پہلا باب
آپ خدا کے بارے میں سچائی سیکھ سکتے ہیں
کیا خدا کو آپ کی فکر ہے؟
خدا کی ذات کیا ہے؟ کیا اُس کا کوئی خاص نام ہے؟
کیا خدا کی قُربت حاصل کرنا ممکن ہے؟
۱، ۲. ہم سوال کیوں پوچھتے ہیں؟
کیا آپ نے کبھی غور کِیا ہے کہ بچے بہت سارے سوال پوچھتے ہیں؟ بہتیرے تو بولنا شروع کرتے ہی سوال پوچھنے لگتے ہیں۔ وہ ہر چیز کے بارے میں جاننے کا شوق رکھتے ہیں۔ اس لئے وہ آپ سے ایسے سوال پوچھتے ہیں: ”رات کو سورج کہاں چھپ جاتا ہے؟ ستارے کیوں چمکتے ہیں؟ چڑیاں کیوں چہکتی ہیں؟“ آپ اِن سوالوں کا جواب دینے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ آسان نہیں کیونکہ آپ کی ہزار کوششوں کے باوجود بچے نئے نئے سوال اُٹھاتے ہیں۔
۲ لیکن صرف بچے ہی سوال نہیں پوچھتے۔ جوں جوں ہم بڑے ہوتے ہیں ہم مختلف باتوں کے بارے میں سوال پوچھنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ہمیں زندگی میں کونسی راہ اختیار کرنی چاہئے۔ یا پھر ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ہم خطروں سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ اور کبھیکبھار ہم تجسّس میں پڑ کر سوال پوچھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ لیکن بہتیرے لوگ زندگی کے سب سے اہم معاملوں کے بارے میں سوال کرنا بند کر دیتے ہیں۔
۳. بہتیرے لوگ اہم سوالوں کے جواب معلوم کرنے کی کوشش کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟
۳ اِس کتاب کے شروع میں اور اِس باب کے آغاز میں بھی سوال کئے گئے ہیں۔ ذرا اِن پر غور کیجئے۔ یہ چند ایسے سوال ہیں جن کے جواب آپ کے لئے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن بہتیرے لوگوں نے ان سوالوں کے جواب معلوم کرنے کی کوشش چھوڑ دی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا ہمیں پاک صحائف میں اِن اہم سوالوں کے جواب مل سکتے ہیں؟ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ پاک صحائف میں درج سچائیوں کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ وہ سوال پوچھنے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ وہ شرمندہ نہیں ہونا چاہتے۔ دوسرے لوگوں کا نظریہ ہے کہ ایسے سوالوں کے جواب صرف مذہبی رہنما اور علما ہی جان سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
۴، ۵. ہمیں کن اہم سوالوں کے جواب ڈھونڈنے چاہئیں اور کیوں؟
۴ بِلاشُبہ آپ بھی بہت سے اہم سوالوں کے جواب معلوم کرنا چاہتے ہوں گے۔ آپ نے شاید خود سے پوچھا ہوگا کہ کیا ہماری زندگی کا مقصد صرف پیدا ہونا، بوڑھا ہونا اور پھر آخرکار مر جانا ہے؟ یا شاید آپ نے سوچا ہوگا کہ خدا کی ذات کیا ہے؟ ایسے سوال پوچھنا اچھی بات ہے۔ ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے میں ہمت نہ ہاریں کیونکہ یسوع مسیح نے کہا تھا: ”مانگو تو تُم کو دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو پاؤ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا۔“—متی ۷:۷۔
۵ ان اہم سوالوں کے جواب ڈھونڈنے سے آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔ (امثال ۲:۱-۵) شاید دوسروں نے آپ سے کہا ہو کہ بہتیرے سوال ایسے ہیں جن کا جواب ملنا ناممکن ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ آپ خدا کے کلام میں سے بہت سے سوالوں کے جواب حاصل کر سکتے ہیں اور اِن کو سمجھنا بھی مشکل نہیں ہے۔ اپنے سوالوں کے جواب حاصل کرکے آپ نہ صرف ایک خوشحال زندگی جی سکیں گے بلکہ آپ مستقبل کے لئے بھی ایک شاندار اُمید رکھ سکیں گے۔ آئیں سب سے پہلے ہم ایک ایسے سوال پر غور کرتے ہیں جس نے بہتیرے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔
کیا خدا کو ہماری فکر ہے؟
۶. بہتیرے لوگ کیوں خیال کرتے ہیں کہ خدا کو ہماری فکر نہیں؟
۶ بہتیرے لوگ اس سوال کا جواب یوں دیں گے: ”نہیں، خدا کو ہماری فکر بالکل نہیں۔“ وہ کہتے ہیں کہ ”اگر خدا کو ہماری فکر ہوتی تو کیا دُنیا کی حالت ایسی ہوتی؟“ ہم جہاں بھی نظر دوڑاتے ہیں جنگ، نفرت اور مصیبت کا راج ہے۔ ہر انسان بیمار پڑتا ہے، تکلیف اُٹھاتا ہے اور ہر کوئی اپنے کسی عزیز کو موت کے ہاتھوں کھو بیٹھتا ہے۔ اِس لئے بہتیرے لوگ کہتے ہیں کہ ”اگر خدا کو واقعی ہماری فکر ہوتی تو کیا وہ ہم پر ایسی مصیبتیں آنے دیتا؟“
۷. (۱) کئی لوگ کیوں کہتے ہیں کہ خدا سنگدل ہے؟ (ب) پاک صحائف میں ہمیں اس کے بارے میں کیا بتایا جاتا ہے؟
۷ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ خدا سنگدل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک آفت آتی ہے تو مذہبی رہنما کہتے ہیں کہ یہ خدا کی مرضی تھی۔ ایسا کہنے سے مذہبی رہنما خدا کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ پاک صحائف میں اِس کے بارے میں کیا کہا جاتا ہے؟ یعقوب ۱:۱۳ میں لکھا ہے: ”جب کوئی آزمایا جائے تو یہ نہ کہے کہ میری آزمایش خدا کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ نہ تو خدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے۔“ لہٰذا خدا دُنیا میں واقع ہونے والی بُرائی کا ذمہدار ہرگز نہیں ہے۔ (ایوب ۳۴:۱۰-۱۲) یہ سچ ہے کہ خدا مصیبتوں کو روکتا نہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ ہم پر یہ مصیبتیں لاتا ہے۔
۸، ۹. (ا) مثال سے کیسے واضح ہوتا ہے کہ خدا مصیبتوں کے لئے ذمہدار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ (ب) ہمیں اِس بات پر اعتراض کیوں نہیں کرنا چاہئے کہ خدا انسانوں کو بدی کی راہ اختیار کرنے سے نہیں روکتا؟
۸ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔ ایک جوان آدمی اپنے والدین کے ساتھ رہتا ہے۔ اُس کا باپ اُس سے بےحد پیار کرتا ہے۔ لیکن جب بیٹا بُری راہ اختیار کرتا ہے اور پھر گھر چھوڑنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اُس کا باپ اُسے روکتا نہیں۔ بُری راہ اختیار کرنے سے بیٹا مصیبتوں کے جال میں پھنس جاتا ہے۔ کیا اِس صورتحال میں باپ نے اپنے بیٹے پر یہ مصیبتیں لائی ہیں؟ جی نہیں۔ (لوقا ۱۵:۱۱-۱۳) اسی طرح جب انسان بُری راہ کو اپناتا ہے تو خدا اُسے روکتا نہیں۔ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا، انسان پر مصیبتیں لاتا ہے۔
۹ خدا نے انسانوں کو بدی کی راہ اختیار کرنے سے کیوں نہیں روکا؟ اِس کی وجہ آپ کو اس کتاب کے گیارھویں باب میں بتائی جائے گی۔ ہمارے خالق کو اپنے کاموں کی دلیلیں پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن محبت کی بِنا پر وہ دلیلیں پیش کرتا ہے۔ آپ اِس بات پر یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا ہم پر مشکلات نہیں لاتا۔ اِس کے برعکس خدا ہی وہ واحد ہستی ہے جو ہمیں مصیبتوں سے نجات دلائے گا۔—یسعیاہ ۳۳:۲۔
۱۰. ہم کیسے جانتے ہیں کہ خدا بدی کے اثر کو مٹا دے گا؟
۱۰ اِس کے علاوہ خدا قدوس یعنی پاک ہے۔ (یسعیاہ ۶:۳) اس کا مطلب ہے کہ خدا بدی سے پاک ہے اور کوئی غلطی نہیں کر سکتا۔ اِس لئے ہم اُس پر پورا بھروسہ رکھ سکتے ہیں۔ انسانوں کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا ہے کیونکہ کبھیکبھار وہ بدی کی راہ پر چلنے لگتے ہیں۔ اور ایسے لوگ جو بھلائی کی راہ پر چلتے ہیں وہ اتنی قوت نہیں رکھتے کہ وہ بدی کا اثر مٹا سکیں۔ لیکن خدا کی قوت لامحدود ہے۔ خدا نہ صرف ہمیشہ کے لئے بدی کا اثر مٹانے کی قوت رکھتا ہے بلکہ وہ ایسا کرے گا بھی۔—زبور ۳۷:۹-۱۱۔
ناانصافی دیکھ کر خدا کیسا محسوس کرتا ہے؟
۱۱. (ا) خدا ناانصافی کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے؟ (ب) خدا آپ کی تکلیف کو دیکھ کر کیسا محسوس کرتا ہے؟
۱۱ خدا نے اچھائی اور بُرائی کے فرق کو واضح کِیا ہے۔ اُسے ناانصافی سے نفرت ہے۔ پاک صحائف میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ خدا ”انصاف کو پسند کرتا ہے۔“ (زبور ۳۷:۲۸) جب وہ دُنیا کے حالات پر نظر ڈالتا ہے اور لوگوں کی ناانصافی کو دیکھتا ہے تو وہ کیسا محسوس کرتا ہے؟ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ قدیم زمانے میں جب دُنیا میں بدی بہت بڑھ گئی تھی تو خدا نے ”دل میں غم کِیا۔“ (پیدایش ۶:۵، ۶) خدا لاتبدیل ہے۔ (ملاکی ۳:۶) آج بھی جب خدا لوگوں کی تکلیف کو دیکھتا ہے تو وہ غمگین ہوتا ہے۔ پاک صحائف میں لکھا ہے کہ خدا کو ”تمہاری فکر ہے۔“—۱-پطرس ۵:۷۔
۱۲، ۱۳. (ا) ہم میں محبت کرنے کی صلاحیت کیوں پائی جاتی ہے؟ (ب) آپ کیوں یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا دُنیا پر سے دُکھ اور ناانصافی کو ختم کر دے گا؟
۱۲ ہم یقین کے ساتھ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ خدا لوگوں کی تکلیف دیکھ کر غمگین ہو جاتا ہے؟ غور کریں کہ خدا کے کلام میں بتایا جاتا ہے کہ ہم خدا کی صورت پر بنائے گئے ہیں۔ (پیدایش ۱:۲۶) اس کا مطلب ہے کہ ہم میں خدا کی خوبیوں کی جھلک پائی جاتی ہے۔ جب ایک بےقصور شخص ناانصافی کا شکار بنتا ہے تو کیا آپ کو دُکھ نہیں ہوتا؟ اگر آپ کو دُکھ ہوتا ہے تو یقین کریں کہ خدا کو آپ سے بھی زیادہ دُکھ ہوتا ہے۔
۱۳ انسان محبت کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ پاک صحائف میں بتایا جاتا ہے کہ ”خدا محبت ہے۔“ (۱-یوحنا ۴:۸) ہم میں محبت کرنے کی صلاحیت صرف اِس لئے ہے کیونکہ ہم خدا کی صورت پر بنائے گئے ہیں۔ ذرا سوچیں: اگر آپ کے پاس دُنیا پر سے دُکھ اور ناانصافی کو ختم کرنے کی طاقت ہوتی تو کیا آپ محبت کی بِنا پر ایسا نہ کرتے؟ آپ ایسا ضرور کرتے۔ اِس لئے آپ پورا یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا دُکھ اور ناانصافی کو ختم کر دے گا۔ کتاب کے شروع میں خدا کے جن وعدوں کا ذکر کِیا گیا ہے یہ محض خواب نہیں ہیں، یہ ضرور پورے ہوں گے۔ لیکن ایسے وعدوں پر ایمان لانے کے لئے آپ کو خدا کے بارے میں مزید علم حاصل کرنا ہوگا۔
خدا چاہتا ہے کہ آپ اُسے جانیں
۱۴. خدا کا نام کیا ہے اور ہمیں اسے کیوں استعمال کرنا چاہئے؟
۱۴ اگر آپ کسی کو جاننے کی خواہش رکھتے ہیں تو سب سے پہلے آپ اُس کا نام دریافت کریں گے۔ اسی طرح خدا کو جاننے یا اُس کے بارے میں علم حاصل کرنے کے لئے اُس کے نام کو جاننا بہت ضروری ہے۔ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ اُس کا نام ”خدا“ یا ”خداوند“ ہے۔ لیکن جس طرح الفاظ ”بادشاہ“ اور ”صدر“ لقب ہیں اسی طرح ”خدا“ اور ”خداوند“ بھی اصل میں لقب ہی ہیں۔ پاک صحائف میں بتایا گیا ہے کہ خدا ایک خاص نام رکھتا ہے۔ زبور ۸۳:۱۸ میں لکھا ہے: ”تُو ہی جس کا نام یہوؔواہ ہے تمام زمین پر بلندوبالا ہے۔“ بائبل کے کئی ترجموں میں خدا کا نام نہیں دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ جاننے کے لئے صفحہ ۱۹۵-۱۹۷ کو دیکھیں۔ پاک صحائف کے قدیم نسخہجات میں خدا کا نام ”یہوواہ“ ہزاروں مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خدا چاہتا ہے کہ آپ اُس کا نام جانیں اور اُسے استعمال بھی کریں۔ دراصل خدا اپنے کلام کے ذریعے اپنا تعارف کراتا ہے۔
۱۵. خدا کے نام کا مطلب کیا ہے؟
۱۵ خدا کے نام کا معنی ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ نام ”یہوواہ“ کا مطلب ہے کہ خدا اپنے ہر وعدے کو پورا کر سکتا ہے اور اپنی مرضی بجا لاتا ہے۔a کائنات میں کوئی اَور یہ نام نہیں رکھتا۔ جس طرح خدا بےمثال ہے اسی طرح اُس کا نام ”یہوواہ“ بھی بےمثال ہے۔
۱۶، ۱۷. پاک صحائف میں خدا کو دئے گئے ان القاب کا کیا مطلب ہے: (ا) قادرِمطلق؟ (ب) ازلی بادشاہ؟ (پ) خالق؟
۱۶ یہوواہ خدا کس لحاظ سے بےمثال ہے؟ ہم نے دیکھا ہے کہ زبور ۸۳:۱۸ میں یہوواہ خدا کے بارے میں یوں کہا گیا ہے: ”تُو ہی . . . تمام زمین پر بلندوبالا ہے۔“ مکاشفہ ۱۵:۳ میں لکھا ہے: ”اَے [یہوواہ] خدا! قادرِمطلق! تیرے کام بڑے اور عجیب ہیں۔ اَے ازلی بادشاہ! تیری راہیں راست اور درست ہیں۔“ قادرِمطلق کا لقب صرف یہوواہ خدا ہی کو دیا جاتا ہے۔ اِس سے مُراد ہے کہ اُس کی قدرت لامحدود ہے۔ یہوواہ خدا ایک اَور لحاظ سے بھی بےمثال ہے۔ اُسے ازلی بادشاہ کا لقب دیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اُس کا وجود ہمیشہ سے ہے۔ زبور ۹۰:۲ میں یہوواہ خدا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ”ازل سے ابد تک تُو ہی خدا ہے۔“ واقعی خدا کے بارے میں یہ جان کر ہمارے دل میں اُس کا احترام بڑھ جاتا ہے۔
۱۷ یہوواہ خدا اِس لحاظ سے بھی بےمثال ہے کہ وہ ہی خالق ہے۔ مکاشفہ ۴:۱۱ میں لکھا ہے: ”اَے [یہوواہ] ہمارے خداوند اور خدا تُو ہی تمجید اور عزت اور قدرت کے لائق ہے کیونکہ تُو ہی نے سب چیزیں پیدا کیں اور وہ تیری ہی مرضی سے تھیں اور پیدا ہوئیں۔“ جیہاں، فرشتوں سے لے کر آسمان پر چمکتے ستاروں تک، پھلوں سے لے کر سمندروں میں تیرتی مچھلیوں تک، سب چیزیں یہوواہ خدا نے ہی خلق کی ہیں۔
کیا آپ یہوواہ خدا کے قریب جا سکتے ہیں؟
۱۸. کئی لوگ کیوں سمجھتے ہیں کہ وہ خدا کی قُربت نہیں حاصل کر سکتے؟ لیکن اس سلسلے میں پاک صحائف میں کیا لکھا ہے؟
۱۸ یہوواہ خدا کی شاندار خوبیوں کے بارے میں جان کر کئی لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ ”جبکہ خدا اتنا بلندوبالا ہے، تو پھر مَیں اُس کی نظروں میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور نہ ہی مَیں اُس کی قُربت حاصل کر سکتا ہوں۔“ لیکن پاک صحائف میں لکھا ہے کہ خدا ”ہم میں سے کسی سے دُور نہیں۔“ (اعمال ۱۷:۲۷) خدا کا کلام یہ بھی بیان کرتا ہے: ”خدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تمہارے نزدیک آئے گا۔“—یعقوب ۴:۸۔
۱۹. (۱) ہم خدا کے نزدیک کیسے جا سکتے ہیں؟ اور اس سے ہمیں کیا فائدہ پہنچے گا؟ (ب) آپ خدا کی کونسی خوبیوں سے متاثر ہیں؟
۱۹ آپ خدا کے نزدیک کیسے جا سکتے ہیں؟ پہلے تو خدا کے بارے میں مزید علم حاصل کریں۔ یسوع مسیح نے کہا تھا: ”ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایِواحد اور برحق کو اور یسوؔع مسیح کو جِسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔“ (یوحنا ۱۷:۳) جیہاں، پاک صحائف میں بتایا جاتا ہے کہ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے بارے میں سیکھنے سے ہی ہم ”ہمیشہ کی زندگی“ پا سکیں گے۔ جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں ”خدا محبت ہے۔“ (۱-یوحنا ۴:۱۶) محبت کے علاوہ یہوواہ خدا بہت سی اَور خوبیوں کا مالک بھی ہے۔ مثال کے طور پر خدا کا کلام بیان کرتا ہے کہ یہوواہ ”خدایِرحیم اور مہربان قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی“ ہے۔ (خروج ۳۴:۶) وہ ”نیک اور معاف کرنے کو تیار ہے۔“ (زبور ۸۶:۵) خدا تحمل کرتا ہے۔ (۲-پطرس ۳:۹) وہ اپنے لوگوں کو کبھی ترک نہیں کرتا۔ (زبور ۹۴:۱۴) جوں جوں آپ پاک صحائف میں سے علم حاصل کریں گے آپ دیکھیں گے کہ یہوواہ خدا اپنی خوبیوں کو کیسے کام میں لاتا ہے۔
۲۰-۲۲. (۱) چونکہ ہم خدا کو نہیں دیکھ سکتے کیا اِس کا مطلب ہے کہ ہم اُس کے قریب نہیں جا سکتے؟ (ب) آپ کے جاننے والے شاید کیا کرنے کی کوشش کریں، لیکن آپ کو کیا کرنا چاہئے؟
۲۰ یہ بات سچ ہے کہ آپ خدا کو نہیں دیکھ سکتے کیونکہ وہ ایک روحانی ہستی ہے۔ (یوحنا ۱:۱۸؛ ۴:۲۴؛ ۱-تیمتھیس ۱:۱۷) لیکن پاک صحائف کے ذریعے آپ خدا کی شخصیت سے ضرور واقف ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ زبورنویس نے کہا تھا، آپ ’یہوواہ کے جمال کو دیکھ سکتے ہیں۔‘ (زبور ۲۷:۴؛ رومیوں ۱:۲۰) آپ یہوواہ خدا کے بارے میں جتنا علم حاصل کریں گے، اُتنا ہی آپ اُس کے قریب ہوتے جائیں گے۔
۲۱ اس کے علاوہ آپ ایک اَور اہم بات کو بھی سمجھ پائیں گے۔ پاک صحائف میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہوواہ خدا اور ہمارے درمیان اتنا ہی گہرا بندھن ہو سکتا ہے جتنا ایک والد اور اُس کے بچے کے درمیان ہوتا ہے۔ (متی ۶:۹) خدا نہ صرف ہماری زندگی کا بانی ہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ہم ہمیشہ خوش رہیں، ٹھیک اسی طرح جیسے ایک والد اپنے بچوں کی خوشی چاہتا ہے۔ (زبور ۳۶:۹) پاک صحائف میں ہمیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ہم خدا کے دوست بن سکتے ہیں۔ (یعقوب ۲:۲۳) یہ کتنا عظیم تصور ہے کہ آپ پوری کائنات کے خالق کے دوست بن سکتے ہیں!
۲۲ جب آپ پاک صحائف سے علم حاصل کرنا شروع کریں گے تو آپ کے کئی جاننے والوں کو شاید اِس بات کی فکر ہونے لگے کہ آپ کسی نئی بات پر ایمان لا رہے ہیں۔ شاید وہ آپ کو پاک صحائف کی تعلیم حاصل کرنے سے روکیں۔ لیکن اُنہیں ایسا نہ کرنے دیں۔ اگر آپ پاک صحائف سے علم حاصل کرنا بند کر دیں گے تو آپ یقیناً خدا کی دوستی سے محروم رہیں گے۔
۲۳، ۲۴. (۱) آپ کو سوال کیوں پوچھنے چاہئیں؟ (ب) اگلے مضمون میں ہم کس موضوع پر غور کریں گے؟
۲۳ یہ بات سچ ہے کہ آپ ایسی باتیں بھی سیکھیں گے جن کو سمجھنے میں آپ کو دشواری ہوگی۔ شاید آپ کو کسی بات کے بارے میں وضاحت کی ضرورت ہو۔ اس سلسلے میں سوال پوچھتے وقت آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ہمیں بچوں کی مانند فروتن ہونا چاہئے جو بہت سے سوال پوچھتے ہیں۔ اس لئے ہمیں بھی سوال پوچھنے سے ہچکچانا نہیں چاہئے۔ (متی ۱۸:۲-۴) خدا چاہتا ہے کہ آپ اپنے سوالوں کے جواب پائیں۔ پاک صحائف یعنی بائبل میں ایسے لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو خدا کے بارے میں علم حاصل کرنے کے لئے سرگرم تھے۔ وہ پاک صحائف میں تحقیق کرتے کہ جو باتیں وہ سیکھ رہے تھے آیا یہ سچائی کے مطابق تھیں کہ نہیں۔—اعمال ۱۷:۱۱۔
۲۴ یہوواہ خدا کے بارے میں جاننے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ آپ بائبل سے اُس کے بارے میں علم حاصل کریں۔ بائبل ہر دوسری کتاب سے فرق ہے۔ وہ کیسے؟ اگلا مضمون اِس سوال کا جواب دے گا۔
[فٹنوٹ]
a خدا کے نام کے معنی اور تلفظ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے اِس کتاب کے صفحہ ۱۹۵-۱۹۷ کو دیکھیں۔
پاک صحائف کی تعلیم یہ ہے
▪ خدا کو آپ کی فکر ہے۔—۱-پطرس ۵:۷۔
▪ خدا ایک خاص نام رکھتا ہے۔ اُس کا نام یہوواہ ہے۔—زبور ۸۳:۱۸۔
▪ خدا چاہتا ہے کہ ہم اُس کے نزدیک جائیں۔—یعقوب ۴:۸۔
▪ یہوواہ ایک مہربان، رحیم اور پُرمحبت خدا ہے۔—خروج ۳۴:۶؛ ۱-یوحنا ۴:۸، ۱۶۔
[صفحہ ۱۲، ۱۳ پر تصویریں]
بائبل میں بتایا جاتا ہے کہ یہوواہ خدا پوری کائنات کا خالق ہے
[صفحہ ۱۳ پر تصویر]
اگر آپ کسی کو جاننے کی خواہش رکھتے ہیں تو سب سے پہلے آپ اُس کا نام دریافت کریں گے۔ خدا اپنے کلام کے ذریعے اپنا تعارف کراتا ہے
[صفحہ ۱۴ پر تصویر]
جس طرح ایک والد اپنے بچوں سے پیار کرتا ہے اسی طرح یہوواہ خدا ہم سے پیار کرتا ہے