یوحنا
5 پھر جب یہودیوں کی عید آئی تو یسوع یروشلیم گئے۔ 2 یروشلیم میں بھیڑ دروازے کے پاس ایک تالاب ہے جسے عبرانی میں بیتزاتا* کہا جاتا ہے اور جس کے اِردگِرد پانچ برآمدے ہیں۔ 3 اِن برآمدوں میں بہت سے بیمار، اندھے اور لنگڑے لوگ پڑے تھے اور ایسے لوگ بھی جن کے بازوؤں یا ٹانگوں پر فالج ہوا تھا۔* 4 —* 5 وہاں ایک آدمی بھی تھا جو 38 (اڑتیس) سال سے بیمار تھا۔ 6 جب یسوع نے اُس کو وہاں پڑا دیکھا تو اُنہوں نے اُس سے پوچھا: ”کیا آپ تندرست ہونا چاہتے ہیں؟“ کیونکہ اُن کو پتہ تھا کہ وہ آدمی بہت عرصے سے بیمار ہے۔ 7 اُس آدمی نے جواب دیا: ”جناب، میرے پاس کوئی نہیں جو مجھے اُس وقت تالاب میں اُتارے جب پانی ہلتا ہے۔ اِس لیے جب تک مَیں وہاں پہنچتا ہوں، کوئی اَور تالاب میں اُتر جاتا ہے۔“ 8 یسوع نے اُس سے کہا: ”اُٹھیں! اپنی چٹائی اُٹھائیں اور چلیں پھریں۔“ 9 اِس پر وہ آدمی فوراً ٹھیک ہو گیا اور اپنی چٹائی اُٹھا کر چلنے پھرنے لگا۔
یہ واقعہ سبت کے دن ہوا۔ 10 اِس لیے یہودیوں نے اُس آدمی سے کہا: ”آج سبت کا دن ہے اور چٹائی اُٹھانا جائز نہیں!“ 11 لیکن اُس نے کہا: ”جس شخص نے مجھے تندرست کِیا، اُسی نے مجھ سے کہا کہ اپنی چٹائی اُٹھاؤ اور چلو پھرو۔“ 12 اُنہوں نے اُس سے پوچھا: ”وہ کون ہے جس نے تمہیں چٹائی اُٹھانے اور چلنے پھرنے کو کہا؟“ 13 لیکن وہ آدمی اُن کو نہیں بتا سکا کہ کس نے اُس کو ٹھیک کِیا تھا کیونکہ یسوع بِھیڑ میں آگے نکل گئے تھے۔
14 بعد میں یسوع اُس آدمی سے ہیکل* میں ملے اور اُس سے کہا: ”دیکھیں، اب آپ تندرست ہو گئے ہیں۔ آئندہ گُناہ نہ کریں تاکہ آپ کے ساتھ اِس سے زیادہ بُرا نہ ہو۔“ 15 اُس آدمی نے جا کر یہودیوں کو بتایا کہ یسوع نے اُس کو ٹھیک کِیا تھا۔ 16 یہ سُن کر یہودی، یسوع کی مخالفت کرنے لگے کیونکہ اُنہوں نے سبت کے دن یہ کام کِیا تھا۔ 17 لیکن یسوع نے اُن سے کہا: ”میرا باپ اب تک کام کرتا آیا ہے اور مَیں بھی کام کرتا رہوں گا۔“ 18 جب یہودیوں نے یہ سنا تو وہ یسوع کو مار ڈالنے کی اَور بھی کوشش کرنے لگے کیونکہ اُن کے خیال میں یسوع نہ صرف سبت کو توڑ رہے تھے بلکہ خدا کو باپ کہہ کر اپنے آپ کو اُس کے برابر ٹھہرا رہے تھے۔
19 اِس لیے یسوع نے اُن سے کہا: ”مَیں آپ سے بالکل سچ کہتا ہوں کہ بیٹا اپنے اِختیار سے کچھ نہیں کر سکتا بلکہ صرف وہی کام کر سکتا ہے جو وہ باپ کو کرتے دیکھتا ہے کیونکہ جو کام باپ کرتا ہے، وہی کام بیٹا بھی اُسی طرح کرتا ہے جیسے باپ کرتا ہے۔ 20 باپ، بیٹے سے پیار کرتا ہے اور اُس کو وہ سارے کام دِکھاتا ہے جو وہ خود کرتا ہے بلکہ وہ اُس کو اِن سے بھی بڑے کام دِکھائے گا تاکہ آپ حیران ہو جائیں۔ 21 کیونکہ جس طرح باپ مُردوں کو زندہ کرتا ہے اور اُن کو زندگی عطا کرتا ہے اُسی طرح بیٹا بھی جسے چاہے، زندگی عطا کرتا ہے۔ 22 باپ کسی کی عدالت نہیں کرتا بلکہ اُس نے عدالت کرنے کا کام بیٹے کے سپرد کِیا ہے 23 تاکہ سب اُسی طرح بیٹے کی عزت کریں جیسے وہ باپ کی کرتے ہیں۔ جو کوئی بیٹے کی عزت نہیں کرتا، وہ باپ کی بھی عزت نہیں کرتا جس نے اُسے بھیجا ہے۔ 24 مَیں آپ سے بالکل سچ کہتا ہوں کہ جو میری باتیں سنتا ہے اور میرے بھیجنے والے کی باتوں پر یقین کرتا ہے، اُس کو ہمیشہ کی زندگی ملے گی اور اُس کو سزا نہیں سنائی جائے گی بلکہ وہ موت کی گِرفت سے آزاد ہو کر زندہ ہو گیا ہے۔
25 مَیں آپ سے بالکل سچ کہتا ہوں کہ وہ وقت آنے والا ہے بلکہ اب ہے جب مُردے خدا کے بیٹے کی آواز سنیں گے اور جو اُس پر دھیان دیں گے، وہ زندہ ہوں گے۔ 26 کیونکہ جس طرح باپ زندگی عطا کرنے کی قوت رکھتا ہے اُسی طرح اُس نے بیٹے کو بھی زندگی عطا کرنے کی قوت دی ہے۔ 27 اُسے باپ کی طرف سے عدالت کرنے کا اِختیار دیا گیا ہے کیونکہ وہ اِنسان کا بیٹا* ہے۔ 28 اِس بات پر حیران نہ ہوں کیونکہ وہ وقت آئے گا جب سب لوگ جو قبروں* میں ہیں، اُس کی آواز سنیں گے 29 اور نکل آئیں گے؛ جنہوں نے زندہ ہو کر اچھے کام کیے، اُنہیں زندگی ملے گی اور جنہوں نے زندہ ہو کر بُرے کام کیے، اُنہیں سزا ملے گی۔ 30 مَیں اپنے اِختیار سے کوئی کام نہیں کر سکتا۔ جو کچھ باپ مجھ سے کہتا ہے، مَیں اُسی کے مطابق فیصلہ سناتا ہوں اور مَیں اِنصاف سے فیصلہ کرتا ہوں کیونکہ مَیں اپنی مرضی نہیں کرتا بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی پر چلتا ہوں۔
31 اگر صرف مَیں ہی اپنے بارے میں گواہی دیتا تو میری گواہی سچی نہ ہوتی۔ 32 لیکن ایک اَور ہے جو میرے بارے میں گواہی دیتا ہے اور مَیں جانتا ہوں کہ اُس کی گواہی سچی ہے۔ 33 آپ لوگوں نے یوحنا کے پاس آدمی بھیجے اور اُس نے سچائی کے بارے میں گواہی دی۔ 34 مجھے اِنسانوں کی گواہی سے کوئی لینا دینا نہیں مگر مَیں یہ باتیں اِس لیے کہہ رہا ہوں تاکہ آپ نجات پائیں۔ 35 وہ آدمی ایک جلتا ہوا چراغ تھا جس نے روشنی دی اور تھوڑے عرصے کے لیے آپ اُس کی روشنی سے خوش ہونا چاہتے تھے۔ 36 لیکن میرے پاس یوحنا کی گواہی سے بھی بڑی گواہی ہے کیونکہ جو کام میرے باپ نے مجھے سونپے ہیں یعنی جو کام مَیں کر رہا ہوں، وہ گواہی دے رہے ہیں کہ باپ نے مجھے بھیجا ہے۔ 37 اِس کے علاوہ میرا باپ جس نے مجھے بھیجا ہے، اُس نے بھی میرے بارے میں گواہی دی ہے۔ آپ نے اُس کی آواز کبھی نہیں سنی اور اُس کی صورت کبھی نہیں دیکھی 38 اور آپ کے دلوں میں اُس کا کلام نہیں ہے کیونکہ آپ اُس شخص کی باتوں کا یقین نہیں کرتے جسے اُس نے بھیجا ہے۔
39 آپ صحیفوں کا مطالعہ کرتے ہیں کیونکہ آپ کا خیال ہے کہ آپ کو اِن کے ذریعے ہمیشہ کی زندگی ملے گی۔ یہی تو میرے بارے میں گواہی دیتے ہیں۔ 40 لیکن پھر بھی آپ زندگی حاصل کرنے کے لیے میرے پاس نہیں آنا چاہتے۔ 41 مَیں اِنسانوں سے تعریف قبول نہیں کرتا 42 لیکن مَیں اچھی طرح جانتا ہوں کہ آپ کے دلوں میں خدا کے لیے محبت نہیں ہے۔ 43 مَیں اپنے باپ کے نام سے آیا ہوں لیکن آپ مجھے قبول نہیں کر رہے ہیں۔ اگر کوئی اپنے نام سے آتا تو آپ اُسے قبول کر لیتے۔ 44 آپ یقین کر بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ آپ ایک دوسرے سے عزت چاہتے ہیں لیکن اُس عزت کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے جو واحد خدا کی طرف سے ملتی ہے؟ 45 یہ نہ سوچیں کہ باپ کے سامنے مَیں آپ پر اِلزام لگاؤں گا۔ ہاں، ایک ہے جو آپ پر اِلزام لگاتا ہے یعنی موسیٰ جن پر آپ نے آس لگائی ہے۔ 46 دراصل اگر آپ موسیٰ کی باتوں پر یقین کرتے تو آپ میری باتوں پر بھی یقین کرتے کیونکہ اُنہوں نے میرے بارے میں لکھا تھا۔ 47 لیکن اگر آپ اُن باتوں پر یقین نہیں کرتے جو اُنہوں نے لکھی تھیں تو پھر آپ میری باتوں پر کیسے یقین کریں گے؟“