عظیمترین انسان جو کبھی ہو گزرا ہے
”تو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے۔“ متی ۱۶:۱۶۔
۱، ۲. (ا)کسی انسان کی عظمت کا فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ (ب) تاریخ میں کن انسانوں کو عظیم کہا گیا ہے، اور کیوں؟
آپ کس کو عظیمترین انسان خیال کرتے ہیں جو کبھی ہو گزرا ہے؟ آپ کسی انسان کی عظمت کا اندازہ کسطرح کرتے ہیں؟ اسکی غیرمعمولی عسکری ذہانت سے؟ اسکی برتر ذہنی لیاقتوں سے؟ اسکی جسمانی قوت سے؟
۲ مختلف حکمرانوں کو عظیم خیال کیا گیا ہے، جیسےکہ خورساعظم، سکندراعظم، اور شارلمین، جسے اس کی زندگی کے دوران ہی ”اعظم“ کہا گیا تھا۔ اپنی بارعب موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسطرح کے آدمیوں نے لوگوں پر بڑا اثر چھوڑا، جن پر وہ حکمران تھے۔
۳. (ا)کسی آدمی کو عظمت کو ناپنے کے لئے میزبان کیا ہے؟ (ب) اسں طرح کے میزبان کو استعمال کرتے ہوئے، عظیمترین انسان کون ہے جو کبھی ہو گزرا ہے؟
۳ دلچسپی کی بات ہے کہ تاریخدان ایچ۔ جی۔ ویلز نے کسی انسان کی عظمت کا اندازہ لگانے کیلئے اپنے معیار کا ذکر کیا۔ کوئی ۵۰ سال گزرے اس نے لکھا: ”کسی شخص کی عظمت کیلئے تاریخدانوں کا معیار یہ ہے کہ ”اس نے اپنے پیچھے کس چیز کو پھلنےپھولنے کیلئے چھوڑا ہے؟ کیا اس نے لوگوں کو ایک نئے ولولے کیساتھ ایک نئی سوچ بخشی جو اس کے بعد بھی قائم رہی؟“ اس معیار کی مطابقت میں،“ ویلز نے نتیجہ نکالا کہ ”یسوع پہلے درجے پر ہے۔“ نپولین بوناپارٹ نے بھی تسلیم کیا: ”یسوع مسیح نے اپنی دیدنی جسمانی موجودگی کے بغیر ہی اثر چھوڑا ہے اور اپنی رعایا کے جذبات پر حکم چلایا ہے۔“
۴. (ا)یسوع کے متعلق کونسے اختلافی نظریات موجود ہیں؟ (ب) ایک غیرمسیحی تاریخدان مسیح کو تاریخ میں کیا مقام دیتا ہے؟
۴ پھر بھی بعض نے اعتراض کیا ہے کہ یسوع کوئی تاریخی شخص نہیں بلکہ ایک فرضی شخصیت ہے جسکا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ اور اسکی دوسری انتہا یہ ہے کہ بہتوں نے یہ کہتے ہوئے یسوع کی پرستش کی ہے کہ یسوع کے طور پر خدا زمین پر آیا۔ تاہم، ایک انسان کے طور پر یسوع کی موجودگی کے سلسلے میں اپنے نتائج کو تاریخی شہادت پر استوار رکھتے ہوئے، ویلز نے لکھا: ”یہ دلچسپ اور اہم ہے کہ ایک تاریخدان کو کسی بھی مذہبی تعصب کے بغیر جو بھی ہو، جان لینا چاہیے کہ وہ ناصرت کے غریب استاد کو امتیازی مقام دئے بغیر دیانتداری کیساتھ انسانی ترقی کی تصویرکشی نہیں کر سکتا۔ . . . میری طرح کا ایک تاریخدان جو خود کو ایک مسیحی تک نہیں کہلاتا، اس نہایت ہی اہم انسان کی سیرت اور زندگی کے چوگرد نہایت پرزور تصور کو مرکوز کرتے ہوئے پاتا ہے۔“
کیا یسوع واقعی ہو گزرا ہے؟
۵، ۶. یسوع کی تاریخی حقیقت کے سلسلے میں تاریخدان ایچ۔ جی۔ ویلز اور ول ڈیورانٹ کو کیا کہنا پڑا ہے؟
۵ لیکن اس وقت کیا ہو اگر کسی نے آپکو بتایا ہو کہ یسوع تو حقیقت میں کبھی زندہ ہی نہیں رہا، بلکہ دراصل وہ تو پہلی صدی کے بعض انسانوں کی اختراع، فرضی شخصیت تھا؟ آپ اس الزام کا جواب کیسے دینگے؟ اگرچہ ویلز تسلیم کرتا ہے کہ ”ہم [یسوع] کی بابت اتنا نہیں جانتے جتنا کہ جاننا پسند کرینگے،“ پھر بھی وہ اظہارخیال کرتا ہے: ”اناجیل اربعہ . . . ہمیں ایک بالکل واضح شخصیت کا تصور دینے میں متفق ہیں، وہ حقیقت کا یقین دلاتی ہیں۔ یہ فرض کر لینا کہ وہ کبھی زندہ نہیں رہا، اور اسکی زندگی کی تفصیلات اختراعات ہیں، انجیلی سرگزشتوں کے لازمی عناصر کو حقیقت کے طور پر قبول کر لینے کی بجائے زیادہ مشکل ہے اور تاریخدانوں کے لئے زیادہ مسائل کھڑے کرتا ہے۔“
۶ مشہور تاریخدان ول ڈیورانٹ یہ وضاحت کرتے ہوئے، اسی طرح کی دلیل پیش کرتا ہے: ”صرف چند سادہلوح آدمیوں کا [جو خود کو مسیحی کہلاتے تھے] ایک ہی نسل میں ایک اتنی پر زور اور پرکشش شخصیت، اور اتنے بلند اصولاخلاق اور اتنی نیک خیال انسانی برادری کے تصور، کو ایجاد کر لینا اناجیل میں ریکارڈشدہ کسی بھی معجزے سے کہیں زیادہ ناقابلیقین ہوگا۔“
۷، ۸. یسوع کس حد تک انسانی تاریخ پر اثرانداز ہوا ہے؟
۷ یوں، آپ اسطرح کے شکی آدمی کیساتھ استدلال کر سکتے ہیں: کیا ایک فرضی کردار ایک ایسے شخص نے جو حقیقت میں کبھی زندہ ہی نہ رہا ہو انسانی تاریخ کو اتنا غیرمعمولی حد تک متاثر کیا ہوتا؟ حوالے کی کتاب دی ہسٹورینز ہسٹری آف دی ورلڈ نے مشاہدہ پیش کیا: ”[یسوع] کی سرگرمیوں کا حقیقی نتیجہ، بالکل دنیا کے نقطہءنظر سے بھی، تاریخ کے کسی بھی دوسرے کردار کے افعال سے زیادہ اہم تھا۔ ایک نئے دور کا آغاز، اسکی تاریخ پیدایش سے ہوتا ہے، جسے دنیا کی اہم تہذیبوں نے تسلیم کیا ہے۔“ اسکی بابت سوچیں۔ یہانتک کہ آجکل کے بعض کیلنڈر اس سال پر مبنی ہیں جسکی بابت خیال کیا جاتا ہے کہ یسوع اس سال میں پیدا ہوا تھا۔ ”اس سال سے پہلے کی تواریخ کو .C.B، یا بیفور کرائسٹ (قبل از مسیح) کے طور پر لکھا جاتا ہے،“ دی ورلڈ بک انسائیکلوپیڈیا وضاحت کرتا ہے۔ اس سال کے بعد کی تواریخ کو .D.A، یا اینو ڈومینی ( ہمارے خداوند کے سال میں) کے طور پر لکھا جاتا ہے۔“
۸ اپنی پرزور تعلیمات کے ذریعے اور جس طریقے سے اس نے اپنی زندگی گزاری، ان کی مطابقت میں یسوع نے لوگوں کے انگنت انبوہ کو کوئی دو ہزار سالوں سے پرزور طور پر متاثر کیا ہے۔ جیسے کہ ایک مصنف نے موزوں طور پر اسکا اظہار کیا ہے: ”تمام فوجیں جنہوں نے کبھی کوچ کیا، اور تمام بحری بیڑے جن کو کبھی بنایا گیا، اور تمام قانونساز مجالس کے جتنے اجلاس ہوئے، تمام بادشاہ جنہوں نے کبھی حکمرانی کی، اگر ان سب کو یکجا کر دیا جائے تو بھی انہوں نے زمین پر انسان کی زندگی کو اتنے پرزور طریقے سے متاثر نہیں کیا ہے۔“ تاہم، نقاد کہتے ہیں: ”حقیقت میں جو کچھ بھی ہم جانتے ہیں وہ بائبل ہی میں پایا جاتا ہے۔ اس کے متعلق کوئی بھی معاصرانہ ریکارڈ موجود نہیں۔“ پھربھی، کیا یہ سچ ہے؟
۹، ۱۰. (ا)ابتدائی دنیاوی تاریخ نویس اور مصنف یسوع کی بابت کیا کہتے ہیں؟ (ب) ابتدائی تاریخ نویسوں کی شہادت پر مبنی ایک معتبر انسائیکلوپیڈیا کیا نتیجہ اخذ کرتا ہے؟
۹ اگرچہ یسوع مسیح کی بابت قدیمی دنیاوی تاریخدانوں کی طرف سے حوالہجات ناکافی ہیں، تو بھی ایسے حوالہجات ضرور موجود ہیں۔ پہلی صدی کے ایک مشہور رومی تاریخدان، کرنیلیس ٹیسیٹس نے لکھا کہ رومی شہنشاہ نیرو نے ”روم کے جلنے کا جرم مسیحیوں کے سر تھوپ دیا،“ اور اس کے بعد ٹیسیٹس نے وضاحت کی: ”نام [مسیحی] مسیح سے مشتق ہے، جسے تبریس کی حکومت کے ناظم پنطس پیلاطس نے قتل کر دیا تھا۔“ سوتونیئس اور چھوٹے پلینی نے، اس وقت کے دوسرے رومی مصنفوں نے بھی مسیح کا ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ، پہلی صدی کے ایک یہودی تاریخدان، فلیویس جوزیفس نے اینٹیکویٹیز آف دی جیوز (یہودیوں کے اثریات) میں مسیحی شاگرد یعقوب کی موت کی بابت لکھا ہے۔ جوزیفس نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ یعقوب ”یسوع کا بھائی تھا، جو مسیح کہلاتا تھا۔“
۱۰ لہذا دی نیو انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا نتیجہ اخذ کرتا ہے: ”یہ جداگانہ تفصیلات ثابت کرتی ہیں کہ قدیم وقتوں میں مسیحیت کے مخالفین نے بھی یسوع کی تاریخی حیثیت کی بابت کبھی شک نہیں کیا تھا، جس پر پہلی مرتبہ ۱۸ ویں کے آخر پر، ۱۹ ویں کے دوران، اور ۲۰ ویں صدیوں کے شروع میں ناکافی بنیادوں پر اعتراض کیا گیا تھا۔“
حقیقت میں یسوع کون تھا؟
۱۱. (ا)لازمی طور پر، یسوع کی بابت تاریخی معلومات کا واحد ذریعہ کیا ہے؟ (ب) یسوع کی شناخت کی بابت اس کے اپنے پیروکاروں کے ذہن میں کیا سوال تھا؟
۱۱ اگرچہ، ناگزیر طور پر، آجکل سب کچھ جو یسوع کی بابت معلوم ہے اسے پہلی صدی کے اس کے پیروکاروں نے قلمبند کیا تھا۔ ان کے بیانات کو اناجیل میں محفوظ کیا گیا ہے یعنی بائبل کی وہ کتابیں جنہیں اس کے دو رسولوں، متی اور یوحنا نے، اور اس کے دو شاگردوں، مرقس اور لوقا نے تحریر کیا تھا۔ ان آدمیوں کے بیانات یسوع کی شناخت کے متعلق کیا آشکارا کرتے ہیں؟ وہ حقیقت میں کون تھا؟ یسوع کے پہلی صدی کے ساتھیوں نے اس سوال پر غوروفکر کی تھی۔ جب انہوں نے یسوع کو سمندری آندھی اور طوفان کو ایک ڈانٹ کے ساتھ ساکت کرتے دیکھا، تو وہ نہایت ڈر گئے اور آپس میں کہنے لگے: ”یہ کون ہے؟“ بعد کے ایک موقع پر، یسوع نے اپنے شاگردوں سے پوچھا: ”تم مجھے کیا کہتے ہو؟“ مرقس ۴:۴۱، متی ۱۶:۱۵۔
۱۲. ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ یسوع خدا نہیں ہے؟
۱۲ اگر آپ سے یہ سوال پوچھا جائے تو آپ کیسے جواب دینگے؟ حقیقت میں یسوع کون تھا؟ بلاشبہ، دنیائے مسیحیت کے بہتیرے لوگ کہیں گے کہ انسانی روپ میں وہ قادرمطلق خدا تھا۔ تاہم، یسوع کے ذاتی ساتھیوں رفیقوں نے کبھی یہ یقین نہیں کیا تھا کہ وہ خدا تھا۔ پطرس رسول نے اسے ”زندہ خدا کا بیٹا، مسیح“ کہا تھا“ (متی ۱۶:۱۶) اور آپ جس طرح بھی تحقیق کریں، آپ کبھی یہ نہیں پڑھیں گے کہ یسوع نے خدا ہونے کا دعوی کیا ہو۔ اس کے برعکس، اس نے یہودیوں کو بتایا تھا کہ وہ ”خدا کا بیٹا“ تھا نہ کہ خدا۔ یوحنا ۱۰:۳۶۔
۱۳. یسوع دیگر تمام انسانوں سے کیونکر مختلف تھا؟
۱۳ جب یسوع ایک طوفانی سمندر کے اوپر چلا تھا، تو شاگردوں نے اس حقیقت کو دل میں بٹھا لیا تھا کہ وہ کسی دوسرے انسان کی طرح کا انسان نہیں تھا۔ (یوحنا ۶:۱۸-۲۱) وہ ایک بہت ہی خاص شخص تھا۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ وہ پہلے آسمان میں خدا کیساتھ ایک روحانی شخص کے طور پر رہ چکا تھا، جیہاں، ایک فرشتے کے طور پر، جسکی بائبل میں ایک مقرب فرشتے کے طور پر شناخت کی گئی ہے۔ (۱-تھسلنیکیوں ۴:۱۶، یہوداہ ۹) اس سے پیشتر کہ اس نے دوسری تمام چیزوں کو تخلیق کیا خدا اسے خلق کر چکا تھا۔ (کلسیوں ۱:۱۵) پس، یسوع نے عظیم خالق، یہوواہ خدا، اپنے باپ کیساتھ آسمان میں، مادی کائنات کی تخلیق سے بھی پہلے، انگنت زمانوں تک قریبی رفاقت کا لطف اٹھایا تھا۔ امثال ۸:۲۲، ۲۷-۳۱، واعظ ۱۲:۱۔
۱۴. یسوع ایک انسان کیسے بنا؟
۱۴ پھر، کوئی دو ہزار سال گزرے، خدا نے اپنے بیٹے کی زندگی کو ایک عورت کے رحم میں منتقل کر دیا۔ اس لئے وہ خدا کا انسانی بیٹا بن گیا، جو ایک عورت سے معمول کے طریقے سے پیدا ہوا۔ (گلتیوں ۴:۴) جس دوران میں یسوع اپنی ماں، مریم، کے رحم میں بڑھ رہا تھا، اور بعد میں جب وہ ایک لڑکے کے طور پر پرورش پا رہا تھا تو وہ ان کا دستنگر تھا جنہیں خدا نے اس کے زمینی والدین ہونے کے لئے چنا تھا۔ بالآخر یسوع جوان ہو گیا، اور ظاہری طور پر اس وقت اسے آسمان میں خدا کے ساتھ اس کی گزشتہ یادداشت عطا کر دی گئی تھی۔ یہ اس وقت ہوا، جب اس کے بپتسمے کے وقت، ”اس کے لئے آسمان کھل گئے تھے“۔ متی ۳:۱۶، یوحنا ۸:۲۳، ۱۷:۵۔
۱۵. ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ اس زمین پر اپنی زندگی کے دوران یسوع مکمل انسان تھا؟
۱۵ واقعی، یسوع ایک بیمثال شخص تھا۔ تاہم، وہ آدم کے برابر کا انسان تھا، جسے خدا نے شروع میں خلق کیا اور اسے باغ عدن میں رکھا۔ پولس رسول نے وضاحت کی: ”پہلا آدمی یعنی آدم زندہ نفس بنا۔ پچھلا آدم زندگی بخشنے والی روح بنا۔“ یسوع کو ”پچھلا آدم“ کہا گیا ہے کیونکہ ، ابتدائی آدم کی طرح، یسوع ایک کامل انسان تھا۔ لیکن یسوع کے مرنے کے بعد، اسے زندہ کر دیا گیا، اور وہ بطور ایک روحانی شخصیت کے دوبارہ اپنے آسمانی باپ کے پاس چلا گیا۔ ۱-کرنتھیوں ۱۵:۴۵۔
خدا کی بابت سیکھنے کا بہترین طریقہ
۱۶. (ا)یسوع کے ساتھ رفاقت کو کس چیز نے ایسا شرف بنا دیا؟ (ب) یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ یسوع کو دیکھنا بالکل ایسے ہی تھا جیسے خدا کو دیکھنا؟
۱۶ ایک لمحے کے لئے اس شاندار استحقاق کی بابت سوچیں جس سے بعض نے یسوع کے قریبی رفیقوں کے طور پر لطف اٹھایا تھا جبکہ وہ اس زمین پر تھا! اس کا تصور کریں کہ اس کیساتھ گفتگو کرنا، اس کی سننا، اسے دیکھنا، اور یہاں تک کہ اس کے ساتھ کام کرنا جس نے کہ شاید کروڑوں سال آسمان میں یہوواہ خدا کے ساتھ ایک قریبی ساتھی کے طور پر گزارے تھے! ایک وفادار بیٹے کے طور پر، یسوع نے ہر کام میں جو اس نے کیا اپنے آسمانی باپ کی نقل کی۔ درحقیقت، یسوع نے اس حد تک مکمل طور پر اپنے باپ کی نقل کی کہ وہ اپنے سولی دئے جانے سے کچھ عرصہ پہلے اپنے رسولوں کو یہ بتا سکتا تھا: ”جس نے مجھے دیکھا اس نے باپ کو دیکھا۔“ (یوحنا ۱۴:۹، ۱۰) جیہاں، ہر حالت میں جس کا اس نے اس زمین پر سامنا کیا تھا، یسوع نے وہی کچھ کیا جو اس کے باپ، قادرمطلق خدا، نے کیا ہوتا اگر وہ یہاں ہوتا۔ لہذا، جب ہم یسوع کی زندگی اور اس کی خدمتگزاری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم درحقیقت، یہ سیکھ رہے ہوتے ہیں کہ خدا کس قسم کی شخصیت ہے۔
۱۷. واچٹاور سیریل ”یسوع کی زندگی اور اس کی خدمتگزاری“ سے کونسا اچھا مقصد انجام پایا؟
۱۷ اس لئے، یہ سیریل ”یسوع کی زندگی اور اس کی خدمتگزاری،“ جو کہ اپریل ۱۹۸۵ سے لیکر جون ۱۹۹۱ کے دی واچٹاور شماروں میں سلسلہ وار شائع ہوا، اس نے نہ صرف یسوع کی عمدہ تصویرکشی کی بلکہ اس کے آسمانی باپ، یہوواہ خدا، کی بابت بھی بہت کچھ سکھایا۔ اس کے پہلے دو حصوں کے بعد، ایک پائنیر خادم نے اپنی قدردانی کے اظہار میں واچٹاور سوسائٹی کو لکھتے ہوئے یہ کہا: ”باپ کے قریب جانے کا اس سے بہتر اور کیا طریقہ ہو سکتا ہے کہ بیٹے کو بہتر طور پر جانا جائے!“ یہ کسقدر سچ ہے! لوگوں کیلئے باپ کی گہری فکرمندی اور فراخدلی بیٹے کی زندگی سے منعکس ہوتی ہیں۔
۱۸. بادشاہتی پیغام کا موجد کون ہے، اور کیسے یسوع نے اس کو تسلیم کیا؟
۱۸ باپ کے لئے یسوع کی محبت، جو کہ باپ کی مرضی کو مکمل تابعداری کیساتھ پورا کرنے سے عیاں تھی، بلاشبہ دلچسپ مشاہدہ ہے۔ ”میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتا،“ یسوع نے ان یہودیوں کو بتایا جو اس کو مارنے کے خواہاں تھے، ”بلکہ جس طرح باپ نے مجھے سکھایا اسی طرح یہ باتیں کہتا ہوں۔“ (یوحنا ۸:۲۸) اسلئے جس بادشاہتی پیغام کی منادی یسوع نے کی تھی اس کا موجد وہ نہیں تھا۔ یہوواہ خدا تھا! اور یسوع نے وقتاً فوقتاً اسکی نیکنامی اپنے باپ کو دی۔ ”میں نے کچھ اپنی طرف سے نہیں کہا،“ اس نے بیان کیا، ”بلکہ باپ جس نے مجھے بھیجا اسی نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ کیا کہوں اور کیا بولوں۔ . . . پس جو کچھ میں کہتا ہوں جس طرح باپ نے مجھ سے فرمایا ہے اسی طرح کہتا ہوں۔“ یوحنا ۱۲:۴۹، ۵۰۔
۱۹. (ا)ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ یسوع نے یہوواہ کی طرح سے ہی سکھایا؟ (ب) کیوں یسوع ایک ایسا عظیمترین انسان تھا جو کبھی ہو گزرا ہے؟
۱۹ تاہم، جو کچھ باپ نے اسے بتایا تھا یسوع نے محض اسکی بابت ہی بتایا یا سکھایا نہیں۔ بلکہ اس نے بہت زیادہ کیا۔ اس نے اسے اس طریقے سے بتایا یا سکھایا جسطرح کہ اسکے باپ نے بتایا یا سکھایا ہوتا۔ علاوہازیں، اپنی تمام کارگزاریوں اور تعلقات میں، اس نے اسی طرح سے عمل اور سلوک کیا جسطرح کہ باپ نے اسی طرح کے حالات کے تحت عمل اور سلوک کیا ہوتا۔ ”بیٹا آپ سے کچھ نہیں کر سکتا،“ یسوع نے وضاحت کی، ”سوا اسکے جو باپ کو کرتے دیکھتا ہے۔ کیونکہ جن کاموں کو وہ کرتا ہے انہیں بیٹا بھی اسی طرح کرتا ہے۔“ (یوحنا ۵:۱۹) ہر لحاظ سے یسوع اپنے باپ، یہوواہ خدا کا کامل عکس تھا۔ اسلئے اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ یسوع عظیمترین انسان تھا جو کبھی ہو گزرا ہے! یقینی طور پر، پھر، یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم اس نہایت اہم انسان پر گہری توجہ کیساتھ غور کریں!
خدا کی محبت یسوع میں دکھائی دی
۲۰. یوحنا رسول کیونکر یہ جان سکتا تھا کہ ”خدا محبت ہے“؟
۲۰ یسوع کی زندگی اور خدمتگزاری کا گہرا، محتاط مطالعہ کرنے سے ہم خاص طور پر کیا سیکھتے ہیں؟ یوحنا رسول نے کیا خوب سمجھا تھا کہ ”خدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا۔“ (یوحنا ۱:۱۸) پھر بھی یوحنا نے ۱-یوحنا ۴:۸ میں کامل یقین کیساتھ لکھا: ”خدا محبت ہے۔“ یوحنا یہ کہہ سکتا تھا کیونکہ اس نے یسوع میں جو کچھ دیکھا تھا اس سے اس نے جان لیا تھا۔
۲۱. یسوع کے سلسلے میں کس چیز نے اسے ایک ایسا عظیمترین انسان بنا دیا جو کبھی ہو گزرا ہے؟
۲۱ باپ کی طرح، یسوع ہمدرد، مہربان، فروتن، اور قابلرسائی تھا۔ کمزور اور ستمرسیدہ اس سے تسلی پاتے تھے، سب طرح کے لوگ مرد، عورتیں، بچے، دولتمند، غریب، زورآور، اور بڑےبڑے گنہگار بھی۔ بیشک اپنے باپ کی نقل میں، خاص طور پر یہ یسوع کی بینظیر محبت تھی، جس نے اسے عظیمترین انسان بنا دیا جو کبھی ہو گزرا ہے۔ نپولین بوناپارٹ نے بھی یہ بیان کرتے ہوئے کہا: ”سکندر، قیصر، شارلیمین، اور میں نے سلطنتوں کی بنیادیں ڈالیں، لیکن ہم نے اپنی غیرمعمولی ذہانت کی تخلیقات کی بنیاد کس پر ڈالی؟ قوت پر۔ صرف یسوع مسیح نے اپنی بادشاہت کی بنیاد محبت پر ڈالی، اور آج تک لاکھوں انسان اسں کیلئے مر مٹینگے۔“
۲۲. یسوع کی تعلیم کی بابت انقلابی بات کیا تھی؟
۲۲ یسوع کی تعلیمات انقلابی تھیں۔ ”شریر کا مقابلہ نہ کرنا،“ یسوع نے تلقین کی، ”بلکہ جو کوئی تیرے دہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اسکی طرف پھیر دے۔“ ”اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کیلئے دعا کرو۔“ ”جو کچھ تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہی تم بھی انکے ساتھ کرو۔“ (متی ۵:۳۹، ۴۴، ۷:۱۲) اگر ہرکوئی ان بہترین تعلیمات کا اطلاق کرے تو دنیا کتنی مختلف ہوگی!
۲۳. یسوع نے دلوں کو چھونے اور لوگوں کو بھلائی کرنے کی تحریک دینے کے لئے کیا کیا؟
۲۳ یسوع کی مثالیں، یا تمثیلیں دلوں پر اثرانداز ہوتی تھیں، لوگوں کو نیکی کرنے کی اور بدی سے بچنے کی ترغیب دیتی تھیں۔ آپ شاید اسکی حقیر سامری کی خوب مشہور کہانی کو یاد کریں جس نے کسی دوسری قوم کے ایک زخمی آدمی کی مدد کی تھی جبکہ اس آدمی کی اپنی قوم کے دیندار آدمیوں نے ایسا نہیں کیا تھا۔ یا ایک رحمدل، معاف کر دینے والے باپ اور اسکے مسرف بیٹے کی کہانی۔ اور فکرمندی دکھانے والے بادشاہ کی بابت کیا ہے جس نے ایک نوکر کے ۶۰ ملئین دینار کے قرض کو معاف کر دیا، جبکہ وہی نوکر واپس گیا اور اپنے ہمخدمتوں میں سے ایک نوکر کو قیدخانہ میں ڈال دیا جو صرف ۱۰۰ دینار کا قرض ادا کرنے کے قابل نہیں تھا؟ سادہ تمثیلوں کے ساتھ یسوع نے خودغرضی اور حرص کے کاموں کو گھناؤنا اور محبت اور رحم کے کاموں کو پرکشش بنا دیا! متی ۱۸:۲۳-۳۵، لوقا ۱۰:۳۰-۳۷، ۱۵:۱۱-۳۲۔
۲۴. ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ بلاشبہ یسوع ایک ایسا عظیمترین انسان تھا جو کبھی ہو گزرا ہے؟
۲۴ تاہم، جس چیز نے لوگوں کو یسوع کی مائل اور نیکی کرنے کیلئے انہیں راغب کیا وہ جو کچھ اس نے سکھایا اسکے عین مطابق اسکی اپنی زندگی تھی۔ جس چیز کی اس نے منادی کی اس پر اس نے خوب عمل کیا۔ اس نے صبر کیساتھ دوسروں کی خامیوں کو برداشت کیا۔ جب اسکے شاگرد اس بات پر الجھ پڑے تھے کہ بڑا کون تھا، تو اس نے انہیں سختی کیساتھ ڈانٹنے کی بجائے مہربانی کیساتھ ان کی درستی کی۔ اس نے فروتنی کیساتھ ان کی ضرورتوں کو پورا کیا، یہاں تک کہ ان کے پاؤں بھی دھوئے۔ (مرقس ۹:۳۰-۳۷، ۱۰:۳۵-۴۵، لوقا ۲۲:۲۴-۲۷، یوحنا ۱۳:۵) آخر میں اس نے رضامندی سے ایک اذیتناک موت کی برداشت کی، نہ صرف ان ہی کی خاطر، بلکہ تمام نسلانسانی کی خاطر! بلاشبہ یسوع عظیمترین انسان تھا جو کبھی ہو گزرا ہے۔ (۸ ۲/۱۵ w۹۲)
آپ کیسے جواب دینگے؟
▫ اسکا کیا ثبوت ہے کہ تاریخ میں یسوع ایک حقیقی شخص تھا؟
▫ ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ یسوع ایک انسان تھا، تاہم وہ دوسرے تمام انسانوں سے کیسے مختلف تھا؟
▫ خدا کی بابت جاننے کیلئے یسوع کی زندگی کا مطالعہ کرنا کیوں بہترین طریقہ ہے؟
▫ یسوع کی بابت مطالعہ کرنے سے ہم خدا کی محبت کے متعلق کیا سیکھ سکتے ہیں؟
[تصویر]
یسوع کے شاگرد حیرانی کے عالم میں تھے: ”حقیقت میں یہ کون ہے؟“