اعمال
9 ساؤل ابھی بھی ہمارے مالک کے شاگردوں کو دھمکاتے پھر رہے تھے اور اُنہیں قتل کرنے کے درپے تھے۔ اِس لیے وہ کاہنِاعظم کے پاس گئے 2 اور اُس سے درخواست کی کہ دمشق کی یہودی جماعتوں* کے لیے حکمنامے جاری کرے تاکہ وہ وہاں جا سکیں اور اُن لوگوں کو گِرفتار کر کے یروشلیم لا سکیں جو مالک کی راہ پر چلتے ہیں، چاہے وہ مرد ہوں یا عورتیں۔
3 سفر کرتے کرتے جب وہ دمشق کے نزدیک پہنچے تو اچانک آسمان سے اُن کے اِردگِرد روشنی چمکی 4 اور وہ زمین پر گِر گئے اور اُنہیں یہ آواز سنائی دی: ”ساؤل، ساؤل، آپ مجھے اذیت کیوں پہنچا رہے ہیں؟“ 5 اُنہوں نے پوچھا: ”جناب، آپ کون ہیں؟“ اُس نے جواب دیا: ”مَیں یسوع ہوں جسے آپ اذیت پہنچا رہے ہیں۔ 6 اب اُٹھیں اور شہر میں جائیں۔ وہاں آپ کو بتایا جائے گا کہ آپ کو کیا کرنا ہے۔“ 7 جو آدمی ساؤل کے ساتھ سفر کر رہے تھے، وہ ہکا بکا کھڑے تھے کیونکہ اُنہیں آواز تو سنائی دے رہی تھی لیکن کوئی دِکھائی نہیں دے رہا تھا۔ 8 پھر ساؤل زمین سے اُٹھے۔ اُن کی آنکھیں کُھلی تھیں مگر اُنہیں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اِس لیے اُن آدمیوں نے اُن کا ہاتھ پکڑا اور اُنہیں دمشق لے گئے۔ 9 ساؤل کو تین دن تک کچھ دِکھائی نہیں دیا اور اِس دوران اُنہوں نے نہ تو کچھ کھایا اور نہ ہی پیا۔
10 دمشق میں ایک شاگرد تھا جس کا نام حننیاہ تھا۔ ہمارے مالک نے ایک رُویا میں حننیاہ سے کہا: ”حننیاہ!“ اُنہوں نے جواب دیا: ”جی مالک۔“ 11 مالک نے اُن سے کہا: ”اُٹھیں اور اُس سڑک پر جائیں جو سیدھی کہلاتی ہے اور وہاں ساؤل کا پوچھیں جو ترسُس سے ہیں اور یہوداہ کے گھر میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ وہ دُعا کر رہے ہیں 12 اور اُنہوں نے رُویا میں دیکھا ہے کہ حننیاہ نام کا ایک آدمی اُن کے پاس آیا ہے اور اُس نے اُن پر ہاتھ رکھے ہیں تاکہ وہ دوبارہ دیکھ سکیں۔“ 13 لیکن حننیاہ نے جواب دیا: ”مالک، مَیں نے بہت سے لوگوں سے اِس آدمی کے بارے میں سنا ہے۔ اِس نے یروشلیم میں آپ کے مُقدسوں کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ 14 اور اب یہ اعلیٰ کاہنوں کی اِجازت سے اُن لوگوں کو گِرفتار کرنے آیا ہے جو آپ کا نام لیتے ہیں۔“ 15 مگر مالک نے اُن سے کہا: ”جائیں، کیونکہ مَیں نے اِس آدمی کو چُنا ہے کہ میرا نام غیریہودیوں اور بادشاہوں اور بنیاِسرائیل تک پہنچائے 16 اور مَیں اُسے دِکھاؤں گا کہ اُسے میرے نام کی خاطر کتنا کچھ سہنا پڑے گا۔“
17 لہٰذا حننیاہ گئے اور اُس گھر میں داخل ہوئے اور اُنہوں نے ساؤل پر ہاتھ رکھے اور کہا: ”ساؤل، میرے بھائی، ہمارے مالک یسوع نے جو سفر کے دوران آپ پر ظاہر ہوئے تھے، مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ دوبارہ دیکھ سکیں اور پاک روح سے معمور ہو جائیں۔“ 18 اور فوراً ہی ساؤل کی آنکھوں سے چھلکے سے گِرے اور اُنہیں دِکھائی دینے لگا۔ پھر وہ اُٹھے اور اُنہوں نے بپتسمہ لیا۔ 19 اِس کے بعد اُنہوں نے کچھ کھانا کھایا اور اُن کی طاقت بحال ہوئی۔
ساؤل کچھ دن دمشق میں شاگردوں کے ساتھ رہے 20 اور فوراً ہی یہودیوں کی عبادتگاہوں میں یہ تعلیم دینے لگے کہ یسوع ہی خدا کے بیٹے ہیں۔ 21 اور جو لوگ بھی اُن کی باتیں سنتے، وہ حیران رہ جاتے اور کہتے: ”کیا یہ وہی آدمی نہیں جس نے یروشلیم میں یسوع کا نام لینے والوں کا جینا مشکل کر دیا تھا؟ کیا وہ یہاں بھی اِسی مقصد سے نہیں آیا کہ اُن لوگوں کو گِرفتار کر کے اعلیٰ کاہنوں کے پاس لے جائے؟“ 22 لیکن ساؤل گواہی دینے کے کام میں مہارت حاصل کرتے رہے۔ وہ دلیلیں دے کر ثابت کرتے کہ یسوع ہی مسیح ہیں اِس لیے دمشق کے یہودی ہکا بکا رہ جاتے۔
23 کچھ عرصے بعد یہودیوں نے ساؤل کو مار ڈالنے کی سازش کی۔ 24 لیکن اُن کو اِس سازش کا پتہ چل گیا۔ یہودی دن رات شہر کے دروازوں پر نظر رکھے ہوئے تھے تاکہ جیسے ہی موقع ملے، ساؤل کو مار ڈالیں۔ 25 اِس لیے اُن کے شاگردوں نے رات کو اُنہیں ایک ٹوکرے میں بٹھایا اور شہر کی دیوار کی ایک کھڑکی سے نیچے اُتار دیا۔
26 جب ساؤل یروشلیم پہنچے تو اُنہوں نے شاگردوں سے ملنے کی بڑی کوشش کی لیکن وہ سب اُن سے ڈرتے تھے کیونکہ اُنہیں اِس بات پر یقین نہیں تھا کہ ساؤل، یسوع کے شاگرد بن گئے ہیں۔ 27 لہٰذا برنباس نے اُن کی مدد کی اور اُنہیں رسولوں کے پاس لے گئے اور تفصیل سے بتایا کہ راستے میں ساؤل نے کیسے ہمارے مالک کو دیکھا اور مالک نے اُن سے بات کی اور ساؤل نے کیسے دمشق میں یسوع کے نام سے بڑی دلیری سے گواہی دی۔ 28 اِس کے بعد ساؤل اُن کے ساتھ ساتھ رہے اور پورے یروشلیم میں آزادی سے گھومتے رہے اور بڑی دلیری سے ہمارے مالک کے نام سے گواہی دیتے رہے۔ 29 وہ یونانی بولنے والے یہودیوں سے بات کرتے اور اُن سے بحث کرتے اِس لیے اُنہوں نے اُن کو مار ڈالنے کی کوشش کی۔ 30 جب بھائیوں کو اِس بات کا علم ہوا تو وہ ساؤل کو قیصریہ لے گئے اور وہاں سے ترسُس بھیج دیا۔
31 پھر سارے یہودیہ اور گلیل اور سامریہ کی کلیسیا* کو کچھ عرصے کے لیے مخالفت سے سکون ملا اور وہ مضبوط ہوتی گئی۔ وہاں کے شاگرد یہوواہ* کا خوف رکھتے ہوئے زندگی گزار رہے تھے اور پاک روح کے ذریعے اُن کا حوصلہ بڑھ رہا تھا اِس لیے اُن کی تعداد میں اِضافہ ہوتا گیا۔
32 اُن دنوں میں پطرس سارے علاقے کا سفر کر رہے تھے اور وہ اُن مُقدسوں کے پاس بھی گئے جو لِدہ میں رہتے تھے۔ 33 وہاں ایک آدمی تھا جس کا نام اینیاس تھا۔ وہ آٹھ سال سے بستر پر پڑا تھا کیونکہ اُسے فالج تھا۔ 34 پطرس نے اُس سے کہا: ”اینیاس، یسوع مسیح آپ کو شفا دے رہے ہیں۔ اُٹھیں اور اپنا بستر ٹھیک کریں۔“ اِس پر وہ فوراً اُٹھ بیٹھا۔ 35 جب لِدہ اور میدانِشارون میں رہنے والے لوگوں نے اِس واقعے کے بارے میں سنا تو وہ ہمارے مالک پر ایمان لے آئے۔
36 اب یافا میں تبیتا نامی ایک شاگردہ تھیں۔ (تبیتا کا ترجمہ ہے: ڈورکس۔*) وہ نیک کام کرنے اور خیرات دینے میں پیش پیش رہتی تھیں۔ 37 لیکن اُن ہی دنوں میں وہ بیمار پڑ گئیں اور فوت ہو گئیں۔ اُن کی لاش کو غسل دیا گیا اور گھر کے اُوپر والے کمرے میں رکھ دیا گیا۔ 38 لِدہ، یافا کے نزدیک ہے۔ اِس لیے جب شاگردوں نے سنا کہ پطرس وہاں ہیں تو اُنہوں نے دو آدمیوں کو اِس اِلتجا کے ساتھ اُن کے پاس بھیجا کہ ”مہربانی سے جلدی ہمارے پاس آئیں۔“ 39 اِس پر پطرس اُٹھے اور اُن آدمیوں کے ساتھ گئے۔ جب وہ یافا پہنچے تو اُنہیں اُوپر والے کمرے میں لے جایا گیا۔ وہاں سب بیوائیں اُن سے ملنے آئیں۔ وہ بہت رو رہی تھیں اور اُنہیں وہ کپڑے اور چوغے دِکھا رہی تھیں جو ڈورکس نے بنائے تھے۔ 40 پطرس نے سب کو باہر جانے کو کہا اور گھٹنے ٹیک کر دُعا کی۔ پھر وہ لاش کی طرف مُڑے اور کہا: ”تبیتا، اُٹھیں!“ اِس پر اُنہوں نے آنکھیں کھولیں اور جب اُنہوں نے پطرس کو دیکھا تو وہ اُٹھ بیٹھیں۔ 41 پطرس نے اُن کا ہاتھ پکڑ کر اُنہیں اُٹھایا۔ پھر اُنہوں نے مُقدسوں اور بیواؤں کو بلایا اور اُنہیں دِکھایا کہ تبیتا زندہ ہیں۔ 42 یہ خبر پورے یافا میں پھیل گئی اور بہت سے لوگ ہمارے مالک پر ایمان لے آئے۔ 43 پطرس کافی دنوں تک یافا میں شمعون کے گھر رہے جن کا پیشہ چمڑا تیار کرنا تھا۔