”مسیحی زندگی اور خدمت—اِجلاس کا قاعدہ“ کے حوالے
5-11 اکتوبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | خروج 31-32
”بُتپرستی سے بھاگیں“
م09 1/5 ص. 15 پ. 11
’یہوواہ کے روزِعظیم کی نزدیکی‘ کے پیشِنظر پختگی کی طرف قدم بڑھائیں
یہ سچ ہے کہ مشکلات کا سامنا کرتے وقت خدا کے کلام سے سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اِس سلسلے میں اسرائیلیوں کی مثال پر غور کریں۔ یہوواہ خدا نے اسرائیلیوں کو مصر کی غلامی سے آزاد کرایا۔ لیکن اِس کے کچھ عرصے بعد وہ پینے کا پانی نہ ملنے کی وجہ سے ’موسیٰ سے جھگڑا کرکے یہوواہ کو آزمانے لگے۔‘ (خر 17:1-4) اِس کے بعد اسرائیلیوں نے خدا کے ساتھ عہد میں داخل ہو کر یہ وعدہ کِیا کہ ”جتنی باتیں [یہوواہ] نے فرمائی ہیں ہم اُن سب کو مانیں گے۔“ مگر اِس کے محض دو ماہ بعد وہ بُتپرستی میں پڑ گئے اور یہوواہ کے حکم کو توڑ دیا۔ (خر 24:3، 12-18؛ 32:1، 2، 7-9) جب موسیٰ کوہِحورب پر خدا سے ہدایات حاصل کرنے کے لئے گیا تو کیا وہ موسیٰ کے دیر تک واپس نہ لوٹنے کی وجہ سے خوفزدہ تھے؟ کیا وہ یہ سوچ رہے تھے کہ پہلے موسیٰ کے ہاتھ اُٹھائے رکھنے کی وجہ سے اُنہیں عمالیقیوں پر فتح حاصل ہوئی تھی اور اب موسیٰ کی غیرموجودگی میں اگر عمالیقی دوبارہ اُن پر حملہ کریں گے تو وہ کچھ نہیں کر پائیں گے؟ (خر 17:8-16) وجہ خواہ کچھ بھی ہو اسرائیلیوں نے خدا کا ”فرمانبردار ہونا نہ چاہا۔“ (اعما 7:39-41) وہ وعدہ کئے ہوئے مُلک میں داخل ہونے سے خوفزدہ ہوگئے اور خدا کی نافرمانی کی۔ لہٰذا، پولس رسول نے مسیحیوں کو تاکید کی کہ وہ ’کوشش کریں تاکہ اُن کی طرح نافرمانی کرکے گِر نہ پڑیں۔‘—عبر 4:3، 11۔
سنہری باتوں کی تلاش
ڈبلیو87 1/9 ص. 29
قارئین کے سوال
اگر ایک شخص کو خدا کی خوشنودی حاصل ہے اور اُس کا نام ”زندگی کی کتاب“ میں لکھا ہے تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اُس کو ہمیشہ کی زندگی ضرور ملی گی۔ اِس حوالے سے ذرا غور کریں کہ موسیٰ نے بنیاِسرائیل کے بارے میں یہوواہ سے کیا درخواست کی۔ اُنہوں نے کہا: ”اگر تُو اِن کا گُناہ معاف کر دے تو خیر ورنہ میرا نام اُس کتاب میں سے جو تُو نے لکھی ہے مٹا دے۔“ خدا نے اُنہیں جواب دیا کہ ”جس نے میرا گُناہ کِیا ہے مَیں اُسی کے نام کو اپنی کتاب میں سے مٹاؤں گا۔“ (خروج 32:32، 33) اِس سے پتہ چلتا ہے کہ جن لوگوں کے نام خدا نے اپنی ”کتاب“ میں لکھے ہیں، اگر وہ اپنے ایمان پر قائم نہیں رہیں گے تو خدا اُن کے نام ”زندگی کی کتاب“ سے مٹا دے گا۔—مکاشفہ 3:5۔
شاگرد بنانے کی تربیت
ڈبلیو10 15/5 ص. 21 قارئین کے سوال
یہوواہ نے سونے کا بچھڑا بنانے پر ہارون کو سزا کیوں نہیں دی تھی؟
یہ واقعہ خروج 32 باب میں درج ہے۔ سونے کا بچھڑا بنانے سے ہارون نے بُتپرستی کے حوالے سے یہوواہ کا حکم توڑا تھا۔ (خر 20:3-5) اِس وجہ سے ”[یہوواہ] ہارؔون سے ایسا غصہ تھا کہ اُسے ہلاک کرنا چاہا پر [موسیٰ] نے اُس وقت ہارؔون کے لئے بھی دُعا کی۔“ (اِست 9:19، 20) موسیٰ نے ہارون کے لیے جو اِلتجا کی، اُس کا اثر ”بہت زبردست“ تھا۔ (یعقو 5:16) موسیٰ کی دُعا کے جواب میں یہوواہ نے ہارون کو سزا نہیں دی۔ لیکن ہارون کو سزا نہ دینے کی کم از کم دو اَور وجوہات بھی تھیں۔
ایک وجہ یہ تھی کہ ہارون پہلے ہی اپنے کاموں سے ثابت کر چُکے تھے کہ وہ یہوواہ کے وفادار ہیں۔ جب یہوواہ نے موسیٰ کو فرعون کے پاس جانے اور بنیاِسرائیل کو مصر کی غلامی سے نکالنے کا حکم دیا تو اُس نے ہارون کو مقرر کیا کہ وہ موسیٰ کی طرف سے بات کریں۔ (خر 4:10-16) حالانکہ فرعون اپنی ضد پر اڑا رہا لیکن پھر بھی موسیٰ اور ہارون یہوواہ کا حکم مان کر بار بار اُس کے پاس جاتے رہے۔ یوں ہارون مصر میں وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرتے رہے۔—خر 4:21۔
ذرا اِس بات پر بھی غور کریں کہ ہارون نے کن حالات میں سونے کا بچھڑا بنایا تھا۔ اُس وقت موسیٰ 40 دن تک کوہِسینا پر ہی تھے۔ ”جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰؔ نے پہاڑ سے اُترنے میں دیر لگائی“ تو اُنہوں نے ہارون سے کہا کہ وہ ایک سونے کا بچھڑا بنائیں۔ ہارون نے اُن کی بات مان کر ایک سونے کا بچھڑا بنا دیا۔ (خر 32:1-6) لیکن اُنہوں نے بعد میں جو کچھ کیا اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دل سے بُتپرستی کی حمایت میں نہیں تھے۔ لگتا ہے کہ اُنہوں نے لوگوں کے دباؤ میں آ کر وہ بچھڑا بنایا تھا۔ جب موسیٰ نے بُتپرستوں کے خلاف کارروائی کی تو سب بنیلاوی جن میں ہارون بھی شامل تھے، اُنہوں نے ظاہر کیا کہ وہ یہوواہ کی طرف ہیں۔ اُس موقعے پر 3 ہزار بنیاِسرائیل مارے گئے۔—خر 32:25-29۔
بعد میں موسیٰ نے سب بنیاِسرائیل سے کہا: ”تُم نے بڑا گُناہ کِیا۔“ (خر 32:30) اِس سے پتہ چلتا ہے کہ بچھڑا بنانے میں ساری کی ساری غلطی ہارون کی نہیں تھی بلکہ باقی لوگ بھی اِس کے ذمےدار تھے۔ اِس لیے نہ صرف ہارون کو بلکہ باقی لوگوں کو بھی یہوواہ سے معافی حاصل کرنے کی ضرورت تھی۔
بعد میں یہوواہ نے ہارون کو کاہنِاعظم مقرر کیا۔ اُس نے موسیٰ کو یہ حکم دیا: ”ہارؔون کو مُقدس لباس پہنانا اور اُسے مسح اور مُقدس کرنا تاکہ وہ میرے لئے کاہن کی خدمت کو انجام دے۔“ (خر 40:12، 13) اِس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ نے ہارون کی غلطی کو معاف کر دیا تھا کیونکہ وہ دل سے یہوواہ کے وفادار تھے۔
12-18 اکتوبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | خروج 33-34
”یہوواہ کی وہ خوبیاں جن کی وجہ سے ہم اُس کے قریب ہو جاتے ہیں“
آئیٹی-2 ص. 466-467
نام
خدا کی بنائی ہوئی چیزوں سے پتہ چلتا ہے کہ خدا موجود ہے لیکن اِن سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ اُس کا نام کیا ہے۔ (زبور 19:1؛ روم 1:20) خدا کا نام جاننے میں صرف یہ شامل نہیں کہ ہم بس نام ”یہوواہ“ سے واقف ہو جائیں۔ (2-توا 6:33) بلکہ اِس میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اُس کے کلام میں درج اُس کی خوبیوں، کاموں اور مقصد کو بھی جانیں۔ (1-سلا 8:41-43؛ 9:3، 7؛ نحم 9:10 پر غور کریں) اِس حوالے سے ذرا غور کریں کہ موسیٰ کو کس بات کا تجربہ ہوا۔ یہوواہ اُنہیں ”بنام“ یعنی قریب سے جانتا تھا۔ (خر 33:12) اُنہیں یہوواہ کے جلال کو دیکھنے اور اُس کے ”نام کا اعلان“ سننے کا اعزاز ملا۔ (خر 34:5) اِس اِعلان میں نہ صرف یہوواہ کے نام بلکہ اُس کی خوبیوں اور کاموں کا بھی ذکر کیا گیا۔ موسیٰ نے یہ اِعلان سنا: ”یہوواہ یہوواہ خدایِرحیم اور مہربان قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی۔ ہزاروں پر فضل کرنے والا۔ گُناہ اور تقصیر اور خطا کا بخشنے والا لیکن وہ مُجرم کو ہرگز بَری نہیں کرے گا بلکہ باپدادا کے گُناہ کی سزا اُن کے بیٹوں اور پوتوں کو تیسری اور چوتھی پُشت تک دیتا ہے۔“ (خر 34:6، 7) اِسی طرح موسیٰ کا گیت جس میں یہ بول شامل تھے کہ ”مَیں یہوواہ کے نام کا اِشتہار دوں گا،“ اُس میں موسیٰ نے یہوواہ کی خوبیوں کو بیان کیا اور یہ بھی بتایا کہ یہوواہ بنی اِسرائیل کے ساتھ کیسے پیش آیا۔—اِست 32:3-44۔
ڈبلیو09 1/5 ص. 18 پ. 3-5
یہوواہ نے اپنے بارے میں کیا بتایا؟
سب سے پہلے یہوواہ نے اپنے بارے میں یہ ظاہر کیا کہ وہ ”خدایِرحیم اور مہربان“ ہے۔ (خروج 34:6) ایک عالم کے مطابق جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”رحیم“ کیا گیا ہے، وہ اُس شفقت کی طرف اِشارہ کرتا ہے جو ”ایک باپ اپنے بچوں کے لیے رکھتا ہے۔“اور جس لفظ کا ترجمہ ”مہربان“ کیا گیا ہے اُس سے مُراد ایک ایسا شخص ہے ”جو کسی ضرورتمند شخص کی مدد کرنے کے قابل ہو اور خوشی سے ایسا کرے بھی۔“ اِس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ ہمیں یقین دِلانا چاہتا ہے کہ وہ ہماری ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے اور ہم سے بالکل ویسے ہی محبت کرتا ہے جیسے ماں باپ اپنے بچوں سے کرتے ہیں۔—زبور 103:8، 13۔
اِس کے بعد یہوواہ نے بتایا کہ وہ ”قہر کرنے میں دھیما“ ہے۔ وہ جلدی غصے میں نہیں آتا۔ اِس کی بجائے وہ اپنے بندوں کے ساتھ صبر سے پیش آتا ہے، اُن کی غلطیوں کو معاف کرتا ہے اور اُنہیں موقع دیتا ہے کہ وہ اپنے بُرے کاموں سے باز آئیں۔—2-پطرس 3:9۔
یہوواہ خدا نے یہ بھی کہا کہ وہ ”شفقت اور وفا میں غنی“ ہے۔ یہوواہ کی یہ خوبی بہت ہی خاص ہے اور اِس خوبی کی بِنا پر وہ اپنے بندوں کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ قائم کرتا ہے۔ (اِستثنا 7:9) یہوواہ سچائی کا سرچشمہ بھی ہے۔ چونکہ وہ ’سچائی کا خدا‘ ہے اِس لیے ہم اُس کی ہر بات اور ہر وعدے پر بھروسا کر سکتے ہیں جو اُس نے مستقبل کے حوالے سے کیا ہے۔—زبور 31:5۔
ڈبلیو09 1/5 ص. 18 پ. 6
یہوواہ نے اپنے بارے میں کیا بتایا؟
یہوواہ نے اپنے بارے میں ایک اَور اہم بات بتائی۔ اُس نے بتایا کہ وہ ”گُناہ اور تقصیر اور خطا کا بخشنے والا“ ہے۔ (خروج 34:7) وہ اُن سب لوگوں کو ”معاف کرنے کو تیار ہے“ جو اپنے گُناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔ (زبور 86:5) لیکن وہ گُناہ کو کبھی نظرانداز نہیں کرتا۔ اُس نے کہا کہ وہ ”وہ مُجرم کو ہرگز بَری نہیں کرے گا۔“ چونکہ یہوواہ پاک اور اِنصافپسند خدا ہے اِس لیے وہ اُن لوگوں کو سزا ضرور دے گا جو جان بُوجھ کر گُناہ کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کو اپنے بُرے کاموں کا نتیجہ ایک نہ ایک دن تو بھگتنا ہی پڑے گا۔
سنہری باتوں کی تلاش
م04 15/3 ص. 27 پ. 5
خروج کی کتاب سے اہم نکات
33:11، 20—خدا کس مفہوم میں ”روبُرو“ ہو کر موسیٰ سے باتیں کرتا تھا؟ اِس اظہار سے دو طرفہ دوستانہ گفتگو کا اشارہ ملتا ہے۔ موسیٰ خدا کے نمائندے سے ہمکلام ہوا تھا اور اُسکی معرفت یہوواہ سے ہدایت پائی تھی۔ لیکن موسیٰ نے یہوواہ کو دیکھا نہیں تھا کیونکہ ’کوئی انسان خدا کو دیکھ کر زندہ نہیں رہ سکتا۔‘ درحقیقت، خدا نے بذاتِخود موسیٰ سے کلام نہیں کِیا تھا۔ گلتیوں3:19 بیان کرتی ہے کہ شریعت ”فرشتوں کے وسیلہ سے ایک درمیانی کی معرفت مقرر کی گئی“ تھی۔
م00 15/2 ص. 30 پ. 10
اہم چیزوں کو پہلے درجے پر رکھنے کا یقین کر لیں!
سال میں تین مرتبہ ملک میں رہنے والے ہر اسرائیلی مرد اور نومرید کو یہوواہ کی حضوری میں جانے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ ان مواقع سے پورا خاندان روحانی طور پر مستفید ہوگا، بہتیرے خاندانوں کے سردار اپنی بیوی اور بچوں کو ہمراہ لے جانے کا بندوبست کرتے تھے۔ لیکن اُن کی غیرموجودگی میں اُن کے گھروں اور کھیتوں کو دشمنوں کے حملے سے کون محفوظ رکھیگا؟ یہوواہ نے وعدہ کِیا: ”جب سال میں تین بار تُو خداوند اپنے خدا کے آگے حاضر ہوگا تو کوئی شخص تیری زمین کا لالچ نہ کرے گا۔“ (خروج 34:24) اسرائیلیوں کو یہ یقین کرنے کے لئے ایمان کی ضرورت تھی کہ اگر وہ روحانی مفادات کو پہلا درجہ دیتے ہیں تو وہ مادی طور پر نقصان نہیں اُٹھائینگے۔ کیا یہوواہ نے اپنا وعدہ پورا کِیا؟ بےشک اُس نے کِیا!
19-25 اکتوبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | خروج 35-36
”یہوواہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے تاکہ وہ اُس کا کام کر سکیں“
م05 15/5 ص. 23 پ. 14
یہوواہ کی راہوں کو پہچانیں
زندگی میں روحانی باتوں کو پہلا درجہ دیں۔ یہوواہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ بنیاسرائیل اپنا گزربسر کرنے میں اتنا مصروف ہوں کہ اُنکے پاس روحانی باتوں کیلئے وقت نہ رہے۔ اسلئے خدا نے ہفتے کے ایک دن کو مقدس ٹھہرایا۔ اس روز اُنہیں کوئی کام کرنے کی اجازت نہ تھی بلکہ اُنہیں اسے خدا کی عبادت میں گزارنا تھا۔ (خروج 35:1-3؛ گنتی 15:32-36) اسکے علاوہ خدا نے سال میں کئی دن خاص عیدوں کیلئے مقرر کئے تھے۔ (احبار 23:4-44) ان عیدوں کے دوران لوگ یہوواہ کے کارناموں اور اُسکی راہوں کو یاد کرنے کیلئے جمع ہوتے اور اُسکی بےشمار نعمتوں کا شکر ادا بھی کرتے۔ یہوواہ خدا کو اسطرح سے یاد کرنے سے اسرائیلیوں کے دلوں میں اُس کیلئے خوف اور محبت کا جذبہ بڑھ سکتا تھا اور وہ اُسکی راہوں پر چلنے میں کامیاب ہوتے۔ (اِستثنا 10:12، 13) حالانکہ یہوواہ کے یہ احکام آجکل مسیحیوں پر لاگو نہیں ہوتے لیکن پھربھی ان میں پائے جانے والے اصول آج بھی اُنکے لئے بہت فائدہمند ہیں۔—عبرانیوں 10:24، 25۔
م00 1/11 ص. 29 پ. 2
فیاضی خوشی بخشتی ہے
پس تصور کریں کہ اسرائیلیوں نے کیسا محسوس کِیا ہوگا۔ انکی نسلوں نے سخت غلامی اور محرومیت میں زندگی بسر کی تھی۔ اب وہ آزاد اور کثیر مادی اثاثوں کے مالک تھے۔ ان مادی اثاثوں میں سے کچھ کے ہاتھ سے نکل جانے پر وہ کیسا محسوس کرینگے؟ شاید انہوں نے محسوس کِیا ہو کہ انہوں نے یہ کمائے ہیں اور انہیں اپنے پاس رکھنا انکا حق ہے۔ تاہم، جب سچی پرستش کی مالی طور پر مدد کرنے کی بات آئی تو انہوں نے بلاتذبذب اور دل کھولکر ایسا کِیا! وہ یہ نہیں بھولے تھے کہ یہوواہ نے اُنہیں مادی چیزوں کا مالک بنایا ہے۔ لہٰذا، انہوں نے اپنا سونا چاندی اور مالمویشی ہر چیز کثرت سے دی۔ انہوں نے ”دل کی خوشی“ سے ایسا کِیا۔ ان کے ’دل میں رغبت ہوئی۔‘ ’اُنکا جی چاہا۔‘ وہ ”اپنی ہی خوشی سے [یہوواہ] کے لئے ہدئے لائے۔—خروج 25:1-9؛ 35:4-9، 20-29؛ 36:3-7۔
26 اکتوبر–1 نومبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | خروج 37-38
”خیمۂاِجتماع کی قربانگاہیں اور یہوواہ کی عبادت میں اُن کا کردار“
آئیٹی-1 ص. 82 پ. 3
قربانگاہ
بخور جلانے کی قربانگاہ۔ بخور جلانے کی قربانگاہ (جسے ”زرین قربانگاہ“ بھی کہا جاتا تھا [خر 39:38]) کو کیکر کی لکڑی سے بنایا گیا تھا اور اِس کے اُوپر والے حصے اور چاروں سائیڈوں پر سونا لگایا گیا تھا۔ اِس کے اُوپر والے حصے پر سونے کا تاج بنایا گیا تھا۔ اِس قربانگاہ کی لمبائی اور چوڑائی 5.44 سینٹیمیٹر (5.17 اِنچ) اور اُونچائی 89 سینٹیمیٹر (9.2 فٹ) تھی اور اِس کے اُوپر والے چاروں کونوں پر ایک ایک سینگ بنایا گیا تھا۔ اِس کی آمنے سامنے والی دونوں سائیڈوں پر تاج کے نیچے سونے کے دو دو کڑے بنائے گئے تھے۔ اِن کڑوں کو اِس لیے بنایا گیا تھا تاکہ اِن میں ایک ایک کیکر کی لکڑی ڈال کر قربانگاہ کو اُٹھایا جا سکے۔ دونوں لکڑیوں پر بھی سونا لگایا گیا تھا۔ (خر 30:1-5؛ 37:25-28) اِس قربانگاہ پر صبحوشام ایک خاص قسم کا بخور جلایا جاتا تھا۔ (خر 30:7-9، 34-38) بائبل کی دیگر آیتوں کے مطابق قربانگاہ میں جو بخور جلایا جاتا تھا اُس میں سے کچھ کو لے کر کبھی کبھار بخوردان میں جلایا جاتا تھا۔ (احبا 16:12، 13؛ عبر 9:4؛ مکا 8:5 اور 2-توا 26:16، 19 پر غور کریں) بخور جلانے کی قربانگاہ خیمۂاِجتماع میں مُقدسترین خانے کے پردے کے بالکل پاس ہوتی تھی اِسی لیے اِس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ”شہادت کے صندوق کے سامنے“ تھی۔—خر 30:1، 6؛ 40:5، 26، 27۔
آئیٹی-1 ص. 1195
بخور
ویرانے میں خیمۂاِجتماع میں جو بخور جلایا جاتا تھا، اُس کو بنانے میں بڑی مہنگی چیزیں اِستعمال ہوتی تھیں۔ یہ چیزیں بنیاِسرائیل ہدیے کے طور پر دیتے تھے۔ (خر 25:1، 2، 6؛ 35:4، 5، 8، 27-29) اِس بخور کو بنانے کے حوالے سے یہوواہ نے موسیٰ سے کہا: ”تُو خوشبودار مصالح مُر اور مصطکی اور لون اور خوشبودار مصالح کے ساتھ خالص لُبان وزن میں برابر برابر لینا۔ اور نمک ملا کر اُن سے گندھی کی حکمت کے مطابق خوشبودار روغن کی طرح صاف اور پاک بخور بنانا۔ اور اِس میں سے کچھ خوب باریک پیس کر خیمۂاجتماع میں شہادت کے صندوق کے سامنے جہاں مَیں تجھ سے ملا کروں گا رکھنا۔ یہ تمہارے لئے نہایت پاک ٹھہرے۔“ پھر یہوواہ نے اِس بات پر زور دیا کہ یہ بخور بہت پاک ہے اور اِسے کسی اَور مقصد کے لیے اِستعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ اِس کے لیے یہوواہ نے کہا: ”جو کوئی سونگھنے کے لئے بھی اُس کی طرح کچھ بنائے وہ اپنی قوم میں سے کاٹ ڈالا جائے۔“—خر 30:34-38؛ 37:29۔
آئیٹی-1 ص. 82 پ. 1
قربانگاہ
خیمۂاِجتماع کی قربانگاہیں۔ جب خیمۂاِجتماع کو بنایا گیا تو ساتھ میں دو قربانگاہیں بھی بالکل اُسی طرح بنائی گئیں جیسا یہوواہ خدا نے حکم دیا تھا۔ سوختنی قربانی کے مذبحے (جسے ”پیتل کی قربان گاہ“ بھی کہا جاتا تھا [خر 39:39، اُردو جیو ورشن])کو کیکر کی لکڑی سے بنایا گیا تھا۔ اِس کی شکل ایک ایسے صندوق جیسی تھی جس کا نہ تو اُوپر والا حصہ ہو اور نہ ہی نیچے والا۔ اِس کی لمبائی اور چوڑائی 2.2 میٹر (3.7 فٹ) اور اُونچائی 3.1 میٹر (4.4 فٹ) تھی۔ اِس کے اُوپر والے چاروں کونوں پر ایک ایک ”سینگ“ بنایا گیا تھا۔ اِس کے اندر اور باہر ساری سائیڈوں پر پیتل لگایا گیا تھا۔ اِس کے اندر ”کنارے کے نیچے“ پیتل کی جالی اِس طرح لگائی گئی تھی کہ ”وہ اُونچائی میں قربانگاہ کی آدھی دُور تک پہنچے۔“ جالی کے چاروں کناروں پر ایک ایک کڑا لگایا گیا تھا۔ لگتا ہے کہ اِنہی کڑوں میں کیکر کی لکڑی ڈال کر قربانگاہ کو اُٹھایا جاتا تھا۔ اِس کے علاوہ پیتل کا کچھ سامان بھی بنایا گیا تھا جیسے کہ دیگیں، بیلچے، کٹورے، سیخیں اور انگیٹھیاں۔ دیگوں اور بیلچوں کو راکھ اُٹھانے کے لیے، کٹوروں کو جانوروں کا خون بہانے کے لیے اور سیخوں کو گوشت اُٹھانے کے لیے اِستعمال کیا جاتا تھا۔—خر 27:1-8؛ 38:1-7، 30؛ گن 4:14۔
سنہری باتوں کی تلاش
آئیٹی-1 ص. 36
کیکر کی لکڑی
کیکر کی لکڑی بہت مضبوط اور بھاری ہوتی ہے۔ رگڑائی کرنے کے بعد اِس کی سطح بڑی ہموار ہو جاتی ہے۔ چونکہ یہ لکڑی بہت سخت ہوتی ہے اِس لیے اِس کو کیڑا نہیں لگتا۔ اِس کے علاوہ کیکر کا درخت ویرانوں اور صحرائی علاقوں میں اُگتا ہے۔ اِن سب وجوہات کی بِنا پر کیکر کی لکڑی خیمۂاِجتماع اور اِس کے دیگر سامان کو بنانے کے لیے بہت مناسب تھی۔ کیکر کی لکڑی کو اِن چیزوں کو بنانے کے لیے اِستعمال کِیا گیا: عہد کا صندوق (خر 25:10؛ 37:1)، نذر کی روٹیوں کے لیے میز (خر 25:23؛ 37:10)، قربانگاہیں (خر 27:1؛ 37:25؛ 38:1)،اِن چیزوں کو اُٹھانے کے لیے ڈنڈے (خر 25:13، 28؛ 27:6؛ 30:5؛ 37:4، 15، 28؛ 38:6)، پردوں کے لیے ستون (خر 26:32، 37؛ 36:36)،خیمۂاِجتماع کے لیے تختے (خر 26:15؛ 36:20) اور تختوں کو آپس میں جوڑنے والے حصے (خر 26:26؛ 36:31)۔
ڈبلیو15 1/4 ص. 15 پ. 4
کیا آپ کو معلوم ہے؟
قدیم زمانے میں جو آئینے اِستعمال ہوتے تھے، وہ آجکل کے آئینوں سے بالکل فرق تھے۔ آجکل کے آئینے شیشے سے بنے ہوتے ہیں لیکن اُس زمانے میں آئینے بنانے کے لیے عام طور پر پیتل اور کبھی کبھار سونے، چاندی یا تانبے کو اِستعمال کِیا جاتا تھا۔ اِن دھاتوں کی رگڑ ائی کر کے آئینے بنائے جاتے تھے۔ بائبل میں آئینوں کا پہلی بار ذکر اُس موقعے پر ملتا ہے جب خیمۂاِجتماع بنایا گیا تھا۔اُس وقت کئی عورتوں نے اپنے آئینے دے دیے تھے تاکہ اُن سے پیتل کا حوض اور اُس کی کُرسی بنائی جا سکے۔ (خر 38:8) یقیناً اِن چیزوں کو بنانے کے لیے آئینوں کو پہلے پگھلایا گیا ہوگا۔