”آپکی قوتِاستدلال کیساتھ پاک خدمت“
”اپنے بدن زندہ، مُقدس، خدا کے حضور قابلِقبول قربانی کے لئے پیش کریں، یہی آپکی قوتِاستدلال کیساتھ پاک خدمت ہے۔“—رومیوں ۱۲:۱، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔
۱، ۲. بائبل اصولوں کو عائد کرنا سیکھنا نئی زبان میں مہارت حاصل کرنے کی مانند کس طرح ہے؟
کیا آپ نے کبھی نئی زبان سیکھنے کی کوشش کی ہے؟ اگر ایسا ہے تو بِلاشُبہ آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ یہ مشکل کام ہے۔ بہرحال، محض نئے الفاظ سیکھنے سے زیادہ کچھ شامل ہے۔ زبان کا ماہرانہ استعمال اس کی گرامر میں بھی مہارت رکھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ آپ کو سمجھنا پڑے گا کہ لفظوں کا ایک دوسرے سے تعلق کیسے ہے اور کیسے وہ مل کر مکمل خیالات کو تشکیل دیتے ہیں۔
۲ خدا کے کلام کی بابت ہمارا علم حاصل کرنا بھی ایسا ہی ہے۔ منتخب صحیفائی آیات کو سیکھ لینے سے زیادہ کچھ شامل ہے۔ گویا ہمیں بائبل کی گرامر بھی سیکھنا لازم ہے۔ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صحائف کس طرح ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ کس طرح ان اصولوں کا کام دیتے ہیں جن کا اطلاق روزمرّہ زندگی میں کیا جا سکتا ہے۔ یوں ہم ”پوری طرح لائق، ہر نیک کام کیلئے مکمل طور پر لیس“ ہو سکتے ہیں۔—۲-تیمتھیس ۳:۱۷، اینڈبلیو۔
۳. خدا کی خدمت کے متعلق، ۳۳ س.ع. میں کونسی تبدیلی رونما ہوئی؟
۳ موسوی شریعتی ضابطے کے بندوبست کے تحت، اچھی طرح واضح اصولوں کیساتھ وابستہ رہنے سے بڑی حد تک وفاداری دکھائی جا سکتی تھی۔ تاہم، ۳۳ س.ع. میں یہوؔواہ نے شریعت کو منسوخ کر دیا، عملاً ”صلیب پر کیلوں سے جڑ کر“ جس پر اس کے بیٹے کو مار دیا گیا تھا۔ (کلسیوں ۲:۱۳، ۱۴) اس لئے، خدا کے لوگوں کو گزراننے کے لئے قربانیوں کی اور پیروی کرنے کے لئے اصولوں کی لمبی فہرست نہیں دی گئی تھی۔ اس کے برعکس، انہیں کہا گیا تھا: ”اپنے بدن زندہ، مُقدس، خدا کے حضور قابلِقبول قربانی کے لئے پیش کریں، یہی آپکی قوتِاستدلال کیساتھ پاک خدمت ہے۔“ (رومیوں ۱۲:۱، اینڈبلیو) جیہاں، مسیحیوں کو خدا کی خدمت میں اپنے سارے دل، جان، عقل، اور طاقت سمیت خود کو دے ڈالنا تھا۔ (مرقس ۱۲:۳۰؛ مقابلہ کریں زبور ۱۱۰:۳۔) لیکن ”آپکی قوتِاستدلال کیساتھ پاک خدمت“ پیش کرنے کا کیا مطلب ہے؟
۴، ۵. اپنی قوتِاستدلال کیساتھ یہوؔواہ کی خدمت کرنے میں کیا شامل ہے؟
۴ جُزوِجملہ ”قوتِاستدلال“ کا ترجمہ یونانی لفظ لوگیکوس سے کیا گیا ہے جس کا مطلب ”ذیعقل“ یا ”ذیفہم“ ہے۔ خدا کے خادموں سے تقاضا کیا گیا ہے کہ بائبل سے تربیتیافتہ اپنے ضمیر کو استعمال کریں۔ پہلے سے قائمکردہ بیشمار اصولوں پر فیصلوں کی بنیاد رکھنے کی بجائے، مسیحیوں کو بائبل اصولوں کا احتیاط سے اندازہ لگانا ہے۔ انہیں بائبل کی ”گرامر“ کو یا اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کے مختلف اصول کیسے ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یوں، وہ اپنی قوتِاستدلال کے ساتھ متوازن فیصلے کر سکتے ہیں۔
۵ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مسیحی کوئی قانون نہیں رکھتے؟ یقیناً نہیں۔ مسیحی یونانی صحائف واضح طور پر بُتپرستی، جنسی بداخلاقی، خون کرنے، جھوٹ بولنے، ارواحپرستی، خون کے ناجائز استعمال، اور دیگر مختلف گناہوں سے منع کرتے ہیں۔ (اعمال ۱۵:۲۸، ۲۹؛ ۱-کرنتھیوں ۶:۹، ۱۰؛ مکاشفہ ۲۱:۸) تاہم، بڑی حد تک جس کا تقاضا اسرائیلیوں سے کیا گیا تھا، اسکی نسبت ہمیں اپنی قوتِاستدلال کو بائبل اصول سیکھنے اور ان کا اطلاق کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔ ایک نئی زبان سمجھنے کی طرح، یہ وقت اور کوشش کا تقاضا کرتا ہے۔ ہماری قوتِاستدلال کی نشوونما کس طرح ہو سکتی ہے؟
اپنی قوتِاستدلال کی نشوونما کرنا
۶. بائبل کا مطالعہ کرنے میں کیا چیز شامل ہے؟
۶ سب سے پہلے تو ہمیں بائبل کے سرگرم طالبعلم ہونا چاہئے۔ خدا کا الہامی کلام ”تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہمند“ ہے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۶) ہمیں ہمیشہ توقع نہیں کرنی چاہئے کہ کسی مسئلے کا جواب بائبل کی کسی ایک آیت میں دیا گیا ہوگا۔ اس کے برعکس، شاید ہمیں ان متعدد صحائف پر استدلال کرنا پڑے جو ایک خاص صورتحال یا مسئلے پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ہمیں معاملے پر خدا کی سوچ کے لئے مستعد تحقیق کرنے کی ضرورت ہوگی۔ (امثال ۲:۳-۵) ہمیں فہم کی بھی ضرورت ہے تاکہ ”فہیم آدمی دُرست مشورت تک پہنچے۔“ (امثال ۱:۵) ایک صاحبِفہم شخص ایک معاملے کے انفرادی عناصر علیٰحدہ کر سکتا اور پھر ایک دوسرے کے ساتھ ان کے تعلق کو سمجھ سکتا ہے۔ جیسے کہ پزل کے ساتھ ہے وہ ٹکڑوں کو یکجا کرتا ہے تاکہ ساری تصویر دیکھ سکے۔
۷. تنبیہ کے سلسلے میں والدین کس طرح بائبل اصولوں پر استدلال کر سکتے ہیں؟
۷ مثال کے طور پر، والدین ہونے کے معاملے کو لے لیں۔ امثال ۱۳:۲۴ کہتی ہے کہ وہ باپ جو اپنے بیٹے سے محبت کرتا ہے ”اسکو تنبیہ کرتا ہے۔“ صرف اسی پر غور کرنے سے، سخت، بےقابو سزا کی توجیہ کرنے کے لئے اس صحیفے کا غلط اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ تاہم کلسیوں ۳:۲۱ متوازن کرنے والی فہمائش مہیا کرتی ہے: ”اے اولاد والو! اپنے فرزندوں کو دق نہ کرو تاکہ وہ بیدل نہ ہو جائیں۔“ وہ والدین جو اپنی قوتِاستدلال کو استعمال کرتے اور ان اصولوں میں ہمآہنگی لاتے ہیں وہ ایسی تنبیہ نہیں کریں گے جسے ”بےلگام“ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کیساتھ گرمجوشی، سمجھداری، اور وقار سے پیش آئیں گے۔ (افسیوں ۶:۴) یوں، والدین ہونے یا بائبل اصول پر مشتمل کسی بھی دوسرے معاملے میں، ہم تمام متعلقہ عناصر کو تولنے سے اپنی قوتِاستدلال کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اس طرح، ہم بائبل اصولوں کی ”گرامر“ کو سمجھ سکتے ہیں کہ خدا کا کیا مقصد تھا اور کس طرح اسے سرانجام دیا جانا تھا۔
۸. جب تفریح کی بات آتی ہے تو ہم کس طرح بےلوچ، اعتقادی نقاطِنظر سے گریز کر سکتے ہیں؟
۸ دوسرا طریقہ جس سے ہم اپنی قوتِاستدلال کو پیدا کر سکتے ہیں وہ سخت، اعتقادی نظریات سے گریز کرنا ہے۔ ایک بےلوچ نقطۂنظر ہماری قوتِاستدلال کی نشوونما میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ تفریح کے معاملے پر غور کریں۔ بائبل کہتی ہے: ”ساری دُنیا اس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔“ (۱-یوحنا ۵:۱۹) کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ دُنیا کی بنائی گئی ہر کتاب، فلم، یا ٹیلیوژن پروگرام خراب اور شیطانی ہے؟ ایسا نظریہ بمشکل ہی معقول ہوگا۔ بیشک، بعض ٹیلیوژن، فلموں، یا دُنیاوی لٹریچر سے مکمل طور پر باز رہنے کا انتخاب کریں۔ یہ ان کا اپنا حق ہے اور اس کے لئے ان پر نکتہچینی نہیں کی جانی چاہئے۔ لیکن نہ ہی انہیں دوسروں پر دباؤ ڈالنا چاہئے کہ ایسا ہی سخت مؤقف اختیار کریں۔ سوسائٹی نے بائبل اصول پیش کرنے والے مضامین شائع کئے ہیں جنہیں ہمیں اپنے سستانے یا تفریح میں دانشمندی سے انتخابپسند ہونے کے قابل بنانا چاہئے۔ ان اصولوں سے ہٹنا اور خود کو اس بداخلاق سوچ، انتہائی تشدد یا ارواحپرستی کے خطرے میں ڈالنا جسے اس دنیا کی تفریح میں ازحد پیش کیا جاتا ہے نہایت ہی غیردانشمندانہ ہے۔ واقعی تفریح کا دانشمندانہ انتخاب تقاضا کرتا ہے کہ ہمیں اپنی قوتِاستدلال کو بائبل کا اطلاق کرنے میں استعمال کرنا چاہئے تاکہ خدا اور آدمیوں کے سامنے صاف ضمیر رکھ سکیں۔—۱-کرنتھیوں ۱۰:۳۱-۳۳۔
۹. ”ہر طرح کی تمیز“ سے کیا مُراد ہے؟
۹ آجکل کی زیادہتر تفریح مسیحیوں کیلئے بالکل ہی نامناسب ہے۔a اس لئے، ہمیں اپنے دلوں کی تربیت کرنا لازم ہے کہ ”بدی سے نفرت“ کریں تاکہ ہم بعض پہلی صدی والوں کی مانند نہ بن جائیں جو ”سُن ہو“ گئے تھے۔ (زبور ۹۷:۱۰؛ افسیوں ۴:۱۷-۱۹) ایسے معاملات پر استدلال کرنے کیلئے، ہمیں ”علم اور ہر طرح کی تمیز“ کی ضرورت ہے۔ (فلپیوں ۱:۹) جس یونانی لفظ کا ترجمہ یہاں ”تمیز“ کیا گیا ہے وہ ”حساس اخلاقی ادراک“ کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ لفظ حقیقی انسانی حواس کا حوالہ دیتا ہے، جیسے کہ بصارت۔ جب تفریح کی بات آتی ہے یا اور کوئی ایسا معاملہ جو ذاتی فیصلے کا تقاضا کرتا ہے تو ہماری اخلاقی حس کو ایک جگہ پر مرکوز ہونا چاہئے تاکہ ہم نہ صرف اچھی طرح بیان کئے جانے والے سیاہوسفید مسائل کو سمجھ سکیں بلکہ نیمباز مسائل کو بھی۔ اسی وقت، ہمیں غیرمعقول حد تک بائبل اصولوں کا اطلاق کرنے اور یہ اصرار کرنے سے گریز کرنا چاہئے کہ ہمارے تمام بھائی بھی ایسا ہی کریں۔—فلپیوں ۴:۵۔
۱۰. زبور ۱۵ میں جس طرح سے یہوؔواہ کی شخصیت کو منعکس کیا گیا ہے ہم اُسے کیسے سمجھ سکتے ہیں؟
۱۰ اپنی قوتِاستدلال کو پیدا کرنے کا ایک تیسرا طریقہ یہوؔواہ کی سوچ کے مفہوم سے آگاہ ہونا اور اسے اپنے دلوں میں گہرائی تک جاگزین کرنا ہے۔ اپنے کلام میں، یہوؔواہ اپنی شخصیت اور معیاروں کو آشکارا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، زبور ۱۵ میں، ہم اس قِسم کے ایک شخص کی بابت پڑھتے ہیں جسے یہوؔواہ اپنے خیمہ میں مہمان بننے کی دعوت دیتا ہے۔ ایسا شخص راستبازی کو عمل میں لاتا، اپنے دل سے سچ بولتا، اپنے وعدوں میں وفادار ہے، اور دوسروں سے خودغرضانہ فائدہ نہیں اُٹھاتا ہے۔ اس زبور کو پڑھتے وقت خود سے پوچھیں، ’کیا یہ خوبیاں مجھے بیان کرتی ہیں؟ کیا یہوؔواہ مجھے اپنے خیمہ میں مہمان بننے کے لئے دعوت دے گا؟‘ جب ہم یہوؔواہ کے طریقوں اور سوچ سے ہمآہنگ ہوتے ہیں تو ہمارے حواس مستحکم ہو جاتے ہیں۔—امثال ۳:۵، ۶؛ عبرانیوں ۵:۱۴۔
۱۱. فریسی کس طرح ”انصاف اور خدا کی محبت سے غافل رہ“ گئے تھے؟
۱۱ اس خاص حلقے میں فریسی بُری طرح ناکام ہو گئے۔ فریسی شریعت کے تکنیکی ڈھانچے کو جانتے تھے لیکن اس کی ”گرامر“ کو نہ سمجھ سکے۔ وہ شریعت کی اَنگنت تفصیلات کو دہرا سکتے تھے، لیکن وہ ان کی پُشت پر شخصیت کو سمجھنے میں قاصر رہے۔ یسوؔع نے انہیں بتایا: ”تم . . . پودینے اور سداب اور ہر ایک ترکاری پر دہیکی دیتے ہو اور انصاف اور خدا کی محبت سے غافل رہتے ہو۔“ (لوقا ۱۱:۴۲) اپنے کرخت ذہنوں اور سخت دلوں کیساتھ، فریسی اپنی قوتِاستدلال کو استعمال کرنے میں ناکام ہوگئے۔ انکا متضاد استدلال اس وقت ظاہر ہو گیا جب انہوں نے یسوؔع کے شاگردوں پر سبت پر گندم کی بالیں توڑنے اور دانے نکال کر کھانے پر نکتہچینی کی؛ تاہم، بعد میں اسی دن، انہوں نے یسوؔع کے قتل کی سازش کرتے وقت ضمیر کی ہلکی سی بھی خلِش محسوس نہ کی۔—متی ۱۲:۱، ۲، ۱۴۔
۱۲. ہم کس طرح یہوؔواہ کیساتھ بطور ایک شخص کے اور زیادہ مطابقت پیدا کر سکتے ہیں؟
۱۲ ہم فریسیوں سے مختلف ہونا چاہتے ہیں۔ خدا کے کلام کے ہمارے علم کو ہماری مدد کرنی چاہئے کہ بطور ایک شخص کے یہوؔواہ کیساتھ اور زیادہ ہمآہنگی پیدا کریں۔ ہم یہ کس طرح کر سکتے ہیں؟ بائبل یا بائبل پر مبنی لٹریچر کے کسی حصے کو پڑھنے کے بعد، بعض کی اس طرح کے سوالوں پر غور کرنے سے مدد ہوئی ہے، ’یہ معلومات مجھے یہوؔواہ اور اس کی خوبیوں کی بابت کیا سکھاتی ہے؟ مَیں کس طرح دوسروں کیساتھ اپنے تعلقات میں یہوؔواہ کی خوبیوں کو ظاہر کر سکتا ہوں؟‘ ایسے سوالوں پر غوروخوض کرنا ہماری قوتِاستدلال کو بڑھاتا ہے اور ہمیں اس لائق کرتا ہے کہ ”خدا کی مانند بنیں۔“—افسیوں ۵:۱۔
خدا اور مسیح کے غلام، نہ کہ آدمیوں کے
۱۳. فریسیوں نے کس طرح اخلاقی آمروں کی مانند عمل کیا؟
۱۳ بزرگوں کو انہیں اپنی قوتِاستدلال استعمال کرنے کی اجازت دینی چاہئے جو ان کی زیرِنگرانی ہیں۔ کلیسیا کے افراد آدمیوں کے غلام نہیں ہیں۔ ”اب تک اگر آدمیوں کو خوش کرتا،“ پولسؔ نے لکھا، ”تو مسیح کا بندہ نہ ہوتا۔“ (گلتیوں ۱:۱۰؛ کلسیوں ۳:۲۳، ۲۴) اس کے برعکس، فریسی یہ چاہتے تھے کہ لوگ یہ ایمان رکھیں کہ خدا کی نسبت آدمیوں کی خوشنودی حاصل کرنا زیادہ اہم ہے۔ (متی ۲۳:۲-۷؛ یوحنا ۱۲:۴۲، ۴۳) فریسیوں نے خود کو ایسے اخلاقی آمر بننے کے لئے مُتعیّن کر لیا جنہوں نے اپنے قوانین بنا لئے ہوں اور پھر جس حد تک دوسرے لوگ ان قوانین پر پورے اُترے اُسی سے ان کے متعلق رائے قائم کی۔ جن لوگوں نے فریسیوں کی پیروی کی وہ بائبل سے تربیتیافتہ اپنے ضمیر کا استعمال کرنے میں کمزور تھے، عملاً وہ آدمیوں کے غلام بن رہے تھے۔
۱۴، ۱۵. (۱) بزرگ کس طرح خود کو گلّہ کیساتھ ساتھی کارکن ظاہر کر سکتے ہیں؟ (ب) بزرگوں کو ضمیر کی بابت معاملات کو کس طرح نپٹانا چاہئے؟
۱۴ آجکل مسیحی بزرگ جانتے ہیں کہ گلّہ اصولی طور پر ان کے حضور جوابدہ نہیں ہے۔ ہر مسیحی مرد یا عورت کو اپنا بوجھ خود اُٹھانا ہوگا۔ (رومیوں ۱۴:۴؛ ۲-کرنتھیوں ۱:۲۴؛ گلتیوں ۶:۵) یہی مناسب بات ہے۔ واقعی، اگر گلّہ کے ارکان کو محض زیرِنگرانی ہونے کی وجہ سے تابعداری کرتے ہوئے آدمیوں کے غلام ہونا ہے تو اسوقت وہ کیا کریں گے جب وہ آدمی موجود نہیں ہونگے؟ پولسؔ کے پاس فلپیوں پر خوش ہونے کی وجہ تھی: ”جس طرح تم ہمیشہ سے فرمانبرداری کرتے آئے ہو اسی طرح اب بھی نہ صرف میری حاضری میں بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ میری غیرحاضری میں ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کا کام کئے جاؤ۔“ وہ واقعی مسیح کے غلام تھے، نہ کہ پولسؔ کے۔—فلپیوں ۲:۱۲۔
۱۵ لہٰذا، ضمیر کے معاملات میں، بزرگ اپنے زیرِنگرانی لوگوں کے لئے فیصلے نہیں کرتے۔ وہ معاملے سے متعلق بائبل اصولوں کو واضح کرتے ہیں اور پھر متعلقہ افراد کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنی استدلالی قوتوں کو فیصلہ کرنے کے لئے استعمال کریں۔ یہ ایک سنجیدہ ذمہداری ہے، پھر بھی یہ ایسی ہے جسے ایک فرد کو خود ہی اُٹھانا ہے۔
۱۶. مسائل کو نپٹانے کا اسرائیل میں کونسا طریقہ موجود تھا؟
۱۶ اُس دَور کو یاد کریں جب یہوؔواہ نے اسرائیل کی راہنمائی کرنے کیلئے قاضیوں کو استعمال کیا۔ بائبل ہمیں بتاتی ہے: ”ان دنوں اسرائیل میں کوئی بادشاہ نہ تھا۔ ہر ایک شخص جو کچھ اس کی نظر میں اچھا معلوم ہوتا تھا وہی کرتا تھا۔“ (قضاۃ ۲۱:۲۵) تاہم یہوؔواہ نے اپنے لوگوں کو راہنمائی حاصل کرنے کے لئے ذرائع عطا کئے۔ ہر شہر کے بزرگ ہوا کرتے تھے جو اعتراضات اور مسائل کے سلسلے میں پُختہ مدد فراہم کر سکتے تھے۔ مزیدبرآں، لاوی کاہنوں نے لوگوں کو خدا کی شریعت کی تعلیم دینے سے مفید اثر ڈالنے والوں کے طور پر کام کیا۔ جب خاص طور پر مشکل حالات پیدا ہو جاتے تو سردار کاہن اوریم اور تُمیم کے ذریعے خدا سے صلاح لے سکتا تھا۔ انسائٹ آن دی سکرپچرز تبصرہ کرتی ہے: ”ایسا شخص جس نے اپنے لئے ان فراہمیوں کو حاصل کیا، جس نے خدا کی شریعت کا علم حاصل کیا اور اس کا اطلاق کیا اس کے پاس اپنے ضمیر کے لئے ٹھوس راہنمائی موجود تھی۔ اس کا ایسے معاملے میں ’اپنی نظروں میں جو کچھ درست ہے‘ اسے کرنا بُرے نتائج نہیں لائے گا۔ یہوؔواہ نے لوگوں کو اجازت دی کہ رضامند یا غیررضامند رجحان اور روش ظاہر کریں۔“—جِلد ۲، صفحات ۱۶۲، ۱۶۳۔b
۱۷. بزرگ کس طرح ظاہر کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے نہیں بلکہ خدا کے معیاروں کے مطابق مشورت دیتے ہیں؟
۱۷ اسرائیلی قاضیوں اور کاہنوں کی مانند، کلیسیائی بزرگ مسائل کے سلسلے میں پُختہ مدد مہیا کرتے اور قابلِقدر مشورہ دیتے ہیں۔ بعضاوقات، وہ ”ہر طرح کے تحمل اور تعلیم کے ساتھ . . . ملامت اور نصیحت“ کرتے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۴:۲) وہ اپنے نہیں بلکہ خدا کے معیاروں کے مطابق ایسا کرتے ہیں۔ اسوقت یہ کسقدر اثرپذیر ہوتا ہے جب بزرگ نمونہ قائم کرتے اور دلوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں!
۱۸. بزرگوں کے لئے دلوں تک رسائی حاصل کرنا خاصکر کیوں مؤثر ہے؟
۱۸ دل ہماری مسیحی کارگزاری کا ”انجن“ ہے۔ اس لئے بائبل کہتی ہے: ”زندگی کا سرچشمہ وہی ہے۔“ (امثال ۴:۲۳) وہ بزرگ جو دلوں کو جوش دلاتے ہیں یہ دریافت کریں گے کہ وہ جو کلیسیا میں ہیں خدا کی خدمت میں وہ سب کچھ جو وہ کر سکتے ہیں اسے کرنے کی انہیں تحریک دلائی جا سکتی ہے۔ وہ سلف سٹارٹر (ازخود کام کرنے والے) ہونگے، انہیں دوسروں کے ذریعے ہمیشہ دھکیلے جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یہوؔواہ تابعداریِ ناچار نہیں چاہتا۔ وہ ایسی تابعداری کی تلاش کر رہا ہے جو محبت سے معمور دل سے نکلتی ہے۔ بزرگ گلّہ کے اشخاص کی قوتِاستدلال کو پیدا کرنے میں مدد دیکر دل سے تحریک پائی ہوئی ایسی خدمت کے لئے حوصلہافزائی کر سکتے ہیں۔
”مسیح کی عقل“ کو پیدا کرنا
۱۹، ۲۰. ہمارے لئے مسیح کی عقل کو پیدا کرنا کیوں اہم ہے؟
۱۹ جیسے کہ دیکھا گیا ہے، محض خدا کے قوانین کو جاننا کافی نہیں ہے۔ ”مجھے فہم عطا کر،“ زبورنویس نے التجا کی، ”اور مَیں تیری شریعت پر چلوں گا۔ بلکہ مَیں پورے دل سے اس کو مانونگا۔“ (زبور ۱۱۹:۳۴) یہوؔواہ نے اپنے کلام میں ”مسیح کی عقل“ کو آشکارا کر دیا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۲:۱۶) اپنی قوتِاستدلال کے ساتھ خدمت کرنے والے کے طور پر، یسوؔع نے ہمارے لئے کامل نمونہ چھوڑا۔ اس نے خدا کے قوانین اور اصولوں کو سمجھا، اور اس نے ان کا بالکل صحیح طور پر اطلاق کیا۔ اس کے نمونے کا جائزہ لینے سے ہم ”بخوبی معلوم کر [سکیں گے] کہ اس کی چوڑائی اور لمبائی اور اونچائی اور گہرائی کتنی ہے۔ اور مسیح کی اس محبت کو جان [سکیں گے] جو جاننے سے باہر ہے۔“ (افسیوں ۳:۱۷-۱۹) جیہاں، یسوؔع مسیح کی بابت جو کچھ ہم بائبل سے سیکھتے ہیں وہ درسی دماغی علم سے بڑھکر ہے؛ یہوؔواہ بذاتِخود جس طرح کا ہے یہ ہمیں اس کی واضح تصویر دیتا ہے۔—یوحنا ۱۴:۹، ۱۰۔
۲۰ لہٰذا، جب ہم خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم معاملات پر یہوؔواہ کی سوچ کو سمجھ سکتے اور متوازن فیصلوں پر پہنچ سکتے ہیں۔ اس کے لئے کوشش درکار ہوگی۔ ہمیں یہوؔواہ کی شخصیت اور معیاروں کے لئے خود کو حساس بناتے ہوئے خدا کے کلام کے سرگرم طالبعلم بننا چاہئے۔ گویا ہم نئی گرامر سیکھ رہے ہیں۔ تاہم، جو ایسا کرتے ہیں وہ پولسؔ کی فہمائش پر عمل کر رہے ہونگے کہ ”اپنے بدن زندہ، مُقدس، خدا کے حضور قابلِقبول قربانی کے لئے پیش کریں، یہی آپکی قوتِاستدلال کیساتھ پاک خدمت ہے۔“—رومیوں ۱۲:۱، اینڈبلیو۔ (۱۸ ۶/۱۵ w۹۵)
[فٹنوٹ]
a یہ اس تفریح کو نظرانداز کرے گا جس میں شیاطینی، فحاشی، یا سادیتپسندی پائی جاتی ہو، اسکے ساتھ ساتھ نامنہاد خاندانی تفریح جو آزادانہ جنسی تعلقات یا اباحتی نظریات کو فروغ دیتی ہے جنہیں مسیحی پسند نہیں کر سکتے۔
b واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیویارک انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ۔
آپ نے کیا سیکھا؟
▫ خدا کی خدمت کے متعلق ۳۳ س.ع. میں کونسی تبدیلی رونما ہوئی؟
▫ ہم اپنی قوتِاستدلال کی کس طرح نشوونما کر سکتے ہیں؟
▫ بزرگ خدا اور مسیح کے غلام بننے کے لئے گلّہ کے اشخاص کی مدد کس طرح کر سکتے ہیں؟
▫ ہمیں ”مسیح کی عقل“ کیوں پیدا کرنی چاہئے؟
[تصویر]
بزرگ دوسروں کی مدد کرتے ہیں کہ اپنی قوتِاستدلال استعمال کریں