قارئین کے سوال
یسوع مسیح نے اپنی موت سے تھوڑی دیر پہلے وہ بات کیوں کہی جو زبور 22:1 میں داؤد نے کہی؟
یسوع مسیح نے سُولی پر جو باتیں کہیں، اُن میں سے ایک بات متی 27:46 میں درج ہے جہاں اُنہوں نے کہا: ”میرے خدا، میرے خدا، تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟“ یہ بات کہنے سے یسوع مسیح نے اُس پیشگوئی کو پورا کِیا جو داؤد نے زبور 22:1 میں لکھی۔ (مر 15:34) کیا یسوع نے زبور 22:1 میں درج بات کا حوالہ اِس لیے دیا کیونکہ وہ خدا سے مایوس ہو گئے تھے یا وقتی طور پر اُن کا ایمان کمزور پڑ گیا تھا؟ نہیں۔یسوع اِس بات کو اچھی طرح سے سمجھتے تھے کہ اُنہیں مرنے کی ضرورت کیوں ہے اور وہ ایسا کرنے کو تیار بھی تھے۔ (متی 16:21؛ 20:28) وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جب اُن کو موت کا سامنا ہوگا تو یہوواہ کو اُن کے ”اِردگِرد حفاظتی باڑ“ ہٹانی پڑے گی۔ (ایو 1:10، اُردو جیو ورشن) یوں وہ یہ ثابت کر پائیں گے کہ وہ دردناک موت سہنے کے باوجود یہوواہ کے وفادار رہے۔—مر 14:35، 36۔
تو پھر یسوع مسیح نے زبور 22:1 میں درج بات کیوں کہی؟ ہم اِس سلسلے میں یقین سے تو کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن آئیں، غور کریں کہ اُنہوں نے کن وجوہات کی بِنا پر یہ بات کہی ہوگی۔a
کیا یہ الفاظ کہنے سے یسوع مسیح اِس بات کو نمایاں کر رہے تھے کہ یہوواہ اُنہیں موت سے نہیں بچائے گا؟ یسوع کو یہوواہ کی مدد کے بغیر فدیے کی قیمت چُکانی تھی۔ اُنہیں مرنا تھا تاکہ وہ ”سب لوگوں کے لیے موت کا مزہ“ چکھ سکیں۔—عبر 2:9۔
کیا زبور 22 میں لکھی ایک بات کو کہنے سے یسوع اِس پورے زبور پر توجہ دِلا رہے تھے؟ یسوع کے زمانے میں کئی یہودیوں نے بہت سے زبور پورے پورے زبانی یاد کیے ہوتے تھے۔ لہٰذا جب وہ کسی زبور کی ایک آیت کو سنتے تھے تو اُن کے ذہن میں فوراً پورا زبور آ جاتا تھا۔ اگر یسوع مسیح اِس بات کو ذہن میں رکھ کر زبور 22 کی صرف ایک آیت کا حوالہ دے رہے تھے تو اِس سے یقیناً اُن کے پیروکاروں کو اُن بہت سی پیشگوئیوں پر غور کرنے کی ترغیب ملی ہوگی جو اِس زبور میں یسوع کی موت کے حوالے سے درج ہیں۔ (زبور 22:7، 8، 15، 16، 18، 24) اِس کے علاوہ اِس زبور کی آخری آیتوں میں یہوواہ کی بڑائی کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ وہ بادشاہ کے طور پر پوری زمین پر حکمرانی کرتا ہے۔—زبور 22:27-31۔
کیا زبور 22 میں لکھی بات کہنے سے یسوع یہ ظاہر کر رہے تھے کہ وہ بےقصور ہیں؟ یسوع کی موت سے کچھ گھنٹے پہلے اُن پر غیرقانونی مُقدمہ چلایا گیا جس میں اُنہیں خدا پر کفر بکنے کے جُرم میں قصوروار ٹھہرایا گیا۔ (متی 26:65، 66) یہودیوں کی عدالتِعظمیٰ کے رُکنوں نے یسوع مسیح پر راتوں رات مُقدمہ چلایا اور اِس دوران ایسے کام کیے جو بالکل غیرقانونی تھے۔ (متی 26:59؛ مر 14:56-59) لہٰذا جب یسوع نے یہ سوال کِیا: ”میرے خدا، میرے خدا، تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟“ تو شاید وہ اِس بات پر توجہ دِلانا چاہ رہے تھے کہ اُنہوں نے ایسا کوئی جُرم نہیں کِیا جس کے لیے اُنہیں موت کی سزا دی جاتی۔
کیا زبور میں لکھی بات کہنے سے یسوع دوسروں کو یہ یاد دِلانا چاہتے تھے کہ بھلے ہی یہوواہ نے داؤد پر مصیبتیں آنے دیں لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اُنہیں اُس کی خوشنودی حاصل نہیں تھی؟ داؤد نے جو سوال کِیا، اُس کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ خدا پر اپنا ایمان کھو بیٹھے تھے۔ دراصل یہ سوال کرنے کے بعد داؤد نے اِس بات پر اپنا یقین ظاہر کِیا کہ یہوواہ اپنے بندوں کو بچانے کی طاقت رکھتا ہے۔ داؤد کے اِس سوال کے بعد بھی یہوواہ اُنہیں برکتوں سے نوازتا رہا۔ (زبور 22:23، 24، 27) جس طرح یہوواہ نے داؤد پر مصیبتیں آنے سے نہیں روکیں اُسی طرح اُس نے ”داؤد کے بیٹے“ یسوع کو بھی سُولی پر تکلیفدہ موت سہنے سے نہیں بچایا۔ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ یسوع نے یہوواہ کی خوشنودی کھو دی تھی۔—متی 21:9۔
کیا یسوع مسیح اِس بات پر شدید افسوس کر رہے تھے کہ یہوواہ کو اُن پر سے اپنا ہاتھ ہٹانا پڑا تاکہ وہ اِمتحان میں کھرے اُتر سکیں؟ یہوواہ کا کبھی یہ مقصد نہیں تھا کہ اُس کا بیٹا تکلیف سہے اور مرے۔ اِس کی نوبت تو تب آئی جب پہلے اِنسان آدم اور حوا نے خدا کے خلاف بغاوت کی۔ حالانکہ یسوع مسیح نے کچھ غلط نہیں کِیا تھا لیکن پھر بھی اُنہیں تکلیف سہنی اور مرنا تھا تاکہ وہ شیطان کے اُٹھائے گئے اِعتراضات کا جواب دے سکیں اور اِنسانوں کے لیے فدیہ ادا کر کے اُنہیں وہ سب کچھ لوٹا سکیں جو آدم اور حوا کی وجہ سے اُن سے چھن گیا تھا۔ (مر 8:31؛ 1-پطر 2:21-24) اور ایسا صرف اُسی صورت میں ممکن ہو سکتا تھا اگر یہوواہ وقتی طور پر یسوع سے اپنا ہاتھ ہٹاتا۔
کیا یسوع مسیح اپنے پیروکاروں کی توجہ اِس بات پر دِلانا چاہتے تھے کہ یہوواہ نے اُنہیں سُولی پر کیوں مرنے دیا؟b یسوع مسیح جانتے تھے کہ اگر وہ سُولی پر مُجرم کی موت مریں گے تو بہت سے لوگ اُنہیں رد کر دیں گے۔ (1-کُر 1:23) لیکن اگر اُن کے پیروکار اِس بات پر دھیان دیں گے کہ یسوع کے مرنے کی اصل وجہ کیا ہے تو وہ اُن کی موت کی اہمیت کو سمجھ پائیں گے۔ (گل 3:13، 14) یوں وہ یسوع مسیح کو اپنا نجات دینے والا خیال کریں گے نہ کہ ایک مُجرم۔
چاہے یسوع مسیح کے زبور 22:1 میں لکھی بات کو کہنے کے پیچھے جو بھی وجہ ہو، وہ یہ جانتے تھے کہ سُولی پر موت سہنے سے وہ یہوواہ کی مرضی بجا لا رہے ہوں گے۔ زبور میں لکھی اُس بات کو کہنے کے تھوڑی دیر بعد اُنہوں نے کہا: ”سب کچھ مکمل ہو گیا ہے!“ (یوح 19:30؛ لُو 22:37) واقعی جب یہوواہ نے وقتی طور پر یسوع سے اپنا ہاتھ ہٹا لیا تو یسوع وہ سب کچھ مکمل کر پائے جس کی وجہ سے وہ زمین پر آئے تھے۔ اِس کے علاوہ وہ اُن سب باتوں کو بھی پورا کر پائے جو ’موسیٰ کی شریعت، نبیوں کے صحیفوں اور زبور میں اُن کے بارے میں لکھی تھیں۔‘—لُو 24:44۔
a اِس شمارے میں مضمون ”یسوع نے سُولی پر جو باتیں کہیں، اُن سے سیکھیں“ میں پیراگراف نمبر 9 اور 10 کو دیکھیں۔
b کبھی کبھار یسوع مسیح ایک بات یا ایک سوال اِس لیے نہیں کرتے تھے تاکہ وہ یہ ظاہر کر سکیں کہ وہ ایک معاملے کے بارے میں کیسے احساسات رکھتے ہیں بلکہ وہ ایسا اِس لیے کرتے تھے تاکہ اُن کے پیروکاروں کو سوچنے کی ترغیب ملے۔—مر 7:24-27؛ یوح 6:1-5؛ ”مینارِنگہبانی،“ 1 اکتوبر 2010ء، صفحہ نمبر 14-15 کو دیکھیں۔