی اِس ہدایت پر خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے: ”وہ شخص خوش رہتا ہے جو اِس کتاب میں لکھے پیغام کو اُونچی آواز میں پڑھتا ہے اور وہ لوگ خوش رہتے ہیں جو اِس میں بتائی گئی باتوں کو سنتے ہیں اور اِن پر عمل کرتے ہیں کیونکہ مقررہ وقت نزدیک ہے۔“ بےشک ہمیں اِس کتاب میں لکھے پیغام کو ’اُونچی آواز میں پڑھنے، اِس میں بتائی گئی باتوں کو سننے اور اِن پر عمل کرنے‘ کی ضرورت ہے۔ آئیں، دیکھیں کہ اِن میں سے کچھ باتیں کون سی ہیں جن پر ہمیں عمل کرنا چاہیے۔
یہوواہ کی اُس طرح سے عبادت کریں جس طرح سے وہ چاہتا ہے
5. مکاشفہ کی کتاب میں اِس بات پر کیسے زور دیا گیا ہے کہ ہمیں یہوواہ کی اُس طرح سے عبادت کرنی چاہیے جس طرح سے وہ چاہتا ہے؟
5 مکاشفہ کی کتاب کے پہلے باب سے ہی پتہ چلتا ہے کہ یسوع مسیح یہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کلیسیاؤں میں کیا ہو رہا ہے۔ (مکا 1:12-16، 20؛ 2:1) اِس کا ثبوت وہ پیغام ہیں جو یسوع نے صوبہ آسیہ کی سات کلیسیاؤں کے نام بھیجے۔ اِن میں سے ہر کلیسیا کو یسوع نے واضح ہدایت دی تاکہ اُس کلیسیا کے مسیحی یہوواہ کی اُس طرح سے عبادت کریں جس طرح سے وہ چاہتا ہے۔ یہ ہدایتیں آج ہمارے لیے بھی ہیں۔ اِس سے ہمیں کیا پتہ چلتا ہے؟ یہ کہ ہمارے پیشوا یسوع مسیح اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی کیسی ہے۔ یسوع مسیح ہماری رہنمائی اور حفاظت کر رہے ہیں اور اُن کی نظر سے کوئی بات نہیں چھپی۔ وہ جانتے ہیں کہ یہوواہ کے قریب رہنے کے لیے ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے۔ آئیں، دیکھیں کہ اُنہوں نے اِس سلسلے میں کون سی ہدایتیں دیں جن پر ہمیں بھی عمل کرنا چاہیے۔
6. (الف) مکاشفہ 2:3، 4 میں لکھے یسوع کے الفاظ کے مطابق اِفسس کی کلیسیا میں کیا مسئلہ تھا؟ (ب) اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
6 مکاشفہ 2:3، 4 کو پڑھیں۔ ہمیں اپنے دل سے وہ محبت کم نہیں ہونے دینی چاہیے جو ہم شروع میں یہوواہ سے کرتے تھے۔ اِفسس کی کلیسیا کے نام یسوع کے پیغام سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں کے مسیحی بہت سی مشکلوں کے باوجود ثابتقدم رہے اور یہوواہ کی عبادت کرتے رہے۔ لیکن اُن کے دل میں یہوواہ کے لیے ویسی محبت نہیں رہی تھی جیسی شروع میں ہوا کرتی تھی۔ اُنہیں ویسی محبت کو پھر سے جگانے کی ضرورت تھی ورنہ یہوواہ اُن کی عبادت کو قبول نہیں کرتا۔ اِسی طرح آج ہمیں بھی مشکلوں میں ثابتقدم رہنے کے علاوہ بھی کچھ کرنا چاہیے۔ ہمیں صحیح وجہ سے مشکلوں میں ثابت قدم رہنا چاہیے۔ یہوواہ صرف یہ نہیں دیکھتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں بلکہ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ ہم کس وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔ اُس کی نظر میں یہ بات بہت اہم ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کی عبادت اِس لیے کریں کیونکہ ہم اُس سے محبت کرتے ہیں اور اُس کے شکرگزار ہیں۔—امثا 16:2؛ مر 12:29، 30۔
7. (الف) مکاشفہ 3:1-3 میں لکھے یسوع کے الفاظ کے مطابق سردیس کی کلیسیا میں کیا مسئلہ تھا؟ (ب) اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
7 مکاشفہ 3:1-3 کو پڑھیں۔ ہمیں جاگتے رہنا چاہیے۔ سردیس کی کلیسیا میں ایک فرق مسئلہ تھا۔ اِس کلیسیا کے مسیحی پہلے بڑی لگن سے یہوواہ کی عبادت کرتے تھے لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ اِس میں ڈھیلے پڑ گئے۔ اِس لیے یسوع مسیح نے اُن سے کہا کہ وہ ’جاگ جائیں۔‘ اِس سے ہمیں کیا پتہ چلتا ہے؟ یہ کہ یہوواہ ہماری اُس محنت کو نہیں بھولے گا جو ہم نے اُس کی خدمت کے لیے کی۔ (عبر 6:10) لیکن ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے ماضی میں یہوواہ کی بہت خدمت کر لی ہے، اب ہمیں آگے اُس کی خدمت کرنے ضرورت نہیں ہے۔ شاید اب ہمارے حالات اِجازت نہ دیں کہ ہم پہلے کی طرح یہوواہ کی خدمت کر سکیں۔ لیکن ہمیں پھر بھی ”مالک کی خدمت میں مصروف“ رہنا چاہیے اور آخر تک چوکس اور جاگتے رہنا چاہیے۔—1-کُر 15:58؛ متی 24:13؛ مر 13:33۔
8. مکاشفہ 3:15-17 میں یسوع مسیح نے لودیکیہ کی کلیسیا کے مسیحیوں سے جو بات کہی، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
8 مکاشفہ 3:15-17 کو پڑھیں۔ ہمیں جوش اور پورے دل سے یہوواہ کی عبادت کرنی چاہیے۔ لودیکیہ کی کلیسیا میں ایک فرق مسئلہ تھا۔ وہاں کے مسیحی یہوواہ کی عبادت میں ”نیمگرم“ تھے۔ چونکہ وہ بڑھ چڑھ کر یہوواہ کی عبادت نہیں کر رہے تھے اِس لیے یسوع مسیح نے اُن سے کہا کہ وہ ”مصیبت کے مارے اور قابلِترس“ ہیں۔ (مکا 3:19) اُنہیں چاہیے تھا کہ وہ جوش سے یہوواہ کی عبادت کریں۔ (مکا 3:18) اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ اگر یہوواہ کی عبادت کے لیے ہمارا جوش پہلے جیسا نہیں رہا تو ہمیں اُن چیزوں کے لیے اپنے دل میں قدر بڑھانے کی ضرورت ہے جو یہوواہ اور اُس کی تنظیم ہمیں دے رہی ہے۔ ہمیں زندگی کی آسائشیں حاصل کرنے کے لیے اِتنی زیادہ محنت نہیں کرنی چاہیے کہ یہوواہ کی عبادت ہماری زندگی میں اہم نہ رہے۔
9. یسوع مسیح نے پرگمن اور تھواتیرہ کی کلیسیاؤں کے نام جو پیغام دیا، اُس کے مطابق ہمیں کس خطرے سے بچنا چاہیے؟
9 ہمیں یہوواہ سے برگشتہ لوگوں کی تعلیم سے دُور رہنا چاہیے۔ یسوع مسیح نے پرگمن کی کلیسیا کے کچھ ایسے مسیحیوں کی سختی سے اِصلاح کی جو کلیسیا کے اِتحاد کو توڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ (مکا 2:14-16) یسوع نے تھواتیرہ کے اُن مسیحیوں کی تعریف کی جو ’شیطان کی گہری باتوں‘ سے بچے رہے۔ اُنہوں نے اُن سے کہا کہ وہ سچائی کو ”تھامے“ رہیں۔ (مکا 2:24-26) جن مسیحیوں نے شیطان کی تعلیمات کے مطابق چلنا شروع کر دیا تھا، اُنہیں توبہ کرنے کی ضرورت تھی۔ اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ ہمیں ہر اُس تعلیم سے دُور رہنا چاہیے جو یہوواہ کی تعلیم کے خلاف ہے۔ یہوواہ سے برگشتہ لوگ شاید ”دِکھنے میں تو بڑے خداپرست“ لگیں لیکن اُن کا ”طرزِزندگی خدا کے حکموں کے مطابق نہیں“ ہوتا۔ (2-تیم 3:5) اگر ہم گہرائی سے خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے لیے جھوٹی تعلیمات کو پہچاننا اور اُن سے دُور رہنا آسان ہوگا۔—2-تیم 3:14-17؛ یہوداہ 3، 4۔
10. یسوع مسیح نے پرگمن اور تھواتیرہ کی کلیسیاؤں سے جو کچھ کہا، اُس سے ہم اَور کیا سیکھتے ہیں؟
10 ہمیں حرامکاری نہیں کرنی چاہیے اور کسی بھی طرح کی بدچلنی کو برداشت نہیں کرنا چاہیے۔ پرگمن اور تھواتیرہ کی کلیسیا میں ایک اَور مسئلہ بھی تھا۔ یسوع مسیح نے وہاں کے کچھ ایسے مسیحیوں کی سختی سے اِصلاح کی جو بدچلنی نہیں چھوڑ رہے تھے۔ (مکا 2:14، 20) اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ یہ کہ اگر ہم بہت سالوں سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں اور ابھی ہمارے پاس بہت سی ذمےداریاں ہیں تو ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اگر ہم بدچلنی کریں گے تو یہوواہ اِسے برداشت کر لے گا۔ (1-سمو 15:22؛ 1-پطر 2:16) یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کے معیاروں کے مطابق زندگی گزارتے رہیں پھر چاہے اِس دُنیا کے معیار گِرتے ہی کیوں نہ جائیں۔—اِفس 6:11-13۔
11. اب تک ہم نے کیا سیکھا ہے؟ (بکس ”ہم نے کیا سیکھا ہے؟“ کو بھی دیکھیں۔)
11 ہم نے اب تک کیا سیکھا ہے؟ ہم نے سیکھا ہے کہ ہمیں یہوواہ کی اُس طرح سے عبادت کرنی چاہیے جس طرح سے وہ چاہتا ہے۔ اگر ہم کچھ غلط کر رہے ہیں تو ہمیں فوراً اِسے چھوڑ دینا چاہیے تاکہ یہوواہ ہماری عبادت کو قبول کرے۔ (مکا 2:5، 16؛ 3:3، 16) لیکن یسوع مسیح نے کلیسیاؤں کے نام اپنے پیغام میں ایک اَور بات پر بھی زور دیا۔ وہ کون سی بات تھی؟
اذیت برداشت کرنے کے لیے تیار رہیں
12. یسوع مسیح نے سمِرنہ اور فِلدلفیہ کی کلیسیاؤں سے جو کچھ کہا، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ (مکاشفہ 2:10)
12 آئیں، اُس پیغام پر دھیان دیں جو یسوع مسیح نے سمِرنہ اور فِلدلفیہ کے کلیسیاؤں کے نام دیا تھا۔ یسوع نے اُن مسیحیوں سے کہا کہ اُنہیں اذیت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہوواہ اُنہیں اُن کی وفاداری کا اجر دے گا۔ (مکاشفہ 2:10 کو پڑھیں؛ مکا 3:10) اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں اذیت دی جائے گی اور ہمیں اِسے برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ (متی 24:9، 13؛ 2-کُر 12:10) لیکن ہمیں اِس بات کو کیوں یاد رکھنا چاہیے؟
13-14. مکاشفہ 12 باب میں جو باتیں لکھی ہیں، اُن کے مطابق خدا کے بندوں کے ساتھ کیا ہونا تھا؟
13 مکاشفہ کی کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ”مالک کے دن“ میں خدا کے بندوں کو اذیت دی جائے گی۔ مکاشفہ 12 باب سے پتہ چلتا ہے کہ جیسے ہی خدا کی بادشاہت قائم ہوئی تو آسمان پر ایک جنگ ہوئی۔ میکائیل جو کہ یسوع مسیح ہیں، اُنہوں نے اور اُن کے فرشتوں نے شیطان اور بُرے فرشتوں کے ساتھ جنگ کی۔ (مکا 12:7، 8) اِس جنگ میں شیطان اور بُرے فرشتے ہار گئے اور اُنہیں آسمان سے نکال کر زمین پر پھینک دیا گیا۔ تب سے اِنسانوں کو بہت زیادہ تکلیفیں اُٹھانی پڑ رہی ہیں۔ (مکا 12:9، 12) مگر اِس کا خدا کے بندوں پر کیا اثر پڑا؟
14 مکاشفہ کی کتاب میں آگے بتایا گیا ہے کہ شیطان نے کیا کِیا۔ اب وہ آسمان پر نہیں جا سکتا اِس لیے وہ زمین پر موجود مسحشُدہ مسیحیوں پر حملہ کرتا ہے جو کہ خدا کی بادشاہت کے نمائندے ہیں اور جنہیں ”یسوع کے بارے میں گواہی دینے کا کام دیا گیا ہے۔“ (مکا 12:17؛ 2-کُر 5:20؛ اِفس 6:19، 20) یہ پیشگوئی کیسے پوری ہوئی؟
15. مکاشفہ 11 باب میں جن دو گواہوں کا ذکر ہوا ہے، وہ کون ہیں اور اُن کے ساتھ کیا ہوا؟
15 شیطان نے خدا کے دُشمنوں کے ذریعے اُن مسحشُدہ بھائیوں پر حملہ کِیا جو مُنادی کے کام کی نگرانی کر رہے تھے۔ یہ بھائی وہ ’دو گواہ‘ ثابت ہوئے جن کا مکاشفہ کی کتاب میں ذکر ہوا ہے اور جنہیں مار دیا جاتا ہے۔b (مکا 11:3، 7-11) 1918ء میں مُنادی کے کام کی نگرانی کرنے والے بھائیوں میں سے آٹھ بھائیوں پر جھوٹے اِلزام لگائے گئے اور اُنہیں کئی سال کے لیے جیل کی سزا سنا دی گئی۔ زیادہتر لوگوں کو لگا کہ یہ مسحشُدہ بھائی جو کام کر رہے تھے، وہ اب رُک گیا ہے۔
16. (الف) 1919ء میں ایسا کیا ہوا جس کی کسی کو بھی توقع نہیں تھی؟ (ب) شیطان تب سے کیا کر رہا ہے؟
16 مکاشفہ 11 باب میں یہ پیشگوئی بھی کی گئی تھی کہ کچھ عرصے بعد ”دو گواہوں“ کو زندہ کر دیا جائے گا۔ جب اُن بھائیوں کو جیل میں ڈال دیا گیا تو اِس کے ایک سال کے اندر اندر ہی یہ پیشگوئی بڑے حیرتانگیز طریقے سے پوری ہوئی۔ مارچ 1919ء میں اِن بھائیوں کو جیل سے رِہا کر دیا گیا اور بعد میں اُن پر لگائے گئے اِلزامات بھی ہٹا دیے گئے۔ اِن بھائیوں نے فوراً مُنادی کرنے اور تعلیم دینے کا کام شروع کر دیا۔ لیکن شیطان نے خدا کے بندوں پر حملہ کرنا نہیں چھوڑا۔ اُس وقت سے شیطان خدا کے سب بندوں پر اذیت کا ’دریا اُگل‘ رہا ہے۔ (مکا 12:15) اِس وجہ سے ہم میں سے ہر ایک کو ”ثابتقدمی سے کام لینا ہوگا اور ایمان ظاہر کرنا ہوگا۔“—مکا 13:10۔
یہوواہ نے آپ کو جو کام دیا ہے، اُسے پوری لگن سے کرتے رہیں
17. حالانکہ شیطان نے خدا کے بندوں پر حملہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن خدا کے بندوں کو کون سی مدد ملی جس کی اُنہوں نے توقع بھی نہیں کی تھی؟
17 مکاشفہ 12 باب میں آگے بتایا گیا ہے کہ خدا کے بندوں کو ایک ایسے طریقے سے مدد ملے گی جس کی اُنہوں نے توقع بھی نہیں کی ہوگی۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ زمین اذیت کے ”دریا کو نگل“ لے گی۔ (مکا 12:16) اور ایسا ہی ہوا۔ کبھی کبھار شیطان کی دُنیا کے کچھ حصوں نے جیسے کہ کچھ عدالتی نظاموں نے خدا کے بندوں کے حق میں فیصلہ کِیا۔ کئی بار خدا کے بندوں نے عدالتوں میں مُقدمے جیتے جس کی وجہ سے اُنہیں کسی حد تک آزادی سے یہوواہ کی عبادت کرنے کا موقع مل گیا۔ اُنہوں نے اِس آزادی کا پورا فائدہ اُٹھایا اور اُس کام کو دلوجان سے کِیا جو یہوواہ نے اُنہیں دیا ہے۔ (1-کُر 16:9) اِس کام میں کیا کچھ شامل ہے؟
18. اِس آخری زمانے میں ہمارا سب سے اہم کام کیا ہے؟
18 یسوع مسیح نے پیشگوئی کی تھی کہ اُن کے پیروکار خاتمہ آنے سے پہلے ’خدا کی بادشاہت کی خوشخبری کی مُنادی ساری دُنیا میں کریں گے پھر خاتمہ آئے گا۔‘ (متی 24:14) جب یسوع کے پیروکار مُنادی کرتے ہیں تو ایک فرشتہ یا کئی فرشتے اُن کی مدد کرتے ہیں جن کے بارے میں بائبل میں لکھا ہے کہ اُن کے پاس ’ابدی خوشخبری تھی جو اُنہوں نے زمین کے باشندوں کو یعنی ہر قوم اور قبیلے اور زبان اور نسل کو سنانی تھی۔‘—مکا 14:6۔
19. جو لوگ یہوواہ سے محبت کرتے ہیں، اُنہیں اَور کون سا پیغام سنانا چاہیے؟
19 خدا کے بندوں کو دوسروں کو صرف خدا کی بادشاہت کے بارے میں خوشخبری ہی نہیں سنانی چاہیے۔ اُنہیں اُن فرشتوں کے کام میں بھی اُن کا ساتھ دینا چاہیے جن کا ذکر مکاشفہ 8 سے 10 باب میں کِیا گیا ہے۔ اِن فرشتوں نے اُن لوگوں پر فرق فرق عذاب کے اِعلان کیے جو خدا کی بادشاہت کو قبول کرنے سے اِنکار کرتے ہیں۔ تو یہوواہ کے گواہ لوگوں کو وہ پیغام بھی سنا رہے ہیں جسے بائبل میں ”اَولے اور آگ“ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ پیغام ظاہر کرتا ہے کہ خدا شیطان کی دُنیا کے فرق فرق حصوں کو سزا دے گا۔ (مکا 8:7، 13) لوگوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ خاتمہ نزدیک ہے تاکہ وہ خود کو بدل سکیں اور یہوواہ کے غضب کے دن بچ سکیں۔ (صفن 2:2، 3) لیکن لوگوں کو یہ پیغام اچھا نہیں لگتا۔ اِس لیے اِسے سنانے کے لیے ہمیں دلیری کی ضرورت ہے۔ بڑی مصیبت کے دوران تو لوگوں کو یہ پیغام سُن کر اَور بھی زیادہ غصہ آئے گا کیونکہ اُس وقت ہم اُنہیں صاف صاف بتائیں گے کہ یہوواہ بُرے لوگوں کو سزا دینے والا ہے۔—مکا 16:21۔
مکاشفہ کی کتاب میں لکھی باتوں پر عمل کریں
20. اگلے دو مضامین میں ہم کس بارے میں بات کریں گے؟
20 ہمیں مکاشفہ کی کتاب میں ’بتائی گئی باتوں پر عمل‘ کرنا چاہیے کیونکہ اِس میں لکھی باتوں کے پورا ہونے میں ہمارا بھی کردار ہے۔ (مکا 1:3) لیکن کیا چیز ہماری مدد کر سکتی ہے تاکہ ہم اذیت کے باوجود یہوواہ کے وفادار رہیں اور دلیری سے دوسروں کو اُس کے پیغام سناتے رہیں؟ اِس سلسلے میں دو باتیں ہماری مدد کر سکتی ہیں: پہلی بات وہ جو مکاشفہ کی کتاب میں خدا کے دُشمنوں کے بارے میں بتائی گئی ہے۔ اور دوسری بات وہ برکتیں ہیں جو ہمیں خدا کا وفادار رہنے سے ملیں گی۔ اگلے دو مضامین میں ہم اِنہی باتوں پر غور کریں گے۔
گیت نمبر 32: یہوواہ کی حمایت کرو!
a ہم ایک بہت اہم وقت میں رہ رہے ہیں۔ مکاشفہ کی کتاب میں لکھی پیشگوئیاں آج پوری ہو رہی ہیں۔ اِس مضمون میں اور اگلے دو مضامین میں ہم مکاشفہ کی کتاب سے کچھ باتوں پر غور کریں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ اِس کتاب میں لکھی باتوں پر عمل کرنے سے ہم یہوواہ کی مرضی کے مطابق اُس کی عبادت کیسے کرتے رہ سکتے ہیں۔
b ”مینارِنگہبانی،“ 15 نومبر 2014ء میں صفحہ نمبر 28 پر ”قارئین کے سوال“ کو دیکھیں۔