قارئین کے سوال
کلیسیاؤں میں بزرگوں اور خادموں کو کیسے مقرر کِیا جاتا ہے؟
پہلی صدی میں پولُس رسول نے اِفسس کی کلیسیا کے بزرگوں سے کہا: ”اپنی اور اُس سارے گلّہ کی خبرداری کرو جس کا روحُالقدس نے تمہیں نگہبان ٹھہرایا تاکہ خدا کی کلیسیا کی گلّہبانی کرو۔“ (اعما 20:28) آجکل بزرگوں اور خادموں کو مقرر کرنے میں پاک روح کیا کردار ادا کرتی ہے؟
سب سے پہلے تو یہ کہ بائبل میں بزرگوں اور خادموں کے لیے جو شرائط درج ہیں، وہ پاک روح کی مدد سے لکھی گئی تھیں۔ بزرگوں کے لیے 1-تیمتھیس 3:1-7 میں 16 شرائط درج ہیں۔ اِس کے علاوہ کچھ اَور شرائط ططس 1:5-9 اور یعقوب 3:17، 18 میں درج ہیں۔ خادموں کے لیے شرائط 1-تیمتھیس 3:8-10، 12، 13 میں لکھی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو بھائی کسی بھائی کو بزرگ یا خادم کے طور پر مقرر کرنے کے لیے اُس کا نام تجویز کرتے ہیں یا اُسے مقرر کرتے ہیں، وہ اِس بات پر غور کرتے وقت کہ آیا یہ بھائی شرائط پر پورا اُترتا ہے یا نہیں، پاک روح کی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے دُعا کرتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ جس بھائی کا نام دیا جاتا ہے، اُسے اپنی زندگی میں خدا کی پاک روح کا پھل ظاہر کرنا چاہیے۔ (گل 5:22، 23) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بزرگوں اور خادموں کو مقرر کرنے کے ہر قدم میں پاک روح اہم کردار ادا کرتی ہے۔
لیکن اِن بھائیوں کو کون مقرر کرتا ہے؟ ماضی میں کسی بھائی کو مقرر کرنے کے لیے اُس کا نام برانچ کے دفتر کو تجویز کِیا جاتا تھا۔ یہاں کام کرنے والے کچھ بھائیوں کو گورننگ باڈی کی طرف سے ذمےداری دی جاتی تھی کہ وہ اِس تجویز پر غور کریں اور پھر فیصلہ کریں کہ آیا اِس بھائی کو مقرر کِیا جائے یا نہیں۔ اِس کے بعد برانچ کا دفتر بزرگوں کی جماعت کو اپنے فیصلے کے بارے میں بتاتا تھا۔ پھر بزرگ اُس بھائی کو بتاتے تھے کہ اُسے بزرگ یا خادم کے طور پر مقرر کِیا گیا ہے اور اُس سے پوچھتے تھے کہ کیا وہ اِس ذمےداری کو اُٹھانے کے لیے تیار ہے اور آیا وہ اِس کے لائق ہے یا نہیں؟ آخر میں کلیسیا میں اِعلان کِیا جاتا تھا کہ اِس بھائی کو بزرگ یا خادم کے طور پر مقرر کِیا گیا ہے۔
لیکن پہلی صدی میں بزرگوں اور خادموں کو کون مقرر کرتا تھا؟ کبھی کبھار رسول کچھ بھائیوں کو کوئی خاص کام کرنے کے لیے مقرر کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک بار اُنہوں نے سات بھائیوں کو مقرر کِیا تاکہ وہ روزانہ بیواؤں میں کھانا تقسیم کریں۔ (اعما 6:1-6) لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ بھائی یہ ذمےداری ملنے سے پہلے سے ہی بزرگوں کے طور پر خدمت کر رہے ہوں۔
اگرچہ بائبل میں تفصیل سے نہیں بتایا گیا کہ بزرگوں اور خادموں کو کون مقرر کرتا تھا لیکن ہم کچھ آیتوں سے اِس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہم پڑھتے ہیں کہ جب پولُس اور برنباس نے پہلی بار کلیسیاؤں کا دورہ کِیا تو اُنہوں نے ”ہر ایک کلیسیا میں اُن کے لئے بزرگوں کو مقرر کِیا اور روزہ سے دُعا کرکے اُنہیں [یہوواہ] کے سپرد کِیا جس پر وہ ایمان لائے تھے۔“ (اعما 14:23) اِس کے کئی سال بعد پولُس نے طِطُس سے جو اُن کے ساتھ مختلف علاقوں کا دورہ کرتے تھے، کہا: ”مَیں نے تجھے کرؔیتے میں اِس لئے چھوڑا تھا کہ تُو باقیماندہ باتوں کو درست کرے اور میرے حکم کے مطابق شہر بہشہر . . . بزرگوں کو مقرر کرے۔“ (طط 1:5) ایسا لگتا ہے کہ پولُس رسول نے تیمُتھیُس کو بھی جنہوں نے اُن کے ساتھ بہت سی کلیسیاؤں کا دورہ کِیا، ایسی ہی ذمےداری دی تھی۔ (1-تیم 5:22) اِس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ بزرگوں اور خادموں کو سفری نگہبان مقرر کرتے تھے نہ کہ یروشلیم میں رسول اور بزرگ۔
بائبل میں درج اِن مثالوں پر غور کرنے کے بعد یہوواہ کے گواہوں کی گورننگ باڈی نے بزرگوں اور خادموں کو مقرر کرنے کے طریقے میں تبدیلی کی ہے۔ 1 ستمبر 2014ء سے بھائیوں کو اِس طریقے سے مقرر کِیا جاتا ہے: ہر حلقے کا نگہبان اپنے حلقے میں بزرگوں اور خادموں کو مقرر کرنے کی تجاویز پر دھیان سے غور کرتا ہے۔ کلیسیاؤں کا دورہ کرتے وقت وہ اُن بھائیوں کو جاننے کی کوشش کرتا ہے جن کے نام بزرگ یا خادم کے طور پر مقرر کرنے کے لیے تجویز کیے گئے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے اگر ممکن ہو تو وہ اُن کے ساتھ مل کر مُنادی بھی کرتا ہے۔ وہ بزرگوں کی جماعت کے ساتھ تجاویز پر غور کرتا ہے اور پھر یہ اُس کی ذمےداری ہوتی ہے کہ وہ کلیسیا میں بزرگوں اور خادموں کو مقرر کرے۔ اِس طرح بزرگوں اور خادموں کو بہت حد تک اُسی طرح مقرر کِیا جاتا ہے جس طرح پہلی صدی میں کِیا جاتا تھا۔
اِس پورے بندوبست میں کون کیا کردار ادا کرتا ہے؟ ہمیشہ کی طرح یہ ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کی ذمےداری ہے کہ وہ نوکر چاکروں کو روحانی خوراک فراہم کرے۔ (متی 24:45-47) اِس میں پاک روح کی مدد سے خدا کے کلام پر تحقیق کرنا شامل ہے تاکہ اِس میں درج اصولوں کے مطابق پوری دُنیا میں کلیسیاؤں کا اِنتظام چلانے کے لیے ہدایات دی جائیں۔ اِس کے علاوہ دیانتدار نوکر حلقے کے نگہبانوں اور برانچ کی کمیٹی کے ارکان کو بھی مقرر کرتا ہے۔ برانچ کا دفتر دیانتدار نوکر کی طرف سے ملنی والی ہدایات پر عمل کرنے میں اپنے علاقے کی کلیسیاؤں کی رہنمائی کرتا ہے۔ بزرگوں کی جماعت کی ذمےداری ہے کہ وہ اِس بات پر بہت دھیان دے کہ جن بھائیوں کو وہ خدا کی کلیسیا میں مقرر کرنا چاہتی ہے، وہ بائبل میں درج شرائط پر پورا اُترتے ہوں۔ حلقے کے نگہبان پر یہ بھاری ذمےداری ہے کہ وہ بزرگوں کی تجویز پر بہت سنجیدگی سے غور کرے اور اِس سلسلے میں دُعا کرے۔ اور اِس کے بعد لائق بھائیوں کو مقرر کرے۔
جب ہم اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ بھائیوں کو کس طرح مقرر کِیا جاتا ہے تو ہم بہتر طور پر سمجھ جاتے ہیں کہ اِس عمل میں پاک روح کتنا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اِس طرح اُن بھائیوں کے لیے ہمارے دل میں عزت اور اِعتماد بڑھ جاتا ہے جو کلیسیا کی پیشوائی کر رہے ہیں۔—عبر 13:7، 17۔
مکاشفہ 11 باب میں جن دو گواہوں کا ذکر کِیا گیا ہے، وہ کون ہیں؟
مکاشفہ 11:3 کے مطابق دو گواہ 1260 دن تک نبوّت کریں گے۔ اِس کے بعد بتایا گیا ہے کہ حیوان ”اُن پر غالب آئے گا اور اُن کو مار ڈالے گا۔“ لیکن پھر ”ساڑھے تین دن“ کے بعد اِن دو گواہوں کو زندہ کِیا جائے گا اور یہ دیکھ کر لوگوں پر بڑا خوف چھا جائے گا۔—مکا 11:7، 11۔
یہ دو گواہ کون ہیں؟ اِن کے بارے میں کچھ تفصیلات بتائی گئی ہیں جن سے ہم اِنہیں پہچان سکتے ہیں۔ اِن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ”زیتون کے دو درخت اور دو چراغدان ہیں۔“ (مکا 11:4) غور کریں کہ زکریاہ نبی نے بھی ایک پیشگوئی میں ایک شمعدان اور زیتون کے دو درختوں کا ذکر کِیا تھا۔ اِس پیشگوئی میں زیتون کے دو درخت ”دو ممسوح“ تھے جو حاکم زرُبابل اور سردار کاہن یشوع کی طرف اِشارہ کرتے تھے۔ یہ ممسوح ’ربُالعالمین کے حضور کھڑے تھے۔‘ (زک 4:1-3، 14) اِس کے علاوہ اِن دو گواہوں کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ معجزے کرتے ہیں۔ یہ معجزے اُن معجزوں کی طرح ہیں جو موسیٰ اور ایلیاہ نے کیے تھے۔—مکاشفہ 11:5، 6؛ گنتی 16:1-7، 28-35؛ 1 اور 1-سلاطین 17:1؛ 18:41-45 پر غور کریں۔
یہ بات قابلِغور ہے کہ زرُبابل، یشوع، موسیٰ اور ایلیاہ چاروں ہی خدا کے ممسوح تھے اور اُنہوں نے مشکل گھڑی میں خدا کے بندوں کی پیشوائی کی تھی۔ لہٰذا دو گواہ اُن ممسوح بھائیوں کی طرف اِشارہ کرتے ہیں جنہوں نے 1914ء میں خدا کے بندوں کی پیشوائی کی۔ وہ ساڑھے تین سال تک ”ٹاٹ اوڑھے ہوئے“ یہ مُنادی کرتے رہے کہ خدا کی بادشاہت آسمان پر قائم ہو چکی ہے۔
جب یہ عرصہ اپنے اِختتام پر تھا تو ممسوح بھائیوں کو قید میں ڈال دیا گیا اور یوں اُنہیں مجازی معنوں میں مار ڈالا گیا۔ لیکن یہ بھائی زیادہ عرصے تک قید میں نہیں رہے۔ قید کا یہ عرصہ مجازی معنوں میں صرف ساڑھے تین دن کا تھا۔ لیکن خدا کے بندوں کے دشمنوں کو لگا کہ وہ اُن کے کام کو روکنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اور اِس وجہ سے وہ بہت خوش ہوئے۔—مکا 11:8-10۔
لیکن پیشگوئی کے مطابق ساڑھے تین دن کے بعد دونوں گواہ زندہ کر دیے گئے۔ اِن ممسوح بھائیوں کو نہ صرف قید سے آزاد کر دیا گیا بلکہ جو بھائی وفادار رہے، اُنہیں یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کے ذریعے ایک خاص ذمےداری بھی سونپی۔ سن 1919ء میں وہ اُن لوگوں میں شامل تھے جنہیں ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کے طور پر مقرر کِیا گیا تاکہ وہ اِس آخری زمانے میں خدا کے بندوں کو روحانی خوراک فراہم کریں۔—متی 24:45-47؛ مکا 11:11، 12۔
مکاشفہ 11:1، 2 سے پتہ چلتا ہے کہ اِن تمام واقعات کا تعلق روحانی ہیکل کی جانچ سے ہے۔ ملاکی 3 باب میں بھی روحانی ہیکل کی جانچ کا ذکر کِیا گیا ہے اور پھر بتایا گیا ہے کہ اِسے پاک صاف کِیا جائے گا۔ (ملا 3:1-4) روحانی ہیکل کی جانچ اور اِسے پاک صاف کرنے میں کتنا وقت لگا؟ یہ کام 1914ء سے لے کر 1919ء کے اِبتدائی مہینوں تک جاری رہا۔ اِس عرصے میں وہ 1260 دن (یعنی 42 مہینے) اور مجازی معنوں میں اِستعمال کیے گئے ساڑھے تین دن شامل ہیں جن کا ذکر مکاشفہ 11 باب میں کِیا گیا ہے۔
یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ یہوواہ خدا نے لوگوں کو روحانی طور پر پاک صاف کرنے کا بندوبست کِیا تاکہ وہ ’نیک کاموں میں سرگرم ہوں۔‘ (طط 2:14) ہم اُن ممسوح مسیحیوں کی بھی بہت قدر کرتے ہیں جنہوں نے مشکل گھڑی میں خدا کے بندوں کی پیشوائی کی اور یوں مجازی معنوں میں دو گواہ ثابت ہوئے۔a
a مزید معلومات کے لیے مینارِنگہبانی 15 جولائی 2013ء، صفحہ 22، پیراگراف 12 کو دیکھیں۔