اُمیدِقیامت آپ کیلئے کیا مطلب رکھتی ہے؟
”تو اپنی مٹھی کھولتا ہے اور ہر جاندار کی خواہش پوری کرتا ہے۔“—زبور ۱۴۵:۱۶۔
۱-۳. بعض لوگ مستقبل کی بابت کیا اُمید رکھتے ہیں؟ مثال دیں۔
مانچسٹر انگلینڈ کے نزدیک ایک صبح نو سالہ کرسٹوفر اور اس کا چھوٹا بھائی اپنے چچا، چچی اور انکے دو بیٹوں کیساتھ مسیحی خدمتگزاری میں گھرباگھر جا رہے تھے۔ مینارِنگہبانی کے ساتھی رسالے جاگو! نے بیان کِیا کہ ان کیساتھ کیا واقع ہوا۔ ”منادی کے بعد سہپہر کے وقت وہ سب ایک نزدیکی ساحلی سیرگاہ بلیکپول کی طرف روانہ ہوئے۔ موٹروے پر ایک حادثے کے باعث ۱۲ لوگ موقع پر ہلاک ہو گئے جن میں یہ ۶ لوگ بھی شامل تھے۔ پولیس نے اس حادثے کو ”ایک مکمل تباہی“ کا نام دیا۔
۲ اس واقعہ سے ایک رات پہلے یہ خاندان عبادت پر گیا ہوا تھا جہاں موت کے موضوع پر گفتگو کی گئی تھی۔ کرسٹوفر کے والد نے بیان کِیا: ”وہ ہمیشہ ہی سے غوروفکر کا عادی تھا۔ اس رات اُس نے واضح طور پر ایک نئی دُنیا اور مستقبل میں اپنی اُمید کی بابت گفتگو کی تھی۔ ہماری باتچیت کے دوران اچانک کرسٹوفر نے کہا کہ یہوواہ کے گواہ ہوتے ہوئے ہم جانتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی ہم ایک دن دوبارہ زمین پر ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے۔ ہم دونوں اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ یہ الفاظ اتنے یادگار ہونگے۔“a
۳ سالوں پہلے، ۱۹۴۰ میں فرنیز نامی آسٹریا کا ایک گواہ اس بات سے باخبر تھا کہ یہوواہ خدا کا وفادار رہنے کی وجہ سے اسکا سر قلم کر دیا جائیگا۔ فرینز نے برلن کے ایک قیدخانے سے اپنی والدہ کو خط لکھا: ”مَیں جانتا ہوں کہ اگر مَیں [فوجی] حلف لے لیتا تو مَیں ایسا گُناہ کرتا جسکا انجام موت ہے۔ یہ میری نظر میں بےوفائی ہے۔ میری قیامت نہیں ہوگی۔ . . . اب میری پیاری امی اور میرے تمام بہن بھائیو! آج مجھے سزا سنا دی گئی ہے، ڈرنے کی کوئی بات نہیں یہ صرف موت کی سزا ہے، کل صبح میرا سر قلم کر دیا جائیگا۔ خدا نے مجھے طاقت بخشی ہے جیسے اُس نے ماضی میں تمام سچے مسیحیوں کو دی تھی۔ . . . اگر آپ موت تک اپنی راستی پر قائم رہینگے تو ہم قیامت میں دوبارہ ضرور ملیں گے۔ . . . جبتک ہم دوبارہ نہیں ملتے۔“b
۴. پیراگراف میں بیانکردہ واقعات نے آپ پر کیا اثر ڈالا ہے اور اسکے بعد ہم کس بات پر غور کرینگے؟
۴ کرسٹوفر اور فرینز دونوں قیامت کی اُمید پر بہت پُختہ ایمان رکھتے تھے۔ یہ ان کیلئے حقیقی تھی۔ یقیناً یہ بیانات ہمارے دل کو چھو لیتے ہیں! یہوواہ خدا کیلئے اپنی قدردانی کو بڑھانے اور قیامت کی اُمید کو مضبوط کرنے کیلئے آئیے اس بات پر غور کریں کہ قیامت کیوں واقع ہوگی اور اسے ہم پر کیسے اثرانداز ہونا چاہئے۔
زمینی قیامت کی رویا
۵، ۶. مکاشفہ ۲۰:۱۲، ۱۳ میں درج یوحنا رسول کی رویا کیا ظاہر کرتی ہے؟
۵ یوحنا رسول نے یسوع مسیح کی ہزارسالہ حکمرانی کے واقعات کی رویا میں زمینی قیامت کو رونما ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ اس نے بیان کِیا: ”مَیں نے چھوٹے بڑے سب مُردوں کو . . . دیکھا . . . اور سمندر نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دیا اور موت اور عالمِارواح [قبر] نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دیا۔“ (مکاشفہ ۲۰:۱۲، ۱۳) کسی کے مرتبے یا حیثیت سے قطعنظر—خواہ ”چھوٹے“ ہوں یا ”بڑے“—وہ سب جو قبروں میں ہیں زندہ کئے جائینگے۔ اُس وقت سمندر میں ڈوب جانے والے افراد بھی زندہ کئے جائینگے۔ یہ شاندار کام یہوواہ کے مقصد کا حصہ ہے۔
۶ یسوع مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کا آغاز شیطان کو باندھ کر اتھاہگڑھے میں ڈالنے سے ہوگا۔ اس حکمرانی کے دوران شیطان بےعملی کی حالت میں ہوگا اسلئے وہ قیامت پانے اور بڑی مصیبت سے بچ نکلنے والوں کو گمراہ نہیں کر سکیگا۔ (مکاشفہ ۲۰:۱-۳) شاید ہزار سال آپکو ایک لمبا عرصہ دکھائی دے لیکن یہوواہ کے نزدیک یہ ”ایک دن“ کے برابر ہے۔—۲-پطرس ۳:۸۔
۷. یسوع مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے دوران کس بنیاد پر عدالت ہوگی؟
۷ رویا کے مطابق یسوع مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی عدالت کا وقت ہوگا۔ یوحنا رسول نے لکھا: ”مَیں نے چھوٹے بڑے سب مُردوں کو اُس تخت کے سامنے کھڑے ہوئے دیکھا اور کتابیں کھولی گئیں۔ پھر ایک اَور کتاب کھولی گئی یعنی کتابِحیات اور جسطرح اُن کتابوں میں لکھا ہوا تھا اُنکے اعمال کے مطابق مُردوں کا انصاف کِیا گیا۔ . . . اُن میں سے ہر ایک کے اعمال کے موافق اُسکا انصاف کِیا گیا۔“ (مکاشفہ ۲۰:۱۲، ۱۳) غور کریں کہ اس عدالت کی بنیاد وہ کام نہیں جو کسی شخص نے مرنے سے پہلے کئے تھے بلکہ اسکا تعلق اُن کتابوں سے ہے جو مستقبل میں کھولی جائینگی۔ (رومیوں ۶:۷) ان کتابوں سے واقف ہونے کے بعد کسی شخص کے کام اس بات کا فیصلہ کرنے کی بنیاد ہونگے کہ آیا اسکا نام ”کتابِحیات“ میں لکھا ہے۔
”زندگی کی قیامت“ یا ”سزا کی قیامت“
۸. قیامت میں زندہ ہونے والے اشخاص کونسی دو قیامتیں حاصل کرینگے؟
۸ یوحنا کی رویا کے شروع میں یسوع مسیح کو ”موت اور عالمِارواح [قبر] کی کُنجیاں“ لئے ہوئے بیان کِیا گیا۔ (مکاشفہ ۱:۱۸) وہ ”زندگی کے مالک“ کے طور پر یہوواہ خدا کی خدمت کرتا ہے جسے ”زندوں اور مُردوں“ کی عدالت کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ (اعمال ۳:۱۵؛ ۲-تیمتھیس ۴:۱) وہ یہ سب کچھ کیسے کریگا؟ وہ مُردوں کو زندہ کرنے سے ایسا کریگا۔ یسوع مسیح نے منادی کرتے ہوئے بِھیڑ سے کہا: ”اس سے تعجب نہ کرو کیونکہ وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اُسکی آواز سنکر نکلینگے۔ جنہوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اور جنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے واسطے۔“ (یوحنا ۵:۲۸-۳۰) پس، قدیم زمانے کے وفادار مردوں اور عورتوں کا مستقبل کیسا ہے؟
۹. (ا) قیامتیافتہ بہتیرے اشخاص کس بات کو سمجھ جائینگے؟ (ب) کونسا وسیع تعلیمی کام کِیا جائیگا؟
۹ قدیم زمانے کے وفادار اشخاص قیامت میں زندہ ہونے کے بعد جلد ہی سمجھ جائینگے کہ جن وعدوں پر وہ بھروسا کرتے تھے اب ایک حقیقت بن چکے ہیں۔ وہ پیدایش ۳:۱۵ میں درج بائبل کی پہلی پیشینگوئی کے مطابق عورت کی نسل کے متعلق جاننے میں گہری دلچسپی رکھینگے۔ وہ اس بات کو جانکر کسقدر خوش ہونگے کہ عورت کی نسل موعودہ مسیحا یسوع مسیح ہے جو اپنی جان فدیہ میں دینے تک وفادار رہا تھا! (متی ۲۰:۲۸) ان قیامتیافتہ اشخاص کا خیرمقدم کرنے والے لوگ اس بات کو سمجھنے میں انکی مدد کرکے بہت خوش ہونگے کہ فدیہ یہوواہ خدا کے فضل اور رحم کا اظہار ہے۔ جب قیامتیافتہ اشخاص اس بات کو جانینگے کہ خدا کی بادشاہت زمین کے سلسلے میں اسکے مقصد کو پورا کر رہی ہے تو بِلاشُبہ اُنکے دل یہوواہ کی حمد کے اظہارات سے لبریز ہونگے۔ انکے پاس اپنے شفیق آسمانی باپ اور اُسکے بیٹے کیلئے عقیدت کا اظہار کرنے کا کافی موقع ہوگا۔ اُس وقت زندہ رہنے والا ہر شخص وسیع تعلیمی کام میں حصہ لے کر خوش ہوگا۔ اُس وقت قبروں میں سے زندہ ہونے والے لاکھوں لوگوں کو سیکھنے کی ضرورت ہوگی تاکہ خدا کی فدیے کی فراہمی کو قبول کر سکیں۔
۱۰، ۱۱. (ا) ہزار سالہ حکمرانی زمین پر سب لوگوں کیلئے کیا موقع فراہم کریگی؟ (ب) اسے ہم پر کیسے اثرانداز ہونا چاہئے؟
۱۰ ابرہام جس ”شہر“ کا منتظر تھا قیامت پانے کے بعد اُس شہر کی حکمرانی کے تحت زندگی کی حقیقت کا تجربہ کرنے سے بہت زیادہ تسلی حاصل کریگا۔ (عبرانیوں ۱۱:۱۰) قدیم زمانے کا وفادار ایوب یہ جان کر کتنا خوش ہوگا کہ اسکے طرزِزندگی نے راستی کی خاطر اذیت کا سامنا کرنے والے یہوواہ کے دیگر خادموں کو تقویت بخشی تھی! نیز دانیایل کو جن پیشینگوئیوں کے لکھنے کا الہام بخشا گیا تھا اُسے اُنکی تکمیل کے بارے میں جاننے کا کتنا اشتیاق ہوگا!
۱۱ نئی دُنیا میں راستبازی بسی رہیگی۔ اس میں بڑی مصیبت سے زندہ بچنے والے لوگ اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے والے لوگ زندگی پائینگے۔ انکے پاس زمین اور اسکے باشندوں کیلئے یہوواہ کے مقصد کے بارے میں سیکھنے کیلئے کافی کچھ ہوگا۔ ہمیشہ کی زندگی کا امکان اور ابد تک یہوواہ کی تمجید کرنا یقیناً ہزار سالہ تعلیمی پروگرام کو خوشگوار بنا دیگا۔ تاہم، سب سے اہم بات یہ ہوگی کہ ہم اُن کتابوں سے واقف ہونے کے بعد انفرادی طور پر کیا کرینگے۔ کیا ہم سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرینگے؟ شیطان ہمیں سچائی سے ہٹانے کی آخری کوشش کریگا۔ ان اہم معلومات پر غوروخوض کرنا اور ان پر عمل کرنا ہمیں شیطان کا مقابلہ کرنے کیلئے تقویت بخشے گا۔
۱۲. کیا چیز تعلیمی کام اور زمین کو فردوس میں تبدیل کرنے کے کام میں بھرپور حصہ لینے کیلئے ہر ایک کی مدد کریگی؟
۱۲ ہمیں یسوع مسیح کے فدیے کی قربانی سے حاصل ہونے والے فوائد اور شاندار برکات کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے۔ جو لوگ قیامت میں جی اُٹھینگے اُن میں کوئی معذور یا اپاہج نہیں ہوگا۔ اگرچہ آجکل ہم ایسی باتیں دیکھتے ہیں۔ (یسعیاہ ۳۳:۲۴) نئی دُنیا میں تمام اشخاص تندرستی اور کامل صحت حاصل کرینگے۔ وہ قیامت پانے والے کروڑوں لوگوں کو تعلیم دینے کے کام میں بھرپور شرکت کرینگے۔ وہاں کے باشندے پوری زمین کو فردوس میں بدلنے کا عظیم کام کرینگے۔ یہ کام یہوواہ کی ستائش کا باعث ہوگا۔
۱۳، ۱۴. آخری امتحان میں شیطان کو اتھاہگڑھے سے آزاد کرنے کا کیا مقصد ہوگا، اور ہم میں سے ہر ایک کیلئے اسکا کیا نتیجہ نکلے گا؟
۱۳ جب شیطان کو آخری امتحان کیلئے اتھاہگڑھے سے آزاد کِیا جائیگا تو وہ ایک بار پھر انسانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کریگا۔ مکاشفہ ۲۰:۷-۹ کے مطابق شیطان قوموں یعنی لوگوں کے گروہوں کو گمراہ کرکے اپنے زیرِاثر لے آئیگا۔ ان سب کو تباہ کر دیا جائیگا: ”آسمان پر سے آگ نازل ہوکر اُنہیں کھا جائیگی۔“ ہزار سالہ حکمرانی کے دوران قیامت پانے والوں کیلئے یہ تباہی سزا کی قیامت بن جائیگی۔ اسکے برعکس راستی برقرار رکھنے والے قیامتیافتہ اشخاص ہمیشہ کی زندگی کا انعام پائینگے۔ درحقیقت، ہزار سالہ حکمرانی کے دوران انکی قیامت ”زندگی کی قیامت“ ہوگی۔—یوحنا ۵:۲۹۔
۱۴ قیامت کی اُمید ہمیں اب بھی کیسے تسلی دے سکتی ہے؟ ہمیں مستقبل میں اسکے فوائد حاصل کرنے کیلئے کیا کرنا چاہئے؟
اس وقت ہمارے لئے سبق
۱۵. قیامت پر ایمان رکھنے سے ہم اس وقت کونسی مدد حاصل کر سکتے ہیں؟
۱۵ ہو سکتا ہے کہ حال ہی میں آپکے کسی عزیز کی وفات ہوئی ہو۔ آپ شاید اس نقصان سے ہونے والی بڑی تبدیلی کا مقابلہ کر رہے ہوں۔ قیامت کی اُمید باطنی سکون اور اطمینان حاصل کرنے میں آپکی مدد کرتی ہے۔ یہ سکون ان لوگوں کو حاصل نہیں ہوتا ہے جو سچائی کو نہیں جانتے ہیں۔ پولس نے تھسلنیکیوں کی کلیسیا کے بھائیوں کو تسلی دی: ”اَے بھائیو! ہم نہیں چاہتے کہ جو سوتے ہیں اُنکی بابت تُم ناواقف رہو تاکہ اَوروں کی مانند جو نااُمید ہیں غم نہ کرو۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۴:۱۳) ذرا اس بات کا تصور کریں کہ آپ نئی دُنیا میں جی اُٹھنے والے لوگوں کو دیکھ رہے ہیں۔ ایسا کرنے سے آپ اُس وقت اپنے عزیزوں سے دوبارہ ملنے کے امکان پر غور کرنے سے تسلی حاصل کر سکتے ہیں۔
۱۶. جب قیامت واقع ہوگی تو آپ کیسا محسوس کرینگے؟
۱۶ ہو سکتا ہے کہ آپ کسی بیماری میں مبتلا ہیں۔ ان جسمانی کمزوریوں کا سبب آدم کی بغاوت ہے۔ لیکن اسکی وجہ سے پریشان نہ ہوں۔ یہ مت بھولیں کہ جب آپ ذاتی طور پر قیامت کا تجربہ کرینگے اور نئی دُنیا میں اچھی صحت اور طاقت کیساتھ پھر سے زندگی حاصل کرینگے تو لوگ آپکو زندہ دیکھ کر خوشی کیساتھ آپکا استقبال کرینگے۔ آپ یہ سب کچھ دیکھ کر خدا کا ضرور شکر ادا کرینگے۔
۱۷، ۱۸. ہمیں کونسے دو اہم سبق یاد رکھنے چاہئیں؟
۱۷ صرف دو اسباق پر غور کریں جنہیں ہمیں یاد رکھنا چاہئے۔ ایک تو یہ ہے کہ اب پورے دلوجان سے یہوواہ کی خدمت کرنا نہایت اہم ہے۔ اپنے اُستاد یسوع مسیح کے نمونے پر چلتے ہوئے ہماری خودایثارانہ زندگی یہوواہ اور ہمارے پڑوسیوں کیلئے محبت کو ظاہر کرتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مخالفت اور اذیت کی وجہ سے گزربسر کرنا مشکل ہو گیا ہے یا ہمارے کام پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ خواہ ہمیں کیسی بھی آزمائشوں کا سامنا ہو ہم اپنے ایمان کو قائم رکھنے کیلئے پُرعزم ہیں۔ اگر ہمیں موت کا سامنا ہے تو قیامت کی اُمید ہمیں تسلی دینے کیساتھ ساتھ یہوواہ اور اسکی بادشاہت کا وفادار رہنے کیلئے تقویت دیتی ہے۔ جیہاں، جب ہم پُرجوش ہو کر بادشاہت کی منادی کرتے اور شاگرد بناتے ہیں تو یہوواہ ہمیں مستقبل میں ابدی برکات دیگا جو اُس نے راستبازوں کیلئے رکھ چھوڑی ہیں۔
۱۸ دوسرے سبق کا تعلق اس بات سے ہے کہ ہم ناکاملیت کی وجہ سے آنے والی آزمائشوں کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں۔ اُمیدِقیامت کی بابت ہمارا علم اور یہوواہ کے فضل کیلئے ہماری قدردانی ایمان پر قائم رہنے کے ہمارے عزم کو تقویت بخشتی ہے۔ یوحنا رسول نے آگاہ کِیا: ”نہ دُنیا سے محبت رکھو نہ اُن چیزوں سے جو دُنیا میں ہیں۔ جو کوئی دُنیا سے محبت رکھتا ہے اُس میں باپ کی محبت نہیں۔ کیونکہ جوکچھ دُنیا میں ہے یعنی جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی وہ باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دُنیا کی طرف سے ہے۔ دُنیا اور اُسکی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہیگا۔“ (۱-یوحنا ۲:۱۵-۱۷) دُنیا کی مادی چیزوں میں بہت زیادہ کشش ہے لیکن جب ہم اسکا موازنہ ”حقیقی زندگی“ سے کرتے ہیں تو اسکی کشش ماند پڑ جاتی ہے۔ (۱-تیمتھیس ۶:۱۷-۱۹) اگر ہم بداخلاقی کرنے کی آزمائش میں پڑتے ہیں تو ہمیں سختی سے اسکی مزاحمت کرنی ہوگی۔ ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم اپنے چالچلن سے یہوواہ کو مسلسل ناخوش کرتے رہتے ہیں اور ہرمجدون سے پہلے مر جاتے ہیں تو وہ ہمیں زندہ نہیں کریگا۔ خدا کے نزدیک ہم ان لوگوں کی مانند ہونگے جو قیامت کی اُمید نہیں رکھتے ہیں۔
۱۹. ہمیں کس شاندار شرف کو نہیں بھولنا چاہئے؟
۱۹ خاص طور پر، ہمیں اب اور ہمیشہ تک یہوواہ کے دل کو شاد کرنے کے شاندار شرف کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے۔ (امثال ۲۷:۱۱) چاہے ہم موت تک وفادار رہتے ہیں یا اس بُرے نظام کے آخر تک راستی برقرار رکھتے ہیں یہ سب اس بات کا ثبوت پیش کریگا کہ ہم عالمگیر حاکمیت کے مسئلے میں یہوواہ کی طرف ہیں۔ خواہ ہم بڑی مصیبت سے بچ کر نئی دُنیا میں جائیں یا معجزانہ طور پر مُردوں کی قیامت میں زندگی پائیں زمینی فردوس میں رہنا واقعی خوشی کی بات ہوگی!
یہوواہ ہماری خواہشات کو پورا کرتا ہے
۲۰، ۲۱. اگرچہ قیامت کی بابت ہمارے کچھ سوالات کے جواب ملنا ابھی باقی ہے توبھی کیا چیز وفادار رہنے میں ہماری مدد کریگی؟ وضاحت کریں۔
۲۰ قیامت سے متعلق ہماری باتچیت میں ہمیں تمام سوالوں کے جواب تو نہیں ملے ہیں لہٰذا ایسے بہت سے سوالات کے جواب ملنا ابھی باقی ہے: یہوواہ ان کیلئے کیا انتظامات کریگا جو اپنی موت کے وقت شادیشُدہ تھے؟ (لوقا ۲۰:۳۴، ۳۵) کیا قیامت اُس جگہ پر ہوگی جہاں لوگ مرے تھے؟ کیا قیامت پانے والے اپنے خاندانوں کے پاس آئینگے؟ بِلاشُبہ ہمیں یرمیاہ کے الفاظ کو ذہن میں رکھنا چاہئے: ”خداوند [یہوواہ] اُن پر مہربان ہے جو اُسکے منتظر ہیں۔ اُس جان پر جو اُسکی طالب ہے۔ یہ خوب ہے کہ آدمی اُمیدوار رہے اور خاموشی سے خداوند [یہوواہ] کی نجات کا انتظار کرے۔“ (نوحہ ۳:۲۵، ۲۶) یہوواہ کے مقررہ وقت پر ہمارے تمام سوالات کے جواب دئے جائینگے۔ ہم اسکا یقین کیسے رکھ سکتے ہیں؟
۲۱ زبورنویس کے الہامی الفاظ پر غور کریں جب اس نے یہوواہ کی بابت کہا: ”تُو اپنی مٹھی کھولتا ہے اور ہر جاندار کی خواہش پوری کرتا ہے۔“ (زبور ۱۴۵:۱۶) عمر کیساتھ ساتھ ہماری خواہشات بدلتی جاتی ہیں۔ جب ہم بچے تھے تو ہماری خواہشات آج سے کافی مختلف تھی۔ زندگی کی بابت ہمارا نقطۂنظر ہماری اُمیدوں اور تجربات سے متاثر ہوتا ہے۔ یقیناً نئی دُنیا میں ہماری جائز خواہشات کو یہوواہ ضرور پورا کریگا۔
۲۲. ہمارے پاس یہوواہ کی ستائش کرنے کی کیا وجہ ہے؟
۲۲ ہم میں سے ہر ایک کیلئے وفادار رہنا اہم ہے۔ ”یہاں مختار میں یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ دیانتدار نکلے۔“ (۱-کرنتھیوں ۴:۲) ہم خدا کی بادشاہت کی شاندار خوشخبری کے مختار ہیں۔ خوشخبری کا اعلان کرنے کے سلسلے میں ہماری جانفشانی ہمیں زندگی کی راہ پر چلتے رہنے میں مدد دیتی ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم سب پر بُرا وقت آ سکتا ہے یا ہم کسی حادثے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ (واعظ ۹:۱۱) زندگی کی پریشانیوں کو کم کرنے کیلئے قیامت کی شاندار اُمید کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ اس بات کا پُختہ یقین رکھیں اگر آپ یسوع مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے آغاز سے پہلے مر جاتے ہیں تو آپکو دوبارہ زندہ کِیا جائیگا۔ وقت آنے پر آپ یہوواہ خدا کے ایوب سے کہے گئے الفاظ کو دہرانے کے قابل ہونگے: ”تُو مجھے پکارتا اور مَیں تجھے جواب دیتا۔“ تمام ستائش یہوواہ خدا کی ہو جو ان سب کو زندہ کرنے کی خواہش رکھتا ہے جو اسکی یاد میں ہیں!—ایوب ۱۴:۱۵۔
[فٹنوٹ]
a یہوواہ کے گواہوں کے شائعکردہ رسالے اویک! جولائی ۸، ۱۹۸۸ کے صفحہ ۱۰ کا مطالعہ کریں۔
b یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ کتاب جیہوواز وِٹنسز—پروکلیمرز آف گاڈز کنگڈم کے صفحہ ۶۶۲ سے اقتباس۔
کیا آپکو یاد ہے؟
• ہزار سالہ حکمرانی میں کس بنیاد پر لوگوں کی عدالت کی جائیگی؟
• کیوں بعض لوگ ”زندگی کی قیامت“ اور دیگر ”سزا کی قیامت“ پائیں گے؟
• قیامت کی بابت باقیماندہ سوالات کے جواب کے سلسلے میں زبور ۱۴۵:۱۶ کے الفاظ کیسے ہماری مدد کر سکتے ہیں؟
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
قیامت پر ایمان رکھنا ہمیں اب کیسے فائدہ پہنچا سکتا ہے؟